Tag: عالمی دن

  • مسلمانوں کی فصیح و بلیغ زبان کا عالمی دن، سعودی عرب نے کیا خاص کیا؟

    مسلمانوں کی فصیح و بلیغ زبان کا عالمی دن، سعودی عرب نے کیا خاص کیا؟

    فصاحت و بلاغت کا مرقع اگر کوئی زبان ہے تو وہ عربی ہی ہے، اس کے عالمی دن کے موقع پر سعوی حکام نے خصوصی اہتمام کیا۔

    عربی جسے جنت کی زبان کہا جاتا ہے اس کے عالمی دن کے موقع پر سعوی حکام نے اسے منانے کا خصوصی اکیا اور دنیا کو بتایا کہ ہمیں اس زبان سے محبت ہے، محکمہ پاسپورٹ نے بدھ 18 دسمبر2024 کو عربی زبان کے عالمی دن کے موقع پر خصوصی مہر جاری کی ہے۔

    ایس پی اے کے مطابق سعودی وزارت داخلہ کے تحت محکمہ پاسپورٹ نے کنگ سلمان انٹرنیشنل اکیڈمی فار دی عربک لینگویج کے تعاون سے خصوصی مہر کا اجرا کیا، ’ہمیں اپنی زبان پر فخر ہے‘ کے نعرے کے تحت مسافروں کے پاسپورٹ پر خصوصی امیگریشن مہر لگائی جارہی ہے۔

    سعودیہ کے انٹرنیشنل ایئرپورٹس پر آنے والے تمام ممالک کے مسافروں کے پاسپورٹ پر عربی زبان میں کندہ مہر لگائی جارہی ہے جس کی تصویریں بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئیں۔

    اپنی فصاحت و بلاغت اور حسن کلام کی وجہ سے عربی کا شمار خوبصورت ترین زبانوں میں ہوتا ہے، دنیا کی چھ بڑی زبانوں میں عربی کا شمار ہوتا ہے، دنیا میں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبانوں میں چینی، انگریزی وغيره کے بعد عربی زبان پانچویں نمبر پر آتی ہے۔

    یہ بات قابل ذکر ہے کہ 18 دسمبر 1973 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے عربی زبان کو اپنی سرکاری زبانوں میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا، 18 دسمبر 2012 کو پہلی مرتبہ عربی زبان کا عالمی دن منایا گیا۔

    19 فروری 2010 کو اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو نے انسانی تہذیب اور ثقافتی ورثے کو محفوظ رکھنے میں عربی زبان کے اہم کردار کو تسلیم کرتے ہوئے 18 دسمبر کو عربی زبان کا عالمی دن قرار دیا۔

  • افغانستان میں چائلڈ لیبر کی شرح میں سنگین حد تک اضافہ

    افغانستان میں چائلڈ لیبر کی شرح میں سنگین حد تک اضافہ

    کابل: افغانستان میں چائلڈ لیبر کی شرح میں سنگین حد تک اضافہ ہوگیا۔

    2021 میں افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد سے سیاہ ترین باب کا آغاز ہوا، طالبان کی ناقص پالیسیوں، جنگ اور غربت کے باعث افغانستان میں چائلڈ لیبر کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے، 12 جون کو دنیا بھر میں چائلڈ لیبر کے خلاف عالمی دن منایا گیا۔

    چائلڈ لیبر کے عالمی دن پر اقوام متحدہ دفتر برائے انسانی امور کی خصوصی رپورٹ پیش کی گئی رپورٹ میں تمام ممالک میں چائلڈ لیبر کے اعداد و شمار بتائے گئے۔

    رپورٹ میں افغانستان میں چائلڈ لیبر کی شرح کو سنگین ترین قرار دیا گیا اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق 19 فیصد افغان بچے چائلڈ لیبر میں ملوث ہیں، او سی ایچ اے افغانستان میں بچوں کی موجودہ صورتحال مستقبل کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔

    اقوام متحدہ کی جانب سے طالبان پر زور دیا گیا کہ وہ چائلڈ لیبر کی روک تھام کے لیے فوری اقدامات کریں اقوام متحدہ کی جانب سے طالبان سے مطالبہ کیا گیا کہ چائلڈ لیبر میں ملوث بچوں کے خاندانوں کی کفالت کی جائے۔

    بین الاقوامی تنظیم سیو دی چلڈرن کے مطابق گزشتہ برس کے مقابلے میں رواں سال افغانستان میں چائلڈ لیبر کی شرح میں 38 فیصد اضافہ ہوا ہے، طالبان نے بچوں کی آزادی اور بچپن کو چھین کر ان کو اپنے حقوق سے محروم کردیا۔

    رپورٹ کے مطابق طالبان کے دور میں اسکول سے باہر بچوں کی تعداد میں بڑا اضافہ ہوا اور معاشی حالات کی وجہ سے بچے کام کرنے پر مجبور ہوگئے، افغانستان میں لاتعداد بچے اینٹوں کی تیاری، قالین کی بُنائی، تعمیرات، کان کنی اور کھیتی باری کا کام کر رہے ہیں اسکے علاوہ بڑی تعداد میں بچے سڑکوں پر بھیک مانگ رہے یا کچرا جمع کر رہے ہیں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کب تک طالبان اپنی ناقص حکمرانی سے افغانستان کے مستقبل کو گہری تاریکیوں میں دھکیلتے رہیں گے؟۔

  • انسانی حقوق کے عالمی دن پر وزیر اعظم اور صدر کا پیغام

    انسانی حقوق کے عالمی دن پر وزیر اعظم اور صدر کا پیغام

    اسلام آباد: انسانی حقوق کے عالمی دن پر وزیرِ اعظم انوارالحق کاکڑ اور صدر مملکت عارف علوی نے پیغام جاری کیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر صدر عارف علوی  نے پیغام میں کہا کہ فلسطین کے عوام کو ان کے حقوق سے محروم رکھا جارہا ہے۔

    صدرعارف علوی کا کہنا تھا کہ فلسطینیوں پر ریاستی دہشت گردی پرعالمی برادری اسرائیل کے خلاف کارروائی میں ناکام رہی، اسرائیل نے اسپتالوں، اسکولوں اور رہائشی علاقوں پر بمباری کی، اسرائیلی بمباری سے ہزاروں بے گناہ فلسطینی شہید ہوچکے ہیں۔

    صدرمملکت کا مزید کہنا تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں بھی عالمی توجہ کی منتظر ہیں، مقبوضہ کشمیر میں دہشت گردی کے راج پر بھارت کو جواب دہ ٹھہرایا جائے۔

    غزہ میں نہتے فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم باعث تشویش ہیں: انوارالحق کاکڑ

    انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر نگراں وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ نے پیغام میں کہا کہ پاکستان انسانی حقوق کے عالمی منشور کی حمایت اور پاسداری جاری رکھے گا۔

    نگراں وزیراعظم کا کہنا تھا کہ عالمی برادری کشمیریوں کے حقوق کیلئے بھارت پر دباؤ ڈالے، غزہ میں نہتے فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم بھی باعث تشویش ہیں۔

    انوارالحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ پاکستان بلاتفریق مذہب، رنگ ونسل انسانی حقوق کے تحفظ کیلئےکوشاں ر ہے گا، پاکستان نے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر انسانی حقوق کے تحفظ کیلئے مؤثر اقدامات کیے ہیں۔

    انہوں نے مزید کہا کہ بھارت غیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں وکشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کررہا ہے، 5 اگست 2019 کے اقدامات کا مقصد مقبوضہ کشمیر میں آبادیاتی تبدیلی ہے۔

  • جوہری ہتھیاروں کے تجربات کے خلاف عالمی دن

    جوہری ہتھیاروں کے تجربات کے خلاف عالمی دن

    آج پاکستان سمیت دنیا میں جوہری ہتھیاروں کے تجربات کے خلاف دن منایا جارہا ہے۔

    29 اگست کو اس دن کے منانے کا مقصد ایٹمی ہتھیاروں کے تجربات کے نتیجے میں نسلِ انسانی اور ماحول پر پڑنے والے منفی اثرات سے متعلق آگاہی پیدا کرنا ہے۔ اس دن کی مناسبت سے مختلف سماجی تنظیموں کے زیرِ اہتمام تقاریب منعقد کی جاتی ہیں اور اس میں‌ ماہرین اور دانش ور دنیا کو ہتھیاروں سے پاک کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے عالمی اداروں اور تمام ممالک کی توجہ ایٹمی ہتھیاروں کی تباہ کاریوں کی طرف مبذول کرواتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق دنیا کے سب سے بڑے غیر جوہری بم کے مقابلے میں‌ ایک جوہری بم ناقابلِ یقین اور نہایت خوف ناک تباہی لاسکتا ہے۔ جوہری بم ایک وسیع رقبے پر موجود شہر کو تباہ و برباد کر سکتا ہے اور خوف ناک بات یہ ہے کہ کئی سو سال تک ماحول اور اس میں بسنے والے تمام جاندار اس کے اثرات محسوس کرتے ہیں۔

    گو کہ آج دنیا میں جوہری ہتھیاروں کی تعداد 30 سال پہلے کی نسبت کم ہے لیکن یہ اب بھی اتنے ہیں کہ دنیا کو کئی مرتبہ تباہ کرسکتے ہیں جب کہ اس کے خلاف کوششوں کے باوجود اُن اقدامات کا وہ اثر ہوتا نظر نہیں‌ آرہا جس سے مستقبل قریب میں دنیا ان ہتھیاروں سے پاک ہوجائے۔

    سائنس کا مضمون اور ایٹم
    ہم نے زمانۂ طالبِ علمی میں‌ سائنس کے مضمون میں ایٹم اور آئسو ٹوپ کے بارے میں پڑھا ہے۔ یہی جوہری دھماکہ کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ جوہری ہتھیار انتہائی طاقتور دھماکہ خیز ہتھیار ہوتے ہیں جسے ہم اکثر ایٹم بم بھی کہتے ہیں۔

    سنہ 1945ء میں دوسری جنگِ عظیم کے دوران امریکہ نے جاپان پر دو ایٹم بم گرائے تھے جس نے لاکھوں انسانوں کو موت، عمر بھر کی معذوری، بیماریاں دیں اور شہر تباہ ہوگئے۔ یہ دو شہر ہیروشیما اور ناگاساکی تھے۔

    دنیا میں تسلیم شدہ جوہری ریاستیں
    اس وقت دنیا میں پانچ تسلیم شدہ جوہری ریاستیں امریکہ، چین، برطانیہ، فرانس اور روس ہیں جب کہ چار دیگر ممالک انڈیا، پاکستان اور شمالی کوریا جوہری تجربات کر چکے ہیں جب کہ اسرائیل کو بھی جوہری طاقت کا حامل سمجھا جاتا ہے مگر سرکاری طور پر اس کی نہ تصدیق یا تردید نہیں‌ کی جاتی۔ سب سے زیادہ جوہری ہتھیار امریکہ اور روس کے پاس ہیں۔

    جوہری عدم پھیلاؤ کا معاہدہ اس مقصد ہے کہ جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو روکا جائے اور جوہری اسلحے کی تخفیف ہو۔ یہ ایک عالمی معاہدہ ہے جس میں اقوامِ‌ متحدہ کے رکن ممالک بھارت اور پاکستان شامل نہیں ہوئے۔ 1970 سے لے کر اب تک 191 ممالک جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے ‘این پی ٹی’ میں شامل ہوئے ہیں۔ اس معاہدے کے تحت پانچ ممالک کو جوہری ہتھیار رکھنے والی ریاستیں سمجھا جاتا ہے جن میں امریکہ، روس، فرانس اور چین شامل ہیں۔ انھیں یہ ہتھیار رکھنے کی اجازت اس لیے ہے کہ ان کے جوہری ہتھیار اس معاہدے کے نفاذ سے پہلے کے ہیں۔ لیکن اس معاہدے میں شامل ہونے کے بعد وہ اپنے جوہری ہتھیاروں کی تخفیف کے پابند ہیں۔

    کیا دنیا کبھی جوہری ہتھیاروں سے پاک ہوگی؟ یہ ایک سوال ہے جو دانش ور طبقہ اور عالمی امن پر زور دینے والے ماہرین اقوامِ عالم سے مختلف فورمز پر کرتے ہیں اور شاید دنیا میں‌ بسنے والے ہر انسان کا بھی یہی خواب ہے کہ ہر ملک امن اور سلامتی کو فروغ دینے اور اپنے مالی وسائل کو گلوبل وارمنگ جیسے بڑے خطرے سے نمٹنے کے لیے استعمال کرے نہ کہ تباہی اور بربادی لانے والے جوہری ہتھیاروں کی تیاری اور تجربات پر۔

    ایک نادر موقع جسے گنوا دیا گیا!
    جولائی 2017 میں 100 سے زائد ممالک نے اقوامِ متحدہ کے اُس معاہدے کی توثیق کی جس میں جوہری ہتھیاروں‌ پر مکمل پابندی لگانے کی بات کی گئی۔ یہ وہ موقع تھا جب خیال کیا جارہا تھا کہ دنیا جوہری ہتھیاروں سے پاک ہونے کے قریب آ گئی ہے، مگر جوہری طاقت یعنی امریکہ، برطانیہ، فرانس اور روس نے اس معاہدہ کا بائیکاٹ کیا۔

    جوہری ہتھیاروں کے اثرات
    جوہری ہتھیاروں سے بڑی تعداد میں تابکاری خارج ہوتی ہے۔ اس کے دھماکے کے بعد بھی اس کے اثرات طویل عرصے تک رہتے ہیں جس سے لوگ متلی، الٹیاں، اسہال، سَر درد اور بخار محسوس کرتے ہیں۔

    شاید جوہری تجربات کے اثرات اور ان کے نشانات سے دنیا لاکھوں برس تک نجات نہیں پاسکتی۔ ایک عالمی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق ماضی میں امریکہ، سابق سوویت یونین اور برطانیہ کرّۂ ہوائی اور سمندر میں، پیسیفک جزائر کے قریب، آسٹریلوی صحرا میں، امریکی سرزمین پر یا سوویت یونین کے دور افتادہ مقامات پر جوہری تجربات کر چکے ہیں جن کی وجہ سے قدرتی ماحول پر گہرے منفی اثرات پڑے اور تابکار بادل پیدا ہوئے جو فضا اور جانداروں کے لیے خطرناک ہیں۔

    سنہ 2015 میں عسکری کارروائیوں کے ماحول پر اثرات سے متعلق ایک تحقیقی مقالہ شائع کیا گیا تھا، جس کے مطابق جوہری دھماکوں سے حیاتیاتی تنوع کو شدید نوعیت کے نقصانات پہنچتے ہیں۔ جوہری دھماکے کی وجہ سے روشنی اور حدت کی صورت میں نکلنے والی حرارتی توانائی اس دھماکے کے مقام سے آس پاس ہر طرح کی زندگی کا خاتمہ کر دیتی ہے۔ بعض صورتوں میں کئی کلومیٹر کے علاقے تک حرارتی توانائی ہر طرح کی زندگی ختم کر دیتی ہے اور فقط راکھ باقی بچتی ہے۔

    جانوروں پر تھرمل شاک یا حرارتی صدمے کے اثرات پر تحقیق زیادہ نہیں ہے، تاہم انسان کئی کلومیٹر کے فاصلے تک جان لیوا حد تک جھلس سکتے ہیں۔ ایسے ہی اثرات دیگر ممالیہ جانوروں پر بھی پڑ سکتے ہیں۔ اس دھماکے کے دباؤ کی وجہ سے پھیپھڑوں اور دیگر اعضاء کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔

    درختوں، پرندوں اور سمندری حیات پر اثرات
    ماہرین کے مطابق جوہری دھماکے سے پودے بھی محفوظ نہیں رہتے۔ جوہری دھماکے کی قوت کی وجہ سے درخت جڑ سے اکھڑ جاتے ہیں جب کہ ان کی شاخیں ٹوٹ جاتی ہیں۔ مچھلیوں پر یہ اثرات اور بھی زیادہ بڑی سطح پر دیکھے جاتے ہیں۔ ساٹھ اور ستر کی دہائی میں امریکی اور فرانسیسی تجربات کے نتیجے میں بہت بڑی تعداد میں مچھلیاں مر گئی تھیں۔

    عالمی خبر رساں‌ ادارے کی ایک رپورٹ میں‌ بتایا گیا تھا کہ سمندری ممالیہ اور سمندر میں غوطہ لگانے والے پرندوں پر بھی اسی طرز کے اثرات دیکھے گئے۔ تاہم غیر فقاریہ جانوروں میں جوہری دھماکے سے پیدا ہونے والے دباؤ کے خلاف بہتر مزاحمت دیکھی گئی۔

    طویل مدتی ماحولیاتی اثرات
    سرد جنگ کے زمانے میں امریکا نے کئی جوہری تجربات کیے تھے اور ان میں سے بعض کھلی فضا میں بھی تھے۔ جرمنی کے ایک ادارے کی رپورٹ کے مطابق ماہرین بتاتے ہیں‌ کہ اس کے نتیجے میں پیسیفک خطّے کے کئی جزائر مکمل طور پر خاکستر ہو گئے، جن میں سے بعض پر اب بھی زندگی ممکن نہیں۔ سنہ 2019 کی ایک تحقیق کے مطابق متاثرہ علاقوں میں تابکاری کی سطح اب بھی چرنوبل اور فوکوشیما جوہری حادثات کے مقابلے میں ایک ہزار گنا زائد ہے۔

    عالمی معاہدوں سے کیا فرق پڑا؟
    عالمی معاہدوں کے بعد 1963ء سے یہ تجربات زیرِ زمین کیے جانے لگے، جو ماحول کے تناظر میں کسی حد تک بہتر پیش رفت تھی۔ بیسویں صدی کے آخر میں بھارت، پاکستان اور شمالی کوریا نے اپنے جوہری ہتھیاروں کے تجربات کیے۔ لیکن اکیسویں صدی میں فقط شمالی کوریا نے ایسے تجربات کیے ہیں۔

  • زندگی میں کامیابی کا انحصار سونے پر ہے!

    زندگی میں کامیابی کا انحصار سونے پر ہے!

    ہماری زندگی میں پرسکون نیند اس قدر ضروری ہے کہ ماہرین کا کہنا ہے کہ ہماری زندگی کی کامیابی کا انحصار بھی اسی نیند پر ہے، اگر ہم روزانہ پرسکون، بہترین اور مناسب وقت کی نیند لیں گے، تو یہ ہماری کامیابی کی ایک اہم وجہ ثابت ہوسکتی ہے۔

    نیند کی اسی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے ہر سال کی طرح آج یعنی مارچ کے تیسرے جمعے کو نیند کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔

    دراصل ماہرین کا کہنا ہے کہ نیند پوری نہ ہونے سے ہماری جسمانی توانائی اور دماغی کارکردگی پر بہت برا اثر پڑتا ہے۔

    نیند کی کمی سے ہم سارا دن تھکن اور سستی کا شکار رہتے ہیں، اپنے کام ٹھیک طرح سے انجام نہیں دے سکتے، اور نہ ہی نئے تخلقیی خیالات سوچ سکتے ہیں۔ تو پھر بھلا ہم زندگی میں کامیاب کیسے ہوسکتے ہیں۔

    یہی نہیں نیند کی کمی آپ کو بدمزاج اور چڑچڑا بھی بنا سکتی ہے۔ طویل عرصے تک نیند کی کمی کا شکار رہنے والے افراد موٹاپے، ڈپریشن، ذیابیطس، ذہنی دباؤ اور امراض قلب کا بھی شکار ہوجاتے ہیں۔

    آج کل بے خوابی کا مرض بہت عام ہوگیا ہے، ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کی دوائیں لینے کے بجائے طرز زندگی میں تبدیلی لائی جائے، جنک فوڈ کا استعمال کم کر کے پھلوں اور سبزیوں کا استعمال بڑھا دیا جائے، فعال زندگی گزاری جائے جس کا سب سے بہترین طریقہ ورزش ہے، اور مثبت انداز فکر اپنایا جائے۔

  • تارکین وطن کا عالمی دن

    تارکین وطن کا عالمی دن

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج تارکین وطن کا دن منایا جا رہا ہے، یہ دن منانے کا مقصد بین الاقوامی سطح پر تارکین وطن کے حقوق سے متعلق شعور اجاگر کرنا ہے۔

    سنہ 1990 میں 18 دسمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے تمام تارکین وطن کارکنوں اور ان کے اہلخانہ کے حقوق کے تحفظ سے متعلق ایک قرارداد منظور کی۔ اس کے بعد سنہ 2000 میں اس دن کو تارکین وطن کے دن کے طور پر منانے کا آغاز ہوا۔

    ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں 2 ارب سے زائد افراد تارکین وطن کی حیثیت سے زندگی گزار رہے ہیں، جبکہ کئی ممالک میں انہیں بنیادی ضرورتیں بھی میسر نہیں ہیں۔

    اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اس وقت ہر 30 میں سے 1 شخص تارک وطن ہے۔

    پاکستان بھی ایک طویل عرصے سے لاکھوں پناہ گزینوں کی میزبانی کر رہا ہے، افغانستان پر سوویت یونین کے حملے، بعد میں ہونے والی خانہ جنگی اور امریکی حملے کے بعد سے اب تک لاکھوں افغان مہاجرین پاکستان آئے۔

    پاکستان میں پناہ گزینوں کی تعداد 40 لاکھ سے بھی زیادہ ہے جو دنیا کے کسی بھی دیگر خطے کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔

    علاوہ ازیں ملک کے مختلف قبائلی علاقوں میں دہشت گردی کے خلاف ہونے والے آپریشنز کی وجہ سے اندرونی طور پر بھی بے شمار لوگوں نے ہجرت کی ہے جنہیں انٹرنلی ڈس پلیسڈ پرسنز کہا جاتا ہے۔

    اقوام متحدہ کے مطابق تارکین وطن جس ملک میں جا بستے ہیں اس ملک اور اپنے آبائی ملک کی سماجی و معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں لہٰذا ان کی اہمیت کو تسلیم کیا جانا ضروری ہے۔

  • جیٹ لیگ سے کیسے چھٹکارا پایا جائے؟

    جیٹ لیگ سے کیسے چھٹکارا پایا جائے؟

    آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں ہوا بازی یعنی سول ایوی ایشن کا عالمی دن منایا جارہا ہے، پاکستان میں آج ہی کے روز 5 سال قبل ایک المناک فضائی حادثہ پیش آیا تھا جب چترال سے اسلام آباد آنے والا پی آئی اے کا طیارہ حویلیاں کے قریب حادثے کا شکار ہوگیا تھا۔

    اس حادثے میں حادثے میں معروف نعت خواں جنید جمشید سمیت 47 افراد شہید ہوگئے تھے۔

    ہوا بازی کا عالمی دن منانے کا مقصد آمد و رفت کے اس تیز ترین ذریعے کی اہمیت اجاگر کرنا اور اس کے ذریعے ہونے والی معاشی و سماجی ترقی کا اعتراف کرنا ہے۔

    دنیا بھر میں روزانہ 44 ہزار فلائٹس آپریٹ کی جاتی ہیں جن میں لگ بھگ پونے 3 کروڑ افراد روزانہ سفر کرتے ہیں۔

    طویل فاصلے کا فضائی سفر کرنے والے اکثر افراد طبیعت خرابی کا شکار ہوجاتے ہیں جسے جیٹ لیگ کہا جاتا ہے۔ اس طبیعت خرابی میں شدید تھکاوٹ، جسم میں بوجھل پن، اکڑاؤ اور درد شامل ہوتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق جیٹ لیگ کا شکار ہونے کی کئی وجوہات ہیں تاہم کچھ تدابیر اپنا کر اس سے جلدی چھٹکارا پایا جاسکتا ہے۔

    مزید پڑھیں: فضائی سفر کے دوران جسم میں کیا تبدیلیاں ہوتی ہیں؟

    یہ عموماً ایک سے دو دن تک رہ سکتا ہے تاہم طویل سفر کے بعد اگر آپ آرام کیے بغیر ہی اپنے تھکا دینے معمولات زندگی میں مصروف ہوجائیں تو یہ زیادہ دن بھی چل سکتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ جیٹ لیگ سے بچنے کے لیے دوران پرواز متحرک رہا جائے تو جیٹ لیگ سے جلدی چھٹکارا پایا جاسکتا ہے۔

    اس کے لیے اپنے پاؤں گول گول کھمائیں، سیٹ پر بیٹھے بیٹھے اپنی ایڑیوں کو زمین پر لگائیں اور پاﺅں کو اوپر اٹھائیں۔

    سیٹ پر بیٹھے ہوئے اپنی ٹانگوں کو اوپر اٹھا کر گھٹنوں کو اپنے سینے سے لگائیں۔

    اپنی گردان کو دائیں بائیں اور آگے پیچھے حرکت دیں کہ اس طرح آپ کی گردن پرسکون رہے گی۔

    اسی طرح سیٹ پر بیٹھے ہوئے آگے کو جھکیں اور اپنے سینے کو گھٹنوں کے ساتھ لگائیں۔

    جہاز میں چہل قدمی کریں تاکہ آپ کے خون کا دورانیہ ٹھیک رہے اور آپ کے جسم میں حرکت رہے۔

    طویل فضائی سفر میں ٹھوس اشیا کے بجائے مائع اشیا کا زیادہ استعمال مفید ہے۔

  • ہکلاہٹ کا مرض: وجوہات اور علاج کیا ہے؟

    ہکلاہٹ کا مرض: وجوہات اور علاج کیا ہے؟

    زبان میں لکنت یا ہکلاہٹ ایسا مرض ہے جس کی عموماً کوئی وجہ نہیں ہوتی، ہمارے آس پاس موجود افراد میں سے ایک نہ ایک شخص ضرور ہکلاتا ہوگا۔

    ماہرین کے مطابق دنیا بھر کی 1 فیصد آبادی اس وقت ہکلاہٹ یا زبان میں لکنت کا شکار ہے۔ زبان میں لکنت کا شکار افراد گفتگو کے دوران کسی ایک حرف کی آواز کو بار بار دہراتے ہیں، کسی لفظ میں موجود کسی ایک حرف (عموماً شروع کے حرف) کو ادا نہیں کر پاتے اور بڑی مشکل سے اپنا جملہ مکمل کرتے ہیں۔

    ایسا وہ جان بوجھ کر نہیں کرتے بلکہ یہ عمل ان سے غیر اختیاری طور پر سرزد ہوتا ہے۔

    زبان کی اسی لکنت کا شکار افراد کی پریشانی کا احساس دلانے کے لیے آج اس بیماری سے آگاہی کا عالمی دن منایا جارہا ہے جس کا مقصد اس مرض کے بارے میں شعور پیدا کرنا ہے۔ اس دن کو منانے کا آغاز سنہ 1998 میں کیا گیا۔

    ماہرین کے مطابق اس مرض کی 3 اقسام ہیں، ڈویلپمنٹل، نیوروجینک اور سائیکو جینک۔ پہلی قسم ہکلاہٹ کی سب سے عام قسم ہے جو زیادہ تر بچوں میں اس وقت ہوتی ہے جب وہ بولنا سیکھتے ہیں۔

    نیوروجینک کا تعلق بولنے میں مدد دینے والے خلیات کی خرابی سے جبکہ سائیکو جینک مختلف دماغی یا نفسیاتی امراض اور پیچیدگیوں کی وجہ سے جنم لیتی ہے۔

    ہکلاہٹ کی وجوہات کیا ہیں؟

    ماہرین اس مرض کی مختلف وجوہات بتاتے ہیں۔ ان مطابق یہ مرض پیدائشی بھی ہوسکتا ہے، اور نفسیاتی مسائل کے باعث مخصوص حالات میں بھی سامنے آسکتا ہے۔ بعض افراد کسی پریشان کن صورتحال میں بھی ہکلانے لگتے ہیں جو جزوی ہوتی ہے۔

    ایک تحقیق کے مطابق ہکلاہٹ کا تعلق بول چال سے منسلک خلیوں کی کمزوری سے ہوسکتا ہے۔

    ہکلاہٹ کی ایک اور وجہ بچوں کی نشونما میں تاخیر بھی ہو سکتی ہے۔ یہ مسئلہ لڑکیوں کی نسبت لڑکوں میں چار گنا زیادہ ہوتا ہے۔ نوجوانوں یا بڑی عمر کے افراد میں عموماً اس مسئلہ کی وجہ فالج کا دورہ یا دماغ کی چوٹ ہوتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق 2 سے 5 سال کی عمر کے دوران جب بچے بولنا سیکھتے ہیں تو وہ ہکلاتے ہیں۔ 98 فیصد بچے نارمل طریقے سے بولنے لگتے ہیں لیکن 2 فیصد بچوں کی ہکلاہٹ مستقل ہوجاتی ہے اور باقاعدہ مرض کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔

    ایک اور تحقیق سے پتہ چلا کہ زبان کی لکنت کی وجہ جسم میں موجود 3 مختلف جینز میں پایا جانے والا نقص ہے۔

    علاج کیا ہے؟

    لکنت کا شکار اکثر افراد خود اعتمادی کی کمی کا شکار بھی ہوجاتے ہیں جو ان کے لیے زندگی میں کئی مسائل کا باعث بنتا ہے۔

    لکنت کا سب سے پہلا علاج تو آپ کو خود کرنے کی ضرورت ہے کہ جب بھی آپ اپنے آس پاس کسی شخص کو ہکلاہٹ کا شکار دیکھیں تو اس کا مذاق نہ اڑائیں اور اپنے بچوں کو بھی اس کی تربیت دیں۔

    ہکلاہٹ پر قابو پانے کے لیے مختلف اسپیچ تھراپی کی جاتی ہیں جن میں سانسوں کی آمد و رفت اور گفتگو کو مختلف انداز میں ادا کیا جاتا ہے۔ یہ تھراپی کسی مستند معالج کے مشورے اور نگرانی میں کی جاسکتی ہے۔

  • کیا ہماری زمین بنجر ہونے کو ہے؟

    کیا ہماری زمین بنجر ہونے کو ہے؟

    آج دنیا بھر میں صحرا زدگی اور قحط سے حفاظت کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد خشک سالی اور قحط کے اثرات میں کمی اور صحرا زدگی کے عمل کی روک تھام سے متعلق آگاہی و شعور بیدار کرنا ہے۔

    رواں برس اس دن کا مرکزی خیال ہے، ریسٹوریشن اینڈ لینڈ ریکوری یعنی زمین کی بحالی۔

    صحرا زدگی ایک ایسا عمل ہے جو ایک عام زمین کو آہستہ آہستہ خشک اور بنجر کردیتا ہے جس کے بعد ایک وقت ایسا آتا ہے کہ یہ مکمل طور پر صحرا میں تبدیل ہوجاتی ہے۔

    یہ عمل اس وقت شروع ہوتا ہے جب کسی علاقے میں خشک سالی پیدا ہوجائے، کسی مقام سے بڑے پیمانے پر جنگلات کو کاٹ دیا جائے، یا زراعت میں ایسے ناقص طریقہ کار اور کیمیائی ادویات استعمال کی جائیں جو زمین کی زرخیزی کو ختم کر کے اسے بنجر کردیں۔

    براعظم افریقہ اس وقت سب سے زیادہ صحرا زدگی سے متاثر ہے۔

    اقوام متحدہ کے مطابق دنیا میں اس وقت 25 کروڑ افراد صحرا زدگی کے نقصانات سے براہ راست متاثر ہو رہے ہیں۔ علاوہ ازیں 1 سو ممالک اور 1 ارب افراد صحرا زدگی کے خطرے کا شکار ہوجانے کی زد میں ہیں۔

    اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ برائے خوراک و زراعت کے مطابق دنیا بھر میں ہر 1 منٹ میں 23 ایکڑ زمین صحرا زدگی کا شکار ہو کر بنجر ہو رہی ہے۔

    عالمی اداروں کی رپورٹس کے مطابق دنیا بھر میں جاری خانہ جنگیاں بھی صحرا زدگی کو رونما کرنے کی ایک بڑی وجہ ہیں جو کسی علاقے کو پہلے قحط زدہ بناتی ہیں، زراعت کو نقصان پہنچاتی ہیں، پھر بالآخر وہ زمین صحرا میں تبدیل ہوجاتی ہے جہاں کچھ بھی اگانا ناممکن ہوجاتا ہے۔

    علاوہ ازیں دنیا بھر کے موسموں میں ہونے والا تغیر یعنی کلائمٹ چینج، شدید گرم درجہ حرارت اور پانی کے ذخائر میں تیزی سے ہوتی کمی بھی زمین کو خشک کر رہی ہے اور صحرا زدگی کا عمل تیز ہوتا جارہا ہے۔

    ماہرین کے مطابق صحرا زدگی سے بچنے کا حل یہ ہے کہ زمینوں پر زیادہ سے زیادہ درخت اگائے جائیں تاکہ یہ زمین کو بنجر ہونے سے روک سکیں۔ اس کے لیے غیر آباد زمینیں بہترین ہیں جہاں کاشت کاری یا باغبانی کی جاسکتی ہے۔

  • برداشت و رواداری کا عالمی دن: ثقافتی و سماجی تنوع کا احترام وقت کی اہم ضرورت

    برداشت و رواداری کا عالمی دن: ثقافتی و سماجی تنوع کا احترام وقت کی اہم ضرورت

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج برداشت و رواداری کا عالمی دن منایا جا رہا ہے، اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے برائے تعلیم و ثقافت یونیسکو کا کہنا ہے کہ دنیا بھر کے ثقافتی و نسلی تنوع کو قبول کرنا امن کی جانب ایک اہم قدم ہوگا۔

    سنہ 1995 سے یونیسکو کی جانب سے منظور کیے جانے والے اس دن کو منانے کا مقصد دنیا بھر میں رواداری اور برداشت کو فروغ دینا ہے، یہ دن دنیا بھر میں بڑھتے ہوئے غصے اور عدم برداشت سے معاشرے کو پہنچنے والے نقصانات سے آگاہی فراہم کرنے کا دن ہے۔

    یونیسکو کے مطابق موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے مذہبی رواداری اور برداشت کو فروغ دیا جانا از حد ضروری ہے۔ ایک دوسرے کے عقائد اور مذاہب کا احترام کرنا آج کل کے دور کی اہم ضرورت ہے۔

    یونیسکو کے اعلامیہ برائے برداشت و رواداری کے مطابق رواداری کا مطلب ہے ہماری دنیا کے بھرپور ثقافتی، نسلی و سماجی تنوع اور نظریاتی اختلافات کا احترام کرنا، اسے قبول کرنا اور اس کی اہمیت کا اعتراف کرنا۔

    عمرانیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ آج کل معاشرے کے 90 فیصد مسائل کی جڑ برداشت نہ کرنا اور عدم رواداری ہے۔ عدم برداشت ہی کی وجہ سے معاشرے میں انتشار، بدعنوانیت، معاشرتی استحصال اور لاقانونیت جیسے ناسور پنپ رہے ہیں۔

    عدم برداشت انفرادی طور پر بھی لوگوں کو متاثر کرتا ہے اور لوگ بے چینی، جلد بازی، حسد، احساس کمتری اور ذہنی دباؤ کا شکار ہوجاتے ہیں۔ دنیا بھر میں مختلف نفسیاتی و ذہنی بیماریوں میں اضافے کی سب سے بڑی وجہ بھی عدم برداشت ہے۔