Tag: عالمی خبریں

  • خود کش دھماکے کے بعد بچوں کا افغان ریسلنگ کلب دوبارہ کھل گیا

    خود کش دھماکے کے بعد بچوں کا افغان ریسلنگ کلب دوبارہ کھل گیا

    کابل: داعش کے تباہ کن خود کش حملے میں تباہ ہونے والا بچوں کا افغان ریسلنگ کلب دوبارہ کھل گیا ہے جس سے ریسلنگ کلب کے مضبوط عزم کا اظہار ہوتا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق چند ماہ قبل داعش نے میوند ریسلنگ کلب پر تباہ کن خود کش حملہ کیا تھا جس کے نتیجے میں کلب میں 20 افراد جاں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔

    بچوں کو ریسلنگ کی تربیت دینے والے افغان کوچ کا کہنا ہے کہ حملے میں ان کا دایاں بازو بھی ضایع ہوا۔

    ریسلنگ کوچ کا کہنا تھا کہ وہ گزشتہ 30 سال سے کلب میں بچوں کو تربیت دے رہے ہیں، دہشت گردانہ حملے ان کے عزم کو کمزور نہیں کر سکتے۔

    خود کش دھماکے میں میوند ریسلنگ کلب کی ایک دیوار تباہ ہو گئی تھی، جسے پھر سے تعمیر کر لیا گیا ہے، دھماکے میں ریسلر بچے بھی زخمی ہوئے۔

    یہ بھی پڑھیں:  امریکا طالبان مذاکرات مثبت سمت کی جانب گامزن ہیں: افغان میڈیا

    کوچ نے بتایا کہ ریسلنگ کلب میں آٹھ سے بارہ سال کے بچوں کو صبح کے وقت ٹریننگ دی جاتی ہے جب کہ شام میں 12 سال سے بڑی عمر کے لوگوں کو تربیت دی جاتی ہے۔

    کوچ کا کہنا تھا کہ ریسلنگ کلب کا ہال خون اور گوشت سے بھر گیا تھا، لیکن آج اسے پھر سے بچوں سے بھرا دیکھ کر خوشی ہوئی ہے۔

  • پاکستان اور کشمیریوں کی حمایت کرتے رہیں گے: ترک صدر کا واضح مؤقف

    پاکستان اور کشمیریوں کی حمایت کرتے رہیں گے: ترک صدر کا واضح مؤقف

    انقرہ: ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے پاک بھارت کشیدگی کے تناظر میں واضح مؤقف اختیار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ترکی پاکستان اور کشمیریوں کی حمایت کرتا رہے گا۔

    تفصیلات کے مطابق ترک صدر رجب طیب اردوان نے وزیرِ اعظم عمران خان سے ٹیلی فونک رابطے میں واضح طور پر کہا کہ وہ پاکستان اور کشمیریوں کی حمایت کرتے رہیں گے۔

    [bs-quote quote=”بھارتی پائلٹ کی رہائی کا اعلان عمران خان کے اعتماد اور طاقت کی عکاسی کرتی ہے۔” style=”style-8″ align=”left”][/bs-quote]

    صدر اردوان نے وزیرِ اعظم عمران خان کو پارلیمنٹ میں تقریر کرنے، بھارت کے ساتھ کشیدگی کو کم کرنے اور امن کے قیام کے لیے کی جانے والی کوششوں کو سراہا۔

    ترک میڈیا کے مطابق وزیرِ اعظم عمران خان اور ترک صدر کے مابین ٹیلی فونک رابطہ گزشتہ روز شام کو ہوا۔

    ترک صدر نے عمران خان سے کہا کہ بھارتی پائلٹ کی رہائی کا اعلان آپ کے اعتماد اور طاقت کی عکاسی کرتی ہے، یہ قابل تحسین حکمتِ عملی ہے۔

    صدر اردوان کا کہنا تھا کہ اسلام امن کا مذہب ہے، اسلام آپس کے جھگڑوں کو تحمل کے ذریعے حل کرنے کی تلقین کرتا ہے۔

    یہ بھی پڑھیں:  پاک بھارت کشیدگی: وزیر اعظم کا ترک صدر اور ولی عہد یو اے ای سے رابطہ

    دریں اثنا، وزیرِ اعظم عمران خان نے ترک صدر کو پاک بھارت کشیدگی کو کم کرنے کے لیے پاکستانی اقدامات اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں کشمیریوں پر ہونے والے مظالم سے آگاہ کیا۔

    وزیرِ اعظم عمران خان نے صدر اردوان، ترکی حکومت اور ترک عوام کا پاکستان اور کشمیر کے ساتھ مکمل یک جہتی کے اظہار پر شکریہ ادا کیا۔

  • جرمن حکومت مساجد پر ٹیکس لگانے کے لیے پر تولنے لگی

    جرمن حکومت مساجد پر ٹیکس لگانے کے لیے پر تولنے لگی

    برلن: جرمن حکومت نے مسلمانوں کے خلاف ایک اور قدم اٹھانے کی تیاری کر لی، مسجدوں پر ٹیکس لگانے کے لیے پر تولے جانے لگے۔

    تفصیلات کے مطابق جرمن حکومت نے مسجدوں پر ٹیکس لگانے پر غور شروع کر دیا ہے، جرمنی کے بعض مسلمان رہنما بھی اس ٹیکس کے حامی نکل آئے۔

    [bs-quote quote=”جرمن چانسلر انجیلا مرکل کی پارٹی مسجدوں پر ٹیکس لگانے کے لیے زور دے رہی ہے۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    جرمن پارلیمنٹ کے ارکان نے کہا ہے کہ ملک بھر میں موجود مسجدوں پر ٹیکس لگایا جائے گا، ٹیکس نیٹ میں آنے سے مساجد غیر ملکی امداد سے آزاد ہو جائیں گی۔

    جرمن چانسلر انجیلا مرکل کی پارٹی مسجدوں پر ٹیکس لگانے کے لیے زور دے رہی ہے، کرسچن ڈیموکریٹک پارٹی نے مساجد پر ٹیکس کو اہم ترین قدم قرار دے دیا۔

    اتحادی حکومت کے ارکان پارلیمنٹ کا کہنا ہے کہ مسجدوں کو غیر ملکی فنڈنگ سے ملک میں بنیاد پرستانہ نظریات کو فروغ ملنے کا خدشہ ہے۔

    اتحادی حکومت کا حصہ سوشل ڈیموکریٹک پارٹی نے بھی مساجد پر ٹیکس کی تائید کر دی ہے، ایس پی ڈی نے مساجد پر ٹیکس کو قابلِ بحث موضوع قرار دیا۔


    یہ بھی پڑھیں:  جرمنی: مساجد کو غیر ملکی عطیات کی وصولی سے روک دیا گیا


    جرمن حکام کو ترکش اسلامک یونین فار ریلیجیئس افیئرز نامی تنظیم پر تحفظات ہیں، حکام اس کے اثر و رسوخ سے خوف زدہ دکھائی دیتے ہیں، یہ تنظیم ترک حکومت کی امداد سے چلتی ہے۔

    جرمنی کے شہر برلن میں ’ترقی پسند مسجد‘ بھی قائم ہو چکی، ترقی پسند مسجد کی بنیاد رکھنے والے مسلم رہنما نے بھی ٹیکس کی حمایت کر دی ہے، کہا مسلمانوں کو ٹیکس کے ذریعے اخراجات خود برداشت کرنے ہوں گے۔

  • یمن میں امن کامعاہدہ، قیامِ امن بے حد ضروری ہے

    یمن میں امن کامعاہدہ، قیامِ امن بے حد ضروری ہے

    یمن مشرقِ وسطیٰ کا وہ رستا ہوا زخم ہے جو اب اس حالت میں آگیا ہے کہ اگر بروقت علاج نہ کیا گیا تو یہ لاعلاج بھی ہوسکتا ہے، اس منظرنامے میں سویڈن سے اچھی خبر یہ آئی ہے کہ آئینی حکومت اور برسرِ پیکارِ حوثیوں کے درمیان مذاکرات کامیاب ہوگئےہیں۔

    بتایا جارہا ہے کہ یہ مذاکرات پانچ نکاتی ایجنڈے پر کیے جارہے تھے ، جن میں سے تین پر اتفاق ہوگیا ہے جبکہ دو پر حتمی فیصلہ ابھی نہیں ہوسکا ہے۔ یمن کی آئینی حکومت اور فی الحال ملک کے اکثریتی علاقوں کا کنٹرول سنبھالے ان حوثی قبائل کے درمیان کن نکات پر اتفاقِ رائے ہوسکا ہے اور کون سے موضوعات ابھی بھی سرد خانے کی نظر ہوئے؟ اس پر ہم بعد میں نظر ڈالتے ہیں ، پہلے یہ دیکھ لیں کہ یمن تنازعہ آخر ہے کیا اور اس کی عالمی منظر نامے پر کیا اہمیت ہے۔

    یمن جنگ کا پس منظر


    یمن مشرق وسطیٰ کا دوسرا بڑا مسلم ملک ہے جس کی آبادی دو کروڑ سے زائد ہے جن میں سے بیش تر عربی بولنے والے ہیں۔ یمن کو ماضی میں عربوں کا اصل وطن تصور کیا جاتا تھا اور قدیم دور میں یہ اپنی مصالحوں کی تجارت کے سبب اہم تجارتی مرکزکیاہمیت رکھتا تھا۔ قدیم دور میں یمن کو یہ حیثیت اس کے جغرافیائی محل وقوع نے عطا کی تھی اور آج بھی سمندری تجارت میں اس کی وہی اہمیت برقرار ہے۔ یمن کےشمال اور مشرق میں سعودی عرب اور اومان، جنوب میں بحیرہ عرب اور بالخصوص خلیجِ عدن ہے اور مغرب میں بحیرہ احمر واقع ہے۔

    یمن میں سنی مسلمانوں کی تعداد ایک اندازے کے مطابق 56 فی صد ہے جبکہ زیدی شیعوں کی تعد اد لگ بھگ 42 فی صد ہے ، باقی دو فی صد آبادی اسماعیلیوں ، یہودیوں اور دیگر اقوام پر مشتمل ہے۔ تعداد میں بڑے دونوں گروہوں کے تصادم کے سبب ہی یہ ملک آج کئی سال سے جنگ کی عبرت ناک آگ میں جھلس رہا ہے جس کی روک تھام کے لیے عالمی طاقتیں رواں سال سامنے آئیں اور مملکت میں متحارب دونوں گروہوں کو مذاکرات کی میز پر آنے کے لیے کہا گیا۔

    القاعدہ کے حملوں سے بے حال اس ملک میں عرب بہار کے نتیجے میں انتقالِ اقتدار ہوا اور عبد اللہ صالح کے بعد یمن کی قیادت ہادی کی صورت میں ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں آئی جس کی گرفت اقتدار پر مضبوط نہیں تھی، فوج تاحال سابقہ صدر کی حامی تھی۔ اسی صورتحال نے حوثی قبائل کو موقع فراہم کیا کہ وہ سادا نامی صوبے پر قبضہ کرلیں۔ اس موقع پر عام یمنیوں نے اور سنیوں نے بھی حوثی قبائل کا ساتھ دیا اوران سب نے مل کر دارالحکومت صنعا پر قبضہ کرلیا۔ اس صورتحال سے القاعدہ نے بھی فائدہ اٹھایا اور ساتھ ہی ساتھ داعش نے بھی اپنے پنجے گاڑنے کی کوشش کی لیکن مجموعی طور پر میدان حوثی قبائل کے ہاتھ رہا۔

    مارچ 2015 کا جب حوثی قبائل اور سیکورٹی فورسز مل کر پورے ملک کا کنٹرول سنبھال لیتے ہیں۔ صورتِ حال سے گھبرا کر صدر ہادی سعودی عرب کی جانب راہِ فرار اختیار کرتے ہیں۔ یہی وہ حالات ہیں جن میں سعودی عرب کی قیادت میں ایک اتحاد حوثی قبائل کو شکست دینے اور ہادی کی حکومت کو بحال کرانے کے لیے حملے شروع کرتا ہے جس کے نتیجے میں آئینی حکومت عدن نامی علاقہ چھیننے میں کامیاب ہوجاتی ہے لیکن ملک کا مرکزی علاقہ صنعا تاحال حوثی قبائل کے قبضے میں ہے جن کے لیے کہا جاتا ہے کہ ایران ان کی درپردہ مدد کررہا ہے۔

    بد ترین انسانی المیہ


    اس ساری خانہ جنگی کے سبب یمن ایک ایسے انسانی المیے میں تبدیل ہوگیا جس کی جنگوں جدید تاریخ میں دور دور تک کوئی مثال نہیں ملتی ۔اس جنگ میں مارچ 2015 سے لے کر اب تک کم ازکم 7 ہزار افراد مارے جاچکے ہیں جبکہ 11 ہزار کے لگ بھگ زخمی ہوئے ہیں۔ مرنے والے اور زخمی ہونے والوں میں سے آدھے سعودی اتحاد کی فضائی بمباری کا نتیجہ ہیں اور ان میں اکثریت عام شہریوں کی ہے جن کا اس جنگ سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔

    جنگ کے سبب ملک کی 75 فیصد آبادی مشکلات کا شکا ر ہے اور انہیں مدد کی ضرورت ہے ۔ یہ تعداد دو کروڑ 20 لاکھ بنتی ہے اور ان میں سے ایک کروڑ تیرہ لاکھ افرا د وہ ہیں جنہیں زندہ رہنے کے لیے فوری انسانی مدد کی ضرورت ہے۔ اس وقت ملک میں1 کروڑ 71 لاکھ سے زائد افراد ایسے ہیں جنہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ اگر آج انہوں نے کھانا کھایا ہے تو اگلا کھانا انہیں کب اور کس ذریعے سے نصیب ہوگا۔ المیہ یہ ہے کہ ان میں سے چار لاکھ پانچ سال سے کم عمر بچے بھی شامل ہیں۔

    جنگ سے پہلےملک میں 3500 ہیلتھ کیئر سینٹر تھے جن میں سے محض نصف ہی فنکشنل ہیں اور ملک کی آدھی آبادی اس وقت صحت کی بنیادی ضروریات سے محروم ہے۔اپریل 2017 میں یہاں ہیضے کی وبا پھیلی جو کہ اب تک دنیا کی سب سے بڑی وبائی آفت بن چکی ہے جس میں 12 لاکھ افراد متاثر ہوئے۔

    جنگ کے نتیجے میں تیس لاکھ افراد اپنے گھروں سے بے گھر ہونے پر مجبور ہوئے جن میں 20 لاکھ ابھی بھی اپنے گھروں کو نہیں جاسکتے اور نہ ہی مستقبل قریب میں ان کے گھر جانے کے امکانات ہیں۔

    آئینی حکومت اور حوثی قبائل کے درمیان امن معاہدہ


    سنہ 2016 میں ایک بار حوثی قبائل اور آئینی حکومت نے مذاکرات کی کوشش کی تھی تاہم وہ مذاکرات بری طرح ناکام ہوئے اور فریقین ایک دوسرے کو مذاکرات کی ناکامی کا سبب گردانتے رہے ۔ دونوں کا کہنا تھا کہ مذاکرات کے باوجود جنگ نہیں روکی گئی جس کے سبب مذاکرات ممکن نہیں ہیں۔ رواں سال سب سے پہلے امریکا نے معاملے کے دونوں فریقوں کو جنگ بند کرکے مذاکرات کی میز پر آنے کا کہا گیا جس کی برطانیہ اور اقوام متحدہ دونوں کی جانب سے حمایت کی گئی۔ امریکا میں یمن کےمعاملے پر سعودی عرب کی حمایت ختم کرنا آپشن بھی موضوع ِ گفتگو رہا جس کے بعد بالاخر دسمبر 2018 میں دونوں فریق اقوام متحدہ کے زیر نگرانی مذاکرات کے لیے سویڈن میں اکھٹے ہوئے۔

    یمن کی آئینی حکومت کا وفد پانچ دسمبر کو سویڈن آیا جبکہ حوثی قبائل کا وفد پہلے ہی سے وہاں موجود تھا۔ مذاکرات اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندہ برائے یمن مارٹن گریتھس کی سربراہی میں منعقد ہوئے ، یہ مذاکرات پانچ نکاتی ایجنڈے پر ہورہے تھے جن میں ایئرپورٹ کا کنٹرول، قیدیوں کا تبادلہ ، معیشت کی بہتری، حدیدہ میں قیام امن اور بحیرہ احمر کنارے واقع القصیر کی بندرگاہ کا کنٹرول شامل ہیں۔

    ایک ہفتہ جاری رہنے والے ان مذاکرات کے نتیجے میں بالاخر طے پایا ہے کہ صنعاء ایئر پورٹ سے ملکی پروازیں چلانے کا سلسلہ شروع کیا جائے گا۔ دوسرے نکتے پر طے پایا ہے کہ دونوں فریق قیدیوں کا تبادلہ کریں گے اور یہ تعداد ہزاروں میں ہے۔ آئل اینڈ گیس سیکٹر کو دوبارہ بحال کیا جائے گا تاکہ معیشت کا پہیہ چلے ۔ یہ تین نکات ایسے ہیں جن پردونوں فریق مکمل طور پرراضی ہیں لیکن اصل مسئلہ حدیدہ شہر اور اس سے جڑے پورٹ کا ہے جو کہ یمن کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ آئینی حکومت چاہتی ہے کہ شہر کا اختیار ان کے پاس ہو جبکہ پورٹ کے معاملے پر فریقین اقوام متحدہ کی نگرانی پر رضامند ی کا اظہا رکررہے ہیں تاہم اس کا فارمولا طے ہونا باقی ہے۔ حوثی باغی چاہتے ہیں کہ حدیدہ شہرکوایک نیوٹرل حیثیت دی جائے ۔

    سنہ 2016 کے بعد سے اب تک یمن کے معاملے پر ہونے والی یہ سب سے بڑی پیش رفت ہے اور یمن کے عوام کے لیے اس وقت کی سب سے زیادہ مطلوبہ شے ، یعنی امن کیونکہ امن ہی وہ چابی ہے جس سے سارے راستے کھل جاتے ہیں ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ فریقین اس معاہدے پر عمل درآمد میں کس حد تک سنجیدہ ہیں، یہاں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ یمن صرف داخلی شورش کا شکار نہیں بلکہ سعوودی عرب اور ایران بھی اس ملک میں اپنی قوت کا بھرپور اظہار کررہے ہیں اور اگر اس معاہدے سے ان دونوں طاقتوں کے مفادات پر ضر ب آتی ہے تو پھر اس پر عمل درآمد انتہائی مشکل ہوجائے گا۔ حالانکہ یہ دونوں ممالک بھی ایسے معاشی دور سے گزر رہے ہیں کہ جنگ کا خاتمہ ہی سب کے لیے بہتر ہے۔

  • یمن جنگ کی روک تھام کے لیے امن مذاکرات کا آغاز

    یمن جنگ کی روک تھام کے لیے امن مذاکرات کا آغاز

    اسٹاک ہوم: سویڈن میں یمن کی جنگ کے خاتمے کے لیے اہم مذاکرات کا آغاز ہوگیا ہے ،  یمن میں تین سال سے جاری جنگ انسانی المیے کی شکل اختیار کرچکی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق اقوام متحدہ کے خصوصی مندوب کا کہنا ہے کہ یمن جنگ کی روک تھام کے لیے منعقد ہونے والے یہ مذاکرات مشرقِ وسطیٰ کے امن کے لیے  سنگِ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔

    اقوام متحدہ کے مندوب مارٹن گرفتھز نے اس موقع پر اعلان کیا کہ ان مذاکرات میں دونوں فریقین کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ ہوگیا ہے  جس سے ہزاروں خاندان اپنے پیاروں سے مل سکیں گے۔

    یمن کی گہرائیوں سے برآمد ہونے والی آگ

    اقوام متحدہ کی ٹیم یمنی حکومت اور حوثی باغیوں کے ساتھ مل کر کام کررہی ہے کہ یمن میں کسی طرح قیامِ امن کو یقینی بنایا جاسکے، یاد رہے کہ اس جنگ سے دنیا کا سب سے بڑاقحط  انسانی المیے کی شکل میں جنم لے رہا ہے، ہزاروں افراد مارے جاچکے ہیں جبکہ لاکھوں بھوک کے ہاتوں دم توڑ رہے ہیں۔

    سنہ 2016 کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ یمنی حکومت اور حوثی قبائل ایک بار پھر مذاکرات کی میز پر آرہے ہیں۔ اس سے قبل حوثی قبائل کی عدم دلچسپی کے سبب مذاکرات ناکام ہوچکے ہیں۔

    یاد رہے کہ کچھ عرصہ قبل امریکا نے جنگ کے دونوں مرکزی فریقوں سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ جنگ بند کرکے تیس دن کے اندرمذاکرات کی میز پر آئیں ۔ امریکی وزیردفاع جم میٹس کی جانب سے سامنے آنے والے اس مطالبے کی برطانیہ نے بھی حمایت کی ہے اور کہا ہے کہ مذاکرات ہی اس تنازعے کا واحد حل ہیں۔

  • جی 20 اجلاس: سعودی ولیٔ عہد سے پیوٹن کی بے تکلفی اور اردوان کی لا تعلقی

    جی 20 اجلاس: سعودی ولیٔ عہد سے پیوٹن کی بے تکلفی اور اردوان کی لا تعلقی

    بیونس آئرس: ارجنٹینا کے شہر بیونس آئرس میں منعقد ہونے والے G 20 سربراہی اجلاس میں سعودی ولیٔ عہد شہزادہ محمد بن سلمان عالمی میڈیا کی نگاہوں کا مرکز بنے رہے۔

    تفصیلات کے مطابق جی ٹوینٹی سربراہی اجلاس میں محمد بن سلمان خاشقجی قتل کے بعد اپنے پہلے سفارتی امتحان سے گزرے، عالمی میڈیا کی نظریں انھیں پر رہیں۔

    [bs-quote quote=”ڈونلڈ ٹرمپ سعودی ولیٔ عہد کے پاس سے گزرے تو دونوں رہنماؤں میں مسکراہٹ کا تبادلہ ہوا۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    اجلاس میں کون سعودی ولیٔ عہد سے ملا اور کون کترایا، میڈیا بغور نوٹ کرتا رہا، سعودی شہزادے سے سب سے زیادہ گرم جوشی روسی صدر پیوٹن نے دکھائی۔

    خیال کیا جا رہا تھا کہ شہزادہ محمد بن سلمان اجلاس میں نظر انداز کے جائیں گے تاہم روسی صدر ولا دی میر پیوٹن نے دوستوں کی طرح گرم جوشی سے ان کے ہاتھ پر ہاتھ مارا۔

    فرانس کے صدر سے بھی کئی منٹ تک سرگوشیاں ہوتی رہیں، میکرون کچھ سمجھاتے اور محمد بن سلمان مسکراتے رہے۔


    یہ بھی پڑھیں:  جی 20 اجلاس محمد بن سلمان کے لیے بڑا سفارتی امتحان


    امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی پاس سے گزرے تو دونوں رہنماؤں میں مسکراہٹ کا تبادلہ ہوا، تاہم جب ترک صدر طیب اردوان آئے تو دونوں نے ایک دوسرے سے نظریں چرا لیں، ترک صدر اور محمد بن سلمان نے علیک سلیک بھی نہ کی۔

    خیال رہے کہ غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ رواں برس ممالک کے درمیان پیدا ہونے والے تنازعات کے باعث جی 20 اجلاس بھی متاثر ہوسکتا ہے۔

  • پیرس: مہنگائی کے خلاف سینکڑوں افراد کا احتجاج، ایوانِ صدر کی طرف مارچ

    پیرس: مہنگائی کے خلاف سینکڑوں افراد کا احتجاج، ایوانِ صدر کی طرف مارچ

    پیرس: فرانس میں مہنگائی کے خلاف احتجاج بدستور جاری ہے، فرانسیسی دارالحکومت پیرس میں سینکڑوں شہریوں نے ایوانِ صدر کی طرف مارچ کیا۔

    تفصیلات کے مطابق فرانس میں پیٹرول کی قیمت میں اضافے کے خلاف احتجاج میں سینکڑوں افراد نے پیرس میں ایوانِ صدر کی طرف مارچ کیا، پولیس نے رکاوٹیں کھڑی کر دیں۔

    [bs-quote quote=”مظاہرین سخت سردی میں بھی واٹر کینن کے آگے ڈٹے رہے۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    مظاہرین نے شانزے لیزے شاہراہ پر ایک گاڑی کو آگ لگائی، پولیس نے مشہور شاہراہ پر مظاہرین کو واٹر کینن کا استعمال کرتے ہوئے  روک دیا۔

    مظاہرین کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جس کے باعث پولیس کو انھیں روکنے میں دشواری کا سامنا ہے، مظاہرین کو روکنے کے لیے پولیس نے آنسو گیس کی شیلنگ بھی کی۔

    شانزے لیزے شاہراہ پر پولیس اور مظاہرین میں زبردست جھڑپ ہوئی، مظاہرین سخت سردی میں بھی واٹر کینن کے آگے ڈٹے رہے۔

    خیال رہے کہ فرانس میں پیٹرول کی قیمت میں اضافے کے خلاف اس ملک گیر احتجاج کو سوشل میڈیا سے بڑی مدد ملی اور اس میں شدت بھی سوشل میڈیا پر تشہیر سے آئی۔


    یہ بھی پڑھیں:  فرانس : مہنگائی کے خلاف مظاہرے شدت اختیار کرگئے، صدر سے استعفے کا مطالبہ


    یلو ویسٹ نامی اس احتجاج میں اب مظاہرین صدر ایمانوئیل میکرون سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہے ہیں، ان کا نعرہ ہے کہ ’صدر ایمانوئیل ہمیں بے وقوفوں کی طرح ٹریٹ مت کرو۔‘

    دوسری طرف فرانسیسی صدر کا کہنا ہے کہ ان کی پالیسیاں گلوبل وارمنگ کے خلاف ترتیب دی گئی ہیں، اور پیٹرول کی قیمتوں اضافہ عالمی منڈی کے مطابق کیا گیا ہے۔

  • جمال خاشقجی کا قتل سعودی عرب کا اندرونی معاملہ ہے: سعودی وزیرِ خارجہ

    جمال خاشقجی کا قتل سعودی عرب کا اندرونی معاملہ ہے: سعودی وزیرِ خارجہ

    ریاض: سعودی عرب نے جمال خاشقجی کے قتل کو بین الاقوامی معاملہ تسلیم کرنےسے انکار کردیا ہے ، سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر نے کہا ہے کہ ہماری عدلیہ فعال ، موثر اور آزاد ہے۔

    تفصیلات کے مطابق گزشتہ روز جمال خاشقجی کے قتل کی تحقیقاتی رپورٹ منظرِ عام پر لائی گئی جس کے بعد سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر نے صحافیوں کے ساتھ نیوز کانفرنس سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب کا پبلک پراسیکیوشن ابھی تک بہت سے سوالوں کے جواب کی تلاش میں ہے اور وہ تحقیقات کررہا ہے۔

    میڈ یا سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جمال خاشقجی کیس میں سعودی عرب کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ عادل الجبیر نے قطری میڈیا پر الزام عائد کیا کہ اس نے سعودی عرب کے خلاف مہم برپا کررکھی ہے اورجمال خاشقجی کے قتل کیس سے فائدہ اٹھانے کے لیے ابھی تک سعودی عرب کے خلاف مہم جاری ہے۔

    انہوں نے واضح کیا کہ اس کیس میں مقتول اور تمام ملزمان سعودی شہری ہیں اور یہ واقعہ سعودی قونصل خانے میں رونما ہوا تھا۔ انھوں نے سعودی حکومت کے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ وہ قتل کے اس واقعے میں ملوث تمام ملزموں کو انصاف کے کٹہرے میں لائے گی۔

    سعودی وزیر خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ خاشقجی کی موت کو سیاسی رنگ دینے کی کوشش کی جارہی ہے، لیکن اس کیس کے سبب سعودی عرب کی بین الاقوامی پالیسیوںمیں کسی قسم کی تبدیلی نہیں لائی جائے گی۔

    یاد رہے کہ سعودی عرب کے محکمہ پبلک پراسیکیوشن نے ترکی کے شہر استنبول میں سعودی قونصل خانے میں جمال خاشقجی کے قتل میں ملوث پانچ افراد کو سزائے موت دینے کا مطالبہ کیا ہے۔پبلک پراسیکیوشن کا کہنا ہے کہ ان پانچ افراد نے جمال خاشقجی کے قتل کا اعتراف کیا ہے۔

    سعودی حکام نے ان افراد سمیت کل اکیس ملزموں سے پوچھ تاچھ کی ہے اور ان میں سے گیارہ پر قتل کے الزام میں فرد جرم عاید کی گئی ہے۔تاہم ان کا کہنا ہے کہ فوجداری نظام کے تحت فی الوقت ان ملزموں کے نام ظاہر نہیں کیے جاسکتے۔

  • غزہ میں اسرائیلی فوج کی فائرنگ‘ 3 فلسطینی شہید

    غزہ میں اسرائیلی فوج کی فائرنگ‘ 3 فلسطینی شہید

    غزہ : غزہ کی سرحد پراحتجاج کے دوران اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے تین فلسطینی شہید جبکہ 300 سے زائد افراد زخمی ہوگئے۔

    تفصیلات کے مطابق غزہ کی سرحد پر فلطسینیوں کی جانب سے اسرائیل کے خلاف ہونے والے احتجاج کے دوران اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے 3 فلسطینی شہید جبکہ درجنوں زخمی ہوگئے۔

    غزہ کی وزارت صحت کے ترجمان کے مطابق اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے 12 سالہ فارس حفیظ اور 24 محمود اکرم موقع پرہی دم توڑ گئے۔

    وزارت صحت کے مطابق اسرائیلی فوج نے فلسطینی مظاہرین کومنتشر کرنے کے لیے آنسو گیس اور ربڑ کی گولیوں کا بے دریغ استعمال کیا جس کی زد میں آکر متعدد فلسطینی زخمی بھی ہوگئے۔

    اسرائیلی افواج کی فائرنگ سے شہید ہونے والے فلسطینی نوجوانوں کی نماز جنازہ ادا کردی گئی جس میں ہزاروں افراد نے شرکت کی اور اسرائیلی بربریت کے خلاف مظاہرہ بھی کیا گیا۔

    غزہ میں اسرائیلی فوج کی فائرنگ، نوجوان شہید، 24 فلسطینی زخمی

    یاد رہے کہ دو روز قبل اسرائیلی فورسز نے احتجاج کرنے والے فلسطینیوں پر فائرنگ کردی تھی جس کے نتیجے میں نوجوان شہید جبکہ 24 فلسطینی زخمی ہوگئے تھے۔

    واضح رہے کہ غزہ میں اسرائیلی قبضے کے خلاف 30 مارچ سے شروع ہونے والے مظاہروں میں اسرائیلی فوجیوں کی فائرنگ سے تقریباََ 200 فلسطینی جاں بحق اور 21 ہزار سے زائد مظاہرین زخمی ہوچکے ہیں۔

  • امیروں سے پیسے چرا کرغریبوں میں بانٹنے والا اطالوی رابن ہڈ

    امیروں سے پیسے چرا کرغریبوں میں بانٹنے والا اطالوی رابن ہڈ

    روم : اٹلی میں امیر افراد کے بینک اکاؤنٹس سے پیسے چرا کر غریبوں میں بانٹنے والا شخص جیل جانے سے بچ گیا۔

    تفصیلات کے مطابق اٹلی کے علاقے فورنی ڈی سوپرا میں امیروں کے اکاؤنٹس سے پیسے چرا کر غریبوں کی مدد کرنے والا بینک منیجر نوکری سے ہاتھ دھو بیٹھا۔

    گلبرٹو بیسیریا نامی بینک منیجر نے سات سال میں 10 لاکھ یورو چوری کرکے ایسے افراد کے اکاؤنٹ میں جمع کرائے تھے جو کریڈٹ کارڈ بنوانے کے اہل نہیں تھے۔

    انہوں نے کبھی چوری کی ہوئی رقم اپنی جیب میں نہیں ڈالی جس کے باعث وہ بینک حکام کے ساتھ پلی بارگین کے بعد جیل جانے سے بچ گئے۔

    گلبرٹو بیسیریا کا کہنا تھا کہ میں نے ہمیشہ سیونگ کرنے والوں کو بچانے کی بجائے ضرورت مندوں کی مدد کرنے کا سوچا۔

    اطالوی قانون کے مطابق چونکہ یہ ان کا پہلا جرم تھا اور اس کی سزا بھی دو سال کی تھی اس لیے انہیں جیل نہیں بھیجا گیا۔

    مقامی میڈیا نے گلبرٹو بیسیریا نامی بینک منیجرکو جدید دور کا ’رابن ہڈ‘ کا نام دیا ہے۔

    واضح رہے کہ فورنی ڈی سوپرا اٹلی کا ایک چھوٹا سا قصہ ہے جہاں ایک ہزار سے زیادہ افراد رہتے ہیں۔