Tag: عام الیکشن 2024

  • الیکشن 2024 پاکستان: خدشات اور افواہیں دم توڑ گئیں، کل عوام اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں گے!

    الیکشن 2024 پاکستان: خدشات اور افواہیں دم توڑ گئیں، کل عوام اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں گے!

    الیکشن 2024 پاکستان عام انتخابات کے انعقاد سے متعلق تمام خدشات، افواہیں اور قیاس آرائیاں دَم توڑ چکی ہیں اور بعض حلقوں کی خواہش کے برخلاف وہ دن آن پہنچا ہے جب پاکستانی قوم آئندہ پانچ سال کے لیے اپنے سیاسی امیدواروں کو منتخب کرے گی۔ کل (8 فروری) کو قوم کسی امیدوار یا جماعت کو نہیں بلکہ اپنے مستقبل کو ووٹ دے گی اور یہی ووٹ پاکستان کی سمت کا تعین کرے گا۔

    سپریم کورٹ کے حکم پر جب الیکشن کمیشن نے 8 فروری کو عام انتخابات کرانے کا اعلان کیا تھا تو اس اعلان کے ساتھ ہی ملک میں جاری سیاسی بحران اور دیگر سیاسی وجوہ کی بناء پر خدشات نے بھی سَر اٹھایا کہ شاید اعلان کردہ تاریخ پر الیکشن کا انعقاد ممکن نہ ہو اور ان خدشات کو کئی علاقوں میں بڑھتے ہوئے دہشت گردی کے واقعات، سینیٹ میں الیکشن کے التوا کے لیے پیش کردہ قراردادوں اور شدید سیاسی انتشار نے ہوا دی، لیکن صد شکر کہ ایسا نہیں ہوا اور قوم کو ملک کی 12 ویں پارلیمنٹ منتخب کرنے کا موقع مل رہا ہے۔

    اے آر وائی نیوز اردو کی جانب سے الیکشن کی تمام رپورٹس، خبروں اور تجزیوں کے لئے اس لنک پر کلک کریں! 

    انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے ساتھ ہی سیاسی جماعتوں نے سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کر دیا تھا، جو جلد ہی گرما گرم سیاسی مقابلے میں تبدیل ہوگئیں اور حسبِ روایت پاکستان کے سیاسی حلیف اور سابق اتحادی ایک دوسرے کے بدترین حریف کی صورت عوام کے سامنے آئے۔ اس کے بعد الزام تراشی کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہو گیا، تاہم الیکشن کے بعد کیا صورتحال ہوگی، الیکشن کے موقع پر بدترین حریف کے طور پر سامنے آنے والے ملکی مفاد میں کل بہترین حلیف بھی بنیں‌ گے یا نہیں، یہ دیکھنا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔

    یہ عام انتخابات ملکی تاریخ کے مہنگے ترین الیکشن قرار دیے جا رہے ہیں جس کے انتظامات پر اخراجات گزشتہ انتخابات سے کئی گنا زائد بتائے جارہے ہیں۔ قومی اسمبلی کی 266 اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کی مجموعی طور پر 593 جنرل نشستوں کے لیے رجسٹرڈ ووٹرز 12 کروڑ 85 لاکھ 85 ہزار 760 اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے۔ قومی اور چاروں صوبوں کے مجموعی طور پر 859 حلقوں کیلیے 26 کروڑ بیلٹ پیپرز چھاپے گئے ہیں۔

    یہ الیکشن صرف انتظامات اور اخراجات کے حوالے سے ہی نہیں بلکہ سیاسی گہما گہمی کے حوالے سے بھی نئی تاریخ رقم کرے گا کہ ملکی تاریخ میں پہلی بار طیاروں کو انتخابی مہم کے لیے استعمال کیا گیا۔ پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ پاکستان نے اپنے حلقوں میں پمفلٹ فضا سے گرائے جب کہ کچھ حلقوں میں تو امیدواروں کی جیت پر جوا لگانے کی اطلاعات بھی میڈیا کے ذریعے سامنے آ چکی ہیں۔

    یوں تو کئی سیاسی جماعتیں انتخابات میں شریک ہیں جن میں ن لیگ، پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی، جے یو آئی، آئی پی پی، متحدہ قومی موومنٹ، ق لیگ، جی ڈی اے، اے این پی سمیت صوبائی سطح کی سیاسی جماعتیں شامل ہیں۔ پی ٹی آئی کو الیکشن کمیشن انتخابی نشان بلے سے محروم کر چکی، جس کی وجہ سے اس کے نامزد امیدوار آزاد حیثیت میں اور مختلف انتخابی نشانات کے ساتھ الیکشن لڑ رہے ہیں۔ اس الیکشن کے لیے جہاں ن لیگ اور پی پی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں نے آزادانہ اور بھاری رقم خرچ کر کے انتخابی مہم چلائی ہے وہیں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواروں کو اپنی انتخابی مہم چلانے میں کئی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا اور اکثر حلقوں میں امیدواروں نے صرف پمفلٹ اور پوسٹرز کے ذریعے ہی کام چلایا جب کہ ان کے کئی امیدواروں‌ کو قید و بند کا سامنا ہے۔ الیکشن سے قبل جس طرح بانی پی ٹی آئی عمران خان اور وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کو سائفر کیس اور پھر بانی پی ٹی آئی اور ان کی اہلیہ کو نکاح کیس میں سزا سنائی گئی ہے، اس کے بعد بعض غیرجانب دار حلقوں اور سیاسی مبصرین نے الیکشن کی شفافیت پر سوال اٹھایا ہے۔


    الیکشن کے لیے سیاسی جماعتوں کی انتخابی مہم لگ بھگ دو ماہ جاری رہی۔ سیاسی جماعتوں کی ملک گیر انتخابی مہم کا جائزہ لیا جائے تو نوجوان سیاسی رہنما اور پی پی چیئرمین بلاول بھٹو سب سے آگے نظر آتے ہیں۔ انہوں نے کراچی تا خیبر سب جگہ سیاسی ماحول کو گرمایا اور بڑے جلسے کیے تاہم ن لیگ جس کی جانب سے بڑے بڑے دعوے سامنے آئے ہیں، ان کے قائد نواز شریف سمیت صف اول کی قیادت نے انتخابی مہم میں بلوچستان اور سندھ کو یکسر نظر انداز کیا اور ایک بھی جلسہ نہیں کر سکے۔ ن لیگ کے اس اقدام سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کا فوکس طاقت کا مرکز پنجاب ہی رہا ہے تاہم ان کا یوں دو صوبوں کے عوام سے دور رہنا ان کے لیے سیاسی خسارے کا سبب بھی بن سکتا ہے۔

    ن لیگ، پیپلز پارٹی، تحریک انصاف، جماعت اسلامی، استحکام پاکستان پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ پاکستان الیکشن سے کئی روز قبل اپنے اپنے سیاسی منشور کا اعلان کر چکی ہیں جس میں عوام کے لیے نئی ملازمتیں پیدا کرنے، نئے گھر بنانے، تنخواہوں میں اضافہ، ترقیاتی سمیت کئی عوامی فلاحی منصوبے، غربت اور مہنگائی کا خاتمہ سمیت دیگر منصوبے بھی شامل ہیں لیکن اگر عوام ذہن پر زور ڈالیں تو اس منشور میں کوئی ایسی نئی بات نہیں، جو اس سے قبل نہ کی گئی ہو جب کہ بجلی مفت دینے کے وعدے پر تو لگتا ہے کہ سیاسی جماعتیں ایک پیج پر ہیں اور تقریباً ہر جماعت نے اپنے ووٹرز سے اقتدار میں آ کر انہیں مفت بجلی فراہم کرنے کا دلفریب وعدہ کیا ہے، تاہم کسی جماعت نے اس منشور پر عملدرآمد کا راستہ نہیں بتایا کہ عوام کو جو سبز باغ الیکشن سے قبل دکھائے جا رہے ہیں، تو جب جیتنے کے بعد اس پر عملدرآمد کا وقت آئے گا تو وہ کیسے ان وعدوں کو پایۂ تکمیل تک پہنچائیں گے۔

    سیاسی جماعتوں نے قوم کے سامنے صرف اپنے اپنے منشور ہی پیش نہیں کیے بلکہ اس کے ساتھ وہ نئے نعروں کے ساتھ میدان میں اتری ہیں، جیسا کہ ن لیگ کا نعرہ ’’پاکستان کو نواز دو‘‘، پیپلز پارٹی کا نعرہ ’’چنو نئی سوچ کو‘‘، پی ٹی آئی کا نعرہ ’’ظلم کا بدلہ ووٹ سے‘‘، متحدہ قومی موومنٹ کا نعرہ ’’اپنا ووٹ اپنوں کے لیے‘‘ جیسے نعرے شامل ہیں۔ سب سے اہم بات کہ قومیں اور ملک کا مستقبل نوکریوں، خیراتی پروگراموں، مفت بجلی فراہمی کے پروگراموں سے نہیں بلکہ جدید تعلیم سے بنتا ہے لیکن ہماری کسی سیاسی جماعت میں شاید یہ شعبہ ترجیحاً شامل نہیں جس کی اس وقت اشد ضرورت ہے اور اگر شامل بھی ہے تو وہ سر فہرست نہیں ہے۔ پاکستان کے روشن مستقبل اور ہماری بقاء کے لیے اس وقت جس چیز کی اشد ضرورت ہے وہ جدید تعلیم اور جدید نظام صحت ہے لیکن ملک کی 75 سالہ تاریخ دیکھیں تو ان دونوں شعبوں کے ساتھ ہر دور میں سوتیلی ماں جیسا ہی سلوک کیا گیا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ جب بھی ہمارے حکمرانوں اور مقتدر طبقوں کو اپنے علاج اور بچوں کی اعلیٰ تعلیم کی ضرورت پڑتی ہے تو انہیں پاکستان میں ایسا کوئی ادارہ نظر نہیں آتا جہاں ان کی ضرورت پوری ہوتی ہو اور پھر وہ بیرون ملک کا ہی رخ کرتے ہیں۔فیصلے کی گھڑی آ گئی ہے اور ووٹ ڈالنے سے قبل قوم کو سوچنے کا وقت ملا ہے کہ وہ اپنے مستقبل کے لیے کس کو چُنیں۔ انتخابی میدان میں موجود تقریباً تمام سیاسی جماعتیں تنہا یا اتحاد کی صورت میں اقتدار کا حصہ رہ چکی ہیں اور کچھ جماعتیں تو متعدد بار اقتدار کے مزے لے چکی ہیں۔ اب یہ وقت ہے کہ عوام سیاستدانوں سے سوال کرنے کے بجائے خود سے سوال کریں کہ جو وعدے یہ جماعتیں کر رہی ہیں اپنے اپنے دور اقتدار میں انہوں نے کن وعدوں پر عمل کیا۔ جو نعرے آج یہ دے رہی ہیں ان نعروں کی عملی تفسیر کب بنے؟

    عوام ضرور سوچیں۔ ذات، برادری، لسانیت، صوبائیت، شخصیت پرستی سے سے باہر نکلیں۔ صرف وقتی فائدہ نہ دیکھیں بلکہ اپنی آنے والی نسل کا مستقبل دیکھیں۔ انفرادی نہیں بلکہ ایک قوم بن کر سوچیں اور پھر جو جواب انہیں خود سے ملے اس کے مطابق کل گھروں سے نکلیں اور ذمے دار پاکستانی کی حیثیت سے اپنے روشن مستقبل کے لیے ووٹ کا جمہوری حق استعمال کریں، کیونکہ ایک خوشحال جمہوری پاکستان ہی ہم سب کی خوشحالی کا ضامن ہے۔

  • عام الیکشن: ماضی کے چند مشہور سیاسی اتحاد

    عام الیکشن: ماضی کے چند مشہور سیاسی اتحاد

    پاکستان میں جمہوریت اور آمریت کے درمیان آنکھ مچولی کا کھیل اُسی وقت شروع ہوگیا تھا جب آزادی کے بعد پاکستان لگ بھگ دس برس کا ہوچکا تھا۔

    دوسری طرف وطنِ عزیز کے عوام نے گزشتہ برسوں میں مختلف سیاسی جماعتوں کے وہ ”اتحاد“ بھی دیکھے ہیں جو عام انتخابات سے قبل تشکیل پاتے ہیں اور پھر ان کا نام و نشان بھی باقی نہیں رہتا۔ مختلف نظریات و خیالات کی حامل جماعتوں کی یہ اتحادی سیاست انتخابی اکھاڑے کے لیے ”سیٹ ایڈجسٹمنٹ“ کے نام پر بھی ”گنجائش“ نکالتی رہی ہے۔

    پاکستان میں آٹھ فروری کو عام انتخابات کے حوالے سے سیاسی اجتماعات اور امیدواروں کی انتخابی مہم زوروں پر ہے۔ اس مناسبت سے ہم یہاں ماضی کے چند بڑے سیاسی اتحادوں کا ذکر کر رہے ہیں۔

    جگتو فرنٹ 1954
    متحدہ پاکستان میں 1954 سے اتحاد کی سیاست نے جنم لیا تھا۔اس وقت کے مشرقی پاکستان کو مغربی پاکستان کی سیاسی قیادت سے شکایت رہی کہ انہیں برابر کا شہری اورسیاسی عمل اور جمہوریت میں حصہ دار تسلیم نہیں کیا جاتابلکہ اس کے برعکس ان پر یک طرفہ فیصلے مسلط کیے جاتے ہیں۔ اس کے خلاف مشرقی پاکستان نے سیاسی جدوجہد کا راستہ اختیار کیا اور 1954 میں ”جگتو فرنٹ“ کے نام سے پہلا سیاسی اتحاد وجود میں آیا۔ اس میں عوامی لیگ، کراشک سرامک پارٹی، نظام اسلامی پارٹی اور گنا تنتری دل شامل تھیں۔ جگتو فرنٹ میں شامل مولوی فضل حق نے اس پلیٹ فارم سے اپنے مطالبات سامنے رکھے تھے،جن میں مکمل صوبائی خودمختاری کا مطالبہ بھی شامل تھا۔

    جگتو فرنٹ نے 1954 کے صوبائی انتخابات میں زبردست کام یابی حاصل کی اور حکومت بنانے میں کام یاب ہوا۔ لیکن قلیل مدت میں جگتو فرنٹ کی حکومت کو غیرجمہوری حربوں سے ختم کردیا گیا اور حکومت ختم ہونے کے بعد جگتو فرنٹ میں الزامات اور شکایات کا وہ شور اٹھا جس نے اس کا شیرازہ بکھیر کر رکھ دیا۔

    قومی جمہوری محاذ (این۔ ڈی۔ ایف)
    1958 میں وطن عزیز پر پہلے فوجی آمر خودساختہ فیلڈمارشل جنرل محمد ایوب خان قابض ہوکر ملک کی سیاہ و سفید کے مالک بن بیٹھے۔ اپنے دور اقتدار کو طول دینے کے لیے انہوں نے اپنی مرضی کی جمہوریت کو پنپنے دیا اور بنیادی جمہوریت کے نام سے اپنا نظام پیش کیا۔ پہلے مارشل لا کے چار سال بعد 1962 میں فوجی آمریت کے خلاف سابق وزیراعظم حسین شہید سہروردی نے ”قومی جمہوری محاذ“ کے نام سے سیاسی اتحادبنانے کا اعلان 6 اکتوبر 1962 کو کیا۔ قومی جمہوری محاذ میں سردار بہادر، مولانا ابوالاعلیٰ مودودی، ممتاز دولتانہ، غلام علی تالپور اور یوسف خٹک جیسے سیاست داں شامل ہوئے۔ اس اتحاد کا مقصد اور مطالبہ آمریت کی رخصتی اور جمہوریت کی بحالی تھا۔ قومی جمہوری محاذ بھی اپنی سیاسی جدوجہد کے ثمرات سے محروم رہا اور 1963 میں اتحاد کے روح رواں حسین شہید سہروردی کی وفات کے ساتھ ہی ختم ہو گیا۔

    مشترکہ حزب اختلاف اتحاد
    ایوبی آمریت کے خلاف 1964 میں ”مشترکہ حزب اختلاف اتحاد“ وجود میں آیا۔ 21 جولائی 1964 میں سابق وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کی قیام گاہ پر اس اتحاد کا اعلان کیا گیا۔ اس اتحاد میں عوامی لیگ، نظام اسلامی پارٹی، جماعت اسلامی اور کونسل مسلم لیگ شامل تھی۔ نیشنل عوامی پارٹی بھی اس موقع پر شریک تھی۔ اس اتحاد نے آمریت کے خلاف اور محترمہ فاطمہ جناح کے حق میں انتخابی مہم چلائی۔ لیکن جنرل ایوب خان جیت گئے اور فاطمہ جناح کوشکست ہوئی۔ صدارتی انتخاب کے بعد قومی اسمبلی کا انتخاب عمل میں آیاتو اس اتحاد نے 15 نشستیں جب کہ ایوب خان کی مسلم لیگ 120 نشستوں پر کامیاب ہوئی۔ صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں بھی یہ اتحاد خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ کرسکا اور یہ انتخابی اتحادآپس کے اختلافات کے باعث تحلیل ہوگیا۔

    پاکستان جمہوری اتحاد
    ملک میں تیسرا سیاسی اتحاد 1967 میں بنایا گیا اور یہ بھی جنرل ایوب خان کی حکومت کے خلاف تھا۔اس میں قومی جمہوری محاذ، کونسل مسلم لیگ، جماعت اسلامی، عوامی لیگ اور نظام اسلام پارٹی شامل تھیں۔ 1969 میں صدر ایوب کے خلاف تحریک عروج پر تھی۔ اس کے ساتھ ہی اس تحریک میں پاکستان جمہوری اتحاد نے ”جمہوری مجلس عمل“ کا نام اپنا لیا جس میں 8 سیاسی جماعتیں شریک تھیں۔ حالا ت ابتر ہوگئے اور آخر کار جنرل ایوب خان کو مستعفی ہونا پڑا، لیکن یحییٰ خان ملک پر قابض ہوگیا او راس کے بعد جمہوری مجلس عمل تتر بتر ہوگئی۔

    متحدہ جمہوری محاذ
    1970 کے عام انتخابات کا انعقاد جنرل یحییٰ خان کی حکومت نے کیا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں پاکستان پیپلزپارٹی برسر اقتدار آئی۔ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف ”متحدہ جمہوری محاذ“ کا قیام عمل میں آیا۔ متحدہ جمہوری محاذ میں پاکستان جمہوری پارٹی، کونسل مسلم لیگ، جماعت اسلامی، جمعیت علمائے پاکستان، نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت علما اسلام شامل تھیں۔ 23 مارچ1973 کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں اس اتحاد کا اعلان کیا گیا۔ اس موقع پرفائرنگ کا افسوس ناک واقعہ پیش آیا تھا جس میں 17 افرادجاں بحق ہوئے۔متحدہ جمہوری محاذ نے سول نافرمانی کا اعلان کیاجوناکام رہی۔ بعدازاں متحدہ جمہوری محاذ منقسم ہوگیا۔

    پاکستان قومی اتحاد
    1977 میں پاکستان قومی اتحاد وجود میں آیاجو9 سیاسی جماعتوں پر مشتمل تھا۔اس میں مسلم لیگ (پگاراصاحب)، جماعت اسلامی، تحریک استقلال، جمعیت علمائے پاکستان، جمعیت علمائے اسلام (ہزاروی)، جمعیت علمائے اسلام (مفتی محمود)، این ڈی پی، خاکسار تحریک، پاکستان جمہوری پارٹی اور مسلم کانفرنس شامل تھیں۔ اس و قت وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے مارچ میں عام انتخابات کا اعلان کیا تھا جس سے قبل جنوری میں پاکستان قومی اتحاد تشکیل دیاگیا۔ اس اتحاد نے ایک انتخابی نشان پر الیکشن میں امیدوار کھڑے کیے لیکن کوئی نمایاں کام یابی حاصل نہ کرسکا۔ پاکستان قومی اتحاد نے ضیاء الحق کے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعدآمرانہ حکومت میں شامل ہوکر اپنا وجود کھو دیا۔

    تحریکِ‌ بحالیِ جمہوریت (‌ایم آر ڈی)
    6 فروری 1981 کو ایم آرڈی (تحریک بحالی جمہوریت) کے نام سے نیا سیاسی اتحاد وجود میں آیا۔ ایک مرتبہ پھر نظریاتی طور پر یکسر جدا جماعتیں جن کی تعداد نو تھی، اس اتحاد میں شامل ہوئیں۔ان میں تحریک استقلال، پاکستان ری پبلکن پارٹی، پاکستان پیپلز پارٹی، این ڈی پی، جمعیت علمائے پاکستان، مسلم لیگ، مسلم کانفرنس، نیشنل لبریشن فرنٹ اور مزدور کسان پارٹی شامل تھیں۔ پھر جمعیت علمائے اسلام نے بھی اس میں شمولیت اختیار کی اور 1984 میں عوامی تحریک بھی ایم آرڈی کا حصہ بنی۔ 1988 میں انتخابات میں ٹکٹوں کی تقسیم پر ایم آرڈی میں پھوٹ پڑگئی اور اس کا خاتمہ ہوگیا۔

    کمبائنڈ اپوزیشن پارٹی
    بابائے سیاست کے لقب سے مشہور ہونے والے نواب زادہ نصراللہ خان نے مذکورہ سیاسی اتحاد، پاکستان پیپلز پارٹی کے خلاف تشکیل دیا تھا۔ اس اتحاد میں اسلامی جمہوری اتحاد کے ساتھ ایم کیو ایم بھی شامل تھی۔ 1990 میں بے نظیر حکومت کے خاتمے کے بعد یہ اتحاد بھی منتشر ہوگیا۔

    اس کے علاوہ بھی ماضی میں کئی بڑے چھوٹے سیاسی اور انتخابی اتحاد تشکیل دیے جاتے رہے ہیں۔ اس میں 1998 میں پاکستان عوامی اتحاد، 1999میں نواز حکومت کے خلاف گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کا قیام جب کہ 2000 میں مشرف کی آمریت کے خلاف ”اتحاد برائے بحالی جمہوریت“ (اے۔آر۔ ڈی) وجود میں آیا تھا۔ 2002 متحدہ مجلس عمل تشکیل پایا تھاجس میں مذہبی جماعتیں شامل تھیں اور بعد میں متحدہ مجلس عمل سیاسی اتحاد سے انتخابی اتحاد میں تبدیل ہوگیاتھا۔نیشنل الائنس 2002 میں تشکیل دیا گیا جو جنرل پرویز مشرف کی حامی جماعتوں پر مشتمل تھا۔

  • جیتے گا بھئی جیتے گا…(چند مقبول انتخابی نعرے)

    جیتے گا بھئی جیتے گا…(چند مقبول انتخابی نعرے)

    انتخابی مہم کے دوران جہاں عوام سیاسی جماعتوں کے قائدین کی زبانی ان کا منشور اور اپنے حق میں مختلف وعدے سنتے ہیں، وہیں ان جلسوں میں نت نئے نعرے بھی عوام کے کانوں میں پڑتے ہیں۔ انتخابات سے قبل گلی کوچوں کی دیواروں پر بھی یہی نعرے دکھائی دیتے ہیں۔

    آٹھ فروری کو پاکستانی شہری عام انتخابات میں اپنا حقِ رائے دہی استعمال کریں گے اور الیکشن کے نتائج کی بنیاد پر نئی حکومت قائم ہو گی۔ ملک بھر میں سیاسی جلسے اور امیدواروں کی انتخابی مہم زوروں پر ہے۔ عوام کے مسائل، مشکلات اور مطالبات آج بھی لگ بھگ وہی ہیں جنھیں حل کرنے کا وعدہ اور یقین دہانیاں یہ سیاسی جماعتیں ماضی میں بھی انتخابات کے موقع پر کرواتی رہی ہیں۔ گزشتہ کئی برس کے دوران عوام کے ان "بہی خواہوں” نے بلاشبہ ایک کام بڑی ‘درد مندی’ سے کیا اور وہ ہے عوام کے حق میں قانون سازی اور اداروں کی سطح پر عوام کے مفاد میں اصلاحات۔

    مختلف ادوارِ حکومت میں قانون سازی اور اصلاحات کا مقصد شہریوں کا معیارِ زندگی بہتر بنانا، سہولیات کی فراہمی کا عمل تیز کرنا اور اسے مؤثر بنانا، سرکاری اداروں میں ہر سطح پر عملے کی کارکردگی بہتر بناتے ہوئے رشوت ستانی اور بدعنوانی کا راستہ مسدود کرنا، اداروں میں خرچ اور آمدن میں شفافیت کو یقینی بنانا اور ہر شہری کو معلومات تک رسائی کا حق دینا رہا ہے۔ لیکن یہ امر تعجب خیز بھی ہے اور عوام کے ساتھ ایک مذاق بھی کہ آج کئی سال گزر جانے کے باوجود بھی ان قوانین اور اصلاحات کے وسیعُ البنیاد مؤثر اور قابلِ ذکر نتائج سامنے نہیں آسکے۔

    یہ اُسی وقت ممکن ہوگا جب سیاست داں، جاگیر دار اور مراعات یافتہ طبقہ اس فرسودہ نظام کو لپیٹ کر حقیقی معنوں میں‌ ملک اور عوام کی ترقی و خوش حالی چاہیں گے۔

    عام انتخابات سے قبل آج پھر سیاست دانوں کی دھواں دھار تقریروں اور کارکنوں کے نعروں نے پاکستان کے عوام کی توجہ اپنی جانب مبذول کروا لی ہے۔ ماضی میں بھی انتخابی جلسوں میں ایسے ہی نعرے گونجتے رہے ہیں اور ان میں سے چند نعرے بہت مقبول ہوئے تھے۔ یہ تحریر انہی مقبول سیاسی نعروں کے بارے میں ہے۔

    پاکستان میں عام انتخابات پر ایک نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ سب سے پہلے مارچ 1951ء میں پنجاب اسمبلی کے انتخابات ہوئے، جس کے بعد دسمبر 1951ء میں سرحد کی اسمبلی کے لیے نمائندوں کا انتخاب کیا گیا۔ دو سال بعد مئی 1953ء میں سندھ اسمبلی معرضِ وجود میں آئی۔ پھر 1954ء میں اس وقت کے مشرقی پاکستان کی اسمبلی کے لیے انتخابات ہوئے۔ تاہم اس وقت انتخابات میں ووٹنگ کی شرح اور معیار خاصا پست رہا تھا۔ ایک نئے ملک کی حیثیت سے اس وقت کئی انتظامی مسائل اور رکاوٹیں‌ بھی تھیں۔ تاہم انتخابی عمل پر شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہوئے اکثر حلقوں نے اسے غیر شفاف قرار دیا تھا۔ ان انتخابات کے لیے ”جھرلو“ کی اصطلاح استعمال کی گئی تھی جو دھاندلی اور جعل سازی کے معنوں میں مستعمل ہے۔ 1954ء میں پاکستان کی دوسری قانون ساز اسمبلی وجود میں آئی لیکن 1958ء میں اسکندر مرزا اور جنرل ایوب خان نے سیاسی بساط لپیٹ کر ملک میں پہلا مارشل لا لگا دیا۔ ایوب خان نے 1965ء میں صدارتی انتخابات کرائے، جس میں صدر کا انتخاب ان کے دیے ہوئے بنیادی جمہوری نظام (بی ڈی سسٹم) کے نمائندوں نے کیا۔ 2 جنوری 1965ء کو ان انتخابات میں محترمہ فاطمہ جناح اور ایوب خان کے مابین انتخابی معرکہ ہوا اور تاریخ بتاتی ہے کہ فاطمہ جناح کو دھونس اور دھاندلی کی مدد سے شکست دی گئی۔ محترمہ فاطمہ جناح کا انتخابی نشان لالٹین اور ایوب خان کا انتخابی نشان پھول تھا۔ اس مناسبت سے بڑے شہروں اور قصبات کی دیواروں پر یہ شعر نعرے کی صورت میں لکھا دکھائی دیتا تھا، ”ایک شمع جلی جل جانے کو، ایک پھول کِھلا مرجھانے کو۔“

    دوسری طرف ایوب خان کی حمایت میں پوسٹر پر جو نعرہ درج تھا، وہ تھا، ”ملّت کا محبوب…. ایّوب ایّوب۔“ یہیں سے سیاسی جلسوں میں کارکنوں اور انتخابی مہمّات کے دوران عوام کی حمایت حاصل کرنے کے لیے نعرے بنانے کا سلسلہ بھی شروع ہوتا ہے۔

    1970ء کے انتخابات کو مبصرین نے غیرجانب دار قرار دیا تھا۔ اس کے لیے انتخابی مہم کے دوران کئی منفرد اور پُرکشش نعرے سامنے آئے جن میں ایک سیاسی نعرہ پیپلز پارٹی نے دیا جو آج بھی گونج رہا ہے۔ یہ نعرہ ہے ”روٹی، کپڑا اور مکان۔“ اسی طرح پیپلز پارٹی میں پنجاب کی تنظیم کے صدر شیخ محمد رشید جنھیں اس وقت بابائے سوشلزم بھی کہا جاتا تھا، انھوں نے ”سوشلزم ہماری معیشت ہے“ کا نعرہ بلند کیا تھا۔ یہ نعرہ بائیں بازو کی جماعتوں کی جانب جھکاؤ رکھنے والوں میں بہت مقبول ہوا تھا۔ اسی انتخابی مہم میں ذوالفقار علی بھٹو نے ”طاقت کا سرچشمہ عوام“ کا جذباتی نعرہ دے کر بھی لوگوں کی توجہ حاصل کی تھی۔

    70 کے ان انتخاب میں بہت سی ایسی نظمیں بھی عوامی جلسوں اور کارکنوں کے اجتماعات میں پڑھی جاتی تھیں جن کے اشعار یا مصرع نعروں کی صورت میں مجمع میں بلند ہوتے اور ماحول کو گرما دیتے۔ اُس وقت پاکستان پیپلز پارٹی ایک نئی جماعت کے طور پر ابھر رہی تھی۔ پارٹی کے بانی لیڈر ذوالفقارعلی بھٹو نے عوام سے انتخابی اخراجات پورے کرنے کے لیے امدادی رقم کی اپیل بھی کی تھی۔ یہ اپیل بھی نعرے کی شکل میں کی گئی اور عوام کو اس طرح‌ متوجہ کیا گیا، ”بھٹو کو ووٹ دو، پی پی کو نوٹ دو“۔

    جماعتِ اسلامی کے کارکن اپنے سیاسی مخالفین کو اس طرح للکارتے تھے، ”لاؤ ترازو، تول کے دیکھو، ساڈا پلہ بھاری ہے۔ “ 1970ء ہی کے الیکشن میں علاّمہ شاہ احمد نورانی کی جمعیت علمائے پاکستان انتخابی نشان ”چابی“ پر دنگل میں اتری تھی۔ جے یو پی کے کارکن اس نشان کی مناسب سے یہ نعرہ لگاتے تھے، ”چابی، جنّت کا تالا کھولے گی“۔

    بعد میں 1977ء کے انتخابات کا شور ہوا تو اس وقت نو جماعتوں نے ”پاکستان قومی اتحاد“ کے نام سے جڑنے کے بعد انتخابی مہم شروع کی۔ ان کا انتخابی نشان ”ہَل“تھا، اور جلسوں میں ”ہل نے مچا دی ہلچل ہلچل“ کا نعرہ گونجنے لگا۔ جولائی 1977ء میں ضیاءُ الحق کے مارشل لا اور بھٹو کی پھانسی کے بعد آج تک ہر الیکشن میں پیپلز پارٹی کا ایک مقبول نعرہ ”زندہ ہے بھٹو زندہ ہے“ رہا ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو جب آمریت کے خلاف میدان میں تھیں اور انتخابی اکھاڑے میں اتریں تب ان کے جلسوں میں نعرہ بھی سنا گیا، بھٹو کی تصویر، بے نظیر بے نظیر۔

    اُدھر ضیاءُ الحق کے "مداح” بھی کم نہیں تھے۔ صدارتی ریفرنڈم کے زمانے میں ضیاءُ الحق کی حمایت میں جلسوں میں ”مردِ مومن مردِ حق، ضیاءُ الحق ضیاءُ الحق“ کا نعرہ بہت مقبول تھا۔ ملک بھر میں گلی کوچوں کی دیواریں اس مدح سرائی کا "بار” اٹھائے ہوئے تھیں۔ ضیاء دور میں پیپلز پارٹی کے کارکنان نہ جھکنے والی بے نظیر، نہ بکنے والی بے نظیر کے نعرے لگاتے تھے۔ ضیاءُ الحق کے فضائی حادثے میں جاں بحق ہونے کے بعد 1988ء میں عام انتخابات کرائے گئے تو بے نظیر بھٹو وزیراعظم منتخب ہوئیں۔ اس سے قبل بے نظیر جب ضیا دور میں لاہور آئی تھیں تو ”بے نظیر آئی ہے، انقلاب لائی ہے اور جب تک سورج چاند رہے گا بھٹو تیرا نام رہے گا“ جیسے نعرے کارکنوں کی زبان پر ہوتے تھے۔ اس سے دو سال قبل وجود میں آنے والے اسلامی جمہوری اتحاد نے 1990 کے الیکشن میں سائیکل کے انتخابی نشان کے ساتھ یہ نعرہ لگایا تھا، ”اپنی قسمت آپ بنائیں سائیکل پر مہر لگائیں۔“ نواز شریف کے کارکنوں کا نعرہ تھا،”میاں نے مچا دی ہلچل۔‘ آئی جے آ ئی کے نو جماعتوں والے اتحاد نے اپنے انتخابی نشان سائیکل کی مناسبت سے عوام کو ایک نعرہ ”نو ستارے سائیکل نشان، جیوے جیوے پاکستان“ دیا تھا۔

    2002ء میں عام انتخابات ہوئے اور پرویز مشرف ملک کے صدر بنے تو عوام نے ایک نیا نعرہ ”سب سے پہلے پاکستان“ سنا۔ آج یہ نعرہ ملکی سالمیت اور بقا کے حوالے سے کسی نہایت اہم اور بڑے فیصلے کے بعد الفاظ کے ہیر پھیر کے ساتھ حکم رانوں کی زبان سے ادا ہوتا رہتا ہے۔

    پیپلز پارٹی نے 2008ء کے عام انتخابات میں ”علم، روشنی، سب کو کام۔ اور وہی پرانا مگر نہایت مقبول نعرہ اضافہ کے ساتھ یعنی ”روٹی، کپڑا اور مکان مانگ رہا ہے ہر انسان“ لگایا تھا۔ اس الیکشن میں نواز شریف کے انتخابی نشان شیر کی مناسبت سے سب سے مقبول نعرہ ”دیکھو دیکھو کون آیا شیر آیا شیر آیا“ تھا۔ اس وقت کے مقبول نعروں میں قدم بڑھاؤ نواز شریف ہم تمھارے ساتھ ہیں بھی تھا، اس کے بعد جب آصف علی زرداری نے بحیثیت صدر پاکستان حلف اٹھایا تو عوام نے”ایک زرداری سب پر بھاری“ کا دل چسپ نعرہ بھی سنا۔

    کراچی اور شہری سندھ میں مہاجر قومی موومنٹ سے متحدہ قومی موومنٹ میں تبدیل ہونے والی جماعت نے انتخابی مہمات میں وہ نعرے نہیں لگائے جو ہر زبان اور قومیت کے لوگوں کو فوری اپنی جانب کھینچ لیتے، لیکن قائد کے فرمان پر جان بھی قربان ہے، ہم نہ ہوں ہمارے بعد الطاف الطاف اور حق کی کھلی کتاب الطاف، الطاف متحدہ قومی موومنٹ کے کارکنان کے مقبول نعرے رہے۔

    1990ء اور 2002ء کے الیکشن میں طاہر القادری کی جماعت ”پاکستان عوامی تحریک“ کا نعرہ ”جرأت و بہادری طاہر القادری“ تھا، اور بعد میں ان کی جانب سے نعرہ ”سیاست نہیں ریاست بچاؤ“ لگایا گیا۔ پرویز مشرف کی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ کا مقبول نعرہ ”سب سے پہلے پاکستان‘ ہی رہا۔ پاکستان تحریکِ انصاف نے ”انصاف، انسانیت، خود داری“ کے علاوہ ”تبدیلی کا نشان عمران خان“ کا نعرہ بلند کیا تھا۔

  • عام انتخابات: پاکستان کے مشہور سیاست دانوں کی آپ بیتیاں

    عام انتخابات: پاکستان کے مشہور سیاست دانوں کی آپ بیتیاں

    آپ بیتی یا خودنوشت میں مصنّف اپنی زندگی کے حالات و واقعات اور تجربات کو بیان کرتا ہے۔ آپ بیتی محض احوال و واقعات کا مجموعہ نہیں ہوتی بلکہ اکثر اوقات یہ جذبات و احساسات، مشاہدات اور تجربات کا ایسا نمونہ ہوتی ہے جو بحیثیتِ مجموعی زندگی کے بارے میں مصنّف کے نقطۂ نظر کو بھی سامنے لاتی ہے۔

    اردو زبان میں خود نوشت یا آپ بیتیوں کو ایک صنفِ ادب کا درجہ حاصل ہے اور اگر کوئی آپ بیتی کسی مشہور شخصیت کی تصنیف کردہ ہو تو باذوق قارئین ہی نہیں‌ اکثر عام لوگ بھی پڑھنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ خودنوشت کی ایک خوبی یہ ہوتی ہے کہ اس میں ادب اور ثقافت کی چاشنی کے ساتھ تہذیب اور معاشرت کے رنگ، تاریخ کے حوالے، سیاست اور سیاسی نظام کی کہانی بھی پرھنے کو ملتی ہے۔ غرض ہر موضوع پر مختلف واقعات اور قصّے پڑھنے کے ساتھ معلومات میں‌ بھی اضافہ ہوتا ہے۔

    پاکستان میں اس وقت عام انتخابات کا شور ہے۔ سیاسی جماعتیں‌ انتخابی منشور کا اعلان اور عوام کے سامنے مختلف جماعتوں کے قائدین اپنے سیاسی حریفوں پر الزامات عائد کرتے نظر آرہے ہیں۔ 8 فروری 2024 کے عام انتخابات کی مناسبت سے ہم یہاں آپ کے لیے چند خود نوشت یا اُن آپ بیتیوں‌ کا ذکر کررہے ہیں جن کے مصنّفین نے کار زارِ سیاست میں‌ ایک عمر گزاری ہے۔

    اردو ادب میں بعض سیاست دانوں کی تحریر کردہ خود نوشت مشہور ہیں جو دل چسپ ہی نہیں‌ ایک مستند دستاویز کی حیثیت بھی رکھتی ہیں۔ ان آپ بیتیوں کو پڑھ کر ہم سیاست اور جمہوریت کے کئی راز، ملک میں‌ ہونے والے انتخابات کا احوال، دوست ممالک سے تعلقات، ان میں اتار چڑھاؤ، ملک دشمن عناصر اور پاکستان کے خلاف سازشوں کے بارے میں‌ جان سکتے ہیں۔ سیاسیاست اور تاریخ‌ کے طلباء کے لیے ان کا مطالعہ مفید ہو گا اور عام قارئین کی بھی دل چسپی کا باعث بنیں‌ گی۔

    سیاست پر مبنی ان مشہور آپ بیتیوں میں “پردے سے پارلیمنٹ تک”، “ہاں میں باغی ہوں”، “فرزندِ پاکستان”، “میری تنہا پرواز”، “بڑی جیل سے چھوٹی جیل تک”، “ایونِ اقتدار کےمشاہدات”، “چاہ یوسف سے صدا”، “سچ تو یہ ہے”، “اور لائن کٹ گئی”، “اور بجلی کٹ گئی” شامل ہیں جن میں کئی انکشافات کیے گئے ہیں اور اسی لیے یہ خاص اہمیت کی حامل ہیں‌۔

    اور لائن کٹ گئی
    مولانا کوثر نیازی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں اور یہ انہی کی سیاسی روداد پر مبنی کتاب ہے۔ مولانا نے یہ کتاب 1977ء میں اپنے ایّامِ اسیری میں لکھی۔ یہ آپ بیتی ملک میں‌ بیسٹ سیلر کتاب ثابت ہوئی۔ مولانا کوثر نیازی نے اس کتاب میں سیاست دانوں، فوجی عہدے داروں اور خود اپنے بارے میں بھی کئی ہوشربا انکشافات کیے ہیں۔

    میں باغی ہوں
    یہ ممتاز سیاست داں جاوید ہاشمی کی آپ بیتی ہے۔ جاوید ہاشمی طویل سیاسی سفر میں کئی رازوں‌ کے امین ہیں اور کئی سرد و گرم دیکھے ہیں۔ ان کی وضع داری اور جمہوریت کی خاطر ان کی قربانیوں کا اپنے پرائے سبھی اعتراف کرتے ہیں۔ جاوید ہاشمی نے اس خودنوشت میں‌ کئی عجیب و غریب واقعات اور ہوش ربا انکشاف بھی پڑھنے کو ملتے ہیں۔

    بڑی جیل سے چھوٹی جیل تک
    یہ راجہ انور کی خودنوشت ہے جنھوں نے جوانی میں میدانِ سیاست میں قدم رکھا تھا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کو تشکیل ہوتے دیکھا اور ذوالفقار علی بھٹو کی قربت حاصل کی۔ مارشل لاء کے زمانے میں کئی بار جیل گئے اور اس آپ بیتی میں راجہ انور نے اسی دور کے شب و روز، اپنے خاندان اور اپنی سیاسی سرگرمیوں کو بیان کیا ہے۔ یہ آپ بیتی جیل اور قید خانوں کے بارے میں کئی حیران کن انکشافات کرتی ہے۔

    ایوانِ اقتدار کے مشاہدات
    گوہر ایوب کا نام سیاست اور افسر شاہی کے حوالے سے بہت معروف ہے اور وہ ایوب خان کے فرزند بھی ہیں۔ کئی اہم وزارتوں پر فائز رہنے والے گوہر ایوب کی یہ مشہور آپ بیتی ہے جس میں پچھلے پچاس برس میں ملکی اور بین الاقوامی سطح پر انقلاب اور تبدیلیوں کو بھی انھوں‌ نے بیان کیا ہے۔ گوہر ایوب خان نے ملکی سیاست اور سیاست دانوں‌ کے متعلق کئی انکشافات بھی کیے ہیں۔

    فرزندِ پاکستان
    یہ شیخ رشید احمد کی سرگزشت ہے جسے بڑی شوق سے پڑھا گیا۔ گزشتہ دہائیوں کی سیاسی، معاشی، معاشرتی تبدیلیوں پر اس کتاب میں شیخ رشید کے مشاہدات اور ذاتی تجربات کے ساتھ ہمیں ملکی سیاست کے کئی اہم واقعات اور انکشافات پڑھنے کو ملتے ہیں۔

    چاہِ یوسف سے صدا
    پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی کی یہ آپ بیتی ان کی اسیری کے دوران رقم ہوئی۔ یوسف رضا گیلانی جس ملتان کے ایسے سیاسی اور پیر خاندان کے فرد ہیں‌ جو قیامِ پاکستان سے پہلے سے سیاست میں حصّہ لیتا رہا ہے۔

    سچ تو یہ ہے
    پنجاب کی سیاست کا ایک بڑا نام چوہدری شجاعت حسین کا ہے جن کی یہ خود نوشت چوہدری شجاعت کی پیدائش کے بعد سے 2008ء کے عام انتخابات تک کے حالات و واقعات کو ہمارے سامنے رکھتی ہے۔

    اور بجلی کٹ گئی
    یہ آپ بیتی مشہور سیاست داں اور سفارت کار سیدہ عابدہ حسین کے قلم سے نکلی ہے جس میں ان کی ذاتی زندگی کے ساتھ اہم سیاسی اور غیر سیاسی موضوعات پر تحریریں پڑھنے کو ملتی ہیں۔ یہ سب انگریزی زبان میں رقم کیا گیا تھا جس کا اردو ترجمہ بجلی کٹ گئی کے نام سے شایع ہوا۔

    میری تنہا پرواز
    مشہور صنعتی اور سیاسی خاندان سے تعلق رکھنے والی کلثوم سیف اللہ خان کی زندگی کے نشیب و فراز اور کام یابیوں کی داستان ہے۔ کلثوم سیف اللہ نے اپنی ذات، سیاست دانوں، حکم رانوں، ریاست اور دوسرے لوگوں سے متعلق اس کتاب میں کئی دل چسپ انکشافات کیے ہیں۔

    پردے سے پارلیمنٹ تک
    یہ معروف سیاست داں بیگم شائستہ اکرام اللہ کی آپ بیتی ہے جو پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کی رکن منتخب ہوئی تھیں۔ اس آپ بیتی کی سیاست کے ساتھ ادب، تاریخ اور سماجی و معاشرتی لحاظ سے بھی کافی اہمیت ہے۔