رمضان المبارک میں کئے جانے والے ”افطار“ کواقوام متحدہ کی ثقافتی تنظیم یونیسکو نے عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل کر لیا ہے۔
بین الاقوامی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق یونیسکو کی جانب سے ماہ رمضان کے اس اہم ترین حصے کو غیر محسوس ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔
غیر محسوس ثقافتی ورثے میں ایسے عناصر شامل ہوتے ہیں جن کی کوئی ٹھوس شکل نہیں ہوتی، لیکن ایسے عناصر کو برادریوں یا قوموں کی ثقافت یا شناخت تصور کیا جاتا ہے، مثلاً رسم و رواج، علم، لوک داستان، روایات، عقائد،زبانیں وغیرہ اس فہرست میں شامل ہیں۔
آذربائیجان، ازبکستان،ایران، ترکی نے مشترکہ طور پر یونیسکو سے درخواست کی تھی کہ افطاری کی مسلم سماجی روایت کو ثقافتی ورثے میں شامل کیا جائے۔
یونیسکو کی بین الحکومتی کمیٹی نے غیر سرکاری ثقافتی ورثے کے تحفظ کے لیے ثقافتی ورثے کے حصے کے طور پر افطار کی منظوری دی۔
یونیسکو نے 6 دسمبر کو ایک بیان جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ رمضان المبارک کے مہینے میں ہر روز دنیا بھر کے مسلمان غروب آفتاب کے وقت افطار کرتے ہیں۔
یونیسکو کے بیان کے مطابق افطار کے وقت لوگ ایک جگہ جمع ہوتے ہیں جس سے یکجہتی، سخاوت و سماجی بھلائی کو فروغ ملتا ہے اور خاندان اور برادری کے درمیان تعلقات مضبوط ہوتے ہیں۔
واضح رہے کہ زیادہ تر مسلم ممالک میں افطاری کے ابتداء میں کھجور کا استعمال کیا جاتا ہے، جبکہ اس کے علاوہ دیگر لذیذ لوازمات اور مشروبات بھی پیش کئے جاتے ہیں۔
پیرس: یونسکو نے اوڈیسا حملہ عالمی ثقافتی ورثے کے خلاف حملہ قرار دے دیا۔
تفصیلات کے مطابق یونیسکو نے ثقافتی ورثے کے خلاف بار بار حملوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اوڈیسا میں چرچ اور دیگر عمارتوں پر حملہ عالمی ثقافتی ورثے کے خلاف حملہ ہے۔
یونیسکو نے اپنی ویب سائٹ پر بتایا کہ ٹرانسفیگریشن کیتھیڈرل اوڈیسا کا پہلا اور سب سے اہم آرتھوڈوکس چرچ ہے جو 1794 میں قائم ہوا۔
یونیسکو کے ڈائریکٹر جنرل نے کہا کہ روسی فیڈریشن حملوں کے دوران ثقافتی املاک کے تحفظ کے لیے 1954 کے ہیگ کنونشن اور 1972 کے عالمی ورثہ کنونشن کی تعمیل کے لیے بامعنی اقدامات کرے۔
واضح رہے کہ روس نے میزائل حملے میں عالمی ثقافتی مرکز سمیت کئی عمارتوں کو نشانہ بنایا تھا، یوکرینی صدر زیلنسکی کا کہنا ہے کہ روس نے اوڈیسا اپر 19 میزائل داغے ہیں جس سے 50 عمارتوں کو نقصان پہنچا ہے، ان عمارتوں میں 25 ثقافتی عمارتیں اور یونان قونصل خانہ شامل ہیں۔
اس حملے میں 2 افراد ہلاک 22 زخمی ہو گئے تھے، روسی حملے کے جواب میں یوکرین نے بھی ماسکو پر ڈرون حملہ کیا، حملے کے نتیجے میں متعدد عمارتوں کو نقصان پہنچا، تاہم روس نے ڈرون حملہ ناکام بنانے کا دعویٰ کیا ہے۔
عالمی ثقافتی ورثہ کمیٹی نے عرب ممالک اور یورپ میں واقع 5 مقامات یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل کرلیا۔
بین الاقومی ویب سائٹ کے مطابق عالمی ثقافتی ورثہ کمیٹی نے چین کے شہر فوژو میں اپنے 44 ویں آن لائن اجلاس کے دوران سعودی عرب، آسٹریا، بیلجیئم، جمہوریہ چیک، فرانس، جرمنی، اٹلی، برطانیہ اور شمالی آئرلینڈ کی ٹرانس نیشنل پراپرٹی سمیت 5 ثقافتی مقامات کو یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل کیا ہے۔
پہلا ثقافتی مقام سعودی عرب کا ہیماکا ثقافتی علاقہ ہے جس میں چٹانوں پر 7 ہزار سال پہلے کی نقش نگاری کی گئی ہے، ان میں حیوانات، نباتات اور معاشرے کی طرز زندگی کو دکھایا گیا ہے۔
دوسرا یورپ کے عظیم سپا ٹاؤن کا بین الاقوامی علاقہ ہے جو 11 قصبات پر مشتمل ہے، قصبات 7 یورپی ممالک میں واقع ہیں۔ یہ تمام قصبے قدرتی معدنی پانی کے چشموں کے قریب واقع ہیں۔
تیسری سائٹ فرانس میں کورڈوئن کا لائٹ ہاؤس ہے جو بحر اوقیانوس کی پتھریلی سطح مرتفع پرواقعہ ہے۔ سولہویں اور سترہویں صدی کے اختتام پر سفید چونے کے پتھر سے بنے اس شاہکار کو انجینیئر لوئس ڈی فوکس نے ڈیزائن کیا تھا اور اٹھارویں صدی کے آخر میں انجینیئر جوزف ٹولیئر نے اسے دوبارہ تیارکیا۔
چوتھا مقام جرمنی کی ڈرمسٹیٹ آرٹسٹس کالونی ہے جو مغرب وسطیٰ جرمنی کے دارمسٹادٹ شہر سے بلندی پر واقع ہے، اسے 1897 میں ہیسے کے گرینڈ ڈیوک، ارنیسٹ لوڈویک نے آرکیٹیکچر میں ابھرتی ہوئی اصلاحات کی تحریکوں کے مرکز کے طور پر قائم کیا تھا۔
آخری مقام اٹلی میں چودہویں صدی میں تعمیر ہونے والی پڈوا کی فریسکو سائکلز ہیں، یہ مقام 8 مذہبی اور سیکولر عمارت کے کمپلیکس پر مشتمل ہے جو تاریخی دیواروں والے شہر پڈوا کے اندر ہے۔
اس میں مختلف فنکاروں کی جانب سے متنوع عمارتوں کے اندر سنہ 1302 سے 1397 کے درمیان پینٹ کیے گئے فریسکو سائیکلز موجود ہیں۔
اسلام آباد: پاکستان تاریخی شالا مارباغ کو خطرناک عمارتوں میں شامل ہونے سے بچانے میں کام یاب ہو گیا، عالمی ورثہ کمیٹی نے پاکستان کا مؤقف تسلیم کر لیا۔
تفصیلات کے مطابق آذربائیجان کے شہر باکو میں یونیسکو کی عالمی ورثہ کمیٹی کا 43 واں اجلاس منعقد ہوا، جس میں پاکستان کی نمایندگی وزیر سیاحت پنجاب راجہ یاسر ہمایوں نے کی۔
یونیسکو کے اجلاس میں شالا مار باغ کو میٹرو ٹرین پروجیکٹ کی وجہ سے ممکنہ درپیش نقصان کا جائزہ لیا گیا، راجہ یاسر نے شالا مار باغ کے تحفظ کے لیے عالمی ادارے کی کمیٹی کو حکومتی اقدامات سے آگاہ کیا۔
صوبائی وزیر سیاحت کا کہنا ہے کہ یونیسکو نے شالا مار باغ کو خطرناک ورثے کی فہرست میں شامل نہیں کیا، عالمی ورثہ کمیٹی نے پاکستان کے مؤقف کو تسلیم کر لیا ہے۔
راجہ یاسر ہمایوں نے کہا کہ پاکستانی مؤقف کو تسلیم کرنا سفارتی سطح پر پاکستان کی کام یابی ہے، حمایت کے لیے مختلف ممالک سے سفارتی سطح پر بات کی گئی تھی، جب کہ حکومت پاکستان نے تاریخی ورثے کی حفاظت کے لیے بھی مؤثر اقدامات کیے۔
خیال رہے کہ اورنج ٹرین منصوبے کی وجہ سے عالمی ادارے یونیسکو نے شالا مار باغ کا مقدمہ کر رکھا ہے۔
واضح رہے کہ یونیسکو اقوام متحدہ کا ایک ادارہ ہے جو عالمی سطح پر تعلیم، سائنس اور ثقافت سے متعلق معاملات دیکھتا ہے، اس ادارے نے مشرقی یروشلم میں قدیم یہودی مقامات کو فلسطینیوں کا ثقافتی ورثہ قرار دے کر 2011 میں اسے مکمل رکنیت دے دی تھی، جس پر اسرائیل اور امریکا نے رواں سال یکم جنوری کو یہ ادارہ چھوڑ دیا۔
شالامار باغ مغل شہنشاہ شاہ جہاں نے لاہور میں 1641-1642 میں تعمیر کرایا تھا، یہ باغ ایک مستطیل شکل میں ہے اور اس کے ارد گرد اینٹوں کی ایک اونچی دیوار ہے، باغ کے تین حصے ہیں جن کے نام فرح بخش، فیض بخش اور حیات بخش ہیں۔
اس میں 410 فوارے، 5 آبشاریں اور آرام کے لیے کئی عمارتیں ہیں اور مختلف اقسام کے درخت ہیں، 1981 میں یونیسکو نے اسے عالمی ثقافتی ورثے میں شامل کیا تھا۔
شہرِقائد سے سو کلومیٹر سے زائد کے فاصلے پر وادیٔ مہران کی حسین اور ہنر مند تہذیب کے انتہائی توانا نشانات مکلی کے قبرستان کی صورت میں موجود ہیں، ٹھٹھہ کے ساتھ بسا یہ شہر خموشاں 14 ویں صدی عیسوی میں قائم ہوا اور یہاں اٹھارویں صدی تک کہ حکمرانوں کی قبور موجود ہیں۔
مکلی لگ بھگ 14 مربع کلومیٹر کے علاقے میں پھیلا ہوا ہے اور ایک محتاط اندازے کے مطابق یہاں پانچ لاکھ سے زائد مزارات موجود ہیں جن میں سے کچھ سندھ کی تاریخ کی نامور شخصیات کے ہیں تو بیشتر شخصیات کا تعارف وقت کی گرد میں دب چکا ہے۔ اقوام متحدہ نے سنہ 1981 میں اسے عالمی ورثے کی حیثیت دے کر اس کا تحفظ کرنا شروع کیا جس کے بعد سے اب تک اس قبرستان کو باقی رکھنے کے لیے کئی اقدامات کیے گئے ہیں۔
مکلی کا ایک مزار
مکلی کا یہ قبرستان 14 ویں صدی سے لے کر 18 ویں صدی تک کے سندھی حکمرانوں کا مدفن رہا ہے اور ان میں سب سے زیادہ نمایاں مقبرہ عیسیٰ خان ترخان دوئم کا ہے جو کہ 1612 عیسوی میں یہاں دفن ہوئے تھے، یہاں سندھ کے سمہ ، ترخان ، ارغون اور اس کے بعد مغل دور کے نامور افراد کے مزارات موجود ہیں۔ ان مزاروں پر کیا جانے والا کام پوری دنیا میں منفرد ہے اور اسے ایک اہم ثقافتی ورثے کی اہمیت حاصل ہے، یہ مزار ہمیں بتاتے ہیں کہ کسی دور میں سند ھ کا یہ علاقہ اس قدر مہذب ترقی یافتہ ہوا کرتا تھا کہ کسی مرنے والے کی تدفین کے لیے بھی اس قدر خصوصی انتظام کیا جاتا تھا۔
عیسی خان ترخان کے بیٹے بابا جان کا مزار بحالی کے بعد
عالمی ثقافتی ورک شاپ
اس عظیم ثقافتی ورثے کی حفاظثت اور بحالی کے لیے ہیریٹیج فاؤنڈیشن کراچی ، ستارہ امتیاز کی حامل معروف آرکیٹکٹ یاسمین لاری کی سربراہی میں مکلی کے ثقافتی ورثے کو بحال کرنے کے ساتھ اسی تہذیب کے قدموں میں آباد مقامی لوگوں کی زندگیوں میں تبدیلی لانے کے لیے بھی کوشاں ہے اور اسی مقصد کے لیے مکلی میں قائم کردہ زیرو کاربن کلچرل سنٹر ( زی سی 3) میں 25 اکتوبر 2018 کو ایک بین الاقوامی ثقافتی ورک شاپ کا انعقاد کیا گیا، جس میں حکومتِ سندھ کا ادارہ برائے نوادرات و ثقافت اور پاکستان کونسل آف آرکیٹکٹس اینڈ ٹاون پلانرز بھی بطور معاون شریک ہوئے۔
ورکشاپ کے شرکا کا گروپ فوٹو
ایک دن پر مشتمل یہ ورک شاپ مختلف سیشنز پر مشتمل تھی ، بامعنی لیکچرز، دستاویزی فلموں کی نمائش اور بین الاقوامی سطح کے متعلقہ مقررین نے شرکاء سے خطاب کیا اور آثار قدیمہ کے تحفظ کی اہمیت پر روشنی ڈالی، اس دوران ہیریٹیج فاونڈیشن کے زیر نگرانی کریما ولیج اور مکلی کے تاریخی قبرستان کا دورہ بھی کرایا گیا۔
ورکشاپ سے افتتاحی خطاب ڈائریکٹر برائے نوادرات عبدل فتح شیخ نے کیا جو کہ مکلی کے کسٹوڈین بھی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد سے یہ ورثہ حکومت ِ سندھ کے زیراہتمام آیا ہے جس کے بعد سے اس کی بحالی کے لیے متعدد اقدامات کیے گئے ہیں ، جن میں باؤنڈری وال کی تعمیر، قبرستان میں گاڑیوں کی آمد ورفت پر پابندی، شجر کاری، شٹل سروس اور ثقافتی تحائف کی شاپ قائم کرنا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ہیریٹیج فاؤنڈیشن سمیت مختلف اداروں کے تعاون سے اس تاریخی ورثے کی بحالی کا م بھی جاری ہے۔
یاسمین لاری – سربراہ ہیریٹیج فاؤنڈیشن
اس کے بعد محکمہ آثار قدیمہ کی جانب سے مکلی کے تاریخی قبرستان کے بارے میں دستاویزی فلم پیش کی گئی جس میں مکلی میں حکومت کی جانب سے اب تک کیے گئے اقدامات شامل ہیں۔اس کے بعد ہیریٹیج فاونڈیشن آف پاکستان کی سی ای او یاسمین لاری نے قومی ورثے کی حفاظت کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور اپنے ادارے کے کردار کو اجاگر کیا۔
معروف ماہر تعمیرات اور پی سی اے ٹی پی کے چئیرمین اسد آئی اے خان نے ورثے اور انسان دوست سرگرمیوں کی حوالے سے فنِ تعمیر کے کردار پر بات کی۔ سی ای او سپرچوئل کورڈز (جنوبی افریقہ) مس صفیہ موسی نے شراکت داری کے رجحانات جب کہ یونیسکو اسلام آباد کے کلچرل آفیسر جناب جواد عزیز نے پناہ گزینوں کے لئے رہائشی انتظامات کے حوالے سے دور حاضر کے جحانات پر بات کی۔
پروفیسر سلمیٰ دملوجی – بیروت
پروفیسر سلمٰی دملوجی بیروت سے تعلق رکھنے والی ماہرِ آثار قدیمہ اور آرکیٹیکچر ہیں ، انہوں نے اس حوالے سے اپنی ڈاکیومنٹری پیش کی کہ کس طرح دیگر ممالک میں آثارِقدیمہ کو محفوظ کرنے کا کام جاری ہے۔ اس موقع پر انہوں نے پرنس کلاؤز فاؤنڈیشن کا پیغام بھی پڑھ کر سنایا جس کے تعاون سے مکلی میں آثارِ قدیمہ کی بحالی کا عمل جاری ہے۔ ان کا بنیادی موضوع عرب اسلامک آرکیٹیکچر ہے۔
کریمہ ولیج – مکلی
ہیریٹیج فاونڈیشن شہناز رمزی نےدستاویزی فلم’اے سیلیوٹ ٹو کریما – بیگر وومن ٹرنڈ بئیر فُٹ انٹرا پرینیور‘ کا مختصر ورژن پیش کیا ۔ یہ ایک ایسی سابقہ بھکارن کی زندگی پر مبنی کہانی ہے کہ جس نے یہ کام چھوڑ کر روزگار کے لئے محنت کا راستہ اپنایا۔
کریما نامی خاتون اسی ولیج کی رہائشی ہیں جو پہلے بمشکل پانچ ہزار روپے ماہانہ تک کما پاتی تھیں لیکن انہوں نے ماحول کو متاثر نہ کرنے والے چولہے بنانے کی تربیت فراہم کرکے اور انہیں فروخت کرکے اپنا کام اس قدر بڑھا لیا ہے کہ وہ اب ماہانہ لاکھوں روپےکما رہی ہیں۔
کریمہ ولیج کی خواتین
کریما ولیج مکلی کے ساتھ ہی آباد ایک ایسا گاؤں ہے جس کے رہائشی پہلے بھیک مانگ کر گزر اوقات کیا کرتے تھے اور اس کے علاوہ ان کا کوئی ذریعہ معاش نہیں تھا۔ ہیریٹیج فاؤنڈیشن نے سندھ کے قدیم فن یعنی کاشی کے کام کا یہاں احیاء کیا اور یہاں کے مرد وخواتین کو اس کام کی تربیت دے کر انہیں مکلی کی بحالی کے کام میں اپنے ساتھ شریک کیا۔اس عمل سے ان لوگوں کی زندگیوں میں ایک انقلاب برپا ہوگیا اور اب وہ بھیک مانگنے کے بجائے معاشرے کا ایک کارآمد حصہ ہیں۔
اس کے بعد کے بعد شرکاء کو مکلی کے رہائشیوں کی تیار کردہ اشیاء دکھائی گئیں جو انھوں نے نہایت ذوق و شوق اور جذبے کے ساتھ خریدیں ۔شرکاء کو کمیونٹی جنگل اور ذریعہ معاش کے لئے کاشت کاری سے جڑی دیگر سرگرمیاں بھی دکھائی گئیں جو ان کے لئے حیران کردینے والا تجربہ تھا۔ اس کے بعد مکلی کے دورے کے بعد یہ عالمی ورکشاپ اختتام پذیر ہوگئی۔
کمیونٹی جنگل اور مقامی دستکاروں کی بنائی گئی مصنوعات
اس بین الاقوامی ورک شاپ کا مقصد اب تک کی وضع کردہ حکمت عملی کا جائزہ لینا اور اس میں بہتری کے لئے مشاورت کے عمل کو آگے بڑھانا تھا۔ ایونٹ کے ذریعے جامعات کے طلباء کو بھی ثقافتی ورثے، شجرکاری اور فلاحی سرگرمیوں کے حوالےسے بہت کچھ سیکھنے اور جاننے کا موقع ملا۔ مجموعی طور پر یہ مقامی کمیونٹی اور مہمانوں کے لئے ایک منفرد اور سودمند تجربہ ثابت ہوا۔
پیرس: اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے برائے تعلیم، سائنس اور ثقافت یونیسکو نے برازیل کے شہر ریو ڈی جنیرو کو عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل کرلیا ہے۔
شاندار اور انوکھے شہر کے نام سے جانے والے ریو ڈی جنیرو کو اس فہرست میں اس کے بلند پہاڑوں، جنگلات اور ساحلوں کی وجہ سے شامل کیا گیا ہے۔
یونیسکو نے اس شہر کو قدرتی خوبصورتی اور انسانی کاریگری کا شاندار امتزاج قرار دیتے ہوئے اسے ان مقامات کی فہرست میں شامل کیا ہے جو اپنی خوبصورتی اور قدرتی وسائل کے باعث خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔
برازیل کا شہر ریو ڈی جنیرو ایک مقبول سیاحتی مقام بھی ہے اور اس کی سیاحت میں سنہ 2014 میں بے پناہ اضافہ ہوگیا جب یہاں فٹبال ورلڈ کپ اور اگست میں اولمپکس کھیل منعقد کیے گئے، تاہم زکا وائرس کے پھیلاؤ کے خدشات، جرائم کی شرح میں اضافہ اور سیاسی انتشار نے اس شہر کی سیاحت کو متاثر کیا ہے۔
یونیسکو ترجمان کے مطابق اس شہر کو عالمی ثقافتی ورثے میں شامل کرنے کا فیصلہ سنہ 2012 میں کرلیا گیا تھا تاہم برازیلین حکومت کو اس شہر کو مزید خوبصورت بنانے کے لیے 4 سال کا وقت دیا گیا۔
اس عرصہ میں یہاں مختلف پہاڑوں، ساحلوں اور قدرتی جنگلات کی حفاظت کے منصوبے بھی شروع کیے گئے جس کے بعد اب یونیسکو نے باقاعدہ اس کا اعلان کردیا ہے۔
واضح رہے کہ اقوام متحدہ کی عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں وہ مقامات شامل ہیں جو اپنے قدرتی وسائل، خوبصورتی اور تاریخی بنیاد پر اہمیت کے حامل ہیں۔
پاکستان کے 6 مقامات بھی اس فہرست میں شامل ہیں جن میں موئن جو دڑو، ٹیکسلا اور بدھا کی یادگار تخت بائی کے کھنڈرات، لاہور کا شالیمار باغ، ٹھٹھہ میں مکلی کا قبرستان اور پنجاب کا قلعہ روہتاس شامل ہے۔