Tag: عام انتخابات

  • برطانیہ میں عام انتخابات کیلئے ووٹنگ شروع

    برطانیہ میں عام انتخابات کیلئے ووٹنگ شروع

    لندن: برطانیہ میں عام انتخابات کے لئے ووٹنگ کا آغاز ہوگیا ہے، 650 نشستوں پر ساڑھے 4 ہزار امیدوار مدمقابل ہیں۔

    غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق ووٹنگ کا عمل رات 10 بجے تک جاری رہے گا، برطانیہ کے مختلف شہروں میں 40 ہزار سے زائد پولنگ اسٹیشنز قائم کئے گئے ہیں۔

    ڈیڑھ لاکھ افراد پر مشتمل عملہ پولنگ کے فرائض سرانجام دے رہا ہے جبکہ ایک پولنگ اسٹیشن پر زیادہ سے زیادہ 2250 افراد ووٹ ڈال سکیں گے۔

    برطانیہ بھر میں رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد 46 ملین ہے، ہاؤس آف کامنز کے کل ممبران 650 ہیں جبکہ حکومت بنانے کیلئے 326 سیٹیں درکار ہیں۔

    برطانوی میڈیا کا کہنا ہے کہ 650 نشستوں کے لیے لیبر پارٹی، کنزرویٹو، لبرل ڈیموکریٹس اور دیگر جماعتوں کے امیدوار آمنے سامنے ہیں۔

    برطانیہ میں ہونے والے انتخابات میں آزاد امیدواروں کے علاوہ برٹش پاکستانی امیدوار بھی قسمت آزمائیں گے۔

    امریکی صدارتی الیکشن، صدر بائیڈن نے گورنرز سے مدد مانگ لی

    پارلیمنٹ کے اجلاس میں 9 جولائی کو منتخب ارکان حلف اٹھائیں گے، ارکان کے حلف اٹھانے کے بعد اسپیکر کا انتخاب کیا جائے گا۔

  • بھارت میں عام انتخابات کا پانچواں مرحلہ، ووٹنگ جاری

    بھارت میں عام انتخابات کا پانچواں مرحلہ، ووٹنگ جاری

    بھارت میں آج عام انتخابات کے پانچویں مرحلے پر 49 نشستوں پرووٹنگ کا سلسلہ جاری ہے۔

    بین الاقوامی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق قابلِ ذکر امیدواروں میں امیٹھی سے مرکزی وزیر سمرتی ایرانی،اترپردیش کی رائے بریلی کی نشست سے کانگریس کے سینئر رہنما راہول گاندھی اور مقبوضہ کشمیر کے حلقے بارہمولہ سے نیشنل کانفرنس کے عمرعبداللّٰہ شامل ہیں۔

    لکھنؤ سے موجودہ وزیرِ دفاع راج ناتھ سنگھ زور آزمائی کررہے ہیں، رائے بریلی سے راہول گاندھی کی جیت کے قوی امکانات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔ انتخابات کا اگلا مرحلہ 25 مئی کو ہوگا جبکہ نتائج کا اعلان 4 جون کو کردیا جائے گا۔

    دوسری جانب گزشتہ ایک دہائی سے بھارت پر قابض مودی سرکار نے بھارت کی سب سے بڑی اقلیتی آبادی مسلمانوں کو نشانے پر ہوا ہے۔

    مودی سرکار نے بھارت میں مسلمانوں کی نمائندگی اور سیاسی طاقت کو روکنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے، اسکے علاوہ سرکاری نوکریوں اور سول سروسز کے اعلی امتحانوں میں ہر سال مسلمان امیدواروں کے اکثریت جان بوجھ کر کم رکھی جاتی ہے۔

    ہیلی کاپٹر حادثہ، لاشوں کی شناخت سے متعلق ایرانی حکام کا اہم بیان

    بھارتی سول سروسز میں گزشتہ سال محض 6 مسلمان امیدوار منتخب ہوئے، مسلمان بھارت میں 200 ملین کی آبادی رکھتے ہیں جبکہ نام نہاد جمہوریت کی دعویدار مودی سرکار نے مسلمانوں کی سیاسی طاقت کو بھی سبوتاژ کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا ہے۔

  • عام انتخابات میں دھاندلی پر الیکشن ٹریبونل میں پہلی پٹیشن دائر

    عام انتخابات میں دھاندلی پر الیکشن ٹریبونل میں پہلی پٹیشن دائر

    لاہور : عام انتخابات میں دھاندلی پر الیکشن ٹریبونل میں پہلی پٹیشن دائر کردی گئی، جس میں استدعا کی ہے کہ جاری فارم سینتالیس کا نتیجہ کالعدم قرار دیا جائے۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور ہائیکورٹ میں عام انتخابات میں دھاندلی پرالیکشن ٹریبونل میں پہلی پٹیشن دائر کردی گئی، انتخابی عذرداری این اے ترپن راولپنڈی سے آزاد امیدوار اجمل صابرنے دائر کی۔

    جس میں موقف اختیار کیا کہ عام انتخابات میں فارم پینتالیس کو نظر انداز کیا گیا، ریٹرننگ آفیسر نے فارم سینتالیس میں ن لیگی امیدوار کوکامیاب قرار دیا۔

    پٹیشن میں کہنا تھا کہ تیسرے نمبر پر ن لیگ کے انجینئر قمرالاسلام نے اکتالیس ہزار پانچ سو چھپن ووٹ حاصل کیے لیکن آراونے فارم سینتالیس میں انجینئرقمرالاسلام کو باہتر ہزارچھ ووٹ سے کامیاب قراردیا۔

    دائر پٹیشن میں استدعا کی گئی کہ ٹربیونل ریٹرننگ آفیسر کی جانب سے جاری فارم سینتالیس کا نتیجہ کالعدم قرار دے۔

  • بھارت میں عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان

    بھارت میں عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان

    دہلی: بھارت میں عام انتخابات کیلئے تاریخوں کا اعلان کردیا گیا، 19 اپریل سے یکم جون کے درمیان پولنگ ہوگی جس میں 55 لاکھ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کا استعمال کیا جائے گا۔

    الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق بھارت کے الیکشن کمیشن نے 16 مارچ کو نئی دہلی میں ایک نیوز کانفرنس کے دوران 6 ہفتوں کے میراتھن ووٹوں کے شیڈول کا اعلان کرتے ہوئے عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا۔

    چیف الیکشن کمشنر نے لوک سبھا کے انتخابات کی تاریخوں کا اعلان کرتے ہوئے بتایا یہ انتخابات 7 مرحلوں میں کرائے جائیں گے، پہلے مرحلے میں 19 اپریل، دوسرے میں 26 اپریل، تیسرے 7 مئی، چوتھے 13 مئی، پانچویں 20، چھٹے مرحلے میں 25 مئی جبکہ ساتویں مرحلے میں یکم جون کو ووٹ ڈالے جائیں گے اور 4 جون کو انتخابی نتائج کا اعلان کیا جائے گا۔

    بھارتی الیکشن کمیشن کے اعداد وشمار کے مطابق ملک میں اٹھانوے کروڑ ووٹرز ہیں جن میں 47 کروڑ خواتین ووٹر ہیں، الیکشن کرانے کیلئے ڈیڑھ کروڑ اہلکار تعینات کیے جائیں گے۔

    واضح رہے کہ بھارتی حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کا مقابلہ 12 جماعتوں کے اپوزیشن اتحاد انڈیا سے ہوگا، پری پول سروے کے مطابق وزیراعظم نریندر مودی کے تیسری مدت کیلئے وزیراعظم بننے کے قوی امکانات ہیں۔

  • وزیراعظم صاحب! یہ فرینڈلی اپوزیشن نہیں

    وزیراعظم صاحب! یہ فرینڈلی اپوزیشن نہیں

    8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات کے نتائج نے صرف پاکستان اور اداروں کو ہی نہیں بلکہ دنیا کو حیران کیا . جس طرح بے نشان سیاسی پارٹی کے حمایت یافتہ امیدواروں نے ماہر کھلاڑیوں کی طرح بغیر بلے کے ہی سنچری بنا ئی اس نے سب کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے۔ ادھر گومگوں کی کیفیت کا شکار حلقوں کی جانب سے حسب منشا نتائج کے لیے سر توڑ کوششوں اور کئی ہفتوں کی محنت شاقہ کے بعد مختلف الخیال سیاسی جماعتوں کا بھان متی کا کنبہ ایک بار پھر ’’پی ڈی ایم 2‘‘ کی صورت میں اقتدار کی کشتی میں سوار ہو گیا ہے۔

    جمہوری اصولوں کے مطابق تو حکومت سازی کے لیے الیکشن میں اکثریت حاصل کرنے والی جماعت کا پہلا حق ہوتا ہے، لیکن اس ملک میں اس سے قبل پہلے کس کو ان کے حقوق ملے ہیں جو ہم اس جمہوری حق کی بات کریں۔ یہاں تو جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے مترادف جمہوریت کے نام پر ہمیشہ ایک ہائبرڈ نظام لانے کی کوشش کی جاتی ہے، تاکہ معاملات کو قابو میں رکھا جا سکے اور حسب روایت اس بار بھی ایسا ہی دیکھنے میں آیا۔

    پولنگ کے اگلے دن ہی جب تمام آزاد ذرائع اور پاکستانی میڈیا پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواروں کو سب سے بڑا کامیاب امیدواروں گروپ بتا رہا تھا، ایسے میں پاکستانی عوام کی تقدیر کے فیصلے کہیں اور ہو رہے تھے۔ 6 جماعتوں ن لیگ، پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم پاکستان، آئی پی پی، مسلم لیگ ق اور بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کو ایک ساتھ بٹھا کر بحران کا شکار پاکستان کی نیا کو پار لگانے کے لیے جیسے تیسے کر کے ایک بار پھر اقتدار کی کشتی میں سوار کرا ہی دیا۔

    پاکستان میں عام انتخابات جیسے بھی ہوئے، ملکی اور بین الاقوامی سطح پر اس کو کیا پذیرائی ملی، دھاندلی کا کتنا شور اٹھا، غیر جانبدار حلقوں اور ممالک نے کن تشویشات کا اظہار کیا۔ فارم 45 سے 47 تک کیا بحث چلی، پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار جو قومی اسمبلی میں عددی اکثریت میں سب سے بڑا گروپ بن کر سامنے آئے اور مخصوص نشستوں کے حصول کے لیے سنی اتحاد کونسل کی چھتری کا بھی سہارا لیا مگر پی ٹی آئی سے مخصوص نشستوں پر باریک بینی سے گیم کھیل کر اسے اس حق سے نہ صرف محروم بلکہ پہلے سے دوسرے نمبر پر بھی کر دیا گیا، لیکن یہ سب باتیں پرانی اور بے سود ہو گئیں کیونکہ وفاق سمیت چاروں صوبوں میں اس ادھوری سدھوری جمہوریت کے ثمرات نئی حکومتوں کے قیام کی صورت میں مکمل ہو گئے۔

    وفاق میں ن لیگ کے صدر شہباز شریف کے سر پر ایک بار پھر حکمرانی کا تاج سج گیا تو نواز شریف جو چوتھی بار وزیر اعظم بننے کی حسرت پوری نہ کر سکے لیکن اپنی سیاسی وراثت کو اگلی نسل میں منتقل کرتے ہوئے مریم نواز کو وزیراعلیٰ پنجاب بنوانے میں کامیاب رہے۔ پی ٹی آئی کے آزاد امیدواروں نے کے پی میں جھاڑو پھیر کر اپنی حکومت قائم کر لی۔ سندھ میں حسب روایت پی پی کا سکہ چل رہا ہے تو بلوچستان میں پی پی کی سربراہی میں مخلوط حکومت ہے۔

    عمران خان کی حکومت کے خلاف اپریل 2022 میں کامیاب تحریک عدم اعتماد کے بعد شہباز شریف کی قیادت میں پی ڈی ایم کی حکومت قائم کی تھی جس نے اپنے اقدامات سے عوام کو دن میں تارے دکھا دیے تھے۔ پاکستان کے عوام پہلے ہی پی ڈی ایم پارٹ ون کی حکومت کے ذریعے ڈسے ہوئے تھے اور حالیہ الیکشن میں اس کا بدلہ بھی اپنے ووٹ سے لیا لیکن کیا کریں پاکستان کے عوام کی قسمت میں ایک بار پھر اسی بھان متی کے سیاسی کنبے کے حوالے کر دی گئی ہے۔ شہباز شریف کی قیادت میں قائم ہونے والی نئی قائم ہونے والی حکومت بھی ان کی پرانی حکومت کا سیکوئل یعنی ’’پی ڈی ایم پارٹ 2‘‘ ہے مگر کچھ تبدیلیوں کے ساتھ۔

    شہباز شریف بخوشی یا با امر مجبوری وزارت عظمیٰ کا تاج دوبارہ سر پر سجا کر جس کانٹوں بھری کرسی پر براجمان ہوئے ہیں اس کا ان سمیت تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کو احساس تھا اسی لیے معاشی اور سیاسی بحرانوں سے تباہ حال پاکستان کی اس گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ سنبھالنے کو کوئی دل سے تیار نہیں تھا۔ یوں حکومتی ٹرین کی فرنٹ سیٹ ن لیگ کو دوبارہ دی گئی، لیکن اس کو اپنے ووٹوں کی طاقت سے اقتدار میں لانے والی پیپلز پارٹی حکومتی وزارتوں سے دور رہے گی۔ جس کو سیاسی حلقے ایک زیرک سیاسی چال قرار دے رہے ہیں، کیونکہ شہباز شریف کے لیے صرف معاشی نہیں بلکہ کئی سیاسی بحران بھی سامنے موجود ہیں۔ سب سے پہلے تو بھاری قرضوں کی واپسی اور ان کی واپسی سمیت ملکی امور چلانے کے لیے مزید قرضوں کا حصول جس کے لیے آئی ایم ایف کو پی ڈی ایم ون کے ذریعے پہلے ہی پاکستانی عوام پر کئی شکنجے کس چکا ہے مزید نئی اور سخت ترین شرائط کے ساتھ سامنے آئے گا جب کہ اتحادی حکومت کی وجہ سے اتحادیوں کے جائز اور ناجائز مطالبات بھی اس حکومت کے لیے ایک درد سر ہی بنے رہیں گے۔ ایسی صورتحال میں پی پی کا یہ فیصلہ ن لیگ کی بحران زدہ سیاسی کشتی کو ڈبونے کے لیے اس کا سوراخ مزید بڑا کرنے کے مترادف ہی کہا جا سکتا ہے اور بہت سے حلقے تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ پی پی نے جس مفاہمت کا نام لے کر ن لیگ کو سہارا دیا ہے وہ دراصل ن لیگ کو گہرے گڑھے میں دھکیلنے اور اگلی ٹرم میں اپی جگہ پکی کرنے کی ایک سیاسی چال ہے۔

    بہرحال شہباز شریف حکومت سنبھال چکے ہیں اور سابق صدر آصف زرداری جو ممکنہ طور پر جلد ہی موجودہ صدر بھی ہو جائیں گے نے شہباز شریف کو آئنسٹائن سے تشبیہہ دیتے ہوئے کہہ دیا ہے کہ جس طرح آئن اسٹائن مشکل چیلنجز سے نہیں ڈرا اسی طرح شہباز شریف بھی نہیں ڈریں گے اور اہم ان کے پیچھے کھڑے رہیں گے۔ تاہم سیاست بھی ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور، کھانے کے اور کی طرح ہے کہ یہاں جو کچھ کہا جاتا ہے اس پر عمل مشکل سے ہی کیا جاتا ہے، تو شہباز شریف جنہیں جہاں معاشی مسائل، بیروزگاری، بدامنی، مہنگائی جیسے بے قابو جنات کو بوتل میں بند کرنے کے لیے فوری اقدامات کرنا ہوں گے وہیں انہیں اس بات کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا کہ اب ان کے سامنے راجا ریاض کی صورت فرینڈلی اپوزیشن نہیں ہے جو حکومت کی ہر جائز وناجائز بات ہر سر تسلیم خم کرے گی۔ پی ٹی آئی اراکین تو حکومت کی نیندیں اڑائیں گے ہی، لیکن کسی بھی غلط شاٹ (فیصلے) پر پی پی بھی اس کو نہیں بخشے گی۔ ساتھ ہی ماضی میں نواز شریف کے ہم قدم رہنے والے شعلہ بیان بزرگ سیاستدان محمود خان اچکزئی اور پی ڈی ایم ون حکومت کے پشتی بان مولانا فضل الرحمان کا اختلاف دو دھاری تلوار ثابت ہو سکتا ہے اس لیے اب زرا سنبھل کر کہ ان کے ساتھ اب ن لیگ کی ساکھ اور سیاسی مستقبل بھی داؤ پر لگا ہوا ہے۔

    دوسری جانب تین بار پاکستان کے وزیراعظم رہنے والے نواز شریف جو چوتھی بار وزیراعظم پاکستان کا تاج پہننے کی خواہش لیے ’’چار سالہ طویل علاج‘‘ کے بعد اس وطن عزیز میں قدم رنجہ ہوئے تھے تاہم من پسند نتائج اور سادہ اکثریت نہ ملنے کی بنا پر چار وناچار اپنی خواہش کا گلا گھونٹتے ہوئے اپنے چھوٹے بھائی شہباز شریف کو وزیراعظم بنوا تو دیا ہے لیکن اب ان کا اگلا لائحہ عمل کیا ہوگا کیا وہ بغیر حکمرانی کے اسی ملک میں مزید قیام کرنا پسند کریں گے یا پھر ’’کسی خاص وجہ‘‘ کی بنیاد پر واپس بیٹوں کے پاس ان کے دیس چلے جائیں گے یہ بھی جلد عوام کے سامنےآ جائے گا۔

  • عام انتخابات پر اخراجات کا مجموعی تخمینہ ڈیڑھ کھرب سے بھی تجاوز کرگیا!

    عام انتخابات پر اخراجات کا مجموعی تخمینہ ڈیڑھ کھرب سے بھی تجاوز کرگیا!

    عام انتخابات 2024 پاکستان کی تاریخ کے مہنگے ترین انتخابات ثابت ہوئے، عام انتخابات میں پول کیے گئے ہر ووٹ پر اوسطاً 2 ہزار 522 روپے خرچ ہوئے۔

    تفصیلات کے مطابق عام انتخابات پر اخراجات کا مجموعی تخمینہ 1 کھرب 52 ارب، 65 کروڑ، 91 لاکھ 50 ہزار روپے لگایا گیا ہے۔ امیدواروں نے انتخابی مہم میں 1 کھرب 3 ارب، 95 کروڑ 20 لاکھ روپے خرچ کیے۔ الیکشن کمیشن نے عام انتخابات 2024 پر 48 ارب روپے خرچ کیے۔

    ذرائع نے بتایا کہ عام انتخابات میں 6 کروڑ، 5 لاکھ، 8 ہزار 212 ووٹ ڈالے گئے۔ قومی اسمبلی کے 5 ہزار 254 امیدواروں کو 1 کروڑ روپے انتخابی اخراجات کی اجازت گی گئی تھی۔ قومی اسمبلی کے امیدواروں نے 52 ارب 54 کروڑ روپے کے اخراجات کیے۔

    صوبائی اسمبلیوں کے 12853 امیدواروں کو 40 لاکھ تک اخراجات کی اجازت تھی۔ صوبائی اسمبلیوں کے امیدواروں نے 51 ارب 41 کروڑ20 لاکھ روپے کےاخراجات کیے۔

    اہلکاروں، حساس، انتہائی حساس پولنگ اسٹیشنز پر کیمروں کی تنصیب سے اخراجات بڑھے۔ بیشتر امیدواروں نے 50 فیصد اخراجات پولنگ کے دن ٹرانسپورٹ و دیگر مد میں خرچ کیے۔

    درآمد شدہ واٹرمارک پیپر، اسٹیشنری کی اشیا، انتخابی دستاویز اور بیلٹ پیپرز پر خطیر رقم خرچ ہوئی۔ انتخابی اہلکاروں کی تربیت، الیکشن کے دن معاوضوں کی ادائیگی پر بھی رقم خرچ کی گئی۔ حلقہ بندی، انتخابی فہرستوں پر نظرثانی، انتخابی مواد و دیگر پر بھی اربوں خرچ ہوئے۔

    الیکشن مینجمنٹ سسٹم تمام تر دعوؤں کے باوجود، انٹرنیٹ کی بندش کے سبب نتائج نہ دے سکا۔ ای ایم ایس کی تیاری، آزمائش، عملے کی تربیت اور آلات کی خریداری پر بھی اخراجات ہوئے۔

    ملک بھر سے کاغذات نامزدگی کی مد میں امیدواروں نے 65 کروڑ سے زائد کی رقم جمع کرائی۔ امیدواروں نے مجموعی طور پر 65 کروڑ 57 لاکھ 40 ہزار روپے کی رقم جمع کرائی۔

    قومی اسمبلی کی جنرل اورمخصوص نشستوں کیلئے 8 ہزار 322 کاغذات جمع کرائے گئے۔ قومی اسمبلی کے امیدواروں نے خزانے میں 24 کروڑ، 96 لاکھ 60 ہزارروپے جمع کرائے۔ صوبائی اسمبلیوں کی جنرل اورمخصوص نشستوں کیلئے 20 ہزار 304 کاغذات جمع کرائے گئے۔

    صوبائی اسمبلیوں کے امیدواروں نے 40 کروڑ 60 لاکھ 80 ہزار روپے جمع کرائے۔ 459 خواتین نے مخصوص نشستوں کے لیے ایک کروڑ 37 لاکھ 70 ہزارروپے کی رقم جمع کرائی۔

    اقلیتی نشستوں کے لیے 150 کاغذات کے ہمراہ 45 لاکھ روپے جمع کرائے گئے۔ قومی اسمبلی کی نشست کے انتخابات میں حصہ لینے کی فیس30 ہزار روپے مقرر کی گئی تھی۔

    صوبائی اسمبلیوں میں خواتین کیلئے 1 ہزار 365 کاغذات کیساتھ 2 کروڑ 73 لاکھ جمع ہوئے۔ صوبائی اسمبلیوں میں اقلیتی نشستوں پر 393 کاغذات کیساتھ 78 لاکھ 60 ہزار روپے جمع ہوئے۔

    صوبائی اسمبلی کی نشست کے لیے انتخابات کی فیس 20 ہزار روپے مقرر کی گئی تھی۔ انتخابات میں حصہ لینے کے لیے جمع کرائی گئی رقم ناقابل واپسی تھی۔

  • ‘عام انتخابات  ناکام قرار ،  انوکھے نتائج سے گوگل بھی پریشان’

    ‘عام انتخابات ناکام قرار ، انوکھے نتائج سے گوگل بھی پریشان’

    اسلام آباد : سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے عام انتخابات کو ناکام قرار دے دیا اور کہا الیکشن کے انوکھے نتائج سے گوگل بھی پریشان ہے، فارم 47 فارم 45 سے جیت گیا۔

    تفصیلات کے مطابق سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے عدالت میں پیشی کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جو بھی ان حالات میں حکومت میں آیاوہ ملکی مسائل حل نہیں کر سکے گا۔

    شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ نیب کا معاملہ ہے پانچواں سال ہے، اب تک جرم کا نہیں پتا، اب نئی حکومت آرہی ہے امیدہے ملک کی نیب سےجان چھڑائیں گے، سیاست اقتدار کی ہوتی ہے، اس سےہمیشہ ملک کا نقصان ہی ہوا۔

    سابق وزیراعظم نے کہا کہ ہمارے انوکھے الیکشن سے گوگل بھی پریشان ہے، گوگل تھک گیا ہے رزلٹ دیتے دیتے، آسان حل ہے جس کے پاس فارم 45 ہے وہ جیتا ہوا ہے، فارم 47 جیت گیا اورفارم 45 ہار گیا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ میں نے پہلی دفعہ الیکشن میں حصہ نہیں لیا اور شکر کرتا ہوں اس خرابی میں حصہ لینے سے بچ گیا۔

    شاہد خاقان عباسی نے گفتگو میں کہا کہ الیکشن کمیشن کا کمال دیکھیں فارم سینتالیس پہلےبن گیا اورفارم پینتالیس بعد میں بنا، میں کہتا تھا آگے کاراستہ بنائے بغیر الیکشن ہوئے توانتشار ہوگا اوریہ بات سچ ثابت ہوئی۔

    مولانا فضل الرحمان کے حوالے سے سابق وزیراعظم نے کہا کہ میرا نہیں خیال مولانا نے پی ڈی ایم کو خیر باد کہا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ ایسی سیاست عوام اور ملک کو نقصان دیتی ہے، سیاسی قیادت اقتدار کی جنگ سے نکلے اور ملک کے بارے میں سوچے، آج کوئی بھی اقتدار کا مستحق نہیں۔

    شاہد خاقان عباسی نے مزید کہا کہ انوکھی بات ہےکوئی بھی خود کواقتدارکےلائق نہیں سمجھتا، جو کمپرومائز کرے گاوہ اقتدارمیں آئےگا، ابھی تک تو کاکڑصاحب کامیاب ہیں۔

  • الیکشن 2024 پاکستان: شوبز شخصیات نے بھی ووٹ کاسٹ کردیا

    الیکشن 2024 پاکستان: شوبز شخصیات نے بھی ووٹ کاسٹ کردیا

    ملک بھر میں آج عام انتخابات کے لیے ملک بھر میں پولنگ کا آغاز ہوچکا ہے، پاکستان کی متعدد شوبز شخصیات نے بھی ووٹ کاسٹ کردیا ہے۔

    پاکستان کے بارہویں اور ملکی تاریخ کے سب سے بڑے عام انتخابات کیلئے پولنگ کا عمل جاری ہے، ملک بھر میں پولنگ کا عمل بغیر کسی وقفے کے صبح 8 بجے سے شام 5 بجے تک جاری رہے گا۔

    الیکشن 2024 پاکستان: پولنگ کی مکمل کوریج اور معلومات – لائیو

    جہاں ملک بھر سے کئی بزرگ شخصیات اپنا کاسٹ کرنے باہر نکلیں ہیں وہی دوسری جانب پاکستان کے متعدد شوبز شخصیات نے بھی اپنا ووٹ کاسٹ کردیا ہے۔

    پاکستان کے معروف و سینئر اداکارہ حنا خواجہ بیان نے انسٹاگرام پر اپنی ویڈیو شیئر کی جس میں انہوں نے کہا کہ الحمداللہ میں نے اپنا ووٹ ڈال دیا ہے آپ بھی تاخیر نہ کریں گھروں سے نکلیں اور اپنا ووٹ کاسٹ کریں۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by Hina Bayat (@hinakhwajabayatofficial)

    اداکارہ نے کہا کہ پولنگ اسٹیشن جانے سے پہلے اپنے حلقے کی تمام معلومات کاغذ پر لکھ لیں اور اپنا اصلی شناختی لازمی ساتھ لیکر جائیں۔

    پاکستان کی معروف اداکارہ عائزہ خان نے فوٹو اینڈ ویڈیو شیئرنگ ایپ انسٹاگرام پر کار میں لی گئی سیلفی شیئر کی ہے، انہوں نے کیپشن میں الیکشن سے متعلق لوگوں کو آگاہ کیا ہے۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by Ayeza Khan (@ayezakhan.ak)

    پاکستان کی سینئر اداکارہ ثناء فخر نے بھی سیاحی لگے انگوٹھے کیساتھ تصویر شیئر کی اور کیپشن میں مداحوں سے پوچھا کہ ’آپ کونسی جماعت کو ووٹ دیں گے‘۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by SANA Nawaz (@sana_fakhar)

    پاکستانی اداکار حمزہ علی عباسی نے بھی ووٹ کاسٹ کرنے کے بعد اپنی اور انگوٹھے کی تصویر شیئر کرتے ہوئے’ووٹ’ کا الفاظ تحریر کیا۔

    اس کے علاوہ اداکار عثمان خالد بٹ نے بھی ووٹ کاسٹ کرنے کے بعد تصویر مداحوں کیساتھ شیئر کی، کیپشن میں انہوں نے مداحوں کو پیغام دیا کہ پولنگ اسٹیشن کے اندر موبائل فون، ڈیجیٹل واچز اور کاغذ پر لکھا ہوا حلقہ نمبر، شماریاتی بلاک کوڈ وغیرہ بھی آپکو اندر لے جانے کی اجازت نہیں۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by Osman Khalid Butt (@aclockworkobi)

  • الیکشن 2024 پاکستان: فارم 45، 46، 47، 48 اور 49 کیا ہیں؟

    الیکشن 2024 پاکستان: فارم 45، 46، 47، 48 اور 49 کیا ہیں؟

    اسلام آباد: پاکستان میں عام انتخابات کے لیے پولنگ کل ہو گی، ووٹرز قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے 855 حلقوں میں امیدوار چنیں گے، ملک بھر میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 12 کروڑ 85 لاکھ 85 ہزار 760 ہے۔

    الیکشن والے روز کچھ فارمز بہت ضروری ہوتے ہیں جن کے بارے میں جاننا ضروری ہے، رپورٹ کے مطابق فارم 45، فارم 46، فارم 47، فارم 48 اور فارم 49 وہ فارمز ہیں جو الیکشن نتائج مرتب کرنے کے نظام سے متعلق ہیں۔

    فارم 45

     عام انتخابات ہوں یا ضمنی انتخاب، فارم 45 کا تذکرہ اور الزامات ہمیشہ ہی لگائے جاتے ہیں، فارم 45 عام طور پر ’رزلٹ آف دی کاوئنٹ‘ کہا جاتا ہے، اس اہم فارم میں پولنگ اسٹیشن کا نمبر، حلقے کا نام، رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد، ڈالے گئے ووٹوں کی کل تعداد اور ہر امیدوار کے حاصل کردہ ووٹوں کی تفصیل شامل ہوتی ہے، امیدوار پولنگ اسٹیشن سے فارم 45 کے ذریعے اپنے حاصل کردہ ووٹوں کی تعداد خود گن سکتے ہیں۔

    فارم 46

     فارم 46 میں پولنگ اسٹیشن میں موصول ہونے والے بیلٹ پیپرز کی تعداد، بیلٹ باکسز سے نکالے گئے بیلٹ پیپرز کی تعداد، چیلنج کئے گئے، غلط اور منسوخ شدہ بیلٹ پیپرز کی تعداد سے متعلق تمام معلومات موجود ہوتی ہیں، اس کے علاوہ فارم 46 میں غیر قانونی نتائج کے بارے میں بھی معلومات شامل ہوتی ہیں۔

    فارم 47

     فارم 47 میں انتخابی حلقے کے غیر مصدقہ نتائج کے بارے میں معلومات شامل ہوتی ہیں، اس کے علاوہ اس فارم میں ڈالے گئے اور منسوخ کئے گئے ووٹوں کی تعداد کا بھی ذکر ہوتا ہے۔

    فارم 48

    الیکشن نتائج کی تیاری کے لئے فارم 48 سب سے اہم فارم ہے کیونکہ اس میں ایک حلقے میں ہر امیدوار کو ڈالے گئے ووٹوں کی تعداد شامل ہوتی ہے۔

    فارم 49

    فارم 49 پاکستان کے گزٹ میں شامل کیا گیا ہے اس فارم کو حتمی اور سرکاری نتیجے کا فارم بھی کہا جاتا ہے، فارم 49 میں امیدواروں کے نام، ان سے وابستہ سیاسی جماعتوں کے نام اور انتخابی حلقے میں حاصل کردہ ووٹ کی معلومات شامل ہوتی ہیں۔

  • جنرل نشستوں پر سیاسی جماعتوں کی خواتین امیدواروں سے متعلق فافن کی جائزہ رپورٹ

    جنرل نشستوں پر سیاسی جماعتوں کی خواتین امیدواروں سے متعلق فافن کی جائزہ رپورٹ

    اسلام آباد: الیکشن 2024 میں جنرل نشستوں پر سیاسی جماعتوں کی خواتین امیدواروں سے متعلق فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) نے جائزہ رپورٹ جاری کی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق فافن نے الیکشن 2024 میں جنرل نشستوں پر خواتین امیدواروں سے متعلق جائزہ رپورٹ میں کہا ہے کہ قومی و صوبائی اسمبلیوں کی جنرل نشستوں پر 111 سیاسی جماعتوں کی 275 خواتین امیدوار ہیں، جو 6037 امیدواروں کا 4.6 فی صد ہیں۔

    فافن رپورٹ کے مطابق یہ تجزیہ قومی و صوبائی اسمبلیوں کے لیے انتخابی امیدواروں کے فارم 33 کی بنیاد پر کیا گیا ہے، مذکورہ قانون کا تکنیکی اطلاق جنرل نشستوں پر کم از کم 20 امیدوار نامزد کرنے والی جماعت پر ہوتا ہے۔

    الیکشن 2024 پاکستان : پولنگ والے دن ووٹرز کو بریانی، میوہ چنا پلاؤ اور کباب کھلانے کی تیاری

    رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 111 سیاسی جماعتوں میں سے 30 جماعتوں نے 5 فی صد سے زائد خواتین امیدوار نامزد کیں، 4 سیاسی جماعتوں نے 4.5 سے 5 فی صد کے درمیان شرح سے خواتین امیدوار نامزد کیں۔

    فافن رپورٹ کے مطابق 77 جماعتوں نے 4.5 فی صد تک خواتین امیدوار نامزد کیں، قومی اسمبلی کے انتخابی حلقوں پر 94 جماعتوں کے 1872 امیدوار ہیں۔