Tag: عبدالماجد دریا بادی

  • اکبر، جن کا نام قہقہوں نے اچھالا، اور شہرت کو مسکراہٹوں نے چمکایا!

    اکبر، جن کا نام قہقہوں نے اچھالا، اور شہرت کو مسکراہٹوں نے چمکایا!

    لسانُ العصر اردو زبان کے نامور شاعر اکبر الہ آبادی کا لقب ہے۔ اکبر الہ آبادی نے اپنے دور میں اردو شاعری کو ایک نئی راہ دکھائی اور ان کا ظریفانہ کلام بہت مشہور ہوا۔ وہ مشرقیت کے دلدادہ تھے اور مغربی تہذیب کی کورانہ تقلید کے بڑے مخالف تھے۔

    غیرمنقسم ہندوستان کے مشہور عالمِ دین، بے مثل ادیب اور شاعر عبدالماجد دریا بادی نے ‘پیامِ اکبر’ یعنی حضرت اکبر الہ آبادی کی کلیاتِ سوم پر ایک مضمون رقم کیا تھا جس سے یہ اقتباسات ہمیں اکبر کی شخصیت اور ان کے فن کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔

    "لسانُ العصرحضرت اکبر مغفور زمانۂ حال کے ان چندر بزرگوں میں تھے جن کا مثل و نظیر کہیں مدتوں میں جا کر پیدا ہوتا ہے۔

    ان کی ذات ایک طرف شوخی و زندہ دلی اور دوسری طرف حکمت و روحانیت کا ایک حیرت انگیز مجموعہ تھی یا یوں کہیے کہ یک طرفہ معجون۔ آخر آخر ان کی شاعری نہ شاعری رہی تھی، نہ ان کا فلسفہ فلسفہ۔ ان کا سب کچھ بلکہ خود ان کا وجود مجسم حکمت و معرفت کے سانچہ میں ڈھل گیا تھا۔

    ان کی گفتگو جامع تھی حکمت و ظرافت کی، ان کی صحبت ایک زندہ درس گاہ تھی تصوف و معرفت کی۔ روز مرہ کے معمولی فقروں میں وہ وہ نکتے بیان کر جاتے کہ دوسروں کو غور و فکر کے بعد بھی نہ سوجھتے اور باتوں باتوں میں ان مسائل کی گرہ کشائی کر جاتے جو سال ہا سال کے مطالعہ سے بھی نہ حل ہو پاتے۔

    خوش نصیب تھے وہ جنہیں ان کی خدمت میں نیاز مندی کا شرف حاصل تھا۔ جن کی رسائی اس چشمۂ حیات تک نہ ہو سکی، انہیں آج اپنی نارسائی و محرومی پر حسرت ہے اور جن کی ہو چکی تھی انہیں یہ حسرت ہے کہ اور زیادہ سیراب کیوں نہ ہو لیے۔”

    عبدالماجد دریا بادی نے اکبر کی ظرافت و زندہ دلی کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا ہے۔

    "اکبر کی شہرت و مقبولیت کی سب سے بڑی نقیب ان کی ظرافت تھی، ان کے نام کو قہقہوں نے اچھالا، ان کی شہرت کو مسکراہٹوں نے چمکایا۔ ہندوستان میں آج جو گھر گھر ان کا نام پھیلا ہوا ہے، اس عمارت کی ساری داغ بیل ان کی شوخ نگاری و لطیفہ گوئی ہی کی ڈالی ہوئی ہے۔ قوم نے ان کو جانا مگر اس حیثیت سے کہ وہ روتے ہوئے چہروں کو ہنسا دیتے ہیں۔ ملک نے ان کو پہچانا مگر اس حیثیت سے کہ وہ مرجھائے ہوئے دلوں کو کھلا دیتے ہیں۔ اس میں ذرا کلام نہیں کہ اکبر ظریف اور بہت بڑے ظریف تھے۔ لیکن جس زمانہ کے کلام پر یہاں خصوصیت کے ساتھ تبصرہ مقصود ہے، یہ زمانہ ان کی ظرافت کے شباب کا نہ تھا۔ جب تک خود جوان رہے شوخ طبعی بھی جوان رہی۔ عمر کا آفتاب جب ڈھلنے لگا تو ظرافت کا بدرِ کامل بھی رفتہ رفتہ ہلال بنتا گیا۔ اب اس کی جگہ آفتابِ معرفت طلوع ہونے لگا۔ بالوں میں سفیدی آئی، صبحِ پیری کے آثار نمودار ہوئے، تو ظرافت نے انگڑائیاں لیں اور زندہ دلی کی شمع جھلملانے لگی۔ حکمت کی تابش اور حقیقت کی تڑپ دل میں پیدا ہوئی۔ جمال حقیقی کی جلوہ آرائیوں نے چشمِ بصیرت کو محوِ نظارہ بنایا۔ سوزِ عشق نے سینہ کو گرمایا، ذوقِ عرفان نے دل کو تڑپایا، اور نورِ معرفت کی شعاعیں خود ان کے مطلعِ قلب سے اس چمک دمک کے ساتھ پھوٹیں کہ تماشائیوں کی آنکھیں قریب تھا کہ چکا چوند میں پڑ جائیں۔

    لیکن ہے یہ کہ قسّامِ ازل نے ذہانت و فطانت، شوخی و زندہ دلی کی تقسیم میں ان کے لیے بڑی فیاضی سے کام لیا تھا۔ اس لیے پیرانہ سالی میں بھی ایک طرف ذاتی صدمات و خانگی مصائب کا ہجوم، اور دوسری طرف مشاغلِ دین و تصوف کے غلبہ کے باوجود یہ جذبات فنا ہرگز نہیں ہونے پائے۔ شمع جھلملا ضرور رہی تھی مگر بجھی نہ تھی یا آفتاب ڈھل ضرور چکا تھا مگر غروب تو نہیں ہوا تھا۔ بدر، ہلال بننے لگا تھا لیکن بے نور نہیں ہوا تھا، چمن سے بہار رخصت ہونے کو تھی تاہم خزاں کا سایہ بھی ابھی نہیں پڑنے پایا تھا۔ زندہ دلی نہ صرف قائم تھی بلکہ اس وقت کے ساتھ اس شدت کے ساتھ کہ دیوان پڑھنے والے متحیر اور کلام سننے والے ششدر رہ گئے۔”

    اکبر کے کلیات پر تبصرہ کرتے ہوئے مضمون نگار آگے لکھتے ہیں۔

    "اکبر ظریف تھے۔ ’’ہزال‘‘ و فحاش نہ تھے۔ دلوں کو خوش کرتے تھے۔ چہروں پر تبسم لاتے تھے۔ جذباتِ سفلی کے بھڑکانے کی کوشش نہ کرتے۔ ان کی ظرافت ہزل گوئی کے مترادف نہ تھی۔ اکثر صورتو ں میں معنویت سے لبریز ہوتی تھی، کہیں کہیں زبانی محاورہ، لفظی مناسبت، ترکیب کی ندرت قافیہ کی جدت کے زور سے شعر کو لطیفہ بنا دیتے تھے۔ سیاسی مسائل میں رائے بڑی آزاد رکھتے تھے لیکن جتنا کہہ جانے میں جری تھے، اتنا ہی سنانے میں چھاپنے میں پھیلانے میں محتاط تھے۔ قدم اتنا پھونک پھونک کر رکھتے کہ مخلصوں اور نیاز مندوں تک کو حیرت کی ہنسی آ جاتی۔ اور جو اتنے معتقد و باادب تھے وہ تو جھنجھلاہٹ میں خدا جانے کیا کچھ کہہ سن ڈالتے۔”

  • اردو کا ایک بدنام شاعر یا گنہگار شریف زادہ؟

    اردو کے مشہور شاعر اور مثنوی نگار نواب مرزا شوق کا زمانہ تھا 1773ء سے 1871ء کا اور وہ لکھنؤ کے صاحبِ حیثیت لوگوں میں شمار کیے جاتے تھے۔

    خاندان میں سبھی طب سے وابستہ تھے اور یہی پیشہ نواب مرزا نے بھی اختیار کیا۔ لکھنؤ میں ہر طرف شعر و سخن کا بول بالا تھا، اور مرزا بھی شاعر ہوئے۔ خواجہ آتش ؔ کو اپنا استاد بنایا۔ شوخی، عیش پسندی اور مزاج میں رنگینی لڑکپن ہی سے تھی۔ ان کا سرمایۂ حیات تین مثنویاں بتائی جاتی ہیں جو بہت مشہور ہیں، لیکن اخلاقی نقطۂ نظر سے قابلِ گرفت اور شرفاء کے لیے ناگوار ہیں۔

    عبدالماجد دریا بادی مرزا شوق کی وفات کے بیس برس بعد پیدا ہوئے تھے۔ وہ اپنے وقت کے جیّد عالمِ دین، بے مثل اور صاحبِ اسلوب ادیب ہوئے اور یہ پیشِ نظر مضمون انہی کا ہے جس میں دریا بادی صاحب نے لکھنؤ کے ماحول، ادبی فضا کا نقشہ کھینچا اور اپنے منفرد اور دل نشیں پیرایۂ اظہار کے ساتھ مرزا شوق کا احوالِ زیست، ان کا مذاقِ سخن بیان کرتے ہوئے ان کو اشعار میں ابتذال اور پست باتیں کرنے پر مطعون کیا ہے، لیکن مراز کے فنِ شعر گوئی اور زبان پر ان کے عبور کو بھی سراہا ہے۔

    یہاں ہم عبدالماجد دریا بادی کے اسی مضمون کو مختصر کر کے پیش کر رہے ہیں، وہ لکھتے ہیں:

    لکھنؤ ہے اور واجد علی شاہ ’’جانِ عالم‘‘ کا لکھنؤ۔ زمانہ یہی انیسویں صدی عیسوی کے وسط کا۔ آج سے کوئی ستّر پچھتر سال قبل۔

    ہر لب پر گل کا افسانہ، ہر زبان پر بلبل کا ترانہ، ہر سر میں عشق کا سودا، ہر سینہ میں جوشِ تمنا، ہر شام میلوں ٹھیلوں کا ہجوم، ہر رات گانے بجانے کی دھوم، یہاں رہس کا جلسہ، وہاں اندر سبھا کی پریوں کا پرا، ادھر زبان پر ضلع جگت اور پھبتیاں، ادھر گلے سے تانیں اور ہاتھوں سے تالیاں، گلی گلی ’’جنّت نگاہ فردوس گوش‘‘، چپہ چپہ ’’دامانِ باغبان و کفِ گل فروش۔‘‘ بڑے بڑے متین اور ثقہ، گویوں اور سازندوں کی سنگت میں، اچھے اچھے مہذب اور مقطع بھانڈوں اور ڈھاریوں کی صحبت میں سفید پوشوں کے دامن عبیر اور گلال کی پچکاریوں سے لالوں لال، جبّے اور عمامے والے، پیشوازوں کی گردش پر نثار۔ غرض یہ بیسویں صدی کی اصطلاح میں ’’آرٹ‘‘ اور ’’فائن آرٹ‘‘ کا دور دورہ، عشق کا چرچا، حسن کا شہرہ۔

    اس فضا میں ایک صاحب حکیم تصدق حسین نامی آنکھیں کھولتے ہیں۔ کوئی عالمِ دین نہیں، صوفی اور درویش نہیں، واعظ و مصلح نہیں۔ چونچلوں کے آدمی، یار باش، رندِ مشرب، اہلِ بزم کے خوش کرنے کو شعر و شاعری کا ساز لے کے بیٹھے تو انگلیاں انہیں پردوں پر پڑیں جن کے نغمے کانوں میں رچے ہوئے تھے اور منہ سے بول نکلے تو وہی، جن کے نقش دلوں میں جمے ہوئے تھے۔ غزلیں شاید زیادہ نہیں کہیں، کہی ہوں گی بھی تو اس وقت کسی کی زبان پر نہیں، تھوڑا بہت جو کچھ کہا۔ اس کا نمونہ ملاحظہ ہو،

    کہنے میں نہیں ہیں وہ ہمارے کئی دن سے
    پھرتے ہیں انہیں غیر ابھارے کئی دن سے
    اک شب مرے گھر آن کے مہمان رہے تھے
    ملتے نہیں اس شرم کے مارے کئی دن سے

    حکیم صاحب کی حکمت و طبابت سے یہاں غرض نہیں، شاعری کی دنیا میں حکیم صاحب کا نام نواب مرزا ہے اور تخلص شوقؔ اور ان کے نام کو قائم رکھنے والی ان کی غزلیں نہیں، مثنویاں ہیں۔ تذکروں میں ہے کہ خواجہ آتش کے شاگرد تھے، ہوں گے لیکن یہ مثنویاں یقیناً یا تو استاد کے بعد کی ہیں یا ان کی زندگی میں ان سے چرا چھپا کر کہی ہیں۔ ورنہ آتش کی نظر پڑنے کے بعد عجب نہیں کہ نذرِ آتش ہو جاتیں۔

    خواجہ آتشؔ کی متانت و ثقاہت کب اس کی روادار ہوتی کہ سعادت مند شاگرد آوارگی اور تماش بینی کی بولی ٹھولی میں وہ نام پیدا کر جائیں کہ تہذیب کی آنکھیں ان کا نام آتے ہی نیچی ہو جائیں، اور عریاں نگاری کے وہ شرارے چھوڑ جائیں کہ ان کی یاد کی چمک دمک قائم رہے بھی تو اسی روشنی میں۔

    بہرحال مثنویاں منسوب تو ان کی جانب کئی ایک ہیں لیکن لذّتِ عشق کی زبان قطعاً شوق کی زبان نہیں۔ اور فریبِ عشق بھی مشکل ہی سے ان کی تسلیم کی جا سکتی ہے۔ ہاں یہ ممکن ہے، نو مشقی کے زمانہ کی کوئی ابتدائی کوشش ہو۔ یقین کے ساتھ جن دو مثنویوں کو ان کی تصنیف تسلیم کیا جا سکتا ہے ان میں سے ایک کا نام بہارِ عشق ہے اور دوسری کا زہرِ عشق۔

    شہرتِ عام زہرِ عشق ہی کے نصیب میں ہوئی۔ دونوں میں نہ کوئی پلاٹ ہے اور نہ کوئی طلسم کشائی، نہ شاعر منبر پر بیٹھ کر اخلاق کا وعظ کہہ رہا ہے، نہ کالج کے لیکچر روم میں تحلیلِ نفسیاتی کر رہا ہے۔ اسے محض اپنی ہوس ناکی کی کہانی سنانی ہے، اوریہی وہ خوب مزہ لے لے کر سنا رہا ہے۔ پھر چوں کہ محض ’’آپ بیتی‘‘ ہی سنانی ہے، اس لیے جگ بیتی سنانے والوں کی طرح کسی دوسرے کو عاشق فرض کرنے کی بھی ضرورت نہیں پیش آتی ہے۔

    بہارِ عشق میں افسانہ کا انجام، شادی پر ہوتا ہے۔ پیشِ نظر نسخہ کانپور کے مطبع علوی علی بخش خاں کا چھپا ہوا ہے۔ 1277ھ بمطابق 1861 عیسوی کا یہ نسخہ نسبتاً صحیح ہے۔ حال کے مطبوعہ نسخے، علاوہ بہت زائد اغلاطِ مطبعی کے آخر سے ناقص بھی ہیں۔ شادی کا ذکر ان میں غائب ہے۔ کل نظم میں آٹھ سو سے اوپر شعر ہوں گے، اشعار کی خاصی بڑی تعداد ایسی ہے جو بزرگوں کے سامنے کیا، بے تکلف دوستوں کی صحبت میں بھی پڑھنے کے قابل نہیں۔ خدا معلوم ان ذات شریف سے لکھے کیوں کر گئے۔ کتاب کے شروع میں حسب دستورِ زمانہ بادشاہ کے مدح ہے اور سننے کے قابل ہے، ارشاد ہوتا ہے،

    نوبتِ مدحِ شاہ آئی ہے
    اے قلم وقتِ جبّہ سائی ہے
    کر رقم اب دعائے شاہِ زماں
    کہ ہے وہ ملکِ ہند کا سلطان
    آفتاب سپہر جاہ و حشم
    شاہ واجد علی شہِ عالم

    شاعر جس ماحول میں تھا اس میں اخلاق کی پستی، جذبات کی فرومائیگی، رکاکت، بے حیائی و عریاں نگاری کی کمی کچھ نہ تھی، حمام میں سب ہی ننگے تھے۔ آخر دربارِ اودھ کے شعرائے با کمال اور سخن گویانِ شیریں مقال میں کون اس میدان کا مرد نہ تھا؟ بایں ہمہ ان کاملوں کی سرداری کا تاج شوقؔ ہی کے سر پر رکھا گیا، اس بزم کی صدر نشینی نواب مرزا کے حصہ میں آئی، لیکن اس صدارت و سرداری کا نتیجہ جو کچھ ہوا، وہ بھی سب پر عیاں ہے۔

    آج اردو شاعری کی تاریخ میں کہیں اس غریب کے لیے کوئی جگہ ہے؟ اردو مشاہیر شعراء کی فہرست میں کسی نمبر پر ان کا نام آتا ہے؟ اکثر تذکرہ نویسوں نے ان کا یا ان کی مثنویوں کا ذکر تک بھی کیا ہے؟ شاعروں کا کوئی طبقہ آج تلمذ یا کسی دوسری حیثیت سے اپنا انتساب ان کی جانب پسند کرتا ہے، یا اس کے برعکس ان کا نام آتے ہی کچھ جھنیپ سا جاتا ہے اور بے اختیار اپنی تبری کرنے لگتا ہے؟ نقادانِ شعر کے حلقوں میں، سخن سنجوں کی صحبتوں میں، پڑھے لکھے اور شریف گھرانوں میں نواب مرزا شوقؔ اور ان کی مثنویوں کی کچھ بھی وقعت اور پرسش ہے؟

    جس طرح فرد ایک مخصوص طبیعت اور خاص مزاج رکھتا ہے، ہر قوم کا بھی ایک مخصوص مزاج ہوتا ہے، ہر تمدن کی بھی ایک مخصوص سرشت ہوتی ہے۔ قومی زندگی کی جو کارروائیاں اس عام مزاج و سرشت کے مخالف ہوتی ہیں، وہ کبھی قوم کے قوام میں نہیں داخل ہونے پاتیں، قومی تمدن کا مستقل نظام انہیں اپنے میں جذب کرنے، قبول کرنے اور اپنا جزو بنانے سے انکار کر دیتا ہے۔ نظامِ تمدن کا ایک بڑا مظہر ہر قوم کا شعر و ادب ہوتا ہے۔ شوقؔ کی کھلی ہوئی عریاں نگاری، مشرق کے ذوقِ سلیم کے مخالف تھی، بگڑی اور اجڑی ہوئی تہذیبِ اسلامی کے بھی منافی تھی، اس لیے اسلامی مشرق نے شوقؔ کی تمام دوسری شاعرانہ خوبیوں کے باوجود ان کے لیے اپنی فہرستِ مشاہیر میں کوئی جگہ نہ رکھی۔ اور نام کو بالکل ’’گم نام‘‘ ہونے سے بچا کر کھا بھی تو ’’بد نام‘‘ کر کے زندہ رکھا۔

    نواب مرزا کا شاہ کار بہارِ عشق نہیں زہرِ عشق ہے، اس کے نام کو بری یا بھلی جو کچھ بھی شہرت حاصل ہے، اسی زہرِ عشق کے طفیل ہے۔ یہ مثنوی بہار عشق سے چھوٹی ہے۔ کوئی پانچ سو شعر ہوں گے۔ بحر وہی، زبان وہی، طرزِ بیان وہی، لیکن درد و اثر کے اعتبار سے اس سے بڑھ چڑھ کر۔

    بہارِ عشق کا خاتمہ وصل کی شادمانی پر ہوا تھا۔ زہرِ عشق کا انجام ہیروئن کی خودکشی اور عاشق کے اقدامِ خودکشی پر ہوتا ہے۔

    مشرق کے بد نام سخن گو، اردو کے بدنام شاعر، رخصت! تو درد بھرا دل رکھتا تھا، تیری یاد بھی درد والوں کے دلوں میں زندہ رہے گی۔ تونے موت کو یاد رکھا، تیرے نام پر بھی موت نہ آنے پائے گی۔ تو نے غفلتوں اور سرمستیوں کی داستان کو خوب پھیلایا، شاید کسی کی رحمت بے حساب پر تکیہ کر کے لیکن انہی غافلوں اور سر مستوں کو موت و انجام کی یاد دلا دلا کر بھی خوب رلایا، کسی کی عظمتِ بے پایاں کا خوف کر کے۔ عجب کیا کہ خدائے آموزگار، اس عالَم کا ستّار اور اس عالَم کا غفار، تیری خطاؤں اور لغزشوں کو اپنے دامنِ عفو و مغفرت کے سایہ میں لے لے، اور تیرے کلام کے درد و عبرت، تیرے بیان کے سوز و گداز کا اثر بھی تجھے عطا کرے، اپنی ہی رحمت کی مناسبت سے، اپنے ہی کرم کے حساب سے!

  • عبدالماجد دریا بادی:‌ ایک ہمہ جہت شخصیت

    عبدالماجد دریا بادی:‌ ایک ہمہ جہت شخصیت

    بدقسمتی سے آج ہماری نئی نسل علم و ادب سے وابستہ ماضی کے اُن ناموں سے ناواقف ہے جنھوں‌ نے اپنی فکر اور قلم سے اردو زبان کو نکھارا اور ادب کو اپنی تحریروں سے مالا مال کیا۔ عبدالماجد دریا بادی بے مثل ادیب، شاعر، صحافی اور جیّد عالمِ دین تھے جنھوں نے اپنی تحریروں سے اصلاحِ معاشرہ کا کام لیتے ہوئے زبان و ادب کو فروغ دیا۔

    وہ 1892ء میں ضلع بارہ بنکی کے علاقے کے معزّز قدوائی خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کے دادا مفتی تھے جنھیں انگریز سرکار کے خلاف فتویٰ پر دستخط کے جرم میں قید خانے میں‌ ڈال دیا گیا تھا۔ گھر کا ماحول مذہبی تھا اور علمی و ادبی فضا جس میں عبد الماجد دریا بادی تعلیم و تربیت کے مراحل طے کرتے ہوئے سنِ شعور کو پہنچے تو خود بھی لکھنے لکھانے اور کسی معاملے پر رائے قائم کرنے کے قابل ہوچکے تھے۔ وہ بہت سی تنظیموں سے منسلک رہے جس نے ان کی فکری راہ نمائی اور تربیت بھی کی۔ ان میں اس وقت کے سیاسی اور سماجی حالات میں سر اٹھانے والی تحاریک شامل ہیں‌۔ تحریکِ خلافت، رائل ایشیاٹک سوسائٹی، لندن، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ، ندوۃُ العلماء، لکھنؤ، شبلی اکیڈمی، اعظم گڑھ جیسے ذہن ساز اور بامقصد اداروں یا انجمنوں سے ان کی وابستگی رہی۔ عبدالماجد دریا بادی عالمِ دین بھی تھے اور انگریزی کے ساتھ ساتھ اردو میں بھی قرآن کی جامع تفسیر بھی لکھی ہے۔

    عبد الماجد دریا بادی نے 6 جنوری 1977ء کو وفات پائی۔ مولانا طالبِ علمی کے زمانے ہی سے ایک دل پذیر شخصیت کے حامل تھے۔ وہ بہت اچھے اور محنتی طالب علم تھے۔ انھیں اپنی معلومات میں اضافہ کرنے کی سخت لگن تھی جس نے دینی کتب کے علاوہ بھی رسائل اور جرائد کے مطالعے پر آمادہ کیا اور وہ کتب بینی کی بدولت خود بھی لکھنے کی طرف راغب ہوئے۔

    ان کا اسلوب خوش سلیقہ ہے۔ ذہن صاف اور نفاست پسند ہے۔ وہ اردو کے صاحب طرزِ ادیب ہی نہیں ایک ناقد و مصلح بھی تھے۔ 1925ء میں انھوں نے اپنی صحافت کا باقاعدہ آغاز سچ کے اجرا سے کیا۔ اس کے ساتھ وہ اداریہ اور مستقل کالم بھی لکھنے لگے۔ مختلف عنوانات پر ان کے مضامین مختلف اخبار اور رسائل کی زینت بنے۔

    عبدالماجد دریا بادی کی متعدد کتابیں اور کئی تنقیدی، تاثراتی اور اصلاحی مضامین لائقِ‌ مطالعہ ہیں جب کہ ان کی شایع ہونے والی آپ بیتی کو بھی بہت پسند کیا گیا۔ انھوں نے قرآن، سیرت، سفر نامے، فلسفہ اور نفسیات پر پچاس سے زیادہ کتابیں لکھیں۔ وہ ایک اچھے مترجم بھی تھے اور بہت سی کتابوں کا اردو ترجمہ بھی کیا۔

  • مرزا رسوا کے قصے کچھ اِدھر سے کچھ اُدھرسے

    مرزا رسوا کے قصے کچھ اِدھر سے کچھ اُدھرسے

    مرنے کے دن قریب ہیں شاید کہ اے حیات
    تجھ سے طبیعت اپنی بہت سیر ہو گئی

    جس نے موت کو دعوت ان الفاظ میں 31، 32 سال قبل دی تھی، اس کی شمعِ حیات واقعتاً اکتوبر 1931ء میں گُل ہوکر رہی۔ موت کو جب آنا ہوتا ہے جب ہی آکر رہتی ہے۔

    شاعر کی طبیعت ممکن ہے حیات سے اسی وقت سیر ہو چکی ہو، لیکن خود حیات اس وقت شاعر سے سیر نہیں ہوئی تھی۔ موت تو جبھی آئی جب اسے آنا تھا اور جب آئی تو بہتوں نے یہ بھی نہ جانا کہ کس نام کے رسواؔ اور شعروادب کے رسیا کو اپنے ہم راہ لیتی گئی۔ سدا رہے نام اللہ کا۔

    بقا نہ کسی شاعر کو نہ شاعری کو، نہ ادب کو، نہ ادیب کو، کیسے کیسے افسانہ گو اور افسانہ نویس آئے اور کیسی کیسی مزے دار کہانیاں سنانے بیٹھے مگر، دیکھتے ہی دیکھتے خود انہیں کی زندگی افسانہ بن گئی۔ باقی رہنے والا بس جو ہے، وہی ہے۔

    ذاتِ معبود جاودانی ہے
    باقی جو کچھ کہ ہے وہ فانی ہے

    جو رونقِ محفل ہوتے ہیں وہ ایک ایک کرکے اٹھتے جاتے ہیں لیکن محفلِ کی رونق جوں کی توں! لسانُ العصر اکبر کے الفاظ میں،

    دنیا یونہی ناشاد یوں ہی شاد رہے گی
    برباد کیے جائے گی، آباد رہے گی

    ناول نویسی کی عمر اردو میں مرزا سوداؔ کی عمر سے بڑی ہے۔ سرشارؔ اور شررؔ اور دوسرے حضرات اپنے اپنے رنگ میں اس چمنِ کاغذی کی آب یاری شروع کر چکے تھے۔ کہنا چاہیے کہ انیسویں صدی عیسوی کے ساتویں اور آٹھویں دہے میں انگریزی ناول بھی اردو میں خاصی تعداد میں منتقل ہو چکے تھے جب کہیں جاکر مرزا محمد ہادیؔ، مرزاؔ لکھنوی بی اے نے انیسوی صدی کے نویں دہے میں اس کوچہ میں قدم رکھا۔

    آدمی پڑھے لکھے صاحبِ علم شریف خاندان سے تھے۔ شمار شہر کے متین و ثقہ طبقہ اور اہلِ علم میں تھا۔ ناول نویسی کا مشغلہ اس وقت تک کچھ ایسا معزز نہ تھا، غرض کچھ وضعِ قدیم کا پاس، کچھ اپنے علمی وقار کا لحاظ، داستان سرائی کرنے بیٹھے تو چہرہ پر ’’مرزا رسوا‘‘ کا نقاب ڈال لیا، حالاں کہ یہ نقاب تھا اتنا باریک کہ جو چاہے وہ ایک ایک خط و خال، ایک ایک بال باہر سے گن لے۔

    اردو میں ناول بہتوں نے لکھے، اچھے اچھوں نے لکھے، پَر ان کا رنگ سب سے الگ، ان کا انداز سب سے جدا، نہ ان کے پلاٹ میں ’’سنسنی خیزیاں‘‘ نہ ان کی زبان میں ’’غرابت زائیاں‘‘ نہ ان کے اوراق میں ’’برق پیمائیاں‘‘ اور نہ ’’کوہ تراشیاں‘‘ نہ ان کے الفاظ ’’ترنم ریز‘‘ نہ ان کی ترکیبیں ’’ارتعاش انگیز‘‘ نہ ان کی تصویرِ رزم میں ’’برق پاشیاں‘‘ نہ ان کی داستانِ بزم میں ’’ابتسام آرائیاں۔‘‘

    پلاٹ وہی روز مرّہ صبح و شام کے پیش آنے والے واقعات جو آپ ہم سب دیکھتے ہیں۔ زبان وہی گھر اور باہر کی ستھری اور نکھری بول چال جو ہم آپ سب بولتے ہیں۔ قصہ کے مقامات نہ لندن، نہ ماسکو، نہ برلن، نہ ٹوکیو۔ بس یہی لکھنؤ و فیض آباد، دہلیؔ و الٰہ آباد۔ افسانے کے اشخاص نہ لندھورؔ، نہ سند باد، نہ تاجُ الملوک نہ ملکہ زر نگارؔ، بس یہی حکیم صاحب اور شاہ صاحب، راجہ صاحب اور نواب صاحب، میر صاحب اور مرزا صاحب، عسکری بیگم اور عمدہ خانم، امراؤ جان اور بوا نیک قدم۔

    کہتے ہیں کہ صاحب کمال لاولد رہ جاتا ہے، اس کی نسل آگے نہیں چلتی۔ اپنے طرز کا موجد بھی یہی ہوتا ہے اور خاتم بھی وہی۔ مرزا سوداؔ کا بھی کوئی خلفِ معنوی آج تک پیدا نہ ہوا۔

    پیش رو اکثر اور معاصرین بیشتر تکلفات میں الجھ کر رہ گئے۔ رسواؔ تصنع سے پاک اور آورد سے بے نیاز۔ ابھی ہنسا رہے تھے، ابھی رلانے لگے۔ مزاح و گداز، سوز و ساز، شوخی و متانت سبھی اپنے اپنے موقع سے موجود، لیکن آمد و بے ساختگی ہر حال میں رفیق۔ شستگی و روانی ہر گوشۂ بساط میں قلم کی شریک۔ جو منظر جہاں کہیں دکھایا ہے، یہ معلوم ہوتا ہے کہ مرصع ساز نے انگوٹھی پر نَگ جڑ دیا ہے، ہر نقل پر اصل کا گمان، ہر عرض میں جوہر کا نشان، تصویر پر صورت کا دھوکا، الفاظ کے پردہ میں حقیقت کا جلوہ۔

    (یہ پارے جیّد عالمِ دین، بے مثل ادیب اور صحافی عبدالماجد دریا بادی کی تحریر سے لیے گئے ہیں جس میں انھوں نے اپنے وقت کے مشہور مصنّف اور ناول نگار مرزا ہادی رسوا کے فن و شخصیت کو سراہا اور تعریف کی ہے)