Tag: عالمی یوم کتب

  • خیالات کی جنگ میں کتابیں ہمارا ہتھیار ہیں!

    خیالات کی جنگ میں کتابیں ہمارا ہتھیار ہیں!

    کسی دانا کا قول ہے، "خیالات کی جنگ میں کتابیں ہمارا ہتھیار ہیں!” بلاشبہ کتابیں علم کا خزانہ اور علم ایک طاقت ہے۔ ایسی طاقت جس کے سامنے کوئی مطلق العنان، بڑے سے بڑا آمر، جابر اور ظالم حکم راں نہیں‌ ٹھہر سکا۔ یہی وہ خوف تھا جس نے ہر دور میں آمر اور مطلق العنان حکم رانوں کو مجبور کیا کہ علم پر ان کی اجارہ داری قائم رہے۔ ان ریاستوں میں‌ ذہن پر بندش اور فکر پر پہرے بٹھائے گئے اور مخصوص سوچ کے ساتھ ایسا معاشرہ تشکیل دیا گیا، جو اُن کے مفادات کا ضامن تھا۔ عظیم فلاسفر اور جلیل المرتبت معلّم سقراط کے بارے میں کون نہیں‌ جانتا جسے اس کی خرد مندی اور علم کے اظہار کی وجہ سے زہر کا پیالہ پینے پر مجبور کر دیا گیا۔

    آج عالمی یومِ کتب منایا جارہا ہے۔ اس حوالے سے بات کی جائے تو صدیوں پہلے اور آج بھی کتابوں پابندی عائد کی جاتی رہی ہے۔ اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے یہ طریقہ دنیا کی تاریخ کے کئی ادوار میں اپنایا گیا۔ بالخصوص درسی کتابوں پر پابندیاں یا مختلف ابواب میں تبدیلیاں مغربی اور یورپی ممالک میں کی جاتی رہی ہیں۔ جدید دور میں‌ روشن فکر اور علم دوست شخصیات نے بعض کتابوں کی مخالفت اور ریاستی سطح پر ان کی نشر و اشاعت پر پابندی کے ردعمل میں ایک دن ‘پڑھنے کی آزادی کا’ منانا شروع کیا۔ 1982ء سے امریکن لائبریری ایسوسی ایشن اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کے زیرِ اہتمام ہر سال یہ جشن منایا جاتا ہے۔ جب کہ اقوامِ متحدہ کے ادارے یونیسکو کے تحت 1995ء سے ہر سال باقاعدگی سے کتابوں اور کاپی رائٹس کا عالمی دن 23 اپریل کو منایا جا رہا ہے۔

    پاکستان میں بھی اب یہ دن منایا جاتا ہے، لیکن چند سال قبل تک اکثر لوگ اس سے لاعلم تھے۔ ایک خیال ہے کہ پاکستان میں مطالعہ اور کتب بینی کا رجحان بہت کم ہے، لیکن سوشل میڈیا پر ریڈرز کلب میں عام لوگوں‌ کی دل چسپی کے علاوہ کتب میلے، کتابوں کی اشاعت، ای بکس، آن لائن بکس اسٹور، موبائل بک اسٹورز جیسے نئے رجحانات بھی دیکھنے میں‌ آرہے ہیں۔

    اب ہم بات کرتے ہیں اُن چند کتابوں‌ کی جن کی نشر و اشاعت پر دنیا کے مختلف ممالک میں پابندیاں عائد کی گئیں۔

    آغاز کرتے ہیں‌ روس سے جو کبھی ایک بڑی طاقت رہا ہے۔ روس نے بادشاہت سے انقلاب اور پھر اپنے لخت لخت ہوجانے تک کئی بڑے ادیب اور مصنّف دنیا کو دیے۔ لیکن اس ملک میں بھی حکام کتابوں پر پابندی کی حکمتِ عملی پر کاربند رہے ہیں۔ بورس پاسترناک کا مشہورِ زمانہ ناول ڈاکٹر زواگو سنہ 1988 تک روس میں شائع نہیں ہو سکا تھا جس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ اس میں سوویت نظام پر کڑی تنقید کی گئی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ حکومت نے اس کتاب سے جس بات پر اتنی نفرت کی وہ بات اس کتاب میں اتنی تھی نہیں۔

    مغربی ممالک میں بھی کتابوں پر پابندی عائد کی جاتی ہے۔ برطانیہ میں کتابوں پر پابندی لگانے کے لیے اکثر مصنفین پر جنسی کج روی اور فحاشی کو یا مذہبی انتشار پھیلانے کا الزام لگایا جاتا رہا ہے۔ برطانیہ میں جیمز جوائس نے ’یولیسس‘ لکھتے ہوئے کہا تھا کہ ’پولیس سے قطع نظر، میں اپنے ناول میں سب کچھ ڈالنا چاہوں گا۔‘ سنہ 1922 سے سنہ 1936 تک ان کے کام پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ یہ ناول دنیا بھر میں جیمز جوائس کی وجہِ‌ شہرت بنا اور متنازع ثابت ہوا، لیکن ادبی دنیا میں اسے ایک شاہکار تصنیف مانا جاتا ہے۔ اس ناول پر فلمیں‌ بھی بنائی گئی ہیں۔

    جہاں تک مشہور برطانوی مصنف ڈی ایچ لارنس پر پابندیوں کا تعلق ہے تو وہ اپنی نوعیت کا خاص معاملہ تھا۔ ان کے تحریریں اکثر جنسی موضوع پر ہوتی تھیں اور کئی برس تک برطانوی پراسیکیوٹر کے دفتر کی طرف سے ڈی ایچ لارنس کے خلاف مہم جاری رہی۔ اس دوران ان کی کتاب ’رینبو‘ کو نذرِ آتش کیا گیا، ان کی نظموں کے مجموعے ’خیالات‘ کو ضبط کرنے کی کوششیں ہوتی رہیں۔ حد تو یہ ہے کہ لارنس کے خلاف انتقامی کارروائی ان کے مرنے کے بعد بھی جاری رہی۔ جب پینگوئن نے 1960 میں ’لیڈی چیٹرلیز لوور‘ شائع کیا تو اس کے ناشر کے خلاف بھی قانونی چارہ جوئی کی گئی۔

    امریکا کی بات کریں‌ تو شاید حیرت ہو کہ وہاں کتابوں پر پابندی کا رجحان بہت زیادہ رہا ہے۔ اس کے ساتھ امریکا میں سینسر شپ کی تاریخ خاصی طویل ہے۔ سینسر شپ کے اوّلین شکار میں سے ایک ہیریئٹ بیچر سٹو تھے جن کے 1852 کے ناول ’انکل ٹام کا کیبن‘ کو سینسر کر دیا گیا تھا۔ اسی طرح‌ جے ڈی سالنگر کی ’کیچر ان دی رائی‘ وہ کتاب تھی جس پر 1960 میں ایک استاد کی برطرفی کا حکم دیا گیا اور اسے سنہ 1980 میں ریاست شمالی ڈکوٹا اور کیلیفورنیا کے اسکولوں سے ہٹا دیا گیا تھا۔ مصنّف پر ناشائستہ اور فحش زبان استعمال کرنے کا الزام لگایا گیا تھا۔

  • عالمی یومِ کتاب: پاکستان میں کتب بینی کے رجحان میں کمی کیوں؟

    عالمی یومِ کتاب: پاکستان میں کتب بینی کے رجحان میں کمی کیوں؟

    آج دنیا کتابوں کا عالمی دن منا رہی ہے جس کا مقصد علم و ادب کا فروغ اور کتب بینی کا شوق پیدا کرنا ہے۔ اس دن مصنّفین کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے ان کی تخلیقات کو خاص طور پر سراہا جاتا ہے۔

    اقوامِ متحدہ کے ادارے یونیسکو کی جنرل کونسل نے 1995ء میں فرانس میں اجلاس کے دوران 23 اپریل کو ‘ورلڈ بک اینڈ کاپی رائٹس ڈے‘ منانے کا اعلان کیا تھا اور رواں صدی کے آغاز پر اس روز دنیا کے کسی ایک شہر کو کتابوں کا عالمی دارُالحکومت بھی قرار دیا جانے لگا ہے۔

    دنیا کے مختلف علوم اور فنون و مہارت کے شعبوں پر مفید اور معلوماتی کتب عام دست یاب ہیں جب کہ کئی اہم موضوعات پر صدیوں پرانی کتابیں اور موجودہ دور میں جدید تحقیق کے بعد لکھی گئی کتابیں سرکاری اور اکثر شائقینِ مطالعہ کی ذاتی لائبریریوں میں‌ موجود ہوتی ہیں۔ یہ کتب خاص طور پر طالبِ علموں کے لیے معلومات کا خزانہ ہیں اور ترقیّ یافتہ معاشروں میں ایسے کتب خانوں سے استفادہ کیا جاتا ہے، لیکن اس دن کو منانے کے فیصلے سے ان ممالک میں بھی کتب بینی کو فروغ دینے اور فروغِ علم میں مدد ملی ہے جہاں مطالعہ کا رجحان کم ہے۔

    بدقسمتی سے پاکستان میں کتب بینی اور مفید و معلوماتی خزانے سے استفادہ کرنے کی شرح بہت کم ہے جس کی ایک بڑی وجہ کم شرحِ خواندگی، صارفین کی کم زور قوّتِ خرید اور انٹرنیٹ اور الیکٹرونک میڈیا کا بڑھتا ہوا استعمال بھی ہے۔ دوسری طرف کاغذ کی قیمت بڑھنے کے بعد کتابوں کی طباعت اور اشاعت کا سلسلہ بھی کم ہوگیا ہے جب کہ سرکاری لائبریریوں کا حال سبھی جانتے ہیں۔ حکومتی سطح پر کتب بینی کے فروغ کی کوششیں نہ کرنا، مصنفین اور پبلشرز کی حوصلہ افزائی نہ ہونے، انھیں سہولیات اور وسائل کی عدم فراہمی بھی مطالعے کے رجحان میں‌ کمی کا سبب ہے۔

    موجودہ دور میں تفریحی مقاصد کے لیے انٹرنیٹ کے بڑھتے ہوئے رجحان نے بھی کتاب اور مطالعے کے شوق پر اثر ڈالا ہے۔ ملک میں لائبریریوں کا قیام اور کتاب کلچر کو فروغ دینے کے لیے مناسب اور ضروری وسائل کی فراہمی پر حکومت کو توجہ دینا ہو گی۔

    اساتذہ اور والدین بھی اس ضمن میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ اسکول اور کالج کی سطح پر اساتذہ اور گھروں میں‌ والدین بچوں کو کتب بینی کی طرف راغب کرکے معاشرے میں تبدیلی لاسکتے ہیں۔

    کہتے ہیں کہ مطالعہ انسانی ذہن کی بند گرہ کو کھولتا ہے اور شعور بیدار کرتا ہے جو کسی بھی معاشرے میں خصوصاً نوجوانوں کو کارآمد اور ہونہار بناتا ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ موجودہ دور میں‌ انٹرنیٹ پر اور ڈیجیٹل لائبریریوں کی شکل میں کتابیں پڑھی جارہی ہیں، لیکن کتب بینی کی اس شکل کو بھی تحریک دینے اور اسے زیادہ مؤثر بنانے کی ضرورت ہے۔