Tag: عبدالحلیم شرر

  • عبد الحلیم شررؔ: ایک بلند پایہ ادیب کا تذکرہ

    عبد الحلیم شررؔ: ایک بلند پایہ ادیب کا تذکرہ

    اردو نثر نگاروں میں عبد الحلیم شررؔ بیسوی صدی کا ایک اہم اور قابلِ‌ ذکر نام ہے۔ وہ بلند پایہ ادیب، ناول نگار، ڈرامہ نویس اور بہترین مترجم تھے۔ عبدالحلیم شرر کو لکھنؤ کی سماجی و تہذیبی زندگی کا رمز شناس بھی کہا جاتا ہے اور اس کا ثبوت ان کی وہ تصانیف ہیں‌ جو لکھنؤ سے متعلق ہیں۔ انھیں منظوم ڈرامہ نگاری کے لیے بھی پہچانا جاتا ہے۔

    عبدالحلیم شرر نے اردو شعر و ادب میں متعدد نئی اور کارآمد ہیئتوں کو یا تو روشناس کروایا یا انھیں اپنی تخلیقات میں اعتبار و امتیاز بخشا۔ اپنے ادبی سفر کے آغاز میں انھوں نے دو ڈرامے ’’میوۂ تلخ‘‘ (1889) اور ’’شہیدِ وفا‘‘(1890) لکھ کر قارئین اور ناقدین کو اپنی جانب متوجہ کرلیا۔ ایسے منظوم ڈرامے اس سے قبل نہیں لکھے گئے تھے۔ شرر نے اپنے ہی ناولوں ’’فتح اندلس‘‘ اور ’’رومتہُ الکبریٰ‘‘ پر بھی دو مختصر منظوم ڈرامے لکھے۔

    شرر کے بارے میں‌ کہا جاتا ہے کہ وہ بسیار نویس تھے۔ انھوں‌ نے سماجی اور تاریخی ناول، انشائیے، سوانح و تاریخ، سفر نامہ، ڈرامہ اور شاعری کے ساتھ تراجم میں اپنا کمال دکھایا۔ شرر کو ان کے تاریخی ناولوں اور علمی و ادبی موضوعات پر ان کے مضامین کی وجہ سے بہت سراہا گیا۔

    عبدالحلیم شررؔ 1860ء میں لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام تفضّل حسین تھا اور پیشہ کے اعتبار سے وہ حکیم تھے۔ شررؔ لکھنؤ میں پڑھائی کی طرف متوجہ نہیں ہوئے تو انھیں مٹیا برج بھیج دیا گیا جہاں‌ عربی، فارسی اور طب کی تعلیم حاصل کی، لیکن وہاں‌ امرا کی اولادوں سے دوستانہ بڑھا لیا اور بگڑنے لگے تو والد نے انھیں لکھنؤ واپس بھیج دیا اور بعد میں دہلی جاکر انگریزی بھی پڑھی اور 1880ء میں دہلی سے زاہدِ خشک بن کر لوٹے۔ لکھنؤ میں وہ منشی نول کشور کے ’’اودھ اخبار‘‘ کے صحافتی عملہ میں شامل ہو گئے۔ یہاں انھوں نے بے شمار مضامین لکھے۔ چند اور ملازمتیں اور مختلف شہروں میں‌ قیام کے بعد لکھنؤ لوٹے اور اپنا رسالہ ’’دل گداز’’ جاری کیا جس میں ان کا پہلا تاریخی ناول ’’ملک العزیز ورجنا‘‘ قسط وار شائع ہوا۔ اس کے بعد انھوں نے ’’حسن انجلینا‘‘ اور ’’منصور موہنا‘‘ شائع کیے جو بہت مقبول ہوئے۔ تاہم ان کا معرکہ آرا ناول ’’فردوسِ بریں‘‘ تھا۔

    ’’دل گداز‘‘ میں شررؔ نے پہلی بار آزاد نظم کے نمونے بھی پیش کیے اور اردو داں طبقے کو انگریزی شعر و ادب کے نئے رجحانات سے متعارف کرایا۔ شرر یکم دسمبر 1926ء کو وفات پاگئے تھے۔

  • فارسی دانی اور اگلی تاریخ کا ایک کرم خوردہ ورق

    فارسی دانی اور اگلی تاریخ کا ایک کرم خوردہ ورق

    لکھنؤ میں فارسی کا مذاق جس قدر بڑھا ہوا تھا، اُس کا اندازہ لکھنؤ کی اردو زبان سے ہو سکتا ہے۔ جہلا اور عورتوں تک کی زبان پر فارسی کی ترکیبیں، بندشیں اور اضافتیں موجود ہیں۔

    مسلمانوں کی طرح ہندو بھی فارسی میں نمود حاصل کررہے تھے۔ اگرچہ یہ امر دولتِ مغلیہ کے ابتدائی عہد سے ظاہر ہونے لگا تھا۔ اُس وقت بھی بعض نام ور و مستند فارسی دان اور فارسی گو موجود تھے مگر اودھ میں یہ مذاق انتہائی کمال کو پہونچ گیا۔ چنانچہ جیسے باکمال فارسی دان ہندو سوادِ لکھنؤ میں موجود تھے، کہیں نہ تھے۔ کایستھوں اور کشمیری پنڈتوں نے تعلیمِ فارسی کو اپنے لیے لازمی قرار دے لیا تھا۔ اور یہاں تک ترقی کی کہ کشمیری پنڈتوں کی تو مادری زبان ہی اردو ہو گئی۔ اور اُن کی اور مسلمانوں کی فارسی دانی میں بہت کم فرق تھا۔ کایستھ چونکہ یہیں کے متوطن تھے اس لیے اُن کی زبان بھاشا رہی۔ مگر تعلیم فارسی کی کایستھوں کے رگ و پے میں اس قدر سرایت کر گئی تھی کہ نہایت ہی بے اعتدالی اور بے ربطی کے ساتھ محاوراتِ فارسی کو استعمال کرنے لگے۔ جو بات کہیں کے ہندوؤں میں نہ تھی۔ اُن دنوں لوگ کایستھوں کی زبان کا مضحکہ اڑایا کرتے تھے۔ مگر سچ یہ ہے کہ بجائے مضحکہ اڑانے کے اُن کی قدر کرنی چاہیے تھی۔ اس لیے کہ اُن کی زبان اُن کی علمی ترقی کی دلیل تھی۔ جس طرح آج کل انگریزی لفظوں کے جا و بے جا استعمال کو انگریزی دان اپنی علمی ترقی کا ثبوت خیال کرتے اور نہایت بدتمیزی سے انگریزی الفاظ اپنی زبان میں بھرتے چلے جاتے ہیں۔

    لکھنؤ میں اُن دنوں فارسی کے صدہا نثّار اور شاعر موجود تھے۔ اور اردو کی طرح برابر فارسی مشاعروں کا بھی سلسلہ جاری تھا۔ فارسی شرفا ہی نہیں عوام النّاس تک کا شعار و وثار بن گئی تھی۔ اور اب باوجودیکہ فارسی درباری زبان نہیں باقی رہی اور حکومت کی مسند پر اردو زبان قابض و متصرف ہو گئی ہے مگر مہذب سوسائٹی پر آج تک فارسی کا سکہ جما ہوا ہے۔ اور عام خیال یہی ہے کہ فارسی مدارس و مکاتب سے نکل گئی اور تحصیلِ معاش کے لیے اس کی ضرورت نہیں باقی رہی مگر انسان بغیر فارسی پڑھے مہذب سوسائٹی میں بیٹھنے کے قابل نہیں ہو سکتا۔ اور نہ صحیح معنوں میں انسانِ کامل بن سکتا ہے۔

    انگلستان میں فرانس کی زبان کبھی درباری زبان تھی۔ اب اگرچہ مدت ہوئی کہ وہ دربار سے نکال دی گئی مگر معاشرت اور اخلاقی ترقی آج بھی وہاں بغیر فرانسیسی زبان کے سیکھے نہیں حاصل ہو سکتی۔ کھانے پینے، اٹھنے بیٹھنے، پہننے اوڑھنے، اور ہنسنے بولنے، غرض زندگی کے تمام اسلوبوں پر فرانسیسی کی حکومت اب تک ویسی ہی موجود ہے۔ اور لڑکیاں بغیر فرنچ زبان حاصل کیے شائستہ بیبیاں نہیں بن سکتیں۔ یہی حال لکھنؤ کا ہے کہ فارسی دربار سے گئی، خط و کتابت سے گئی، مگر معاشرت کے تمام شعبوں پر اب تک حکومت کر رہی ہے۔ اور بغیر فارسی کی تعلیم پائے نہ ہمارا مذاق درست ہو سکتا ہے اور نہ ہمیں بات کرنے کا سلیقہ آ سکتا ہے۔

    مٹیا برج (کلکتہ) میں آخری محروم القسمت تاجدارِ اودھ کے ساتھ جو چند لوگ وہاں کے سکونت پذیر ہو گئے تھے اُن میں کوئی پڑھا لکھا نہ تھا جو فارسی نہ جانتا ہو۔ دفتر کی زبان فارسی تھی، اور ہندو مسلمانوں میں صدہا فارسی گو شاعر تھے۔ عورتیں تک فارسی میں شعر کہتی تھیں۔ اور بچّہ بچّہ فارسی زبان میں اپنا مطلب ادا کر لیتا تھا۔

    موجودہ لکھنؤ میں اگرچہ فارسی کی تعلیم بہت کم ہو گئی ہے اور ہندوؤں نے تو اُسے اس قدر چھوڑ دیا کہ وہ کایستھوں کی زبان ہی خواب و خیال ہو گئی جس کا زبان دانی کی صحبتوں میں مضحکہ اڑایا جاتا تھا۔ اور بھانڈ تک اُسی فارسی آمیز زبان کی نقلیں کرتے تھے۔ مگر پھر بھی پرانے بزرگوں اور خصوصاً مسلمانوں میں بہت کچھ فارسی کا مذاق موجود ہے۔ اس لیے کہ اُن کی اردو دانی ہی ایک حد تک اُن کے لیے فارسی دانی کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ مسلمانوں میں اب تک خواجہ عزیز الدین صاحب کا ایسا محققِ فارسی اگلی بزمِ سخن کے یاد دلانے کو پڑا ہوا ہے جو اپنے کمال کے لحاظ سے سارے ہندوستان میں کمیاب ہیں۔ اور پرانے سن رسیدہ ہندوؤں میں بھی متعدد فارسی کے اسکالر ملیں گے جن کا ایک نمونہ سندیلہ کے راجہ درگا پرشاد صاحب ہیں۔ جن کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ زمانہ بدل گیا۔ زمین و آسمان بدل گئے۔ آب و ہوا بدل گئی۔ مگر وہ آج تک وہی ہیں۔ فارسی دانی کی داد دینے اور لینے کو موجود ہیں۔ اور اگلی تاریخ کے ایک کرم خوردہ ورق کی طرح چومنے چاٹنے اور آنکھوں سے لگانے کے قابل ہیں۔”

    (از قلم عبدالحلیم شرر لکھنوی)

  • قتیل: لکھنؤ کا نومسلم فارسی دان

    قتیل: لکھنؤ کا نومسلم فارسی دان

    "باوجود اس کے کہ علومِ عربیہ کے بڑے بڑے علمائے گراں پایہ لکھنؤ کی خاک سے پیدا ہوئے، اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ عربی کی تعلیم مقتدایانِ امت اور پیشوانِ ملّت تک محدود تھی۔ ہندوستان میں درباری زبان فارسی تھی۔”

    ملازمت حاصل کرنے اور مہذب و معزز صحبتوں میں چمکنے کے لیے یہاں فارسی کی تعلیم بخوبی کافی خیال کی جاتی تھی۔ اودھ ہی نہیں سارے ہندوستان میں ادبی و اخلاقی ترقی کا ذریعہ صرف فارسی قرار پا گئی تھی۔ مسلمان تو مسلمان اعلیٰ طبقے کے ہندوؤں کا عام رجحان فارسی ادب و انشا کی طرف تھا۔ یہاں تک کہ اعلیٰ درجے کی انشائیں ہندو مصنفوں ہی کے قلم سے مرتب و مدون ہوئی تھیں۔ ٹیک چند بہار نے بہارِ عجم کی سی لاجواب کتاب تصنیف کر دی جو مصطلحاتِ زبانِ فارسی کا ایک بے عدیل و نظیر ذخیرہ ہے۔ اور جس میں ہر محاورے کی سند میں اہلِ زبان کے بے شمار اشعار پیش کر دیے گئے ہیں۔ لکھنؤ کے ابتدائی عروج میں ملا فائق کا اور پھر مرزا قتیل کا نام مشہور ہوا جو ایک نومسلم فارسی دان تھے۔ وہ خود تو مذاقاً کہا کرتے کہ ‘بوئے کباب مرا مسلمان کرد’ مگر سچ یہ ہے کہ فارسی کی تعلیم، اُس کے شوق، اور کمالِ فارسی دانی کی آرزو نے اُنہیں مسلمان ہونے پر مجبور کر دیا۔ انہوں نے محض اسی شوق میں ایران کا سفر کیا۔ برسوں شیراز و اصفہان اور طہران و آذربائجان کی خاک چھانی۔ اور ادبِ فارسی کے اس اعلیٰ کمال کو پہونچ گئے کہ خود اہلِ زبان بھی ایسے باکمال زبان دان پر حسد کریں تو تعجب کی بات نہیں ہے۔

    مرزا غالب نے جا بجا مرزا قتیل پر حملے کیے ہیں۔ بے شک مرزا غالب کا مذاقِ فارسی نہایت اعلیٰ درجے کا تھا۔ وہ اس اصول پر بار بار زور دیتے تھے کہ سوا اہلِ زبان کے کسی کا کلام سند نہیں ہو سکتا۔ مگر اُن کے زمانے میں چونکہ اودھ سے بنگالے تک لوگ قتیل کے پیرو تھے اور بات بات پر قتیل کا نام لیا جاتا تھا اس لیے مرزا غالب کو اکثر طیش آ گیا۔ اور جب پیروانِ قتیل نے اُن کی خبر لینا شروع کی تو کہنے لگے:
    فیضے از صحبتِ قتیلم نیست
    رشک بر شہرتِ قتیلم نیست

    مگر اس سے یہ نہیں نکلتا کہ قتیل نے فارسی دانی میں جو کوششیں کی تھیں اور اس میں واقفیت و کمال حاصل کرنے میں جو زندگی صرف کی تھی وہ بالکل بیکار گئی۔ اس بات کے ماننے میں کسی کو عذر نہیں ہو سکتا کہ قتیل کا کوئی دعویٰ جب تک وہ اہلِ زبان کی سند نہ پیش کریں قابلِ تسلیم نہیں ہے۔ اور نہ خود قتیل کے ذہن میں کبھی یہ خیال گزرا ہو گا۔ لیکن اس کی خصوصیت قتیل ہی کے ساتھ نہیں۔ ہندوستان کا کوئی شخص بجائے خود سند نہیں ہو سکتا۔ خود مرزا نوشہ غالب بھی کوئی فارسی کا محاورہ بغیر اہلِ عجم کے ثبوت پیش کیے نہیں استعمال کر سکتے۔ ہندوستانی فارسی دانوں کا اگر کچھ وقار قائم ہو سکتا ہے تو صرف اس بنا پر کہ کلامِ فارسی میں اُن کی نظر وسیع ہے اور ہر ہر لفظ کے صحیح محلِ استعمال سے واقف ہیں۔ اور اس حیثیت سے سچ پوچھیے تو غالب کے مقابلے میں قتیل کا پایہ بہت بلند تھا۔ غالب زندگی بھر ہندوستان کی خاک چھانتے رہے۔ اور اس کے ساتھ طلبِ معاش میں سرگرداں رہے۔ قتیل کو اطمینان کا زمانہ ملا تھا۔ اور مدتوں خاکِ پاکِ ایران میں رہ کے گاؤں گاؤں کی ٹھوکریں کھاتے پھرے تھے۔

    بہر تقدیر لکھنؤ کی فارسی دانی کا آغاز قتیل سے ہوا۔ اور اُن سے کچھ پہلے ملا فائق نے جن کا خاندان آگرے سے آ کے مضافاتِ لکھنؤ میں بس گیا تھا ادب و انشائے فارسی اور فارسی نظم و نثر میں اعلیٰ درجے کی بے نظیر کتابیں تصنیف کیں۔ فارسی گو اور فارسی دان ہندوستان میں ان سے پہلے بھی گزرے تھے۔ مگر فارسی دانی کے ساتھ زبانِ فرس کے اصول و ضوابط اور اُس کی صرف و نحو کے مدون کرنے کا شوق پہلے پہل لکھنؤ ہی میں شروع ہوا۔ اور وہ اُنہیں کے قلم سے ظاہر ہوا۔ اُن کی کتابیں اگر سچ پوچھیے تو بے مثال و لاجواب ہیں۔

    اس کے بعد فارسی یہاں کی عام تعلیم میں داخل رہی۔ اور نصابِ فارسی ایسا بلیغ و دقیق رکھا گیا جو سچ یہ ہے کہ خود ایران کے نصاب سے زیادہ سخت تھا۔ ایران میں جیسا کہ ہر ملک کے لوگوں کا معمول ہے سیدھی سادی فصیح زبان جس میں صفائی کے ساتھ خیال آفرینی کی جائے پسند کی جاتی ہے۔ اور اُسی قسم کا نصاب بھی ہے۔ ہندوستان میں عرفی و فیضی اور ظہوری و نعمت خان عالی کے ایسے نازک خیال شعرا کا کلام داخلِ درس کیا گیا۔ ملا طغرا اور مصنفِ پنج رقعہ کے ایسے دقت پسندوں کا کلام پڑھا اور پڑھایا جانے لگا۔ جس سے دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ ہندوستان کی زبان دانی اس آخر عہد میں خود ایران سے بڑھ گئی تھی۔ اور یہیں کے لوگوں نے فارسی کی تمام درسی کتابوں پر اعلیٰ درجے کی شرحیں لکھ ڈالیں تھیں۔ اور اُسی کا یہ حیرت خیز نتیجہ ہے کہ جب کہ دنیا کی تمام زبانوں کے شعرا اہلِ زبان ہی کے حلقے میں محدود رہتے ہیں، اور غیر اہلِ زبان میں اگر دو چار شاعر پیدا بھی ہو جاتے ہیں تو اہلِ زبان میں اُن کا اعتبار نہیں ہوتا۔ فارسی کے شعرا ایران سے زیادہ نہیں تو ایران کے برابر ہی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔

    خصوصاً گذشتہ صدی میں جب کہ ترقی و تعلیم کی دنیا میں لکھنؤ کا ڈنکا بج رہا تھا یہاں کا بچّہ بچّہ فارسی گو تھا۔ اور بھانڈ تک فارسی کی نقلیں کرتے تھے۔ قصباتِ اودھ کے تمام شرفا کا مہذب مشغلہ اور ذریعۂ معاش فارسی پڑھانا تھا۔ اور ایسے اعلیٰ درجے کے دیہاتی فارسی مدرس لکھنؤ کی گلیوں میں مارے مارے پھرتے تھے کہ اُن کی زبان دانی پر خود اہلِ عجم بھی عش عش کر جاتے۔ اُن کا لب و لہجہ اہلِ زبان کا سا نہ ہو مگر فارسی کے محاوروں اور بندشوں اور الفاظ کی تحقیق و تدقیق میں ان کو وہ درجہ حاصل تھا کہ معمولی اہلِ زبان کو بھی خاطر میں نہ لاتے تھے۔

    (عبدالحلیم شرر لکھنوی کی کتاب ‘گذشتہ لکھنؤ سے مقتبس)

  • یومِ وفات:‌ فردوسِ بریں کو عبدُ الحلیم شررؔ کی معرکہ آرا تصنیف کہا جاتا ہے

    یومِ وفات:‌ فردوسِ بریں کو عبدُ الحلیم شررؔ کی معرکہ آرا تصنیف کہا جاتا ہے

    بیسوی صدی کے اردو نثر نگاروں میں عبدُ الحلیم شررؔ ایک اہم اور قابلِ‌ ذکر علمی شخصیت ہیں۔ انھیں ایک بلند پایہ ادیب، مترجم، ناول نگار اور ڈرامہ نویس کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے۔ شرر کو لکھنؤ کی سماجی و تہذیبی زندگی کا رمز شناس بھی کہا جاتا ہے۔ اردو زبان و ادب میں انھیں منظوم ڈرامہ نگاری کے سبب بھی یاد کیا جاتا ہے۔

    عبدالحلیم شرر نے اردو شعر و ادب میں متعدد نئی اور کارآمد ہیئتوں کو یا تو روشناس کروایا یا انھیں اپنی تخلیقات میں اعتبار و امتیاز بخشا۔ اپنے ادبی سفر کے آغاز میں انھوں نے دو ڈرامے ’’میوۂ تلخ‘‘ (1889) اور ’’شہیدِ وفا‘‘(1890) لکھ کر قارئین اور ناقدین کو اپنی جانب متوجہ کرلیا۔ ایسے منظوم ڈرامے اس سے قبل نہیں لکھے گئے تھے۔ شرر نے اپنے ہی ناولوں ’’فتح اندلس‘‘ اور ’’رومتہُ الکبریٰ‘‘ پر بھی دو مختصر منظوم ڈرامے لکھے۔

    شرر بسیار نویس ادیب تھے۔ معاشرتی اور تاریخی ناول، انشائیے، سوانح و تاریخ، ڈرامہ اور شاعری کے ساتھ ترجمہ نگاری میں انھوں نے اپنا کمال دکھایا۔ تاہم جو مقبولیت انھیں اپنے تاریخی ناولوں اور مضامین کے سبب حاصل ہوئی، وہ بے مثال ہے۔

    عبدالحلیم شررؔ 1860ء میں لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام تفضّل حسین تھا اور وہ حکیم تھے۔ شررؔ لکھنؤ میں پڑھائی کی طرف متوجہ نہیں ہوئے تو انھیں مٹیا برج بھیج دیا گیا جہاں‌ عربی، فارسی اور طب کی تعلیم حاصل کی، لیکن وہاں‌ امرا کی اولادوں سے دوستانہ بڑھا لیا اور بگڑنے لگے تو والد نے انھیں لکھنؤ واپس بھیج دیا اور بعد میں دہلی جاکر انگریزی بھی پڑھی اور 1880ء میں دہلی سے زاہدِ خشک بن کر لوٹے۔ لکھنؤ میں وہ منشی نول کشور کے ’’اودھ اخبار‘‘ کے صحافتی عملہ میں شامل ہو گئے۔ یہاں انھوں نے بے شمار مضامین لکھے۔ چند اور ملازمتیں اور مختلف شہروں میں‌ قیام کے بعد لکھنؤ لوٹے اور اپنا رسالہ ’’دل گداز’’ جاری کیا جس میں ان کا پہلا تاریخی ناول ’’ملک العزیز ورجنا‘‘ قسط وار شائع ہوا۔ اس کے بعد انھوں نے ’’حسن انجلینا‘‘ اور ’’منصور موہنا‘‘ شائع کیے جو بہت مقبول ہوئے۔ تاہم ان کا معرکہ آرا ناول ’’فردوسِ بریں‘‘ تھا۔

    ’’دل گداز‘‘ میں شررؔ نے پہلی بار آزاد نظم کے نمونے بھی پیش کیے اور اردو داں طبقے کو انگریزی شعر و ادب کے نئے رجحانات سے متعارف کرایا۔ انھوں نے یکم دسمبر 1926ء کو وفات پائی۔

  • درندوں اور چوپایوں کو لڑانے کی روایت اور لکھنؤ

    درندوں اور چوپایوں کو لڑانے کی روایت اور لکھنؤ

    جانوروں اور چوپایوں کی لڑائی کی روایت بہت قدیم ہے۔ رومیوں میں یہ ذوق پایا جاتا تھا۔

    اہلِ یورپ کے زیرِ اثر ہندوستان میں اس کا آغاز لکھنؤ سے ہوا۔ لکھنؤ نے اس سلسلے کو استحکام بخشا اور کچھ ایسی نئی چیزوں کا اضافہ کیا جو لکھنؤ ہی کے ساتھ خاص ہے۔ درندوں اور چوپایوں میں شیر، چیتے، تیندوے، گینڈے، ہاتھی، اونٹ، گھوڑے، مینڈھے اور بارہ سنگھے جیسے جانوروں کو لکھنؤ دربار میں کبھی تو باہم لڑایا جاتا تھا اور کبھی مخالف جنس سے۔

    مولانا عبد الحلیم شرر لکھتے ہیں: ’’درندوں کے لڑانے کا مذاق قدیم ہندوستان میں کہیں یا کبھی نہیں سنا گیا تھا۔ یہ اصلی مذاق پرانے رومیوں کا تھا جہاں انسان اور درندے کبھی باہم اور کبھی ایک دوسرے سے لڑائے جاتے تھے۔ مسیحیت کے عروج پاتے ہی وہاں بھی یہ مذاق چھوٹ گیا تھا مگر اب تک اسپین میں اور بعض دیگر ممالک ِ یورپ میں وحشی سانڈ باہم اور کبھی کبھی انسانوں سے لڑائے جاتے ہیں۔ لکھنؤ میں غازی الدین حیدر بادشاہ کو غالباً ان کے یورپین دوستوں نے درندوں کی لڑائی دیکھنے کا شوق دلایا، بادشاہ فوراً آمادہ ہو گئے۔‘‘

    یہ سلسلہ غازی الدّین حیدر کے عہد (1814-1827) تک بڑی شان و شوکت سے جاری رہا۔ بادشاہ نے اس خوب صورت مشغلے کے لیے موتی محل کے پاس دو نئی کوٹھیاں تعمیر کرائیں، ایک مبارک منزل، دوسری شاہ منزل۔ ٹھیک اسی کے بالمقابل دریا کے دوسرے کنارے پر ایک وسیع و عریض سبزہ زار خطے کو منظم کیا گیا تھا، اس میں جانوروں کے الگ الگ کٹہرے تیار کرائے گئے تھے اور اسی میں جانوروں کے لڑنے کا میدان بھی ہموار کیا گیا تھا۔ شاہ منزل سے بادشاہ جانوروں کی خوں ریز لڑائیوں کو دیکھ کر لطف اندوز ہوتا تھا۔

    آج کے تناظر میں میدان اور کوٹھیوں کے مجموعے کو اس زمانے کا اسٹیڈیم کہہ سکتے ہیں اور ایک طرح سے اس میدان کو چڑیا گھر بھی سمجھا جا سکتا ہے۔ آج یہی میدان نشاط گنج کہلاتا ہے۔ (مقتبس: قدیم لکھنؤ کی آخری بہار)

    جانوروں اور چوپایوں کی لڑائیاں تین طرح سے ہوتی تھیں۔ اوّل تو ہم جنس جانوروں کو باہم لڑایا جاتا تھا اور کبھی غیر جنس کو ایک دوسرے سے لڑایا جاتا اور کبھی درندوں ہی میں شیر کو تیندوے اور چیتے سے بھی لڑا دیا جاتا۔ اسی طرح کبھی ہاتھی کو ہاتھی سے، مینڈھے کو مینڈھے اور کبھی گھوڑے کو بھنسے اور ہاتھی کو گینڈے سے بھی بھڑا دیا جاتا۔

    اس سلسلے میں سب سے زیادہ آزمائشوں سے بے چارے شیر کو گزرنا پڑتا، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاہانِ اودھ نے اپنی ذمہ داری جنگل کے بادشاہ کے کاندھے ڈال دی تھی۔ اس لیے شیر کو کبھی شیر سے، کبھی چیتے، تیندوے، ہاتھی اور کبھی گینڈے اور گھوڑے سے لڑایا جاتا، لیکن لطف کی بات یہ ہے کہ وہ اوّل الذّکر چاروں سے شکست کھانے کے ساتھ ساتھ گھوڑے سے بھی ہار جاتا۔

    جنگل کے اس بادشاہ کی شکست خوردگی کا عالم بھی وہی تھا جو لکھنؤ کے شاہوں کا تھا۔

    (محمد اظہار انصاری کے تحقیقی مضمون سے چند پارے)

  • سوئٹزر لینڈ خوش سواد، روح افزا اور فرحت بخش ملک

    سوئٹزر لینڈ خوش سواد، روح افزا اور فرحت بخش ملک

    یورپ میں سوئٹزر لینڈ کو قریب قریب وہی حیثیت حاصل ہے جو ایشیا میں ہمالیہ اور کاکیزس ماؤنٹین (کوہ قاف) کی وادیوں کو، بلکہ بعض انگریزی سیّاح تو دعویٰ کرتے ہیں کہ سوئٹزر لینڈ کی نزہت و شادابی اور وہاں کی سینریوں کی خوش نمائی و نظر فریبی دنیا بھر کے ممالک سے بڑھی ہوئی ہے۔

    خیر اس کو تو ہم اسی خود پسندی کے اصول پر مبنی سمجھتے ہیں جس بنا پر کہ بعض وطن دوست انگریز لندن کے گرجے سینٹ پال کو روم کے سینٹ پیٹرس اور مِلا ن کے بڑے کنیسہ پر ترجیح دینے لگے ہیں، لیکن اس میں شک نہیں کہ سوئٹزر لینڈ کے سواد میں خدا نے بہت کچھ دل فریبیاں ودیعت کر رکھی ہیں۔

    کوہسار آلپس کا سلسلہ ملک کو ایک طرف سے دوسری طرف تک قطع کرتا چلا گیا ہے اور اسی کوہستان کے دامنوں اور اونچے اونچے سر بہ فلک قلوں کی گھاٹیوں میں یہ چھوٹا سا ملک آباد ہے۔

    تاہم کوہ قاف کی گھاٹیوں اور سرکیشیا کی سرزمین کی طرح یہاں یہ بات کہاں کہ نباتی پھولوں اور سبز پوشانِ چمن کی طرح انسانی چہرے بھی ہر طرف دل فریبیاں کر رہے ہوں۔ وہ پری جمال اور دل رُبا چہرے جو صد ہا سال سے ایران اور روم کی حرم سراؤں کی رونق رہا کیے ہیں اور وہ نازک اندام اور آفت زمانہ لڑکیاں جو کوہِ البرز وغیرہ کی گھاٹیوں کے لطیف آبشاروں میں ہاتھ منہ دھوتی اور مویشیوں کے گلے چراتی نظر آتی ہیں، ان کا سوئٹزر لینڈ کی بھدّی مگر توانا و تن درست عورتوں میں کہیں پتہ نہیں۔ لیکن اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ آلپس کی گھاٹیوں میں چاہے وہ دل فریب حسن و جمال نہ ہو، مگر ایسے ایسے نظر فریب منظر اور اس طرح کی جاں بخش سینریاں آنکھوں کے سامنے سے گزرتی ہیں کہ ہر مقام پر یہی جی چاہتا ہے کہ دین و دنیا چھوڑ کے یہیں بیٹھ رہیے۔

    الغرض یہ اور ایسا روح افزا اور فرحت بخش ملک ہے جہاں ہم مِلان سے ریل پر سوار ہو کے اور اٹلی کی سرحد سے نکل کے پہنچے۔ مِلان سے 4 بجے کے قریب تیسرے پہر کو سوار ہوئے تھے۔ رات ہونے تک بلکہ اس وقت تک جب کہ ہم نے لیٹ کے سونے کا تہیہ کیا، وہی اٹلی کے خوش نما، تر و تازہ اور انگور کی بیلوں سے گھرے ہوئے کھیت نظر کے سامنے تھے، جن کے دیکھنے سے آنکھیں سیر ہو گئی تھیں اور جن میں اب کوئی جدّت نہیں نظر آتی تھی۔

    صبح کو تڑکے ہی اٹھائے گئے، اس لیے کہ ٹرین چیاسو میں کھڑی ہوئی تھی جو جنوب کی طرف سوئٹزر لینڈ کا سرحدی اسٹیشن ہے اور جہاں مسافروں کے اسباب کی تلاشی لی جاتی ہے۔ ہم سب اپنا اسباب لے لے کے گاڑی سے اترے اور قیدیوں کی طرح ایک بڑے کمرے میں بند کر دیے گئے۔ چنگی وصول کرنے والوں نے صندوقوں کو کھول کھول کے دیکھا اور پاس کیا۔ اس سخت امتحان سے نجات حاصل کرتے ہی ہم ایک دوسرے دروازے سے پھر پلیٹ فارم پر آئے اور گاڑی میں اسباب رکھا۔

    یہاں کی زندگی بخش آب و ہوا نے اتنا اثر یہیں ظاہر کر دیا کہ صبح کو ہم خلافِ معمول بہت بھوکے اٹھے، کھانا ملنے میں ابھی دیر تھی اور انتظار کی طاقت نہ تھی۔ اسٹیشن پر نہایت عمدہ تر و تازہ اور شاداب انگور بکنے کو آئے جو بہت سستے تھے، ہم نے لے کے خوب سیر ہو کے کھائے اور گاڑی آگے کو روانہ ہوئی۔
    تھوڑی دیر تک تو وہی اٹلی کی سواد نظر آتی رہی، مگر دو چار گھنٹے کے بعد ہمیں کوہستان آلپس کے سلسلے کی چوٹیاں نظر آنے لگیں اور زیادہ انتظار نہیں کرنے پائے تھے کہ انھیں پہاڑیوں کے اندر ہماری ٹرین گھسنے لگی اور وہ قدرتی مناظر ہماری نظر کے سامنے تھے، جن میں انسانی کاری گری کا ہاتھ بالکل نہیں لگا تھا۔

    ریل سر سبز اور تر و تازہ پہاڑیوں کے اندر چلی جاتی ہے، کبھی بلندی پر چڑھتی ہے اور کبھی نشیب میں اترتی ہے اور پھر اسی نشیب و فراز کے درمیان میں ایسے خوش سواد اور دل میں ولولہ پیدا کرنے والے مرغزار اور قدرت کے لگائے ہوئے چمن نظر کے سامنے آتے ہیں اور کچھ ایسی کشش سے اپنی طرف بلاتے ہیں کہ ہمارے ایک ہم سفر انگلش دوست بار بار چلّا کے کہہ اٹھتے ہیں: “مجھے نہ پکڑنا، میں یہیں کودا پڑتا ہوں”۔

    جا بجا بڑے بڑے آبشار پہاڑوں کی چوٹیوں سے بہتے اور لہراتے ہوئے نیچے آتے ہیں اور ان سبزہ زاروں میں پانی پہنچا رہے ہیں۔ اکثر جگہ جہاں کہیں کوئی مسطح تختہ ہے، وہاں ایک چھوٹا شہر آباد ہے جس کی سفید سفید اور برف میں دھوئی ہوئی پختہ عمارتیں کچھ ایسی دل فریبی کرتی ہیں کہ ان پر سرور بخش اور جاں افزا وادیوں اور مرغزاروں سے بھی زیادہ بہار نظر آتی ہے۔ ہر چہار طرف سَر بہ فلک پہاڑ جو قوی ہیکل دیوؤں کی طرح سر اٹھائے کھڑے ہیں، انھوں نے بھی انسان کے مانوس بنانے کے لیے برف کے سفید اور اجلے کپڑے پہن کے بہت کچھ مہذب صورت بنالی ہے۔

    (اردو کے نام ور ادیب، مشہور ناول نگار اور جیّد صحافی عبدالحلیم شرر کے سفر نامے سے انتخاب)

  • مغرب اور یورپ میں مقبول "فردوسِ بریں” کا تذکرہ

    مغرب اور یورپ میں مقبول "فردوسِ بریں” کا تذکرہ

    عبدالحلیم شرر کا مقبول ترین ناول "فردوسِ بریں” تاریخ کے ایک ایسے کردار کو ڈرامائی شکل میں ہمارے سامنے لاتا ہے جسے ہم حسن بن صباح کے نام سے جانتے ہیں۔

    شرر کو ان کی تاریخی داستان اور ‌ناولوں کی وجہ سے خوب شہرت اور مقبولیت ملی۔

    یہاں‌ہم ان کے جس ناول کا ذکر کررہے ہیں یہ 1899 میں شایع ہوا تھا اور حسن بن صباح وہ کردار ہے جس کے بارے میں‌ مشہور ہے کہ اس نے زمین پر ایک جنّت بنائی تھی اور بڑا دعویٰ کرتا تھا۔ اس ناول میں‌ شرر نے اسی جنت کا احوال ڈرامائی انداز میں پیش کیا ہے۔

    اس ناول کو جہاں‌ اردو قارئین نے بہت شوق سے پڑھا اور اس کا چرچا ہوا، وہیں‌ شرر کا نام مغرب اور یورپ تک بھی پہنچا۔

    اس ناول کو خاصی پذیرائی ملی اور انگریزی زبان میں ترجمہ کے علاوہ پچھلے چند برسوں‌ میں یورپ میں اس ناول کی کہانی کو تھیٹر پر پیش کیا گیا۔ اس ناول کے دو پارے آپ کی توجہ کے لیے پیش ہیں جو شرر کی خوب صورت نثر اور ان کے فنِ ناول نگاری کا نمونہ ہیں۔

    "حسین نے نہایت ہی جوش و حیرت سے دیکھا کہ انہی چمنوں میں جا بہ جا نہروں کے کنارے کنارے سونے چاندی کے تخت بچھے ہیں جن پر ریشمی پھول دار کپڑوں کا فرش ہے۔”

    "لوگ پُرتکلف اور طلائی گاؤ تکیوں سے پیٹھ لگائے دل فریب اور ہوش ربا کم سن لڑکیوں کو پہلو میں لیے بیٹھے ہیں اور جنت کی بے فکریوں سے لطف اٹھا رہے ہیں۔ خوب صورت، خوب صوت آفتِ روزگار لڑکے کہیں تو سامنے دست بستہ کھڑے ہیں اور کہیں نہایت ہی نزاکت اور دل فریب حرکتوں سے ساقی گری کرتے ہیں۔ شراب کے دور چل رہے ہیں اور گزک کے لیے سدھائے یا قدرت کے سکھائے ہوئے طیور پھل دار درختوں سے پھل توڑ توڑ کے لاتے ہیں اور ان کے سامنے رکھ کے اڑ جاتے ہیں۔”

    عبدالحلیم شرر نے مختلف اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کی اور جب تاریخی ناول نگاری کی طرف توجہ دی تو اپنے ناولوں کے ذریعے مغرب کی اسلام دشمنی اور بیزاری کا خوب جواب دیا۔ وہ اصلاحی اور بامقصد تخلیق کے قائل تھے۔

    فردوسِ بریں کو ایک تخلیقی کارنامہ کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ان کے متعدد دوسرے ناول اور ڈرامے بھی پسند کیے گئے۔