Tag: عبدالحلیم شرر کی تحریریں

  • نواب واجد علی شاہ اور مٹیا برج کا حیرت کدہ

    نواب واجد علی شاہ اور مٹیا برج کا حیرت کدہ

    نواب واجد علی شاہ کو ہندوستانی تہذیب و ثقافت کے سرپرست اور فنونِ لطیفہ کے ایک بڑے شیدائی کے طور پر یاد کیا جاتا ہے جو سلطنتِ اودھ کے آخری تاجدار تھے۔ اردو کے ممتاز ادیب اور ناول نگار عبدالحلیم شرر نے نواب صاحب کی زندگی اور ان کی شخصیت کے کئی دل چسپ پہلو وہ شوق بیان کیے ہیں جو ہمیں حیرت میں مبتلا کر دیتے ہیں۔

    نواب واجد علی شاہ کا ایک شوق مختلف چرند پرند اور درندے پالنا تھا۔ شرر لکھتے ہیں: "دنیا میں عمارت کے شوقین ہزاروں بادشاہ گزرے ہیں مگر غالباً اپنی ذات سے کسی تاجدار نے اتنی عمارتیں اور اتنے باغ نہ بنائے ہوں گے جتنے کہ واجد علی شاہ نے اپنی ناکام زندگی اور برائے نام شاہی کے مختصر زمانے میں بنائے۔”

    "عمارت کے علاوہ بادشاہ کو جانوروں کا شوق تھا اور اس شوق کو بھی انہوں نے اس درجہ تک پہنچا دیا کہ دنیا اس کی نظیر پیش کرنے سے عاجز ہے اور شاید کوئی شخصی کوشش آج تک اس کے نصف درجہ کو بھی نہ پہنچ سکی ہو گی۔ نور منزل کے سامنے خوشنما آہنی کٹہروں سے گھیر کے ایک وسیع رمنہ بنایا گیا تھا جس میں صدہا چیتل، ہرن اور وحشی چوپائے چھوٹے چھوٹے پھرتے تھے۔ اسی کے درمیان سنگ مرمر کا ایک پختہ تالاب تھا جو ہر وقت ملبب رہتا اور اس میں شتر مرغ، کشوری، فیل مرغ، سارس، قازیں، بگلے، قرقرے، ہنس، مور، چکور اور صدہا قسم کے طیور اور کچھوے چھوڑ دیے گئے تھے۔”

    "صفائی کا اس قدر اہتمام تھا کہ مجال کیا کہ جو کہیں بیٹ یا کسی جانور کا پَر بھی نظر آ جائے۔ ایک طرف تالاب کے کنارے کٹہروں میں شیر تھے اور اس رمنے کے پاس ہی سے لکڑی کی سلاخوں دار بڑے بڑے خانوں کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا تھا جس میں بیسوں طرح کے اور خدا جانے کہاں کہاں کے بندر لا کے جمع کیے گئے تھے جو عجیب عجیب حرکتیں کرتے اور انسان کو بغیر اپنا تماشہ دکھائے آگے نہ بڑھنے دیتے۔”

    "مختلف جگہ حوضوں میں مچھلیاں پالی گئی تھیں جو اشارے پر جمع ہوجاتیں اور کوئی کھانے کی چیز ڈالیے تو اپنی اچھل کود سے خوب بہار دکھاتیں۔ سب پر طرہ یہ کہ شہنشاہ منزل کے سامنے ایک بڑا سا لمبا اور گہرا حوض قائم کر کے اور اس کے کنارو ں کو چاروں طرف سے خوب چکنا کر کے اور آگے کی طرف جھکا کے اس کے بیچ میں ایک مصنوعی پہاڑ بنایا گیا تھا جس کے اندر سیکڑوں نالیاں دوڑائی گئی تھیں اور اوپر سے دو ایک جگہ کاٹ کے پانی کا چشمہ بھی بہا دیا گیا تھا۔ اس پہاڑ میں ہزاروں بڑے بڑے دو دو، تین تین گز کے لمبے سانپ چھوڑ دیے گئے تھے جو برابر دوڑتے اور رینگتے پھرتے۔ پہاڑ کی چوٹی تک چڑھ جاتے اور پھر نیچے اتر آتے۔ مینڈکیاں چھوڑی جاتیں، انہیں دوڑ دوڑ کر کے پکڑتے۔”

    "پہاڑ کے گردا گرد نہر کی شان سے ایک نالی تھی، اس میں سانپ لہرا لہرا کے دوڑتے اور مینڈکوں کا تعاقب کرتے اور لوگ بلا کسی خوف کے پاس کھڑے سیر دیکھا کرتے۔ اس پہاڑ کے نیچے بھی دو کٹہرے تھے، جن میں دو بڑی بڑی چیتنیں رکھی گئی تھیں۔ یوں تو خاموش پڑی رہتیں، لیکن جس وقت مرغ لا کے چھوڑا جاتا، اسے جھپٹ کر پکڑتیں اور مسلم نگل جاتیں۔ سانپوں کے رکھنے کا انتظام اس سے پہلے شاید کہیں نہ کیا گیا ہوگا اور یہ خاص واجد علی شاہ کی ایجاد تھی جس کو یورپ کے سیاح حیرت سے دیکھتے اور اس کی تصویریں اور مشرح کیفیت قلمبند کرتے جاتے تھے۔”

    "مذکورہ جانوروں کے علاوہ ہزارہا طیور کے چمکتے ہوئے برنجی پنجرے خاص سلطان خانے کے اندر تھے۔ بیسیوں بڑے بڑے ہال تھے جو لوہے کے جال سے محفوظ کر لیے گئے تھے اور گنج کہلاتے تھے۔ ان میں قسم قسم کے طیور کثرت سے لا کے چھوڑ دیے گئے تھے۔ ان کے رہنے اور نشوونما پانے کا پورا سامان فراہم کیا گیا تھا۔ بادشاہ کی کوشش تھی کہ چرند و پرند میں سے جتنی قسم کے جانور دستیاب ہو سکیں، سب جمع کر لیے جائیں اور واقعی ایسا مکمل اور زندہ عجائب خانہ شاید روئے زمین پر کہیں موجود نہ ہو گا۔ ان جانوروں کی فراہمی میں بے روک روپیہ صرف کیا جاتا اور کوئی شخص کوئی نیا جانور لاتا تو منہ مانگے دام پاتا۔”

    "کہتے ہیں کہ بادشاہ نے ریشم پرے کبوتروں کا جوڑا چوبیس ہزار روپے کو اور سفید مور کا جوڑا گیارہ ہزار روپے کو لیا تھا۔ زرافہ جو افریقہ کا بہت بڑا اور عجیب جانور ہے، اس کا بھی ایک جوڑا موجود تھا۔ دو کوہان کے بغدادی اونٹ ہندوستان میں کہیں نہیں نظر آتے اور بادشاہ کے وہاں تھے۔ کلکتے میں ہاتھی مطلق نہیں ہیں، مگر بادشاہ کے اس زندہ نیچرل ہسٹری میوزیم میں ایک ہاتھی بھی تھا۔ محض اس خیال سے کہ کوئی جانور رہ نہ جائے، دو گدھے بھی رمنے میں لا کے چھوڑ دیے گئے تھے۔ درندوں میں سے شیر ببر، دیسی شیر، چیتے، تیندوے، ریچھ، سیاہ گوش، چرخ، بھیڑیے کٹہروں میں بند تھے اور بڑی خاطر دشت سے رکھے جاتے۔”

  • حافظ نور اللہ سے نواب سعادت علی خان کی فرمائش

    حافظ نور اللہ سے نواب سعادت علی خان کی فرمائش

    دریا کے دو کناروں پر بسے ہوئے لکھنؤ کو بارہا روندا گیا اور حملہ آور افواج آگے بڑھ گئیں۔ ہندوستان کا یہ مشہور شہر صدیوں تک اجڑتا اور اپنے دامن میں لوگوں بساتا رہا یہاں تک کہ لکھنؤ کو ایرانی نژاد نوابینِ اودھ نے تہذیب و ثقافت کا گڑھ اور علم و ادب کا گہوارا بنا دیا اور اہلِ لکھنؤ پر راج کیا۔

    عبدالحلیم شررؔ بیسویں صدی کی علمی و ادبی شخصیت تھے جنھیں لکھنؤ کی سماجی و تہذیبی زندگی کا رمز شناس بھی کہا جاتا ہے۔ ان کی کتاب "مشرقی تمدن کا آخری نمونہ: گزشتہ لکھنؤ” ہمیں اُس لکھنؤ کی سیر کراتی ہے جس کی نظیر ملنا مشکل ہے اور اس کتاب کے صفحات رفتگاں کی یاد تازہ کر دیتے ہیں۔ اس کتاب کے ایک باب میں عبدالحلیم شررؔ نے لکھنؤ کے چند باکمال خوش نویسوں کا ذکر کیا ہے، ملاحظہ کیجیے۔

    "علوم ہی سے وابستہ کتابت اور تحریر کے فن ہیں۔ مسلمانوں کا پُرانا خط عربی تھا جس کو نسخ کہتے ہیں۔ خلافتِ بغداد کے ازمنۂ وسطی تک ساری دنیائے اسلام میں مشرق سے مغرب تک یہی خط تھا جو ارض حیرہ کے پرانے خط سے، خطِ کوفی اور خط کوفی سے خطِ نسخ بن گیا تھا۔ خاندانِ طاہریہ کے زمانے سے وہ تمام علم و فن جو بغداد میں عروج پا رہے تھے، ایران و خراسان کی طرف آنے لگے۔ اور دیلمیوں اور سلجوقیوں کے زمانے میں بغداد کے اکثر کمالات ایران میں بخوبی جمع ہو گئے۔ خصوصاً دیلمیوں کے علمی ذوق اور تفننِ طبع سے ایران کا مغربی صوبہ آذربائیجان جو قدرۃً عراق عجم و عراق عرب کے آغوش میں واقع تھا، ہر قسم کی خوبیوں اور ترقیوں کا گہوارہ قرار پا گیا۔”

    "اسی علاقے میں پہلے پہل خط نے بھی نئی وضع اختیار کرنا شروع کی۔ کتابت خطاطی کی حدوں سے نکل کے نقاشی کی قلمرو میں داخل ہو گئی اور اس میں مصورانہ نزاکتیں پیدا کی جانے لگیں۔ عجمی نزاکت پسندوں کو خطِ عرب کی پرانی سادگی میں بھدا پن نظر آیا اور پرانی شان اور وضع خود بخود چھوٹنے لگی۔ نسخ میں قلم ہر حرف اور لفظ میں اوّل سے آخر تک یکساں رہا کرتا تھا۔ حرفوں میں غیر موزوں خمی اور غیر متناسب ناہمواری ہوتی تھی۔ دائرے گول نہ تھے بلکہ نیچے اور چپٹے ہوتے اور ادھر اُدھر ان میں کونے پیدا ہو جاتے۔ اب نقاشی کی نزاکت کو خطاطی میں ملا کے تحریر میں نوک پلک پیدا کی جانے لگی۔ حرفوں کی نوکیں، گردنیں، اور دُمیں باریک بنائی جانے لگیں۔ دائرے خوبصورت اور گول لکھے جانے لگے۔ اس جدید مذاق کو پوری طرح پیش نظر رکھ کے سب سے پہلے میر علی تبریزی نے، جو خاص دیلم کا رہنے والا تھا، اس نئے خط کو بااصول و باقاعدہ بنا کے مشرقی بلاد میں رواج دیا اور اس کا نام نستعلیق قرار دیا۔ جو اصل میں نسخ تعلیق یعنی ضمیمۂ نسخ تھا۔”

    "یہ نہیں معلوم کہ میر علی تبریزی کس زمانے میں تھے۔ منشی شمس الدین صاحب جو آج لکھنؤ کے مشہور و مستند خوش نویس ہیں، ان کا زمانہ تیمور سے پہلے بتاتے ہیں۔ لیکن نستعلیق کی کتابیں اتنی پُرانی ملتی ہیں کہ تیمور درکنار، ہم سمجھتے ہیں کہ اس خط کی ایجاد محمود غزنوی سے بھی پہلے ہو چکی تھی۔ اس میں شک نہیں کہ محمود کے حملوں کے ساتھ ہی ساتھ ہندوستان میں فارسی خوش نویسوں کی بھی آمد شروع ہو گئی ہو گی۔ جس کے اثر سے یہاں اس خط کا رواج شروع ہوا۔ اور ہندوستان کے ہر صوبے اور ہر خطے میں نستعلیق کے خوش نویس کثرت سے پیدا ہو گئے۔ لہٰذا یا تو میر علی تبریزی کا زمانہ بہت قدیم ہے اور یا وہ اصلی موجدِ خط نہیں ہیں۔ لیکن اس میں شک نہیں کہ دہلی و لکھنؤ بلکہ سارے ہندوستان کی موجودہ خوش نویسی اپنا استادِ اوّل میر علی تبریزی کو بتاتی ہے۔ ان کے ایک مدتِ دراز کے بعد ایران میں نستعلیق کی استادی میں میر عماد الحسنی کا نام مشہور ہوا، جو خوش نویسوں میں بڑے ممتاز و نامور کاتب اور استادُ الکُل مانے جاتے ہیں۔ ان کے بھانجے آغا عبد الرشید دیلمی، نادر شاہ کے حملوں کے زمانے میں واردِ ہند ہوئے اور لاہور میں آ کر ٹھہر گئے۔ لاہور میں ان کے صدہا شاگرد پیدا ہوئے جنہوں نے اقطاعِ ہند میں پھیل کے انہیں ہندوستان کی خوش نویسی کا آدم نہیں تو نوح ضرور ثابت کر دیا۔ انہی کے دو شاگرد جو ولایتی تھے، واردِ لکھنؤ ہوئے۔ ان دونوں بزرگوں میں سے ایک حافظ نور اللہ اور دوسرے قاضی نعمت اللہ تھے۔”

    "کہا جاتا ہے کہ عبد اللہ بیگ نامی آغا عبد الرشید کے ایک تیسرے باکمال شاگرد بھی لکھنؤ میں آئے تھے۔ ان حضرت کے آنے کا زمانہ غالباً نواب آصف الدّولہ بہادر کا عہد تھا، جب یہاں کوئی باکمال آ کے واپس نہ جانے پاتا تھا۔ قاضی نعمت اللہ آتے ہی اس خدمت پر مامور ہو گئے کہ شاہ زادوں کو اصلاح دیا کریں اور حافظ نور اللہ کو بھی دربارِ اودھ سے تعلق ہو گیا اور ان دونوں نے یہاں ٹھہر کے لوگوں کو خوش نویسی کی تعلیم دینا شروع کی۔”

    "ان بزرگوں کے علاوہ یہاں اور پرانے خوش نویس بھی تھے جن میں سے ایک نامور بزرگ منشی محمد علی بتائے جاتے ہیں۔ مگر آغا الرشید کے شاگردوں نے اپنا ایسا سکّہ جما لیا کہ خوش نویسی کے تمام شائق بلکہ سارا شہر ان کی طرف رجوع ہو گیا۔ جسے خطاطی کا شوق ہوا، انہی کا شاگرد ہو گیا۔ اور تمام خوش نویسانِ سلف کے نام مٹ کے گمنامی کے ناپیدا کنار سمندر میں غرق ہو گئے۔ اور سچ یہ ہے کہ یہ بزرگ اپنے کمال کے اعتبار سے اس کے مستحق بھی تھے۔”

    "حافظ نور اللہ کی لکھنؤ میں جو قدر ہوئی اس کا اندازہ اسی سے نہیں ہو سکتا کہ وہ یہاں سرکار میں ملازم ہو گئے تھے بلکہ لکھنؤ کی قدردانی کا صحیح اندازہ اس سے ہوت ہے کہ لوگ ان کے ہاتھ کے لکھے ہوئے قطعوں کو موتیوں کے دام مول لیتے۔ یہاں تک کہ ان کی معمولی مشق بازار میں صرف ایک روپیہ حرف کے حساب سے ہاتھوں ہاتھ بک جاتی تھی۔”

    "ان دنوں اُمرا اور شوقین لوگ اپنے مکانوں کو بجائے تصویروں کے قطعات سے آراستہ کیا کرتے تھے۔ جس کی وجہ سے علی العموم قطعوں کی بے انتہا مانگ تھی۔ اور جہاں کسی اچھے خوش نویس کے ہاتھ کا قطعہ مل جاتا، اس پر لوگ پروانوں کی طرح گرتے اور اسے آنکھوں سے لگاتے۔ اس سے سوسائٹی کو تو یہ فائدہ پہنچتا کہ اکثر اخلاقی اصول اور ناصحانہ فقرے یا اشعار ہمیشہ پیشِ نظر رہتے، اور ہر وقت گھر میں اخلاقی سبق ملتا رہتا اور خوش نویسی کو یہ فائدہ پہنچتا کہ خوش نویسوں اور صاحب کمال خطاطوں نے اپنے کمال کو قطعہ نویسی ہی تک محدود کر دیا تھا۔ جو آب دار اور عمدہ وصلیوں کو لکھ کے تیار کرتے اور اسی میں وہ گھر بیٹھے دولت مند ہو جاتے۔ مگر افسوس اب ہندوستان سے قطعات اور کتبوں کا رواج اُٹھتا جاتا ہے اور ان کی جگہ تصویروں نے لے لی ہے۔ جس کی وجہ سے اگلے نفیس و مہذب شرعی مذاقِ آرایش کے مٹ جانے کے ساتھ خوش نویسی بھی ہندوستان سے اٹھ گئی۔ اب کاتب ہیں، خوش نویس نہیں ہیں۔”

    "اور جو دو ایک خطاط مشہور بھی ہیں، وہ مجبور ہیں کہ کاپی نویسی اور کتابت سے اپنا پیٹ پالیں جو چیز کہ اصل میں خوش نویسی کی دشمن ہے۔ بہ خلاف اس کے، ان دنوں ایک گروہ قائم ہو گیا تھا جس کا کام فقط یہ تھا کہ خوش نویسی کو اپنے اصول پر قائم رکھے اور اس کو وقتاً فوقتاً مناسب ترقیاں دیتا رہے۔ چنانچہ اگلے خوش نویس، کتابت کو اپنی شان سے ادنا سمجھتے تھے اور خیال کرتے کہ جو شخص پوری پوری کتابیں لکھے گا، وہ غیر ممکن ہے کہ اوّل سے آخر تک اصول و قواعدِ خوش نویسی کو پوری طرح نباہ سکے۔ اور سچ یہ ہے کہ جتنی محنت اور مشقت وہ لوگ ایک ایک وصلی کی درستی میں کرتے تھے، اس کی عشرِ عشیر محنت بھی کاتب کسی پوری کتاب کے لکھنے میں نہیں کر سکتے۔”

    "ان کی محنت کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ حافظ نور اللہ سے ایک بار نواب سعادت علی خاں نے فرمایش کی کہ "مجھے گلستاں کا ایک نسخہ لکھ دیجیے” نواب سعادت علی خاں، گلستانِ سعدی کے بے حد شائق تھے اور کہتے ہیں کہ گلستاں ہر وقت ان کے سرہانے موجود رہا کرتی تھی۔ اور کوئی ایسی فرمایش کرتا تو حافظ نور اللہ اپنی توہین سمجھ کے اس کا منہ ہی نوچ لیتے مگر فرماں روائے وقت کا کہنا تھا، منظور کر لیا، اور عرض کیا، تو مجھے اسی گڈی کاغذ (ان دنوں رم کو گڈی کہتے تھے) ایک سو (100) قلم تراش چاقو اور خدا جانے کتنے ہزار قلموں کے نیزے منگوا دیجیے” سعادت علی خاں نے حیرت سے پوچھا: "فقط اکیلی ایک گلستان کے لیے اتنا سامان درکار ہو گا؟” کہا "جی ہاں، میں اتنا ہی سامان خرچ کیا کرتا ہوں۔” نواب کے لیے اس سامان کا فراہم کرنا کچھ دشوار تو تھا نہیں، منگوا دیا۔ اب حافظ صاحب نے گلستاں لکھنا شروع کی مگر پوری نہیں ہونے پائی تھی، سات ہی باب لکھنے پائے تھے اور آٹھواں باب باقی تھا کہ انتقال ہو گیا۔”

    "ان کے بعد جب ان کے بیٹے حافظ ابراہیم دربار میں پیش ہوئے اور انہیں سیاہ خلعتِ تعزیت عطا ہوا تو سعادت علی خاں نے کہا: "بھئی، میں نے حافظ صاحب سے گلستاں لکھوائی تھی، خدا جانے اس کا کیا حال ہوا؟” حافظ ابراہیم نے عرض کیا: "ان کے لکھے ہوئے سات باب تیار ہیں، آٹھواں باب باقی ہے، اسے یہ حقیر لکھ دے گا۔ اور اس قدر ان کی شان سے ملا دے گا کہ حضور امتیاز نہ کر سکیں گے۔ لیکن ہاں اگر کسی مُبصر خوش نویس نے دیکھا تو وہ بے شک پہچان لے گا۔” نواب نے اجازت دی اور اس گلستاں کو حافظ ابراہیم نے پورا کیا۔”

    "ان بزرگوں کے تذکرے سے میرا یہ مقصد نہیں ہے کہ خوش نویسی میں لکھنؤ کو کوئی ایسا امتیاز حاصل ہو گیا تھا جو ہندوستان میں عدیم النظیر ہو، بہ خلاف اس کے میرا خیال ہے کہ نسخ کے جیسے جیسے باکمال دولتِ مغلیہ سے پہلے ہندوستان میں گزر چکے ہیں، ان کے عشرِ عشیر درجے کو بھی یہ لوگ نہیں پا سکتے بلکہ نسخ کا کمال ان دنوں مٹ چکا تھا۔ نستعلیق کے متعلق اس قدر البتہ کہا جا سکتا ہے کہ حافظ نور اللہ اور حافظ ابراہیم کے ہاتھ کے قطعات جس ذوق و شوق سے سارے ہندوستان میں مقبول ہوئے اور کسی خوش نویس کے شاید نہ ہو سکے ہوں گے۔ لیکن اس پر بھی خطاطی کے فن میں لکھنؤ کا درجہ قریب قریب وہی تھا جو دیگر متمدن شہروں کا ہو سکتا ہے۔”

  • میلان: وہ شہر جہاں بیکار اور کاہل آدمیوں کا نام و نشان نہیں!

    میلان: وہ شہر جہاں بیکار اور کاہل آدمیوں کا نام و نشان نہیں!

    آبادی کے لحاظ سے میلان اٹلی کا دوسرا بڑا شہر اور اہم تجارتی مرکز بھی ہے۔ آج یہ شہر فن و ثقافت کا مرکز اور سیر و سیاحت کے لیے مشہور ہے۔

    موجودہ دور میں سیاحت کی غرض سے جانے والے بعض پاکستانی سیاح اور مصنّفین نے اٹلی کا سفر نامہ بھی اردو زبان میں لکھا ہے۔ لیکن ایک صدی قبل اٹلی میں مختصر قیام کے دوران میلان شہر کا آنکھوں دیکھا حال ہمیں عبدالحلیم شرر بتاتے ہیں۔ متحدہ ہندوستان کی اس ممتاز علمی و ادبی شخصیت نے ناول اور ڈرامہ نویسی کے علاوہ مضمون نگاری اور تراجم بھی کیے جو کتابی شکل میں محفوظ ہیں۔

    عبدالحلیم شرر، یورپ کی 26 صدیوں کی تاریخ اپنے اندر سمیٹے ہوئے میلان شہر اور اس کے باسیوں کے بارے میں لکھتے ہیں:

    "میلان میں ہمارا ارادہ ایک شب قیام کرنے کا تھا تاکہ صبح کو سوار ہو کے ایسے وقت سوئٹزر لینڈ کے پہاڑوں میں پہنچیں جب کہ دن ہو اور اچھی طرح سیر ہو سکے۔ میلان کے اسٹیشن کے قریب ہی “ہوٹل ڈی نورڈ” تھا، جس میں جا کے ہم نے اپنا اسباب رکھا اور گاڑی پر سوار ہو کر شہر کی سیر کو روانہ ہوئے۔”

    "میلان، اٹلی ہی نہیں، سارے یورپ کے اعلٰی اور خوش سواد شہروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ بعض لوگوں نے اسے شہر وینس سے عجیب طرح نسبت دی ہے، کہتے ہیں کہ جس طرح وینس اندر اور باہر ہر جگہ سمندر اور پانی سے گھرا ہوا ہے، اسی طرح یہ شہر ہر طرف عمدہ سبزہ زاروں اور جاں فزا مرغزاروں کے جھرمٹ میں ہے۔ اٹلی میں قدامت کی یادگاریں اور تنزل کے نمونہ نمایاں نظر آتے ہیں اور میلان میں موجودہ ترقی کے آثار اور خوش حالی و دولت مندی کے اسباب ہویدا ہیں؛ اور بے شک اس کا ثبوت ہمیں اس دو گھڑی کی سیر میں بھی ہر جگہ اور ہر در و دیوار سے ملتا تھا۔”

    "لوگ خوش حال اور خوش پوشاک ہیں، بیکار اور کاہل آدمیوں کا نام و نشان نہیں۔ زن و مرد کے چہروں سے فارغ البالی اور مشقت پسندی کی بشاشت ایک نور کی طرح چمکتی ہے۔ سڑکیں نہایت صاف ہیں بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ یہاں لندن کی سڑکوں سے بھی زیادہ صفائی کا انتظام ہے۔ گیس کی لالٹینوں کے اوپر تھوڑے تھوڑے فاصلے پر برقی لیمپ چودھویں رات کے چاند کی طرح نور افشانی کر رہے ہیں۔ سڑکوں پر ہر وقت معمولی گھوڑے کی گاڑیوں کے علاوہ ٹریموے کی گاڑیاں دوڑتی نظر آتی ہیں اور ٹریموے بھی دونوں قسم کی، وہ بھی جن کو گھوڑے کھینچتے ہیں اور وہ بھی جو برقی قوت سے چلتی ہیں۔ ان تمام چیزوں کا مجموعی اثر ایک نئے جانے والے کے دل پر یہ پڑتا ہے کہ معلوم ہوتا ہے جیسے یہ شہر جادو کا بنا ہوا ہے اور کوئی مافوق العادت چیز سارے کاروبار کو چلا رہی ہے۔”

    "اٹلی کا یہ نامی اور مشہور شہر قریب ایک مدور وضع میں آباد ہے جس کو پہلے ایک دس میل کی ناتمام فصیل اپنے غیر مکمل دائرہ میں لیے ہوئے ہے۔ اس فصیل کے برابر ہی برابر درختوں کا ایک حلقہ بھی چاروں طرف پھیلا ہوا ہے، پھر اس فصیل کے اندر ایک دوسرا حلقہ ایک نہر سے بن گیا ہے، جو فصیل کے دائرہ اور مرکز کے عین درمیان میں ہے اور جس نے پانچ میل کے دور میں شہر کو گھیر لینا چاہا ہے۔ شہر کی گنجان اور خاص آبادی نہر کے حلقہ کے اندر ہے اور نہر کے باہر اور فصیل کے اندر بھی مکانات اور آبادی ہے، مگر اس حصے میں زیادہ تر نزہت افزا اور فرحت بخش باغ اور چمن ہیں جو یہاں کے عشرت پسند امرا اور جفاکش اہلِ شہر کے لیے بہت کچھ سامانِ لطف پیش کرتے ہیں۔”

    "ہم گاڑی پر سوار ہو کے شہر کی آبادی، مصفا سڑکوں اور خوبصورت دکانوں کو دیکھتے ہوئے یہاں کے کیتھڈرل یعنی بڑے کنیسہ میں پہنچے جو خاص شہر روما کے بڑے گرجے کے بعد سارے یورپ کے گرجوں سے اوّل درجہ کا خیال کیا جاتا ہے، مگر افسوس کہ شام ہو جانے کی وجہ سے اندر جا کے اچھی طرح نہ دیکھ سکے۔ یہ گاتھک وضع کی عالیشان اور بے مثل عمارت اپنی قدامت کی شان سے شہر کے عین مرکز پر ایک مربع وضع میں کھڑی ہوئی ہے اور پوری سنگ مرمر سے بنی ہے۔ تقریباً پانچ سو سال پیشتر 1385ء میں جان گلیازو پہلے ڈیوک میلان نے اس کو تعمیر کرانا شروع کیا تھا، مگر بنیاد اتنے بڑے اندازہ پر ڈالی گئی تھی کہ جان گلیازو کی زندگی کا وفا کرنا در کنار آج تک تکمیل نہ ہوسکی، نتیجہ یہ ہوا کہ مختلف عہدوں، مختلف مذاق کے کاریگروں کا ہاتھ لگا، جس کی وجہ سے یہ عمارت آج ہر قسم اور ہر مذاق کی عمارتوں کا مجموعہ نظر آتی ہے اور یہ بات پیدا ہوگئی ہے کہ گاتھک دروازہ اور ردکار میں یونانی وضع کی کھڑکیاں لگی ہوئی ہیں۔ پوری عمارت ایک لاطینی صلیب کی وضع میں نظر آتی ہے جس کا طول 493 فٹ، عرض 177 فٹ، اور بلندی 283 فٹ ہے۔ اس گرجے میں 2 محراب دار ستون، 98 برج اور کلس ہیں اور اندر باہر سب ملا کے 4400 پتھر کی ترشی ہوئی مورتیں نصب ہیں۔ ابھرے ہوئے کام کھدائی اور خوشنما سنگین مورتوں کے اعتبار سے یہ گرجا دنیا کے تمام گرجوں سے بڑھا ہوا ہے؛ حتٰی کہ خود روما کے گرجے سینٹ پیٹرس کی بھی کوئی ہستی نہیں جو بہ لحاظ عمارت کے اس سے عمدہ خیال کیا جاتا ہے۔ اس کے اندر بنا ہوا دہرا راستہ، اس کے ستونوں کی مجموعی خوشنمائی، اس کی بلند محرابیں، اس کی سفید دیواروں کی چمک اور آب و تاب اور چاروں طرف کے بے شمار طاق جن پر ہزار ہا سنگِ مرمر کی ترشی ہوئی مورتیں رکھی ہیں، دیکھنے والوں کی آنکھوں کے سامنے ایک ایسا سماں پیدا کر دیتے ہیں کہ انسان تمام عمارتوں کو بھول جاتا ہے اور اسی قسم کا سماں دکھانے کی اس کی تعمیر میں بھی کوشش کی گئی ہے۔ اس لیے کہ ستون اگرچہ 90 فٹ اونچی چھت کو اٹھائے ہوئے ہیں مگر 8 فٹ کے دور سے زیادہ موٹے نہیں، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ یہ تمام ستون کسی چیز کے دیکھنے میں بہت کم حاجب ہوتے ہیں اور اندر کی پوری فضا ہر طرف سے صاف اور کھلی نظر آتی ہے۔ چھت پر گنبد کے عین درمیان میں جناب مریم کی مورت نصب ہے اور ان ہی کے نام پر یہ گرجا نذر کر دیا گیا ہے۔ پیچھے تہ خانے میں ایک زیارت گاہ ہے جس میں سینٹ چارلس بورومیو دفن ہے۔”

    "چارلس بورومیو سولھویں صدی میں میلان کا آرچ بشپ یعنی بڑا پادری تھا، مرنے کے بعد ولیوں میں شمار کیا گیا اور آج تک اس کی قبر کی پرستش ہوتی ہے، اس سے منت مرادیں مانگی جاتی ہیں اور دور دور سے لوگ زیارت کو آتے ہیں۔

    (ماخوذ از: اٹلی کی مختصر سیر)

  • فارسی دانی اور اگلی تاریخ کا ایک کرم خوردہ ورق

    فارسی دانی اور اگلی تاریخ کا ایک کرم خوردہ ورق

    لکھنؤ میں فارسی کا مذاق جس قدر بڑھا ہوا تھا، اُس کا اندازہ لکھنؤ کی اردو زبان سے ہو سکتا ہے۔ جہلا اور عورتوں تک کی زبان پر فارسی کی ترکیبیں، بندشیں اور اضافتیں موجود ہیں۔

    مسلمانوں کی طرح ہندو بھی فارسی میں نمود حاصل کررہے تھے۔ اگرچہ یہ امر دولتِ مغلیہ کے ابتدائی عہد سے ظاہر ہونے لگا تھا۔ اُس وقت بھی بعض نام ور و مستند فارسی دان اور فارسی گو موجود تھے مگر اودھ میں یہ مذاق انتہائی کمال کو پہونچ گیا۔ چنانچہ جیسے باکمال فارسی دان ہندو سوادِ لکھنؤ میں موجود تھے، کہیں نہ تھے۔ کایستھوں اور کشمیری پنڈتوں نے تعلیمِ فارسی کو اپنے لیے لازمی قرار دے لیا تھا۔ اور یہاں تک ترقی کی کہ کشمیری پنڈتوں کی تو مادری زبان ہی اردو ہو گئی۔ اور اُن کی اور مسلمانوں کی فارسی دانی میں بہت کم فرق تھا۔ کایستھ چونکہ یہیں کے متوطن تھے اس لیے اُن کی زبان بھاشا رہی۔ مگر تعلیم فارسی کی کایستھوں کے رگ و پے میں اس قدر سرایت کر گئی تھی کہ نہایت ہی بے اعتدالی اور بے ربطی کے ساتھ محاوراتِ فارسی کو استعمال کرنے لگے۔ جو بات کہیں کے ہندوؤں میں نہ تھی۔ اُن دنوں لوگ کایستھوں کی زبان کا مضحکہ اڑایا کرتے تھے۔ مگر سچ یہ ہے کہ بجائے مضحکہ اڑانے کے اُن کی قدر کرنی چاہیے تھی۔ اس لیے کہ اُن کی زبان اُن کی علمی ترقی کی دلیل تھی۔ جس طرح آج کل انگریزی لفظوں کے جا و بے جا استعمال کو انگریزی دان اپنی علمی ترقی کا ثبوت خیال کرتے اور نہایت بدتمیزی سے انگریزی الفاظ اپنی زبان میں بھرتے چلے جاتے ہیں۔

    لکھنؤ میں اُن دنوں فارسی کے صدہا نثّار اور شاعر موجود تھے۔ اور اردو کی طرح برابر فارسی مشاعروں کا بھی سلسلہ جاری تھا۔ فارسی شرفا ہی نہیں عوام النّاس تک کا شعار و وثار بن گئی تھی۔ اور اب باوجودیکہ فارسی درباری زبان نہیں باقی رہی اور حکومت کی مسند پر اردو زبان قابض و متصرف ہو گئی ہے مگر مہذب سوسائٹی پر آج تک فارسی کا سکہ جما ہوا ہے۔ اور عام خیال یہی ہے کہ فارسی مدارس و مکاتب سے نکل گئی اور تحصیلِ معاش کے لیے اس کی ضرورت نہیں باقی رہی مگر انسان بغیر فارسی پڑھے مہذب سوسائٹی میں بیٹھنے کے قابل نہیں ہو سکتا۔ اور نہ صحیح معنوں میں انسانِ کامل بن سکتا ہے۔

    انگلستان میں فرانس کی زبان کبھی درباری زبان تھی۔ اب اگرچہ مدت ہوئی کہ وہ دربار سے نکال دی گئی مگر معاشرت اور اخلاقی ترقی آج بھی وہاں بغیر فرانسیسی زبان کے سیکھے نہیں حاصل ہو سکتی۔ کھانے پینے، اٹھنے بیٹھنے، پہننے اوڑھنے، اور ہنسنے بولنے، غرض زندگی کے تمام اسلوبوں پر فرانسیسی کی حکومت اب تک ویسی ہی موجود ہے۔ اور لڑکیاں بغیر فرنچ زبان حاصل کیے شائستہ بیبیاں نہیں بن سکتیں۔ یہی حال لکھنؤ کا ہے کہ فارسی دربار سے گئی، خط و کتابت سے گئی، مگر معاشرت کے تمام شعبوں پر اب تک حکومت کر رہی ہے۔ اور بغیر فارسی کی تعلیم پائے نہ ہمارا مذاق درست ہو سکتا ہے اور نہ ہمیں بات کرنے کا سلیقہ آ سکتا ہے۔

    مٹیا برج (کلکتہ) میں آخری محروم القسمت تاجدارِ اودھ کے ساتھ جو چند لوگ وہاں کے سکونت پذیر ہو گئے تھے اُن میں کوئی پڑھا لکھا نہ تھا جو فارسی نہ جانتا ہو۔ دفتر کی زبان فارسی تھی، اور ہندو مسلمانوں میں صدہا فارسی گو شاعر تھے۔ عورتیں تک فارسی میں شعر کہتی تھیں۔ اور بچّہ بچّہ فارسی زبان میں اپنا مطلب ادا کر لیتا تھا۔

    موجودہ لکھنؤ میں اگرچہ فارسی کی تعلیم بہت کم ہو گئی ہے اور ہندوؤں نے تو اُسے اس قدر چھوڑ دیا کہ وہ کایستھوں کی زبان ہی خواب و خیال ہو گئی جس کا زبان دانی کی صحبتوں میں مضحکہ اڑایا جاتا تھا۔ اور بھانڈ تک اُسی فارسی آمیز زبان کی نقلیں کرتے تھے۔ مگر پھر بھی پرانے بزرگوں اور خصوصاً مسلمانوں میں بہت کچھ فارسی کا مذاق موجود ہے۔ اس لیے کہ اُن کی اردو دانی ہی ایک حد تک اُن کے لیے فارسی دانی کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ مسلمانوں میں اب تک خواجہ عزیز الدین صاحب کا ایسا محققِ فارسی اگلی بزمِ سخن کے یاد دلانے کو پڑا ہوا ہے جو اپنے کمال کے لحاظ سے سارے ہندوستان میں کمیاب ہیں۔ اور پرانے سن رسیدہ ہندوؤں میں بھی متعدد فارسی کے اسکالر ملیں گے جن کا ایک نمونہ سندیلہ کے راجہ درگا پرشاد صاحب ہیں۔ جن کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ زمانہ بدل گیا۔ زمین و آسمان بدل گئے۔ آب و ہوا بدل گئی۔ مگر وہ آج تک وہی ہیں۔ فارسی دانی کی داد دینے اور لینے کو موجود ہیں۔ اور اگلی تاریخ کے ایک کرم خوردہ ورق کی طرح چومنے چاٹنے اور آنکھوں سے لگانے کے قابل ہیں۔”

    (از قلم عبدالحلیم شرر لکھنوی)

  • قتیل: لکھنؤ کا نومسلم فارسی دان

    قتیل: لکھنؤ کا نومسلم فارسی دان

    "باوجود اس کے کہ علومِ عربیہ کے بڑے بڑے علمائے گراں پایہ لکھنؤ کی خاک سے پیدا ہوئے، اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ عربی کی تعلیم مقتدایانِ امت اور پیشوانِ ملّت تک محدود تھی۔ ہندوستان میں درباری زبان فارسی تھی۔”

    ملازمت حاصل کرنے اور مہذب و معزز صحبتوں میں چمکنے کے لیے یہاں فارسی کی تعلیم بخوبی کافی خیال کی جاتی تھی۔ اودھ ہی نہیں سارے ہندوستان میں ادبی و اخلاقی ترقی کا ذریعہ صرف فارسی قرار پا گئی تھی۔ مسلمان تو مسلمان اعلیٰ طبقے کے ہندوؤں کا عام رجحان فارسی ادب و انشا کی طرف تھا۔ یہاں تک کہ اعلیٰ درجے کی انشائیں ہندو مصنفوں ہی کے قلم سے مرتب و مدون ہوئی تھیں۔ ٹیک چند بہار نے بہارِ عجم کی سی لاجواب کتاب تصنیف کر دی جو مصطلحاتِ زبانِ فارسی کا ایک بے عدیل و نظیر ذخیرہ ہے۔ اور جس میں ہر محاورے کی سند میں اہلِ زبان کے بے شمار اشعار پیش کر دیے گئے ہیں۔ لکھنؤ کے ابتدائی عروج میں ملا فائق کا اور پھر مرزا قتیل کا نام مشہور ہوا جو ایک نومسلم فارسی دان تھے۔ وہ خود تو مذاقاً کہا کرتے کہ ‘بوئے کباب مرا مسلمان کرد’ مگر سچ یہ ہے کہ فارسی کی تعلیم، اُس کے شوق، اور کمالِ فارسی دانی کی آرزو نے اُنہیں مسلمان ہونے پر مجبور کر دیا۔ انہوں نے محض اسی شوق میں ایران کا سفر کیا۔ برسوں شیراز و اصفہان اور طہران و آذربائجان کی خاک چھانی۔ اور ادبِ فارسی کے اس اعلیٰ کمال کو پہونچ گئے کہ خود اہلِ زبان بھی ایسے باکمال زبان دان پر حسد کریں تو تعجب کی بات نہیں ہے۔

    مرزا غالب نے جا بجا مرزا قتیل پر حملے کیے ہیں۔ بے شک مرزا غالب کا مذاقِ فارسی نہایت اعلیٰ درجے کا تھا۔ وہ اس اصول پر بار بار زور دیتے تھے کہ سوا اہلِ زبان کے کسی کا کلام سند نہیں ہو سکتا۔ مگر اُن کے زمانے میں چونکہ اودھ سے بنگالے تک لوگ قتیل کے پیرو تھے اور بات بات پر قتیل کا نام لیا جاتا تھا اس لیے مرزا غالب کو اکثر طیش آ گیا۔ اور جب پیروانِ قتیل نے اُن کی خبر لینا شروع کی تو کہنے لگے:
    فیضے از صحبتِ قتیلم نیست
    رشک بر شہرتِ قتیلم نیست

    مگر اس سے یہ نہیں نکلتا کہ قتیل نے فارسی دانی میں جو کوششیں کی تھیں اور اس میں واقفیت و کمال حاصل کرنے میں جو زندگی صرف کی تھی وہ بالکل بیکار گئی۔ اس بات کے ماننے میں کسی کو عذر نہیں ہو سکتا کہ قتیل کا کوئی دعویٰ جب تک وہ اہلِ زبان کی سند نہ پیش کریں قابلِ تسلیم نہیں ہے۔ اور نہ خود قتیل کے ذہن میں کبھی یہ خیال گزرا ہو گا۔ لیکن اس کی خصوصیت قتیل ہی کے ساتھ نہیں۔ ہندوستان کا کوئی شخص بجائے خود سند نہیں ہو سکتا۔ خود مرزا نوشہ غالب بھی کوئی فارسی کا محاورہ بغیر اہلِ عجم کے ثبوت پیش کیے نہیں استعمال کر سکتے۔ ہندوستانی فارسی دانوں کا اگر کچھ وقار قائم ہو سکتا ہے تو صرف اس بنا پر کہ کلامِ فارسی میں اُن کی نظر وسیع ہے اور ہر ہر لفظ کے صحیح محلِ استعمال سے واقف ہیں۔ اور اس حیثیت سے سچ پوچھیے تو غالب کے مقابلے میں قتیل کا پایہ بہت بلند تھا۔ غالب زندگی بھر ہندوستان کی خاک چھانتے رہے۔ اور اس کے ساتھ طلبِ معاش میں سرگرداں رہے۔ قتیل کو اطمینان کا زمانہ ملا تھا۔ اور مدتوں خاکِ پاکِ ایران میں رہ کے گاؤں گاؤں کی ٹھوکریں کھاتے پھرے تھے۔

    بہر تقدیر لکھنؤ کی فارسی دانی کا آغاز قتیل سے ہوا۔ اور اُن سے کچھ پہلے ملا فائق نے جن کا خاندان آگرے سے آ کے مضافاتِ لکھنؤ میں بس گیا تھا ادب و انشائے فارسی اور فارسی نظم و نثر میں اعلیٰ درجے کی بے نظیر کتابیں تصنیف کیں۔ فارسی گو اور فارسی دان ہندوستان میں ان سے پہلے بھی گزرے تھے۔ مگر فارسی دانی کے ساتھ زبانِ فرس کے اصول و ضوابط اور اُس کی صرف و نحو کے مدون کرنے کا شوق پہلے پہل لکھنؤ ہی میں شروع ہوا۔ اور وہ اُنہیں کے قلم سے ظاہر ہوا۔ اُن کی کتابیں اگر سچ پوچھیے تو بے مثال و لاجواب ہیں۔

    اس کے بعد فارسی یہاں کی عام تعلیم میں داخل رہی۔ اور نصابِ فارسی ایسا بلیغ و دقیق رکھا گیا جو سچ یہ ہے کہ خود ایران کے نصاب سے زیادہ سخت تھا۔ ایران میں جیسا کہ ہر ملک کے لوگوں کا معمول ہے سیدھی سادی فصیح زبان جس میں صفائی کے ساتھ خیال آفرینی کی جائے پسند کی جاتی ہے۔ اور اُسی قسم کا نصاب بھی ہے۔ ہندوستان میں عرفی و فیضی اور ظہوری و نعمت خان عالی کے ایسے نازک خیال شعرا کا کلام داخلِ درس کیا گیا۔ ملا طغرا اور مصنفِ پنج رقعہ کے ایسے دقت پسندوں کا کلام پڑھا اور پڑھایا جانے لگا۔ جس سے دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ ہندوستان کی زبان دانی اس آخر عہد میں خود ایران سے بڑھ گئی تھی۔ اور یہیں کے لوگوں نے فارسی کی تمام درسی کتابوں پر اعلیٰ درجے کی شرحیں لکھ ڈالیں تھیں۔ اور اُسی کا یہ حیرت خیز نتیجہ ہے کہ جب کہ دنیا کی تمام زبانوں کے شعرا اہلِ زبان ہی کے حلقے میں محدود رہتے ہیں، اور غیر اہلِ زبان میں اگر دو چار شاعر پیدا بھی ہو جاتے ہیں تو اہلِ زبان میں اُن کا اعتبار نہیں ہوتا۔ فارسی کے شعرا ایران سے زیادہ نہیں تو ایران کے برابر ہی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔

    خصوصاً گذشتہ صدی میں جب کہ ترقی و تعلیم کی دنیا میں لکھنؤ کا ڈنکا بج رہا تھا یہاں کا بچّہ بچّہ فارسی گو تھا۔ اور بھانڈ تک فارسی کی نقلیں کرتے تھے۔ قصباتِ اودھ کے تمام شرفا کا مہذب مشغلہ اور ذریعۂ معاش فارسی پڑھانا تھا۔ اور ایسے اعلیٰ درجے کے دیہاتی فارسی مدرس لکھنؤ کی گلیوں میں مارے مارے پھرتے تھے کہ اُن کی زبان دانی پر خود اہلِ عجم بھی عش عش کر جاتے۔ اُن کا لب و لہجہ اہلِ زبان کا سا نہ ہو مگر فارسی کے محاوروں اور بندشوں اور الفاظ کی تحقیق و تدقیق میں ان کو وہ درجہ حاصل تھا کہ معمولی اہلِ زبان کو بھی خاطر میں نہ لاتے تھے۔

    (عبدالحلیم شرر لکھنوی کی کتاب ‘گذشتہ لکھنؤ سے مقتبس)

  • لچھمن پور، لکھنؤ اور ہزار سَروں والا سانپ

    لچھمن پور، لکھنؤ اور ہزار سَروں والا سانپ

    ٹھیک کسی کو معلوم نہیں کہ لکھنؤ کی آبادی کی بنیاد کب پڑی، اس کا بانی کون تھا اور وجہ تسمیہ کیا ہے؟ لیکن مختلف خاندانوں کی قومی روایتوں اور قیاس سے کام لے کر، جو کچھ کہا جا سکتا ہے، وہ یہ ہے۔

    کہتے ہیں، راجا رام چندر جی لنکا کو فتح کرکے اور اپنے بن باس کا زمانہ پورا کرکے جب سریرِ جہاں پناہی پر جلوہ افروز ہو ئے تو یہ سَر زمین انہوں نے جاگیر کے طور پر اپنے ہم سفر و ہمدرد بھائی لچھمن جی کو عطا کر دی۔ چنانچہ انہی کے قیام یا ورود سے یہاں دریا کے کنارے ایک اونچے ٹیکرے پر ایک بستی آباد ہو گئی جس کا نام اس وقت سے لچھمن پور قرار پایا اور وہ ٹیکرا لچھمن ٹیلا سے مشہور ہوا۔

    اس ٹیلے میں ایک بہت ہی گہرا غار یا کنواں تھا جس کی کسی کو تھاہ نہ ملتی تھی اور لوگوں میں مشہور تھا کہ وہ سیس ناگ (ہندو دیو مالا میں‌ سیس ناگ (شیش ناگ) اس ہزار سَر والے سانپ کا نام ہے جو دھرتی کو اپنے پھن پر اٹھائے ہوئے ہے) تک چلا گیا ہے، اس خیال نے جذباتِ عقیدت کو حرکت دی اور ہندو لوگ خوش اعتقادی سے جا جا کے اس میں پھول پانی ڈالنے لگے۔

    یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مہاراجہ جودھستڑ کے پوتے راجہ جنم جے نے یہ علاقہ مرتاض بزرگوں، رشیوں اور منیوں کو جاگیر میں دے دیا تھا، جنہوں نے یہاں چپے چپے پر اپنے آشرم بنائے اور ہرؔ کے دھیان میں مصروف ہو گئے۔ ایک مدت کے بعد ان کو کمزور دیکھ کے دو نئی قومیں ہمالیہ کی ترائی سے آکے اس ملک پر قابض ہو گئیں جو باہم ملتی جلتی اور ایک ہی نسل کی دو شاخیں معلوم ہوتی تھیں، ایک بھر اور اور دوسری پانسیؔ۔

    انہیں لوگوں کا سید سالار مسعود غازیؔ سے 459 محمدی (1030ء) میں مقابلہ ہوا اور غالباً انہیں پر بختیار خلجی نے 631 محمدی ( 1202ء) میں چڑھائی کی تھی۔ لہٰذا اس سرزمین پر جو مسلمان خاندان پہلے پہل آکے آباد ہوئے وہ انہیں دونوں حملہ آوروں خصوصاً سید سالار مسعود غازی کے ساتھ آنے والوں میں سے تھے۔

    بھرؔ اور پانسیوں کے علاوہ برہمن اور کایستھ بھی یہاں سے پہلے موجود تھے، ان سب لوگوں نے یہاں مل کے ایک چھوٹا سا شہر بسا لیا اور امن و امان سے رہنے لگے۔

    لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس بستی کا نام لچھمن پور سے بدل کر لکھنؤ کب ہو گیا۔ اس آخری مروّجہ نام کا پتا شہنشاہ اکبرؔ سے پہلے نہیں چلتا۔ لیکن اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہندو اور مسلمانوں کی کافی آبادی پہلے سے موجود تھی، جس کا ثبوت اس واقعہ سے ہو سکتا ہے، جو شیوخِ لکھنؤ کی خاندانی روایتوں سے بہت پہلے سے موجود ہے کہ 969 محمدی ( 1540ء) میں جب ہمایوںؔ بادشاہ کو شیر شاہ کے مقابل جون پورؔ میں شکست ہوئی تو وہ میدان چھوڑ کے سلطان پور، لکھنؤ، پیلی بھیت ہوتا ہوا بھاگا تھا۔

    لکھنؤ میں اس نے صرف چار گھنٹے دم لیا تھا اور گو کہ شکست کھانے کے بعد آیا تھا اور کوئی قوّت و حکومت نہ رکھتا تھا مگر لکھنؤ کے لوگوں نے محض انسانی ہمدردی اور مہمان نوازی کے خیال سے اُن چند گھنٹوں ہی میں دس ہزار روپیہ اور پچاس گھوڑے اس کے نذر کیے تھے۔ اتنے تھوڑے زمانے میں اس سامان کے فراہم ہو جانے سے قیاس کیا جاسکتا ہے کہ ان دنوں یہاں معتدبہ آبادی موجود تھی۔ اور ان دنوں کا لکھنؤ آج کل کے اکثر قصبات سے زیادہ بارونق اور خوش حال تھا۔

    (اردو زبان کے نام وَر ناول نگار، مترجم اور کئی کتابوں کے مصنّف عبدالحلیم شرر کی کتاب گزشتہ لکھنؤ سے اقتباسات)

  • انسان بغیر فارسی پڑھے مہذب سوسائٹی میں بیٹھنے کے قابل نہیں ہو سکتا!

    انسان بغیر فارسی پڑھے مہذب سوسائٹی میں بیٹھنے کے قابل نہیں ہو سکتا!

    "گذشتہ لکھنو” عبد الحلیم شرر(1860 تا 1926) کے انشائیوں اور مضامین پر مشتمل کتاب ہے جو برصغیر کے مشہور شہروں کی تہذیب و ثقافت اور تمدن کی سرگزشت ہے۔ اس کتاب سے یہ اقتباس حاضر ہے جس میں شرر نے لکھنؤ کی ثقافت اور اس زمانے میں فارسی زبان کی اہمیت کا ذکر کیا ہے، ملاحظہ کیجیے۔

    "لکھنؤ میں فارسی کا مذاق جس قدر بڑھا ہوا تھا، اُس کا اندازہ لکھنؤ کی اردو زبان سے ہوسکتا ہے۔ جہلا اور عورتوں تک کی زبان پر فارسی کی ترکیبیں، بندشیں اور اضافتیں موجود ہیں۔ اور لکھنؤ کی زبان پر حملہ کرنے والوں کو اگر کوئی اعتراض اتنے دنوں میں مل سکا ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ اس میں فارسی اعتدال سے زیادہ بڑھ گئی ہے۔ لیکن اُس دور کے معیارِ ترقی کے لحاظ سے یہی چیز لکھنؤ کی زبان کی خوبی اور اُس کی معاشرت کے زیادہ بلند ہو جانے کی دلیل تھی۔ خود دہلی میں زبانِ اردو کی ترقی کے جتنے دور قائم کیے جائیں اُن میں بھی اگلے پچھلے دور کا امتیاز صرف یہی ہو سکتا ہے کہ پہلے کی نسبت بعد والے میں فارسی کا اثر زیادہ ہے۔

    مسلمانوں کی طرح ہندو بھی فارسی میں نمود حاصل کر رہے تھے۔ اگرچہ یہ امر دولتِ مغلیہ کے ابتدائی عہد سے ظاہر ہونے لگا تھا۔ اُس وقت بھی بعض نام ور و مستند فارسی دان اور فارسی گو موجود تھے مگر اودھ میں یہ مذاق انتہائی کمال کو پہونچ گیا۔ چنانچہ جیسے باکمال فارسی دان ہندو سوادِ لکھنؤ میں موجود تھے کہیں نہ تھے۔

    کایستھوں اور کشمیری پنڈتوں نے تعلیمِ فارسی کو اپنے لیے لازمی قرار دے لیا تھا۔ اور یہاں تک ترقی کی کہ کشمیری پنڈتوں کی تو مادری زبان ہی اردو ہو گئی۔ اور اُن کی اور مسلمانوں کی فارسی دانی میں بہت کم فرق تھا۔ کایستھ چونکہ یہیں کے متوطن تھے اس لیے اُن کی زبان بھاشا رہی۔ مگر تعلیم فارسی کی کایستھوں کے رگ و پے میں اس قدر سرایت کر گئی تھی کہ نہایت ہی بے اعتدالی اور بے ربطی کے ساتھ محاوراتِ فارسی کو استعمال کرنے لگے۔ جو بات کہیں کے ہندوؤں میں نہ تھی۔ اُن دنوں لوگ کایستھوں کی زبان کا مضحکہ اڑایا کرتے تھے۔ مگر سچ یہ ہے کہ بجائے مضحکہ اڑانے کے اُن کی قدر کرنی چاہیے تھی۔ اس لیے کہ اُن کی زبان اُن کی علمی ترقی کی دلیل تھی۔ جس طرح آج کل انگریزی لفظوں کے جا و بے جا استعمال کو انگریزی دان اپنی علمی ترقی کا ثبوت خیال کرتے اور نہایت بدتمیزی سے انگریزی الفاظ اپنی زبان میں بھرتے چلے جاتے ہیں۔

    لکھنؤ میں اُن دنوں فارسی کے صدہا نثار اور شاعر موجود تھے۔ اور اردو کی طرح برابر فارسی مشاعروں کا بھی سلسلہ جاری تھا۔ فارسی شرفا ہی نہیں عوام النّاس تک کا شعار و وثار بن گئی تھی۔ اور اب باوجودیکہ فارسی درباری زبان نہیں باقی رہی اور حکومت کی مسند پر اردو زبان قابض و متصرف ہو گئی ہے، مگر مہذب سوسائٹی پر آج تک فارسی کا سکہ جما ہوا ہے۔ اور عام خیال یہی ہے کہ فارسی مدارس و مکاتب سے نکل گئی اور تحصیلِ معاش کے لیے اس کی ضرورت نہیں باقی رہی مگر انسان بغیر فارسی پڑھے مہذب سوسائٹی میں بیٹھنے کے قابل نہیں ہو سکتا۔ اور نہ صحیح معنوں میں انسانِ کامل بن سکتا ہے۔

    انگلستان میں فرانس کی زبان کبھی درباری زبان تھی۔ اب اگرچہ مدت ہوئی کہ وہ دربار سے نکال دی گئی مگر معاشرت اور اخلاقی ترقی آج بھی وہاں بغیر فرانسیسی زبان کے سیکھے نہیں حاصل ہو سکتی۔ کھانے پینے، اٹھنے بیٹھنے، پہننے اوڑھنے، اور ہنسنے بولنے، غرض زندگی کے تمام اسلوبوں پر فرانسیسی کی حکومت اب تک ویسی ہی موجود ہے۔ اور لڑکیاں بغیر فرنچ زبان حاصل کیے شائستہ بیبیاں نہیں بن سکتیں۔ یہی حال لکھنؤ کا ہے کہ فارسی دربار سے گئی، خط و کتابت سے گئی، مگر معاشرت کے تمام شعبوں پر اب تک حکومت کر رہی ہے۔ اور بغیر فارسی کی تعلیم پائے نہ ہمارا مذاق درست ہو سکتا ہے اور نہ ہمیں بات کرنے کا سلیقہ آ سکتا ہے۔

    مٹیا برج (کلکتہ) میں آخری محروم القسمت تاجدارِ اودھ کے ساتھ جو چند لوگ وہاں کے سکونت پذیر ہو گئے تھے اُن میں کوئی پڑھا لکھا نہ تھا جو فارسی نہ جانتا ہو۔ دفتر کی زبان فارسی تھی، اور ہندو مسلمانوں میں صدہا فارسی گو شاعر تھے۔ عورتیں تک فارسی میں شعر کہتی تھیں۔ اور بچّہ بچّہ فارسی زبان میں اپنا مطلب ادا کر لیتا تھا۔

    موجودہ لکھنؤ میں اگرچہ فارسی کی تعلیم بہت کم ہو گئی ہے اور ہندوؤں نے تو اُسے اس قدر چھوڑ دیا کہ وہ کایستھوں کی زبان ہی خواب و خیال ہو گئی جس کا زبان دانی کی صحبتوں میں مضحکہ اڑایا جاتا تھا۔ اور بھانڈ تک اُسی فارسی آمیز زبان کی نقلیں کرتے تھے۔ مگر پھر بھی پرانے بزرگوں اور خصوصاً مسلمانوں میں بہت کچھ فارسی کا مذاق موجود ہے۔ ”