Tag: عجائبات عالم

  • زمانۂ قدیم کی وہ تعمیرات جو عظمتِ رفتہ اور شان و شوکت کی علامت ہیں

    زمانۂ قدیم کی وہ تعمیرات جو عظمتِ رفتہ اور شان و شوکت کی علامت ہیں

    زمانۂ قدیم کے جن تعمیراتی شاہکاروں کے آثار اور کھنڈرات دورِ جدید میں دریافت ہوئے انھیں ہم عجائباتِ عالم میں شمار کرتے ہیں اور یہ صدیوں قبل بھی اسی حیثیت میں مشہور تھے۔ ان عجائبات میں مختلف مقاصد کے لیے تعمیر کردہ عمارتیں، یادگاری مجسمے، مینار وغیرہ شامل ہیں‌ جو کسی عظیم الشّان سلطنت کی عظمت کا نشان اور قابلِ فخر شناخت رہی ہوں‌ گی۔

    یہ عجائبات قبلِ مسیح سے لے کر ہزار دو ہزار سال قدیم بھی ہیں اور ان کے آثار ماضی کو کھوجنے اور کسی تہذیب و ثقافت کو سمجھنے میں مددگار ہیں۔ یہاں‌ ہم چند ایسے ہی عجائبات کے بارے میں آپ کو بتارہے ہیں۔

    ہرم خوفو
    مثلث طرزِ تعمیر کا ہرم خوفو، جسے غزہ کا عظیم ہرم یا اہرامِ مصر بھی کہا جاتا ہے، یہ اس جادوئی مثلث پر مبنی ہے کہ جس کے اندر کوئی بھی چیز بوسیدہ نہیں ہوتی۔ یہ ہرم غزہ کے تین بڑے اہرام میں سے سب سے قدیم اور بڑا ہے۔ یہ مصر کے شہر غزہ میں واقع ہے، جس کی نسبت سے اسے ”غزہ کا عظیم ہرم“ کہتے ہیں۔ ماہرینِ مصریات کے مطابق یہ ہرم 2560 سال قبل مسیح میں خوفو فرعون کے مقبرے کے طور پر استعمال ہوا۔ اس کی بلندی 146.5 میٹر (481 فٹ) ہے۔ 3800 سو سال تک اس عظیم ہرم کا شمار انسانی تعمیرات میں سب سے بلند عمارت میں ہوتا تھا۔ ماہرین کا قیاس ہے کہ خوفو بادشاہ کا وزیر حمیونو اس کا معمار تھا۔

    روہوڈز کا مجسمہ
    روہوڈز کا مجسمہ (Colossus of Rhodes) یونانی دیو مالا کے ایک سورج دیوتا ہیلیوس کا عظیم مجسمہ تھا، جو رہوڈس شہر میں ایک مقام پر ایستادہ تھا۔ اس مجسمے کی بلندی 30 میٹر (98 فٹ) تھی۔ یہ مجسمہ اب موجود نہیں، تاہم اسی کی طرز پر ہیلیوس کا عظیم مجسمہ کئی مجسمہ سازوں نے بنایا۔ کہتے ہیں‌ کہ اسی مجسمے کی بدولت مغرب اور یونان میں مجسمہ سازی کا فن عروج پر پہنچا۔

    زیوس کا مجسمہ
    اولمپیا میں موجود اس مجسمے کی اونچائی 42 فٹ ہے۔ اس مجسمہ میں زیوس کو نشستہ حالت میں دکھایا گیا تھا۔ یہ 435 قبل مسیح میں بنوایا گیا۔ اس کی تیاری میں ہاتھی کے دانت، سونے کی تختیاں اور قیمتی پتھر بھی استعمال ہوئے ہیں۔ یہ مجسمہ یونانی دیوتا کی نمائندگی کرتا ہے۔ 5 ویں صدی قبل مسیح میں یہ نابود ہو گیا تھا۔ روایت ہے کہ اولمپس پہاڑی پر فیڈیاس نے زیوس سے ملاقات کی تھی، اور یہ مجسمہ اس سے متاثر ہو کر بنایا گیا۔

    موسولس کا مزار
    موسولس کا مقبرہ دنیا کا تعمیراتی عجوبہ ہے، اسے 350 قبل مسیح میں قدیم یونانی شہر ہالی کارناسس (جو اب ترکی کا بودروم ہے) کے قریب تعمیر کیا گیا۔ یہ مزار تقریباً 45 میٹر اونچا اور چاروں طرف نقوش اور یونانی طرز تعمیر نظر آتا ہے۔ مؤرخین کے مطابق یہ 12 تا 15صدی عیسوی میں زلزلہ کی وجہ سے تباہ ہو گیا تھا۔ اس کا ڈیزائن ماہرینِ تعمیرات سیتی روس اور پرائنے کے پائتھئس، لیوکیریس، بریائکس، اسکو پاس اور ٹموتھیئس نے بنایا۔

    معبد آرتمیس
    یہ ایک یونانی دیوی آرتمیس کے لیے وقف کیا گیا معبد تھا، جس کا شمار قدیم دنیا کے سات عجائبات عالم میں ہوتا ہے۔ آرتمیس (Artemis) کے معبد کی طرزِ تعمیر میں یونانی رنگ نمایاں ہے۔ یونانی دیومالا میں آرتیمس کو شکار کی دیوی مانا جاتا ہے جو اپنی تیر اندازی کی وجہ سے مشہور تھی۔ اسے دوشیزگی اور پاکیزگی کی علامت بھی تصور کیا جاتا ہے۔اس کے کئی فن پاروں میں وہ تیر سے کتّے کا شکار کرتے ہوئے دکھائی گئی ہے۔

  • مٹّی سے بنا ‘اَرگِ بام’ ایک روز مٹّی میں مل گیا!

    مٹّی سے بنا ‘اَرگِ بام’ ایک روز مٹّی میں مل گیا!

    ایران کے جنوب مشرق میں‌ تاریخی شہر ‘بام’ کبھی ریشم اور حِنا کی پیداوار کے لیے مشہور تھا اور اسی شہر میں‌ مٹّی اور کچّی اینٹوں کا شہرہ آفاق قلعہ بھی موجود ہے جسے ‘ارگِ بام’ کہا جاتا ہے۔

    یہ نقشِ کہن تہذیب و تمدن اور قدیم ثقافت کی عظیم یادگار ہی نہیں‌ بلکہ فنِ تعمیر میں ایجاد و اختراع، انسان کی کاری گری اور ہنر مندی کا بھی منہ بولتا ثبوت ہے۔

    صدیوں پہلے معماروں نے اس قلعے کو بلندی پر تعمیر کیا تھا اور نیچے کی طرف قلعے کے اطراف بستی اور بازار بنائے تھے۔

    اَرگ کا مطلب ہے نہایت مضبوط اور بام اس قلعے کے بلند مقام ہونے کی طرف اشارہ ہے۔ یعنی اونچائی پر ایک مضبوط عمارت۔

    یہ شہر چھے مربع کلو میٹر پر پھیلا ہوا ہے جس کی دیواریں‌ 18 میٹر بلند تھیں۔ صدیوں‌ پہلے مخصوص مٹّی اور کچّی اینٹوں سے تعمیر کردہ یہ قلعہ اور شہر واقعی بہت مضبوط تھا جس نے ہزار ہا برسوں سے حالات اور موسم کے اتار چڑھاؤ اور سرد و گرم کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنا وجود قائم رکھا، لیکن 2003ء کے زلزلے میں زمیں بوس ہوگیا۔ آج یہ ثقافتی ورثہ مکمل بحالی اور توجہ کا منتظر ہے، لیکن یہاں دور تک مٹّی اور ملبا ہی دکھائی دیتا ہے۔

    بام شہر کے اس زلزلے میں لگ بھگ ساٹھ ہزار افراد ہمیشہ کے لیے منوں مٹّی تلے جا سوئے تھے۔

    ارگِ بام کو باقاعدہ اور منظّم طریقے سے بسایا اور بنایا گیا تھا۔ مذکورہ ناگہانی آفت سے قبل پہاڑی پر موجود فنِ تعمیر کا یہ شاہ کار قلعہ سیّاحوں کی توجہ کا مرکز تھا۔ اس کے ساتھ نیچے شہر کا نقشہ یہ تھاکہ وہاں ایک ہی صدر دروازہ تھا اور اسی سے تمام افراد اندر داخل ہوسکتے تھے۔

    بام شہر ایران کے صوبہ کرمان کا حصّہ ہے جس میں‌ موجود یہ قلعہ قبلِ مسیح کی یادگار تھا اور ساتویں سے گیارہویں صدی میں‌ اسلامی عہد میں اس خطے کو تجارتی اعتبار سے بہت اہمیت حاصل ہوگئی تھی۔

    2003ء کے زلزلے میں پہاڑی پر قائم قلعے کا بیش تر حصّہ بھی تباہ ہوا، لیکن نیچے موجود عمارتیں‌ تو واقعی مٹّی کا ڈھیر بن گئی تھیں۔