Tag: عبدالمجید قریشی

  • مولوی صاحب اور چمڑے کی جلد والی ایک کتاب

    مولوی صاحب اور چمڑے کی جلد والی ایک کتاب

    شمسُ العلما ڈپٹی مولوی نذیر احمد دہلوی کے متعلق ایک لطیفہ مشہور ہے۔ وہ یہ کہ اُن کے پاس عربی کی ایک نایاب کتاب تھی، جسے دیکھنے کے دلّی کے ایک مولوی صاحب بھی شائق تھے۔

    اُن سے ڈپٹی صاحب کے تعلقات کچھ اس قسم کے تھے کہ ڈپٹی صاحب نہ انکار کرتے تھے اور نہ دینا چاہتے تھے، لیکن ایک روز ڈپٹی صاحب کو یہ کتاب ان کو دیتے ہی بنی۔

    ڈپٹی صاحب کو اللہ نے حسِ مزاح سے پوری طرح نوازا تھا، کتاب مولوی صاحب کی جانب بڑھاتے ہوئے ڈپٹی صاحب نے فرمایا کہ کتاب تو بڑی اچھی ہے، لیکن اس کی جلد سُور کے چمڑے کی ہے۔

    مولوی صاحب نے جو یہ الفاظ سُنے تو لاحول پڑھتے ہوئے فوراً پیچھے ہٹ گئے اور کتاب لینے سے انکار کر دیا۔

    راوی: عبدالمجید قریشی

  • میانوالی جیل کی پُرلطف محفلیں

    میانوالی جیل کی پُرلطف محفلیں

    مولانا عبدالمجید سالک 1922 میں تحریکِ خلافت کے سلسلے میں میانوالی جیل میں اسیر تھے۔

    اس جیل میں نہ صرف وہ بلکہ مولانا احمد سعید دہلوی، مولانا اختر علی خاں، مولانا داؤد غزنوی، مولوی لقاءُ اللہ پانی پتی، مولانا سید عطاءُ اللہ شاہ بخاری اور مولوی عبدالعزیز انصاری بھی مقید تھے۔

    سالک صاحب مولانا احمد سعید کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ وہ ایک بلند پایہ عالمِ دین اور شیوہ بیاں خطیب ہونے کے باوجود ہم لوگوں میں بیٹھ کر دن بھر لطیفہ بازی کیا کرتے تھے بلکہ جب ہم رات کو وقت گزاری اور تفریح کے لیے قوّالی کرتے تو مولانا اس مجلس میں صدر کی حیثیت سے متمکن ہوتے۔

    مولانا داؤد غزنوی اور مولوی عبدالعزیز انصاری بعض اوقات حال کھیلتے کھیلتے مولانا کی توند پر جا پڑتے۔ مولانا ہنستے بھی جاتے اور بُرا بھلا بھی کہتے جاتے۔

    ایک دفعہ ہم نے مولانا کو ایک گیت سنانے پر مجبور کر دیا۔ مولانا نے بڑے مزے لے لے کر گایا۔

    یہاں ہماری زندگی کا ایک خاص انداز شروع ہوا۔ میں نے اور عبدالعزیز انصاری صاحب نے مولانا احمد سعید سے عربی صَرف و نحو، ادب اور منطق کا سبق لینا شروع کیا۔ ایک آدھ گھنٹے پڑھ لیتے، پھر ایک دو گھنٹے آموختہ دہراتے اور اردو سے عربی میں ترجمہ کر کے مولانا کو دکھلاتے۔

    مولانا کا اندازِ تدریس اگرچہ وہی اساتذہ قدیم کا سا تھا، لیکن وہ اس میں خاص دل آویزی پیدا کردیتے تھے جس سے بیزاری اور ناگواری کا شائبہ تک نہ ہوتا تھا اور ہم لوگ بے تکان پڑھتے چلے جاتے تھے۔

    راوی: عبدالمجید قریشی

  • پاکستانی مصنف کے بیٹے ‌نے کتاب چُھونے سے پہلے ہاتھ کیوں دھوئے؟ دل چسپ واقعہ

    پاکستانی مصنف کے بیٹے ‌نے کتاب چُھونے سے پہلے ہاتھ کیوں دھوئے؟ دل چسپ واقعہ

    عبدالمجید قریشی کے اردو ادب میں مقام اور ان کی خدمات کے ساتھ ان کا تعارف پڑھنے سے پہلے انہی کے قلم سے نکلا یہ دل چسپ واقعہ پڑھیے۔ یہ ان کی مقبول تصنیف ‘‘ کتابیں ہیں چمن اپنا’’ سے نقل کیا گیا ہے۔

    شرارت سبھی بچے کرتے ہیں۔ میرے بچے بھی۔ گھر کی مختلف چیزیں گاہ بہ گاہ ان کی شرارتوں کا نشانہ بنتی رہتی ہیں، لیکن جہاں تک میری کتابوں کا تعلق ہے وہ بھی انھیں ادب و احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

    بچھلے دنوں ایک دل چسپ واقعہ رونما ہوا۔ میں کھانا کھانے میں مصروف تھا کہ قریب ہی میز پر رکھی ہوئی کتاب نیچے گر گئی۔ میں نے اپنے بچے سے کہا کہ اسے اٹھا کر میز پر رکھ دو۔

    بچہ دوڑ کر باہر نکل گیا۔ مجھے اس کی اس حرکت پر بڑا غصہ آیا۔ میں نے ذرا سخت لہجے میں پوچھا کہاں جارہے ہو۔ بچے نے کہا، ‘‘ابھی آیا۔’’

    دو چار منٹ بعد لڑکا واپس آگیا۔ وہ اپنے ہاتھ دھو کر آیا تھا اور تولیے سے پونچھ رہا تھا۔

    میں نے دریافت کیا یہ کیا معاملہ ہے۔ کہنے لگا۔

    ‘‘میرے ہاتھ صاف نہیں تھے۔ ڈر تھا کہ کہیں یہ نئی کتاب میلی نہ ہو جائے۔ اس لیے ہاتھ دھو کر آیا ہوں، اب اٹھاتا ہوں۔’’ اس نے بڑی آہستگی سے کتاب کو اٹھا کر میز پر رکھ دیا۔

    ایک اور موقعے پر جب میں ایک کتاب دیکھ رہا تھا۔ میرا دوسرا بچہ آیا۔ میرے پاس کھڑے ہو کر کتاب کو دیکھا اور چلا گیا۔ کچھ دیر بعد آیا تو دونوں ہاتھوں پر صاف ستھرا تولیا پھیلایا ہوا تھا۔ کہنے لگا۔

    ‘‘تھوڑی دیر کے لیے یہ کتاب مجھے دے دیجیے، تولیے پر رکھ کے دیکھوں گا، میلا نہ ہونے دوں گا۔’’

    عبدالمجید قریشی 1921 میں پیدا ہوئے۔ وطن مشرقی پنجاب تھا۔ تقسیمِ ہند کے بعد ہجرت کر کے پاکستان آگئے اور محکمۂ ڈاک میں ملازم ہوئے۔ مطالعے کے رسیا اور کتاب اندوز مشہور تھے۔ ان کا ذاتی کتب خانہ مختلف موضوعات اور خاص طور پر فنونِ لطیفہ سے متعلق رسائل سے سجا رہا۔

    خود بھی نثر نگار تھے اور نہایت لطیف و دل کش اسلوب کے حامل تھے۔ ان کے مضامین اس دور کے معیاری رسائل اور اخبارات کی زینت بنتے رہے۔ وہ تین کتابوں کے مصنف ہیں جو ان کی زندگی میں شایع ہوئیں۔ سوانح عمری، آپ بیتی اور واقعات نگاری سے خاص شغف تھا۔ 2010 اس دنیا میں ان کی زندگی کا آخری سال ثابت ہوا۔ ان کی عمرِ عزیز کے آخری ایّام ملتان میں گزرے۔