Tag: عالمی عدالت انصاف

  • موسمیاتی تبدیلی: عالمی عدالتِ انصاف کا فیصلہ اور نیا عالمی ضمیر

    موسمیاتی تبدیلی: عالمی عدالتِ انصاف کا فیصلہ اور نیا عالمی ضمیر

    رواں سال دنیا کے لیے موسمیاتی بحران کی شدت اور عالمی ماحولیاتی انصاف کے مطالبات کے حوالے سے ایک اہم موڑ ثابت ہو رہا ہے۔ جولائی کے آخر میں عالمی عدالتِ انصاف (ICJ) نے موسمیاتی تبدیلی کے تناظر میں ایک تاریخی مشاورتی رائے دی ہے، جسے چھوٹی جزیرہ ریاستوں، ماحولیاتی کارکنان اور ترقی پذیر ممالک کی دیرینہ کاوشوں کی فتح قرار دیا جا رہا ہے۔

    یہ فیصلہ ایک طرف بین الاقوامی قوانین میں ماحولیاتی ذمہ داریوں کی وضاحت کرتا ہے، تو دوسری طرف عالمی طاقتوں کو ایک اخلاقی آئینہ دکھاتا ہے۔ دنیا کی اعلی ترین عدالت میں اس کیس کا دورانیہ 6 سال پر محیط تھا۔ یہ آئی سی جے کے سامنے آنے والا اب تک کا سب سے بڑا معاملہ تھا جس میں 91 ملکوں نے تحریری بیانات جمع کرائے جب کہ 97 ملکوں نے زبانی دلائل میں حصہ لیا۔

    عدالتی رائے کی روشنی میں پاکستان نہ صرف مضبوط مؤقف اپنا سکتا ہے بلکہ موسمیاتی انصاف پر مبنی فنڈنگ اور امداد کا مطالبہ بھی کر سکتا ہے۔

    یہ سفر 2019 میں اُس وقت شروع ہوا جب موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ بحرالکاہل کی چھوٹی ریاست وانواتو (Vanuatu) نے بین الاقوامی عدالت سے یہ درخواست کی کہ وہ اقوامِ متحدہ کے رکن ممالک کی ماحولیاتی ذمہ داریوں کی قانونی تشریح کرے۔ وانواتو کے ساتھ ٹووالو، مارشل آئی لینڈز، اور دیگر درجنوں جزیرہ ریاستیں بھی کھڑی ہو گئیں جو سمندر کی سطح بلند ہونے کی وجہ سے اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہی ہیں۔ طلبہ، سماجی تنظیموں‌ اور سول سوسائٹی کے نیٹ ورکس نے اسے ایک عالمی تحریک میں بدل دیا۔ یہ محض قانونی مشورہ نہیں بلکہ انسانیت کا وہ مقدمہ تھا جس میں مدعا علیہ پوری دنیا تھی۔

    عالمی عدالت انصاف نے اپنے فیصلے میں واضح طور پر کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کے خلاف اقدامات نہ کرنا بین الاقوامی انسانی حقوق اور ماحولیاتی قوانین کی خلاف ورزی کے زمرے میں آ سکتا ہے۔ عدالت نے اس بات پر زور دیا کہ تمام ریاستیں ماحول کو نقصان سے بچانے کی قانونی اور اخلاقی ذمہ داری رکھتی ہیں، مشترکہ مگر امتیازی ذمہ داری کا اصول ان پر لاگو ہوتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ امیر اور صنعتی ممالک کو زیادہ بوجھ اٹھانا ہوگا۔

    عالمی عدالت کے فیصلے پر بڑے ممالک کا ردعمل دلچسپ مگر مختلف رہا۔ امریکہ، آسٹریلیا اور بھارت نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ مشاورتی رائے ”مذاکرات کے عمل کو متاثر کر سکتی ہے۔

    موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے بچاؤ کے لیے فوری، مؤثر اور مساوی اقدامات عالمی قانون کے تحت ضروری ہیں۔ انسانی حقوق، بالخصوص زندگی، صحت، اور باعزت رہائش کا حق، موسمیاتی تبدیلی سے براہِ راست متاثر ہو رہا ہے۔

    یہ رائے اگرچہ باضابطہ ”قانونی طور پر لازم” نہیں، مگر اقوامِ متحدہ، ماحولیاتی ادارے، اور دنیا بھر کی عدالتیں اس کو مستقبل میں حوالہ کے طور پر استعمال کر سکتی ہیں۔ پاکستان جیسے ممالک کے لیے، جو عالمی آلودگی کے محض 1 فیصد کے ذمہ دار ہیں مگر شدید موسمیاتی آفات (سیلاب، خشک سالی، گلیشیئر پگھلاؤ، ہیٹ ویو اور دیگر) کا سامنا کر رہے ہیں، یہ فیصلہ ایک اخلاقی اور قانونی بنیاد فراہم کرتا ہے تاکہ وہ ترقی یافتہ ممالک سے موسمیاتی انصاف کا مطالبہ کر سکیں۔ 2022 کے تباہ کن سیلاب، جس نے پاکستان کی معیشت کو ہلا کر رکھ دیا، ماحولیاتی عدم مساوات کی زندہ مثال ہے۔ اب اس عدالتی رائے کی روشنی میں پاکستان نہ صرف اقوام متحدہ میں مضبوط مؤقف اپنا سکتا ہے بلکہ بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے موسمیاتی انصاف پر مبنی فنڈنگ اور امداد کا مطالبہ بھی کر سکتا ہے۔

    عالمی عدالت کے فیصلے پر بڑے ممالک کا ردعمل دلچسپ مگر مختلف رہا۔ امریکہ، آسٹریلیا اور بھارت نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ مشاورتی رائے ”مذاکرات کے عمل کو متاثر کر سکتی ہے۔” ان نمائندوں کا کہنا تھا کہ اقوامِ متحدہ کے موسمیاتی فورمز زیادہ موزوں پلیٹ فارم ہیں۔ گویا وہ قانونی ذمہ داری کے بجائے رضاکارانہ اقدامات پر زور دیتے ہیں۔ چین نے کہا کہ ترقی پذیر دنیا کو مالی مدد ضرور ملنی چاہیے مگر ہر ملک کی ”قومی خود مختاری” کا احترام بھی لازم ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ چین بھی قانونی پابندیوں کے بجائے باہمی سمجھوتوں کو ترجیح دیتا ہے۔ یورپی یونین نے جزوی حمایت کی، اور کہا کہ وہ پہلے ہی Net Zero کے اہداف اور گرین انرجی پر کام کر رہے ہیں، مگر بعض یورپی ملکوں نے فیصلے کے قانونی اثرات کو کم کرنے کی کوشش کی

    یہ واضح ہے کہ بڑی طاقتیں فیصلے کے سیاسی اور قانونی مضمرات سے باخبر ہیں مگر مکمل قبولیت کے لیے تیار نہیں۔ لیکن عالمی دباؤ اور اخلاقی بوجھ کے باعث وہ اس سے مکمل طور پر انکار بھی نہیں کر سکتیں۔

    عدالتی فیصلے کے فوراً بعد، دنیا بھر میں اس پر مختلف آرا سامنے آئیں۔ چھوٹے ممالک، ترقی پذیر دنیا، اور ماحولیاتی تحریکوں نے اسے ”انصاف کی طرف پہلا عملی قدم” قرار دیا۔ وانواتو کے وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی، رالف ریگنوا (Ralph Regenvanu) نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ”یہ فیصلہ ہماری توقعات سے بھی زیادہ مضبوط ہے، اب دنیا یہ نہیں کہہ سکتی کہ ماحولیاتی تباہی کے خلاف کارروائی صرف ایک اخلاقی مسئلہ ہے، یہ ایک قانونی ذمہ داری ہے۔“

    تاہم کچھ بڑی طاقتوں، خاص طور پر وہ ممالک جن کی معیشتیں کوئلے، تیل اور گیس پر انحصار کرتی ہیں، نے اس فیصلے کو نرم الفاظ میں لیا اور خود پر لاگو قانونی نتائج کو نظر انداز کیا۔ ماحولیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ آئندہ اقوامِ متحدہ کی ماحولیاتی کانفرنسیں (COP) اس فیصلے کی بنیاد پر مزید سخت قانونی معاہدوں کی طرف جا سکتی ہیں۔ ”ماحولیاتی انصاف“ اب صرف ایک سماجی نعرہ نہیں رہا، بلکہ اقوام متحدہ، عالمی عدالتیں، اور بین الاقوامی معاہدے اسے قانونی اور عملی اصول کے طور پر تسلیم کر رہے ہیں۔ اس تناظر میں ICJ کا یہ فیصلہ ایک سنگِ میل ہے، جو درج ذیل پہلوؤں کو اجاگر کرتا ہے:

    آلودگی پھیلانے والا ازالہ کرے: جو ملک ماحول کو نقصان پہنچاتے ہیں، انہیں ہی مالیاتی طور پر اس کا ازالہ کرنا چاہیے۔

    نسل در نسل انصاف: موجودہ نسل کی ذمہ داری ہے کہ وہ آئندہ نسلوں کو محفوظ ماحول دے۔

    شہری حقوق اور ماحول: صاف ماحول تک رسائی کو بنیادی انسانی حق کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔

    پاکستان، جو دنیا کے سب سے کم کاربن خارج کرنے والے ملکوں میں شامل ہے، ہر سال موسمیاتی آفات کا بوجھ سہتا ہے۔ 2022 کے سیلاب میں ملک کا ایک تہائی حصہ زیرِ آب آگیا۔ 1700 سے زائد افراد جان سے گئے اور 3 کروڑ سے زائد متاثر ہوئے، جب کہ معاشی نقصان 30 ارب ڈالر سے تجاوز کر گیا۔ 2025 میں بھی غیر متوقع گرمی کی لہر، قحط، اور قبل از وقت مون سون نے ماحولیاتی بحران کی سنگینی کو مزید بڑھایا ہے۔ پاکستان کے لیے ICJ کا فیصلہ اس لیے اہم ہے کہ یہ بین الاقوامی قانون میں اس کے مقدمے کو تقویت دیتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک پر مالی، تکنیکی اور اخلاقی دباؤ بڑھے گا۔ پاکستان اب Loss & Damage فنڈ، گرین کلائمیٹ فنڈ، اور دیگر بین الاقوامی فورمز پر قانونی بنیاد پر معاوضے کا مطالبہ کر سکتا ہے۔ پاکستانی عدالتیں اور پارلیمان اب ماحولیاتی انصاف کے اصولوں کو داخلی قانون سازی میں شامل کر سکتی ہیں۔

    عالمی عدالت انصاف کا یہ فیصلہ اگرچہ قانونی طور پر لازم نہیں، مگر اس کا اخلاقی وزن اور سیاسی اثر زبردست ہے۔ یہ انسانی تاریخ کے اس موڑ پر آیا ہے جہاں موسمیاتی تبدیلی صرف ماحولیاتی مسئلہ نہیں بلکہ بقاء کا مسئلہ بن چکی ہے۔ پاکستان، جو ماحولیاتی عدم مساوات کا زندہ استعارہ ہے، اب ایک مضبوط مقدمہ پیش کر سکتا ہے: ”ہم نے آلودگی نہیں پھیلائی، مگر ہم مر رہے ہیں۔” اب وقت ہے کہ عالمی ضمیر جاگے، اور قانون، اخلاق، اور انصاف ایک ہی زبان بولیں۔ اب یہ اقوام، سول سوسائٹی، اور پالیسی سازوں پر منحصر ہے کہ وہ اس قانونی رائے کو عملی اقدامات میں کیسے ڈھالتے ہیں۔

  • پاکستان نے آبادی اور معیشت پر موسمیاتی تبدیلی کے سنگین اثرات کا خاکہ پیش کردیا

    پاکستان نے آبادی اور معیشت پر موسمیاتی تبدیلی کے سنگین اثرات کا خاکہ پیش کردیا

    اسلام آباد : عالمی عدالت انصاف میں پاکستان نے آبادی اور معیشت پر موسمیاتی تبدیلی کے سنگین اثرات کا خاکہ پیش کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق عالمی عدالت انصاف میں موسمیاتی تبدیلی پر ریاستوں کی ذمہ داریوں پرسماعت ہوئی، اٹارنی جنرل آف پاکستان منصور عثمان اعوان نے پاکستان کی نمائندگی کی۔

    پاکستان نے آبادی ،معیشت پرموسمیاتی تبدیلی کےسنگین اثرات کا خاکہ پیش کردیا، اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے بتایا کہ 2022 سیلاب میں ملک کا ایک تہائی حصہ ڈوبنےسے33ملین افرادمتاثرہوئے، سیلاب کےباعث تعمیر نواخراجات کاتخمینہ 16 ارب ڈالر سے تجاوز کر گیا۔

    منصور عثمان اعوان کا کہنا تھا کہ پاکستان کا عالمی سطح پر گرین ہاؤس گیسز کے اخراج میں حصہ 1 فیصد سے بھی کم ہے، موسمیاتی تبدیلی کےاثرات سے پاکستان 15 گنا زیادہ نقصان کا سامنا کر رہا ہے۔

    انھوں نے بتایا کہ موسمیاتی تبدیلی پرپیرس معاہدہ ذمہ داریوں پرتوجہ مرکوز کرنے کا بنیادی فریم ورک ہے، آب و ہوا کی ذمہ داریوں کومتعلقہ صلاحیتوں کیساتھ ہم آہنگ ہونا چاہئے، ذمہ داریوں سےمتعلق تنازعات کو معاہدوں پر میکنزم کےذریعےحل کرناچاہیے۔

    اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ انسداد موسمیاتی تبدیلیوں پر ذمہ داری گرین ہاؤس گیسز کے اخراج جیسے نقصانات پر لاگو ہے، یہ غلط ہے کنونشن آن کلائمنٹ چینج اور پیرس معاہدہ لیکس اسپیشلز تشکیل دیتے ہیں، مذکورہ معاہدے بین الاقوامی قانون کے تحت ذمہ داریوں کو ختم نہیں کرتے۔

    انھوں نے کہا کہ ذمہ داری اسوقت شروع ہوتی ہے جب کوئی ملک مضر اثرات پرمطلوبہ علم رکھتاہو، گرین ہاؤس گیسز کے اخراج کے تناظر میں لاعلمی کا دعویٰ کوئی عذر نہیں ہے، موسمیاتی تبدیلی کے اثرات محسوس کرنیوالی پہلی نسل ہیں ، بلاشبہ آخری نسل بھی ہیں جو اس کے بارے میں کچھ کرسکتی ہے۔

  • کیا عالمی عدالت انصاف ختم ہونے والی ہے؟ نیتن یاہو کے خلاف وارنٹ سے جنگی جرائم کا ٹریبونل خطرے میں پڑ گیا

    کیا عالمی عدالت انصاف ختم ہونے والی ہے؟ نیتن یاہو کے خلاف وارنٹ سے جنگی جرائم کا ٹریبونل خطرے میں پڑ گیا

    امریکا اور روس کے دباؤ کے تحت جنگی جرائم کا عالمی ٹریبونل خطرے میں پڑ گیا ہے، نیتن یاہو کے خلاف وارنٹ سے عالمی عدالت انصاف کے وجود کے بارے میں خدشات نے سر اٹھا لیا ہے۔

    فوجداری عدالت کی صدر ٹوموکو آکین نے کہا کہ اس عدالت کو دھمکیاں دی جا رہی ہیں، نیتن یاہو کے وارنٹ گرفتاری جاری ہونے کے بعد کچھ ممالک نے اسے متنازعہ بنا دیا، اگر بین الاقوامی فوجداری عدالت کا خاتمہ کیا جاتا ہے تو اس کے نتیجے میں لامحالہ تمام مقدمات ختم ہو جائیں گے اور یہ عدالت کے وجود کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔

    آئی سی سی کی صدر نے عدالت کے خلاف حملوں پر سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا یہ ’حملے‘ فوجداری عدالت کی صدر کے خلاف کیے جا رہے ہیں، وہ تب سے نشانہ بنائی جا رہی ہیں جب سے عدالت نے غزہ میں اسرائیلی جنگ اور یوکرین کی جنگ کے حوالے سے اہم ترین حکومتی عہدے داروں کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے ہیں۔

    آئی سی سی کی صدر ٹوموکو آکین

    اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو نے اپنے خلاف عدالتی فیصلے کو یہود دشمنی قرار دیا جب کہ صدر جوبائیڈن نے وارنٹ گرفتاری کے جاری کیے جانے کی مذمت کی۔ ہیگ میں فوجداری عدالت کے ججوں نے ایک تقریب میں اس پر بات کی، عدالت کی صدر ٹوموکو آکین نے کہا کہ عدالت کو دھمکیوں، دباؤ اور تخریبی کارروائیوں کا سامنا ہے۔

    یرغمالی رہا نہ ہوئے تو مشرق وسطیٰ کو جہنم بھگتنی ہوگی، ڈونلڈ ٹرمپ

    ٹوموکو آکین کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی قانون اور بین الاقوامی سطح پر انصاف کو خطرات کا سامنا ہے، لہٰذا اس وقت یہی انسانیت کا مستقبل ہے، فوجداری عدالت اپنی قانونی ذمہ داریوں کو پورا کرتی رہے گی۔ دوسری طرف امریکا کے ری پبلکنز نے سینیٹ سے مطالبہ کیا ہے کہ بین الاقوامی فوجداری عدالت پر پابندیاں لگائی جائیں۔ خیال رہے فوجداری عدالت کے 124 ارکان ہیں مگر ان میں امریکا، اسرائیل اور روس شامل نہیں ہیں۔

  • پاکستان کا غزہ کے معاملے پر عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کا خیر مقدم

    پاکستان کا غزہ کے معاملے پر عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کا خیر مقدم

    اسلام آباد : پاکستان نے غزہ کے معاملے پر عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی قابض حکام کو چاہیے وہ رفح کراسنگ کوانسانی امدادکی فراہمی کیلئے کھلا رکھیں۔

    تفصیلات کے مطابق ترجمان دفتر خارجہ کی جانب سے بیان میں کہا گیا کہ پاکستان عالمی عدالت انصاف کے اضافی عارضی اقدامات کا خیرمقدم کرتا ہے، جس میں اسرائیل کو رفح میں فوجی کارروائیوں کو روکنےکاحکم دیاگیا ہے.

    ترجمان کا کہنا تھا کہ پاکستان جنوبی افریقہ کی طرف سے اسرائیل کیخلاف درخواست کی حمایت کرتا ہے، اسرائیلی قابض حکام کو چاہیے وہ رفح کراسنگ کوانسانی امدادکی فراہمی کیلئےکھلا رکھیں اور تحقیقاتی کمیشن، فیکٹ فائنڈنگ مشن کی غزہ پٹی تک بلا رکاوٹ رسائی کو یقینی بنائیں..

    دفتر خارجہ نے مطالبہ کیا اقوام متحدہ نسل کشی کے الزامات کی تحقیقات کرے، پاکستان عالمی عدالت انصاف کے تازہ احکامات پر عمل درآمد کا بھی مطالبہ کرتاہے

    ترجمان نے زور دیا کہ اقوام متحدہ غزہ میں اسرائیل کی جاری وحشیانہ فوجی مہم کوختم کرنےمیں کردار ادا کرے۔

    واضح رہے کہ عالمی عدالت انصاف کے صدر نواف سلام نے رفح میں انسانی صورتحال کو تباہ کن قرار دیتے ہوئے اسرائیل کو رفح پر حملہ نہ کرنے کا حکم دیا ہے۔

    عالمی عدالت نے جنوبی افریقا کی جانب سے اسرائیل کو رفح پر حملہ سے روکنے کے لیے دائر درخواست پر فیصلہ سنایا۔

    29 دسمبر 2023 کو جنوبی افریقا نے عالمی عدالت انصاف میں درخواست دی تھی جس میں غزہ کی پٹی میں فلسطینیوں کی نسل کشی کا الزام لگایا گیا تھا پھر جنوبی افریقا کی جانب سے نئی درخواست بھی دائرکی گئی تھی جس میں اسرائیل کے رفح آپریشن کو رکوانے کا مطالبہ کیا گیا۔

    درخواست میں ترکیہ، مصر اور کولمبیا بھی اسرائیل کے خلاف فریق بن چکے ہیں۔

    عالمی عدالت نے حملے روکنے اور تحقیقات کا فیصلہ 13-2 کی اکثریت سے سناتے ہوئے حکم دیا کہ غزہ میں نسل کشی کی تحقیقات کرائی جائیں اور یہ تحقیقات اقوام متحدہ کرے۔

  • عالمی عدالت کا اسرائیل کے خلاف فیصلہ، سعودی عرب کا اہم بیان

    عالمی عدالت کا اسرائیل کے خلاف فیصلہ، سعودی عرب کا اہم بیان

    سعودی عرب کی جانب سے رفح میں اسرائیلی فوجی آپریشن روکنے کے عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) کے فیصلے کا خیر مقدم کیا گیا ہے۔

    غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق سعودی وزارت خارجہ کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ عالمی عدالت انصاف کا فیصلہ فلسطینیوں کے اخلاقی اور قانونی حق کی جانب مثبت قدم ہے۔

    سعودی وزارت خارجہ کے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ اس قسم کے عالمی فیصلوں میں تمام فلسطینی علاقوں کو شامل کیا جانا چاہیے۔

    واضح رہے کہ عالمی عدالت انصاف کے صدر نواف سلام نے رفح میں انسانی صورتحال کو تباہ کن قرار دیتے ہوئے اسرائیل کو رفح پر حملہ نہ کرنے کا حکم دیا ہے۔

    عالمی عدالت نے جنوبی افریقا کی جانب سے اسرائیل کو رفح پر حملہ سے روکنے کے لیے دائر درخواست پر فیصلہ سنا دیا۔

    29 دسمبر 2023 کو جنوبی افریقا نے عالمی عدالت انصاف میں درخواست دی تھی جس میں غزہ کی پٹی میں فلسطینیوں کی نسل کشی کا الزام لگایا گیا تھا پھر جنوبی افریقا کی جانب سے نئی درخواست بھی دائرکی گئی تھی جس میں اسرائیل کے رفح آپریشن کو رکوانے کا مطالبہ کیا گیا۔

    درخواست میں ترکیہ، مصر اور کولمبیا بھی اسرائیل کے خلاف فریق بن چکے ہیں۔

    جوبائیڈن اور السیسی کا غزہ سے متعلق اہم فیصلہ

    عالمی عدالت نے حملے روکنے اور تحقیقات کا فیصلہ 13-2 کی اکثریت سے سناتے ہوئے حکم دیا کہ غزہ میں نسل کشی کی تحقیقات کرائی جائیں اور یہ تحقیقات اقوام متحدہ کرے۔

  • عالمی عدالت انصاف کے فیصلے سے چند گھنٹے قبل اسرائیل ایئر لائن کا جنوبی افریقہ کے خلاف متعصبانہ قدم

    عالمی عدالت انصاف کے فیصلے سے چند گھنٹے قبل اسرائیل ایئر لائن کا جنوبی افریقہ کے خلاف متعصبانہ قدم

    تل ابیب: عالمی عدالت انصاف کے فیصلے سے چند گھنٹے قبل اسرائیل ایئر لائن نے جنوبی افریقہ کے خلاف متعصبانہ قدم اٹھاتے ہوئے پروازیں معطل کرنے کا اعلان کر دیا۔

    غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق اسرائیل ایئر لائن نے جنوبی افریقہ کے لیے پروازیں معطل کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے، اسرائیلی فضائی کمپنی ای ایل نے کہا کہ وہ اندرون ملک اور دیگر مقامات کے لیے اسرائیلی مسافروں میں نمایاں کمی کے باعث جنوبی افریقہ کے لیے براہ راست پروازیں بند کر دے گی۔

    اے ایف پی کے مطابق اسرائیل ایئرلائنز کے بیان میں کہا گیا ہے کہ مارچ 2024 کے آخر میں جوہانسبرگ سے تل ابیب روٹ پر تمام پروازیں معطل کر دی جائیں گی۔ فضائی کمپنی کی جانب سے یہ اعلان انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس کی جانب سے غزہ میں مبینہ نسل کش کارروائیوں پر اسرائیل کے خلاف پریٹوریا کے مقدمے کا ابتدائی فیصلہ جاری ہونے سے چند گھنٹے قبل سامنے آیا ہے۔

    ایئر لائن کی ویب سائٹ کے مطابق آخری پرواز تل ابیب سے جوہانسبرگ کے لیے 27 مارچ کو روانہ کی جائے گی۔ واضح رہے کہ اسرائیل اور حماس کے مابین جنگ شروع ہونے کے بعد 7 اکتوبر سے متعدد بین الاقوامی ایئر لائنز نے تل ابیب کے لیے پروازیں معطل کر دی ہیں اور متعدد ممالک نے شہریوں کو اسرائیل کا سفر کرنے سے خبردار کیا ہے۔

    عالمی عدالت انصاف کے عبوری فیصلے کے باوجود اسرائیل نے غزہ میں بمباری تیز کر دی

    بین الاقوامی میڈیا کا کہنا ہے کہ عالمی عدالت انصاف میں جنوبی افریقہ کی جانب سے پیش کیے جانے والے مقدمے نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو نمایاں طور پر کشیدہ کر دیا ہے۔ عالمی عدالت انصاف نے اپنے عبوری فیصلے میں اسرائیل کو غزہ میں نسل کشی کی کارروائیاں روکنے کے لیے اقدامات کرنے کا حکم دے دیا ہے، عدالت نے یہ بھی کہا کہ اسے اسرائیل کے خلاف جنوبی افریقہ کے دائرہ کردہ نسل کشی کے مقدمے میں فیصلہ کرنے کا دائرہ اختیار حاصل ہے۔

  • عالمی عدالت انصاف کے عبوری فیصلے کے باوجود اسرائیل نے غزہ میں بمباری تیز کر دی

    عالمی عدالت انصاف کے عبوری فیصلے کے باوجود اسرائیل نے غزہ میں بمباری تیز کر دی

    غزہ: عالمی عدالت انصاف کے عبوری فیصلے کے باوجود اسرائیل نے غزہ میں بمباری تیز کر دی ہے۔

    الجزیرہ کے مطابق عالمی عدالت انصاف نے اسرائیل کو غزہ میں نسل کشی کی کارروائیاں روکنے کے لیے اقدامات کرنے کا حکم دے دیا ہے، تاہم صہیونی ریاست نے اس کے برخلاف غزہ پر بمباری اور تیز کر دی ہے۔

    اپنے انتہائی متوقع عبوری فیصلے میں عدالت نے یہ بھی کہا کہ اسے اسرائیل کے خلاف جنوبی افریقہ کے دائرہ کردہ نسل کشی کے مقدمے میں فیصلہ کرنے کا دائرہ اختیار حاصل ہے، تاہم عدالت نے اپنے فیصلے میں اسرائیل سے فوری جنگ بندی کا مطالبہ نہیں کیا۔

    ادھر غزہ کی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران محصور علاقے میں 174 فلسطینی شہید اور 310 زخمی ہوئے ہیں، جنوبی غزہ میں اسپتالوں پر حملے جاری ہیں، خان یونس میں ناصر اسپتال مکمل طور پر بجلی سے محروم ہے، جب کہ رفح میں ایک رہائشی مکان پر حملے میں 3 فلسطینی شہید ہو گئے۔

    ویڈیو: فلسطینیوں کی نسل کشی اور ہولوکاسٹ، اسکائی نیوز کو معافی مانگنی پڑ گئی

    7 اکتوبر سے غزہ پر اسرائیلی حملوں میں کم از کم 26,257 فلسطینی شہید اور 64,797 زخمی ہو چکے ہیں۔

  • عالمی عدالت انصاف میں اسرائیل کیخلاف مقدمہ، فیصلہ آج سنایا جائے گا

    عالمی عدالت انصاف میں اسرائیل کیخلاف مقدمہ، فیصلہ آج سنایا جائے گا

    غزہ میں نسل کشی پر اسرائیل کے خلاف مقدمے کی درخواست، عالمی عدالت انصاف جنوبی افریقاکی درخواست پر آج فیصلہ سنائے گی۔

    غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق آئی سی جے کا سترہ ججوں پر مشتمل پینل اسرائیل کے خلاف درخواست کا فیصلہ سنائے گا، فیصلہ پاکستانی وقت کے مطابق شام پانچ بجے سنایا جائے گا۔

    جنوبی افریقا کی درخواست میں کہا گیا ہے کہ عدالت قرار دے کہ اسرائیل غزہ میں نسل کشی کنونشن کی خلاف ورزی کر رہا ہے، عدالت اسرائیل کوغزہ میں فوجی آپریشن بند کرنے کا حکم دے۔

    جنوبی افریقا کی اپیل پر سماعت گیارہ اور بارہ جنوری کودی ہیگ میں ہوئی تھی، جنوبی افریقہ نے وکلا نے سماعت کے دوران دنیا بھر کے سامنے صہیونی فوج کا مکروہ چہرہ بے نقاب کیا تھا۔

    ترجمان حماس اسامہ ہمدان کا کہنا ہے کہ عالمی عدالت نے سیز فائر کا حکم دیا تو عمل کریں گے، بشرط یہ کہ اسرائیل کو بھی پابند کیا جائے۔

    ایران خطے میں جارحانہ اقدامات کررہا ہے، امریکی محکمہ خارجہ

    ترجمان حماس کے مطابق تمام فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے بدلے دشمن کے قیدی بھی رہا کرنے کو تیار ہیں۔واضح رہے کہ فیصلہ پاکستانی وقت کے مطابق شام پانچ بجے سنایا جائے گا۔

  • ترکیہ نے عالمی عدالت انصاف میں اسرائیل کیخلاف مزید ثبوت پیش کردیئے

    ترکیہ نے عالمی عدالت انصاف میں اسرائیل کیخلاف مزید ثبوت پیش کردیئے

    ترکیہ کی جانب سے اسرائیل کے خلاف نسل کشی کے مقدمے کے ثبوت عالمی عدالت انصاف کے روبرو پیش کر دیے گئے۔

    بین الاقوامی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ فلسطینی شہریوں کے خلاف نسل کشی کے ارتکاب کے الزام میں اقوامِ متحدہ کی بین الاقوامی عدالت انصاف میں اسرائیل کے خلاف جنوبی افریقا کی طرف سے دائر مقدمے کے لیے دستاویزات جمع کرائے ہیں۔

    ترک صدر نے استنبول میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ترکیہ غزہ پر اسرائیلی حملوں کے بارے میں دستاویزات میں زیادہ تر تصاویر فراہم کرتا رہے گا۔

    ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان کا کہنا تھا کہ مجھے یقین ہے کہ عالمی عدالت میں اسرائیل کو سزا سنائی جائے گی، ہم بین الاقوامی عدالت انصاف کے انصاف پر یقین رکھتے ہیں۔

    اُنہوں نے امید ظاہر کی ہے کہ ترکیہ کی طرف سے جمع کرائے گئے دستاویزات سے جنوبی افریقا کے کیس کو تقویت ملے گی۔

    اسرائیلی فوج کی غزہ پر بمباری، مزید 151 فلسطینی شہید

    یاد رہے کہ عالمی عدالت انصاف میں رواں ہفتے فلسطینیوں کے قتلِ عام پر اسرائیل کے خلاف جنوبی افریقا کی درخواست پر سماعت منعقد کی گئی تھی۔

  • عالمی عدالت انصاف میں جنوبی افریقہ کے وکلا نے اسرائیلی جارحیت بے نقاب کر دی

    عالمی عدالت انصاف میں جنوبی افریقہ کے وکلا نے اسرائیلی جارحیت بے نقاب کر دی

    دی ہیگ: عالمی عدالت انصاف میں جنوبی افریقہ کے وکلا نے اسرائیلی جارحیت بے نقاب کر دی ہے، وکلا نے اسرائیلی فورسز کی نسل کشی کی ویڈیوز بھی دکھائیں، جن پر اسرائیلی وکلا کی ٹیم حیران ہو گئی۔

    غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق آج عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) میں فلسطینیوں کی صہیونی فورسز کے ہاتھوں نسل کشی کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی، جنوبی افریقہ کے وکلا نے اسرائیلی جارحیت کو بے نقاب کیا، اسرائیلی فورسز کی غزہ میں بمباری کی ویڈیوز دیکھ کر اسرائیلی وکلا کی ٹیم حیران ہو گئی۔

    جنوبی افریقی وکیل نے کہا اسرائیلی فوجی غزہ میں اپنے وزیر اعظم کی سوچ پر عمل کر رہے ہیں، اس عدالت کے حکم کے سوا کوئی چیز غزہ کے لوگوں کی تکلیف کو نہیں روک سکتی، اس عدالت کے پاس اسرائیل کی غزہ میں نسل کشی کے 13 ہفتوں کے ثبوت موجود ہیں، غزہ میں نہ بجلی ہے، نہ پانی، نہ صحت کی سہولیات ہیں، اسرائیل نے غزہ والوں سے سب چھین لیا ہے۔

    وکیل نے کہا اسرائیلی وزیر اعظم نے غزہ میں جنگ کا اعلان کیا اور غزہ کو لوگوں کے لیے جہنم بنا دیا، غزہ میں لوگوں کے لیے ہر جگہ موت ہے، غزہ والے یا تو بھوک اور پیاس یا بمباری کا نشانہ بن رہے ہیں۔

    واضح رہے کہ عدالت میں سماعت شروع ہوئی تو فلسطینی وزارت خارجہ کی ٹیم بھی وہاں موجود تھی، عالمی عدالت انصاف کے جج نے جنوبی افریقہ کی درخواست پڑھ کر سنائی، بعد ازاں وکیل جنوبی افریقہ نے کہا اسرائیل نے 96 روز سے غزہ کو بدترین بمباری کا نشانہ بنایا ہوا ہے، اور غزہ میں نسل کشی کے کنوشن کی خلاف ورزی کر رہا ہے، یہ عالم ہے کہ غزہ میں کوئی جگہ محفوظ نہیں ہے۔

    وکیل نے کہا اسرائیلی حملوں میں اب تک 23 ہزار فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جہاں لوگ جاتے ہیں وہاں بمباری کا نشانہ بنائے جاتے ہیں، غزہ میں اسرائیل نے اسکول، اسپتال، پناہ گزین کیمپوں میں بمباری کی، اسرائیلی بمباری سے اتنے لوگ شہید ہو چکے کہ انھیں دفنانے کے لیے اجتماعی قبریں بنائی جا رہی ہیں، اسرائیل نے غزہ میں نسل کشی کی انتہا کر دی ہے، نسل کشی کی مثال دھمکیاں دے کر علاقے خالی کرانا ہے، اسرائیلی فورسز نے غزہ کے شہریوں کو شمال سے جنوب جانے کے لیے 24 گھنٹے کا وقت دیا۔

    وکیل نے کہا اس سے بڑھ کر نسل کشی کیا ہو سکتی ہے کہ آئی سی یو میں موجود نومولود کو وینٹی لیٹر سے ہٹایا گیا، اسرائیل نے غزہ میں جو تباہی مچائی فوجیوں نے اس پر جشن منایا، اسرائیلی فوجیوں نے غزہ میں علاقوں کو کھنڈر بنا کر اپنے پرچم لہرائے، اسرائیلی فوجی سرعام غزہ میں عمارتیں بم سے اڑاتے ہوئے ویڈیوز بناتے رہے۔

    وکیل نے کہا اسرائیل کے غزہ میں اقدامات نسل کشی کے کنونشن کی خلاف ورزی کرتے ہیں، غزہ میں صورت حال ناقابل برداشت ہے، اسرائیل منظم طریقے سے نسل کشی کر رہا ہے، جبری بے دخلی، بمباری، شیلنگ، چھاپا مار کارروائیاں کی جا رہی ہیں، اور اسرائیل کی اس نسل کشی کا مقصد اس کے جارحانہ اقدام سے واضح ہیں۔