Tag: عثمان جامعی

  • بابائے جمہوریت نواب زادہ نصر ﷲ خان عالمِ بالا میں

    بابائے جمہوریت نواب زادہ نصر ﷲ خان عالمِ بالا میں

    زمینداروں کے شرعی حقوق کے تحفظ کے لیے تنظیم سازی سے لے کر راہ نماﺅں کے اتحاد کی تشکیل تک طویل سیاسی سفر طے کر کے نواب زادہ نصر ﷲ خان اس دُنیا سے چلے گئے تھے، لیکن گذشتہ رات اچانک ہمارے خواب میں آگئے۔

    کیا دیکھتے ہیں کہ نواب زادہ نصر اﷲ خان اپنی مخصوص وضع قطع کے ساتھ حقّہ پیتے عالمِ بالا میں پہنچے اور ڈھونڈتے ڈھانڈتے پاکستانی زعماء کی محفل میں وارد ہوگئے۔ یہاں دیگر کے ساتھ ساتھ آپ کی ملاقات بانیٔ پاکستان اور مصوّرِ پاکستان سے بھی ہوئی، جنھوں نے اپنے تصور و تخلیق کردہ ملک کے بارے میں سوالات کرکے نواب زادہ کو اس مشکل میں ڈال دیا کہ حقائق بتا کر اپنے ان محسنوں کو خون کے آنسو رلائیں یا جھوٹ بولنے کی گستاخی کریں۔ بہرحال زیرک سیاست داں نے بیچ کا راستہ نکال لیا، یوں کہ کچھ بھی نہ کہا اور کہہ بھی گئے، یہ خواب منظر کی صورت نذرِ قارئین ہے۔

    ہم نے دیکھا کہ نواب زادہ نصر اﷲ خان جیسے ہی زعماء کی محفل کے قریب پہنچے، کئی حضرات استقبال کے لیے اُٹھ کھڑے ہوئے اور آوازیں بلند ہوئیں:

    حسین شہید سہروردی، مولانا مودودی، مفتی محمود: آئیے آئیے خوش آمدید بڑی دیر کی مہرباں آتے آتے؟

    جنرل ضیاءُ الحق! آگئے…

    قائدِ اعظمؒ: (علّامہ اقبال سے مخاطب ہو کر) ”کون صاحب ہیں؟“

    علامہ اقبالؒ: ترکی ٹوپی تو بتا رہی ہے کہ ہمارے زمانے کے ہیں اور یہ کہ ترک قطعاً نہیں ہیں… سہروردی کو بلا کر پوچھ لیجیے، وہ جانتے ہوں گے۔

    قائد: کیا سہروردی اب ویزے کے بغیر مجھ سے مل سکتے ہیں؟

    علّامہ اقبال: خوش قسمتی سے آپ دونوں عالمِ ارواح میں ہیں ورنہ یہ ممکن نہ تھا۔

    قائد: مسٹر سہروردی! ذرا یہاں تشریف لائیے (ان کے نزدیک آتے ہی قائد پوچھتے ہیں) کون ہیں یہ نووارد؟ تعارف تو کرائیے؟

    سہروردی: (نواب زادہ کو قائد سے متعارف کراتے ہیں) سر! یہ ہیں نواب زادہ نصر ﷲ خان، جو ووٹ کی طاقت سے بنائے گئے آپ کے پاکستان میں جمہوریت کے قیام کے لیے پچاس سال سے…(کہتے کہتے رک گئے پھر گویا ہوئے) بڑی جدوجہد کرتے رہے ہیں۔

    قائد: تو جمہوریت آئی؟

    نواب زادہ نصر ﷲ: جی… کئی مرتبہ۔

    قائد: کیا مطلب۔

    نواب زادہ: دراصل ہمارے یہاں خوب سے خوب تر کی تلاش میں جمہوریت بار بار نئے سرے سے لائی جاتی ہے، پھر کبھی سوئے دار اور کبھی کوئے یار روانہ کر دی جاتی ہے اور کچھ عرصے بعد سنوار کر پھر لے آیا جاتا ہے۔

    قائد: ان کوششوں کے نتیجے میں جمہوریت مستحکم ہوئی؟

    نواب زادہ: صرف مضبوط ہی نہیں بلکہ موٹی تازی، لحیم شحیم اور دیوہیکل ہوچکی ہے۔

    قائد: (تشویش ناک لہجے میں) اب تو نہیں جائے گی۔

    نواب زادہ: کیسے جائے گی، اس بھاری بھر کم جمہوریت کے لیے چلنا تو کجا اُٹھنا بیٹھنا محال ہے۔

    قائد: تو گویا جمہوریت کے لیے آپ کی جدوجہد کام یاب ہوگئی، یقیناً آپ اور قوم نے میرے دیے ہوئے اصولوں، ایمان، اتحاد اور تنظیم پر عمل کیا ہوگا۔

    نواب زادہ: جی ہاں، بالخصوص اتحاد پر، میری تو ساری عمر گزری ہی اتحاد کی سیاست میں۔

    قائد: اس سیاست کے مثبت نتائج نکلے؟

    نواب زادہ: بالکل! یہاں تک کہ جس حکم راں کے خلاف اتحاد بنایا کچھ عرصے بعد وہ خود میرے ساتھ نئے اتحاد میں شریک تھا۔

    قائد: اور ڈسپلن؟

    نواب زادہ: حضرت! ہماری قوم نے تو ڈسپلن کے زیرِ سایہ ہی زندگی گزاری ہے، ہم بڑے منظم انداز میں لیفٹ رائٹ اور نہایت سرعت کے ساتھ اباﺅٹ ٹرن کر لیتے ہیں۔

    قائد: اور ایمان کا کیا کیا؟

    نواب زادہ: بُرے وقتوں کے لیے بچا رکھا ہے، اس کے سہارے خراب حالات کا مقابلہ کرتے ہیں، پھر سنبھال کر رکھ دیتے ہیں۔

    علّامہ اقبال: یہ تو بتائیے کہ پاکستان کی سلطانیٔ جمہور میں بندے گنے جاتے ہیں یا انھیں تولا جاتا ہے۔

    نواب زادہ: چُنے جاتے ہیں… پھر گنتی پوری کر دی جاتی ہے۔ ویسے اس مرتبہ چُننے کے ساتھ ساتھ تولا بھی گیا ہے۔

    اقبال: نقشِ کُہن مٹے؟

    نواب زادہ: منٹو پارک اب اقبال پارک اور گاندھی گارڈن جناح گارڈن ہوگیا ہے۔

    اقبال: بھئی میں جمہوریت کے حوالے سے پوچھ رہا ہوں؟

    نواب زادہ: کیوں نہیں ہر حکم راں نے مٹائے۔ بعض نے تو اپنے پیش رو کو بھی نقشِ کہن سمجھ کر مٹا دیا۔

    قائد: فوج کا کیا حال ہے۔

    نواب زادہ: جو ماضی میں تھا۔

    قائد: ”ماضی میں جنرل گریسی نے میرا حکم نہیں مانا تھا، اب تو جنرلوں میں تبدیلی آگئی ہوگی۔

    نواب زادہ: الحمدُ للہ اب سارے مسلمان ہیں۔

    اقبال: کیا یہ جنرل شاہین صفت ہیں۔

    نواب زادہ: کسی حد تک، یعنی جھپٹتے تو ضرور ہیں مگر پھر پلٹتے نہیں۔

    قائد: جمہوریت کو کوئی خطرہ تو نہیں؟

    نواب زادہ: (چند لمحے توقف کے بعد رندھی ہوئی آواز میں) نہیں جناب جمہوریت بڑے مضبوط ہاتھوں میں ہے۔

    یہ سُن کر قائد اور اقبال کے چہرے خوشی سے تمتما اٹھے، نواب زادہ پُر نم آنکھیں جھکائے اُٹھ کر کسی طرف چل دیے اور ہمارا خواب ٹوٹ گیا۔

    (معروف ادیب اور شاعر محمد عثمان جامعی کے فکاہیہ مضامین کے مجموعے "کہے بغیر”‌ سے انتخاب)

  • باتوں‌ کے بھوت!

    باتوں‌ کے بھوت!

    نجانے وہ لوگ کہاں بستے ہیں جن کے بارے میں احمد فراز نے کہا تھا:
    کیا ایسے کم سخن سے کوئی گفت گو کرے
    جو مستقل سکوت سے دل کو لہو کرے
    ہمیں تو اپنے ارد گرد وہ لوگ ہی نظر آتے ہیں جنھیں سخن سے دل کو لہو اور سماعت کو لہولہان کرنے کا شوق ہے۔

    ہمارے ہاں باتیں کرنا ایک باقاعدہ مشغلہ اور رواج ہے۔ لوگ ایک دوسرے کو ”گپ شپ“ اور ”کچہری کرنے“ کی دعوت دیتے ہیں اور یہ ”دعوتِ گفت گو“ گھنٹوں پر محیط ہوتی ہے۔

    ہمارے ہاں بات چیت کا آغاز ہی نہایت بے تکے پن سے کیا جاتا ہے، لہٰذا دورانِ گفت گو دانائی اور معقولیت کی توقع رکھنا فضول ہے۔ بات چیت کی ابتدا عموماً دو بھلے چنگے اور ہنستے مسکراتے افراد اس سوال سے کرتے ہیں:

    ”اور بھئی ٹھیک ٹھاک۔“ یا ”خیریت سے ہو۔“

    اس کے بعد لایعنی سوالات اور بے معنی گفت گو کا سلسلہ دراز ہوتا چلا جاتا ہے۔

    مغرب میں دو اجنبیوں میں گفت گو کی شروعات عموماً موسم کے تذکرے سے ہوتی ہے۔ مگر ہمارے یہاں جب دو ناآشنا ملتے ہیں تو خالصتاً ذاتی نوعیت کے سوالوں سے بات شروع کی جاتی ہے۔ مثلاً اپنے کاروبار کے مالک اور خاصے متموّل یا نو دولتیے، بھائی اچھّن اور ایک فیکٹری میں ملازمت کرنے والے شبّو میاں پہلی بار ایک شادی کی تقریب میں ملے ہیں، جہاں وہ دونوں محض اس لیے ایک دوسرے سے گویا ہونے پر مجبور ہوگئے کہ کوئی تیسرا انھیں لفٹ نہیں کرا رہا۔

    بھائی اچھّن (گاڑی کی چابی گھُماتے ہوئے): ”آپ کی کیا مصروفیات ہیں؟“
    شبّو میاں: ”مصروفیات تو بڑے لوگوں کی ہوتی ہیں۔ ہم جیسے لوگ تو نوکری ہی میں مصروف رہ کر زندگی گزار دیتے ہیں۔“
    بھائی اچھّن:”کہاں نوکری کرتے ہیں۔“
    شبّو میاں: ”ایک فیکٹری میں۔“
    بھائی اچھّن: ”فیکٹریوں میں تو تنخواہیں بہت کم ہیں۔ گزارہ ہوجاتا ہے؟“
    شبّو میاں: ”بڑی مشکل سے۔“
    بھائی اچھّن: ”تو اپنا کاروبار کیوں نہیں کرلیتے؟“
    اس سوال پر شبّو میاں کے چہرے کا رنگ متغیر ہوجاتا ہے اور کئی مغلظات ان کے گلے تک آکر بہ مشکل واپس جاتی ہیں۔ وہ بھائی اچھّن کے پاس سے اٹھنے کی کوشش کرتے ہیں، مگر بھائی اچھّن اس شکار کو اتنی آسانی سے چھوڑنے والے نہیں۔ وہ شبّو میاں کے سامنے مشوروں کا انبار لگا دیتے ہیں، جن میں مختلف کاروبار کرنے کی تجاویز شامل ہیں۔

    میاں اچھّن کی طرح کے کردار ہمارے یہاں عام ”دست یاب “ ہیں۔ یہ خواتین و حضرات کی وہ قسم ہے جسے دوسروں کو مشورے دینے کا جنون ہوتا ہے۔

    یہ ہر وقت بیتاب رہتے ہیں کہ کسی طرح دوسروں کے مسائل جان لیں، تاکہ انھیں حل کرنے کے لیے کوئی نادرونایاب مشورہ دیا جاسکے، بلکہ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ لوگوں کو مسائل میں مبتلا دیکھیں اور ان مسائل کا حل تجویز کریں۔ اس مقصد کو بروئے کار لانے کے لیے یہ لوگ دوسروں کے دل و دماغ، یہاں تک کہ کپڑوں میں جھانکنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔

    اگر آپ کہیں ان کے سامنے کھانس دیے تو یہ ذراسی دیر میں آپ کے لیے لاتعداد حکیمی، ہومیوپیتھک اور ایلوپیتھک ادویات تجویز کردیں گے۔ ادھر آپ نے ان کے رُو بَرو اپنی مالی پریشانی کا تذکرہ کیا اور ادھر یہ کسی ماہرِ معاشیات کی طرح آپ کی معیشت سدھارنے کے فارمولے پیش کرنے لگے۔ ان خواتین و حضرات کے بارے میں ہم آج تک یہ طے نہیں کرسکے ہیں کہ یہ صرف باتوں کے لیے مشوروں کی پٹاری کھول دیتے ہیں یا مشورے دینے کے لیے گفت گو فرماتے ہیں۔

    (معروف صحافی، ادیب اور شاعر عثمان جامعی کے طنز و مزاح پر مبنی کالموں‌ کے مجموعے "کہے بغیر” سے اقتباس)

  • دیواریں بولتی ہیں، مگر ایسے!

    دیواریں بولتی ہیں، مگر ایسے!

    دیواروں پر لکھے سیاسی نعرے شہریوں کے لیے بہت اہم ہیں۔

    ان کے مطالعے سے نہ صرف معلومات میں اضافہ ہوتا ہے، بلکہ شہری آنے والے خطرات سے ہوشیار بھی ہوجاتے ہیں۔ مثلاً ایک تنظیم کے دیواروں پر تحریر کردہ نعرے سے پتا چلتا ہے کہ اس تنظیم نے راہ نما کی صورت میں شیر پال لیا ہے، لہٰذا جس کو ہو جان و دل عزیز ان کی گلی میں جائے ”مت۔“

    ایک زمانے میں دیواروں پر تحریر ایک نعرے نے ظالموں میں خواہ مخواہ ہلچل مچادی تھی، حالاں کہ نعرے میں ظالموں سے صرف اتنا کہا گیا تھا کہ فلاں صاحب آرہے ہیں۔ وہ آکر کیا کریں گے؟ اس بابت کوئی اشارہ تک نہیں تھا۔

    کراچی میں کچھ عرصہ قبل دیواروں پر لکھے سیاسی نعرے شہریوں کے بہت کام آتے تھے۔ یہ وہ دور تھا جب شہر ”حقیقی“ سمجھی جانے والی مفروضہ تقسیم کا شکار ہوچکا تھا، اور شہریوں کو سیاست دوراں پر بولنے سے پہلے سوچنا پڑتا تھا کہ وہ شہر کے کس علاقے میں ہیں، ایسے میں دیواروں پر لکھے نعرے مشکل آسان کر دیتے تھے۔

    ہمارے ہاں دیواریں بیک وقت اخبار، ڈائری محبت نامے، اعمال نامے اور اشتہاری بورڈ کا کام دیتی ہیں۔ دیواریں پڑھ کر آپ اہم سیاسی خبروں سے واقف ہوسکتے ہیں، مثلاً کون صاحب شہر میں نزول فرمانے والے ہیں، جن کا والہانہ استقبال کرنا ہر شہری کا فرض ہے، یا نشتر پارک میں کون سیاست داں عوام سے ”تاریخی“ خطاب کرے گا۔

    دل کی بھڑاس نکالنے کے لیے دیواروں سے اچھی کوئی جگہ نہیں، یہاں آپ علاقہ کونسلر سے لے کر صدر بُش تک جس کی شان میں جو چاہے بلاخوف و خطر لکھیں۔ دیواروں پر امریکا کو مٹا دینے، اسرائیل کو ملیا میٹ اور بھارت کو تہس نہس کر دینے کے نعرے پڑھ کر ایک عرصے تک ہم سمجھتے رہے کہ دشمنان اسلام کے خاتمے پر مُصر لشکر جرار دیواروں پر اپنے عزائم نقش کرنے کے فوری بعد ”محاذ“ پر روانہ ہوچکا ہے اور امریکا، اسرائیل اور بھارت کو نیست و نابود کرکے مال غنیمت سمیت واپس لوٹے گا۔

    اس انتظار میں برسوں بیت گئے، ”لشکر جرار“ کا راستہ دیکھتے دیکھتے ہماری آنکھیں پتھرا گئیں۔ مگر ادھر یہ حال کہ ”نہ آپ آویں نہ بھیجیں چٹھیاں“ تھک ہار کر ہم نے یہ نتیجہ نکالا کہ دیواروں پر انتہا پسندانہ نعرے لکھنے والے عملی اقدام اٹھانے کے بجائے ساکت و جامد ہو کر دیوار کا حصہ بن جاتے ہیں۔

    (محمد عثمان جامعی کی کتاب کہے بغیر سے انتخاب)