Tag: عالمی دن

  • آج دنیا بھر ’آٹزم‘ کا عالمی دن منایا جارہا ہے

    آج دنیا بھر ’آٹزم‘ کا عالمی دن منایا جارہا ہے

    آج دنیا بھر میں آٹزم نامی نفسیاتی مرض کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ اس مرض میں مبتلا افراد عام انسانوں سے ذہانت میں غیر معمولی طور پر زیادہ ذہین ہوتے ہیں، تاہم انہیں اپنے جذبات کا اظہار کرنے میں دشواری ہوتی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق دنیا بھر میں بیشتر ایسے افراد موجود ہیں جو اس کائنات کو مختلف زایوں سے دیکھتے ہیں۔ التبہ ان ہی میں سے بعض ایسے انسان بھی ہیں جو اپنی غیر معمولی صلاحیتوں کے باعث بہت ہی حساس اور ذہین ہوتے ہیں۔

    آج دنیا بھر میں ایسے افراد کا دن منایا جارہا ہے جو آٹزم‘ یا ’خود محوری‘نامی نفسیاتی بیماری میں مبتلا ہیں۔ ایسے افراد معاشرے میں رونما ہونے والے کسی بھی واقعے پر عام لوگوں کے مقابلے میں بالکل مختلف ردِ عمل دیتے ہیں، کیوں کہ یہ اہنے اردگِرد پیش آنے والے حادثات و واقعات کو نہایت سنجیدگی سے محسوس کرتے ہیں۔

    آٹزم کا شکار ہونے والے افراد کسی اہم موضوع یا بحث میں ایک خاص نکتے پر اپنی توجہ مرکوز نہیں کرپاتے اور اپنے جذبات اور احساسات کا اظہار کرنے میں بھی مشکلات کا شکار ہوتے ہیں، حتیٰ کہ دوسروں کے جذبات کو سمجھنے میں دشواری کا سامنا ہوتا ہے۔

    آٹزم پر تحقیق کرنے والے محقیقین نے یہ ثابت کیا ہے کہ آٹسٹک بچے عام بچوں سے زیادہ ذہین ہوتے ہیں اور یہ دیگر بچوں کی اوسط ذہانت سے زیادہ غیر معمولی ہوتے ہیں۔

    آٹزم نامی نفسیاتی بیماری کے حوالے ساری دنیا کی عوام الناس میں آگاہی فراہم کرنے کے لیے ماہرین عصابیات نے مختلف طریقوں سے مہم چلارہے ہیں، اسی سلسلے میں مرض کی تشریح کے لیے ہالی ووڈ اور بالی ووڈ میں متعدد فلمیں بھی بنائی گئی ہیں۔

    بالی ووڈ میں ’آٹزم‘ پر بنائی گئی فلمیں

    جن میں بالی ووڈ میں بنائی جانے والی مشہور فلمیں جن میں ماضی میں سپر ہٹ ہونے والی بالی ووڈ اسٹار عامر خان کی فلم ’تارے زمین پر‘ہے جس میں انہوں نے آٹزم یا خود محوری کے مرض کی جانب نشاندہی کی تھی۔

    دوسری جانب کنگ خان نے اس بیماری کے حوالے سے آگاہی فراہم کرنے کے لیے مشہور زمانہ فلم ’ مائی نیم از خان‘ پیش کی تھی، جو آٹسٹک انسانوں کی زندگی میں پیش آنے والے مسائل کی عکاس تھی۔

    جبکہ آٹزم نامی نفسیاتی مرض پر حال ہی میں رانی مکھرجی کی فلم ’ہچکی‘ بھی ریلیز ہوئی ہے جس کے ذریعے آٹزم جیسے حساس موضوعات کو بڑے پردے پر پیش کرکے معاشرے میں اعصابی نظام کے حوالے سے آگاہی فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں

  • اسٹریٹ چلڈرنز کا عالمی دن آج منایا جا رہا ہے

    اسٹریٹ چلڈرنز کا عالمی دن آج منایا جا رہا ہے

    لاہور/ کراچی : پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج بے گھر بچوں کا دن منایا جا رہا ہے۔ اس وقت دنیا بھر میں سو ملین سے زئد بچے آوارگی کی زندگی گزار رہے ہیں، اسٹریٹ چلڈرنز کا عالمی دن سال2014سے منایا جارہا ہے۔

    اس دن کا مقصد ان بے گھر بچوں کو بھی دیگر بچوں جیسی آسائشیں مہیا کرنا ہے، ان بچوں کی تعلیم، صحت، تفریح اور ذہنی تربیت کے حوالے سے لوگوں میں شعور اُجاگر کیا جائے تاکہ دنیا بھر کے یہ بچے بھی مستقبل میں معاشرے میں اپنا مثبت کردار ادا کر سکیں۔

    یہ دن پہلی بار کنسورشیم فار اسٹریٹ چلڈرن نامی تنظیم نے لندن میں منایا جس کے بعد اس دن کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ دنیا بھر میں منایا جانے لگا۔ اس موقع پر دن کی مناسبت سے بے گھر بچوں کی فلاح بہبود کیلئے تقاریب کا اہتمام کیا جاتا ہے، جن میں ان بچوں کی مناسب تربیت کے ساتھ ساتھ ان کی بہتر پرورش کرنے پر بھی زور دیا جاتا ہے۔

    دنیا بھرمیں بیشتر بچے والدین کے فوت ہونے کے بعد بے سہارا ہو کر گھروں سے نکل پڑتے ہیں جبکہ غربت کے مارے خاندانوں کے بچے ایک وقت کی روٹی نہ ملنے کے سبب روٹی روزی کے چکر میں گھروں کو خیرباد کہہ دیتے ہیں جبکہ بیشتر بچے بری سوسائٹی کی وجہ سے گھروں سے بھاگ جاتے ہیں۔

    یونیسف کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اس وقت 1.5ملین سے بے گھر بچے موجود ہیں پاکستان میں سب سے زیادہ اسٹریٹ چلڈرن کراچی کی شاہراہوں اور گلی کوچوں میں ہیں جہاں سینکڑوں بچے روزانہ کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

    علاوہ ازیں لاہورملک بھر کی طرح لاہور کے چائلڈ پروٹیکشن بیورو میں بھی اسٹریٹ چلڈرن کا عالمی دن منایا گیا جس میں بچوں کی شاندار پرفارمنس نے حاضرین کے دل جیت لئے۔ گلی کوچوں سے لائے جانے والے بچوں نے آنکھوں میں امید کے دیپ جلائے چائلڈ پروٹیکشن بیورو میں اسٹریٹ چلڈرن کا عالمی دن منایا۔

    تقریب میں شریک ہر بچے کی ایک کہانی تھی لیکن ہمت اور حوصلہ انہیں ٹوٹنے نہیں دیتا۔ واضح رہے کہ پاکستان میں اندازاً ایک لاکھ بچے گلی کوچوں اور فٹ پاتھوں پہ زندگی گزارتے ہیں جن کے لئے حکومتی سطح پر قائم اداروں میں سر چھپانے کے لئے چھت اور ضروریاتِ زندگی فراہم کی جاتی ہیں۔

    مزید پڑھیں : اسٹریٹ چلڈرن فٹبال ٹیم تیسری پوزیشن حاصل کرکے وطن لوٹ آئی

    ملکی قوانین میں کمسن بچوں سے بھیک مانگنے کو جرم تو قرار دے دیا گیا تھا لیکن اس قانون پر تاحال عمل درآمد کرانے کی ہی کوششیں کی جا رہی ہیں۔

  • غربت کا خاتمہ پہلی ترجیح لیکن نتیجہ صفر

    غربت کا خاتمہ پہلی ترجیح لیکن نتیجہ صفر

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج غربت کے خاتمے کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد ترقی پذیر ممالک سے غربت کا خاتمہ اور غریبوں کا معیار زندگی بلند کرنا ہے۔

    غربت کے خاتمے کا یہ دن منانے کا آغاز 1993 سے ہوا۔ اس دن دنیا بھر میں غربت، محرومی اور عدم مساوات کے خاتمے، غریب عوام کی حالت زار اور ان کی فلاح و بہبود کے منصوبوں کی اہمیت کو اجاگر کرنے کا پیغام پھیلایا جاتا ہے۔

    اقوام متحدہ کے طے کردہ پائیدار ترقیاتی اہداف میں پہلا ہدف دنیا بھر سے غربت کا خاتمہ ہے تاہم یہ ہدف ابھی بھی اپنی کامیابی سے کوسوں دور ہے۔

    پائیدار ترقیاتی اہداف کیا ہیں؟ *

    رواں برس یہ دن غربت کے ساتھ ساتھ غریبوں سے روا رکھے جانے والے ذلت آمیز سلوک اور ان کے استحصال کے خاتمے کے مرکزی خیال کے ساتھ منایا جارہا ہے۔

    عالمی اداروں کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں غریب افراد کی تعداد 3 ارب کے قریب ہے۔ ان افراد کی یومیہ آمدنی ڈھائی ڈالر سے بھی کم ہے۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ گزشتہ 25 سال میں 70 کروڑ افراد غربت کی لکیر سے اوپر آگئے ہیں۔

    دوسری جانب ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی ایک تہائی سے زیادہ آبادی غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی گزار رہی ہے جبکہ صوبوں میں سب سے زیادہ غربت بلوچستان میں ہے۔

    حکومت پاکستان کی جانب سے جاری کی گئی اس رپورٹ کے مطابق ملک کی 38.8 فیصد آبادی غربت کا شکار ہے۔

    سمندر کنارے پیاسا گاؤں اور غربت کا عفریت *

    صوبائی لحاظ سے غربت کی یہ شرح صوبہ بلوچستان میں سب سے زیادہ 55.3 فیصد، صوبہ سندھ میں 53.5 فیصد، صوبہ خیبر پختونخوا میں 50 فیصد اور پنجاب میں سب سے کم صرف 48 اعشاریہ چار فیصد ہے۔

    غربت کا شکار ان افراد کی تعداد ایک اندازے کے مطابق تقریباً 8 کروڑ ہے۔

    ماہرین کے مطابق پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ غربت ہے جس کی وجہ مہنگائی میں روز بروز اضافہ، دولت کی غیر مساوی تقسیم، وسائل میں کمی، بے روزگاری اور بڑھتی ہوئی آبادی ہے۔

  • ذہنی صحت بہتر بنانے کی تجاویز

    ذہنی صحت بہتر بنانے کی تجاویز

    آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں ذہنی صحت کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ 1992 سے آغاز کیے جانے والے اس دن کا مقصد عالمی سطح پر ذہنی صحت کی اہمیت اور دماغی رویوں سے متعلق آگاہی بیدار کرنا ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں 45 کروڑ افراد کسی نہ کسی دماغی عارضے میں مبتلا ہیں۔ ماہرین کے مطابق پاکستان میں بھی 5 کروڑ افراد ذہنی امراض کا شکار ہیں جن میں بالغ افراد کی تعداد ڈیڑھ سے ساڑھے 3 کروڑ کے قریب ہے۔

    دماغی امراض میں سب سے عام امراض ڈپریشن اور شیزو فرینیا ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں 15 کروڑ 40 لاکھ سے زائد افراد ڈپریشن کا شکار ہیں۔

    اقوام متحدہ کے مطابق دنیا بھر میں ہر چار میں سے ایک شخص کو کچھ حد تک ذہنی صحت کی دیکھ بھال کی ضرورت ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں 85 فیصد دماغی امراض کا شکار افراد کو کسی علاج تک کوئی رسائی حاصل نہیں، یا وہ شرمندگی اور بدنامی کے خوف سے اپنا علاج نہیں کرواتے۔

    ماہرین دماغی صحت کو بہتر بنانے اور مختلف ذہنی بیماریوں سے بچنے کی کچھ تجاویز بتاتے ہیں۔ آپ بھی ان پر عمل کریں۔

    دماغ کو متحرک رکھیں

    mh-1

    ڈپریشن سمیت دماغ کی تقریباً تمام بیماریوں سے بچنے کا آسان حل یہ ہے کہ دماغ کو متحرک رکھا جائے۔ ہمارا دماغ ہمارے جسم کا وہ واحد حصہ ہے جسے جتنا زیادہ استعمال کیا جائے یہ اتنا ہی فعال ہوگا۔ غیر فعال دماغ آہستہ آہستہ بوسیدگی کا شکار ہوتا جائے گا اور اسے مختلف امراض گھیر لیں گے۔

    ماہرین کے مطابق اگر بڑھاپے میں بھی دماغ کا زیادہ استعمال کیا جائے تب بھی یہ کوئی نقصان دہ بات نہیں بلکہ یہ آپ کو مختلف بیماریوں جیسے الزائمر یا ڈیمینشیا سے بچانے میں معاون ثابت ہوگا۔

    مختلف اقسام کی ذہنی مشقیں، مختلف دماغی استعمال کے کھیل کھیلنا جیسے پہیلیاں بوجھنا، حساب کے سوالات حل کرنا، شطرنج کھیلنا، یا کوئی نئی زبان سیکھنا دماغ کے لیے بہترین ورزش ہے۔

    مزید پڑھیں: دماغی کارکردگی میں اضافہ کے لیے 10 ورزشیں

    یہی تجویز ان افراد کے لیے بھی ہے جو ریٹائرڈ ہوجاتے ہیں۔ ریٹائرڈ ہونے والے افراد کو دماغ کو فعال رکھنے کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ فارغ بیٹھنے کے بجائے اگر وہ کام کیے جائیں جو زندگی بھر وقت نہ ملنے کے سبب آپ نہیں کر سکے تو آپ بڑھاپے کے مختلف ذہنی امراض سے بچ سکتے ہیں۔

    کوئی نئی زبان سیکھنا، کوئی آلہ موسیقی یا رقص سیکھنا، باغبانی کرنا، رضاکارانہ خدمات انجام دینا، سیاحت کرنا یا کسی پسندیدہ شاعر یا مصنف کی کتابیں پڑھنا آپ کو جسمانی و دماغی طور پر صحت مند رکھے گا۔

    مزید پڑھیں: دو زبانیں بولنے والوں کا دماغ زیادہ فعال

    نیند پوری کریں

    sleep

    نیند پوری نہ ہونے کا عمل دماغی صحت کو تباہ کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہ آپ کو چڑچڑاہٹ، بیزاری، دماغی تھکن اور ڈپریشن کا شکار کر سکتا ہے۔ روزانہ 8 گھنٹے کی نیند ہر شخص کے لیے بے حد ضروری ہے۔

    مراقبہ کریں

    meditation

    ذہنی سکون حاصل کرنے کا سب سے آزمودہ طریقہ مراقبہ کرنا ہے۔ دن کے کسی بھی حصہ میں 10 سے 15 منٹ کے لیے کسی نیم اندھیرے گوشے میں سکون سے بیٹھ جائیں، آنکھیں بند کرلیں اور دماغ کو تمام سوچوں سے آزاد چھوڑ دیں۔ یہ طریقہ آپ کے دماغ کو نئی توانائی فراہم کرتا ہے۔

    ٹیکنالوجی سے دور رہیں

    technology

    نئی چیزوں کے سیکھنے کی حد تک تو ٹیکنالوجی کا استعمال ٹھیک ہے لیکن اسے اپنی زندگی کا لازمی حصہ بنانا آپ کو دماغی طور پر تباہ کرسکتا ہے۔ سوشل میڈیا، ٹی وی، کمپیوٹرز کا زیادہ استعمال آپ کے ذہنی مزاج پر بھی اثر ڈالے گا نتیجتاً آپ ڈپریشن اور ذہنی تناؤ کا شکار ہوں گے۔

    متوازن غذا کھائیں

    fish

    متوازن غذا کا استعمال بھی ذہنی صحت کے لیے ضروری ہے۔ غیر متوازن غذا یا کم غذا کا استعمال آپ کی دماغی کارکردگی کو سست اور خلیات کو بوسیدہ کرنے لگتا ہے۔ بغیر چکنائی کے دودھ، انڈے اور مچھلی کو اپنی غذا کا حصہ بنائیں۔

    بہت زیادہ تنہائی یا بہت زیادہ سماجی سرگرمیاں نقصان دہ

    alone

    ہر وقت تنہا رہنا یا ہر وقت لوگوں میں گھرے رہنا بھی دماغی صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔ بہترین طریقہ یہ ہے کہ سماجی سرگرمیوں جیسے دعوتوں، محافل اور تقریبات میں بھرپور اندازسے شرکت کی جائے لیکن کچھ وقت کے لیے اپنے آپ کو بالکل تنہا بھی رکھا جائے۔

    اگر یہ وقت سمندر کے کنارے یا پارک میں درختوں کے ساتھ یا کسی اور قدرتی مناظر والے مقام پر گزارا جائے تو یہ اور بھی بہتر ہوگا۔ خاموشی اور تنہائی ہمارے دماغ کے خلیوں کو سکون کی حالت میں لا کر ان کی کارکردگی میں اضافہ کرتی ہے اور دماغ تخلیقی کاموں کی طرف مائل ہوتا ہے۔

    مزید پڑھیں: دماغی تحریک حاصل کرنے کے 5 طریقے

    ہر وقت شور شرابے میں رہنا اور بھانت بھانت کے لوگوں سے ملتے جلتے رہنا بھی دماغ کے لیے نقصان دہ ہے۔ دونوں چیزوں کو اعتدال کے ساتھ اپنی زندگی کا حصہ بنایا جائے۔

    موسیقی سنیں

    music

    اگر آپ حال ہی میں اپنے کسی دماغی مرض کا علاج کروا چکے ہیں تو دوبارہ اس مرض سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ آپ دھیمی موسیقی سنیں۔ موسیقی زمانہ قدیم سے جسمانی و دماغی تکالیف کو مندمل کرنے کے لیے استعال کی جاتی رہی ہے۔ ہلکی آوز میں دھیمی موسیقی سننا آپ کے دماغ کو سکون پہنچائے گا۔

  • متحرک طرز زندگی صحت مند بڑھاپے کا ضامن

    متحرک طرز زندگی صحت مند بڑھاپے کا ضامن

    آج یکم اکتوبر کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں بزرگ افراد کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ رواں برس اس دن کا مرکزی خیال ’بڑھاپے کے خلاف قدم اٹھانا‘ ہے جس کا مطلب دراصل عمر کی بنیاد پر مخصوص رویوں کے خلاف قدم اٹھانا ہے۔

    امریکا کے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ایجنگ کے مطابق سنہ 2010 تک دنیا بھر 65 سال کی عمر سے زائد 52.4 کروڑ افراد موجود تھے۔ حالیہ رپورٹس کے مطابق دنیا کی 10.8 فیصد آبادی بزرگوں پر مشتمل ہے۔

    تاہم حال ہی میں جاری کی جانے والی ایک تحقیقی رپورٹ سے پتہ چلا کہ صرف ایشیا میں معمر افراد کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ایشیا میں اس وقت دنیا کے سب سے زیادہ تقریباً 2 کروڑ معمر افراد موجود ہیں۔

    old-3

    ماہرین کے مطابق اتنی بڑی تعداد میں معمر افراد کی موجودگی کے باعث مختلف ایشیائی ممالک اپنے صحت کے بجٹ کا بڑا حصہ معمر افراد کی دیکھ بھال پر خرچ کر رہے ہیں اور رواں برس ایشیا کا شعبہ صحت اب تک معمر افراد کی دیکھ بھال پر 2.5 بلین ڈالر سے زائد رقم خرچ کر چکا ہے۔ یہ رقم 2015 میں خرچ کی جانے والی رقم سے 5 گنا زیادہ ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ بڑھاپے میں لاحق ہونے والی مختلف بیماریوں جیسے ڈیمنشیا، الزائمر، اور دیگر جسمانی بیماریوں سے محفوط رہنے کے لیے ضروری ہے کہ اوائل عمری سے ہی صحت کا خیال رکھا جائے اور صحت مند غذائی عادات اپنائی جائیں۔ بچپن سے متحرک طرز زندگی گزارنا بڑھاپے میں جوڑوں کے درد اور مختلف قسم کی تکالیف سے نجات دے سکتا ہے۔

    بڑھاپا روکنے والی 5 غذائیں *

    اسی طرح ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے آپ کو مصروف رکھا جائے تو ذہنی بیماریوں سے بچا جاسکتا ہے۔ مثال کے طور پر کم محنت والی کوئی جز وقتی ملازمت، کوئی زبان سیکھنے کا کورس، کوئی مشغلہ جیسے باغبانی اپنانا، یا رضا کارانہ طور پر کمیونٹی خدمات انجام دینا بڑھاپے کی روایتی بیماریوں سے کسی حد تک محفوظ رکھ سکتا ہے۔

    ریٹائرمنٹ کے بعد کیا ہوتا ہے؟ *

    ایک تحقیق کے مطابق جب لوگ اپنے بارے میں یہ تصور کرلیتے ہیں کہ وہ بوڑھے ہوگئے ہیں تو وہ حقیقتاً بوڑھے ہوجاتے ہیں۔ ماہرین نے اس تحقیق کے لیے بوڑھے، اور بڑھاپے میں چست رہنے والے افراد کا انتخاب کیا۔ انہوں نے دیکھا کہ وہ افراد جو بڑھاپے میں بھی چست تھے، دراصل وہ کبھی بھی یہ سوچ کر کسی کام سے پیچھے نہیں ہٹتے تھے کہ زائد العمری کی وجہ سے اب وہ اسے نہیں کرسکتے۔

    وہ نئے تجربات بھی کرتے تھے اور ایسے کام بھی کرتے تھے جو انہوں نے زندگی میں کبھی نہیں کیے۔ یہی نہیں وہ ہمیشہ کی طرح اپنا کام خود کرتے تھے اور بوڑھا ہونے کی توجیہہ دے کر اپنے کاموں کی ذمہ داری دوسروں پر نہیں ڈالتے تھے۔

    ماہرین نے دیکھا کہ ایسے افراد بڑھاپے میں لاحق ہونے والی عام بیماریوں جیسے جوڑوں میں درد، دماغی امراض اور جسمانی بوسیدگی کا شکار کم تھے۔

    اس کے برعکس بوڑھے دکھنے والے افراد ہر کام سے یہی سوچ کر پیچھے ہٹ جاتے تھے کہ وہ اب بوڑھے ہوگئے ہیں اور یہ کام نہیں کرسکتے۔ وہ جسمانی طور پر کم غیر فعال تھے اور نتیجتاً کئی ذہنی و جسمانی بیماریوں کا شکار تھے۔

  • الزائمر کا عالمی دن: پاکستان میں 10 لاکھ افراد الزائمر کا شکار

    الزائمر کا عالمی دن: پاکستان میں 10 لاکھ افراد الزائمر کا شکار

    اسلام آباد: پاکستان میں الزائمر کے مریضوں میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور ماہرین کے مطابق پاکستان میں اس وقت 10 لاکھ سے زائد افراد یادداشت کی کمزوری یعنی الزائمر کے مرض میں مبتلا ہیں۔

    الزائمر ایک دماغی مرض ہے جو عموماً 65 سال سے زائد عمر کے افراد میں عام ہے۔ اس مرض میں انسان اپنے آپ سے متعلق تمام چیزوں اور رشتوں کو بھول جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق الزائمر اموات کی وجہ بننے والی بیماریوں میں چھٹے نمبر پر ہے۔

    اس مرض سے آگاہی پیدا کرنے کے لیے ہر سال 21 ستمبر کو الزائمر کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔

    ایک رپورٹ کے مطابق پوری دنیا میں 2050 تک ہر 8 میں سے ایک شخص اس مرض میں مبتلا ہو سکتا ہے۔

    :سبب

    طبی ماہرین کے مطابق خون میں شکر کی مقدار کی کمی سے یادداشت کی کمی واقع ہونے لگتی ہے اور یہی الزائمر اور ڈیمینشیا جیسے امراض کا سبب بنتی ہے۔ خون میں شکر کی مقدار اور سطح کو نارمل حالت میں رکھ کر اس بیماری کو روکنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔

    اس کے ساتھ ساتھ بلڈ پریشر کو کنٹرول کرنا بھی لازمی ہے کیونکہ فشار خون زیادہ ہونے سے بھی دماغ میں گلوکوز کی فراہمی کے تناسب میں گڑ بڑ پیدا ہو جاتی ہے۔

    :علامات

    ماہرین کا کہنا ہے کہ الزائمر کے آغاز کی 4 علامات ہوتی ہیں جنہیں عام طور پر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ اگر ان پر نظر رکھی جائے تو الزائمر کی شروعات میں تاخیر ہو سکتی ہے۔

    الزائمر کے مریض میں پہلی علامت غیر ضروری طور پر بڑھی ہوئی خود اعتمادی ہوتی ہے۔

    دوسری علامت الفاظ کی ادائیگی میں مشکل اور غیر مناسب الفاظ کا انتخاب ہوتا ہے۔

    تیسری علامت لکھتے ہوئے الفاظ کے ہجے بھول جانا ہے۔

    آخری علامت کسی تحریر کو پڑھنے اور سمجھنے میں مشکل پیش آنا ہے۔

    :بچاؤ

    ماہرین کے مطابق ایسے کئی اسباب ہیں جو الزائمر کا سبب بنتے ہیں اور ان سے بچاؤ حاصل کرکے الزائمر کے خطرے میں کسی حد تک کمی لائی جاسکتی ہے۔

    ایک تحقیق کے مطابق زیادہ درجہ حرارت پر پکائے جانے والے کھانوں میں ایسے اجزا پائے جاتے ہیں جو الزائمر کا باعث بنتے ہیں۔

    طبی ماہرین کے مطابق تیز آنچ پر زیادہ دیر تک پکائے ہوئے کھانے میں گلوکوز اور پروٹینز پر مشتمل ایڈوانس گلائیکیشن اینڈ پروڈکٹس نامی پیچیدہ مرکب تشکیل پاتا ہے، جسے سائنسی زبان میں اے جی ای بھی کہا جاتا ہے۔ یہ مرکب انسانی یادداشت کو متاثر کرتا ہے۔

    ایسے تمام کھانے جن میں نمک کی بڑی مقدار استعمال کی جاتی ہے وہ بھی دماغی صحت کو متاثر کرتے ہیں اور اس سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت پر بھی برا اثر پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ نمکین کھانے ذہانت کو بھی متاثر کرتے ہیں۔

    امریکا میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق فضائی آلودگی بھی انسانی دماغ پر اثر انداز ہوتی ہے اور یہ مختلف دماغی بیماریوں جیسے الزائمر وغیرہ کا سبب بن سکتی ہے۔

  • خودکشی کی روک تھام کا عالمی دن: پاکستان میں منفی رجحان میں اضافہ

    خودکشی کی روک تھام کا عالمی دن: پاکستان میں منفی رجحان میں اضافہ

    اسلام آباد: آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں خودکشی کی روک تھام کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال 10 لاکھ افراد اپنی زندگی کے خاتمہ کی کوشش کرتے ہیں۔

    خودکشی کی روک تھام کے عالمی دن کو منانے کا مقصد خودکشی کے واقعات کی روک تھام کے لیے عوامی شعور اجاگر کرنا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ہر روز دنیا بھر میں 3 ہزار افراد خودکشی کی کوشش کرتے ہیں۔ خودکشی کرنے والوں میں 15 سے 44 سال کی عمر کے لوگوں کی زیادہ تعداد شامل ہے۔

    خود کشی کے خلاف کام کرنے والی عالمی تنظیم انٹرنیشنل ایسوسی ایشن فار سوسائڈ پریوینشن ۔ آئی اے ایس پی کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں ہر سال 10 لاکھ سے زائد لوگ خود کشی کرتے ہیں اور ان کی تعداد جنگوں، دہشت گردی کے واقعات اور قتل کے نتیجہ میں ہلاک ہونے والوں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔

    خود کشی کی کئی وجوہات ہوتی ہیں۔ ماہرین نفسیات کے مطابق خودکشی کے 90 فیصد واقعات کا تعلق ڈپریشن سے ہوتا ہے۔

    ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں سال بھر میں 5 ہزار سے زائد لوگ خود کشی کرتے ہیں اور اس رجحان میں اضافہ ہورہا ہے۔

    پاکستانی ماہرین نفسیات کے مطابق بڑھتی ہوئی سماجی و معاشی مشکلات نے صورتحال کی سنگینی میں مزید اضافہ کردیا ہے جبکہ ان مسائل پر قابو پانے میں حکومت کی ناکامی لوگوں میں مایوسی کو بڑھاتی ہے جو بالآخر ڈپریشن میں تبدیل ہوجاتی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ مایوسی خود کشی کے عوامل میں سے ایک ہے کیونکہ انسان جتنا ذہنی دباؤ کا شکار ہوتا ہے اس میں مایوسی اور نا امیدی اتنی ہی بڑھ جاتی ہے۔

    ایک طبی ماہر کے مطابق خود کشی کے رجحان کے سدباب کے لیے لوگوں کے علم اور آگاہی میں اضافہ کرنے اور ان افراد کی مدد کرنے کی ضرورت ہے جو خود کشی کی کوشش کرچکے ہیں یا جو گھر کے کسی فرد کی خود کشی سے متاثر ہوئے ہیں۔

  • بائیں ہاتھ سے کام کرنے والوں کے بارے میں دلچسپ حقائق

    بائیں ہاتھ سے کام کرنے والوں کے بارے میں دلچسپ حقائق

    کیا آپ جانتے ہیں کہ امریکی صدر باراک اوباما لیفٹ ہینڈر ہیں یعنی وہ اپنا ہر کام بائیں ہاتھ سے سرانجام دیتے ہیں؟

    صرف اوباما ہی نہیں دنیا کے کئی مشہور افراد بائیں ہاتھ سے کام کرنے کے عادی تھے۔ امریکا کے اب تک کے آخری 7 صدور میں سے 4 بائیں ہاتھ سے کام کرنے والے تھے۔ آج بائیں ہاتھ والے افراد کے عالمی دن کے موقع پر ان کے بارے میں کچھ حیرت انگیز حقائق جانتے ہیں۔

    :بائیں ہاتھ سے کام کرنے والے افراد کے بارے میں دلچسپ حقائق

    دنیا کی کل آبادی میں سے 10 فیصد افراد بائیں ہاتھ سے کام کرتے ہیں۔

    lefty-2
    برطانوی شہزادہ ولیم

    پرانے دور میں بائیں ہاتھ والوں کو جادو ٹونے کرنے والا سمجھا جاتا تھا۔

    الٹے ہاتھ سے مصافحہ کرنا بدتہذیبی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔

    بایاں ہاتھ استعمال کرنے والوں کو زیر آب ڈوبنے کا خطرہ کم ہوتا ہے کیونکہ سیدھے ہاتھ والوں کے مقابلے میں وہ الٹے ہاتھ سے زیادہ تیزی سے تیر سکتے ہیں۔

    بائیں ہاتھ سے کام کرنے والے افرا ملٹی ٹاسکنگ یعنی بیک وقت کئی کام سرانجام دے سکتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل بائیں ہاتھ والے افراد میں کامیاب اور دولت مند بننے کے امکانات، سیدھے ہاتھ والے افراد سے کئی گنا زیادہ ہوتے ہیں۔

    یہ سیدھے ہاتھ سے کام کرنے والوں کے مقابلے میں زیادہ تخلیقی صلاحیت کے حامل ہوتے ہیں۔

    lefty-3
    ہالی ووڈ اداکارہ انجلینا جولی

    :بائیں ہاتھ سے کام کرنے والے دنیا کے چند مشہور افراد

    مشہور سائنسدان آئن اسٹائن

    مشہور مصور لیونارڈو ڈاونچی

    ریڈیم ایجاد کرنے والی نوبل انعام یافتہ سائنسدان میری کیوری

    مشہور فسلفی ارسطو

    چاند کو سر کرنے والا پہلا خلا نورد نیل آرم اسٹرونگ

    برطانوی شاہی خاندان کی ملکہ وکٹوریہ اور شہزادہ ولیم

    lefty-4
    پاکستانی کرکٹر وسیم اکرم

    فورڈ موٹر کمپنی کے مالک ہنری فورڈ

    مائیکرو سافٹ کمپنی کے مالک بل گیٹس

    امریکی صدر بارک اوباما

    مشہور فٹ بالر پیلے

    آسکر ایوارڈ یافتہ مشہور ہدایت کار جیمز کیمرون

    ہالی ووڈ اداکار ٹام کروز

    ہالی ووڈ اداکارہ انجلینا جولی

    بالی ووڈ اداکار امیتابھ بچن اور ان کے صاحبزادے ابھیشک بچن

    lefty-5
    مائیکرو سافٹ کمپنی کے مالک بل گیٹس

    پاکستانی کرکٹر وسیم اکرم

    مشہور امریکی ٹی وی میزبان اوپرا ونفرے

  • نوجوانوں کا عالمی دن: بیروزگاری اور تعلیم کی عدم فراہمی سب سے بڑے مسائل

    نوجوانوں کا عالمی دن: بیروزگاری اور تعلیم کی عدم فراہمی سب سے بڑے مسائل

    دنیا بھر میں آج عالمی یوم نوجوانان منایا جا رہا ہے۔ رواں برس اس دن کا موضوع ’روڈ ٹو 2030 ۔ غربت کا خاتمہ اور پائیدار تخلیق‘ ہے۔

    اس موضوع کا تعلق 2030 تک پائیدار ترقی کے اہداف حاصل کرنے سے ہے۔ اس ایجنڈے میں دنیا سے غربت کے خاتمے اور پائیدار ترقی کے حصول کے لیے نوجوانوں کے مرکزی کردار پر زور دیا گیا ہے۔

    اقوام متحدہ پاپولیشن فنڈ یو این ایف پی اے کے مطابق دنیا میں اس وقت 8.1 بلین نوجوان موجود ہیں۔ ان کی عمر 10 سے 24 سال کے درمیان ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق ایشیا میں سب سے زیادہ یعنی 754 ملین نوجوان موجود ہیں۔ صرف پاکستان میں کل آبادی کا نصف نوجوانوں پر مشتمل ہے یعنی 15 سے 30 سال کے افراد کی عمر کی تعداد 40 فیصد سے زائد ہے۔

    yd-3

    اگر ان نوجوانوں کو بہتر رہنمائی اور تعلیم ملے تو یہ دنیا کو بدلنے کے لیے ایک بڑی طاقت ثابت ہوسکتے ہیں۔

    واضح رہے کہ اقوام متحدہ نے 1998 میں پہلی بار نوجوانوں کا عالمی دن منانے کی منظوری دی تھی جس کے بعد سے اسے ہر سال دنیا بھر میں منایا جاتا ہے تاہم عالمی سطح پر نوجوانوں کو بے شمار مسائل کا سامنا ہے جس میں سب سے بڑا مسئلہ بے روزگاری کا ہے۔

    اقوام متحدہ ہی کے مطابق دنیا بھر میں موجود نوجوانوں کی 12.6 فیصد آبادی، یعنی 75 ملین نوجوان بے روزگار ہیں۔ یہ نوجوان اعلیٰ تعلیم یافتہ یا ہنر مند ہیں لیکن ان کے پاس اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھانے کے کوئی مواقع نہیں۔

    دوسری جانب نوجوان لڑکیوں کا سب سے بڑا مسئلہ تعلیم کی عدم فراہمی اور کم عمری کی شادیاں ہیں۔

    yd-2

    اقوام متحدہ کے مطابق دنیا بھر میں 62 ملین لڑکیاں ایسی ہیں جو تعلیم کے بنیادی حق سے محروم ہیں۔ بچوں کے لیے کام کرنے والی اقوام متحدہ کی ذیلی شاخ یونیسف کے مطابق ہر سال دنیا بھر میں 15 ملین شادیاں ایسی ہوتی ہیں جن میں دلہن کی عمر 18 سال سے کم ہوتی ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں ہر 3 میں سے 1 لڑکی کی جبراً کم عمری میں شادی کر جاتی ہے۔

    ان دونوں مسائل کی وجہ جنگیں، امن و امان کی ابتر صورتحال، قدیم رسم و رواج اور نام نہاد معاشرتی اقدار ہیں۔ جب لڑکیاں تعلیم حاصل نہیں کر پاتیں تو وہ مالی طور پر خود کفیل نہیں ہوسکتیں جس کے بعد وہ لازماً اپنے خاندان کے لیے ایک بوجھ کی حیثیت اختیار کر جاتی ہیں۔ چنانچہ لڑکیوں کی کم عمری میں شادی کر کے اس ’بوجھ‘ سے جان چھڑائی جاتی ہے۔

    yd-4

    تعلیم سے محرومی کے باعث نوجوان لڑکیوں کو اپنی صحت، اور دیگر حقوق سے متعلق آگہی نہ ہونے کے برابر ہے۔

    اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے رواں برس نوجوانوں کے لیے پیغام دیا، ’جب ہم نوجوانوں پر سرمایہ کاری کرتے ہیں تو یہ نئی تجارتوں، ملازمتوں، پائیدار ترقی، پائیدار انفراسٹرکچر اور دیگر کئی شعبوں پر مثبت طور سے اثر انداز ہوتے ہیں جو اس زمین اور زمین پر بسنے والے لوگوں کے فائدے کا سبب بن سکتی ہے‘۔

  • گردوں کے امراض سے بچاؤ کا عالمی دن آج منایا جارہا ہے

    گردوں کے امراض سے بچاؤ کا عالمی دن آج منایا جارہا ہے

    کراچی: پاکستان سمیت آج دنیا بھر میں گردوں کے امراض سے بچاؤ کا عالمی دن منایا جا رہا ہے، سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر شعبہ طب میں کام کر نے والی تنظیموں نے اس موقع پر مختف پروگرام منعقد کئے۔

    گردے انسانی جسم کا اہم عضو ہیں، دنیا میں ہر سال پچاس ہزار سے زائد افراد گردے کے مختلف امراض میں مبتلا ہو کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، جس کی ایک بڑی وجہ گردہ عطیہ کرنے والوں کی کمی ہے محکمہ صحت کے اعداد وشمار کے مطابق پاکستان میں دو کروڑ سے زائد افراد گردے کے مختلف امراض میں مبتلا ہیں جبکہ ایسے مریضوں کی تعداد میں سالانہ پندرہ سے بیس فیصد اضافہ ہو رہا ہے۔

    طبی ماہرین کے مطابق گردے کے مرض کی وجہ بلندفشارِخون،ذیابیطس ،ذہنی دباؤاور پانی کم پینا ہے،گردوں کے امراض سے بچنے کیلئے پانی کا زائد استعمال، سگریٹ نوشی اور موٹاپے سے بچنا ضروری ہے۔