Tag: عالمی یوم اساتذہ

  • ریٹائرڈ اساتذہ، چند معروضات

    ریٹائرڈ اساتذہ، چند معروضات

    صمد! شبیر صاحب یاد ہیں تمہیں؟

    شبیر صاحب؟ یاد کیسے نہیں۔ بھائی رؤف اُن کو بھول سکتے ہیں بھلا؟ اچھا پڑھاتے تھے لیکن اب تو سٹھیا گئے ہیں۔ اچھا ہی ہُوا ریٹائر ہو گئے۔“

    ہاں یہ تو ہے صمد! لیکن یار! اخلاق صاحب کی کیا بات ہے۔ ان کا علم بھی کمال کا ہے اور ریٹائرمنٹ کے دس برس بعد بھی مجھ سمیت کئی شاگرد آج تک ان کے علم سے فیض اُٹھا رہے ہیں۔“

    بے شک لیکن دلدار صاحب کی سبکدوشی کا مجھے بڑا ملال ہے۔ علم کا سمندر ہیں۔ چوراسی برس کی عمر میں بھی اُن کا جذبہ جوان ہے۔ مجھ جیسے کئی نئے اساتذہ اُن کے علم اور تجربے سے استفادہ کریں اس سے بڑھ کر ہماری خوش بختی اور کیا ہوگی؟ لیکن کاش ایسی کوئی سہولت ہو کہ ہم دلدار صاحب جیسے لائق اور مخلص استاد سے فیض اُٹھا سکیں۔“

    یہ مختصر حکایتیں تھیں سبکدوش ہوجانے والے اساتذہ کے متعلق جو ہمیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتی ہیں۔

    بلا شبہ یہ معاملات بھی بہت عجیب وغریب ہوتے ہیں۔ ہم نے تو ایسے اساتذہ بھی دیکھے ہیں جن کی ذہنی تھکن اُن کی طبعی عمر کو شکست دے دیتی ہے اور وہ تدریسی اُمور میں مصروف رہ کر خود کو بھی ہلکان کرتے ہیں اور اپنے شاگردوں کی بیزاری اور پریشانی میں بھی اضافہ بھی کرتے ہیں، مگر سب اساتذہ ایسے نہیں ہوتے۔ بلاشبہ ایک اچھا استاد اپنی ذات میں علمی و تہذیبی ادارہ ہوتا ہے، لیکن بدقسمتی سے اس مقام سے محروم ہے جو اس کا حق بنتا ہے۔ سبکدوشی کے بعد پنشن کی صورت اساتذہ کو معاشی تحفظ تو ضرور مل جاتا ہے لیکن اس کے لیے ان کو کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں یہ ایک الگ داستان ہے اور حد درجہ اذیت ناک ہے۔

    اساتذہ کے ساتھ ناانصافیاں بھی خوب ہوتی ہیں اور اُن کی اہمیت کو تسلیم بھی کیا جاتا ہے لیکن جب سے علم کے متوالوں کی بہ نسبت جہل کے رکھوالوں کی تعداد میں اضافہ ہُوا ہے، معاشی تحفظ تو بڑی بات ہے، ان اساتذہ کو جان کے لالے پڑ جاتے ہیں لیکن وہ خلوصِ نیّت اور اسی ذوق و شوق سے تدریسی عمل کو جاری رکھتے ہیں۔ ہمارا یہ اثاثہ بہر صورت محفوظ رہنا چاہیے مگر کس طرح؟ اس سوال کے ساتھ ہی ہمیں سبکدوش ہونے والے اساتذہ کا خیال آگیا جن کے وسیع تدریسی تجربے، علم اور اپنے مضمون پر دسترس نے اُن کی علمی استعداد کو مزید جلا بخشی ہے۔ ایسے میں وہ محض ایک اصول کی بنیاد پر سبکدوش کر دیے جاتے ہیں، جسے اُن کے ساتھ ہی نہیں اُن کے شاگردوں کے ساتھ بھی زیادتی کہا جاسکتا ہے، جو اُن سے فیض حاصل کرنا چاہتے ہیں اور استفادہ کررہے ہیں۔ اس صورت حال کے پیشِ نظر حکومت کو اپنے وضع کردہ اُصول میں نرمی کر کے اساتذہ کی سبکدوشی کی عمرمیں توسیع اور عمر کی حد متعین کرنے پر نہ صرف غور کرنا چاہیے بلکہ کچھ ایسے مستحسن عملی اقدامات بھی کرنے ضروری ہیں کہ اساتذہ تادیر علم کی ترسیل کامیابی سے جاری رکھیں اور نئے اساتذہ کی تربیت اور رہنمائی کا فریضہ بھی خوش اسلوبی سے سر انجام دیتے رہیں۔ وہ اساتذہ جو اپنے منصب کے صحیح حق دار اور اپنے پیشے سے مخلص ہوتے ہیں وہ اپنا علمی اثاثہ کس صورت محفوظ کر سکتے ہیں؟ اس سوال کے ساتھ ہی چند اور سوال بھی دستک دیتے ہیں کہ

    جب اساتذہ کا تجربہ اُنھیں کندن بنا دیتا ہے تب اُن کو سبکدوش کر دیا جاتا ہے، کیا یہ حکمتِ عملی درست ہے؟

    کیا کسی ایسے ادارے کا قیام ضروری ہے جہاں نئے آنے والے اساتذہ اپنی ذمہ داریوں‌ سے سبکدوش ہونے والے اساتذہ کے علم اور ان کے تدریسی تجربے سے استفادہ کرسکیں؟

    اس موضوع کے انتخاب کا بنیادی مقصد ریٹائر ہونے والے اساتذہ کے مسائل کی نشان دہی اور اُن کے حل کی جانب اربابِ اختیار کی توجہ مبذول کروانا ہے۔ وہ مسائل جن سے کبھی دانستہ، کبھی نادانستہ اور کبھی مجبوریوں کی طویل فہرست بنا کر صرفِ نظر کیا جاتا ہے۔ ایسے اساتذہ جو اپنے پیشے سے مخلص ہوتے ہیں اور اپنی عمرِ عزیز کا بڑا حصہ تدریس اور علمی سرگرمیوں میں صرف کر دیتے ہیں اُن کو وہ تمام مراعات حاصل ہونی چاہییں جو اُن کا حق بنتا ہے۔ جس طرح قلم کار زندگی کی آخری سانسوں تک اپنے منصب پر فائز رہتا ہے اسی طرح سبکدوشی کے باوجود اساتذہ کے علمی فیض کا چشمہ تاحیات بہتا رہتا ہے اور تشنگانِ علم سیراب ہوتے رہتے ہیں۔ ریٹائرمنٹ کی عمر میں پہنچنے تک استاد کی علمی استعداد بڑھ جاتی ہے اور سالہا سال کے مسلسل تدریسی عمل کے سبب نہ صرف تجربے اور صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ اپنے مضمون میں لگن اور دل چسپی بھی بڑھ جاتی ہے۔ ریٹائرڈ اساتذہ کے ذوق و شوق کو دیکھتے ہوئے حکومت کو چند ایسے مستحسن اقدامات ضرو ر کرنے چاہییں جن کی بدولت سبکدوشی کے باوجود لائق اساتذہ پورے وقار اور اعزاز کے ساتھ فعال زندگی بسر کرسکیں اور ان روشن دماغوں سے مزید کئی اذہان روشن ہوسکیں۔

    تحریر:‌ شائستہ زرّیں

  • بائیک پر طویل سفر کر کے فرائض کی انجام دہی کرنے والی معلمہ

    بائیک پر طویل سفر کر کے فرائض کی انجام دہی کرنے والی معلمہ

    لاہور: آج دنیا بھر میں جہاں اساتذہ کا عالمی دن منایا جارہا ہے وہیں ایک پاکستانی خاتون استاد آج کے دن سے بے نیاز اپنے فرائض کی انتھک تکمیل میں مشغول ہیں۔

    سنہ 1994 سے آغاز کیے جانے والے اس دن کو منانے کا مقصد استاد کی عظمت کا اعتراف کرنا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ یونیسکو کے زیر اہتمام یہ دن اساتذہ کے نام کیا گیا تاکہ انہیں خراج تحسین پیش کیا جاسکے۔

    پاکپتن سے تعلق رکھنے والی فریدہ پروین ایک مقامی اسکول میں معلمہ کے فرائض انجام دے رہی ہیں۔ لیکن ٹہریئے، بات اتنی سادہ نہیں جتنی نظر آرہی ہے، فریدہ ہر روز اپنے گھر سے اسکول پہنچنے کے لیے 35 کلو میٹر کا سفر طے کرتی ہیں، اور یہ سفر وہ موٹر سائیکل پر طے کرتی ہیں۔

    پاکستان میں جہاں بڑے شہروں میں کبھی کبھار خواتین بائیک چلاتی نظر آجاتی ہیں، وہاں ایک چھوٹے سے شہر میں خاتون کا بائیک چلانا ایک نہایت حیرت انگیز اور معیوب بات تھی۔

    مزید پڑھیں: بائیک پر ایسا سفر جس نے زندگی بدل دی

    فریدہ اور بائیک کا ساتھ کافی پرانا ہے۔ پاکپتن ڈاٹ سجاگ کے مطابق پاکپتن کے نواح میں واقع ان کے گاؤں بہاول میں موجود اسکول صرف پرائمری تک تھا لیکن اس کو جواز بنا کر فریدہ نے اپنی تعلیم کو خیرباد نہیں کہا۔ انہوں نے اپنے والد کی بائیک پر گاؤں سے دور ہائی اسکول جانا شروع کردیا۔ اسی طرح ایک لمبا سفر کر کے انہوں نے اعلٰ تعلیم حاصل کی۔

    فریدہ کو معلمہ بننے کا بچپن سے شوق تھا۔ وہ عام لڑکیوں کی طرح اپنی تعلیم مکمل کر کے گھر بیٹھ کر اسے ضائع نہیں کرنا چاہتی تھیں۔ وہ یہ بھی چاہتی تھیں کہ اپنے نواحی گاؤں میں نئی نسل کی علم کی پیاس کو سیراب کریں۔

    فریدہ سنہ 2014 سے گورنمنٹ گرلز پرائمری اسکول رام پور میں تدریس کے فرائض سرانجام دے رہی ہیں۔

    وہ بتاتی ہیں، ’موٹر سائیکل چلانے کی وجہ سے ابتدا میں لوگوں نے بہت باتیں بنائیں اور ہمارے گھرانے کو عجیب و غریب نگاہوں اور باتوں کا سامنا کرنا پڑا، لیکن میں نے ان تمام رویوں کو نظر انداز کیا۔ آج وہی لوگ اپنی بچیوں کو میرے پاس پڑھنے کے لیے بھیجتے ہیں‘۔

    فریدہ کے اس ان تھک سفر میں انہیں ان کے گھر والوں اور والدین کی مکمل حمایت حاصل ہے۔

    مزید پڑھیں: صنفی تفریق کو للکارتی مصر کی خواتین بائیکرز

    ان کے والد خود تو مڈل پاس ہیں لیکن انہیں جنون ہے کہ ان کی اولاد تعلیم حاصل کرے۔ فریدہ کا ایک بھائی انٹر میڈیٹ جبکہ دوسرا بی ایس سی انجئینرنگ کا طالب علم ہے۔ ان کی سب سے چھوٹی بہن کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج سے ڈینٹسٹ کی تعلیم حاصل کر رہی ہے۔

    فریدہ اپنی تنخواہ سے اپنے بہن بھائیوں کے تعلیمی اخراجات پورے کرنے میں بھی اپنے والد کی مدد کرتی ہیں۔

    فریدہ کا عزم ہے کہ پاکپتن جیسے غیر ترقی یافتہ شہر میں وہ لڑکیوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کریں تاکہ وہ بھی بڑی ہو کر ایک اور فریدہ پروین بن سکیں۔