Tag: عبدالمجید سالک

  • ذکرِ رفتگاں: جب سالک صاحب نے علّامہ اقبال کو حدیث سنائی

    ذکرِ رفتگاں: جب سالک صاحب نے علّامہ اقبال کو حدیث سنائی

    اردو کے ممتاز ادیب، جیّد صحافی اور بلند پایہ خطیب آغا شورش کاشمیری کے قلم سے کئی شخصایت کے تذکرے اور خاکے نکلے ہیں جس سے ان کے فن و افکار کو سمجھنے کا موقع ملتا ہے۔ شورش نے ایک مضمون عبدالمجید سالک جیسے ممتاز شاعر و ادیب اور صحافی پر بھی لکھا تھا۔ وہ اس میں سالک کی زبانی شاعرِ مشرق علّامہ اقبال کا ایک واقعہ نقل کرتے ہیں جو آپ کے حسنِ مطالعہ کی نذر ہے۔

    ادبی مضامین اور اقتباسات پڑھنے کے لیے کلک کریں
    شورش لکھتے ہیں: ہر شخص کا اندازہ اس کے دوستوں سے کیا جاتا ہے۔ سالک صاحب اوائل عمر ہی سے جن لوگوں کے ساتھ رہے وہ قلم کے لیے مایۂ ناز تھے۔ اقبال، ابوالکلام، ظفر علی خاں، حسرت موہانی، ممتاز علی۔ جس پایہ کے لوگ تھے وہ ان کے نام اور کام سے ظاہر ہے۔

    سالک صاحب نے علامہ اقبال کے ان واقعات کا ذکر کرتے ہوئے کہا، عمر کی آخری تہائی میں وہ ہر چیز سے دستبردار ہوگئے تھے۔ ان کے قلب کا یہ حال تھا کہ آن واحد میں بے اختیار ہو کر رونے لگتے، حضورؐ کا نام آتے ہی ان کے جسم پر کپکپی طاری ہوجاتی، پہروں اشکبار رہتے۔ ایک دفعہ میں نے حدیث بیان کی کہ مسجد نبوی میں ایک بلّی نے بچے دے رکھے تھے، صحابہؓ نے بلی کو مار کر بھگانا چاہا، حضورؐ نے منع کیا۔

    صحابہؓ نے عرض کی، مسجد خراب کرتی ہے۔ حضورؐ نے فرمایا، اسے مارو نہیں، یہ ماں ہوگئی ہے۔ حدیث کا سننا تھا کہ علّامہ بے اختیار ہوگئے، دھاڑیں مار مار کر رونے لگے۔ سالک صاحب کیا کہا؟ مارو نہیں ماں ہو گئی ہے، اللہ اللہ امومت کا یہ شرف؟ سالک صاحب کا بیان تھا کہ حضرت علّامہ کوئی پون گھنٹہ اسی طرح روتے رہے، میں پریشان ہو گیا۔ ان کی طبیعت بحال ہوئی تو مجھے بھی چین آیا، ورنہ جب تک وہ اشکبار رہے میں ہلا رہا گویا مجھ سے کوئی شدید غلطی سرزد ہوگئی ہو۔

  • عبدالمجید سالک: شاعر، ادیب اور صحافی

    عبدالمجید سالک: شاعر، ادیب اور صحافی

    عبدالمجید سالک اردو کے معروف شاعر، صحافی اور اپنے وقت کے مقبول کالم نگار تھے۔ انھوں نے زمیندار اخبار کے مدیر کی حیثیت سے بھی کام کیا اور بعد میں متعدد رسائل کی ادارت کی اور اپنے اداریوں اور فکاہیہ کالموں کی بدولت پہچانے گئے۔

    1959 میں‌ عبدالمجید سالک آج ہی کے دن وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔ ہندوستان پر برطانوی راج میں‌ جب لارڈ ویول کو وائسرے مقرر کرنے کا اعلان کیا گیا تو عبدالمجید سالک نے اپنے ایک فکاہیہ کالم میں‌ لکھا، ’’لارڈ ویول کے وائسرائے مقرر ہونے کا یہ وعدہ ہے کہ وہ سب کو ایک آنکھ سے دیکھیں گے۔‘‘ اس کا پس منظر یہ کہ لارڈ ویول بائیں‌ آنکھ کی بینائی سے محروم تھا۔ مولانا عبدالمجید سالکؔ خوش مزاج بھی تھے اور تحریروں میں بھی ان کی طبیعت کی طرح شگفتگی اور ظرافت تھی۔ جب انھوں نے یہ خبر سنی تو لارڈ ویول کا ذکر کرتے ہوئے ہندوستانیوں‌ کو انوکھے ڈھنگ سے بتایا کہ ان کا وائسرائے ایک آنکھ سے محروم ہے۔ ان کی مزاحیہ تحریروں میں آمد کی بلندی اور دلآویزی موجود ہے جو پڑھنے والے کو اپنے سحر میں جکڑ لیتی ہے۔ ان کے مزاح کو صاحب علم بھی سمجھ سکتا ہے اور ایک معمولی پڑھا لکھا آدمی بھی اس سے لطف اندوز ہو سکتا ہے۔ ان کے کالم ’’ افکار و حوادث‘‘ کے نام سے 27 سال تک شایع ہوتے رہے۔ یہ نہ صرف صحافت میں بلکہ لطف بیان کے اعتبار سے اردو ادب میں بھی اہمیت رکھتے ہیں۔

    سالک صاحب کا نام عبدالمجید، اور سالک تخلص تھا۔ 1894 کو بٹالہ، ضلع گورداس پور میں پیدا ہوئے تھے۔ لاہور سے بی اے کیا اور بعد میں‌ پٹھان کوٹ سے رسالہ’’فانوس خیال‘‘ نکالا جو ایک سال جاری رہا۔ 1915 کے اواخر میں وہ ’’تہذیب نسواں‘‘ اور ’’پھول‘‘ کے ایڈیٹر رہے جب کہ 1920 میں ’’زمیندار‘‘ کی ادارت سنبھالی۔

    صحافت کے ساتھ شعر گوئی، تنقید بھی ان کے مشاغل رہے۔ سالک کا رجحان نظم کی طرف زیادہ تھا۔ ’ذکرِ اقبال‘، ’سرگزشت‘ (خود نوشت)، ’مسلم صحافت ہندوستان میں‘، ’یارانِ کہن‘، ’خود کشی کی انجمن‘، ’قدیم تہذیبیں‘ اور ’کاری گری‘ شامل ہیں‌۔

  • عبدالمجید سالک: اردو ادب اور صحافت کا بڑا نام

    عبدالمجید سالک: اردو ادب اور صحافت کا بڑا نام

    عبدالمجید سالک اردو شاعر، صحافی اور مقبول کالم نگار تھے۔ زمیندار اخبار کے مدیر کی حیثیت سے ایک عرصہ کام کیا اور مقام بنایا۔ آج ان کی برسی ہے۔

    ہندوستان پر برطانوی راج میں‌ جب لارڈ ویول کو وائسرے مقرر کرنے کا اعلان کیا گیا تو عبدالمجید سالک نے اپنے ایک فکاہیہ کالم میں‌ لکھا، ’’لارڈ ویول کے وائسرائے مقرر ہونے کا یہ وعدہ ہے کہ وہ سب کو ایک آنکھ سے دیکھیں گے۔‘‘ اس کا پس منظر یہ کہ لارڈ ویول بائیں‌ آنکھ کی بینائی سے محروم تھا۔ مولانا عبدالمجید سالکؔ خوش مزاج بھی تھے اور تحریروں میں بھی ان کی طبیعت کی طرح شگفتگی اور ظرافت تھی۔ جب انھوں نے یہ خبر سنی تو لارڈ ویول کا ذکر کرتے ہوئے ہندوستانیوں‌ کو انوکھے ڈھنگ سے بتایا کہ ان کا وائسرائے ایک آنکھ سے محروم ہے۔

    ان کا نام عبدالمجید، سالک تخلص تھا۔ 1894 کو بٹالہ، ضلع گورداس پور میں پیدا ہوئے تھے۔ لاہور سے بی اے کیا اور بعد میں‌ پٹھان کوٹ سے رسالہ’’فانوس خیال‘‘ نکالا جو ایک سال جاری رہا۔ 1915 کے اواخر میں وہ ’’تہذیب نسواں‘‘ اور ’’پھول‘‘ کے ایڈیٹر بنے اور 1920 میں ’’زمیندار‘‘ کی ادارت سنبھالی۔

    صحافت کے ساتھ شعر گوئی، تنقید بھی ان کے مشاغل رہے۔ سالک کا رجحان نظم کی طرف زیادہ تھا۔ ’ذکرِ اقبال‘، ’سرگزشت‘ (خود نوشت)، ’مسلم صحافت ہندوستان میں‘، ’یارانِ کہن‘، ’خود کشی کی انجمن‘، ’قدیم تہذیبیں‘ اور ’کاری گری‘ شامل ہیں‌۔

    1959 میں‌ عبدالمجید سالک آج ہی کے دن وفات پاگئے تھے۔

  • "نجو بھلا کیا نام ہوا؟”

    "نجو بھلا کیا نام ہوا؟”

    اردو کے ممتاز ادیبوں، شعرا اور نام وَر اہلِ‌ قلم سے متعلق کتابوں میں مختلف واقعات، دل چسپ قصّے درج ہیں‌۔ ان شخصیات نے اپنی خودنوشت یا آپ بیتی میں بھی اپنی یادیں محفوظ کی ہیں اور اپنے ہم عصروں کی پُرلطف باتیں ہم تک پہنچائی ہیں۔

    یہ ایک ایسا ہی واقعہ ہے سعادت حسن منٹو کی کتاب اندھیر نگری سے لیا گیا ہے۔

    ایک دفعہ عبدالمجید سالک کسی کام کے سلسلے میں حکیم فقیر محمّد چشتی صاحب کے مطب پر گئے۔

    وہاں ایک مشہور طوائف نجو بھی دوا لینے آئی ہوئی تھی۔ کِھلا ہوا چمپئی رنگ، سر پر ایک سفید ریشمی دوپٹہ جس کے کنارے چوڑا نقرئی لپہ لگا ہوا تھا۔

    سالک جو پہنچے تو حکیم صاحب نے نجو سے کہا: "یہ تمہارے شہر کے بہت بڑے شاعر اور ادیب سالک صاحب ہیں۔ آداب بجا لاؤ۔”

    وہ سَر و قد اُٹھ کھڑی ہوئی اور جھک کر آداب بجا لائی۔ پھر سالک سے کہا، "یہ لاہور کی مشہور طوائف نجو ہیں۔ آپ اُس کوچے سے نابلد سہی لیکن نام تو سنا ہو گا؟”

    سالک بولے: "جی ہاں نام تو سنا ہے لیکن نجو بھلا کیا نام ہوا؟”

    حکیم صاحب فرمانے لگے، "لوگ نجو نجو کہہ کے پکارتے ہیں۔ اِس کا پورا نام تو نجاتُ المومنین ہے۔”

  • مصروفیتیں مغربی، عادتیں بدستور مشرقی!

    مصروفیتیں مغربی، عادتیں بدستور مشرقی!

    عبد المجید سالک اردو زبان کے بڑے ادیب، شاعر، جیّد صحافی اور کالم نویس تھے جو اپنے دور کے مقبول اخبار ’زمیندار‘ کے مدیر رہے، تہذیبِ نسواں‌ اور پھول جیسے معتبر رسائل کی ادارت کی۔ سالک صاحب ایک مرنجاں مرنج شخصیت تھے۔ ان کی نثر طنز و مزاح کے گلشن کا ایسا سدا بہار پھول ہے جس کی خوشبو آج بھی فکرِ انسان کو معطر رکھے ہوئے ہے۔ شوخی ان کا مزاج ہے اور ندرتِ خیال ان کے ذہن کی رفعت کا ثبوت۔

    یہاں ہم عبدالمجید سالک کی بذلہ سنجی اور اپنے کام سے لگاؤ کی ایک مثال انہی کے اُس کالم سے پیش کررہے ہیں جو روزنامہ "انقلاب” میں "افکار و حوادث” کے نام سے سالک صاحب لکھا کرتے تھے۔ ان کا یہ کالم ہر خاص و عام میں‌ بہت مقبول تھا۔ عبدالمجید سالک اپنے اُن ملاقاتیوں سے بہت بیزار تھے جو ان کا وقت برباد کرتے اور گپیں ہانکنے کے لیے ان کے دفتر آجایا کرتے تھے۔ اس ضمن میں وہ لکھتے ہیں:

    "ہندوستان عجب بدقسمت ملک ہے۔ اس کی مصروفیتیں تو روز بروز مغربی ہوتی چلی جا رہی ہیں لیکن عادتیں بدستور مشرقی ہیں۔ ہندوستانیوں نے اخبار نویسی مغرب سے سیکھی لیکن اخبار نویس کی مصروفیات کا اندازہ لگانے میں ہمیشہ مشرقیت کا ثبوت دیا۔ مدیر "افکار” بارہا لکھ چکا ہے کہ میں بے حد مصروف رہتا ہوں اس لئے ملاقات کرنے والے حضرات میری مجبوریوں کو مدنظر رکھ کر اپنی عادات میں اصلاح فرمائیں تاکہ مجھے مروّت کے مشرقی اصول کو خیرباد نہ کہنا پڑے لیکن ملاقاتی حضرات بدستور بے تکلفی پر عمل پیرا ہیں اور ایک دن آنے والا ہے جب مدیر "افکار” ہر شخص سے صاف کہہ دیا کرے گا کہ اب آپ تشریف لے جائیے۔”

    "ان ملاقاتی حضرات میں مختلف قسم کے لوگ ہیں۔ پہلی قسم تو ان زیرک و فہیم حضرات کی ہے جو کسی ضروری کام کے بغیر کبھی تشریف نہیں لاتے اور جب آتے ہیں فی الفور کام کی بات کہہ کر اس کا شافی جواب پا کر رخصت ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالی ایسے مہربانوں کی تعداد روز افزوں فرمائے۔”

    "دوسری قسم ایسے حضرات کی ہے جو یوں تو کسی ضروری کام ہی کے سلسلے میں تشریف لاتے ہیں لیکن نہایت طویل مزاج پرسی اور ادھر ادھر کی غیر متعلق باتیں کرنے کے بعد حرفِ مطلب زبان پر لاتے ہیں۔ خاکسار فوراً ان کی بات کا جواب دے دیتا ہے، اس امید پر کہ شاید اس جواب کے بعد مخلصی کی صورت نکل آئے لیکن وہ حضرات جواب سننے کے بعد مطمئن ہو کر اور بھی زیادہ پاؤں پھیلا دیتے ہیں اور نہایت فراغت کے ساتھ دنیا جہان کے قصے، ادھر ادھر کی باتیں، واقعات پر تبصرہ اور حالات پر رائے زنی شروع کر دیتے ہیں اور خاکسار دل ہی دل میں اپنے وقت کے خون ہو جانے کا ماتم کرتا رہتا ہے۔”

    "تیسری قسم بے انتہا تکلیف دہ ہے۔ ان حضرات کی تشریف آوری کا کوئی قطعی مقصد نہیں ہوتا۔ محض "نیاز حاصل کرنے” کے لئے تشریف لاتے ہیں۔ حالانکہ اکثر حالت میں خاکسار کو ان کی خدمت میں اس سے پیشتر پچیس دفعہ نیاز حاصل کرنے کا شرف نصیب ہو چکا ہوتا ہے۔ اگر "حصول نیاز” کی مدّت مختصر ہو تو خیر اسے بھی برداشت کیا جا سکتا ہے، لیکن وہ حضرات نہایت ڈٹ کر بیٹھتے ہیں اور اس وقت اٹھتے ہیں جب ان کا اٹھنا میرے لئے بالکل مفید نہیں رہتا۔”

    "خاکسار دن کے وقت تحریر کا کام نہیں کرتا کیونکہ تنہائی اور یک سوئی دن کے وقت بالکل مفقود ہوتی ہے۔ گرمی ہو یا جاڑا، بہار ہو یا خزاں، ہر روز رات کے دو بجے تک کام کرنا پڑتا ہے چونکہ اس وقت کوئی خلل انداز نہیں ہوتا اس لئے کام بہ سہولت ختم ہو جاتا ہے لیکن ایک چوتھی قسم کے خطرات ہیں جو خاکسار کے وقت پر شب خون مارنے سے بھی باز نہیں آتے۔”

    "ایک صاحب کا ذکر ہے، آپ پچھلے دنوں رات کے بارہ بجے تشریف لے آئے۔ خاکسار نے متعجب ہو کر پوچھا: "حضرت اس وقت کہاں ؟” فرمانے لگے: "سینما دیکھ کر آیا تھا۔ سڑک پر آپ کے لیمپ کی روشنی دیکھی، جی میں کہا، چلو سالک صاحب سے تھوڑی دیر گپیں ہانکیں۔”

    "لاحول ولا قوة الا باللہ۔ گپوں کے لئے کتنا موزوں وقت تلاش کیا ہے۔ مرتا کیا نہ کرتا۔ نہایت مری ہوئی آواز سے کہا: "تشریف لے آئیے۔”

    "آپ آکر بیٹھ گئے کچھ بات شروع کرنے والے ہی تھے کہ خاکسار نے چپ سادھ لی اور لکھنے میں مصروف ہو گیا۔ وہ خدا جانے کیا کچھ فرماتے رہے، کوئی لفظ خاکسار کی سمجھ میں آیا، کوئی نہ آیا، لیکن ایک مقررہ وقفہ سے "ہوں ہوں” برابر کرتا رہا تاکہ بالکل ہی بے مروّتی اور بدتمیزی ظاہر نہ ہو۔ اگر خاکسار کی جگہ کوئی اور شخص اور ان حضرت کی جگہ خاکسار ہوتا تو دوسرے شخص کو اس قدر مصروف دیکھ کر اور اس کی بے معنی ہوں "ہوں ہوں” سن کر پانچ منٹ بھی بیٹھنا گوارا نہ کرتا لیکن حضرتِ ممدوح کامل ڈیڑھ گھنٹہ بیٹھے اور جب تشریف لے گئے تو پانوں کی تھالی اور سگریٹ کی ڈبیا خاکسار کے دل کے طرح ویران پڑی تھی۔”

    "دوسرے دن ایک مجلس میں ان حضرت سے ہمارا سامنا ہو گیا۔ آپ بے تکلفی سے فرمانے لگے: "رات تو آپ بے انتہا مصروف تھے۔” ایک بذلہ سنج دوست پاس کھڑے تھے، کہنے لگے: "جی ہاں عمر بھر میں سالک پر ایک ہی مصروفیت کی رات آئی ہے اور وہ شبِِ گزشتہ تھی۔” وہ حضرت کھسیانے ہو کر ہنسنے لگے۔ خاکسار نے موقع پا کر نہایت متانت سے منہ بنا کر کہا کہ: "مجھے کبھی غصہ نہیں آتا لیکن جو شخص رات کے وقت میرے کام میں خلل انداز ہو، اسے جان سے مار دینے کو جی چاہتا ہے۔ کیا کروں میری یہ خواہش بالکل اضطراری ہے۔ مجھے تو اس پر قابو نہیں لیکن احباب کو ضرور احتیاط کرنی چاہیے۔”

    "وہ حضرت نہایت غور سے میری بات سنتے رہے پھر چپ چاپ ایک طرف چل دیے اور آج تک رات کے وقت کبھی تشریف نہیں لائے۔ جان کتنی عزیز شے ہے۔”

    اردو کے اس ممتاز ادیب اور شاعر نے لاہور میں وفات پائی اور اسی شہر کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔

  • "انقلاب” والوں سے یہ توقع نہ رکھیے!

    "انقلاب” والوں سے یہ توقع نہ رکھیے!

    عبد المجید سالک اردو کے نام وَر شاعر، صحافی، افسانہ نگار اور کالم نگار تھے۔ انہوں نے مولانا غلام رسول مہر کے اشتراک سے روزنامہ "انقلاب” جاری کیا تھا جو 1949ء تک جاری رہا۔ عبد المجید سالک اس میں ایک کالم "افکار و حوادث” کے نام سے لکھا کرتے تھے، یہی کالم ان کی پہچان بنا۔

    ان کے منتخب شدہ کالم اسی عنوان سے ایک کتاب میں 1991ء میں شائع ہوئے تھے۔ اس مجموعے میں ان کا وہ دل چسپ کالم بھی شامل ہے جس میں‌ انہوں نے اپنے دفتر پر موصول ہونے والے ایک خط سے چند سطور نقل کی تھیں۔ یہ غالباً 1930 کی بات ہے۔ عبدالمجید سالک لکھتے ہیں۔

    بعض حضرات کی بے تکلفی نہایت دل چسپ ہوتی ہے۔ سہسوان ضلع بدایوں میں ایک صاحب نے عطر تیل کا کارخانہ جاری کیا ہے اور حال ہی میں مہتمم "انقلاب” کے نام ذیل کا مکتوب بھیجا ہے۔

    "مزاج شریف! گزارش یہ ہے کہ ہم نے حال میں عطر تیل کا کام شروع کیا ہے جس کے لیے آپ کی عنایت کی بھی ضرورت ہے، لہٰذا جناب ایک مسلم ہونے کی حیثیت سے ایک مسلم کے ساتھ یہ عنایت فرمائیے کہ آپ کے خریدارانِ اخبار کے ایک ہزار پتے چاہییں، لہٰذا جو قیمت ہو اس سے مطلع فرمائیے۔ امید ہے کہ مثل اور اخباروں کے آپ بھی مجھ جیسے ناچیز پر اپنا کرم فرمائیں گے۔”

    اس خط سے یہ سطور نقل کرنے کے بعد سالک صاحب اپنے کالم کو آگے بڑھاتے ہوئے رقم طراز ہیں:‌ گویا ان حضرت کے نزدیک ہم اخبار فروش نہیں بلکہ "پتا فروش” ہیں۔ ہمارا پیشہ یہی ہے کہ بہت سے شریف آدمیوں کے پتے کسی نہ کسی طرح حاصل کر لیں اور اس کے بعد ان کو بازار میں بیچنا شروع کر دیں اور ہر طرف صدا لگاتے پھریں: "پتے لے لو پتے! ایک روپے کے دس، دس روپے کے سو، سو روپے کے ہزار، تازہ بہ تازہ ہیں۔ پتے لے لو پتے۔”

    جناب نے یہ فقرہ بھی لکھا ہے کہ "ایک مسلم ہونے کی حیثیت سے ایک مسلم کے ساتھ یہ عنایت کریں۔” بندہ پرور، جب قیمت اور معاوضے کا سوال درمیان میں آ گیا تو پھر مسلم اور غیر مسلم پر کیا موقوف ہے، جس کی ناک پر ٹکا رکھ دیجیے گا، وہی آپ کا کام کر دے گا، لیکن وہ کوئی احمق اخبار ہوں گے جو اپنے پتے چند روپے کے معاوضے میں آپ کے حوالے کر دیں۔ "انقلاب” والوں سے یہ توقع نہ رکھیے۔

  • وائسرائے کی ‘خبر’ لینے والے عبدالمجید سالک کی برسی

    وائسرائے کی ‘خبر’ لینے والے عبدالمجید سالک کی برسی

    عبدالمجید سالک شاعر اور اپنے زمانے کے ایک مقبول کالم نویس تھے۔ وہ زمیندار اخبار کے مدیر کی حیثیت سے بھی مشہور تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔

    ہندوستان پر برطانوی راج میں‌ جب لارڈ ویول کو وائسرے مقرر کرنے کا اعلان کیا گیا تو انھوں نے اپنے ایک فکاہیہ کالم میں‌ لکھا، ’’لارڈ ویول کے وائسرائے مقرر ہونے کا یہ وعدہ ہے کہ وہ سب کو ایک آنکھ سے دیکھیں گے۔‘‘

    بات یہ تھی کہ لارڈ ویول بائیں‌ آنکھ کی بینائی سے محروم تھا۔ ادھر مولانا عبدالمجید سالکؔ جو خود شگفتہ مزاج بھی تھے اور تحریروں میں بھی ان کی طبیعت کی طرح شگفتگی اور ظرافت موجود ہوتی تھی۔ جب انھوں نے یہ خبر سنی تو لارڈ ویول کا ذکر کرتے ہوئے ہندوستانیوں‌ کو انوکھے ڈھنگ سے بتایا کہ ان کا وائسرائے ایک آنکھ سے محروم ہے۔

    ان کا نام عبدالمجید، سالک تخلص تھا۔ 1894 کو بٹالہ، ضلع گورداس پور میں پیدا ہوئے تھے۔ لاہور سے بی اے کیا اور بعد میں‌ پٹھان کوٹ سے رسالہ’’فانوس خیال‘‘ نکالا جو ایک سال جاری رہا۔ 1915 کے اواخر میں وہ ’’تہذیب نسواں‘‘ اور ’’پھول‘‘ کے ایڈیٹر بنے اور 1920 میں ’’زمیندار‘‘ کی ادارت سنبھالی۔

    شعر گوئی، ادب، تنقید اور صحافت ان کے مشاغل رہے۔ سالک کا رجحان نظم کی طرف زیادہ تھا۔ ’ذکرِ اقبال‘، ’سرگزشت‘ (خود نوشت)، ’مسلم صحافت ہندوستان میں‘، ’یارانِ کہن‘، ’خود کشی کی انجمن‘، ’قدیم تہذیبیں‘ اور ’کاری گری‘ شامل ہیں‌۔

    عبدالمجید سالک 1959 میں‌ آج ہی کے دن وفات پاگئے تھے۔

  • جب دورانِ جلسہ ہر طرف سے روپیہ برسنے لگا!

    جب دورانِ جلسہ ہر طرف سے روپیہ برسنے لگا!

    ایک بار لاہور میں‌ انجمنِ حمایتِ اسلام کے جلسے میں اپنے وقت کی نہایت عالم فاضل شخصیات اکٹھی ہوئیں۔ ان میں سیاست سے ادب تک اپنے نظریات اور فن و تخلیق کی بدولت ہندوستان بھر میں مقام و مرتبہ پانے والے شامل تھے۔ اس موقع پر ایک جذباتی منظر بھی دیکھنے میں آیا۔ اس واقعے کو جیّد صحافی، شاعر اور افسانہ نگار عبدالمجید سالک نے اپنی خود نوشت سوانح "سرگزشت” میں یوں بیان کیا ہے۔

    اس اجلاس میں ایک بہت دل چسپ واقعہ ہوا، جو مجھے اب تک یاد ہے۔ خواجہ دل محمد صاحب ان دنوں کوئی انیس بیس سال کے نوجوان تھے اور اسی سال انہوں نے ریاضی میں ایم – اے کر کے برادرانِ وطن کے اس طعنے کا مؤثر جواب مہیا کیا تھا کہ مسلمانوں کو حساب نہیں آتا۔ خواجہ صاحب کی ایک خصوصیت خاص طور پر حیرت انگیز تھی کہ وہ ریاضی جیسے خشک مضمون کے ساتھ ہی ساتھ بحرِ شاعری کے بھی شناور تھے۔ اس سال انہوں نے ایک پاکیزہ مسدس "کلک گہر بار” کے نام سے پڑھی جس پر بہت پُرشور داد ملی اور انجمن کو چندہ بھی خوب ملا۔

    اس اجلاس میں شمس العلماء ڈپٹی نذیر احمد بھی دہلی سے آئے ہوئے تھے، سر پر چوگوشیہ ٹوپی، چہرے پر تعبّس، سفید ڈاڑھی، لمبا سیاہ چغہ جو غالباً ایل ایل ڈی کا گاؤن تھا۔ آپ نے تقریر شروع کی تو دل آویز اندازِ بیان کی وجہ سے سارا جلسہ ہمہ تن گوش ہوگیا۔

    آپ نے فرمایا، خواجہ دل محمد بہت ذہین اور لائق نوجوان ہیں اور شاعری فی نفسہ بُری چیز نہیں۔ حضرت حسان بن ثابت رسولِ خدا صلّی اللہ علیہ وسلم کے شاعر تھے لیکن میں کہتا ہوں کہ جو دماغ زیادہ عملی علوم کے لیے موزوں ہے اسے شعر کے شغل میں کیوں ضائع کیا جائے۔ اِس پر حاجی شمس الدّین اٹھے اور کہا کہ شعر چونکہ مسلّمہ طور پر نثر سے زیادہ قلوب پر اثر کرتا ہے اس لیے یہ بھی مقاصدِ قومی کے حصول کے لیے مفید ہے۔ چنانچہ خواجہ صاحب کی نظم پر انجمن کو اتنے ہزار روپیہ چندہ وصول ہوا جو دوسری صورت میں شاید نہ ہوتا۔

    اس پر مولانا نذیر احمد کسی قدر تاؤ کھا گئے اور کہنے لگے۔ حاجی صاحب چندہ جمع کرنا کوئی بڑی بات نہیں، جو شخص خدمت میں ثابت قدم رہتا ہے اس کی بات قوم پر ضرور اثر کرتی ہے۔ یہ کہا اور عجیب دردناک انداز سے اپنی چوگوشیہ ٹوپی اتاری اور فرمایا کہ یہ ٹوپی جو حضور نظام خلد اللہ ملکہ کے سامنے بھی نہیں اتری، محض اس غرض سے اتارے دیتا ہوں کہ اس کو کاسہٴ گدائی بنا کر قوم سے انجمن کے لیے چندہ جمع کیا جائے۔ فقیر آپ کے سامنے موجود ہے، کشکول اس کے ہاتھ میں ہے، دے دو بابا، تمھارا بھلا ہوگا۔

    بس پھر کیا تھا، جلسے میں بے نظیر جوش پیدا ہو گیا۔ مولانا کی ٹوپی مولانا کے سَر پر رکھی گئی اور ہر طرف سے روپیہ برسنے لگا۔ یہاں تک کہ حاجی شمس الدّین کی آواز اعلان کرتے کرتے بیٹھ گئی اور جب ذرا جوش کم ہوا تو مولانا نے پھر تقریر شروع کی اور ہنس کر حاجی صاحب سے کہا۔ اس نظم کے بعد ہماری نثر بھی آپ نے سُنی۔”

    یہ واقعہ بتاتا ہے کہ تحریکِ آزادی اور مسلمانوں کے سیاسی مستقبل کے لیے اس زمانے کے اکابرین کس قدر پرخلوص اور دردمندانہ طریقے سے اجتماعات اور چندہ اکٹھا کرنے کی مہمّات میں‌ شریک رہتے تھے۔ اس موقع پر اختلافِ رائے، کسی راہ نما یا کارکن کے اقدام اور فیصلے پر ناراضی اور مؤقف سے بیزاری کا اظہار بھی دراصل ان کے از حد خلوص اور بے نہایت دردمندی کا مظہر تھا۔ یہ ذاتی رنجش، بغض اور انفرادی فائدے یا اپنی انا کی تسکین کے لیے ہرگز نہ ہوتا تھا۔

  • "تو یہ کہیے آپ ضربِ کلیم ہیں” (ادبی لطائف)

    "تو یہ کہیے آپ ضربِ کلیم ہیں” (ادبی لطائف)

    وہ (عبدالمجید سالک) قلم اور زبان دونوں کے حاتم تھے، جس محفل میں بیٹھتے، پھبتیوں کی جھاڑ باندھتے اور لطیفوں کا انبار لگاتے۔

    ایک محفل میں اختر علی خاں (اللہ انہیں بخشے) کے لاابالی پن کا ذکر ہو رہا تھا کہ وہ شہید گنج میں کوئی دستاویز اٹھاکر ماسٹر تارا سنگھ کو دے آئے تھے۔

    سالک صاحب نے تبسم فرمایا اور کہا، چھوڑ یار، اختر علی خاں بھی تو تارا سنگھ ہی کا ترجمہ ہے۔

    کلیم صاحب ملٹری اکاؤنٹس میں غالباً ڈپٹی اکاؤنٹینٹ جنرل یا اس سے بھی کسی بڑے عہدے پر فائز تھے۔ انھیں شعر و سخن سے ایک گونہ لگاؤ تھا، اکثر مشاعرے رچاتے۔ ایک مشاعرہ میں سالک صاحب بھی شریک تھے۔ کسی نے ان سے کلیم صاحب کے بیٹے کا تعارف کراتے ہوئے کہا۔

    آپ کلیم صاحب کے صاحبزادے ہیں۔ رگِ ظرافت پھڑک اٹھی فرمایا۔

    تو یہ کہیے آپ ضربِ کلیم ہیں۔

    غرض ان کا سینہ اس قسم کے لطائفُ الادب کا خزینہ تھا، جس محفل میں ہوتے چھا جاتے۔ برجستہ گوئی، حاضر جوابی، بذلہ سنجی، شگفتہ مزاجی، شعر فہمی، نکتہ آفرینی، یہ سب گویا ان کے خانہ زاد تھے۔ طبیعت میں آمد ہی رہتی، آورد کا ان کے ہاں گزر ہی نہیں تھا۔

    (اردو کے ممتاز ادیب و شاعر عبدالمجید سالک کی بذلہ سنجی اور شگفتہ مزاجی کے حوالے سے یہ واقعات نام ور شاعر، ادیب اور صحافی شورش کاشمیری نے اپنے مضمون میں رقم کیے ہیں)

  • ‘ٹوڈی’ جو راس کماری سے سری نگر اور سلہٹ سے خیبر تک مشہور تھا

    ‘ٹوڈی’ جو راس کماری سے سری نگر اور سلہٹ سے خیبر تک مشہور تھا

    عبدالمجید سالک صحافت کے میدان میں خاص پہچان اور اپنے کالموں کے لیے مشہور تھے، وہ ہندوستان کے عوام میں مقبول اخبار’زمیندار‘ اور متعدد جرائد کے مدیر رہے، روزنامہ انقلاب جاری کیا، شاعر اور مضمون نگار کی حیثیت سے مشہور ہوئے اور متعدد تصانیف یادگار چھوڑیں۔

    آغا شورش کاشمیری جیسے مشہور و معروف صحافی، شاعر اور مضمون نگار نے اپنے ایک مضمون میں سالک صاحب کا تذکرہ کچھ یوں کیا ہے۔

    "ہوش کی آنکھ کھولی تو گھر بھر میں مولانا ظفر علی خاں کا چرچا تھا۔ ’’زمیندار‘‘ کی بدولت خاص قسم کے الفاظ زبان پر چڑھے ہوئے تھے۔ انہی الفاظ میں ایک ٹوڈی کا لفظ بھی تھا۔ زمیندار نے اس کو خالص وسعت دے دی تھی کہ مولانا ظفر علی خاں کے الفاظ میں راس کماری سے لے کر سری نگر تک، سلہٹ سے لے کر خیبر تک اس لفظ کا غلغلہ مچا ہوا تھا، جس شخص کا ناطہ بلا واسطہ یا بالواسطہ برطانوی حکومت سے استوار تھا وہ فی الجملہ ٹوڈی تھا۔

    اس زمانہ میں ہمیں سیاسیات کے پیچ و خم سے زیادہ واقفیت نہ تھی۔ ہم نے ٹوڈی کے مفہوم کو اور بھی محدود کر رکھا تھا، وہ تمام لوگ جو مولانا ظفر علی خاں کے مخالف تھے یا جنھیں مولانا سے اختلاف تھا ہمارے نزدیک ٹوڈی تھے۔

    اب چوں کہ انقلاب کے دونوں مدیر (مہر و سالک) زمیندار کے مقابلہ میں تھے اور مولانا سے کٹ کے انقلاب نکالا تھا، لہٰذا ہمارے نزدیک ان کا عرف یا تخلص بھی ٹوڈی تھا۔ پھر یہ ہفتوں یا مہینوں کی بات نہ تھی، برسوں تک یہی خیال ذہن پر نقش رہا حتّٰی کہ ایک دہائی بیت گئی۔ دوسری دہائی کے شروع میں یہ لفظ کسی حد تک کچلا گیا اور اس کی جگہ بعض مستور الفاظ رواج پاگئے، مثلاً رجعت پسند، کاسہ لیس وغیرہ ان الفاظ میں دشنام کی بدمزگی تو نہ تھی لیکن حقارت کا مخفی اظہار ضرور تھا۔

    بالآخر ان ہجویہ الفاظ کا زور بھی ٹوٹ گیا۔ یہ تمام الفاظ پھلجڑی کا سا سماں باندھ کر ٹھنڈے پڑگئے۔ جن تحریکوں کے ساتھ ان کا شباب تھا ان کے ختم ہوتے ہی ان کی رونق بھی مرجھا گئی اور ان کا تذکرہ سیاسی افکار کے عجائب گھروں کی زینت ہوگیا۔

    اس دوران سالک صاحب سے کئی ایک ملاقاتیں ہوئیں، دفتر زمیندار ہی میں ان سے تعارف ہوا لیکن اس تعارف سے صرف علیک سلیک کا راستہ کھلا۔ وہ اپنی ذات میں مستغرق تھے، ہم اپنے خیال میں منہمک، تاثر یہی رہا کہ سالک صاحب ٹوڈی اور انقلاب ٹوڈی بچہ ہے۔

    سالک صاحب ہمیں کیا رسید دیتے، وہ بڑے بڑوں کو خاطر میں نہ لاتے تھے۔ ادھر زمیندار نے ہمیں یہاں تک فریفتہ کر رکھا تھا کہ انقلاب کو ہم نے خود ہی ممنوع قرار دے لیا تھا۔ پانچ سات برس اسی میں نکل گئے۔

    دوسری جنگِ عظیم شروع ہوئی تو لمبی لمبی قیدوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ ہم کوئی دس گیارہ نوجوان منٹگمری سنٹرل جیل میں رکھے گئے۔ سخت قسم کی تنہائی میں دن گزارنا مشکل تھا، قرطاس و قلم موقوف، کتب و رسائل پر قدغن، جرائد و صحائف پر احتساب، یہاں تک کہ عزیزوں کے خط بھی روک لیے جاتے۔ وحشت ناک تنہائی کا زمانہ۔ جیل کے افسروں سے بارہا مطالبہ کیا کہ اخبار مہیا کریں لیکن ہر استدعا مسترد ہوتی رہی۔ جب پانی سر سے گزرگیا تو ہم نے بھوک ہڑتال کردی، نتیجتاً حکومت کو جھکنا پڑا۔ ’’سول‘‘اور ’’انقلاب‘‘ ملنے لگے۔

    بظاہر یہ ایک لطیفہ تھا کہ جس اخبار کو ہم سرکاری مناد سمجھتے اور جس کالم میں قومی تحریکوں یا قومی شخصیتوں پر سب سے زیادہ پھبتیاں کسی جاتی تھیں، ہم نے اسے بھوک ہڑتال کرکے حاصل کیا۔

    غرض افکار و حوادث کی ادبی دل کشی کا یہ عالم تھا کہ ہم اس کی چوٹیں سہہ کر لطف محسوس کرتے۔ سیاسی تاثر تو ہمارا وہی رہا جو پہلے دن سے تھا، لیکن اس کی ادبی وجاہت کے شیفتہ ہوگئے۔ مہر صاحب کے اداریے ایک خاص رنگ میں ڈھلے ہوتے، ان میں تحریر کی دل کشی اور استدلال کی خوبی دونوں کا امتزاج تھا۔ سالک صاحب افکار و حوادث میں مطائبات کی چاشنی اور طنزیات کی شیرینی اس طرح سموتے تھے۔ جی باغ باغ ہوجاتا، محسوس ہوتا گویا ہم مے کدے میں ہیں کہ رندانِ درد آشام تلخ کام ہوکر بھی خوش کام ہو رہے ہیں۔

    ساتھیوں کا ایک مخصوص گروہ تھا، جس میں جنگ کی وسعتوں اور شدتوں کے باعث اضافہ ہوتا رہا۔ میں منٹگمری سنٹرل جیل سے تبدیل ہوکر لاہور سنٹرل جیل میں آگیا تو پہلا مسئلہ انقلاب ہی کے حصول کا تھا۔ سید امیر شاہ (جیلر) کی بدولت فوراً ہی انتظام ہوگیا۔ غرض قید کا یہ سارا زمانہ انقلاب سے آشنائی میں کٹ گیا۔ رِہا ہوا تو سالک صاحب سے ان کے دفتر میں جا کے ملا۔ مہر صاحب اس وقت موجود نہیں تھے۔ ان سے کھلا ڈلا تعارف تھا، سالک صاحب تپاک سے ملے۔

    گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ کی اس ملاقات میں وہ پھلجڑیاں چھوڑتے رہے۔ باتوں کو سنوارنا، گفتگو کو تراشنا، ان سے لطائف نکالنا ان کی طبیعت کا وصف خاص تھا۔ اس معاملہ میں ان کی تقریر، تحریر سے زیادہ دل فریب ہوتی۔ انسان اکتاتا ہی نہیں تھا۔ ایک آدھ دفعہ پہلے بھی یہ مشورہ دے چکے تھے اور اب کے بھی یہی زور دیتے رہے کہ سیاسیات میں اپنے آپ کو ضائع نہ کرو، صلاحیتوں سے فائدہ اٹھاؤ اور کتاب و قلم کے ہوجاؤ۔ اب جو ان سے تعلقات بڑھنے لگے تو دنوں ہی میں بڑھ کے وسیع ہوگئے۔ یہ زمانہ انگریزی حکومت کے ہندوستان سے رخصت ہونے کا تھا۔ برطانوی سرکار کے آخری دو سال تھے۔

    تمام ملک میں فساد و انتشار سے آگ لگی ہوئی تھی۔ اس افراتفری کے دنوں ہی میں سالک صاحب سے ملاقات کے مزید راستے کھلے۔ خلوت و جلوت میں ان کا اندازہ ہونے لگا۔

    سیاسیات سے قطع نظر یہ بات ذہن میں آگئی کہ وہ ہمارے مفروضہ سے مختلف انسان ہیں بلکہ خوب انسان ہیں۔ یہ بات بری طرح محسوس ہوئی کہ بعض لوگ مستعار عصبیتوں کی وجہ سے بدنام ہوتے ہیں۔ اور انسان بلا تجربہ اپنے دماغ میں مفروضے قائم کر کے انھیں حقیقتیں بنا دیتا ہے، لیکن جب یہی لوگ تجربہ یا مشاہدہ میں آتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ پاسنگ کا سونا ہیں۔ اس کے برعکس بہت سے لوگ تجربہ و مشاہدہ میں آنے کے بعد دور کا ڈھول نکلتے ہیں، ان کی ہم صحبتی ان کے خط و خال کو آشکار کردیتی ہے۔

    سالک صاحب کو مستعار عصبیتوں سے دیکھا تو ان کی شگفتہ تصویر نہ بن سکی، یہی باور کیا کہ خوانِ استعمار کے زلّہ رُبا ہیں۔ قریب سے دیکھا تو ایک روشن تصویر نکلے۔