Tag: عالمی یوم اطفال

  • عالمی یومِ‌ اطفال:‌ "ہمارا کوئی مستقبل نہیں ہے!”

    عالمی یومِ‌ اطفال:‌ "ہمارا کوئی مستقبل نہیں ہے!”

    پھول اور بچّے کسے اچھے نہیں لگتے؟ دونوں ہی دل میں امنگوں اور آرزوؤں کو فروزاں رکھتے ہیں، بقول شاعر

    مجھے بچّوں کی آنکھوں میں وہ سارے رنگ ملتے ہیں
    جنھیں چھونے سے آئے زندگی کی خواہشیں کرنا

    جس طرح باغباں کی عدم توجہی سے پھول مرجھانے لگتے ہیں بالکل ایسے ہی والدین اور اساتذہ کی عدم دل چسپی، بے توجہی، سماجی ناہمواری بچّوں سے معصومیت اور خود اعتمادی چھین لیتی ہے۔ اس کی جگہ تفکرات لے لیتے ہیں۔

    کیا عجب عہد ہے کہ بچّے بھی
    بولتے کم ہیں سوچتے ہیں بہت

    بے فکری اور معصومیت جب نو عمری ہی میں بچّوں سے چھن جائے، تب حساس دل، بیدار مغز اور روشن ضمیر اس دُکھ کو اپنے اندر تک اُترتا محسوس کرتے ہیں۔جنگِ عظیم اوّل اور دوم سے جو تباہی آئی ان کے متاثرین میں ایک بڑی تعداد بچّوں کی بھی تھی، وہ بچّے جن کے دَم سے گھروں ہی میں نہیں دلوں میں بھی رونق اور روشنی سی پھیل جاتی ہے۔ جنگوں کے اثرات سے یہی بچّے مختلف النوع مسائل اور بیماریوں میں گھر گئے تھے۔

    اقوامِ متحدہ کے 1992ء کے جنرل اسمبلی کے اجلاس میں 20 نومبرکو عالمی یومِ اطفال منانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ یوں بچّوں کا عالمی دن آج بھی منایا جاتا ہے۔ اس موقع پر بچّوں کے حقوق سے متعلق آگاہی دی جاتی ہے اور ورکشاپس اور سیمینارز کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ بچّوں کی فلاح و بہبود کے نعرے تو بہت لگتے ہیں لیکن جب مختلف ممالک بالخصوص پسماندہ ملکوں کی سالانہ جائزہ رپورٹیں‌ سامنے آتی ہیں‌ تو افسوس ہوتا ہے۔ بچّوں کے مسائل ہیں کہ روز بہ روز بڑھتے چلے جا رہے ہیں اور وسائل اتنے محدود کہ مسائل کا حل بھی دشوار ہے۔

    دنیا کے مختلف ممالک میں 15 سال سے کم عمر بچّوں کی کثیر تعداد تعلیم، صحت اور غذا سے محروم ہے۔ بھوک اور افلاس کے مارے، دل گرفتہ اور نفسیاتی الجھنوں کا شکار والدین اپنے بچّوں کو فروخت اور قتل کر رہے ہیں۔ غربت کے نتیجے میں گداگر اور محنت کش بچّوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ روشنی ہیلپ لائن کی ایک تحقیق کے مطابق ”ایک سال سے پانچ برس کی عمر کے بچّے گداگر مافیا کا زیادہ نشانہ بنتے ہیں۔

    میرا بھی جی چاہتا ہے میں بھی
    مدرسے جاؤں
    میں اپنے مکتب کے
    سارے بچوں کے ساتھ مل کر
    سبق سناؤں
    جو گیت نغمے کتاب میں ہیں
    وہ گنگناؤں
    مگر یہ سب کچھ میرے نصیبوں میں
    کب لکھا ہے
    میں ایک مفلس غریب ہوں اور
    دکھوں کی دہلیز
    گھر ہے میرا
    اسی سڑک پر بسر ہے میرا
    میں روز وشب اسی سڑک کنارے
    کھڑی ہوئی
    بھیک مانگتی ہوں
    (نظم: اداس بچّی، شاعر سلیمؔ مغل)

    دربدری، جھڑکیاں اور ذلّت و خواری ان گداگر بچّوں کا نصیب بنتی ہے۔

    ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان بچّوں سے جبری مشقت کرانے والے ممالک میں تیسرے نمبر پر ہے۔ سرکاری اور مختلف تنظیموں کے اعداد و شمار کو دیکھیں‌ تو پاکستان میں محنت کش بچّوں کی تعداد ایک کروڑ 25 لاکھ سے زائد بتائی جاتی ہے جن میں تقریباً 50 لاکھ بچّوں کی عمریں 10 سے 14 برس کے درمیان ہیں۔ 9 برس سے کم عمر بچّے ہزاروں کی تعداد میں چائلڈ لیبر کی وجہ سے اپنی صحت ہی نہیں بچپن بھی گنوا رہے ہیں لیکن کوئی پرسانِ حال نہیں۔ حقوقِ اطفال کی ایک شق کے تحت 14 سال سے کم عمر بچّوں کو فیکٹریوں، معدنی کانوں، تعمیراتی کاموں اور دیگر خطرناک ملازمتوں پر نہیں رکھا جاسکتا، لیکن پاکستان کی گھریلو صنعتوں میں محنت کش بچوں کی کثیر تعداد چوڑی، قالین بافی کی صنعت، بجلی کے آلات کی مدد سے پیکنگ اور ایسے ہی دیگر کام کررہی ہے۔ اس کے علاوہ شاہراہوں، ہوٹلوں، ورکشاپس وغیرہ میں بھی محنت کش بچے نظر آتے ہیں۔

    ان ہی بھکاری اور محنت کش بچوں میں سے بعض بچّے جرائم کا راستہ اپنا لیتے ہیں۔ پاکستان میں جسمانی و ذہنی تشدد کے علاوہ بچّے جنسی تشدد کا شکار بھی ہیں۔ انھیں تحفظ دینا حکومت کام ہے اور اس میں معاشرے کو بھی کردار ادا کرنا چاہیے۔

    دوسری طرف وہ والدین اور سرپرست ہیں جو بچّوں‌ سے منفی سلوک کرتے ہیں اور ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرتے ہوئے اور ان کی راہ نمائی کرنے کے بجائے ان پر حکم صادر کرتے ہیں یا بچّوں پر اپنی مرضی مسلط کرتے ہیں جیسا کہ تعلیم کے دوران مضامین کے انتخاب کا معاملہ ہے۔ اگر والدین بچّوں کو نرمی سے سمجھائیں اور قائل کرنے کی کوشش کریں‌ اور ان کی بات سنیں تو یقیناً بچّے پُراعتماد بھی ہوں گے اور ان میں‌ زندگی اور اس سے متعلق فیصلے کرنے کا شعور بھی پیدا ہوگا۔ ایسے بچّے عملی زندگی میں زیادہ کام یاب ہوسکتے ہیں اور بہترین شہری بھی ثابت ہوتے ہیں۔

    گزشتہ چند برسوں سے بچّوں کے کھیل کود اور تفریحی سرگرمیاں یا مشاغل میں بہت واضح تبدیلی آئی ہے جس کا براہِ راست اثر ان کی شخصیت پر پڑ رہا ہے۔ اب سے کچھ عرصے پہلے تک بچّے ایسی جسمانی اور دماغی سرگرمیاں‌ انجام دے سکتے تھے جس سے ان کی صحت کے ساتھ ذہنی و اخلاقی تربیت بھی ہوتی۔ بچوں کے کھیل اور مشاغل تفریح کے ساتھ ساتھ انہیں تعمیری سوچ اور مثبت طرزِ عمل سکھاتے تھے۔ نتیجے میں بہت سی کامیابیاں ان کے حصے میں آتیں۔ لیکن اب بچّے تن آسانی کا شکار ہو رہے ہیں۔ نہ وہ پہلی سی پھرتی رہی نہ خوش دلی۔ بالکل سامنے کی بات ہے کہ والدین نے بچّوں کو موبائل فون اور انٹرنیٹ کی دنیا میں چھوڑ کر خود کو اپنی مصروفیات میں گم کر لیا ہے۔ یہ تک دیکھنا گوارا نہیں کرتے کہ بچے کس نوعیت کے کھیلوں میں دل چسپی لے رہے ہیں؟ اور ان سے کیا سیکھ رہے ہیں؟ والدین بچّوں کی عادات اور رویوں میں تبدیلی سے متفکر تو نظر آتے ہیں لیکن اس پر غور نہیں‌ کرتے اور اپنا کردار بھی ادا نہیں‌ کر رہے، والدین اپنے بچوں کی جائز خواہشات کا احترام ضرور کریں، انہیں جدید ٹکینالوجی اور اشیاء و سہولتیں بھی مہیا کریں لیکن ساتھ ہی بچوں پر نظر بھی رکھیں اور ان کے معمولات میں دل چسپی لیں تاکہ یہ جاننا آسان ہو کہ وہ کیا سوچتے اور کیا کرنا چاہتے ہیں۔

    ایک بڑا المیہ یہ بھی ہے بچوں نے معلومات کے حصول کا ذریعہ موبائل اور انٹرنیٹ ہی کو سمجھ لیا ہے اور مطالعے سے ان کی دل چسپی باقی نہیں‌ رہی ہے۔ اچھی کتاب کا مطالعہ شخصیت کو نکھار دیتا ہے۔ بچوں میں کتب بینی کا شوق پیدا کرنا والدین اور اساتذہ کی ذمہ داری ہے۔ حکومت کو بھی چاہیے کہ اس ضمن میں اقدامات کرے۔

    قارئینِ کرام! حیرت انگیز امر یہ ہے کہ عالمی یومِ اطفال پر زور و شور سے بیانات دینے والوں کو اپنی مجرمانہ غفلت کا احساس تک نہیں کہ ہم ان معصوم بچوں کو کیا دے رہے ہیں؟ حقوق سے محرومی بچوں کی شخصیت کو کس طرح مسخ کر دیتی ہے یہ ہمیں سمجھنا ہوگا ورنہ بچّے کہہ سکتے ہیں کہ

    ہمارا حال ہم سے کہہ رہا ہے
    ہمارا کوئی مستقبل نہیں ہے

    (عالمی یومِ اطفال پر شائستہ زریں ؔ کی خصوصی تحریر)

  • بچےہمارے ملک کا سب سے قیمتی اثاثہ ہیں،بلاول بھٹو زرداری

    بچےہمارے ملک کا سب سے قیمتی اثاثہ ہیں،بلاول بھٹو زرداری

    کراچی : پیپلزپارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ بچےہمارے ملک کا سب سے قیمتی اثاثہ ہیں، بچوں کے لیے صحت و تعلیم کی سہولیات بہتربنانےکی ضرورت ہے۔

    تفصیلات کے مطابق پیپلزپارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کاعالمی یوم اطفال پر اپنے پیغام میں کہا کہ بچے ہمارے ملک کا سب سے قیمتی اثاثہ ہیں، ریاست اور والدین بچوں کوتحفظ اور آگے بڑھنےکے مواقع فراہم کریں۔

    بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ پیپلزپارٹی نے ہمیشہ بچوں کے تحفظ کے لیے انقلابی اقدامات کیے، پولیواوردیگر بیماریوں سے حفاظتی ویکسی نیشن کی شروعات کی گئی۔

    پی پی چیئرمین نے کہا کہ سندھ واحد صوبہ ہے جہاں انٹرمیڈیٹ تک تعلیم مفت ہے، طلباکی داخلہ و امتحانی فیس کے اخراجات سندھ حکومت اٹھاتی ہے۔

    انکا مزید کہنا تھا کہ بچوں کے لیے صحت و تعلیم کی سہولیات بہتربنانےکی ضرورت ہے۔

    خیال رہے کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں بچوں کا دن آج منایا جا رہا ہے، آزادی کے ستر سال بعد بھی پاکستان بھر میں دو کروڑ سےزائد بچے تاحال تعلیم سےمحروم ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • عالمی یوم اطفال: اپنے بچوں کی تربیت میں یہ غلطیاں مت کریں

    عالمی یوم اطفال: اپنے بچوں کی تربیت میں یہ غلطیاں مت کریں

    آج دنیا بھر میں بچوں کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ بچوں کی پرورش نہایت ہی توجہ طلب معاملہ ہے کیونکہ آپ کی تربیت ہی آگے چل کر کسی بچے کو معاشرے کے لیے اچھا یا برا انسان بنا سکتی ہے۔

    اکثر والدین بچوں کی تربیت میں کئی ایسی عادات کو اپنا لیتے ہیں جو دراصل بچوں کی شخصیت کو تباہ کرنے کا سبب بنتی ہیں اور والدین کو اس کا علم بھی نہیں ہو پاتا۔

    دراصل حد سے زیادہ بچوں کا خیال رکھنا اور انہیں کوئی گزند نہ پہنچنے دینے کا خیال بچوں کی شخصیت پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے اور یہ روک ٹوک بچپن کی سرحد سے گزرنے کے بعد آگے چل کر ان کی کامیابی کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔

    یہاں ہم والدین کی تربیت کے دوران کی جانے والی ایسی ہی کچھ غلطیاں بتا رہے ہیں جن سے تمام والدین کو پرہیز کرنا چاہیئے۔


    نئے تجربات سے روکنا

    بچوں کو کوئی نقصان نہ پہنچ جائے، والدین کا یہ خیال بچوں کو نئے تجربات کرنے سے روک دیتا ہے۔ جب بچے باہر نہیں کھیلتے، گرتے نہیں، اور انہیں چوٹ نہیں لگتی تو وہ حد سے زیادہ نازک مزاج یا کسی حد تک ڈرپوک بن جاتے ہیں۔

    بڑے ہونے کے بعد ان کی جڑوں میں موجود یہ خوف مختلف نفسیاتی پیچیدگیوں کی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں جو انہیں زندگی میں کئی مواقع حاصل کرنے سے روک دیتے ہیں۔


    بہت جلدی مدد کرنا

    بچپن یا نوجوانی میں جب بچے کسی مشکل کا شکار ہوتے ہیں تو والدین بہت جلد ان کی مدد کو پہنچ جاتے ہیں، یوں بچے ان مصائب کا سامنا کرنے سے محروم رہ جاتے ہیں جو ان کی صلاحیتوں میں نکھار پیدا کر سکتے ہیں۔

    والدین کی جذباتی، سماجی یا مالی مدد کی وجہ سے بچے خود انحصار نہیں ہو پاتے اور وہ نہیں سیکھ پاتے کہ کس طرح کے مشکل حالات سے کس طرح نمٹنا ہے۔ انحصار کرنے کی یہ عادت اس وقت بچوں کو بے حد نقصان پہنچاتی ہے جب وہ والدین کے بعد اکیلے رہ جاتے ہیں۔


    ہر طرح کی کارکردگی پر یکساں تاثرات

    اگر کہیں دو بچوں میں سے کوئی ایک کامیابی حاصل کرتا ہے، جبکہ دوسرا ناکام ہوجاتا ہے تو والدین یہ سوچ کر کہ کہیں ناکام ہونے والے بچے کا دل نہ ٹوٹ جائے، دونوں کو ایک سے تحائف دیتے ہیں اور ایک سی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔

    لیکن یہ طرز عمل دونوں بچوں کے لیے نقصان دہ ہے۔ ناکام ہونے والا بچہ اپنی ناکامی کو اہمیت نہیں دیتا کوینکہ وہ جانتا ہے کہ اسے ہر صورت میں اپنے کامیاب بھائی جیسی ہی سہولیات اور حوصلہ افزائی ملے گی۔

    دوسری طرف کامیاب ہونے والا بچہ بھی اپنی کامیابی کو اہمیت نہیں دیتا کیونکہ اسے لگتا ہے کہ اس کے والدین کے نزدیک اس کی کامیابی اور اس کے بھائی کی ناکامی میں کوئی فرق نہیں۔ یوں وہ محنت کرنا اور کچھ حاصل کرنا چھوڑ دیتا ہے۔


    اپنی ماضی کی غلطیاں نہ بتانا

    والدین اگر اپنے بچوں کو نقصان پہنچنے سے بچانا چاہتے ہیں تو انہیں نئے تجربے کرنے سے روکنے کے بجائے انہیں اپنے تجربات سے آگاہی دیں۔

    والدین نے خود اپنی نوجوانی میں جو سبق حاصل کیے اور جن غلطیوں کی وجہ سے نقصانات اٹھائے ان کے بارے میں اپنے بچوں کو ضرور بتائیں تاکہ وہ، وہی غلطیاں نہ دہرائیں۔


    ذہانت کو سمجھ داری سمجھنا

    اکثر والدین اپنے بچے کی خداد ذہانت کو ذہنی پختگی کی علامت سمجھتے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ ان کا بچہ ذہین ہے لہٰذا وہ خود ہی برے کاموں سے دور رہے گا اور اپنے اوپر آنے والی مشکلات کا خود ہی حل نکال لے گا۔

    یہ سوچ بالکل غلط ہے۔ کوئی بچہ کتنا ہی ذہین کیوں نہ ہو اسے اچھے اور برے کی تمیز سکھانے کے بعد ہی آئے گی۔ اگر آپ اسے سمجھ دار جان کر سمجھانا چھوڑ دیں گے تو ہوسکتا ہے وہ اپنی ذہانت کی بنا پر کسی برے کام کو فائدوں کا ذریعہ بنا لے۔


    قول و فعل میں تضاد

    بچوں کی تربیت کو خراب کرنے والی ایک عادت والدین کے قول و فعل میں تضاد بھی ہے۔ جب والدین بچوں کو بتاتے ہیں کہ سگریٹ نوشی اور الکوحل بری اشیا ہیں، لیکن وہ خود اس کا استعمال کرتے ہیں تو ظاہر ہے بچے ان کی بات کا کوئی اثر نہیں لیں گے۔

    یاد رکھیں بچوں کو معاشرے کے لیے کارآمد فرد اور انفرادی طور پر انہیں ایک کامیاب اور مضبوط شخصیت بنانے کے لیے ضروری ہے کہ والدین خود بھی اپنی عادات کو تبدیل کریں اور ایسی شخصیت بنیں جسے بچے اپنا آئیڈیل سمجھیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔