Tag: عبدالحمید عدم

  • جب عدم سگریٹ سلگا کر واپس گھر کی طرف چل پڑے

    جب عدم سگریٹ سلگا کر واپس گھر کی طرف چل پڑے

    عبدالحمید متخلص بہ عدمؔ اردو کے قادر الکلام اور زود گو شاعر تھے۔ ایک دور تھا جب وہ بطور رومانوی شاعر بہت مقبول رہے۔ مختصر بحروں میں عدم کا کلام سلاست و روانی کا نمونہ ہے۔

    یہاں ہم جمیل یوسف کی کتاب ’’باتیں کچھ ادبی کچھ بے ادبی کی‘‘ سے ایک پارہ نقل کر رہے ہیں جو دل چسپ بھی ہے اور عدم کی شخصیت، ان کے مزاج سے متعلق ہے۔

    عدم ان دنوں راولپنڈی میں تھے اور ملٹری اکاؤنٹس کے دفتر میں افسر تھے۔ صادق نسیم بھی اسی دفتر میں ملازم تھے۔ دونوں کا ٹھکانہ قریب قریب تھا۔ وہ صبح سویرے اکٹھے دفتر کے لیے پاپیادہ نکل کھڑے ہوتے تھے۔

    صادق نسیم نے لکھا ہے کہ ایک صبح دفتر جاتے ہوئے انہیں ہوا کی تندی کا سامنا کرنا پڑا جو سامنے سے ان پر گویا جھپٹ رہی تھی۔ عدم نے چلتے چلتے سگریٹ نکالا اور دیا سلائی سے اُسے سلگانے کی کوشش کی مگر ہر دفعہ تیز ہوا دیا سلائی کو بجھا دیتی۔ اس پر عدم نے پورا یو ٹرن لے کر اپنی پیٹھ ہوا کی طرف کر کے سگریٹ سلگایا تو وہ سلگ اٹھا۔ اس پر وہ دوبارہ اپنا رخ دفتر کی طرف کرنے کی بجائے مزے سے سگریٹ کے کش لگاتے ہوئے واپس گھر کی طرف چل پڑے۔ اس پر صادق نسیم نے پکار کے کہا ’’حضور! دفتر اس طرف ہے۔‘‘ عدم کہنے لگے۔ ’’ہوا مخالف ہے۔ مجھ سے دفتر نہیں جایا جاتا۔‘‘

    صادق نسیم تو دفتر کی طرف بڑھ گئے مگر عدم واپس گھر جا پہنچے۔

    فرصت کا وقت ڈھونڈ کے ملنا کبھی اجل
    مجھ کو بھی کام ہے ابھی تجھ کو بھی کام ہے

  • عبدالحمید عدمؔ: جب کوٹھے پر ایک مغنیہ نے ان کی مشہور غزل چھیڑی

    عبدالحمید عدمؔ: جب کوٹھے پر ایک مغنیہ نے ان کی مشہور غزل چھیڑی

    اردو زبان کے مقبول رومانوی شاعر عبدالحمید عدمؔ کو قادر الکلام اور زود گو شاعر کہا جاتا ہے۔ عدم نے غزل جیسی مقبول صنف کو مختصر بحروں کے انتخاب‌ کے ساتھ خوب برتا۔ ان کا انداز سادہ مگر دل نشیں ہے اور سلاست و روانی ان کے کلام کی وہ خوبی ہے جس نے انھیں ہم عصروں‌ میں انفرادیت بخشی۔

    عبدالحمید عدم کے متعدد اشعار زبان زدِ عام ہوئے۔ یہ اشعار ملاحظہ کیجیے۔

    ہم مے کدے کی راہ سے ہو کر گزر گئے
    ورنہ سفر حیات کا کتنا طویل تھا

    شاید مجھے نکال کے پچھتا رہے ہوں آپ
    محفل میں اس خیال سے پھر آگیا ہوں میں

    عدمؔ خلوص کے بندوں میں ایک خامی ہے
    ستم ظریف بڑے جلد باز ہوتے ہیں

    عبدالحمید عدم 10 مارچ 1981ء کو طویل علالت کے بعد لاہور میں وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔ یہاں ہم جمیل یوسف کی کتاب ’’باتیں کچھ ادبی کچھ بے ادبی کی‘‘ سے ایک واقعہ نقل کررہے ہیں جو عدم کی شخصیت اور ان کی مقبولیت سے متعلق ہے۔ یاد رہے کہ عدم بھی اکثر شعرا کی طرح مے نوش تھے اور اسی باعث ان کی عراقی نژاد بیوی نے ان سے علیحدگی اختیار کرلی تھی۔

    ایک شام میں نے عدم صاحب سے کہا، ’’عدم صاحب! یہاں ہیرا منڈی میں ایک گانے والی آپ کی غزلیں بڑے شوق سے گاتی ہے۔ اس کی دلی خواہش ہے کہ اُسے کبھی آپ کے سامنے بیٹھ کر اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کا موقع ملے۔‘‘

    کہنے لگے ’’یہ کیسے ہو سکتا ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ میں آپ کو اس گانے والی کے کوٹھے پر لے جاؤں۔ اگر آپ کو اس کی گائیکی پسند آ گئی اور آپ کو وہ محفل اچھی لگی تو میں بتا دوں گا کہ آپ سید عبدالحمید عدم ہیں ورنہ آپ کا تعارف کرائے بغیر وہاں سے اٹھ آئیں گے۔ کچھ سوچ بچار کے بعد عدم صاحب راضی ہو گئے۔ ہم کوٹھے پر جا پہنچے۔ جونہی میرے پیچھے لڑکھڑاتے ہوئے جھومتے جھامتے عدم صاحب تشریف لائے، اُن لوگوں نے فوراً انہیں پہچان لیا۔ ساز و آواز یک لخت خاموش ہوگئے۔ گانے والی پہلے تو اپنی بڑی بڑی آنکھیں کھول کر حیرت سے عدم صاحب کو دیکھنے لگی پھر ایک دم اٹھ کر ان کے پاس آکر جھکی، ان کے پاؤں کو چھوا، اور ان کے ساتھ ہاتھ باندھ کر کھڑی ہو گئی۔

    میں نے عدم صاحب کو بیٹھنے کو کہا۔ ایک بڑی بی نے عدم صاحب کو مخاطب کر کے کہا، ’’شاہ جی! تشریف رکھیں۔ یہ آپ نے بڑا کرم کیا جو ہم غریبوں کے گھر آئے ہیں۔‘‘

    گانے والی کا چہرہ تو شرم و حیا سے لال ہو رہا تھا۔ میں حیران ہوا کہ بازار میں بیٹھی ہوئی ایک گانے والی عدم صاحب سے شرما رہی ہے۔ عدم صاحب بالکل خاموش، پھٹی پھٹی نظروں سے سب کو دیکھ رہے تھے۔ کمرے میں کچھ دیر بالکل سکوت طاری رہا۔ پھر میں نے اس گانے والی سے کہا، ’’تمہیں بڑا شوق تھا کہ عدم صاحب کو ان کی غزلیں سناؤ۔ اب اپنا شوق پورا کر لو۔‘‘ پان اور کوک وغیرہ سے خاطر تواضع ہونے لگی۔ میں نے عدم صاحب پر نظر ڈالی۔ وہ بالکل گم صم بیٹھے تھے۔ جیسے وہاں موجود ہی نہ ہوں۔

    بڑی بی نے کہا ’’شاہ جی فرمائیں۔ آپ کیسے ہیں۔‘‘ اس پر عدم تو بدستور خاموش رہے۔ میں نے کہا، ’’شاہ صاحب نے کیا فرمانا ہے۔ ہم تو سننے آئے ہیں۔ آپ عدم صاحب کو ان کی کوئی غزل سنوائیں۔‘‘ کچھ توقف کے بعد طبلے پر اچانک تھاپ پڑی اور ساز و آواز گونج اٹھے۔ اُس حسینہ نے سب سے پہلے عدم کی یہ مشہور غزل چھیڑی۔

    یہ باتیں تری، یہ فسانے ترے
    شگفتہ شگفتہ بہانے ترے

    یہ محفل دیر تک جمی رہی۔ عدم صاحب مبہوت بیٹھے رہے۔ زبان سے کچھ نہ بولے۔

  • عبدُالحمید عدم: قادرُالکلام، مقبولِ عام شاعر

    عبدُالحمید عدم: قادرُالکلام، مقبولِ عام شاعر

    عدم کا شمار اردو کے چند مقبول ترین غزل گو شعرا میں‌ ہوتا ہے۔ سہلِ ممتنع کے ساتھ سادہ مگر نہایت دل نشیں پیرایۂ اظہار عدم کی پہچان ہے۔

    ’’نقشِ دوام‘‘ عدم کا اوّلین مجموعۂ کلام تھا۔ بعد میں ان کی شاعری ’خرابات‘، ’چارۂ درد‘، ’زلفِ پریشاں‘، ’سروسمن‘، ’گردشِ جام‘، ’شہرِ خوباں‘، ’گلنار‘، ’عکسِ جام‘، ’رم آہو‘، ’سازِ صدف‘، اور ’رنگ و آہنگ‘کے نام سے کتابی شکل میں شایع ہوئی۔

    عبدالحمید ان کا نام تھا اور تخلّص عدم۔ انھوں نے 10 مارچ 1981ء کو لاہور میں وفات پائی۔ آج عدم کی برسی ہے۔ اس قادرُ الکلام اور زود گو شاعر نے اپریل 1910ء کو تلونڈی موسیٰ خان، ضلع گوجرانوالہ میں آنکھ کھولی۔ تعلیم وتربیت لاہور میں ہوئی۔ بی اے پاس کیا اور ملٹری اکاؤنٹس کے محکمے میں ملازم ہوگئے۔ وہ اکاؤنٹس افسر کے عہدے سے ریٹائر ہوئے تھے۔

    اوائلِ عمر ہی سے عدم کو شعر و شاعری کا شوق تھا۔ اسی شوق میں ان پر کھلا کہ وہ موزوں طبع ہیں اور شاعری کا آغاز کیا تو داخلی جذبات اور رومانوی خیالات کے ساتھ غمِ دوراں کو نہایت پُرسوز انداز میں‌ اپنے اشعار میں‌ پروتے چلے گئے جس نے انھیں‌ عوام میں‌ مقبول بنا دیا۔ رندی و سرمستی کے مضامین ان کی شاعری میں‌ جا بجا ملتے ہیں جو روایتی نہیں‌ بلکہ معنی آفرینی اور ندرتِ خیال کے سبب مشہور ہیں۔

    عالمی شہرت یافتہ موسیقار اور گلوکار نصرت فتح علی نے بھی عبدالحمید عدم کا کلام گایا ہے جس میں ’’یہ جو ہلکا ہلکا سرور ہے، یہ تیری نظر کا قصور ہے….‘‘ سب سے مشہور ہے۔ اسی طرح طاہرہ سیّد کی آواز میں ان کی غزل ’’ وہ باتیں‌ تری وہ فسانے ترے، شگفتہ شگفتہ بہانے ترے‘‘ بہت مشہور ہوئی۔ عدم کے کئی اشعار زباں زدِ عام ہوئے اور ان کی غزلیں فلم کے لیے بھی ریکارڈ کی گئیں۔

    عبدُالحمید عدم کے چند اشعار ملاحظہ کیجیے۔

    ہم مے کدے کی راہ سے ہو کر گزر گئے
    ورنہ سفر حیات کا کتنا طویل تھا

    شاید مجھے نکال کے پچھتا رہے ہوں آپ
    محفل میں اس خیال سے پھر آگیا ہوں میں

    عدمؔ خلوص کے بندوں میں ایک خامی ہے
    ستم ظریف بڑے جلد باز ہوتے ہیں

    وہی شے مقصد‌ِ قلب و نظر محسوس ہوتی ہے
    کمی جس کی برابر عمر بھر محسوس ہوتی ہے

    ہم نے تمہارے بعد نہ رکھی کسی سے آس
    اک تجربہ بہت تھا بڑے کام آ گیا

  • اس کا مطلب ہے خدا موجود ہے!

    اس کا مطلب ہے خدا موجود ہے!

    عبدالحمید عدمؔ اردو زبان کے مقبول رومانوی شاعر ہیں۔ عدم نے غزلوں میں اپنے جذبات کا اظہار کرنے کے لیے مختصر بحروں کا انتخاب‌ کیا۔ ان کا سادہ مگر دل کش اندازِ بیاں انھیں دیگر شعرا سے جدا کرتا ہے۔ عدم کا کلام سہلِ ممتنع کا عمدہ نمونہ ہے۔ ان کے متعدد اشعار زبان زدِ عام ہوئے اور یہ شعر تو آپ کو بھی یاد ہو گا۔

    شاید مجھے نکال کے پچھتا رہے ہوں آپ
    محفل میں‌ اس خیال سے پھر آگیا ہوں میں

    عدمؔ کی ایک غزل آپ کے ذوق کی تسکین کے لیے پیش کی جارہی ہے۔

    آگہی میں اک خلا موجود ہے
    اس کا مطلب ہے خدا موجود ہے

    ہے یقیناً کچھ مگر واضح نہیں
    آپ کی آنکھوں میں کیا موجود ہے

    بانکپن میں اور کوئی شے نہیں
    سادگی کی انتہا موجود ہے

    ہے مکمل بادشاہی کی دلیل
    گھر میں گر اک بوریا موجود ہے

    اس لیے تنہا ہوں میں گرمِ سفر
    قافلے میں رہنما موجود ہے

    ہر محبت کی بنا ہے چاشنی
    ہر لگن میں مدعا موجود ہے

    ہر جگہ، ہر شہر، ہر اقلیم میں
    دھوم ہے اس کی جو ناموجود ہے

    جس سے چھپنا چاہتا ہوں میں عدمؔ
    وہ ستم گر جا بہ جا موجود ہے