Tag: عباسی خلیفہ

  • نہرِ زبیدہ کا قصّہ جس کی تعمیر پر زبیدہ بنتِ جعفر نے بے دریغ اپنی دولت خرچ کی

    نہرِ زبیدہ کا قصّہ جس کی تعمیر پر زبیدہ بنتِ جعفر نے بے دریغ اپنی دولت خرچ کی

    عباسی خلیفہ ہارون الرشید کی شریک حیات زبیدہ بنتِ‌ جعفر کو اسلامی دنیا میں ملکہ کی حیثیت سے جو امتیاز اور عزت و احترام حاصل ہوا، اس کی وجہ ان کی سخاوت اور فیاضی اور بہت سے فلاحی کام ہیں جن میں نہرِ زبیدہ کی تعمیر بھی شامل ہے۔

    یہ نہر مکّہ اور قرب و جوار میں حاجیوں اور زائرین کو لگ بھگ 1200 سال تک پانی کی فراہمی یقینی بناتی رہی۔ ملکہ نے اس منصوبے پر بے دریغ اپنی دولت خرچ کی۔ منصوبہ کی کی تکمیل کے بعد جب ملکہ کو اخراجات کی تفصیل پیش کی گئی تو انھوں نے اسے دریا میں پھینک دیا اور کہا کہ یہ کام اللہ کی رضا کے لیے کیا تھا، اس کا حساب بھی قیامت کے روز ہی ہوگا۔ پوڈ کاسٹ سنیے…

  • سلجوق خاندان کے برکیاروق کا تذکرہ جو محض 25 سال زندہ رہا

    سلجوق خاندان کے برکیاروق کا تذکرہ جو محض 25 سال زندہ رہا

    سلجوق حکم رانوں کو اسلامی تاریخ میں خاص مقام حاصل ہے۔ سلاجقہ ہی تھے جنھوں نے دولتِ عباسیہ کے زوال کے بعد عالمِ اسلام کو ایک مرکز پر اکٹھا کیا۔ گیارہویں صدی عیسوی میں قائم ہونے والی سلجوق سلطنت کے بانی لوگ نسلاً اوغوز ترک تھے اور اس خاندان سے چوتھا حکم راں‌ رکن الدّین برکیاروق ہوا۔

    سلطان ملک شاہ اوّل کا انتقال 1092ء میں ہوا جو برکیاروق کا باپ تھا جب کہ والدہ کا نام زبیدہ خاتون تھا۔ ملک شاہ اوّل کی وفات کے بعد سلجوق خاندان میں اقتدار کی جنگ شروع ہو گئی اور اس کا نتیجہ سلطنت کی تقسیم کی شکل میں‌ نکلا۔ اس وقت تک سلجوق سلطان وسطی ایشیا اور یوریشیا کے علاقوں میں اسلام کا پرچم بلند کرچکے تھے، مگر بعد میں سلجوق خاندان میں انتشار کے سبب کم زور ہو گئے۔

    برکیاروق کا سنہ پیدائش 1081ء بتایا جاتا ہے جب کہ اس کا اقتدار 1104ء میں اس کی وفات تک قائم رہا۔ مؤرخین نے اس کا یومِ‌ وفات 2 دسمبر لکھا ہے۔

    ملک شاہ کی وفات کے بعد برکیاروق کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ دراصل سلطان کے بعد اس کے بھائیوں اور چار بیٹوں میں اختلافات پیدا ہوگئے تھے اور ترکان خاتون جو ملک شاہ کی دوسری بیوی تھی، وہ اپنے نوعمر بیٹے کو سلطان بنانا چاہتی تھی اور امراء سے معاملات طے کرکے اس کی خواہش پر برکیاروق کو قیدی بنا لیا گیا تھا۔ محمود اس وقت نہایت کم عمر تھا اور سلطان کے طور پر اس کے نام کے اعلان کے لیے عباسی خلیفہ سے بھی اجازت لے لی گئی، لیکن صورتِ حال خراب ہوتی چلی گئی۔ ادھر برکیاروق کی حقیقی والدہ زبیدہ بیگم نے بھی اہم اور طاقت ور شخصیات سے رابطے کر کے کسی طرح اصفہان میں قید اپنے بیٹے کو آزاد کروا لیا اور انہی امراء کی پشت پناہی سے تخت پر بھی بٹھا دیا۔ مؤرخین نے لکھا ہے کہ اس وقت ترکان خاتون اپنے بیٹے محمود اول کے ساتھ دارالخلافہ بغداد میں تھی اور وہ کچھ نہ کرسکی۔ فوج نے برکیاروق کا حکم مانا اور اس کی حکومت مستحکم ہو گئی۔ تاہم اس کے لیے برکیاروق نے ترکان خاتون کی مزاحمت اور اپنے چچا کی بغاوت اور کئی سازشوں اور یورشوں کو بھی انجام کو پہنچایا۔ کئی خوں ریز تصادم، باغیوں اور سرکش گروہوں کو مٹانے کے بعد تخت کے تمام دعوے دار ختم ہو گئے، تو برکیاروق کا سلطان ملک شاہ اول کی سلطنت پر مکمل قبضہ ہوگیا۔

    عباسی خلیفہ نے سلطان برکیاروق کو بغداد طلب کرکے خلعت سے نوازا۔ اس کے نام کا خطبہ جامع بغداد میں پڑھوایا اور امورِ سلطنت اختیارات برکیاروق کو سونپتے ہوئے اس کی حکم رانی کا اعلان کیا۔

    برکیاروق نے بعد میں کئی علاقوں کو اپنا مطیع اور ان کے حکم رانوں کو اپنا تابع فرمان بنایا۔ لیکن امورِ سلطنت کو دیکھتے ہوئے دور دراز کے علاقوں پر اپنی حاکمیت اور امراء و سپاہ پر گرفت رکھنا اس کے لیے آسان نہیں رہا تھا، اسی عرصے میں اس کی ماں زبیدہ بیگم کو قتل کر دیا گیا اور حالات اتنے خراب ہوئے
    کہ خود سلطان برکیاروق کو بغداد چھوڑنا پڑا۔ بعد میں وہ لوٹا تو اسے اپنے بھائی سے جنگ لڑنا پڑی اور جنگوں کا یہ سلسلہ جانی و مالی نقصان کے ساتھ بالآخر چند شرائط کے ساتھ تمام ہوا اور محمود اور سلطان برکیاروق نے اپنے علاقوں اور شہروں کی مستقل حکم رانی کا معاہدہ کر لیا۔

    سلطان برکیاروق قید سے آزاد ہونے کے بعد اور اقتدار سنبھالتے ہی خاندان میں بغاوتوں اور جنگوں سے نمٹتا رہا اور ایک مرض میں مبتلا ہو کر دنیا سے رخصت ہوگیا۔ اس نے اپنے بیٹے ملک شاہ دوم کو اپنا ولی عہد مقرر کیا تھا جو اس وقت محض پانچ سال کا تھا۔ سلطان نے امیر ایاز کو سلطنت کے تمام اختیارات سونپے تھے
    جو اس کا قابلِ بھروسا ساتھی تھا۔ اس نے لگ بھگ بارہ برس سلجوق خاندان کے حکم راں کی حیثیت سے نہایت مشکل وقت گزارا تھا اور عین جوانی میں انتقال کیا۔ برکیاروق کی تدفین اصفہان میں کی گئی۔

  • رومی افواج کی شکست اور ابو تمّام کی خلیفہ کو مبارک باد

    رومی افواج کی شکست اور ابو تمّام کی خلیفہ کو مبارک باد

    خلیفہ المعتصم باللہ کے عہدِ خلافت میں ابو تمّام کو عربی زبان کا سب سے بڑا قصیدہ گو شاعر کہا جاتا تھا۔

    مشہور ہے کہ وہ عیسائی باپ کا بیٹا تھا جس کی شراب کی دکان تھی۔ ابو تمّام کا نام تو حبیب بن اَوَس تھا، لیکن اس نے تبدیلیٔ نسب کے بعد اپنا تعلق مشہور قبیلہ طے سے جوڑ لیا اور نام میں طائی کا اضافہ کیا۔ ابتدا میں‌ اس عمل پر اسے طعنے اور کڑوی کسیلی باتیں‌ سننا پڑیں، مگر وقت کے ساتھ لوگوں نے یہ بات فراموش کر دی اور یہی وجہ ہے کہ اکثر اسے ’’الطائی‘‘ ’’الطائی الکبیر‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔

    عربی کے اس شاعر نے 806ء میں دمشق کے قریب جاسم نامی گاؤں میں آنکھ کھولی۔ اپنے زمانۂ طالبِ علمی ہی میں اسے زبان اور شعر و ادب سے بڑا شغف پیدا ہوگیا تھا۔ اس نے شاعری شروع کی اور مدحیہ اشعار کہنے لگا۔

    نوجوانی میں ابو تمّام مصر کے سفر پر گیا جہاں اہلِ علم و ادب کی صحبت اختیار کی۔ کچھ عرصہ بعد دمشق لوٹا تو خلیفہ مامون کے دربار سے وابستہ ہوگیا۔ ابو تمام نے روم کی فتح پر خلیفہ کی تعریف میں خوب قصیدے کہے۔ اس کی زبان دانی اور شاعری کی شہرت دور دور تک پھیل گئی تھی۔ ابو تمام نے کئی شہروں کے دورے کیے اور وہاں کے حکم رانوں اور علمی و ادبی حلقوں تک رسائی حاصل کرکے بڑی عزّت اور تکریم پائی۔

    عباسی حکم راں صاحبانِ علم و ادب کی قدر دانی کے لیے مشہور رہے ہیں اور مؤرخین نے لکھا ہے کہ ابو تمّام بھی جس امیر سے ملا اور جس دربار میں گیا، وہاں سے شاد کام ہوکر لوٹا۔

    ابو تمام کی شاعری میں جدّت کے وہ نمونے ملتے ہیں، جنھیں بعد میں متنبٰی اور ابوالعلا معرّیٰ نے آگے بڑھایا۔ اس کی شاعری معانی و افکار کی گہرائی کے ساتھ محسناتِ بدیعیہ سے آراستہ ہے۔ عربی زبان اور ادب کے ناقدین کے مطابق دورِ آخر میں ابو تمام کے کلام میں فلسفیانہ رجحان بھی نظر آتا ہے۔

    ابو تمّام نے معتصم باللہ کی شخصیت اور بالخصوص اس کی بہادری کی تعریف کرتے ہوئے رومیوں (اہم شہر عموریہ) پر فتح پانے کے بعد اسے اپنے جس قصیدے میں مبارک باد پیش کی، وہ بہت مشہور ہوا۔ یہ بھی مشہور ہے کہ خلفیہ جنگ پر جانے کی تیاری کر رہا تھا تو نجومیوں نے کہا تھاکہ اس وقت رومیوں سے لڑائی نہ کریں، مگر معتصم نے جنگ کی اور فتح بھی حاصل کی۔ ابو تمّام نے اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے اپنے اشعار میں کہا ہے کہ جنگ لڑنے کے لیے طاقت و قوّت اور ہتھیار کی ضرورت ہوتی ہے، اور جو خود پر اعتماد کرتے ہیں، انھیں جھوٹے علم اور پیش گوئیوں کو خاطر میں نہیں لانا چاہیے۔

    اگرچہ اس شاعر کی درباروں سے وابستگی اور پذیرائی کے علاوہ کئی واقعات کے مستند حوالے نہیں ملتے، لیکن کہا جاتا ہے کہ وہ نہایت شستہ اور فصیح عربی بولتا تھا، البتہ آواز اس کی ناخوش گوار تھی، اور یہ بھی کہتے ہیں کہ اس کی زبان میں کسی قدر لکنت تھی۔ خلیفہ المعتصم باللہ کے علاوہ اس نے کئی امرا کی شان میں قصائد لکھے اور ان سے بڑا انعام پایا۔ اپنے زمانے کے اس مشہور قصیدہ گو نے موصل میں‌ 846ء میں‌ وفات پائی۔

  • مشہور اطبا کی کتب کے عربی تراجم اور مسلم حکم راں

    مشہور اطبا کی کتب کے عربی تراجم اور مسلم حکم راں

    طب، علم الادویہ، علاج اور صحّت کے قدیم ترین مراکز میں جندی شاپور(ایران) اور اسکندریہ(مصر) کا نام تاریخ کے صفحات میں محفوظ ہے اور کہا جاتا ہے کہ مسلمانوں نے اپنے دورِ عروج میں ان مراکز کے علما، ماہر اور قابل طبیبوں اور ان کی کتب سے بھرپور استفادہ کیا اور مختلف ادوار میں خزینہ علم کا عربی زبان میں‌ ترجمہ ہوا۔

    قدیم دور میں ساسانیوں نے جندی شاپور کو طب و سائنس کا مرکز بنادیا۔ انھوں نے کیمیا و فلسفہ سمیت طب کی تعلیم و تربیت کا خوب اہتمام کیا۔ یہ چھٹی اور ساتویں صدی عیسوی کی بات ہے جب کہ ایک دوسرا علمی مرکز مصر کا شہر اسکندریہ تھا۔ علمُ الادویہ میں اہلِ اسکندریہ ماہر اور قابل مانے جاتے تھے۔

    عباسی عہد شروع ہوا تو اس میں‌ علمی اور سائنسی کتب کے تراجم کی طرف توجہ دی گئی اور کہتے ہیں‌ کہ ابو جعفر المنصور کے دور میں اس وقت کے مختلف زبانوں‌ پر عبور رکھنے والی ماہر اور قابل شخصیات نے تراجم کیے جن میں ایک حنین ابن اسحاق تھے جنھوں نے بقراط اور جالینوس کی طب سے متعلق کتابوں کا عربی میں ترجمہ کیا۔ وہ خود حکیم اور طبیب تھے، اور تاریخ بتاتی ہے کہ مذہب ان کا عیسائیت تھا۔ کہا جاتا ہے کہ انھوں نے حکیم جالینوس اور بقراط جیسے ماہر اور مشہور یونانی حکما کی کتب کو عربی میں‌ ڈھالا جو ایک بڑا اور اہم کام تھا۔

    فارسی، یونانی، سریانی اور عربی زبانوں کے ماہر اور اس زمانے کی قابل شخصیات نے منصور کے بعد ہارون الرشید اور مامون کے دور میں بھی عربی زبان میں کتب کے تراجم کا سلسلہ جاری رکھا۔ اس دور کے اہم لکھاری اور مترجمین میں حنین ابن اسحاق، قسطا بن لوقا، عیسی بن یحییٰ، عبدالرحمن بن علی اور ثابت بن قرہ و دیگر کے نام لیے جاتے ہیں جنھیں خلیفہ کی جانب سے مشاہرہ اور انعام دیے جاتے تھے اور ان کی بڑی تکریم کی جاتی تھی۔ بغداد میں‌ دارالترجمہ اور کتب خانے کا قیام عمل میں‌ لایا گیا اور اس کے تحت خوب علمی اور ادبی کام ہوا۔

    تراجم کا یہ کام مامون کے بعد بھی جاری رہا اور علاج معالجے اور صحت سے متعلق کئی اہم کتب کا ترجمہ عربی میں کیا گیا اور ڈیڑھ سوسال تک یہ سلسلہ جاری رہا جس نے اسلامی دنیا کو طب و صحت سے متعلق علم سے مالا مال کیا اور مسلمان اطبا نے ان سے راہ نمائی اور استفادہ کرنے کے ساتھ اپنے طبی تجربات، مشاہدات میں‌ غور و فکر کرتے ہوئے اس شعبے میں اپنی مہارت اور استعداد میں‌ اضافہ کیا۔

    (دنیائے طب، یونانی تعلیمی مراکز اور تاریخ کے صفحات سے استفادہ)

  • وہ تمھاری وفادار نہیں ہے!

    وہ تمھاری وفادار نہیں ہے!

    ایک صراف نے عباسی فرماں روا منصور کو عرضی بھیجی کہ میں غریب بندہ ہوں، تھوڑی سی پونجی ایک صندوقچے میں رکھی تھی، وہ چوری ہوگئی۔ اب کوڑی کوڑی کو محتاج ہوں۔

    منصور نے صراف کو خلوت میں طلب کر کے دریافت کیا کہ تمھارے گھر میں کون کون رہتا ہے؟

    جواب ملا کہ بیوی کے سوا کوئی نہیں ہے۔

    بادشاہ نے پوچھا، بیوی جوان ہے یا معمر؟

    صراف نے جواب دیا، وہ جوان ہے۔

    خلیفہ منصور نے صراف کو جانے کی اجازت دے دی اور چلتے وقت اسے ایک نایاب عطر کی شیشی عطا کی۔ یہ عطر خلیفہ کے سوا بغداد بھر میں کسی کے پاس نہیں تھا۔

    خلیفہ کے حکم سے شہر کی فصیل کے پہرے داروں کو وہی عطر سنگھوا دیا گیا کہ ایسی خوش بُو کسی شخص کے پاس سے آئے تو اسے گرفتار کر کے پیش کیا جائے۔

    چند روز بعد سپاہی ایک نوجوان کو پکڑ کر لائے۔ اس کے پاس سے مخصوص عطر کی خوش بُو آرہی تھی۔ خلیفہ منصور نے اس سے دریافت کیا کہ یہ عطر تجھے کہاں سے دست یاب ہوا؟ نوجوان خاموش رہا۔

    خلیفہ نے کہا، جان کی امان چاہتا ہے تو وہ صندوقچہ واپس کر دے جو تجھے صراف کی بیوی نے دیا ہے؟ اس شخص نے چپ چاپ صندوقچہ لاکر پیش کر دیا اور معافی چاہی۔

    بادشاہ نے صراف کو بلا کر صندوقچہ دیا اور سمجھایا کہ بیوی کو طلاق دے دو، وہ تمھاری وفادار نہیں ہے۔

    سید مصطفٰے علی بریلوی