Tag: عام انتخابات

  • الیکشن 2024 کے لیے نادرا کا بڑا اعلان

    الیکشن 2024 کے لیے نادرا کا بڑا اعلان

    کراچی: الیکشن 2024 کے سلسلے میں نادرا نے شناختی کارڈ کے فوری حصول کے لیے سہولت فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق نادرا نے کہا ہے کہ نارمل، ارجنٹ یا ایگزیکٹو فیس دے کر درخواست جمع کرانے والے شناختی کارڈ حاصل کرسکتے ہیں، جو درخواست جمع کرائے جا چکے ہیں ان کے شناختی کارڈ پرنٹ کر کے ملک کے تمام نادرا دفاتر میں بھیج دیا گیا ہے۔

    نادرا کے مطابق شہری 6 اور 7 فروری کو دفتری اوقات کار میں نادرا دفتر سے شناختی کارڈ وصول کر سکتے ہیں، ملک بھر کے تمام شناختی کارڈ سینٹرز کے اوقات کار میں 3 گھنٹے کا اضافہ کر دیا گیا ہے۔

    واضح رہے کہ ملک میں 8 فروری کو عام انتخابات منعقد ہوں گے، الیکشن 2024 کے لیے انتخابی مہم کا آج آخری روز ہے، جلسے اور دیگر سرگرمیوں کے لیے رات 12 بجے تک اجازت ہوگی، اس کے بعد خلاف ورزی کرنے پر کارروائی ہوگی۔

    انتخابی مہم کا آج آخری دن، سیاسی جماعتیں پاور شو کریں گی

    الیکشن کمیشن نے 26 کروڑ بیلٹ پیپرز کی ترسیل کا کام مکمل کر لیا، بیلٹ پیپرز سرکاری پریس اداروں سے متعلقہ ڈی آر او اور نمائندوں کے حوالے کر دیے گئے ہیں، ترجمان الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ تمام چیلنجز کے باوجود وقت پر کام مکمل کیا۔

  • الیکشن 2024 پاکستان:  عام انتخابات سے قبل  88 امیدوار انتقال کرگئے

    الیکشن 2024 پاکستان: عام انتخابات سے قبل 88 امیدوار انتقال کرگئے

    اسلام آباد : عام انتخابات سے قبل 88 امیدوار انتقال کرگئے، انتقال کر جانے والوں میں قومی اسمبلی کے 9 اور صوبائی اسمبلیوں کے 79 امیدوار شامل ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق عام انتخابات سے قبل قومی و صوبائی اسمبلیوں کے 88 امیدوار انتقال کرگئے، ذرائع نے بتایا کہ انتقال کرجانےوالوں میں قومی اسمبلی کے9اورصوبائی اسمبلیوں کے 79 امیدوار شامل ہیں۔

    ذرائع نے کہا کہ این اے 8 باجوڑ اور کے پی 22 سے آزاد امیدوار ریحان زیب کوقتل کردیا گیا تھا ، این اے8باجوڑ اورکےپی22میں امیدوار کے قتل پرانتخابات ملتوی کر دیے گئے۔

    ذرائع کا کہنا تھا کہ کے پی 91کوہاٹ سےامیدوار عصمت اللہ 30جنوری کو انتقال کرگئے، کے پی91کوہاٹ میں انتخابی امیدوار کے انتقال باعث انتخابات ملتوی ہوگئے۔

    ذرائع کے مطابق حتمی فہرستوں کے اجرا سے قبل انتقال کے سبب 86 حلقوں میں الیکشن ملتوی نہیں کئے گئے۔

  • عام الیکشن: ماضی کے چند مشہور سیاسی اتحاد

    عام الیکشن: ماضی کے چند مشہور سیاسی اتحاد

    پاکستان میں جمہوریت اور آمریت کے درمیان آنکھ مچولی کا کھیل اُسی وقت شروع ہوگیا تھا جب آزادی کے بعد پاکستان لگ بھگ دس برس کا ہوچکا تھا۔

    دوسری طرف وطنِ عزیز کے عوام نے گزشتہ برسوں میں مختلف سیاسی جماعتوں کے وہ ”اتحاد“ بھی دیکھے ہیں جو عام انتخابات سے قبل تشکیل پاتے ہیں اور پھر ان کا نام و نشان بھی باقی نہیں رہتا۔ مختلف نظریات و خیالات کی حامل جماعتوں کی یہ اتحادی سیاست انتخابی اکھاڑے کے لیے ”سیٹ ایڈجسٹمنٹ“ کے نام پر بھی ”گنجائش“ نکالتی رہی ہے۔

    پاکستان میں آٹھ فروری کو عام انتخابات کے حوالے سے سیاسی اجتماعات اور امیدواروں کی انتخابی مہم زوروں پر ہے۔ اس مناسبت سے ہم یہاں ماضی کے چند بڑے سیاسی اتحادوں کا ذکر کر رہے ہیں۔

    جگتو فرنٹ 1954
    متحدہ پاکستان میں 1954 سے اتحاد کی سیاست نے جنم لیا تھا۔اس وقت کے مشرقی پاکستان کو مغربی پاکستان کی سیاسی قیادت سے شکایت رہی کہ انہیں برابر کا شہری اورسیاسی عمل اور جمہوریت میں حصہ دار تسلیم نہیں کیا جاتابلکہ اس کے برعکس ان پر یک طرفہ فیصلے مسلط کیے جاتے ہیں۔ اس کے خلاف مشرقی پاکستان نے سیاسی جدوجہد کا راستہ اختیار کیا اور 1954 میں ”جگتو فرنٹ“ کے نام سے پہلا سیاسی اتحاد وجود میں آیا۔ اس میں عوامی لیگ، کراشک سرامک پارٹی، نظام اسلامی پارٹی اور گنا تنتری دل شامل تھیں۔ جگتو فرنٹ میں شامل مولوی فضل حق نے اس پلیٹ فارم سے اپنے مطالبات سامنے رکھے تھے،جن میں مکمل صوبائی خودمختاری کا مطالبہ بھی شامل تھا۔

    جگتو فرنٹ نے 1954 کے صوبائی انتخابات میں زبردست کام یابی حاصل کی اور حکومت بنانے میں کام یاب ہوا۔ لیکن قلیل مدت میں جگتو فرنٹ کی حکومت کو غیرجمہوری حربوں سے ختم کردیا گیا اور حکومت ختم ہونے کے بعد جگتو فرنٹ میں الزامات اور شکایات کا وہ شور اٹھا جس نے اس کا شیرازہ بکھیر کر رکھ دیا۔

    قومی جمہوری محاذ (این۔ ڈی۔ ایف)
    1958 میں وطن عزیز پر پہلے فوجی آمر خودساختہ فیلڈمارشل جنرل محمد ایوب خان قابض ہوکر ملک کی سیاہ و سفید کے مالک بن بیٹھے۔ اپنے دور اقتدار کو طول دینے کے لیے انہوں نے اپنی مرضی کی جمہوریت کو پنپنے دیا اور بنیادی جمہوریت کے نام سے اپنا نظام پیش کیا۔ پہلے مارشل لا کے چار سال بعد 1962 میں فوجی آمریت کے خلاف سابق وزیراعظم حسین شہید سہروردی نے ”قومی جمہوری محاذ“ کے نام سے سیاسی اتحادبنانے کا اعلان 6 اکتوبر 1962 کو کیا۔ قومی جمہوری محاذ میں سردار بہادر، مولانا ابوالاعلیٰ مودودی، ممتاز دولتانہ، غلام علی تالپور اور یوسف خٹک جیسے سیاست داں شامل ہوئے۔ اس اتحاد کا مقصد اور مطالبہ آمریت کی رخصتی اور جمہوریت کی بحالی تھا۔ قومی جمہوری محاذ بھی اپنی سیاسی جدوجہد کے ثمرات سے محروم رہا اور 1963 میں اتحاد کے روح رواں حسین شہید سہروردی کی وفات کے ساتھ ہی ختم ہو گیا۔

    مشترکہ حزب اختلاف اتحاد
    ایوبی آمریت کے خلاف 1964 میں ”مشترکہ حزب اختلاف اتحاد“ وجود میں آیا۔ 21 جولائی 1964 میں سابق وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کی قیام گاہ پر اس اتحاد کا اعلان کیا گیا۔ اس اتحاد میں عوامی لیگ، نظام اسلامی پارٹی، جماعت اسلامی اور کونسل مسلم لیگ شامل تھی۔ نیشنل عوامی پارٹی بھی اس موقع پر شریک تھی۔ اس اتحاد نے آمریت کے خلاف اور محترمہ فاطمہ جناح کے حق میں انتخابی مہم چلائی۔ لیکن جنرل ایوب خان جیت گئے اور فاطمہ جناح کوشکست ہوئی۔ صدارتی انتخاب کے بعد قومی اسمبلی کا انتخاب عمل میں آیاتو اس اتحاد نے 15 نشستیں جب کہ ایوب خان کی مسلم لیگ 120 نشستوں پر کامیاب ہوئی۔ صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں بھی یہ اتحاد خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ کرسکا اور یہ انتخابی اتحادآپس کے اختلافات کے باعث تحلیل ہوگیا۔

    پاکستان جمہوری اتحاد
    ملک میں تیسرا سیاسی اتحاد 1967 میں بنایا گیا اور یہ بھی جنرل ایوب خان کی حکومت کے خلاف تھا۔اس میں قومی جمہوری محاذ، کونسل مسلم لیگ، جماعت اسلامی، عوامی لیگ اور نظام اسلام پارٹی شامل تھیں۔ 1969 میں صدر ایوب کے خلاف تحریک عروج پر تھی۔ اس کے ساتھ ہی اس تحریک میں پاکستان جمہوری اتحاد نے ”جمہوری مجلس عمل“ کا نام اپنا لیا جس میں 8 سیاسی جماعتیں شریک تھیں۔ حالا ت ابتر ہوگئے اور آخر کار جنرل ایوب خان کو مستعفی ہونا پڑا، لیکن یحییٰ خان ملک پر قابض ہوگیا او راس کے بعد جمہوری مجلس عمل تتر بتر ہوگئی۔

    متحدہ جمہوری محاذ
    1970 کے عام انتخابات کا انعقاد جنرل یحییٰ خان کی حکومت نے کیا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں پاکستان پیپلزپارٹی برسر اقتدار آئی۔ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف ”متحدہ جمہوری محاذ“ کا قیام عمل میں آیا۔ متحدہ جمہوری محاذ میں پاکستان جمہوری پارٹی، کونسل مسلم لیگ، جماعت اسلامی، جمعیت علمائے پاکستان، نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت علما اسلام شامل تھیں۔ 23 مارچ1973 کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں اس اتحاد کا اعلان کیا گیا۔ اس موقع پرفائرنگ کا افسوس ناک واقعہ پیش آیا تھا جس میں 17 افرادجاں بحق ہوئے۔متحدہ جمہوری محاذ نے سول نافرمانی کا اعلان کیاجوناکام رہی۔ بعدازاں متحدہ جمہوری محاذ منقسم ہوگیا۔

    پاکستان قومی اتحاد
    1977 میں پاکستان قومی اتحاد وجود میں آیاجو9 سیاسی جماعتوں پر مشتمل تھا۔اس میں مسلم لیگ (پگاراصاحب)، جماعت اسلامی، تحریک استقلال، جمعیت علمائے پاکستان، جمعیت علمائے اسلام (ہزاروی)، جمعیت علمائے اسلام (مفتی محمود)، این ڈی پی، خاکسار تحریک، پاکستان جمہوری پارٹی اور مسلم کانفرنس شامل تھیں۔ اس و قت وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے مارچ میں عام انتخابات کا اعلان کیا تھا جس سے قبل جنوری میں پاکستان قومی اتحاد تشکیل دیاگیا۔ اس اتحاد نے ایک انتخابی نشان پر الیکشن میں امیدوار کھڑے کیے لیکن کوئی نمایاں کام یابی حاصل نہ کرسکا۔ پاکستان قومی اتحاد نے ضیاء الحق کے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعدآمرانہ حکومت میں شامل ہوکر اپنا وجود کھو دیا۔

    تحریکِ‌ بحالیِ جمہوریت (‌ایم آر ڈی)
    6 فروری 1981 کو ایم آرڈی (تحریک بحالی جمہوریت) کے نام سے نیا سیاسی اتحاد وجود میں آیا۔ ایک مرتبہ پھر نظریاتی طور پر یکسر جدا جماعتیں جن کی تعداد نو تھی، اس اتحاد میں شامل ہوئیں۔ان میں تحریک استقلال، پاکستان ری پبلکن پارٹی، پاکستان پیپلز پارٹی، این ڈی پی، جمعیت علمائے پاکستان، مسلم لیگ، مسلم کانفرنس، نیشنل لبریشن فرنٹ اور مزدور کسان پارٹی شامل تھیں۔ پھر جمعیت علمائے اسلام نے بھی اس میں شمولیت اختیار کی اور 1984 میں عوامی تحریک بھی ایم آرڈی کا حصہ بنی۔ 1988 میں انتخابات میں ٹکٹوں کی تقسیم پر ایم آرڈی میں پھوٹ پڑگئی اور اس کا خاتمہ ہوگیا۔

    کمبائنڈ اپوزیشن پارٹی
    بابائے سیاست کے لقب سے مشہور ہونے والے نواب زادہ نصراللہ خان نے مذکورہ سیاسی اتحاد، پاکستان پیپلز پارٹی کے خلاف تشکیل دیا تھا۔ اس اتحاد میں اسلامی جمہوری اتحاد کے ساتھ ایم کیو ایم بھی شامل تھی۔ 1990 میں بے نظیر حکومت کے خاتمے کے بعد یہ اتحاد بھی منتشر ہوگیا۔

    اس کے علاوہ بھی ماضی میں کئی بڑے چھوٹے سیاسی اور انتخابی اتحاد تشکیل دیے جاتے رہے ہیں۔ اس میں 1998 میں پاکستان عوامی اتحاد، 1999میں نواز حکومت کے خلاف گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کا قیام جب کہ 2000 میں مشرف کی آمریت کے خلاف ”اتحاد برائے بحالی جمہوریت“ (اے۔آر۔ ڈی) وجود میں آیا تھا۔ 2002 متحدہ مجلس عمل تشکیل پایا تھاجس میں مذہبی جماعتیں شامل تھیں اور بعد میں متحدہ مجلس عمل سیاسی اتحاد سے انتخابی اتحاد میں تبدیل ہوگیاتھا۔نیشنل الائنس 2002 میں تشکیل دیا گیا جو جنرل پرویز مشرف کی حامی جماعتوں پر مشتمل تھا۔

  • میں زندہ ہی اس الیکشن کے لیے ہوں دیکھ کر جاؤں گا: انور مقصود

    میں زندہ ہی اس الیکشن کے لیے ہوں دیکھ کر جاؤں گا: انور مقصود

     عام انتخابات 2024 کے لیے اے آروائی نیوز نے ’نکلو پاکستان کی خاطر‘ مہم کا آغاز کردیا۔

    نامور دانشور اور مصنف انور مقصود نے قوم کو پیغام میں کہا ہے کہ خوشی کی خبر ہے، پاکستان میں 8 فروری کو الیکشن ہونے جارہے ہیں، موسم کیسا بھی ہو آپ کو گھر سے نکلنا ہے۔

    انور مقصود نے کہا کہ 8 فروری کو ووٹ کے لیے ضرور نکلیں، جس کو دل چاہے ووٹ دیں، چھٹی کا دن ہے گھر نہ بیٹھیں، چھٹی کا دن ہے سب گھر سے نکلیں۔

    انور مقصود کا کہنا تھا کہ میں زندہ ہی اس الیکشن کے لیے ہوں کہ دیکھ  کر جاؤں، 8 فروری کو  ہر گھر سے آپ کے ساتھ انور مقصود نکلے گا۔ گھر سے نکلیں ووٹ ڈالیں۔

  • الیکشن 2024 پاکستان : عام انتخابات کی سیکیورٹی کیلئے ایپ تیار

    الیکشن 2024 پاکستان : عام انتخابات کی سیکیورٹی کیلئے ایپ تیار

    لاہور: عام انتخابات کی سیکیورٹی کیلئے ایپ تیار کرلی گئی، پولنگ اسٹیشنز پر تعینات عملے کے موبائلزپرایپ انسٹال ہوگی۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور پولیس آپریشنزونگ نے عام انتخابات کی سیکیورٹی کیلئے ایپ تیار کرلی، ڈی آئی جی آپریشنز سیدعلی ناصررضوی نے بتایا ہے کہ پولنگ اسٹیشنزپر تعینات عملےکےموبائلزپرایپ انسٹال ہوگی۔

    ویجی لینس ٹیموں سمیت ایپ سے مانیٹرنگ ممکن ہو سکےگی جبکہ پولنگ سامان کی ترسیل، عملہ ونفری کی موجودگی اور پولنگ کاآغاز و اختتام بھی شامل ہیں۔

    پولنگ رکنے کی صورت میں فوری ایپ کی مدد سے آگاہ کیاجاسکے گا اور ایپ کےذریعےجیوٹیگنگ کی جاسکےگی۔

    ایپ کی مدد سے افسران وجوان اپنےڈیوٹی پوائنٹس پرباآسانی پہنچ سکیں گی جبکہ پولنگ اسٹیشنزپرتعینات نفری کی تفصیل حاصل کی جاسکے گی۔

  • الیکشن 2024 پاکستان : پرویز الٰہی کا عام انتخابات میں حصہ لینے کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع

    الیکشن 2024 پاکستان : پرویز الٰہی کا عام انتخابات میں حصہ لینے کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع

    اسلام آباد : سابق وزیر اعلیٰ پنجاب پرویزالٰہی نے عام انتخابات میں حصہ لینے کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا۔

    تفصیلات کے مطابق سابق وزیر اعلیٰ پنجاب پرویزالٰہی نے عام انتخابات میں حصہ لینےکیلئے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کردی۔.

    درخواست میں الیکشن کمیشن،الیکشن ٹربیونل کوفریق بنایاگیا ہے اور استدعا کی گئی کہ لاہورہائیکورٹ کا 13 جنوری 2024کافیصلہ کالعدم قراردیا جائے۔

    درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ امیدوار محمد سلیم کے اعتراضات کی بنیاد پر میرے کاغذات نامزدگی مسترد کیے گئے، مجھ پر اعتراض اٹھایا گیا آٹا ملز میں میرے شیئر ہیں۔

    درخواست میں کہنا تھا کہ جن فلورملزکاالزام لگایاگیاوہ ناصرف غیرفعال ہےبلکہ بینک اکاؤنٹ بھی نہیں کھولاگیا، اس فلور مل کے شیئر میں نے کبھی نہیں خریدے،غیر فعال فلور مل اثاثہ نہیں ہوتی،اس فلور مل کی بنیاد پر مجھے الیکشن لڑنے سے روکا نہیں جا سکتا۔

    پرویز الہی نے کہا کہ یہ اصول طے شدہ ہے کہ ہر ظاہر نہ کرنے والے اثاثے پر نااہلی نہیں ہو سکتی،کسی اثاثے کو ظاہر نہ کرنے کے پیچھے اس کی نیت کا جانچنا ضروری ہے،جو شیئر میرے ساتھ منسوب کیے جا رہے ہیں ان کی کل مالیت 24850روپے بنتی ہے۔

    درخواست میں مزید کہا گیا کہ میں نے اپنے کل اثاثے 175 ملین روپے ظاہر کیے ہوئے ہیں، ان اثاثوں میں 57 ملین روپے سے زائد نقد رقم بھی ظاہر کی گئی ہے، میرے لیے اتنے معمولی شیئر نہ ظاہر کرنا بدنیتی قرار نہیں دی جا سکتی۔

    دائر درخواست میں مزید کہا گیا کہ یہ اعتراض بھی لگایا گیا کہ میں نے اسلحہ کے 7 لائسنس ظاہر نہیں کیے، کاغذات نامزدگی میں اسلحہ لائسنس ظاہر کرنے کا کوئی کالم ہی نہیں ہے۔

  • الیکشن 2024 پاکستان : سندھ حکومت کا عام انتخابات میں ڈیوٹی کیلئے اسکاؤٹس کی خدمات لینے کا فیصلہ

    الیکشن 2024 پاکستان : سندھ حکومت کا عام انتخابات میں ڈیوٹی کیلئے اسکاؤٹس کی خدمات لینے کا فیصلہ

    کراچی : سندھ حکومت نے عام انتخابات میں ڈیوٹی کیلئے اسکاؤٹس کی خدمات لینے کا فیصلہ کرلیا، حساس و انتہائی حساس پولنگ اسٹیشنز پر سی سی ٹی وی مانیٹرنگ نظام اسکاؤٹس کے سپرد ہوگا۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ حکومت نے عام انتخابات میں ڈیوٹی کیلئے اسکاؤٹس کی خدمات لینے کا فیصلہ کرلیا، اس سلسلے میں محکمہ داخلہ سندھ نے سندھ بوائے اسکاوٹس ایسوسی ایشن کوخط لکھ دیا۔

    آئی جی پولیس نے بھی اسکاؤٹس کی پولنگ اسٹیشنز پر انتخابی ڈیوٹی کے لیے رابطہ کیا اور ڈی آراوجنوبی نے سی سی ٹی وی مانیٹرنگ کیلئے اسکاوٹس کی خدمات مانگ لیں۔

    ٹھٹھہ ،غربی اضلاع نے بھی حساس پولنگ اسٹیشنزپراسکاؤٹس کی خدمات لینے کیلئے رابطہ کیا اور درخواست میں کہا کہ کراچی جنوبی میں 300 اسکاوٹس کی خدمات سی سی ٹی وی مانیٹرنگ کیلئے درکار ہوں گی۔

    محکمہ داخلہ سندھ کا کہنا ہے کہ حساس ترین پولنگ اسٹیشنز پر پولیس کیساتھ اسکاؤٹس ڈیوٹی دیں گے جبکہ ضلع غربی میں 400 اسکاوٹس کی خدمات طلب کی گئی ہیں۔

    حساس وانتہائی حساس پولنگ اسٹیشنز پر سی سی ٹی وی مانیٹرنگ نظام اسکاؤٹس کے سپرد ہوگا۔

  • عام انتخابات: پاکستان کے مشہور سیاست دانوں کی آپ بیتیاں

    عام انتخابات: پاکستان کے مشہور سیاست دانوں کی آپ بیتیاں

    آپ بیتی یا خودنوشت میں مصنّف اپنی زندگی کے حالات و واقعات اور تجربات کو بیان کرتا ہے۔ آپ بیتی محض احوال و واقعات کا مجموعہ نہیں ہوتی بلکہ اکثر اوقات یہ جذبات و احساسات، مشاہدات اور تجربات کا ایسا نمونہ ہوتی ہے جو بحیثیتِ مجموعی زندگی کے بارے میں مصنّف کے نقطۂ نظر کو بھی سامنے لاتی ہے۔

    اردو زبان میں خود نوشت یا آپ بیتیوں کو ایک صنفِ ادب کا درجہ حاصل ہے اور اگر کوئی آپ بیتی کسی مشہور شخصیت کی تصنیف کردہ ہو تو باذوق قارئین ہی نہیں‌ اکثر عام لوگ بھی پڑھنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ خودنوشت کی ایک خوبی یہ ہوتی ہے کہ اس میں ادب اور ثقافت کی چاشنی کے ساتھ تہذیب اور معاشرت کے رنگ، تاریخ کے حوالے، سیاست اور سیاسی نظام کی کہانی بھی پرھنے کو ملتی ہے۔ غرض ہر موضوع پر مختلف واقعات اور قصّے پڑھنے کے ساتھ معلومات میں‌ بھی اضافہ ہوتا ہے۔

    پاکستان میں اس وقت عام انتخابات کا شور ہے۔ سیاسی جماعتیں‌ انتخابی منشور کا اعلان اور عوام کے سامنے مختلف جماعتوں کے قائدین اپنے سیاسی حریفوں پر الزامات عائد کرتے نظر آرہے ہیں۔ 8 فروری 2024 کے عام انتخابات کی مناسبت سے ہم یہاں آپ کے لیے چند خود نوشت یا اُن آپ بیتیوں‌ کا ذکر کررہے ہیں جن کے مصنّفین نے کار زارِ سیاست میں‌ ایک عمر گزاری ہے۔

    اردو ادب میں بعض سیاست دانوں کی تحریر کردہ خود نوشت مشہور ہیں جو دل چسپ ہی نہیں‌ ایک مستند دستاویز کی حیثیت بھی رکھتی ہیں۔ ان آپ بیتیوں کو پڑھ کر ہم سیاست اور جمہوریت کے کئی راز، ملک میں‌ ہونے والے انتخابات کا احوال، دوست ممالک سے تعلقات، ان میں اتار چڑھاؤ، ملک دشمن عناصر اور پاکستان کے خلاف سازشوں کے بارے میں‌ جان سکتے ہیں۔ سیاسیاست اور تاریخ‌ کے طلباء کے لیے ان کا مطالعہ مفید ہو گا اور عام قارئین کی بھی دل چسپی کا باعث بنیں‌ گی۔

    سیاست پر مبنی ان مشہور آپ بیتیوں میں “پردے سے پارلیمنٹ تک”، “ہاں میں باغی ہوں”، “فرزندِ پاکستان”، “میری تنہا پرواز”، “بڑی جیل سے چھوٹی جیل تک”، “ایونِ اقتدار کےمشاہدات”، “چاہ یوسف سے صدا”، “سچ تو یہ ہے”، “اور لائن کٹ گئی”، “اور بجلی کٹ گئی” شامل ہیں جن میں کئی انکشافات کیے گئے ہیں اور اسی لیے یہ خاص اہمیت کی حامل ہیں‌۔

    اور لائن کٹ گئی
    مولانا کوثر نیازی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں اور یہ انہی کی سیاسی روداد پر مبنی کتاب ہے۔ مولانا نے یہ کتاب 1977ء میں اپنے ایّامِ اسیری میں لکھی۔ یہ آپ بیتی ملک میں‌ بیسٹ سیلر کتاب ثابت ہوئی۔ مولانا کوثر نیازی نے اس کتاب میں سیاست دانوں، فوجی عہدے داروں اور خود اپنے بارے میں بھی کئی ہوشربا انکشافات کیے ہیں۔

    میں باغی ہوں
    یہ ممتاز سیاست داں جاوید ہاشمی کی آپ بیتی ہے۔ جاوید ہاشمی طویل سیاسی سفر میں کئی رازوں‌ کے امین ہیں اور کئی سرد و گرم دیکھے ہیں۔ ان کی وضع داری اور جمہوریت کی خاطر ان کی قربانیوں کا اپنے پرائے سبھی اعتراف کرتے ہیں۔ جاوید ہاشمی نے اس خودنوشت میں‌ کئی عجیب و غریب واقعات اور ہوش ربا انکشاف بھی پڑھنے کو ملتے ہیں۔

    بڑی جیل سے چھوٹی جیل تک
    یہ راجہ انور کی خودنوشت ہے جنھوں نے جوانی میں میدانِ سیاست میں قدم رکھا تھا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کو تشکیل ہوتے دیکھا اور ذوالفقار علی بھٹو کی قربت حاصل کی۔ مارشل لاء کے زمانے میں کئی بار جیل گئے اور اس آپ بیتی میں راجہ انور نے اسی دور کے شب و روز، اپنے خاندان اور اپنی سیاسی سرگرمیوں کو بیان کیا ہے۔ یہ آپ بیتی جیل اور قید خانوں کے بارے میں کئی حیران کن انکشافات کرتی ہے۔

    ایوانِ اقتدار کے مشاہدات
    گوہر ایوب کا نام سیاست اور افسر شاہی کے حوالے سے بہت معروف ہے اور وہ ایوب خان کے فرزند بھی ہیں۔ کئی اہم وزارتوں پر فائز رہنے والے گوہر ایوب کی یہ مشہور آپ بیتی ہے جس میں پچھلے پچاس برس میں ملکی اور بین الاقوامی سطح پر انقلاب اور تبدیلیوں کو بھی انھوں‌ نے بیان کیا ہے۔ گوہر ایوب خان نے ملکی سیاست اور سیاست دانوں‌ کے متعلق کئی انکشافات بھی کیے ہیں۔

    فرزندِ پاکستان
    یہ شیخ رشید احمد کی سرگزشت ہے جسے بڑی شوق سے پڑھا گیا۔ گزشتہ دہائیوں کی سیاسی، معاشی، معاشرتی تبدیلیوں پر اس کتاب میں شیخ رشید کے مشاہدات اور ذاتی تجربات کے ساتھ ہمیں ملکی سیاست کے کئی اہم واقعات اور انکشافات پڑھنے کو ملتے ہیں۔

    چاہِ یوسف سے صدا
    پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی کی یہ آپ بیتی ان کی اسیری کے دوران رقم ہوئی۔ یوسف رضا گیلانی جس ملتان کے ایسے سیاسی اور پیر خاندان کے فرد ہیں‌ جو قیامِ پاکستان سے پہلے سے سیاست میں حصّہ لیتا رہا ہے۔

    سچ تو یہ ہے
    پنجاب کی سیاست کا ایک بڑا نام چوہدری شجاعت حسین کا ہے جن کی یہ خود نوشت چوہدری شجاعت کی پیدائش کے بعد سے 2008ء کے عام انتخابات تک کے حالات و واقعات کو ہمارے سامنے رکھتی ہے۔

    اور بجلی کٹ گئی
    یہ آپ بیتی مشہور سیاست داں اور سفارت کار سیدہ عابدہ حسین کے قلم سے نکلی ہے جس میں ان کی ذاتی زندگی کے ساتھ اہم سیاسی اور غیر سیاسی موضوعات پر تحریریں پڑھنے کو ملتی ہیں۔ یہ سب انگریزی زبان میں رقم کیا گیا تھا جس کا اردو ترجمہ بجلی کٹ گئی کے نام سے شایع ہوا۔

    میری تنہا پرواز
    مشہور صنعتی اور سیاسی خاندان سے تعلق رکھنے والی کلثوم سیف اللہ خان کی زندگی کے نشیب و فراز اور کام یابیوں کی داستان ہے۔ کلثوم سیف اللہ نے اپنی ذات، سیاست دانوں، حکم رانوں، ریاست اور دوسرے لوگوں سے متعلق اس کتاب میں کئی دل چسپ انکشافات کیے ہیں۔

    پردے سے پارلیمنٹ تک
    یہ معروف سیاست داں بیگم شائستہ اکرام اللہ کی آپ بیتی ہے جو پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کی رکن منتخب ہوئی تھیں۔ اس آپ بیتی کی سیاست کے ساتھ ادب، تاریخ اور سماجی و معاشرتی لحاظ سے بھی کافی اہمیت ہے۔

  • عام انتخابات میں سادہ اکثریت مل جائے گی، شہباز شریف

    عام انتخابات میں سادہ اکثریت مل جائے گی، شہباز شریف

    سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ ن کے صدر شہبازشریف نے کہا ہے کہ امید ہے عام انتخابات میں سادہ اکثریت مل جائے گی۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان کے سابق وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ میاں محمند نواز شریف ن لیگ کے وزارت عظمیٰ کے امیدوار ہیں۔ امید ہے کہ عام انتخابات میں سادہ اکثریت مل جائے گی۔

    انھوں نے کہا کہ 16 ماہ پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کی جنگ کی تھی۔ ووٹ کو عزت دو کا مطلب ہے 5 سال میں لوڈشیڈنگ ختم کردیں گے۔

    پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر شہبازشریف کا کہنا تھا کہ 9 مئی کا واقعہ نہ ہوتا تو بانی پی ٹی آئی جیل میں نہیں ہوتے۔

    سابق وزیراعظم نے کہا کہ دہشت گردی سر اٹھا رہی ہے،پاکستان کو اتحاد اور اتفاق کی ضرورت ہے ہمارا مقابلہ کسی جماعت سے نہیں ماضی کی کارکردگی سے ہے۔

  • چاروں صوبوں کی انتظامیہ نے چیف الیکشن کمشنر کو تیاریوں سے آگاہ کر دیا

    چاروں صوبوں کی انتظامیہ نے چیف الیکشن کمشنر کو تیاریوں سے آگاہ کر دیا

    اسلام آباد: عام انتخابات کی تیاریوں سے متعلق آج الیکشن کمیشن کا ایک اہم اجلاس منعقد ہوا، جس میں چاروں صوبوں کی انتظامیہ نے چیف الیکشن کمشنر کو تمام تیاریوں سے آگاہ کیا۔

    تفصیلات کے مطابق الیکشن 2024 کے سلسے میں آج چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی زیر صدارت اہم اجلاس منعقد ہوا، جس میں ممبران الیکشن کمیشن کے علاوہ سیکریٹری وزارت داخلہ، چاروں صوبوں کے چیف سیکریٹریز، آئی جیز، دیگر لا انفورسمنٹ ایجنسیوں کے نمائندگان، چیف کمشنر اسلام آباد، سیکریٹری الیکشن کمیشن اور دیگر اعلیٰ افسران نے شرکت کی۔

    چیف کمشنر نے کہا کہ انتظامیہ اور لا انفورسمنٹ ایجنسیز کی ذمہ داری ہے کہ وہ عام انتخابات کے پر امن، محفوظ اور کامیاب انعقاد کے لیے بروقت انتظامی و حفاظتی انتظامات یقینی بنائیں، تاکہ ووٹرز بلا خوف و خطر اپنا حق رائے دہی استعمال کر سکیں۔

    چیف سیکریٹریز، آئی جیز اور چیف کمشنر اسلام آباد نے بتایا کہ انتخابات کے انعقاد کے لیے ان کے تمام انتظامات مکمل ہیں، اور ہر قسم کی صورت حال سے نمٹنے کے لیے تمام تر پیش بینی اور تیاری پوری کر لی گئی ہے۔

    پاکستان میں الیکشن 8 فروری کوہی ہوں گے، نگراں وزیراعظم

    اجلاس کو بتایا گیا کہ ملک کے کچھ حصوں میں تھریٹ الرٹس ہیں لیکن پر امن انتخابات کے انعقاد کے لیے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی جائے گی، بتایا گیا کہ سیلاب سے متاثرہ پولنگ اسٹیشنوں کی مرمت کا کام بھی تیزی سے جاری ہے، تمام حساس ترین پولنگ اسٹیشنوں پر سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب کے انتظامات بھی مکمل ہیں، اور متعلقہ اداروں کو فنڈز کی بروقت فراہمی بھی یقینی بنائی جا رہی ہے۔ چیف سیکریٹری خیبر پختون خواہ نے اجلاس کو بتایا کہ برف باری سے متاثرہ اضلاع میں الیکشن کے دن تمام سڑکوں اور راستوں کو کھلا رکھنے اور پولنگ اسٹیشنوں تک عوام کی رسائی کو یقینی بنایا جائے گا۔

    چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے ہدایات دیں کہ تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اور ووٹرز کی سیکیورٹی یقینی بنائی جائے، انتخابی ریلیوں اور جلسوں کو بھی مناسب سیکیورٹی مہیا کی جائے، اور الیکشن کے ضابطہ اخلاق پر سختی سے عمل کروایا جائے۔ چیف سیکریٹری بلوچستان نے بتایا کہ پولنگ اسٹیشن سطح پر امن کمیٹیاں قائم کی جا رہی ہیں۔

    چیف سیکریٹری پنجاب نے بتایا کہ انتخابی نشانات کی الاٹمنٹ میں تبدیلی کے متعلق واضح پالیسی ہدایات جاری کی جائیں، تاکہ الیکشن میں تاخیر نہ ہو، چیف الیکشن کمشنر نے بتایا کہ بیلٹ پیپرز کی پرنٹنگ کا کام جاری ہے لہٰذا اس موقع پر اگر انتخابی نشان میں تبدیلیاں کی گئیں تو ان حلقوں میں الیکشن کروانا مشکل ہو جائے گا۔

    سیکریٹری وزارت داخلہ نے اجلاس کو بتایا کہ الیکشن کے لیے وفاقی سطح پر کنٹرول روم بنا دیے گئے ہیں۔ چیف الیکشن کمشنر نے الیکشن کے انعقاد کے لیے جملہ اقدامات اور انتظامات پر اطمینان کا اظہار کیا۔ انھوں نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل (3) 218 کے تحت پرامن اور شفاف انتخابات کا انعقاد الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے اور الیکشن کمیشن اس حوالے سے اپنی ذمہ داری کو پوری تندہی سے پورا کرے گا، انتخابات کی سخت مانٹرنگ ہوگی اور انتخابات مقررہ تاریخ کو ہی منعقد ہوں گے۔