Tag: عام انتخابات 2024

  • عام انتخابات 2024، کس سیاسی جماعت کا ووٹ بینک برقرار رہا؟ فافن رپورٹ آگئی

    عام انتخابات 2024، کس سیاسی جماعت کا ووٹ بینک برقرار رہا؟ فافن رپورٹ آگئی

    فافن کی رپورٹ میں عام انتخابات 2024 سے متعلق انکشاف کیا گیا ہے کہ ان انتخابات میں بڑی سیاسی جماعتوں نے ووٹ بینک برقرار رکھا۔

    تفصیلات کے مطابق فافن رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بڑی سیاسی جماعتوں نے 2024 کے انتخابات میں مجموعی اورانفرادی ووٹ بینک دونوں برقراررکھا، پی ٹی آئی، ن لیگ اور پی پی پی نے قومی اسمبلی کیلئے 68 فیصد ووٹ حاصل کیے۔

    فافن کے مطابق پی ٹی آئی، ن لیگ اور پی پی پی نے صوبائی اسمبلیوں کیلئے 62 فیصد ووٹ حاصل کیے، الیکشن 2018 میں پی ٹی آئی، ن لیگ، پی پی پی نے قومی اسمبلی کیلئے 69 فیصد ووٹ لیے تھے۔

    الیکشن 2018 میں پی ٹی آئی، ن لیگ، پیپلزپارٹی نے صوبائی اسمبلیوں میں 61 فیصد ووٹ لیے تھے، الیکشن 2013 میں تینوں جماعتوں کے قومی اسمبلی میں 65، صوبائی اسمبلیوں میں 58 فیصد ووٹ تھے

    رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کسی سرکردہ پارٹی نے اپنے گڑھ میں قطعی اکثریت حاصل نہیں کی، کےپی میں پی ٹی آئی نے قومی اسمبلی کے مقابلوں میں 45 فیصد ووٹ حاصل کیے۔

    فافن کے مطابق کےپی میں قومی اسمبلی کیلئے 55 فیصد ووٹ دیگر جماعتوں میں تقسیم ہوئے، جے یو آئی 16 فیصد، ن لیگ 10 فیصد اور اے این پی نے7 فیصد ووٹ حاصل کیے، آزاد امیدواروں نے 7 فیصد جبکہ دیگر جماعتوں نے مجموعی طور پر 15 فیصد ووٹ لیے

    پیپلزپارٹی نے سندھ میں قومی ووٹوں کا 46 فیصد حاصل کیا، جی ڈی اے 12 فیصد، پی ٹی آئی اور آزاد امیدواروں نے 9 فیصد ووٹ لیے، ایم کیو ایم نے 8 فیصد، دیگر چھوٹی جماعتوں نے مجموعی طور پر 16 فیصد ووٹ لیے۔

    فافن رپورٹ میں بتایا گیا کہ بلوچستان میں ووٹ بینک کا رحجان سب سے زیادہ منقسم رہا، بلوچستان میں علاقائی جماعتوں نے 35 فیصد اور آزاد امیدواروں نے 16 فیصد ووٹ لیے۔

    بلوچستان میں جے یو آئی 16 فیصد، ن لیگ 14 فیصد، پی پی 10 فیصد، پی ٹی آئی نے 7 فیصد ووٹ لیے، پی ٹی آئی، ن لیگ، پی پی نے ووٹ شیئرز کے مقابلے میں زیادہ سیٹیں جیتیں۔

  • الیکشن 2024 پاکستان : ملک میں ووٹر ٹرن آوٹ کتنا فیصد  رہا؟

    الیکشن 2024 پاکستان : ملک میں ووٹر ٹرن آوٹ کتنا فیصد رہا؟

    اسلام آباد : فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک فافن کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ووٹر ٹرن آوٹ 48 فیصد رہا، پولنگ اسٹیشنز پر شفافیت قائم رہی لیکن آر او آفس میں شفافیت پرسمجھوتا ہوا۔

    تفصیلات کے مطابق عام انتخابات 2024 کے حوالے سے فافن نے ابتدائی مشاہدہ رپورٹ جاری کردی ، جس میں بتایا گیا کہ ملک میں ووٹر ٹرن آوٹ 48 فیصد رہا اور 8 فروری کو ملک میں 5 کروڑ سے زیادہ ووٹرز نے ووٹ ڈالا۔

    فافن کا کہنا تھا کہ عام انتخابات دوہزار چوبیس سے ملک میں بے یقینی کا دور ختم ہوگیا،انتخابات مجموعی طور پر پرامن رہے، پولنگ بہتر طریقے سے مکمل ہوئی، چھ کروڑ ووٹرز نے حق رائے دہی استعمال کیا۔

    ووٹر ٹرن آوٹ کے حوالے سے رپورٹ میں کہا گیا کہ ووٹر ٹرن آوٹ اڑتالیس فیصد رہا، اسلام آباد میں توچون فیصد ووٹ پول ہوئے۔

    فافن نے کہا کہ پولنگ اسٹیشنز پر شفافیت قائم رہی لیکن آر اوآفسز میں شفافیت پر سمجھوتا ہوا، ترپن مبصرین کو ووٹنگ کے مرحلے تک رسائی نہیں دی گئی،پریزائیڈنگ افسران نےفارم پینتالیس کی کاپی اٹھائیس فیصد پولنگ اسٹیشن پرمبصرین کو نہیں دی۔

    رپورٹ کے مطابق سولہ لاکھ بیلٹ پیپرز مسترد ہوئے،گذشتہ عام انتخابات میں بھی اتنے ہی بیلٹ مسترد ہوئے تھے، پچیس حلقوں میں مسترد ووٹوں کا مارجن جیت کے مارجن سے زیادہ تھا۔

    فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک نے بتایا کہ الیکشن دوہزارچوبیس میں بڑی سیاسی جماعتوں کا ووٹ بینک برقرار رہا یا اس میں بہتری آئی، نتائج بتاتے ہیں دو سو پینتیس حلقوں میں ن لیگ کا ووٹ بینک بارہ اعشاریہ نو ملین سے بڑھ کر تیرہ اعشاریہ تین ملین تک پہنچ گیا۔

    فافن کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی حمایت یافتہ آزاد امیداروں نے گذشتہ سال کی طرح مجموعی طور پر سولہ اعشاریہ آٹھ پانچ ملین ووٹ حاصل کئے جبکہ پیپلز پارٹی کے ووٹوں کی تعداد چھ اعشاریہ نو ملین سے بڑھ کر سات اعشاریہ نو ملین ہوگئی۔

    رپورٹ میں فافن کے مطابق یکساں مواقع نہ ملنے کا شکوہ اور دہشت گردی کے خطرے کے باوجود تمام سیاسی جماعتوں نے الیکشن میں حصہ لیا، تنقید کے باوجود الیکشن کمیشن نے انتخابی مشق کو منعقد کیا جو قابل ستائش ہے۔

    سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے کہ ملک میں استحکام کو یقینی بنائیں۔سیاسی جماعتوں اورامیدواروں کے نتائج پر تحفظات کو الیکشن کمیشن کو جلد حل کرنے کی ضرورت ہے۔

  • قومی و صوبائی اسمبلیوں کے 105 حلقوں کے غیر حتمی نتائج

    قومی و صوبائی اسمبلیوں کے 105 حلقوں کے غیر حتمی نتائج

    ملک بھر میں عام انتخابات 2024 کے لیے ووٹنگ کا وقت ختم ہونے کے بعد ووٹوں کی گنتی جاری ہے اور ساتھ ہی غیرحتمی و غیر سرکاری نتائج آنے کا سلسلہ برقرار ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق قومی وصوبائی اسمبلیوں کے858حلقوں میں سے105کے غیرحتمی نتائج سامنے آگئے ہیں۔

    قومی اسمبلی کے19حلقوں کے غیرحتمی غیر سرکاری نتائج کی اگر بات کی جائے تو قومی اسمبلی میں پی پی 8، ن لیگ5، انڈیپنڈنٹ 6 امیدوار کامیاب ہوئے۔

    غیر حتمی غیر سرکاری نتائج کے مطابق پنجاب اسمبلی کیلئے ن لیگ کے15، انڈیپنڈنٹ 5 امیدوار جیت گئے، سندھ اسمبلی کیلیے پیپلزپارٹی کے 31 امیدوار فاتح قرار پائے۔

    سندھ اسمبلی کیلئے انڈیپنڈنٹ اور جی ڈی اے کا ایک، ایک امیدوار کامیاب ہوا، خیبرپختونخوا اسمبلی کیلئے 20 انڈیپنڈنٹ اور ایک آزاد امیدوار کامیاب ہوئے۔

    بلوچستان اسمبلی کیلئے اب تک 12نشستوں کے غیرحتمی نتائج آگئے، بلوچستان اسمبلی کیلئے پی پی 3، ن لیگ 2، بی این پی کا ایک امیدوار کامیاب ہوا۔ بلوچستان اسمبلی کیلئے جے یو آئی2، اے این پی ایک اور دیگر3 امیدوار بھی کامیاب ہوئے۔

    پی بی 34 نوشکی سے جے یو آئی کے میر غلام دستگیر 16771 ووٹ لیکر کامیاب ہوئے، بی این پی کے محمد رحیم 15014 ووٹ لیکر دوسرے نمبر پر رہے۔

     پی پی 150 لاہور سے ن لیگ کے خواجہ عمران 34956 ووٹ لیکر کامیاب ہوئے، جبکہ انڈیپنڈنٹ امیدوار عبدالکریم 30314 ووٹ لیکر دوسرے نمبر پر رہے۔

     پی کے 88 نوشہرہ سے انڈیپنڈنٹ امیدوار میاں محمد عمر 38384 ووٹ لیکر کامیاب ہوئے، جے یوآئی کے احدخٹک 12071 ووٹ لیکر دوسرے نمبر پر رہے۔

     پی ٹی آئی پی کے پرویزخٹک 9009 ووٹ لے سکے، این اے 195 لاڑکانہ سے پیپلزپارٹی کے نظیر احمد بگھیو 133830 ووٹ لیکر جیت گئے۔

     جی ڈی اے کے صفدر علی عباسی 48893 ووٹ لے سکے،  پی پی 152 لاہور سے ن لیگ کے ملک محمد وحید 34664 ووٹ لیکر کامیاب ہوئے۔

     انڈیپنڈنٹ امیدوار نعمان مجید 29676 ووٹ لیکردوسرے نمبر پر رہے، پی پی 85 میانوالی سے انڈیپنڈنٹ امیدوار محمد اقبال 92407 ووٹ لیکرکامیاب ہوئے۔

    الیکشن 2024 پاکستان: مکمل غیر حتمی، غیر سرکاری نتائج

     مسلم لیگ(ن)کے امانت اللہ خان 23501ووٹ لے سکے،  پی ایس73 سجاول سے پیپلزپارٹی کے شاہ حسین شاہ شیرازی 72942 ووٹ لیکرکامیاب ہوئے۔ جے یوآئی کے محمد اسماعیل میمن6167 ووٹ لیکر ہار گئے۔

  • پشین اور قلعہ سیف اللہ دھماکوں کے مقدمات درج

    پشین اور قلعہ سیف اللہ دھماکوں کے مقدمات درج

    کوئٹہ: بلوچستان کے ضلع پشین اور قلعہ سیف اللہ میں دھماکوں کے مقدمات نامعلوم دہشت گردوں کے خلاف درج کرلیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق ملک میں ہونے والے عام انتخابات 2024 سے ایک روز قبل بلوچستان کے ضلع پشین اور قلعہ سیف اللہ میں بم دھماکوں کے مقدمات نامعلوم دہشت گردوں کے خلاف درج کرلیا گیا۔

    ذرائع کے مطابق مقدمات انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت سی ٹی ڈی کی جانب سے درج کیے گئے۔

    قلعہ سیف اللہ میں جے یو آئی کے دفتر کے قریب دھماکا، 12 افراد جاں بحق، متعدد زخمی

     واضح رہے کہ بلوچستان کے ضلع پشین اور قلعہ سیف اللہ میں ہونے والے دو بم دھماکوں میں ہلاکتوں کی تعداد 29 تک پہنچ گئی جبکہ 46 افراد زخمی ہوئے، یہ دھماکے پشین خانوزئی میں آزاد امیدوار جبکہ قلعہ سیف اللہ میں جے یوآئی دفتر پر ہوئے تھے۔

    حکام کے مطابق بدھ کی صبح پہلا دھماکہ کوئٹہ سے متصل ضلع پشین کے علاقے خانوزئی میں قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 265 اور بلوچستان اسمبلی کی نشست پی بی 47 سے آزاد امیدوار اسفندیار کاکڑ کے انتخابی دفتر کے باہر ہوا۔

    اس کے بعد ایک گھنٹے کے اندر ہی دوسرا دھماکہ پشین سے ہی متصل ضلع قلعہ سیف اللہ میں شہر کے مرکزی علاقے جنکشن چوک کے قریب جمعیت علماء اسلام کے انتخابی دفتر کے داخلی گیٹ پر ہوا۔

    حکام کے مطابق دونوں دھماکے اس وقت ہوئے جب وہاں پولنگ ایجنٹ کی میٹنگ جاری تھی اور انتخابی تیاریوں کے حوالے سے بڑی تعداد میں لوگ موجود تھے۔

  • الیکشن 2024 پاکستان: خدشات اور افواہیں دم توڑ گئیں، کل عوام اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں گے!

    الیکشن 2024 پاکستان: خدشات اور افواہیں دم توڑ گئیں، کل عوام اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں گے!

    الیکشن 2024 پاکستان عام انتخابات کے انعقاد سے متعلق تمام خدشات، افواہیں اور قیاس آرائیاں دَم توڑ چکی ہیں اور بعض حلقوں کی خواہش کے برخلاف وہ دن آن پہنچا ہے جب پاکستانی قوم آئندہ پانچ سال کے لیے اپنے سیاسی امیدواروں کو منتخب کرے گی۔ کل (8 فروری) کو قوم کسی امیدوار یا جماعت کو نہیں بلکہ اپنے مستقبل کو ووٹ دے گی اور یہی ووٹ پاکستان کی سمت کا تعین کرے گا۔

    سپریم کورٹ کے حکم پر جب الیکشن کمیشن نے 8 فروری کو عام انتخابات کرانے کا اعلان کیا تھا تو اس اعلان کے ساتھ ہی ملک میں جاری سیاسی بحران اور دیگر سیاسی وجوہ کی بناء پر خدشات نے بھی سَر اٹھایا کہ شاید اعلان کردہ تاریخ پر الیکشن کا انعقاد ممکن نہ ہو اور ان خدشات کو کئی علاقوں میں بڑھتے ہوئے دہشت گردی کے واقعات، سینیٹ میں الیکشن کے التوا کے لیے پیش کردہ قراردادوں اور شدید سیاسی انتشار نے ہوا دی، لیکن صد شکر کہ ایسا نہیں ہوا اور قوم کو ملک کی 12 ویں پارلیمنٹ منتخب کرنے کا موقع مل رہا ہے۔

    اے آر وائی نیوز اردو کی جانب سے الیکشن کی تمام رپورٹس، خبروں اور تجزیوں کے لئے اس لنک پر کلک کریں! 

    انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے ساتھ ہی سیاسی جماعتوں نے سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کر دیا تھا، جو جلد ہی گرما گرم سیاسی مقابلے میں تبدیل ہوگئیں اور حسبِ روایت پاکستان کے سیاسی حلیف اور سابق اتحادی ایک دوسرے کے بدترین حریف کی صورت عوام کے سامنے آئے۔ اس کے بعد الزام تراشی کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہو گیا، تاہم الیکشن کے بعد کیا صورتحال ہوگی، الیکشن کے موقع پر بدترین حریف کے طور پر سامنے آنے والے ملکی مفاد میں کل بہترین حلیف بھی بنیں‌ گے یا نہیں، یہ دیکھنا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔

    یہ عام انتخابات ملکی تاریخ کے مہنگے ترین الیکشن قرار دیے جا رہے ہیں جس کے انتظامات پر اخراجات گزشتہ انتخابات سے کئی گنا زائد بتائے جارہے ہیں۔ قومی اسمبلی کی 266 اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کی مجموعی طور پر 593 جنرل نشستوں کے لیے رجسٹرڈ ووٹرز 12 کروڑ 85 لاکھ 85 ہزار 760 اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے۔ قومی اور چاروں صوبوں کے مجموعی طور پر 859 حلقوں کیلیے 26 کروڑ بیلٹ پیپرز چھاپے گئے ہیں۔

    یہ الیکشن صرف انتظامات اور اخراجات کے حوالے سے ہی نہیں بلکہ سیاسی گہما گہمی کے حوالے سے بھی نئی تاریخ رقم کرے گا کہ ملکی تاریخ میں پہلی بار طیاروں کو انتخابی مہم کے لیے استعمال کیا گیا۔ پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ پاکستان نے اپنے حلقوں میں پمفلٹ فضا سے گرائے جب کہ کچھ حلقوں میں تو امیدواروں کی جیت پر جوا لگانے کی اطلاعات بھی میڈیا کے ذریعے سامنے آ چکی ہیں۔

    یوں تو کئی سیاسی جماعتیں انتخابات میں شریک ہیں جن میں ن لیگ، پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی، جے یو آئی، آئی پی پی، متحدہ قومی موومنٹ، ق لیگ، جی ڈی اے، اے این پی سمیت صوبائی سطح کی سیاسی جماعتیں شامل ہیں۔ پی ٹی آئی کو الیکشن کمیشن انتخابی نشان بلے سے محروم کر چکی، جس کی وجہ سے اس کے نامزد امیدوار آزاد حیثیت میں اور مختلف انتخابی نشانات کے ساتھ الیکشن لڑ رہے ہیں۔ اس الیکشن کے لیے جہاں ن لیگ اور پی پی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں نے آزادانہ اور بھاری رقم خرچ کر کے انتخابی مہم چلائی ہے وہیں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواروں کو اپنی انتخابی مہم چلانے میں کئی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا اور اکثر حلقوں میں امیدواروں نے صرف پمفلٹ اور پوسٹرز کے ذریعے ہی کام چلایا جب کہ ان کے کئی امیدواروں‌ کو قید و بند کا سامنا ہے۔ الیکشن سے قبل جس طرح بانی پی ٹی آئی عمران خان اور وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کو سائفر کیس اور پھر بانی پی ٹی آئی اور ان کی اہلیہ کو نکاح کیس میں سزا سنائی گئی ہے، اس کے بعد بعض غیرجانب دار حلقوں اور سیاسی مبصرین نے الیکشن کی شفافیت پر سوال اٹھایا ہے۔


    الیکشن کے لیے سیاسی جماعتوں کی انتخابی مہم لگ بھگ دو ماہ جاری رہی۔ سیاسی جماعتوں کی ملک گیر انتخابی مہم کا جائزہ لیا جائے تو نوجوان سیاسی رہنما اور پی پی چیئرمین بلاول بھٹو سب سے آگے نظر آتے ہیں۔ انہوں نے کراچی تا خیبر سب جگہ سیاسی ماحول کو گرمایا اور بڑے جلسے کیے تاہم ن لیگ جس کی جانب سے بڑے بڑے دعوے سامنے آئے ہیں، ان کے قائد نواز شریف سمیت صف اول کی قیادت نے انتخابی مہم میں بلوچستان اور سندھ کو یکسر نظر انداز کیا اور ایک بھی جلسہ نہیں کر سکے۔ ن لیگ کے اس اقدام سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کا فوکس طاقت کا مرکز پنجاب ہی رہا ہے تاہم ان کا یوں دو صوبوں کے عوام سے دور رہنا ان کے لیے سیاسی خسارے کا سبب بھی بن سکتا ہے۔

    ن لیگ، پیپلز پارٹی، تحریک انصاف، جماعت اسلامی، استحکام پاکستان پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ پاکستان الیکشن سے کئی روز قبل اپنے اپنے سیاسی منشور کا اعلان کر چکی ہیں جس میں عوام کے لیے نئی ملازمتیں پیدا کرنے، نئے گھر بنانے، تنخواہوں میں اضافہ، ترقیاتی سمیت کئی عوامی فلاحی منصوبے، غربت اور مہنگائی کا خاتمہ سمیت دیگر منصوبے بھی شامل ہیں لیکن اگر عوام ذہن پر زور ڈالیں تو اس منشور میں کوئی ایسی نئی بات نہیں، جو اس سے قبل نہ کی گئی ہو جب کہ بجلی مفت دینے کے وعدے پر تو لگتا ہے کہ سیاسی جماعتیں ایک پیج پر ہیں اور تقریباً ہر جماعت نے اپنے ووٹرز سے اقتدار میں آ کر انہیں مفت بجلی فراہم کرنے کا دلفریب وعدہ کیا ہے، تاہم کسی جماعت نے اس منشور پر عملدرآمد کا راستہ نہیں بتایا کہ عوام کو جو سبز باغ الیکشن سے قبل دکھائے جا رہے ہیں، تو جب جیتنے کے بعد اس پر عملدرآمد کا وقت آئے گا تو وہ کیسے ان وعدوں کو پایۂ تکمیل تک پہنچائیں گے۔

    سیاسی جماعتوں نے قوم کے سامنے صرف اپنے اپنے منشور ہی پیش نہیں کیے بلکہ اس کے ساتھ وہ نئے نعروں کے ساتھ میدان میں اتری ہیں، جیسا کہ ن لیگ کا نعرہ ’’پاکستان کو نواز دو‘‘، پیپلز پارٹی کا نعرہ ’’چنو نئی سوچ کو‘‘، پی ٹی آئی کا نعرہ ’’ظلم کا بدلہ ووٹ سے‘‘، متحدہ قومی موومنٹ کا نعرہ ’’اپنا ووٹ اپنوں کے لیے‘‘ جیسے نعرے شامل ہیں۔ سب سے اہم بات کہ قومیں اور ملک کا مستقبل نوکریوں، خیراتی پروگراموں، مفت بجلی فراہمی کے پروگراموں سے نہیں بلکہ جدید تعلیم سے بنتا ہے لیکن ہماری کسی سیاسی جماعت میں شاید یہ شعبہ ترجیحاً شامل نہیں جس کی اس وقت اشد ضرورت ہے اور اگر شامل بھی ہے تو وہ سر فہرست نہیں ہے۔ پاکستان کے روشن مستقبل اور ہماری بقاء کے لیے اس وقت جس چیز کی اشد ضرورت ہے وہ جدید تعلیم اور جدید نظام صحت ہے لیکن ملک کی 75 سالہ تاریخ دیکھیں تو ان دونوں شعبوں کے ساتھ ہر دور میں سوتیلی ماں جیسا ہی سلوک کیا گیا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ جب بھی ہمارے حکمرانوں اور مقتدر طبقوں کو اپنے علاج اور بچوں کی اعلیٰ تعلیم کی ضرورت پڑتی ہے تو انہیں پاکستان میں ایسا کوئی ادارہ نظر نہیں آتا جہاں ان کی ضرورت پوری ہوتی ہو اور پھر وہ بیرون ملک کا ہی رخ کرتے ہیں۔فیصلے کی گھڑی آ گئی ہے اور ووٹ ڈالنے سے قبل قوم کو سوچنے کا وقت ملا ہے کہ وہ اپنے مستقبل کے لیے کس کو چُنیں۔ انتخابی میدان میں موجود تقریباً تمام سیاسی جماعتیں تنہا یا اتحاد کی صورت میں اقتدار کا حصہ رہ چکی ہیں اور کچھ جماعتیں تو متعدد بار اقتدار کے مزے لے چکی ہیں۔ اب یہ وقت ہے کہ عوام سیاستدانوں سے سوال کرنے کے بجائے خود سے سوال کریں کہ جو وعدے یہ جماعتیں کر رہی ہیں اپنے اپنے دور اقتدار میں انہوں نے کن وعدوں پر عمل کیا۔ جو نعرے آج یہ دے رہی ہیں ان نعروں کی عملی تفسیر کب بنے؟

    عوام ضرور سوچیں۔ ذات، برادری، لسانیت، صوبائیت، شخصیت پرستی سے سے باہر نکلیں۔ صرف وقتی فائدہ نہ دیکھیں بلکہ اپنی آنے والی نسل کا مستقبل دیکھیں۔ انفرادی نہیں بلکہ ایک قوم بن کر سوچیں اور پھر جو جواب انہیں خود سے ملے اس کے مطابق کل گھروں سے نکلیں اور ذمے دار پاکستانی کی حیثیت سے اپنے روشن مستقبل کے لیے ووٹ کا جمہوری حق استعمال کریں، کیونکہ ایک خوشحال جمہوری پاکستان ہی ہم سب کی خوشحالی کا ضامن ہے۔

  • پاک فوج، قانون نافذ کرنے والے ادارے ووٹرز کو پُرامن ماحول فراہم کرنے کیلئے پُرعزم

    پاک فوج، قانون نافذ کرنے والے ادارے ووٹرز کو پُرامن ماحول فراہم کرنے کیلئے پُرعزم

    اسلام آباد: عام انتخابات 2024 کے  پُرامن انعقاد کیلئے سیکیورٹی اہلکاروں کی تعیناتی کی تفصیلات سامنے آگئیں۔

    تفصیلات کے مطابق الیکشن کمیشن کی درخواست پر عام انتخابات کے پیش نظر ملک بھر میں کیو آر ایف کے 106942 اہلکار تعینات کیے گئے ہیں جبکہ 23940 سیکیورٹی اہلکار مستقل طور پر الیکشن کے دوران ڈیوٹی سر انجام دینگے۔

     پاک فوج اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ووٹرز کو پُرامن ماحول فراہم کرنے کیلئے  پُرعزم ہیں، عام انتخابات کی نگرانی کے لیے پاک فوج، سول آرمڈ فورسز کے مجموعی طور پر 130882 اہلکار مامور ہونگے جبکہ ملک بھر میں پولیس کے 465736  اہلکار تعینات ہوں گے۔

    رپورٹ کے مطابق 8 فروری کو آرمی، سول آرمڈ فورسز اور پولیس کے مجموعی طور پر 596618 اہلکار تعینات ہونگے جبکہ صرف پنجاب میں الیکشن کے پُرامن انعقاد کیلئے پولیس کے 216000 اہلکار تعینات ہونگے۔

    اس کے علاوہ سندھ میں 110720 ،کے پی میں 92535 جبکہ بلوچستان میں 46481 پولیس اہلکار ڈیوٹی سرانجام دیں گے۔

  • عام انتخابات 2024، سیاسی جماعتوں کے لیے ضابطہ اخلاق تیار

    عام انتخابات 2024، سیاسی جماعتوں کے لیے ضابطہ اخلاق تیار

    اسلام آباد: عام انتخابات 2024 کے لیے سیاسی جماعتوں کے لیے ضابطہ اخلاق تیار کر لیا گیا۔

    ذرائع کے مطابق الیکشن کمیشن نے عام انتخابات کے سلسلے میں سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے ضابطہ اخلاق تیار کر لیا، جسے الیکشن شیڈول کے ساتھ جاری کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

    ذرائع کے مطابق الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعتوں کی تجاویز کو بھی ضابطہ اخلاق میں شامل کیا ہے، سیاسی جماعتیں امیدوار پاکستان کی خود مختاری کے خلاف بات نہیں کریں گی، اور انتخابی مہم کے دوران الیکشن کمیشن کی تضحیک سے اجتناب کریں گی۔

    سیاسی جماعتیں اور امیدوار کسی کو دست برداری کے لیے تحائف، لالچ یا رشوت سے گریز کریں گی، اور ان کی جانب سے انتخابی عملے اور پولنگ ایجنٹس کے تحفظ کے لیے مکمل تعاون کیا جائے گا، سیاسی جماعتیں جنرل نشستوں پر 5 فی صد خواتین کوٹے پر عمل درآمد کو بھی یقینی بنائیں گی۔

    سیاسی جماعتیں، امیدوار پولنگ کے دن تشدد کی ترغیب سے سختی سے اجتناب کریں گی، انتخابی مہم کے دوران ہتھیار، آتشیں اسلحے کی نمائش پر مکمل پابندی ہوگی، عوامی اجتماعات میں اور پولنگ اسٹیشن کے اطراف ہوائی فائرنگ اور پٹاخوں کی اجازت نہیں ہوگی۔

    ضابطہ اخلاق کے مطابق الیکشن ایجنٹ کا متعلقہ حلقے کا ووٹر ہونا لازم قرار دیا گیا ہے، اور قومی اسمبلی امیدوار الیکشن میں 1 کروڑ روپے تک اخراجات کر سکیں گے، صوبائی اسمبلی امیدوار 40 لاکھ روپے سے زائد اخراجات نہیں کر سکیں گے، جب کہ کامیاب امیدوار انتخابی اخراجات کی تفصیلات ریٹرننگ افسران کو جمع کرائیں گے۔