Tag: عبید اللہ بیگ

  • عبید اللہ بیگ: علم و آگاہی اور ذہانت ان کی پہچان ہے!

    عبید اللہ بیگ: علم و آگاہی اور ذہانت ان کی پہچان ہے!

    عبید اللہ بیگ کو معلوماتِ عامّہ کے میدان کی ایسی قابل و باصلاحیت شخصیت کے طور پر پہچانا جاتا ہے، جن کی وجہِ مقبولیت ’کسوٹی‘ بنا۔ یہ پاکستان ٹیلی ویژن کا معلوماتِ عامّہ پر مبنی پروگرام تھا۔ عبید اللہ بیگ اس پروگرام میں اپنی ذہانت، قوی حافظے اور وسیع مطالعے کے سبب کسی شخصیت یا کسی شے کو بوجھنے میں کام یاب رہتے اور ناظرین دنگ رہ جاتے تھے۔ آج عبید اللہ بیگ کی برسی منائی جارہی ہے۔

    وہ ایک لائق فائق انسان تھے جن کی شہرت ایک شفیق اور منکسر مزاج کے طور پر بھی تھی اور یہی وجہ ہے عبید اللہ بیگ کو علمی و ادبی حلقوں اور ذرائع ابلاع میں بھی نہایت ادب و احترام سے یاد کیا جاتا ہے۔ معلوماتِ عامہ کا میدان عبیداللہ بیگ کی بنیادی شناخت ہے۔ لیکن وہ ایک مدیر، صدا کار، دستاویزی فلم ساز، ناول اور ڈرامہ نگار، فیچر رائٹر، سیاح اور شکاری بھی تھے۔ ٹیلی ویژن کے بعد وہ ماحولیات کے تحفظ کی غیر سرکاری تنظیم سے منسلک ہوگئے تھے جہاں بقائے ماحول کے لیے رپورٹنگ کے ساتھ انھوں نے بطور ماہرِ ابلاغ نئے آنے والوں کی تربیت بھی کی۔ عبید اللہ بیگ پاکستان ٹیلی وژن کے صدر دفتر میں شعبۂ تعلقاتِ عامّہ سے بھی منسلک رہے اور ایک جریدہ ’’ٹی وی نامہ‘‘ بھی جاری کیا تھا۔

    عبید اللہ بیگ کا اصل نام حبیب اللہ بیگ تھا۔ ان کے والد محمود علی بیگ بھی علم دوست شخصیت تھے اور یوں گھر ہی میں مطالعہ کی عادت اور کتابیں پڑھنے کا شوق پروان چڑھا۔ ان کا خاندان بھارت کے شہر رام پور سے 1951ء میں ہجرت کر کے پاکستان آیا تھا۔ یہاں کراچی میں سکونت اختیار کرنے والے عبید اللہ بیگ کا بچپن اور نو عمری کا دور رام پور اور مراد آباد میں گزرا۔ ان کے خاندان کے اکثر مرد شکار کے شوقین تھے اور عبید اللہ بیگ بھی اپنے بڑوں کے ساتھ اکثر شکار کھیلنے جایا کرتے تھے۔ اسی نے ان کے اندر سیر و سیاحت کا شوق پیدا کیا۔ انھیں اس دوران فطرت کو سمجھنے کا موقع ملتا اور وہ اپنی عقل اور ذہانت سے کام لینے کے قابل ہوئے۔

    کسوٹی وہ پروگرام تھا جس میں افتخار عارف، قریش پور اور غازی صلاح الدین جیسی نام ور اور قابل شخصیات بھی عبید اللہ بیگ کے ساتھ رہیں۔ یہ تمام ہی اپنے وقت کے نہایت قابل و عالی دماغ لوگ تھے۔ عبید اللہ بیگ نے پاکستان ٹیلی وژن کے متعدد پروگراموں کے میزبان بھی رہے جن میں پگڈنڈی، منزل، میزان، ذوق آگہی اور جواں فکر کے علاوہ ایک تقریبِ اسلامی سربراہی کانفرنس بھی شامل ہے۔ حکومتِ پاکستان نے عبید اللہ بیگ کو صدارتی تمغا برائے حسنِ کارکردگی سے نوازا تھا۔

    ریڈیو پاکستان کے لیے بھی عبید اللہ بیگ کام کیا اور اپنی منفرد آواز کے سبب ریڈیو کے سامعین میں مقبول رہے۔ ٹی وی پر کسوٹی سے پہلے ‘سیلانی’ کے نام سے بھی ان کا ایک فلمی دستاویزی پروگرام شروع ہوا تھا جسے چند وجوہ کی بناء پر بند کر دیا گیا۔ پی ٹی وی کے لیے عبید اللہ بیگ نے تین سو سے زائد دستاویزی فلمیں بنائیں جن کو عالمی سطح پر سراہا گیا۔ ان کی فلم وائلڈ لائف اِن سندھ کو 1982ء میں 14 بہترین فلموں میں سے ایک قرار دیا گیا تھا۔ عورتوں کے مسائل پر ایک فلم کو 18 زبانوں میں ترجمہ کرکے نشر کیا گیا۔ سندھ میں قدرتی حیات اور ماحول سے متعلق ان کی دستاویزی فلمیں بہت شان دار ہیں اور اس کام پر انھیں ایوارڈ بھی دیے گئے۔

    قلم اور کتاب سے ان کا تعلق فکر و دانش اور معلوماتِ عامہ کی حد تک نہیں تھا بلکہ وہ ایک ادیب بھی تھے جن کا پہلا ناول ’اور انسان زندہ ہے‘ ساٹھ کی دہائی میں شائع ہوا۔ دوسرا ناول ’راجپوت‘ 2010ء میں نیشنل بک فاؤنڈیشن، اسلام آباد نے شائع کیا۔ عبید اللہ بیگ فارسی، عربی اور انگریزی زبانیں بھی جانتے تھے۔ ہمہ جہت عبید اللہ بیگ علم و ادب کے شیدائیوں کے لیے ایک مکتب تھے اور ان کی مجلس میں بیٹھنے والا علم و حکمت کے موتی چن کر ہی اٹھتا تھا۔ فلسفہ، تاریخ، تہذیب و تمدن، سیاحت، ماحولیات، ادب کے ہر موضوع پر عبیداللہ بیگ کی گفتگو کا انداز منفرد اور دل چسپ بھی تھا۔

    22 جون 2012ء کو عبید اللہ بیگ انتقال کرگئے۔ وہ دل کے عارضے میں مبتلا تھے۔ وفات سے چند ماہ پہلے انھیں پیٹ کے کینسر کی تشخیص ہوئی تھی۔ انھیں ڈی ایچ اے گزری قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • ’کسوٹی‘ والے عبید اللہ بیگ کا تذکرہ

    ’کسوٹی‘ والے عبید اللہ بیگ کا تذکرہ

    عبید اللہ بیگ کی پہچان ’کسوٹی‘ بنا جو پاکستان ٹیلی ویژن کا مقبول ترین پروگرام تھا۔ ذہانت، قوی حافظے اور وسیع مطالعے کے ساتھ عبید اللہ بیگ ایک لائق فائق اور وسیع علم کے ساتھ اپنے شفیق روّیے اور انکسار کے سبب ہر دل عزیز ٹھیرے۔ انھیں پاکستان کے علمی و ادبی حلقوں اور ذرائع ابلاع میں وہ احترام حاصل تھا جو بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔ آج عبید اللہ بیگ کی برسی ہے۔

    مداحوں کے لیے معلوماتِ عامہ کا میدان عبیداللہ بیگ کی بنیادی شناخت بنا۔ لیکن وہ ایک مدیر، صدا کار، دستاویزی فلم ساز، ناول اور ڈرامہ نگار، فیچر رائٹر، سیاح اور شکاری بھی تھے۔ ٹیلی ویژن کے بعد وہ ماحولیات کے تحفظ کی غیر سرکاری تنظیم سے منسلک ہوئے اور بقائے ماحول کے لیے رپورٹنگ کے ساتھ بطور ماہرِ ابلاغ تربیت دینے کا کام کیا۔ انھوں نے پاکستان ٹیلی وژن کے صدر دفتر میں شعبۂ تعلقاتِ عامّہ میں بھی خدمات انجام دیں اور ایک جریدہ ’’ٹی وی نامہ‘‘ بھی جاری کیا۔

    عبید اللہ بیگ کا اصل نام حبیب اللہ بیگ تھا۔ ان کے والد محمود علی بیگ بھی علم دوست شخصیت تھے اور یوں گھر ہی میں مطالعے کی طرف رجحان ہوا اور کتابیں پڑھنے کا شوق پروان چڑھا۔ ان کا خاندان بھارت کے شہر رام پور سے نقل مکانی کر کے پاکستان آیا تھا۔ یہ بات ہے 51ء کی۔ عبید اللہ بیگ نے کراچی میں سکونت اختیار کی۔ ان کا بچپن اور نو عمری کا دور رام پور اور مراد آباد میں گزرا۔ ان کا خاندان شکار کا شوقین تھا اور عبید اللہ بیگ بھی گھر کے بڑوں کے ساتھ اکثر شکار کھیلنے جایا کرتے تھے۔ اسی نے ان کے اندر سیر و سیاحت کا شوق پیدا کیا۔

    کسوٹی وہ پروگرام تھا جس میں افتخار عارف، قریش پور اور غازی صلاح الدین جیسی نام ور اور قابل شخصیات بھی ان کے ساتھ رہیں۔ عبید اللہ بیگ نے پاکستان ٹیلی وژن کے متعدد پروگراموں کی کمپیئرنگ بھی کی جن میں پگڈنڈی، منزل، میزان، ذوق آگہی اور جواں فکر کے علاوہ اسلامی سربراہ کانفرنس بھی شامل ہیں۔حکومتِ پاکستان کی جانب سے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی دیا گیا تھا۔

    عبید اللہ بیگ ریڈیو پاکستان سے بھی وابستہ رہے۔ ٹی وی پر کسوٹی سے پہلے ‘سیلانی’ بھی ان کا ایک فلمی دستاویزی سلسلہ تھا جو بہت مشہور ہوا۔ تاہم یہ پروگرام چند وجوہ کی بناء پر بند کردیا گیا، پی ٹی وی کے لیے عبید اللہ بیگ نے تین سو سے زائد دستاویزی فلمیں بنائی تھیں جن کو عالمی سطح پر سراہا گیا اور عبید اللہ بیگ کو ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ان کی فلم وائلڈ لائف اِن سندھ کو 1982ء میں 14 بہترین فلموں میں سے ایک قرار دیا گیا تھا۔ عورتوں کے مسائل پر ایک فلم کو 18 زبانوں میں ڈھال کر پیش کیا گیا۔ سندھ میں قدرتی حیات اور ماحول سے متعلق ان کی دستاویزی فلمیں بہت شان دار ہیں اور اس کام پر انھیں ایوارڈ بھی دیے گئے۔

    قلم اور کتاب سے ان کا تعلق فکر و دانش اور معلوماتِ عامہ کی حد تک نہیں تھا بلکہ وہ ایک ادیب بھی تھے جن کا پہلا ناول ’اور انسان زندہ ہے‘ ساٹھ کی دہائی میں شائع ہوا تھا۔ دوسرا ناول ’راجپوت‘ 2010ء میں نیشنل بک فاؤنڈیشن، اسلام آباد نے شائع کیا۔

    عبید اللہ بیگ فارسی، عربی اور انگریزی زبانیں بھی جانتے تھے۔ ہمہ جہت شخصیت کے مالک عبید اللہ بیگ علم و ادب کے شیدائیوں کے لیے یونیورسٹی کا درجہ رکھتے تھے۔ فلسفہ، تاریخ، تہذیب و تمدن، سیاحت، ماحولیات، ادب کے ہر موضوع پر عبیداللہ بیگ کے بات کرنے کا انداز بھی منفرد اور دل چسپ تھا۔

    22 جون 2012ء کو عبید اللہ بیگ نے دارِ فانی کو خیرباد کہا تھا۔ وہ دل کے عارضے میں مبتلا تھے اور وفات سے چند ماہ پہلے پیٹ کے کینسر کی تشخیص ہوئی تھی۔ وہ ڈی ایچ اے گزری قبرستان میں سپردِ خاک کیے گئے۔