Tag: عالمی دن

  • انسانیت سے محبت کا دن دنیا بھر کے طبی عملے کے نام

    انسانیت سے محبت کا دن دنیا بھر کے طبی عملے کے نام

    آج دنیا بھر میں انسانیت اور انسان دوستی کا عالمی دن منایا جارہا ہے، رواں برس اس دن کو کرونا وائرس سے برسر پیکار دنیا بھر کے طبی عملے کے نام کیا گیا ہے۔

    سنہ 2003 میں 19 اگست کو عراقی دارالحکومت بغداد میں کنال ہوٹل پر خودکش بم حملہ ہوا جس میں عراق میں متعین اقوام متحدہ کے نمائندہ بھی ہلاک ہوئے، آج کا دن اسی دن کی یاد میں منایا جاتا ہے۔

    سنہ 2009 سے یہ دن باقاعدہ طور پر منایا جانے لگا، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی جانب سے منظور کردہ یہ دن ان افراد کے لیے منسوب ہے جو انسانی ہمدردی کے تحت اپنا گھر بار چھوڑ کر مجبور اور ضرورت مند افراد کی مدد کرتے ہوئے مارے گئے۔

    رواں برس اس دن کو طبی عملے کے نام کیا گیا ہے جو دنیا بھر میں کرونا وائرس کو شکست دینے کے لیے انتھک کام کر رہا ہے۔

    اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس نے دنیا بھر میں جاری فلاحی کاموں کو بے حد متاثر کیا ہے، ایسے میں مختلف ممالک کی جانب سے عائد سرحدی پابندیوں نے ان مشکلات میں اضافہ کردیا ہے۔

    اقوام متحدہ کے مطابق ان مسائل کی وجہ سے متنازعہ اور جنگ زدہ علاقوں میں موجود نہ صرف عام انسان بلکہ وہاں کام کرنے والا طبی عملہ اور فلاحی کارکنان بھی سخت مشکلات کا شکار ہیں۔

  • جیون ساتھی کھو دینا بڑا دکھ، آج بیواؤں کا بین الاقوامی دن

    جیون ساتھی کھو دینا بڑا دکھ، آج بیواؤں کا بین الاقوامی دن

    کراچی: پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج بیواؤں کا بین الاقوامی دن منایا جا رہا ہے، اس دن کو منانے کا مقصد بیوہ خواتین کو درپیش غربت‘ صحت اور انصاف سے متعلق مسائل کو اجاگر کرنا ہے۔

    جیون ساتھی کھو دینا بہت بڑا دکھ ہے، یہ ایک عذاب ہے، بالخصوص ترقی پذیر ممالک میں، جہاں ان کا یہ نقصان بنیادی ضرورتوں کی فراہمی، انسانی حقوق اور وقار برقرار رکھنے کے لیے مسلسل جدوجہد کے باعث کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔

    خاص کر وبا کے ان دنوں میں جب ہر طرف بیماری اور خوف کا راج ہے، بیواؤں کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو گیا ہے، اور دوسری طرف معاشرے میں کچھ ایسے ظالمانہ رویے بھی موجود ہیں جن سے بیوائیں بھی محفوظ نہیں۔

    پاکستان سمیت دنیا کے کئی ممالک میں بیواؤں کی جائیدادیں چھین لی جاتی ہیں، انھیں معاشرے میں تنہائی اور بے بسی کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے، گزشتہ وباؤں میں بھی یہی المیہ دیکھا گیا۔

    دنیا بھر میں بیوہ خواتین کی تعداد کم و بیش 25 کروڑ ہے، اقوام متحدہ نے سال 2015 سے اس دن کو منانے کا اعلان کرتے ہوئے رکن ممالک سے اپیل کی تھی کہ وہ بیواؤں اور ان کے بچوں کو درپیش مسائل کا حل نکالیں اور انھیں معاشرے میں با عزت شہریوں کے حقوق فراہم کریں۔

    بھارت کی ریاستی دہشت گردی کے باعث مقبوضہ کشمیر کے تقریباً ہر گھر میں اپنے شوہر کو کھو دینے والی خواتین موجود ہیں اور مقبوضہ وادی میں ایک محتاط اندازے کے مطابق 22 ہزار سے زائد خواتین بیوگی کے ساتھ زندگی گزار رہی ہیں۔

    لاکھوں کشمیری خواتین ایسی ہیں جن کے شوہر کئی برس سے لاپتا ہیں اور تاریخ میں پہلی بار کشمیری خواتین کے لیے آدھی بیوہ کی اصطلاح استعمال ہوئی ہے، یعنی ان کے شوہر ہیں بھی اور نہیں بھی۔

  • باپ کے دم سے گھر قائم، اولاد محفوظ، عالمی دن آج منایا جا رہا ہے

    باپ کے دم سے گھر قائم، اولاد محفوظ، عالمی دن آج منایا جا رہا ہے

    آج دنیا بھر میں والد کا عالمی دن منایا جا رہا ہے، یہ دن اپنے بچوں کی زندگی بہتر بنانے کے لیے باپ کی جانب سے کی جانے والی کوششوں کو تسلیم کرنے کے لیے منایا جاتا ہے۔

    باپ وہ ہستی ہے جس کے دم سے گھرانہ قائم رہتا ہے اور اولاد محفوظ رہتی ہے، ایک ایسی ہستی جو اولاد کے لیے سب کچھ لٹا کر بھی خوش رہتی ہے،ماتھے پر شکن نہیں لاتی۔a

    ایک ایسی ہستی جو ہر حال میں گھر کا سہارا اور محافظ ہوتی ہے، باپ کے دم سے بچے پڑھتے لکھتے اور ترقی کرتے ہیں، اس دن کا مقصد والد کی قربانیوں اور خاندان کے لیے کوششوں کا اعتراف کرنا ہے۔

    اس دن دنیا بھر میں بیٹیاں اور بیٹے اپنے والد کو خصوصی تحائف پیش کرتے ہیں اور ان سے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں، اور یہ باور کراتے ہیں کہ انھیں ان قربانیوں کا ادراک ہے جو وہ ان کی بہتر زندگی کے لیے دے رہے ہیں۔

    آج وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے والد سے محبت کے اظہار کے اس دن پر خصوصی پیغام جاری کرتے ہوئے کہا کہ شفیق باپ سایہ دار شجر کی مانند ہے، مجھے میرے والد مرحوم کی کمی زندگی کے ہر موڑ پر محسوس ہوتی ہے، اپنے شفیق باپ کے ساتھ گزرے لمحات کبھی فراموش نہیں کر سکتا۔

    انھوں نے اعتراف کیا کہ میں آج جس مقام پر ہوں، اس میں میرے والد مرحوم کی محنت اور دعائیں دونوں شامل ہیں، والد مرحوم کو زندگی کے کسی بھی لمحے بھول نہیں سکتا، اولاد کے لیے والد کی حیثیت ایک سائبان کی طرح ہوتی ہے، دین اسلام میں ہر حال میں والد کا عزت و احترام مقدم رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔

  • زور دار قہقہہ لگانے کے جسمانی فوائد جان کر آپ حیران رہ جائیں گے

    زور دار قہقہہ لگانے کے جسمانی فوائد جان کر آپ حیران رہ جائیں گے

    کیا آپ جانتے ہیں آج دنیا بھر میں قہقہہ لگانے اور ہنسنے کا عالمی دن منایا جارہا ہے؟ ماہرین کا ماننا ہے کہ ذہنی دباؤ سے نجات پانے کے لیے قہقہہ سب سے آسان تھراپی ہے۔

    ہنسنے اور قہقہہ لگانے کا عالمی دن ہر سال مئی کے پہلے اتوار کو منایا جاتا ہے، اس دن کو منانے کا آغاز سنہ 1998 سے بھارت سے تعلق رکھنے والے ایک ڈاکٹر مدن کتریا کی بدولت ہوا۔

    ڈاکٹر مدن دنیا بھر میں لافٹر یوگا موومنٹ کے بانی تھے اور انہوں نے انسانی جسم پر قہقہے کے مثبت اثرات کا بغور مطالعہ کر رکھا تھا۔

    ماہرین کہتے ہیں کہ ہنسنا ہماری صحت کے لیے اتنا ہی ضروری ہے جتنا ورزش کرنا، یا صحت مند غذا کھانا، اس کی وجہ دراصل ہنسنے مسکرانے کے وہ فوائد ہیں جو بہت سے لوگ نہیں جانتے۔

    آئیں آج ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ ہنسنے کے کیا فوائد ہیں۔

    طبی طور پر فائدہ مند

    ماہرین کے مطابق زور دار قہقہہ لگانا یا ہنسنا صحت کے لیے فائدہ مند ہے۔

    قہقہہ لگانے سے جسم کا دوران خون تیز ہوتا ہے، یادداشت بہتر ہوتی ہے، قہقہہ قوت مدافعت کو بہتر کر کے جسم کو دل کے امراض سے لڑنے میں مدد فراہم کرتا ہے، اور دماغی تناؤ کو وقتی طور پر ختم کر کے دماغ کو ہلکا پھلکا کردیتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق اگر آپ کسی کے سامنے جعلی ہنسی بھی ہنسیں گے تب بھی آپ کو یہی فوائد حاصل ہوں گے۔

    لڑائی جھگڑوں سے بچت

    اگر کسی سے سنجیدہ بحث یا لڑائی کے دوران آپ ہنس پڑیں تو آپ کسی بڑے جھگڑے سے بچ سکتے ہیں۔ بعض دفعہ چھوٹی بات پر کی جانے والی بحث بھی بڑے جھگڑے میں تبدیل ہوجاتی ہے، ہنسنا اس جھگڑے سے بچاتا ہے۔

    ذہنی تناؤ سے نجات

    اگر آپ ذہنی طور پر پریشان ہیں، اداس ہیں یا ڈپریسڈ ہیں تو کوئی اچھی مزاحیہ فلم دیکھیں۔ فلم کے دوران ہنسنے سے آپ کے دماغ کے ان کیمیائی مادوں کا خاتمہ ہوجائے گا جو تناؤ کا سبب بنتے ہیں اور یوں آپ کا دماغ پرسکون ہوجائے گا۔

    فلم ختم ہونے کے بعد آپ کو احساس ہوگا کہ آپ کا ذہنی تناؤ اور اداسی ختم ہوچکی ہے۔ اب آپ پرسکون ہو کر اپنی ٹینشن کا منطقی حل سوچ سکتے ہیں۔

    خوف میں کمی

    ماہرین کے مطابق خوفناک چیزوں پر ہنسنے سے ان کا خوف کم ہوجاتا ہے۔ اگر کوئی ہارر فلم دیکھتے ہوئے اس کے کرداروں کو مزاحیہ کردار سمجھ کر ان پر ہنسا جائے تو اس سے خوف کم ہوجائے گا اور فلم کے بعد بھی خوف کے اثرات محسوس نہیں ہوں گے۔

    بوریت کا خاتمہ

    ہنسنا آپ کی بوریت کو بھی ختم کرتا ہے۔ اگر آپ بوریت محسوس کر رہے ہیں تو پرانی خوشگوار یادوں کو یاد کر کے ان پر ہنسیں۔ اس سے آپ کی بوریت ختم ہوجائے گی۔

    اسی طرح اگر آپ کسی کے ساتھ مل کر بور ہو رہے ہیں کیونکہ آپ کے پاس کرنے کو کچھ نہیں تو آپ ایک دوسرے کو اپنی خوشگوار یادیں سنا کر ہنسا سکتے ہیں۔

  • موٹاپے سے بچاؤ کا دن: وہ عادات جو آپ کو فربہ بنا رہی ہیں

    موٹاپے سے بچاؤ کا دن: وہ عادات جو آپ کو فربہ بنا رہی ہیں

    دنیا بھر میں آج انسداد موٹاپے کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ موٹاپا بے شمار خطرناک بیماریوں جیسے امراض قلب، ذیابیطس اور کینسر کا سبب بن سکتا ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں اس وقت 2 ارب سے زائد افراد موٹاپے کا شکار ہیں جس کے باعث وہ کئی بیماریوں بشمول کینسر کے خطرے کی براہ راست زد میں ہیں۔

    ایک تحقیق کے مطابق موٹاپا دماغ پر بھی منفی اثرات مرتب کرتا ہے اور یہ دماغ کی عمر میں 30 سال تک کا اضافہ کرسکتا ہے جس کے باعث بڑھاپے میں پیدا ہونے والی دماغی بیماریاں جیسے الزائمر اور ڈیمنشیا وغیرہ قبل از وقت ہی ظاہر ہونے لگتی ہیں۔

    موٹاپے کی اہم وجہ جنک فوڈ کا استعمال، زیادہ بیٹھ کر وقت گزارنا اور ورزش نہ کرنا ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق کم سونا اور نیند پوری نہ کرنا بھی وزن میں اضافہ کرسکتا ہے۔

    ماہرین تجویز دیتے ہیں کہ دن بھر میں ضروت سے زائد کیلوریز کو ضائع کردینا بہتر ہے تاکہ یہ جسم میں ذخیرہ ہو کر چربی نہ پیدا کرے۔ کیلوریز کو ضائع کرنے یا جلانے کا سب سے بہترین طریقہ حرکت کرنا ہے۔

    کچھ کاموں میں جسم زیادہ حرکت کرتا ہے اور زیادہ کیلوریز جلتی ہیں جبکہ کچھ کام صرف جسم کو تھکن کا شکار کرتے ہیں لیکن یہ کیلوریز کو ضائع نہیں کرتے۔ علاوہ ازیں ہماری کچھ روزمرہ کی عادات بھی موٹاپے کا باعث بنتی ہیں۔

    آج ہم آپ کو موٹاپے کا باعث بننے والی کچھ نہایت غیر معمولی عادات کے بارے میں بتانے جارہے ہیں۔

    خاندان کے ساتھ کھانے سے گریز

    ماہرین کے مطابق اگر گھر کے تمام افراد ایک ساتھ مل کر کھانا کھائیں تو اس بات کا امکان کم ہوتا ہے کہ وہ موٹاپے میں مبتلا ہوں۔

    گھر کے تمام افراد کے ساتھ کھانا کھانا آپ کو غیر صحت مند اشیا کھانے سے روکتا ہے کیونکہ ایسی صورت میں آپ کو اپنے بزرگوں کی جانب سے ٹوکا جائے گا۔ اس کی جگہ وہ آپ کو صحت مند اشیا، پھل اور سبزیاں کھانے پر زور دیں گے۔

    ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جب آپ خاندان کے ساتھ کھانا کھاتے ہیں تو دراصل یہ سب کے مل بیٹھنے کا ایک موقع ہوتا ہے۔ اس دوران آپ روز مرہ کے چھوٹے چھوٹے واقعات پر گفتگو کرتے ہیں اور آپ کا موڈ خوشگوار ہوجاتا ہے۔

    اس دوران ہم ذہنی تناؤ سے محفوظ رہتے ہیں جس میں ہمارا دماغ جسم کو زیادہ کھانے پر مجبور کرتا ہے۔

    کھانے کے دوران دھیمی موسیقی

    کھانے کے دوران اگر پس منظر میں دھیمی موسیقی چل رہی ہو تو اس بات کا امکان ہے کہ آپ زیادہ کھائیں۔

    دھیمی موسیقی آپ کو اداس کر سکتی ہے اور ماہرین کے مطابق اداسی اور ذہنی تناؤ میں ہم زیادہ کھاتے ہیں۔

    رات کی شفٹ میں کام کرنا

    اگر آپ اپنے دفتر میں رات کی شفٹ میں کام کرتے ہیں تو جان جائیں کہ یہ آپ کے موٹاپے اور خرابی صحت کی ایک اہم وجہ ہے۔ اس کی وجہ ہمارے جسم کا قدرتی نظام ہے جو دن میں کام کرنا، کھانا، اور رات میں آرام کرنا چاہتا ہے۔

    رات میں کام کرنے کی صورت میں ہم اس نظام کو الٹا کردیتے ہیں اور دن میں سونے لگتے ہیں جس سے یہ نظام بگڑ جاتا ہے نتیجتاً موٹاپے، امراض قلب، ہائی بلڈ پریشر سمیت بہت سی بیماریاں پیدا ہوجاتی ہیں۔

    ماحولیاتی آلودگی

    ماہرین کا ماننا ہے کہ ہمارے ماحول کی دن بدن اضافہ ہوتی آلودگی ہماری صحت پر بھی مضر اثرات مرتب کر رہی ہے اور موٹاپا ان میں سے ایک ہے۔

    ہماری فضا میں شامل مضر صحت اجزا ہوا اور غذا کے ساتھ ہمارے جسم کے اندر چلے جاتے ہیں جو ہمیں نقصان پہنچانے کا سبب بنتے ہیں۔

    زیادہ ٹی وی دیکھنا

    ماہرین کے مطابق اگر ہم روزانہ 2 گھنٹے سے زائد وقت ٹی وی کے سامنے گزاریں تو ہم موٹاپے میں مبتلا ہوسکتے ہیں۔

    دن میں زیادہ وقت، خاص طور پر رات کے وقت ٹی وی دیکھنا صحت اور آنکھوں پر خطرناک اثرات مرتب کرتا ہے۔

    ذہنی تناؤ

    ذہنی تناؤ، پریشانی، بے چینی یا ڈپریشن بھی موٹاپے کا اہم سبب ہے۔

    جب ہمارا دماغ کسی الجھن کا شکار ہوتا ہے تو وہ ہمارے جسم کو زیادہ کھانے پر مجبور کرتا ہے جس کے بعد زیادہ بھوک لگنی شروع ہوجاتی ہے۔

  • آپس کے جھگڑے کیسے ختم ہوں گے؟

    آپس کے جھگڑے کیسے ختم ہوں گے؟

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج برداشت اور رواداری کا اہم ترین عالمی دن منایا جا رہا ہے۔

    ایک طرف جہاں پاکستان سمیت دنیا بھر میں انسانوں کے مابین عدم برداشت کا رویہ تیزی سے پروان چڑھ رہا ہے، وہاں دوسری طرف انھیں آج کے دن یہ یاد دلایا جاتا ہے کہ برداشت اور رواداری ان ہی کی خصوصیات ہیں، جنھیں وہ بھلا بیٹھے ہیں۔

    اس دن (16 نومبر) کو بین الاقوامی سطح پر منانے کا مقصد معاشرے میں برداشت اور صبر و تحمل کی اہمیت اور عدم برداشت کے منفی اثرات سے آگاہی فراہم کرنا ہے، یہ دن ہمیں بتاتا ہے کہ عدم برداشت سے معاشرے میں تنازعات اور جھگڑے بڑھ رہے، اس لیے ہمیں کچھ دیر کے لیے رک کر اپنا احتساب کرنا چاہیے۔

    کیا ہم یہ سوچنے کے لیے تھوڑا سا وقت نکالنا پسند کریں گے، کہ ہم نے آخری مرتبہ کب اپنے کسی عزیز یا دوست کے ساتھ اختلاف رائے کیا تھا، اس وقت ہمارا رویہ کیا تھا، اور آخری مرتبہ ہم نے کب اپنے قریب رہنے والوں یا دفاتر میں دوسری زبان بولنے والوں کی ثقافت اور روایات سے متعلق کچھ معلوم کیا تھا؟

    اس اہم دن کے منانے کا آغاز بھی 1995 میں بہت سارے دیگر عالمی اور بین الاقوامی دنوں کی طرح اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے کیا، تاکہ ایسے تعلیمی ادارے بنائے جا سکیں جن کی مدد سے عام لوگ برادشت کو معاشرے کا اہم ترین عنصر سمجھنا شروع کریں۔

  • اقوام متحدہ کا عالمی دن آج منایا جا رہا ہے

    اقوام متحدہ کا عالمی دن آج منایا جا رہا ہے

    نیویارک: دنیا بھر میں آج اقوام متحدہ کا عالمی دن منایا جا رہا ہے، آج سے 74 سال قبل آج ہی کے دن اقوام متحدہ کی بنیاد رکھی گئی اور اس کا منشور نافذ العمل کیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق آج اقوام متحدہ کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ یہ دن 1945 میں اقوام متحدہ کے منشور کے نافذ العمل ہونے کی سالگرہ کی یاد تازہ کرنے کے لیے تمام ممبر ممالک ہرسال آج کے دن مناتے ہیں۔

    دوسری جنگ عظیم کے بعد آئندہ نسلوں کو جنگوں کی تباہ کاریوں سے بچانے اور دنیا بھر کے تمام ملکوں کو مذاکرات کے لیے ایک پلیٹ فارم مہیا کرنے کے لیے 1945 میں اقوام متحدہ کا قیام عمل میں لایا گیا جس کا مقصد عالمی قوانین، سماجی و اقتصادی ترقی، حقوق انسانی اور دنیا بھر میں امن قائم کرنے کے لیے مدد فراہم کرنا ہے۔

    اقوام متحدہ کے چارٹر کے اہم مقاصد میں دنیا بھر میں امن اور سیکورٹی کو ممکن بنانا، قوموں کے درمیان رشتے بڑھانا، معاشی، سماجی، ثقافتی یا بین الاقوامی انسانی مسائل کے حل کے لیے قوموں کے درمیان تعاون بڑھانا ہے۔

    اس وقت دنیا بھر کے 192 کے قریب آزاد ممالک اور ریاستیں اقوام متحدہ کی رکن ہیں۔ اقوام متحدہ میں 6 عالمی زبانوں عربی، انگلش، چائنیز، فرانسیسی، روسی اور ہسپانوی میں کارروائی ہوتی ہے۔

    اقوام متحدہ کے تمام نظام کو اس کی ذیلی ایجنسیاں جنرل اسمبلی، سیکیورٹی کونسل اور دیگر ایجنسیاں چلاتی ہیں۔

    واضح رہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا پہلا اجلاس لندن میں ہوا۔ بعدازاں نیویارک کو متفقہ طور پر ادارے کے ہیڈکوارٹرز کے لیے منتخب کیا گیا، اسی لیے ہر سال اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس نیویارک میں ہوتا ہے۔

  • غربت کے خاتمے کا عالمی دن: غریبوں کی نصف تعداد بھارت سمیت صرف 5 ممالک میں موجود

    غربت کے خاتمے کا عالمی دن: غریبوں کی نصف تعداد بھارت سمیت صرف 5 ممالک میں موجود

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج غربت کے خاتمے کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد ترقی پذیر ممالک سے غربت کا خاتمہ اور غریبوں کا معیار زندگی بلند کرنا ہے۔

    غربت کے خاتمے کا یہ دن منانے کا آغاز سنہ 1993 سے ہوا۔ اس دن دنیا بھر میں غربت، محرومی اور عدم مساوات کے خاتمے، غریب عوام کی حالت زار اور ان کی فلاح و بہبود کے منصوبوں کی اہمیت کو اجاگر کرنے کا پیغام اجاگر کیا جاتا ہے۔

    رواں برس اس دن کا مرکزی خیال ہے کہ غریب بچوں اور ان کے خاندانوں کو خود مختار کرنے کے لیے کام کیا جائے تاکہ غربت کا خاتمہ ممکن ہوسکے۔

    اقوام متحدہ کے طے کردہ پائیدار ترقیاتی اہداف میں پہلا ہدف دنیا بھر سے غربت کا خاتمہ ہے تاہم یہ ہدف ابھی بھی اپنی تکمیل سے کوسوں دور ہے۔

    عالمی اداروں کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں غریب افراد کی تعداد 3 ارب کے قریب ہے۔ ان افراد کی یومیہ آمدنی ڈھائی ڈالر سے بھی کم ہے۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ گزشتہ 25 سال میں 70 کروڑ افراد غربت کی لکیر سے اوپر آگئے ہیں۔

    اقوام متحدہ کے مطابق ان غریب افراد کی نصف تعداد دنیا کے صرف 5 ممالک میں رہائش پذیر ہے جو بھارت، بنگلہ دیش، عوامی جمہوریہ کانگو، ایتھوپیا اور نائیجیریا ہیں۔

    ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں بھی ایک تہائی سے زیادہ آبادی غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی گزار رہی ہے جبکہ صوبوں میں سب سے زیادہ غربت بلوچستان میں ہے۔

    رپورٹ کے مطابق صوبائی لحاظ سے غربت کی سب سے بلند شرح صوبہ بلوچستان میں ہے، دوسرے نمبر پر صوبہ سندھ، اس کے بعد صوبہ خیبر پختونخواہ اور سب سے کم صوبہ پنجاب میں ہے۔

    گزشتہ روز بھوک اور افلاس پر نظر رکھنے والے ادارے گلوبل ہنگر انڈیکس نے سالانہ رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق غربت کے حوالے سے پاکستان کی رینکنگ بہتر ہوئی جبکہ بھارت مزید تنزلی کا شکار ہوا۔

    گلوبل ہنگر انڈیکس کی جانب سے جاری ہونے والی رینکنگ میں 117 ممالک کا نام شامل ہے، جنوبی ایشیا میں بھارت کو سب سے زیادہ غربت و افلاس کا شکار ملک قرار دیا گیا اور تنزلی کے بعد اس کا نمبر 102 تک پہنچ گیا۔

    رینکنگ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کی صورتحال بہتر ہے اور بھارت کے مقابلے میں پاکستان کا نمبر 8 درجے اوپر یعنی 93 ویں پوزیشن پر ہے۔

  • انسانیت سے ہمدردی کا عالمی دن خواتین رضا کاروں کے نام

    انسانیت سے ہمدردی کا عالمی دن خواتین رضا کاروں کے نام

    نیویارک : دنیا بھر میں آج انسانی حقوق کا عالمی دن منایا جا رہا ہے، اس دن کو منانے کا مقصد انسانی ہمدردی کے تحت اپنا گھر بار چھوڑ کر مجبور اور ضرورت مند افراد کی مدد کرنے والے افراد خدمات کا اعتراف کرنا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق رواں برس انسانی ہمدردی کے عالمی دن کی تھیم ’خواتین اور انسانیت‘ ہے کیوں کہ امدادی خدمات انجام دینے والی خواتین دنیا بھر میں قدرتی آفات ، دہشت گردانہ کارروائیوں اورجنگوں کا شکار متاثرین کی امداد کے لیے کوشاں ہیں۔

    رواں برس انسانیت کے عالمی دن کے موقع پر اقوام متحدہ کا مقصد ان ہیروز کی خدمات کا اعتراف کرنا ہے جوکمیونیٹی کےلیےجنگ سے متاثرہ افغانستان کےدشوار گزار پہاڑی علاقوں میں، افریقہ میں فرنٹ لائن پر کام کررہی ہیں ، ان متاثرین میں بہت سے ایسے افراد بھی شامل ہیں’ جن کے گھر تباہ ہوچکے ہیں جیسے سینٹرل افریقن ریپبلک، جنوبی سوڈان، شام اور یمن کے عوام‘۔

    اقوام متحدہ امدادی خدمات انجام دینے والی خواتین کو خراج تحسین پیش کرتا ہے جو دنیا بھر میں متاثرہ افراد کو امداد فراہم کررہی ہیں۔

    یو این کا کہنا ہے کہ خواتین کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو دوسروں کی زندگیاں بچانے کےلیے اپنی زندگی خطرے میں ڈالی ہوئی ہیں۔

    واضح رہے کہ 2003 میں عراق کے دارالحکومت بغداد میں اقوام متحدہ کے دفتر پر حملے کے بعد اس دن کو منانے کی قرارداد منظور کی گئی۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی جانب سے منظور کردہ یہ دن ان افراد کے لیے منسوب ہے جو انسانی ہمدردی کے تحت اپنا گھر بار چھوڑ کر مجبور اور ضرورت مند افراد کی مدد کرتے ہوئے مارے گئے۔

  • آج دنیا پناہ گزینوں کا عالمی دن منارہی ہے

    آج دنیا پناہ گزینوں کا عالمی دن منارہی ہے

    آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں پناہ گزینوں کا عالمی دن منایا جارہا ہے، پاکستان گزشتہ 4 دہائیوں سے پندرہ لاکھ سے زائد مہاجرین کی مہمان نوازی کررہا ہے۔

    اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے سنہ 2001 میں ایک قرارداد کے تحت ہر سال 20 جون کو پناہ گزینوں کا عالمی دن منانے کا فیصلہ کیا تھا، جس کا مقصد عوام میں پناہ گزینوں سے متعلق شعور اجاگر کرنا تھا جو جنگ، نقصِ امن یا کئی دیگر وجوہات کی بناء پر اپنا گھر بار چھوڑ کر دیگر ممالک میں پناہ گزینوں کی زندگی گزار رہے ہیں۔

    ہر سال 20 جون کو عوام میں یہ سوچ پیدا کی جاتی ہے کہ باحالت مجبوری اپنا مسکن و وطن ترک کرنے والے مہاجرین کے حقوق اور ضرورتوں کا خیال رکھیں۔

    اقوام متحدہ میں پناہ گزینوں کا ادارہ یونائیٹڈ نیشن ہائی کمشنرفاررفیوجیز اور مختلف انسانی حقوق کی تنظیمیں دنیا کے سو سے زائد مما لک میں اس دن کو خوب جذبہ سے مناتے ہیں۔ پاکستان میں بھی ہر سال 20 جون کا دن پناہ گزینوں کے عالمی دن کے طور پرمنایا جاتا ہے۔

    اقوام متحدہ ادارہ برائے پناہ گزین کا کہنا تھا کہ عالمی سطح پر جنگوں، بدامنی، نسلی تعصب، مذہبی کشیدگی، سیاسی تناؤ اور امتیازی سلوک کے باعث آج بھی کروڑوں افراد پناہ گزینوں کی حیثیت سے دوسرے ممالک کے رحم و کرم پر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جو غربت کے ساتھ ساتھ بنیادی حقوق سے بھی محروم رہتے ہیں۔

    اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین کا کہنا تھا کہ جنگوں اور دیگر پُر تشدد واقعات کے باعث ابتک 7 کروڑ 10 لاکھ افراد اپنے گھربار چھوڑ کر دوسرے ممالک میں پناہ گزینوں کی زندگی گزار رہے ہیں، بدھ کو جاری کردہ رپورٹ کے مطابق دنیا کے 20 سب سے زیادہ آبادی والے ممالک میں گزشتہ برس 20 لاکھ افراد نے پناہ لی ہے۔

    یونائیٹڈ نیشن ہائی کمشنرفاررفیوجیز نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ 7 کروڑ پناہ گزینوں کی حیران کن ہے جو گزشتہ دو دہائی کی نسبت دوگنی تعداد ہے اور ان پناہ گزینوں میں زیادہ تر افراد کا تعلق شام، افغانستان، جنوبی سوڈان، میانمار اور صومالیہ سے ہے۔

    یو این ایچ سی آر کا کہنا ہے کہ گزشتہ ایک دہائی میں پناہ گزینوں کی تعداد میں 65 فیصد اضافہ ہوا ہے،گزشتہ برس کے اختتام تک پناہ گزینوں کی تعداد 70.8 ملین تھی جبکہ 2017 میں پناہ گزینوں کی تعداد 68.5 ملین تھی۔

    گزشتہ ایک دہائی کے دوران ہر پانچ میں سے تین افراد یا 4 کروڑ 10 لاکھ سے زائد افراد کو کسی نہ کسی مجبوری کے باعث اپنے آبائی وطن کو ترک کرکے کسی دوسرے ملک میں پناہ لینے پر مجبور ہوا ہے۔

    افغانستان میں امن و امان کی مخدوش حالت کے پیش نظر پاکستان میں اس وقت لاکھوں کی تعدا د میں افغان بطورمہاجر گزشتہ 37 سال سے پناہ گزین ہیں۔ پاکستان اس وقت جہاں خود امن و امان، معاشی و انرجی بحران مختلف بحرانوں کا شکار ہے ، ایسے حالات میں پناہ گزینوں کی یہ بڑی تعداد پاکستان کے لیے معاشی طور پر مزید مسائل پیدا کرنے کا باعث بن رہی ہے، جب کہ افغانستان کی صورت حال اب بہتری کی جانب گامزن ہے، ایسے میں حکومت پاکستان افغان پناہ گزینوں کو واپس اپنے ملک بھیجنے کے لئے اقدامات کررہی ہے، واپسی پر ان خاندانوں کو معقول وظیفہ بھی دیا جارہا ہے مگر اس کے باوجود لاکھوں افغان پناہ گزین واپس جانے کے لئے تیار ہی نہیں ہیں۔

    کانگو میں پناہ لینے افریقی ملک روانڈ کی خواتین عالمی یوم پناہ گزین پر ہاتھ سے بنائی ہوئی اشیاء فروخت کررہی ہیں

    شام میں مسلمانوں پر جاری بد ترین مظالم ، بیرونی مداخلت اور اندرونی انتشار کے باعث 20 لاکھ سے زائد افراد کو دوسرے ممالک میں پناہ گزین ہیں اور ایسے افراد اردن، لبنان، ترکی، یورپ اور عراق میں پناہ گزینوں کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ جبکہ اسرائیلی جارحیت کے باعث فلسطینی مسلمان اپنا وطن چھوڑ کر دوسرے ممالک کے رحم و کرم پر ہیں اور پناہ گزینوں کے کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔

    فلسطین کے بعد مہاجرین کے حوالے سے بڑا ملک افغانستان ہے جس کے 26 لاکھ 64 ہزار افراد مہاجر کی حیثیت سے دوسرے ممالک میں موجود ہیں، عراق کے 14 لاکھ 26 ہزار افراد، صومالیہ کے 10 لاکھ 7 ہزارافراد، سوڈان کے 5 لاکھ سے زائد افراد دوسرے ملکوں میں پناہ گزینی کی زندگی گزار رہے ہیں۔

    پناہ گزینوں کے اس عالمی دن کا پیغام ہے کہ اقوام عالم کو چاہئے وہ اقوام متحدہ کے کردار کواس قدر مضبوط بنائیں کہ وہ ملکوں، قوموں کے درمیان تنازعات، شورشوں اور نقص امن کی صورتحال پر اپنا موثر کردار ادا کرسکے، تاکہ دنیا بھر کے ممالک میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہواور کسی کو کسی دوسرے ملک میں پناہ گزینی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور نہ ہونا پڑے۔