Tag: عام انتخابات

  • بنگلادیش میں عام انتخابات کے لیے پولنگ جاری

    بنگلادیش میں عام انتخابات کے لیے پولنگ جاری

    ڈھاکا: بنگلادیش میں عام انتخابات کے لیے پولنگ کا عمل شروع ہو چکا ہے، اپوزیشن جماعتوں نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا ہے۔

    غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق بنگلادیش میں عام انتخابات کے لیے پولنگ جاری ہے، ملک بھر میں ووٹنگ کا آغاز مقامی وقت کے مطابق صبح 8 بجے شروع ہوا جو شام 4 بجے تک جاری رہے گا۔

    اپوزیشن کے بائیکاٹ کے سبب وزیر اعظم حسینہ واجد کی جیت کا امکان ہے، دوسری جانب اپوزیشن جماعتوں نے 2 روزہ ملک گیر ہڑتال کی کال دی ہے اور عوام سے ووٹ نہ ڈالنے کی اپیل کی گئی ہے۔

    انتخابات سے ایک روز قبل کئی پولنگ بوتھ جلا دیے گئے، ٹرین کو آگ لگا دی گئی جس سے دو بچوں سمیت 4 افراد ہلاک ہوئے، آگ لگانے کے واقعات فوج کی تعنیاتی کے بعد پیش آئے، پولیس نے اپوزیشن کو واقعے کا ذمے دار قرار دے کر 7 ارکان کو گرفتارکر لیا ہے، تاہم اپوزیشن نے الزامات مسترد کر دیے ہیں، وزیر اعظم شیخ حسینہ نے بنگلادیش نیشنل پارٹی کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہے۔

    ڈھاکا میں مسافر ٹرین کو آگ لگادی گئی، متعدد ہلاک

    امریکی اخبارات نے انتخابات کو مغربی ممالک کے ساتھ تعلقات کا امتحان قرار دے دیا ہے، بی این پی کے بائیکاٹ کے بعد شیخ حسینہ واجد کی عوامی مسلم لیگ کی کامیابی یقینی دکھائی دے رہی ہے، بی این پی نے وزیر اعظم سے استعفے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔

    یاد رہے کہ بی این پی نے 2014 کے انتخابات کا بھی بائیکاٹ کیا تھا، اور 2018 کے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات لگائے تھے، بی این پی کی جانب سے آج اور کل ملک گیر ہڑتال کا اعلان کیا گیا ہے، ہڑتال کے دوران بنگلادیش میں مظاہرے شروع ہو گئے ہیں، جب کہ مشتعل مظاہرین کے خلاف پولیس کریک ڈاؤن کر رہی ہے۔

    کئی مقامات پر پولنگ اسٹیشنز جلائے گئے ہیں، دارالحکومت ڈھاکا میں 14 پولنگ اسٹیشنوں کو آگ لگائی گئی، گزشتہ روز مظاہروں میں مسافر ٹرین کو بھی جلا دیا گیا تھا، اقوام متحدہ کے نمائندہ خصوصی نے ایک بیان میں تبصرہ کیا کہ بنگلادیش میں انتخابات میں جابرانہ ماحول پریشان کن ہے۔

  • ذکرکچھ  انوکھے لاڈلوں کاجو کھیلن کو مانگیں….!

    ذکرکچھ انوکھے لاڈلوں کاجو کھیلن کو مانگیں….!

    آج ہم ذکر کررہے ہیں کچھ لاڈلوں کا، اور کیوں نہ کریں، جب ملک میں ہر طرف لاڈلوں کا چرچا ہے تو ہم لیکھک اس سے کیسےنظربچا سکتے ہیں۔

    ان دنوں ملک میں الیکشن کا شور اور اس کے ساتھ ‘دھیمے سُروں’ میں ہر طرف لاڈلوں کی باتیں ہو رہی ہیں اور کوئی کسی کو طنزاً لاڈلا کہہ رہا ہے، تو کوئی خود کو لاڈلا کہہ کر مخالف کو چِڑانے کی کوشش کر رہا ہے، لیکن اس سارے کھیل تماشے میں کہیں ایک طرف کوئی نادیدہ ہستی بھی ضرور ہنسی ٹھٹّا کر رہی ہے۔

    پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو تو ڈھکے چھپے لفظوں میں کہتے آ رہے ہیں کہ پہلے کوئی اور لاڈلا تھا اور اب دوسرے کو لاڈلہ بنایا جا رہا ہے اور یہ بات پہلی بار نہیں کی جا رہی بلکہ لاڈلوں کا یہ شور کئی سال سے تواتر سے ہورہا ہے۔ ہر پارٹی راہ نما یہ راگ الاپتے رہے ہیں لیکن اس راز سے کوئی پردہ اٹھانے کو تیار نہیں کہ وہ کون ہے جس کے پاس لاڈلا بنانے کی مشین ہے جس میں سے گزر کر باہر آنے والا ایسا ‘صاف ستھرا’ ہو جاتا ہے کہ اس پر بے اختیار پیار آئے اور اسے لاڈلا بنائے بغیر کچھ بن نہیں پاتا۔

    حال ہی میں ن لیگی رہنما احسن اقبال نے یہ کہا کہ نواز شریف ملک کے 24 کروڑ عوام کے لاڈلے ہیں، اگر ان کے اس دعوے کو درست مان لیا جائے تو پھر ملک کے بقیہ ایک کروڑ عوام کا لاڈلا کون ہے؟ کیونکہ حالیہ مردم شماری نتائج کے مطابق ملک کی آبادی لگ بھگ 25 کروڑ ہو چکی ہے۔ ایسے میں ایک کروڑ عوام کا یوں نواز شریف کو نظر انداز کرنا نیک شگون تو نہیں ہے اور مسئلہ یہ بھی ہوگا کہ ان ایک کروڑ عوام کی چھانٹی کیسے کی جائے جن کے نواز شریف لاڈلے نہیں ہیں۔ کیا ہی بہتر ہوتا اگر احسن اقبال مزید حسن ظن سے کام لیتے ہوئے اپنے قائد کو ملک کے 25 کروڑ عوام کا ہی لاڈلا بنا دیتے کہ اس جھِک جھک سے جان ہی چھوٹ جاتی۔

    یہ تو سیاست دانوں کی زبانی لاڈلوں کی بات ہو رہی تھی اگر ہم اپنی بات کریں تو ہم بچپن سے ایک ہی قسم کے لاڈلے دیکھتے آئے ہیں جو اپنے اماں ابا کے لاڈلے ہوتے ہیں یا پھر لاڈلوں پر بنی کچھ فلمیں اور ڈرامے دیکھ رکھے ہیں جب کہ ایک مشہور نظم ’’انوکھا لاڈلا‘‘ بھی بلقیس خانم کی زبانی سن رکھی ہے جو کھیلنے کو کھلونے نہیں بلکہ آسمان پر چمکتا چاند مانگا کرتا ہے۔ تو صرف وہ انوکھا لاڈلا نہیں بلکہ ہمارے سیاسی لاڈلے بھی کچھ ایسا ہی مزاج رکھتے ہیں کہ کھیلن کو ہمیشہ چاند ہی مانگتے ہیں حالانکہ اس کے اردگرد ہزاروں کی تعداد میں ستارے جھلملا رہے ہوتے ہیں لیکن ان کی نظر انتخاب ہمیشہ چاند پر ہی پڑتی ہے اور شاعر بھی انوکھے لاڈلے کی ضد پر یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ پاگل من کوئی بات نہ مانے، کیسی انوکھی بات رے۔

    انوکھے لاڈلے پر ہم فلموں ڈراموں تک آ کر کچھ بھٹک گئے قبل اس کے کہ زیادہ بھٹک کر راستہ ہی بھول جائیں واپس آتے ہیں اماں ابا کے لاڈلے کی جانب جو ہوتے تو دونوں کی آنکھوں کا تارا ہیں لیکن تب تک، جب تک وہ ان کی مرضی کے مطابق چلتے ہیں، جیسے ہی اماں ابا کے حکم یا مرضی کے برخلاف کام کرتے ہیں تو پھر اماں کی جوتی اور ابا کا ڈنڈا اٹھتے اور کمر پر پڑتے دیر نہیں لگتی اور یہ چوٹ ایسی ہوتی ہے کہ چودہ طبق روشن ہونے لگتے ہیں اور ہمارا دعویٰ ہے کہ اکثریت کا تجربہ اسی سے ملتا جلتا ہوگا۔

    لیکن لاڈلے تو پھر لاڈلے ہیں جو نافرمانی کی سزا پاتے ہیں پھر توبہ تلّا کر کے دوبارہ لاڈلے بن جاتے ہیں اور اسی لاڈلے پن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پھر سے غلطی کرتے ہیں لیکن وہ بھی کیا کریں کہ انسان تو ہے ہی خطا کا پتلا، اگر وہ خطا نہ کرتا تو جنت سے کیوں نکالا جاتا۔ اگر غلطیوں اور نافرمانیوں کے سلسلے کو سیاست دانوں پر رکھ کر دیکھیں تو وہ بھی بالآخر انسان ہے اور بچپن بھی گزارا ہے تو اگر بھول چوک کا یہ سلسلہ بڑے ہو کر بھی قائم و دائم ہے تو اس پر جزبز ہونے کے بجائے ان کی استقامت کی داد دینی چاہیے۔

    اگرچہ دنیا کے دیگر ممالک میں سیاسی رہنما اپنا طرز حکمرانی بہتر سے بہترین اور عوام کے وسیع تر مفاد میں بنا کر ان کے لاڈلے بننے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ہمارے ہاں یہ چلن صرف دعوؤں اور لفظوں تک ہے۔ عمل کی راہ سے اس کا دور دور تک گزر نہیں ہوتا۔ ہمارے اکثر سیاستدان تو شاعر مشرق علامہ اقبال کے اس شعر پر پورے اترتے ہیں کہ

    اقبال بڑا اپدیشک ہے من باتوں میں موہ لیتا ہے
    گفتار کا یہ غازی تو بنا، کردار کا غازی بن نہ سکا

    آج ایک بار پھر انتخابات کے لیے سیاسی میدان سج چکا ہے جہاں سیاست دان لاڈلا بننے کی کوششوں کے ساتھ حسب روایت اقتدار کی خاطر عوام کو دانہ ڈالنے کے لیے وعدوں کے جال بچھا رہے ہیں جب کہ ماضی میں کئی بار کبھی نہ پورے ہونے والے وعدوں پر اعتبار کرنے والے کروڑوں عوام کچھ اس طرح اپنا حال اور رہنمائی کے دعوے داروں کی فرمائش بیان کر رہے ہیں کہ

    انوکھا لاڈلا، کھیلن کو مانگے چاند
    کیسی انوکھی بات رے
    تن کے گھاؤ تو بھر گئے داتا
    من کا گھاؤ نہیں بھر پاتا
    جی کا حال سمجھ نہیں آتا
    کیسی انوکھی بات رے
    انوکھا لاڈلا…..

  • سپریم کورٹ نے عام انتخابات میں تاخیر کے تمام دروازے بند کر دیے

    سپریم کورٹ نے عام انتخابات میں تاخیر کے تمام دروازے بند کر دیے

    اسلام آباد: سپریم کورٹ نے عام انتخابات میں تاخیر کرنے کے تمام دروازے بند کر دیے، سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ انتخابی شیڈول جاری ہونے کے بعد حلقہ بندیوں پر اعتراض نہیں اٹھایا جا سکتا۔

    تفصیلات کے مطابق کوئٹہ کی 2 صوبائی نشستوں پر حلقہ بندیوں کے خلاف اپیل پر جسٹس سردار طارق مسعود کی سربراہی میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے 3 رکنی بنچ نے فیصلہ سنا دیا۔

    بلوچستان ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کی حلقہ بندی تبدیل کی تھی، تاہم سپریم کورٹ نے بلوچستان ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے الیکشن کمیشن کی اپیل منظور کر لی تھی۔

    جسٹس اطہر من اللہ نے کہا جو اختیار قانون نے الیکشن کمیشن کو دیا اسے ہائیکورٹ کیسے استعمال کر سکتی ہے، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ الیکشن پروگرام جاری ہونے کے بعد حلقہ بندیوں سے متعلق تمام مقدمہ بازی غیر مؤثر ہو چکی، کسی ایک فرد کو ریلیف دینے کے لیے پورے انتخابی عمل کو متاثر نہیں کیا جا سکتا، ہمیں اس حوالے سے لکیر کھینچ کر حد مقرر کرنی ہے۔

    قائم مقام چیف جسٹس سردارطارق مسعود نے کہا مجھے سمجھ نہیں آتی کہ سارے کیوں چاہتے ہیں کہ الیکشن لمبا ہو، الیکشن ہونے دیں، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا اگر اس درخواست پر فیصلہ دیا تو سپریم کورٹ میں درخواستوں کا سیلاب امڈ آئے گا، الیکشن شیڈول جاری ہو جائے تو سب کچھ رک جاتا ہے، یہ الیکشن کمیشن کا سب سے بڑا امتحان ہے کہ 8 فروری کے انتخابات شفاف ہوں۔

    واضح رہے کہ بلوچستان ہائیکورٹ نے شیرانی اور ژوب میں الیکشن کمیشن کی حلقہ بندی تبدیل کر دی تھی، جس پر الیکشن کمیشن نے ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر دی تھی۔

  • الیکشن کمیشن کو عام انتخابات کیلئے مزید 17 ارب 40 کروڑ روپے کے فنڈز جاری

    الیکشن کمیشن کو عام انتخابات کیلئے مزید 17 ارب 40 کروڑ روپے کے فنڈز جاری

    اسلام آباد : الیکشن کمیشن کو عام انتخابات کیلئے مزید 17 ارب 40 کروڑ روپے کے فنڈز جاری کر دئیے گئے، وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن کو جب فنڈزکی ضرورت ہوگی رقم جاری کی جائے گی۔

    تفصیلات کے مطابق وزارت خزانہ کی جانب سے الیکشن کمیشن کو عام انتخابات کیلئے 17 ارب 40 کروڑ روپے کے فنڈز جاری کر دئیے گئے۔

    وزارت خزانہ نے اعلامیے میں کہا ہے کہ جولائی میں عام انتخابات کیلئےالیکشن کمیشن کو 10 ارب جاری کئے جاچکےہیں، الیکشن کمیشن کو مجموعی طور پر27 ارب 40 کروڑ کی رقم فراہم کی گئی۔

    اعلامیے میں کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کی ضروریات کے مطابق فنڈز کی فراہمی کیلئے پرعزم ہیں، الیکشن کمیشن کو جب فنڈزکی ضرورت ہوگی رقم جاری کی جائے گی۔

    گذشتہ روز الیکشن کمیشن نے عام انتخابات کیلئے مختص فنڈز کی عدم فراہمی کا نوٹس لیتے ہوئے سیکرٹری خزانہ کو طلب کیا تھا۔

    ذرائع الیکشن کمیشن نے کہا تھا کہ مالی سال کے بجٹ میں عام انتخابات کیلئے42 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں اور وزارت خزانہ نے ابتک 10 ارب روپےجاری کئے ہیں، باقی رقم کی فراہمی بغیر کسی جواز کے تعطل کا شکار ہے۔

    ذرائع کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کو8 فروری کےانتخابات کیلئےفوری طورپر17 ارب درکارہیں، رقم کی فراہمی کیلئےالیکشن کمیشن نے وزارت خزانہ سے بارہا رجوع کیا، وزارت خزانہ کو تحریری یاددہانی بھی کرائی، جس کا مثبت جواب نہیں دیا گیا۔

  • عام انتخابات کیلئے مختص فنڈز کی عدم فراہمی : الیکشن کمیشن نے سیکرٹری خزانہ طلب کرلیا

    عام انتخابات کیلئے مختص فنڈز کی عدم فراہمی : الیکشن کمیشن نے سیکرٹری خزانہ طلب کرلیا

    اسلام آباد : الیکشن کمیشن نے عام انتخابات کیلئے مختص فنڈز کی عدم فراہمی کا نوٹس لیتے ہوئے سیکرٹری خزانہ کو طلب کرلیا، بجٹ میں عام انتخابات کیلئے بیالیس ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق الیکشن کمیشن نے عام انتخابات کیلئے مختص فنڈز کی عدم فراہمی کا نوٹس لے لیا اور فنڈز کی عدم فراہمی پرسیکرٹری خزانہ کو طلب کرلیا ہے۔

    ذرائع الیکشن کمیشن نے کہا کہ مالی سال کے بجٹ میں عام انتخابات کیلئے42 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں اور وزارت خزانہ نے ابتک 10 ارب روپےجاری کئے ہیں، باقی رقم کی فراہمی بغیر کسی جواز کے تعطل کا شکار ہے۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن کو8 فروری کےانتخابات کیلئےفوری طورپر17 ارب درکارہیں، رقم کی فراہمی کیلئےالیکشن کمیشن نے وزارت خزانہ سے بارہا رجوع کیا، وزارت خزانہ کو تحریری یاددہانی بھی کرائی، جس کا مثبت جواب نہیں دیا گیا۔

    چیف الیکشن کمیشن کمشنر نے فنڈز کی عدم فراہمی پر وزیر اعظم کوبھی آگاہ کرنےکافیصلہ کرلیا ہے ، چیف الیکشن کمشنر آج وزیر اعظم کو فنڈز کی عدم فراہمی پر تفصیلی خط لکھیں گے۔

  • عام انتخابات : ملک بھر میں ووٹرز کی تعداد 12 کروڑ 83 لاکھ سے زائد ہو گئی

    عام انتخابات : ملک بھر میں ووٹرز کی تعداد 12 کروڑ 83 لاکھ سے زائد ہو گئی

    اسلام آباد : ملک بھر میں ووٹرز کی تعداد 12 کروڑ 83 لاکھ سے زائد ہو گئی ، حالیہ انتخابی فہرستوں میں 15 لاکھ کے قریب نئے ووٹر رجسٹرہوئے۔

    تفصیلات کے مطابق الیکشن کمیشن کی جانب سے عام انتخابات کے حوالے سے حتمی ووٹر فہرستیں تیار کرلی گئیں۔

    ذرائع بتایا کہ ملک بھر میں ووٹرز کی تعداد 12 کروڑ 83 لاکھ سے زائد ہو گئی، حالیہ انتخابی فہرستوں میں 15 لاکھ کے قریب نئے ووٹررجسٹرہوئے۔

    ذرائع کا کہنا تھا کہ 25 جولائی 2023 تک ووٹرز کی تعداد 12 کروڑ 69 لاکھ سے زائد تھی۔

    گذشتہ روز الیکشن کمیشن کو حتمی ووٹر فہرستیں نادرا سے موصول ہوئی تھیں، چیف الیکشن کمشنر کے مطابق بغیرتصاویر کے ووٹرفہرستیں موصول ہوئیں۔

    الیکشن کمیشن نے 90 فیصد اضلاع میں ووٹر فہرستیں مہیا کر دی ہیں جب کہ الیکشن کمیشن دیگر اضلاع میں کل تک فہرستیں پہنچا دے گا۔

    ذرائع کے مطابق نادرا یکم جنوری تک ووٹرز کی تصاویر والی فہرستیں الیکشن کمیشن کو دے گا تصاویر والی ووٹر فہرستیں صرف الیکشن حکام کےپاس موجودرہیں، اسی طرح امیدواروں اور پولنگ ایجنٹس کو بغیر تصاویر والی فہرست دی جائے گی۔

  • محسوس ہوتا ہے پی ٹی آئی کو بلے کا نشان مل جائے گا: شیخ رشید

    محسوس ہوتا ہے پی ٹی آئی کو بلے کا نشان مل جائے گا: شیخ رشید

    راولپنڈی: سابق وزیر داخلہ اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کا کہنا ہے پی ٹی آئی کے کل کے فیصلے سے لگتا ہے کہ عام انتخابات میں ان کو بلے کا نشان مل جائے گا۔

    9 مئی کے مقدمات کے خلاف شیخ رشید کی دائر درخواست پر سماعت لاہور ہائیکورٹ راولپنڈی بینچ کے جسٹس چوہدری عبدالعزیز نے کی۔

    اس موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیر داخلہ اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے کہا کہ 12 اپریل سے لیکر 12 مئی تک میں کرغستان پھر باقو میں تھا کسی بندے نے مجھے دیکھا ہے تو بتائے، نواز شریف کو ریلیف ہی ریلیف ہے لمبا ریلیف دیا جارہا ہے۔

    شیخ رشید نے ن لیگ پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ انسان یہ سمجھتا ہے کہ شاید سب کچھ میری بہتری کیلئے ہورہا ہے، مگر عوام میں انکی مقبولیت میں روز بروز فرق پڑ رہا ہے، جو لوگوں کو بے وقوف سمجھتا ہے وہ خود بہت بڑا بے وقوف ہے، ہر بندے کو سمجھ ہے انہیں کیسے لایا گیا کیسے ایئر پورٹ پر انگوٹھا لگوایا گیا۔

    ان کا کہنا تھا کہ کل جوپی ٹی آئی نے فیصلہ کیا محسوس ہوتا ہے انہیں بلےکا نشان مل جائے گا، میں نے کسی کے ہاتھ کوئی پیغام نہیں بھیجا ساری زندگی اپنے حلقوں میں سیاست کی۔

    شیخ رشید نے مزید کہا کہ 10 تاریخ سے الیکشن مہم شروع کروں گا، مجھے کسی جلسے کی ضرورت نہیں، میں پی ڈی ایم کیخلاف الیکشن لڑرہا ہوں، جس آدمی نے 16 مئی کا قحط زدہ دور دیکھا وہاں کام کرنےکی ضرورت نہیں۔

  • کیا آصفہ بھٹو چترال کے حلقے سے الیکشن لڑیں گی؟

    کیا آصفہ بھٹو چترال کے حلقے سے الیکشن لڑیں گی؟

    الیکشن کمیشن نے 8 فروری کو ملک میں عام انتخابات کا اعلان کر دیا ہے اور اس کا باقاعدہ نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا گیا ہے، جس کے بعد سیاسی جماعتوں نے الیکشن مہم کا اغاز کر دیا ہے۔

    پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے چترال میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہاں کے عوام کا مطالبہ ہے کہ آصفہ بھٹو زرداری یہاں سے الیکشن لڑے اور اس کے لیے وہ آصفہ بھٹو کو منائیں گے کہ وہ چترال کے حلقے سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑیں اور جیت کر یہاں کے عوام کی خدمت کریں۔

    واضح رہے کہ قومی اسمبلی کے حقلہ این اے 1 چترال سے ماضی میں بلاول بھٹو کی نانی نصرت بھٹو بھی کامیاب ہوئی تھیں، انھوں نے یہاں سے الیکشن لڑا اور چترال کے عوام نے ان کو دل کھول کر ووٹ دیا۔

    چترال کے حلقے سے کتنی خواتین نے الیکشن لڑا؟

    چترال کے حقلے سے اب تک 3 خواتین امیدواروں نے قسمت آزمائی کی ہے، ان میں دو خواتین امیدواروں کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے ہے۔ نصرت بھٹو نے 1988 کے الیکشن میں حصہ لیا اور کامیاب ٹھہریں جب کہ 1988 کے انتخابات میں تیسرے نمبر پر بھی خاتون امیدوار بیگم شیر علی رہیں۔ 1993 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی نے پھر خاتون امیدوار کو ٹکٹ دیا، زوجہ محمد سلیمان نے الیکشن میں حصہ لیا اور وہ 15 ہزار ووٹ حاصل کر کے دوسرے نمبر پر رہیں، جب کہ پاکستان اسلامی فرنٹ کے مولانا عبدالرحیم 16 ہزار 275 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے۔

    الیکشن کب ہونا ہے؟

    الیکشن 8 فروری 2024 کو ہونا ہے، الیکشن کا شیڈول ابھی تک جاری نہیں ہوا لیکن سپریم کورٹ میں 90 دن میں الیکشن سے متعلق کیس میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر مشتمل تین رکنی بینچ نے تحریری فیصلے میں قرار دیا ہے کہ الیکشن کے انعقاد پر کسی کو شک و شبہات نہیں ہونے چاہیئں، میڈیا بھی یہ نہ کہے کہ الیکشن ہوگا یا نہیں۔ صدر مملکت، الیکشن کمیشن اور تمام اسٹیک ہولڈرز نے دستخط کر کے سپریم کورٹ کو آگاہ کیا کہ الیکشن 8 فروری کو ہوں گے۔ چناں چہ الیکشن کے انعقاد میں اب کوئی دو رائے نہیں ہیں، 8 فروری کو ملک میں عام انتخابات ہوں گے۔

    قومی اسمبلی کا حلقہ این اے ون چترال جہاں سے قومی اسمبلی کی نشستوں کا آغاز ہوتا ہے، اس حلقے سے کون کون منتخب ہو کر اسمبلی پہنچے، اس پر تفصیل سے بات کریں گے۔

    قومی اسمبلی کا حلقہ این اے ون چترال تاریخی حیثیت کا حامل حلقہ ہے، یہ پاکستان کا دور دراز پہاڑی علاقہ ہے اور ترقی کے لحاظ سے بھی دیگر علاقوں سے بہت پیچھے ہے۔ سڑکیں خراب ہیں اور دیگر بنیادی ضروریات بھی وہاں کے عوام کی نصیب میں اب تک نہیں آئیں،

    لیکن چترال خوب صورتی میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ قدرتی حسن سے مالامال چترال کے عوام مہمان نواز بھی ہیں اور نہ صرف خیبر پختون خوا بلکہ ملک میں سب سے پرامن علاقہ بھی چترال ہے، جہاں جرائم کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے۔

    چترال کے عوام الیکشن میں جہاں مذہبی جماعتوں کے امیدواروں کو ووٹ دیگر کامیاب کراتے ہیں وہاں ماضی میں خواتین امیدواروں کو بھی دل کھول کر ووٹ دیے گئے ہیں اور سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی والدہ نصرت بھٹو چترال کی نشست سے 1988 کے الیکشن میں ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئی تھیں۔

    ماضی میں کس پارٹی کے امیدوار یہاں سے کامیاب ہوئے؟

    صاحب زادہ محی الدین

    1985 کے عام انتخابات میں چترال کا حلقہ این اے 24 کہلاتا تھا اور اس حلقے سے 1985 میں صاحب زادہ محی الدین 26 ہزار 707 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے تھے، جب کہ مولانا عبدالرحیم چترالی 22 ہزار 745 ووٹ لے کر دوسرے نمبر رہے۔ یاد رہے کہ 1985 کے عام انتخابات غیر جماعتی بنیادوں پر ہوئے تھے۔

    20 مارچ 1985 کو محمد خان جونیجو وزیر اعظم منتخب ہوئے، ان کی حکومت 3 سال چلی اور پھر اس وقت کے صدر نے آرٹیکل 58(2)(b) کے اختیارات استعمال کرتے ہوئے اسمبلی تحلیل کر دی تھی۔

    نصرت بھٹو

    جنرل ضیاالحق کے طیارہ حادثے میں ہلاکت کے بعد 16 نومبر 1988 کو عام انتخابات ہوئے اور اس بار چترال کے حلقے سے پاکستان پیپلز پارٹی کی امیدوار نصرت بھٹو نے 32 ہزار 819 ووٹ لے کر کامیابی حاصل کر لی اور دوسرے نمبر پر آئی جے آئی کے امیدوار صاحب زادہ محی الدین رہے، جب کہ تیسرے نمبر پر آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنے والی خاتون امیداور بیگم شیر علی رہیں۔ نصرت بھٹو چترال سے کامیاب ہونے والی پہلی خاتون امیدوار تھیں۔

    پاکستان پیپلز پارٹی کے ووٹ بینک کو تقسیم کرنے کے لیے آئی جے آئی (اسلامی جمہوری اتحاد) کے نام سے مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں کا اتحاد بنایا گیا تھا، 1988 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی برسر اقتدار آئی لیکن حکومت ڈھائی سال ہی چل سکی اور ماضی کی طرح ایک بار پھر صدر پاکستان (غلام اسحاق خان) نے بے نظیر بھٹو کی حکومت کو چلتا کر دیا۔

    صاحب زادہ محی الدین

    1990 کے جنرل الیکشن میں چترال کے حلقے این اے 24 سے اسلامی جمہوری اتحاد کے صاحب زادہ محی الدین کامیاب قرار پائے، ان انتخابات میں مسلم لیگ کے نواز شریف وزیر اعظم بنے، لیکن ان کی حکومت بھی زیادہ دیر نہ چل سکی اور جمہوریت کُش روایت کو برقرار رکھتے ہوئے اُس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے 18 اپریل 1993 کو اسمبلی تحلیل کر دی، لیکن اس کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا اور سپریم کورٹ نے کیس سننے کے بعد 26 مئی کو اسمبلی بحال کر دی لیکن پھر 18 جولائی 1993 کو وزیر اعظم کی ایڈوائس پر اسمبلی تحلیل کر دی گئی اور نئے انتخابات کا انعقاد کیا گیا۔

    مولانا عبدالرحیم

    1993 کے عام انتخابات میں چترال کے حلقے این اے 24 سے پاکستان اسلامی فرنٹ کے مولانا عبدالرحیم 16275 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے جب کہ پیپلز پارٹی کی خاتون امیدوار زوجہ محمد سلیمان خان 15 ہزار 765 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہیں۔ ان انتخابات میں قومی سطح پر پیپلز پارٹی نے کامیابی حاصل کی اور بے نظیر بھٹو دوسری بار ملک کی وزیر اعظم بنیں، لیکن ان کی حکومت بھی اپنی مدت مکمل ہونے سے پہلے ہی 5 نومبر 1996 کو اُس وقت کے صدر فاروق لغاری نے ختم کر دی اور یوں پاکستانی صدور کی جانب سے جمہوریت کُش روایت کو جاری رکھا گیا۔

    صاحب زادہ محی الدین

    1997 کے عام انتخابات میں صاحب زادہ محی الدین مسلم لیگ ن کے میدوار تھے اور اس بار بھی وہ چترال سے کامیاب ہوئے، انھوں نے 24 ہزار 302 ووٹ لیے جب کہ دوسرے نمبر پر رہنے والے امیدوار پیپلز پارٹی کے میجر ریٹائرڈ احمد سعید تھے، جنھوں نے 12 ہزار 222 ووٹ لیے تھے۔

    1997 کے عام انتخابات میں مسلم لیگ ن کی حکومت بنی اور نواز شریف دوسری مرتبہ وزارت عظمیٰ کی کرسی پر براجماں ہوئے لیکن یہ حکومت بھی زیادہ دیر نہ چل سکی، اور اُس وقت کے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے 12 اکتوبر 1999 کو حکومت کو چلتا کر دیا اور ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی اور وزیر اعظم نواز شریف کو گرفتار کر کے اٹک قلعہ پہنچا دیا۔

    مولانا عبدالکبیر چترالی

    2002 میں ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے دور میں الیکشن کا انعقاد کیا گیا اور چترال کے حلقے این اے 32 (2002 الیکشن سے قبل یہ حلقہ این اے 24 کہلاتا تھا) سے مذہبی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل کے مولانا عبدالکبیر چترالی کامیاب ہوئے۔ انھوں نے 36 ہزار 130 ووٹ لیے جب کہ 2002 الیکشن سے کچھ مہینے پہلے بننے والی نئی جماعت مسلم لیگ قائد اعظم کے امیدوار افتحار الدین 23 ہزار 907 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔

    شہزادہ محی الدین

    2008 کے عام انتخابات سے پہلے پرویز مشرف نے اپنی نئی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ بنائی اور چترال کے حلقے سے شہزادہ محی الدین اس بار آل پاکستان مسلم لیگ کے ٹکٹ پر میدان میں اترے اور 33 ہزار 278 ووٹ لے کر کامیاب قرار دیے گئے، جب کہ آزاد امیدوار سردار محمد خان 31 ہزار 120 ووٹ لے کر دوسرے اور پیپلز پارٹی کے شہزادہ غلام محی الدین 18 ہزار 516 ووٹ لے کر تیسرے نمبر پر رہے۔

    2008 انتخابات کے نتیجے میں پاکستان پیپلز پارٹی برسراقتدار آئی اور یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم بن گئے، جب کہ آصف علی زرداری صدر بنے اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار کسی ایک سیاسی پارٹی نے اپنا 5 سالہ دور پورا کیا۔

    افتخار الدین

    2013 جنرل الیکشن میں چترال کے عوام نے ایک بار پھر آل پاکستان مسلم لیگ کے حق میں فیصلہ دیا، اور اے پی ایم ایل کے امیدوار افتخار الدین نے 29 ہزار 772 ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی، جب کہ پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار عبدالطیف 24 ہزار 182 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔

    مولانا عبدالکبر چترالی

    2018 کے انتخابات میں چترال کا حلقہ این اے ون بن گیا، قومی اسمبلی کا این اے ون پہلے پشاور سٹی ہوا کرتا تھا، لیکن 2018 الیکشن سے پہلے حلقہ این اے ون چترال کو دیا گیا۔ 2018 جنرل الیکشن میں چترال کے عوام نے جماعت اسلامی کے حق میں فیصلہ دیا، جماعت اسلامی کے امیدوار مولانا عبدالکبر چترالی 48 ہزار 616 ووٹ لے کر کامیاب قرار پائے جب کہ پاکستان تحریک انصاف کے عبدالطیف 40 ہزار 2 ووٹ لے کر دوسرے اور پیپلز پارٹی کے امیدوار سلیم خان 32 ہزار 635 ووٹ لے کر تیسرے نمبر پر رہے۔

    چترال کے حلقے سے اگلا فاتح کون؟

    اب 8 فروری 2024 کو عام انتخابات ہونے جا رہے ہیں اور سیاسی جماعتوں نے الیکشن کی تیاریاں شروع کر دی ہیں اور مختلف حلقوں سے اپنے اپنے امیدوار فائنل کر رہے ہیں۔

    چترال سے اس بار سیاسی پارٹیاں کون سے امیدوارں کو میدان میں اتارتی ہیں، کیا اس میں خواتین امیدوار بھی قسمت آزمائی کریں گی؟ یہ تو الیکشن کے ٹکٹ کنفرم ہونے کے بعد پتا چلے گا، لیکن اگر ماضی کے انتخابات پر نظر دوڑائی جائے تو چترال کے عوام نے کسی ایک پارٹی کو ووٹ نہیں دیا۔ ہر دور میں نئے امیدواروں کو ووٹ دیا گیا اور خواتین امیدوار جب بھی مقابلے میں آئیں تو انھوں نے اچھا مقابلہ کیا ہے۔ اس لیے اگر پیپلز پارٹی کی جانب سے آصفہ بھٹو زرداری کو کھڑا کیا جاتا ہے، تو اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ اس بار یہ حلقہ آصفہ بھٹو کے نام رہے گا۔

  • عام انتخابات کی تیاریاں : الیکشن کمیشن کا  ای ایم ایس کا کامیاب تجربہ

    عام انتخابات کی تیاریاں : الیکشن کمیشن کا ای ایم ایس کا کامیاب تجربہ

    اسلام آباد : الیکشن کمیشن نے ای ایم ایس کا کامیاب تجربہ کرلیا ہے، ای ایم ایس کے ذریعے نتائج انٹرنیٹ اور بغیر انٹرنیٹ کے بھی بھیجیں جا سکیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق الیکشن کمیشن نے چاروں صوبوں میں ای ایم ایس کا کامیاب تجربہ کرلیا ہے ، مختلف اضلاع میں ریجنل الیکشن کمشنرز، ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنرز کے دفاتر سے تجربہ کیا۔

    ذرائع ک نے بتایا کہ پریزائیڈنگ افسران اپنےپولنگ اسٹیشن کے نتائج ریٹرننگ افسران کو بھجوائیں گے، ریٹرننگ افسران رزلٹ تیار کر کے ڈیجیٹل اور مینیول طریقے سے الیکشن کمیشن کو بھجوائے گا، ہر ریٹرننگ افسر کو چار چار ڈیٹا انٹری آپریٹرز دیے جائیں گے۔

    ذرائع کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے ڈیٹا انٹری آپریٹرز کو ٹریننگ دے دی ہے،ای ایم ایس سسٹم جدید تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے تیار کیا گیا ہے، ای ایم ایس کے ذریعے نتائج انٹرنیٹ اور بغیر انٹرنیٹ کے بھی بھیجیں جا سکیں گے۔

  • پیپلز پارٹی کا عام انتخابات سے متعلق بڑا فیصلہ

    پیپلز پارٹی کا عام انتخابات سے متعلق بڑا فیصلہ

    کراچی: پیپلز پارٹی نے عام انتخابات میں کراچی میں کسی جماعت سے اتحاد نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق پیپلزپارٹی کراچی میں کسی جماعت سے انتخابی اتحاد نہیں کرے گی، انتخابی اتحاد کرنے پر پیپلزپارٹی کو ووٹ تقسیم ہونے کا خدشہ ہے اس بنا پر پارٹی نے کسی بھی جماعت سے اتحاد نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

    پیپلز پارٹی ذرائع کا بتانا ہے کہ کراچی میں مختلف حلقوں پر سیٹ ایڈجسٹمنٹ ممکن ہے، پیپلزپارٹی کراچی میں اے این پی کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کر سکتی ہے۔

    پارٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ اے این پی کی خواہش پر کراچی میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر غور ہو سکتا ہے لیکن پیپلزپارٹی کراچی میں اے این پی کو سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی آفر نہیں کرے گی۔

    پی پی ذرائع کا یہ بھی کہنا تھا کہ کراچی میں ن لیگ، ایم کیو ایم کے اتحاد سے پیپلز پارٹی کو خطرہ نہیں، سندھ میں ایم کیو ایم کا ن لیگ سے انتخابی اتحاد پانی کا بلبلہ ہے، کراچی میں ن لیگ کا قابل زکر ووٹ بینک نہیں ہے۔

    ’’ اس لیے ن لیگ کراچی یا سندھ کی کسی سیٹ پر پیپلزپارٹی کیلئے نقصان دہ نہیں، ن لیگ کسی نشست پر ایم کیو ایم کو جتوانے کی پوزیشن میں نہیں ہے، کراچی میں پی پی، ایم کیو ایم کے بعد اے این پی کا ووٹ اہمیت رکھتا ہے‘‘۔

    پی پی ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ پیپلزپارٹی کے پاس کراچی کے تمام حلقوں پر امیدوار موجود ہیں، پی پی کی اے این پی سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ ایم کیو ایم کیلئے نقصان دہ ہو گی۔