Tag: عبداللطیف ابو شامل

  • آدمی کہتے ہیں‌ جس کو….(لیاری کے ایک مزدور کی کہانی)

    آدمی کہتے ہیں‌ جس کو….(لیاری کے ایک مزدور کی کہانی)

    مصنف: عبداللطیف ابُوشامل

    عجیب بے تکا انسان ہے وہ۔ لوگ مارے مارے پِھر رہے ہیں، اپنی سہولتوں میں اضافے کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہیں اور وہ سب سے الگ تھلگ اپنی زندگی آپ جی رہا ہے۔

    وہ میرا دوست ہے، داد محمد بلوچ، جسے ہم سب بہت پیار سے دادُو کہتے ہیں، بہت عزیز دوست۔ لیکن میں اس سے بہت تنگ ہوں اور مجھے اس کی ایک عادت سے چڑ ہے۔

    ہم سب اتنی آسودگی میں بھی پریشان ہیں اور وہ پریشانی میں بھی مطمئن ہے۔ آپ یہ نہ سمجھیں کہ وہ کوئی بہت بڑا طرّم خان ہے۔ ارے بھئی، وہ بہت معمولی سا انسان ہے۔ لیاری میں دو کمروں کے گھر میں یوں رہتا ہے جیسے بہت بڑے محل میں رہتا ہو۔ پانی، فون نہ فریج اور تو اور اس کے مکان کی چھت بھی شیٹوں کی ہے۔ اتنی گرمی کہ خدا کی پناہ۔ اور جب کبھی میں اس سے ملنے جاتا ہوں، اسے مطمئن پاتا ہوں۔

    چلو اتنی سی بات بھی ہوتی کہ وہ اپنے حال میں مست ہے تو بھی مجھے اتنی تکلیف نہ ہوتی، وہ گاؤدی تو اپنے جیسے لوگوں کو اپنے حالات بدلنے پر اکساتا رہتا ہے، اپنی قسمت آپ بناؤ، حق مانگنے سے نہیں ملتا، حق چھیننا پڑتا ہے، اپنی محنت کا صحیح اجر طلب کرو، کوئی تم پر ظلم کرے تو اس کے سامنے ڈٹ جاؤ اور نہ جانے ایسی کتنی ہی بکواس۔

    ابھی کچھ دن پہلے میں اس کے گھر گیا تھا۔ مجھے دیکھتے ہی وہ چلایا۔
    ”اڑے، آگیا تم…… آج کدھر سے نازل ہوگیا؟ بیٹھو، بیٹھو۔“ کہہ کر اس نے اپنی بیوی کو آواز دی، ”اڑے صاحب لوگ آگیا نیک بخت، پانی وانی پلاؤ اس کو۔“

    ”بھائی سلام“ کے ساتھ ہی پیتل کے وزنی گلاس میں پانی میرے سامنے تھا۔
    ”اور بہن تم کیسی ہو…..؟“

    ”شکر ہے بھائی، بچہ لوگ کیسا ہے آپ کا…..؟“

    میں نے اسے سب کی خیریت سے آگاہ کیا۔ پانی کا گھونٹ لیتے ہی میں پھٹ پڑا، ”دادو، اتنا گرم پانی! اس میں روپے دو روپے کا برف ہی ڈال دیا کرو۔“

    ”ہاں صحیح بولتا ہے تم۔ باپ کا برف خانہ ہے ناں ادھر، اڑے پیتا ہے تو پیو، نہیں پیتا ہے تو پیاسا مرو، اپنا بھاشن اپنے پاس رکھو۔“

    میں نے گلاس پانی پیے بغیر نیچے رکھ دیا جسے وہ اٹھا کر غٹاغٹ پی گیا۔
    ”اور بولو خوار، کیا کرتا پڑا ہے آج کل تم…..“

    یار، بس وہی لکھنا پڑھنا اور کیا کروں، بہت پریشان ہوں گرمی سے۔“
    وہ بہت زور سے ہنسا۔

    ”اڑے، کدھر ہے گرمی؟ تمہارا گاڑی میں اے سی، گھر میں اے سی، دفتر میں اے سی، پھر کدھر ہے گرمی؟ تم لوگ کا بس نہیں چلتا کہ اپنے اندر بھی اے سی فٹ کرالو۔ اڑے تم لوگ ایک کام کرو۔ اپنا قبر میں بھی اے سی لگانا….!!

    اس کی ایسی ہی بکواس سے میں تنگ ہوں۔ اور سناؤ تم کیسی گزر رہی ہے؟

    ”اڑے، بس بہت مزے سے گزر رہا ہے، ہم بہت خوش ہے۔“

    کیا خوش ہے؟ کیا ہے بے تیرے پاس؟ پانی میں برف ڈالتا نہیں ہے اور بولتا ہے خوش ہے۔

    وہ پھر بہت زور سے ہنسا اور باہر نکل گیا۔ واپسی میں اس کے ہاتھ میں گنے کے رس سے بھرا ہوا گلاس تھا۔

    ”چلو بابو لوگ یہ پیو، ٹھنڈا ہے۔“

    یہ کہاں سے لے آیا….؟

    ”اڑے، باہر خان بھائی بیچتا ہے ناں۔“

    گلاس دھویا تھا یا ویسے ہی لے آیا گندے گلاس میں….؟

    ”اڑے پیو، زیادہ نخرا بند کرو۔ ادھر ہر چیز تم کو گندا لگتا ہے۔ تم لوگ کس مٹی کا بنا ہوا ہے۔ خود کو دیکھو۔ تم بڑا صاف ہے۔ کوئی صاف کپڑا پہن کر صاف نہیں ہوجاتا۔ صاف کرنا ہے تو اپنا دل کو صاف کرو…..“ اس نے میرے سینے پر زور سے ہاتھ مارتے ہوئے اپنی بکواس جاری رکھی۔

    اچھا اچھا اپنا بھاشن بند کر تُو۔

    ”ہاں، تم لوگ کو ہم جیسا کوئی شیشہ دکھاوے تو بہت تکلیف ہوتا ہے۔ اڑے، یہی ہے تم لوگ کا شکل، شیشے میں دیکھو، اوپر سے اچھا، اندر سے کالا۔“

    اور تم…؟

    ”اڑے، ہمارا کیا بات کرتا ہے، ہم اندر سے باہر سے کالا ہے۔ ہمارا سب کچھ کالا ہے۔ ہم کوئی لیکچر بازی تو نہیں کرتا ہے۔ بس جیسا ہے ویسا ہے۔ تم لوگ اندر کچھ باہر کچھ۔“ اچھا اچھا بند کر اپنی بکواس۔ اب میں چلتا ہوں۔

    ”کیدھر چلتا ہوں۔ ابھی بیٹھو، دو نوالہ روٹی کھاؤ، پھر جدھر غرق ہونا ہے، غرق ہوجاؤ۔“

    اس نے میرے موڈ کا جنازہ نکال دیا تھا، میں خاموش رہا تو وہ بولا، ”اچھا یار، یہ تو بولوِ نی کہ تم کیسے آیا تھا، ابھی ادھر لیاری میں تو کوئی آتا نہیں ہے، ہم لوگ کو تو سارا ملک میں ایک منصوبے کے تحت بدنام کیا ہوا ہے، اور مزے کا سنو یہاں جو کچھ ہوتا رہا ہے وہ سب جانتا ہے کہ کیوں ہوا، کیسے ہوا…؟“

    بس ویسے ہی تجھ سے ملنے کو جی چاہا تو آگیا۔

    ”اڑے، آفرین ہے تم پر، کوئی کام وام نہیں تھا؟“

    نہیں، کوئی کام نہیں تھا، بس ویسے ہی آگیا۔ میں اس سے ملنے نہیں گیا تھا، جس سے ملنے گیا تھا وہ گھر پر نہیں تھا۔ میں نے موقعے سے فائدہ اٹھایا اور اس سے ملنے پہنچ گیا، وہ اکثر میرے کام آیا ہے۔

    میں اور وہ ایک ہی اسکول میں پڑھتے تھے۔ وہ بچپن سے ایسا ہی ہے۔ مطمئن، آسودہ، پڑھنے لکھنے میں جی نہیں لگتا تھا، بہت مشکل سے میٹرک کیا اور پھر اپنے کام میں جُت گیا۔ اس کے والد کوئی معمولی آدمی نہیں ہیں وہ ایک ٹرانسپورٹر ہیں، مجھ سے کئی مرتبہ کہہ چکے ہیں اسے کہو انسان بن جائے۔ میں نے بہت دفعہ اس سے کہا کہ ابّا کا کہنا مان لے۔ کیوں ا پنی جان کا دشمن بنا ہوا ہے لیکن وہ نہ مانا۔

    ایک دن میں نے اسے بہت پریشان کیا تو کہنے لگا، ”تم میرے کو لکھ کر دیو کہ ہمارا باپ کا سارا کمائی حلال ہے، پھر ہم سوچیں گا۔“

    وہ صبح سویرے اپنی گدھا گاڑی لے کر روزی کی تلاش میں نکل جاتا ہے اور رات گئے گھر پہنچتا ہے۔

    ایک دن شام پانچ بجے تھے اور میں لی مارکیٹ سے گزر رہا تھا کہ میں نے اسے گھر جاتے دیکھ لیا۔ موقع اچھا تھا میں نے اسے آواز دی۔

    دادو، حرام خور، کام چور، اتنی جلدی گھر جارہا ہے۔

    اس نے اپنی گدھا گاڑی روکی، نیچے اتر کر مجھ سے بغل گیر ہوکر بولا۔
    ”اڑے، چائے پیے گا؟“ لیکن میں نے ٹھان لی تھی کہ آج اسے بہت ذلیل کروں گا، بالآخر وہ بتانے لگا۔

    ”یار ایسا بات نہیں ہے، آج جلدی اس لیے گھر جارہا ہوں کہ وہ میرا جوڑی دار ہے ناں، مراد۔“

    ”ام دونوں ایک ہی جگہ گدھا گاڑی کھڑا کرتا ہوں۔ صبح سے میں دیکھ رہا ہوں کہ اسے کام نہیں ملا۔ مجھے تو اتنے پیسے مل گئے ہیں کہ بس گزارہ ہو جائے گا، لیکن اگر میں بھی رات تک وہاں کھڑا رہتا تو اسے خالی ہاتھ گھر لوٹنا پڑتا۔ بس میں نے گھر جانے کا سوچا اور چلا آیا۔ اب کم از کم وہ وہاں اکیلا ہے، کوئی دو چار روپیہ کما ہی لے گا۔“

    میری آنکھیں اس دن بہت زور سے برسیں۔ گھر آتے آتے میری طبیعت خراب ہوگئی تھی۔ یہ ہے وہ دادُو۔ یہ ہے انسان جو اپنے منہ کا نوالہ بھی دوسروں کو دے رہا ہے اور ہم دوسروں کے منہ کا نوالہ بھی چھین رہے ہیں۔ مجھے خود سے نفرت ہوگئی ہے۔

  • "جب دیکھو ترقی…ترقی اور ترقی”

    "جب دیکھو ترقی…ترقی اور ترقی”

    بھاڑ میں جاؤ تم اور تمھاری ترقی۔ جب دیکھو ترقی، ترقی اور ترقی۔ کوئی اور بات ہی نہیں کرتا۔

    تو میں کیا غلط کہہ رہا ہوں، دیکھ نہیں رہا، اندھا ہوگیا ہے کتنی آسانی ہوگئی ہے۔ ہر میدان میں نت نئی ایجادات، اتنے بڑے بڑے فلائی اوورز، سڑکیں اور ان پر بھاگتی دوڑتی رنگ برنگی گاڑیاں۔

    رابطے کی تو دنیا ہی بدل گئی، اب آپ کہیں بھی نہیں چھپ سکتے۔ ایک چھوٹے سے آلے نے کتنی آسان کردی زندگی۔ دنوں کا فاصلہ گھنٹوں میں طے ہو رہا ہے۔ چھوٹے سے آئی پوڈ نے موسیقی کی دنیا بدل دی، ایک چھوٹے سے ڈبے نے خبروں کی دنیا میں انقلاب برپا کردیا۔ ای کامرس نے جدید معیشت کی بنیاد ڈال دی۔۔۔۔۔

    کتنے پرسکون اور تاب ناک ہوگئے ہیں ہمارے چہرے۔ ایک چھوٹے سے پلاسٹک کارڈ سے تم دنیا کی ہر شے خرید سکتے ہو۔ پیسے ہوں نہ ہوں کریڈٹ کارڈ ہو تو جو چاہو خریدو، پیسے بعد میں دو۔ ہر طرف معلومات کا سمندر، بڑے بڑے بورڈ۔ اور ان پر عوام کی آگہی کے لیے درج کردیا گیا، یہ دودھ اچھا ہے، یہ کپڑا اچھا ہے، یہ رنگ خوب صورت ہے، یہ برش عمدہ ہے۔ مقابلے کی کتنی پُرکشش دنیا تخلیق ہوگئی ہے۔ اور دیکھ میں تجھے بتاتا ہوں کہ۔۔۔۔۔

    بند کر اپنی بکواس، بہت سن لی میں نے۔ جا کسی اور کو یہ رام کتھا سنا۔ تیری ترقی تجھے مبارک۔ جا چاٹ جاکر اسے، مجھے تو ہر طرف، اندھیرا ہی اندھیرا، بربادی اور تباہی نظر آتی ہے۔ یہ سحر انگیز گفت گو بھی ایک فریب ہے۔ بڑا آیا مجھے سمجھانے۔ جا اپنا رستہ لے۔

    لیکن تجھے ہر طرف، اندھیرا ہی اندھیرا، بربادی اور تباہی کیوں دکھائی دے رہی ہے۔ تیرے کہنے سے تھوڑی اندھیرا ہوگا، بربادی ہوگی۔ اور سن آج کل تو طب کی دنیا میں بھی ترقی ہوگئی ہے۔ جدید طبی آلات اور دوائیں انسانی زندگی کو طول دینے، پُرلطف بنانے کی جستجو میں ہیں۔ مجھے تو لگتا ہے کہ تو نفسیاتی مسائل کا شکار ہوگیا ہے۔ کسی اچھے ماہر نفسیات سے مشورہ کرتے ہیں۔ اس میں بھی بہت ترقی ہوگئی ہے۔ تُو جلد صحت یاب ہوجائے گا اور پھر تُو بھی کہے گا ترقی ہوگئی۔

    تُو باز نہیں آئے گا نا۔ اگر یہ بیماری ہے تو مجھے بہت پیاری ہے۔ جاں سے زیادہ عزیز ہے یہ مجھے۔ چل اب یہاں سے۔

    تُو میری بات کیوں نہیں سمجھتا۔ یہ تو اور زیادہ خطرناک بات ہے کہ تو اسے بیماری بھی نہیں سمجھتا۔ قنوطی انسان۔ پاگل ہوگیا ہے تو اسی لیے تو ہلکان رہتا ہے، اداس رہتا ہے۔ میری مان آ چل میرے ساتھ تجھے لے چلوں کسی ماہر کے پاس۔

    اچھا۔ اب تو ایسے باز نہیں آئے گا۔ بیمار میں نہیں تو ہے ذہنی بیمار۔ تو اسے ترقی کہتا ہے۔ اتنی دیر سے سن رہا ہوں تیری بکواس، یہ بتا یہ ساری ترقی جسے تُو اور تیرے جیسے کوڑھ مغز ترقی کہتے ہیں، کس کے لیے ہے؟ انسان کے لیے نا۔ میں مانتا ہوں ترقی ہوگئی، لیکن انسان تو دکھوں کی دلدل میں دھنستا چلا جا رہا ہے۔ اتنی بڑی بھیڑ میں، ہجوم میں تنہا ہوگیا ہے۔ یہ ساری ترقی مٹھی بھر انسانوں کے شاطر ذہن کی پیداوار ہے، چند مٹھی بھر سرمایہ داروں نے دنیا کے ہر انسان کو جو آزاد پیدا ہوا تھا غلام بنالیا ہے۔۔۔۔۔

    ذہنی غلام، جسمانی غلام، ایسا سحر ہے اس کا کہ انسان غلامی کو غلامی ہی نہیں سمجھتا۔ اسے آزادی کا نام دے کر اترانے لگا ہے۔ بڑی بڑی کاریں، سڑکیں، آسائشیں انسان کو تن آسان بنا رہی ہیں اور تن آسانی انسان کو انسان نہیں رہنے دیتی۔ اسے بے حس خود غرض، مفاد پرست بناتی ہے۔ اشتہار کی دنیا انسان کو یہ سکھاتی ہے کہ کسی چیز کی ضرورت ہو، نہ ہو۔ ضرور خریدی جائے۔ یہ لے لو، وہ لے لو۔ اگر پیسے نہیں تو کریڈٹ کارڈ ہے۔ اس کے ذریعے خرید لو۔ اور پھر غلام بنے رہو۔ ان مٹھی بھر لوگوں نے انسان کو تباہ و برباد کردیا۔ لالچی بنا دیا۔ اسے ناامید کردیا۔ خوف زدہ کر دیا، انسان، انسان نہیں رہا پیسا کمانے اور خرچ کرنے کی مشین بن گیا۔۔۔۔۔

    یہ ایک مایا جال ہے جو سرمایہ داروں کے وحشی گروہ نے بُنا ہے، اسے پُرکشش بنایا ہے تاکہ دنیا کے معصوم اور آزاد انسان اس جال میں پھنس جائیں اور کوئی یہ سوچنے بھی نہ پائے کہ چند سرمایہ داروں نے دنیا بھر کے انسانوں کو غلام بنالیا ہے، بس ان کا کام چلتا رہے۔۔۔۔۔۔

    اصل ترقی انسان کو بامِ عروج تک پہنچاتی ہے۔ اسے زنجیروں سے آزاد کرتی ہے، لیکن یہ ترقی کے نام پر دھوکا ہے۔ اب کوئی سوچتا ہی نہیں کہ وہ کیوں اس دنیا میں آیا ہے؟ اسے کیا کرنا ہے؟ اس مصنوعی ترقی نے انسان کو تنہائی، اداسی، کرب، دکھوں کے جہنم میں دھکیل دیا، یہ سب آسائشیں ہوتے ہوئے بھی سب ناآسودہ ہیں، سب دُکھی ہیں۔ مصنوعی خوشی خوشی نہیں ہوتی۔ خوشی انسان کے اندر سے پھولتی ہے۔۔۔۔۔۔۔

    آزاد انسان حقیقی خوشی حاصل کرتا ہے، غلام نہیں۔ ہاں میں اس دن مان لوں گا جب انسان یہ سوچنے لگے گا کہ خود کو اس ہشت پا بلا سے کیسے چھڑایا جائے اور پھر وہ دن ہوگا سب سے عالی شان، جب دنیا کے وسائل پر قابض مٹھی بھر لوگوں سے وہ سب کچھ چھین لیا جائے گا جس پر دنیا بھر کے انسانوں کا حق ہے۔ ہاں پھر میں مان لوں گا ترقی ہوگئی، انسان نے خود کو پہچان لیا۔

    اچھا، اچھا بس کر، بہت ہوگیا تیرا بھاشن۔ نہ جانے کیسے کیسے قنوطی بستے ہیں اس دنیا میں، جو ترقی کو غلامی کہتے ہیں، مایا جال کہتے ہیں۔

    میں وہاں سے نکلنے لگا تو وہ بولا، ہر نئی ایجاد اپنے ساتھ ہزار فتنے بھی تو لائی ہے اس پر کب بات کرے گا؟

    مصنف عبداللطیف ابُوشامل نے اپنی اس کہانی کو "سراب” کا نام دیا ہے، جو ہماری ترقی اور مشینی دور کی آسانیوں‌ سے جھلکتی بدصورتی کو بے نقاب کرتی ہے
  • پاپا کسی ہنگامے کے دوران نہیں مرے تھے!

    پاپا کسی ہنگامے کے دوران نہیں مرے تھے!

    مصنف: عبداللطیف ابوشامل

    ان کے ابُو جنھیں وہ بہت پیار سے پاپا کہتے تھے کسی ہنگامے میں تو نہیں مرے تھے، رات کو اپنی پرانی سی موٹر سائیکل پر گھر آرہے تھے کہ پیچھے سے آنے والی تیز رفتار کار انھیں کچلتی ہوئی ہوا ہوگئی اور وہ دم توڑ گئے۔
    جب وہ صبح سویرے اپنی موٹر سائیکل کو ککیں مار کر بے حال ہوکر زمین پر بیٹھ جاتے تھے تو میں ان سے کہتا تھا کب اس کھٹارے کا پیچھا چھوڑیں گے؟ تو وہ مسکرا کر کہتے تھے:
    ”بس اسٹارٹ ہونے میں ضد کرتی ہے ویسے تو فرسٹ کلاس ہے، بڑا سہارا ہے اس کا، ورنہ تو بسوں کے انتظار اور دھکوں سے ہی دم توڑ دیتا۔“
    آخر موٹر سائیکل ایک بھیانک آواز سے دم پکڑتی اور وہ مسکراتے ہوئے اپنا بیگ گلے میں ڈالتے اور پھر رخصت ہوجاتے۔
    بہت محتاط تھے وہ۔ بہت عسرت سے جیتے تھے۔ بہت سلیقہ مند بیوی ہے ان کی۔ عید پر رات گئے گھر آتے تو میں پوچھتا:
    ”آج دیر ہوگئی۔“ ”ارے یار وہ چھوٹی والی ہے نا اس کی جیولری لے رہا تھا، وہ دو دن میں خراب ہوجاتی ہے، لیکن چھوٹی ضد کرتی ہے۔“
    بس اسی طرح کی زندگی تھی ان کی۔ اور پھر ایک دن وہ روٹھ گئے۔ مرنے سے ایک دن پہلے ہی تو انھوں نے مجھ سے کہا تھا:
    ”کچھ پیسے جمع ہوگئے ہیں، سوچ رہا ہوں اپنے ”گھوڑے“ کی فرمائش بھی پوری کر دوں، کچھ پیسے مانگ رہی ہے موٹرسائیکل۔“
    بندہ فرمائشیں پوری کرتے کرتے بے حال ہو جاتا ہے، لیکن خوش بھی کتنا ہوتا ہے! اپنے بچوں کو خوش دیکھ کر اپنی تھکن بھول جاتا ہے۔
    تین بیٹیاں، ایک بیٹا اور بیوہ۔ تین دن تو ٹینٹ لگا رہا اور عزیزوں کا جمگھٹا…. اور پھر زندگی کو کون روک سکا ہے! سب آہستہ آہستہ رخصت، گھر خالی، تنہائی، خدشات اور نہ جانے کیا کیا خوف۔ بیٹے نے رب کا نام لیا اور پھر ایک دفتر میں معمولی سی نوکری کرلی۔ اٹھارہ سال کا نوجوان جس نے ابھی فرسٹ ایئر کا امتحان دیا تھا۔ اور کیا کرتا! ماں نے سلائی مشین سنبھالی اور پھر زندگی سے نبرد آزما تھے وہ سب۔ بڑی بیٹی نے جیسے تیسے میٹرک کیا اور ایک گارمنٹس فیکٹری میں کام کرنے لگی۔ چھوٹی والی ٹیوشن پڑھاتی اور تیسری تو بہت چھوٹی تھی، ہنستی، کھیلتی بچی جو ہنسنا کھیلنا بھول گئی تھی۔
    بڑی بیٹی ایک دم بوڑھی ہوگئی تھی۔ ایک دن میں نے بڑی سے پوچھا:
    مجھے بتاؤ کیا ہوا ہے تمہیں؟ پھر تو سیلاب تھا. ”کیا کیا بتاؤں، صبح جاتی ہوں تو عجیب عجیب آوازیں، بے ہودہ فقرے، بسوں کے دھکے، اور پھر فیکٹری میں تو کوئی انسان ہی نہیں سمجھتا، واپس آؤ تو کئی کاریں قریب آجاتی ہیں، جن میں بیٹھے لوگ نہ جانے کیا کیا کہتے ہیں۔“
    ”جینا سیکھو“ بس میں اتنا کہہ سکا تھا۔ چھوٹی والی اسکول میں پڑھاتی تھی جس سے رجسٹر پر درج تنخواہ پر دست خط کرا کر اس سے نصف بھی نہیں دی جاتی تھی۔ باپ کے مرنے کے بعد سب کے سب زندگی سے نبرد آزما۔ کیا کیا مرحلے آئے ان پر! جی جانتا ہوں میں لیکن کیا کریں گے آپ سن کر؟
    میرا بدنصیب شہر نہ جانے کتنے جنازے دیکھ چکا ہے اور کتنے دیکھے گا، اس کی سڑکیں خون سے رنگین ہیں اور اس کے در و دیوار پر سبزہ نہیں خون ہی خون ہے۔ قبرستان بس رہے ہیں، شہر اجڑ رہا ہے۔ اب تو کوئی حساب کتاب بھی نہیں رہا کہ کتنے انسان مارے گئے۔ اور شاید یہ کوئی جاننا بھی نہیں چاہتا۔
    تحقیق و جستجو اچھی بات ہے، ضرور کیجیے۔ چاند ستاروں پر تحقیق کیجیے۔ زمین پر انسانیت کا قتل عام کیجیے اور چاند اور مریخ پر زندگی کے آثار تلاش کیجیے۔
    مجھ میں تو تحقیق کی صلاحیت ہی نہیں ہے۔ اور نہ ہی میں کوئی لکھا پڑھا آدمی ہوں۔ آپ میں تو ہے، تو کبھی اس پر بھی کوئی تحقیقی ادارہ بنا لیجیے۔ اس پر بھی اپنی محنت صرف کر لیجیے۔ ساری دنیا کو چھوڑیے، پہلے اپنی تو نبیڑ لیجیے۔ صرف اس پر تحقیق کر لیجیے کہ اس شہر ناپرساں و آزردگاں میں کتنے انسان بے گناہ مارے گئے اور اب ان کے اہل و عیال کس حال میں ہیں؟ وہ زندگی کا سامنا کیسے کرتے ہیں، ان کی نفسیاتی کیفیت کیا ہے، وہ کن مشکلات کا شکار ہیں؟ لیکن یہ کام کرے کون….؟
    اچھا ہے معصوم یتیم بچے کسی ہوٹل یا گیراج میں ”چھوٹے“ کہلائیں گے۔ ہماری جھڑکیاں سنیں گے۔ بیوہ ہمارے گھر کی ماسی بن جائے گی یا گھر گھر جاکر کپڑے لے کر انھیں سیے گی۔ جوان بہنیں دفتر یا فیکٹری کی نذر ہوجائیں گی، بھوکی نگاہیں انھیں چھیدیں گی، اور بدکردار کہلائیں گی۔ ان کے کانوں میں آوازوں کے تیر پیوست ہوتے رہیں گے۔ بوڑھا باپ کسی سگنل پر بھیک مانگے گا اور ماں دوا نہ ملنے پر کھانس کھانس کر مر جائے گی اور، اور، اور….
    اچھا ہی ہے، ہمیں چند ٹکوں میں اپنے کام کرانے کے لیے افرادی قوت میسر آجائے گی۔ اس سے بھی زیادہ اچھا یہ ہے کہ ان کا کوئی پوچھنے والا نہیں ہوگا۔ ہمیں کھل کھیلنے کے وسیع مواقع میسر آئیں گے اور ہم ٹھاٹ سے جیے جائیں گے۔
    پیٹ کا گڑھا تو روٹی مانگتا ہے یارو۔ اے دانش ورو، اے منبر و محراب سجانے والو! تمہارے لیکچر، تمہارے پند و نصائح اور تمہاری ”حق گوئی“ کسی ایک کا پیٹ نہیں بھر سکتی، چاہے کتنی محنت سے اپنے مقالات لکھو، چاہے کتنی قرأت سے وعظ فرمالو۔ پیٹ کا گڑھا تو روٹی مانگتا ہے یارو۔
    وہ دیکھ رہا ہے، تو بس پھر کیا ہے، خالق و مالک تو وہی ہے، ہم کیا کہیں گے اس سے کہ جب مظلوم کا خون آلود جسم مٹی چاٹ رہا تھا تب ہم کیا کر رہے تھے!
    نہیں رہے گا کوئی بھی، میں بھی اور آپ بھی، بس نام رہے گا اللہ کا۔
    فقیروں سے خوشامد کی کوئی امید مت رکھنا
    امیرِ شہر تو تم ہو‘ خوشامد تم کو کرنا ہے

  • میرے مولا اپنی امانت واپس لے لے!

    میرے مولا اپنی امانت واپس لے لے!

    عبداللطیف ابو شامل
    باپُو باتیں بہت مزے کی کرتے ہیں۔ سادہ اور دل نشیں۔ باپوُ پہلے ایک وکیل کے پاس مُنشی ہوا کرتے تھے، پھر کسی کمپنی میں بھرتی ہوگئے اور پھر ریٹائر، اس کے بعد بھی چین سے نہیں بیٹھے۔

    کہیں سے ٹائروں کی مرمت کا کام سیکھ لیا اور اب تک یہی کر رہے ہیں، بچوں کو پڑھایا لکھایا ان کی شادیاں کیں لیکن کسی کے دست نگر نہیں رہے۔ آزاد منش اور درویش۔ لیاری کی ایک خستہ حال سڑک پر اپنی دکان سجا لیتے ہیں۔ سیدھا سادہ سا لباس پہنتے ہیں، بہت کم خوراک، کبھی کبھی تو یوں لگتا ہے باپُو بغیر کھائے پیے زندہ ہیں۔
    ایک دن میں نے پوچھا، باپُو کچھ کھاتے پیتے بھی ہیں آپ۔ ……!
    مسکرائے اور کہنے لگے، تُو کیا سمجھتا ہے، میں فرشتہ ہوں کیا۔ میں انسان ہوں، انسان، کھاتا پیتا جیتا جاگتا۔
    کیا جو کھائے پیے اور جیے وہ انسان ہوتا ہے؟ میں نے پوچھا۔ اب تُو دوسری طرف جارہا ہے، سیدھی طرح کیوں نہیں کہتا کہ آؤ باپُو بات کریں۔

    دیکھ کھاتے پیتے تو جانور بھی ہیں۔ لیکن انسان دوسروں کو اپنے کھانے پینے اور جینے میں شریک کرتا ہے۔ دوسرے کا دکھ درد اپنا سمجھ کر محسوس کرتا ہے۔ کوشش کرتا ہے زندگی کے چار دن سب ہنس کھیل کر گزار دیں۔ سب سکھی رہیں۔ دکھ درد ختم ہوں، راحت اور آرام آئے۔ سب نہال رہیں۔

    انسان کا وجود انسانوں کے لیے نہیں جانوروں کے لیے، پرندوں کے لیے حتیٰ کہ درختوں اور زمین کے کیڑے مکوڑوں کے لیے بھی باعث رحمت ہوتا ہے۔ ارے پگلے، وہ ہوتا ہے انسان، زمین پر اتارا گیا انسان۔ دریا دل اور سخی، بس اس کی گدڑی میں لعل ہی لعل ہوتے ہیں۔ بانٹتا چلا جاتا ہے اور دیکھ جو بانٹتا ہے اس کے پاس کبھی کم نہیں ہوتا۔
    کیوں….؟ میں نے پوچھا۔
    اس لیے کہ کائنات کا خالق بھی یہی کرتا ہے۔ خزانے لٹاتا رہتا ہے۔ ہر ایک کو دیتا ہے۔ ہر ایک کی ضرورت پوری کرتا ہے جب انسان یہ کرنے لگے تو خدا اس کی مدد کرتا ہے۔

    وہ اپنے پیسے پر، اپنی لیاقت پر، اپنی ذہانت پر، اپنی طاقت پر بھروسا نہیں کرتا، وہ تو بس اپنے رب پر بھروسا کرتا ہے، وہ تیرا مکرانی دوست کیا اچھی بات کہتا ہے۔
    کون سی بات باپُو؟
    وہی دانے اور چونچ والی۔
    ہاں ہاں یاد آیا مجھے، داد محمد جسے ہم سب پیار سے دادُو کہتے ہیں، کہتا ہے۔
    ”جس مالک نے چونچ دیا ہے وہ دانہ بھی دیں گا، ورنہ اپنا دیا ہوا چونچ بھی واپس لے لیں گا نیں، جس دن دانا ختم تو چونچ بھی واپس۔“

    دیکھ کیسی اچھی بات کہتا ہے وہ۔ اپنے رب پر بھروسا اسے ہی کہتے ہیں، مولا پر توکل کہ ملے گا ضرور ملے گا، دیر تو ہوگی، پر ملے گا ضرور۔ کیوں نہیں ملے گا وہ تو سارے جہانوں کی ساری مخلوق کو پالتا ہے۔ تجھ سے کیا دشمنی ہے اس کی، اس کی تو سب سے دوستی ہے، سب کو دیتا ہے، دے گا۔ تو انسان اسے کہتے ہیں جو اپنے پالن ہار کی صفات اپنائے، سخی ہو، رحم دل ہو، معاف کردیتا ہو، سب کے لیے اچھا چاہے، کوئی بھی ہو، کہیں کا بھی ہو، کسی بھی مذہب کا ہو، برائی کے پاس نہ جائے اور بُرے کو بھی سینے سے لگائے، اسے سمجھائے، دیکھ تُو اچھا ہے، تیرا فعل اچھا نہیں ہے۔ چھوڑ دے اسے، نیکی کر اچھائی پھیلا، خوشیاں بانٹ۔

    اور باپُو اگر کسی کے پاس دینے کے لیے کچھ بھی نہ ہو تو….؟
    یہ تجھے کیا ہوگیا؟ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ انسان ہو اور اس کے پاس دینے کو کچھ نہ ہو۔ چڑیا کے پاس چہچہانا ہے، چہچہاتی ہے۔ کوئل کوکتی ہے، کتا انسان کی رکھوالی کرتا ہے، بکری، گائے، بھینس دودھ دیتی ہے تو دنیا جہاں کی نعمتیں بنتی ہیں۔ درخت سایہ دیتا ہے، پھل دیتا ہے اور پھر اس کی لکڑی سے دنیا جہاں کا ساز و سامان تیار ہوتا ہے، اب تُو جس جس چیز کے بارے میں سوچتا چلا جائے گا اس کی سخاوت تیرے سامنے آتی چلی جائے گی۔

    انسان تو مخلوق میں سب سے اعلیٰ ہے۔ اس کا وجود کائنات کی ساری مخلوق کے لیے رحمت ہے۔ رحمت ہی رحمت، چاہت ہی چاہت، وہ سب کو دیتا ہے۔
    لیکن باپُو اس کے پاس کچھ ہوگا تو دے گا۔……
    پھر ناسمجھی والی بات۔ ارے ناسمجھ تُو کیا سمجھتا ہے۔ دولت، پیسا، طاقت ہی سب کچھ ہے۔ نہیں۔ ہر چیز تو پیسے سے نہیں خریدی جاسکتی، تجھے یاد ہے وہ ایک ملنگ ہوتا تھا چاکی واڑہ میں، کیا نام تھا اس کا؟
    رحمو نام تھا اس کا باپُو، وہ جس کا ایکسیڈنٹ ہوگیا تھا۔
    ”ہاں ہاں وہی۔“
    باپُو، وہ بس ایک ہی بات کرتا تھا۔ ”سُکھ چین بنو، سُکھ چین بنو۔“
    دیکھ کیسی اچھی بات کرتا تھا وہ کہ سُکھ چین بنو، لوگوں کے لیے سُکھ چین بنو، تمہیں دیکھ کر دوسرے خوش ہوں۔ گڑ نہ دو تو گڑ جیسی بات کرو۔ نفرت کے سامنے محبت بن کر کھڑے ہوجاؤ۔ اپنے لوگوں میں جیو، انھیں بے یار و مددگار نہ چھوڑو۔ بس یہ ہوتا ہے انسان۔
    اور باپُو یہ جو ہر جگہ انسان انسان کو مارتا پھرتا ہے، وہ انسان نہیں ہوتا کیا…؟
    نہیں، بالکل نہیں۔ وہ کہاں سے انسان ہے چریے۔
    کیوں باپُو؟ انسان ہی تو ہوتا ہے۔
    تُو بہت نادان ہے، اتنی سی بات تیرے پلّے نہیں پڑ رہی۔ جو انسان دوسروں کو دکھ دے، قتل کردے، ان کی خوشیاں چھین لے، مسکراہٹیں چھین کر لوگوں میں رونا بانٹے، لوگوں کے لیے روگ بن جائے وہ انسان نہیں رہتا، انسانی روپ میں چلتی پھرتی مصیبت بن جاتا ہے اور مصیبت سے چھٹکارے کے لیے دعا کرنی چاہیے کہ ”اے میرے مولا اپنی امانت واپس لے لے۔“
    مجھے تو باپُو کی کوئی بات سمجھ میں نہیں آئی۔ آپ کو سمجھ میں آگئی ہے تو مجھے بھی سمجھائیے۔