Tag: عدالت کی خبریں

  • محکمے کارکردگی دکھانے کے بجائے سوئے پڑے ہیں: عدالت برہم

    محکمے کارکردگی دکھانے کے بجائے سوئے پڑے ہیں: عدالت برہم

    لاہور: لاہور ہائیکورٹ نے متعدد محکموں سے اسموگ کے تدارک کے لیے کیے گئے اقدامات پر رپورٹ طلب کرلی، عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ محکمے کارکردگی دکھانے کے بجائے سوئے پڑے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور ہائیکورٹ میں اسموگ کے تدارک کے حوالے سے دائر شدہ درخواست کی سماعت ہوئی۔ عدالت نے اسموگ کی روک تھام کے لیے کابینہ اجلاس کی کارروائی کا ریکارڈ طلب کرلیا۔

    عدالت نے کہا کہ اسموگ کی روک تھام کے لیے اقدامات پر سالانہ رپورٹ دی جائے۔ اسموگ کی روک تھام کے لیے ون ونڈو سسٹم قائم کیا جائے۔

    عدالت نے متعدد محکموں سے کیے گئے اقدامات پر رپورٹ طلب کرلی۔ عدالت کی جانب سے ٹرانسپورٹ ڈپارٹمنٹ سے آلودگی کی روک تھام کے لیے اور آلودگی پھیلانے والی گاڑیوں کے خلاف کی گئی کارروائی کی رپورٹ طلب کی گئی۔

    عدالت نے کہا کہ سیف سٹی اتھارٹی پر اتنے پیسے خرچ کیے جا رہے ہیں۔ دوسرے محکموں پر کیوں رقم خرچ نہیں کی جارہی؟ انسانی زندگی سے زیادہ کوئی چیز عزیز نہیں۔

    عدالت نے واسا سے بھی صاف پانی کی بابت رپورٹ طلب کرلی۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ ایک طرف واسا کہتا ہے پینے کا صاف پانی میسر نہیں، بادی النظر میں ایل ڈی اے کارکردگی دکھانے کے بجائے سویا پڑا ہے۔

    عدالتی احکامات پر عمل نہ کرنے پر عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کے محکمے اپنے قانونی نظام کو بہتر بنائیں۔

    ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل نے عدالت میں بتایا کہ ترقیاتی منصوبوں کے نام پر 13 سو درخت کاٹے گئے، فیکٹریوں کے گندے پانی سے مچھلیوں کی افزائش و نسل ختم ہو رہی ہے۔

    عدالت نے کہا کہ ڈینگی اسپرے سے صرف مکھیاں مر گئیں، یہ حکومتی کارکردگی ہے؟ پارکس اینڈ ہارٹی کلچرل اتھارٹی (پی ایچ اے) بتائے درختوں کی افزائش نسل کے لیے کیا اقدامات کیے؟

    پی ایچ اے کی جانب سے کہا گیا کہ کینال روڈ پر 27 ہزار درخت لگائے ہیں۔ ایک کے بدلے 10 درخت لگانا پی ایچ اے کی پالیسی ہے جس پر عدالت نے کہا کہ لگائے گئے درخت کہیں دکھائی کیوں نہیں دے رہے؟

    عدالت نے متعدد محکموں سے رپورٹس طلب کرتے ہوئے درخواست پر مزید سماعت 9 جنوری تک ملتوی کردی۔

  • لاہور اسموگ: عدالت خود گواہ ہے کہ بھٹے بند نہیں ہوئے

    لاہور اسموگ: عدالت خود گواہ ہے کہ بھٹے بند نہیں ہوئے

    لاہور: صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں ماحولیاتی آلودگی اور اسموگ کے خلاف درخواست پر لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے کہا گیا کہ عدالت خود گواہ ہے کہ بھٹے بند نہیں ہوئے، کیوں نہ وزیر اعلیٰ پنجاب اور چیف سیکریٹری کو طلب کرلیا جائے۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور ہائیکورٹ میں ماحولیاتی آلودگی اور اسموگ کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی، درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ غیر معیاری پیٹرول سلفر میں اضافے اور بیماریوں کا سبب ہے۔

    عدالت نے کہا کہ کیوں نہ وزیر اعلیٰ پنجاب اور چیف سیکریٹری کو طلب کرلیا جائے۔ وعدے اور دعوے تو بہت کیے جا رہے ہیں مگر عملی اقدامات کا فقدان ہے، سڑکیں بنانے کے لیے کتنے درخت کاٹے گئے تفصیلات دی جائیں۔

    عدالت نے کہا کہ جب تک انہیں نہیں بلایا جائے گا اس وقت تک کوئی ذمے داری نہیں لے گا۔ سرکاری وکیل نے کہا کہ پنجاب بھر میں 3 ہزار بھٹے بند کر دیے گئے ہیں۔

    عدالت نے کہا کہ عدالت خود گواہ ہے کہ بھٹے بند نہیں ہوئے۔ ملتان کے قریب چلتے بھٹے دیکھے ہیں عملہ بھی گواہ ہے۔ مقدمہ عدالت کی یا عملے کی مدعیت میں درج کیا جائے۔

    سرکاری وکیل نے کہا کہ 36 محکمے اسموگ کے خاتمے کے لیے مل کر کام کر رہے ہیں۔ عدالت نے کہا کہ ذمے داری ایک فرد یا ادارے پر ڈالنے تک کام آگے نہیں بڑھ سکتا۔

    عدالت نے کہا کہ چیف سیکریٹری کو طلب کیا تو کہا جائے گا ابھی تعینات ہوا ہوں، کچھ پتہ نہیں۔ اتنی جلدی تبادلے کیے جا رہے ہیں کہ کسی کو کچھ پتہ نہیں چل رہا۔

    درخواست گزار نے کہا کہ شہر میں آلودگی کی بڑی وجہ گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں ہے، دنیا بھر میں الیکٹرک گاڑیاں متعارف کروا دی گئی ہیں۔ پاکستان میں الیکٹرک گاڑیوں کی پالیسی بنائی گئی لیکن عمل نہیں ہو رہا۔

    درخواست گزار نے استدعا کی کہ عدالت حکومت کو بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کی تیاری کا حکم دے۔

  • جج بلیک میلنگ اسکینڈل: دہشت گردی دفعات مقدمے میں شامل نہ کرنے کا فیصلہ چیلنج

    جج بلیک میلنگ اسکینڈل: دہشت گردی دفعات مقدمے میں شامل نہ کرنے کا فیصلہ چیلنج

    اسلام آباد: جج بلیک میلنگ اسکینڈل کیس میں دہشت گردی کی دفعات شامل نہ کرنے کا فیصلہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق ایف آئی اے نے جج بلیک میلنگ مقدمے میں دہشت گردی کی دفعات شامل نہ کرنے کے ٹرائل کورٹ کا فیصلہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا۔

    اسلام آباد ہائی کورٹ کو دی گئی درخواست میں کہا گیا ہے کہ مقدمہ انسداد دہشت گردی عدالت (اے ٹی سی) میں منتقل کرنے کی درخواست ٹرائل کورٹ نے مسترد کی، سائبر کرائم کورٹ نے قانون کے خلاف فیصلہ دیا ہے۔

    درخواست میں ایف آئی اے نے استدعا کی ہے کہ عدالت ٹرائل کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے، اور مقدمے میں دہشت گردی کی دفعات شامل کرنے کا حکم دیا جائے۔

    یہ بھی پڑھیں:  جج بلیک میلنگ اسکینڈل، نواز شریف کی نظرثانی درخواست سپریم کورٹ میں دائر

    خیال رہے کہ انسداد الیکٹرانک کرائم کی عدالت نے ایف آئی اے کی درخواست مسترد کی تھی، جس میں مذکورہ مقدمے میں دہشت گردی کی دفعات شامل کرنے کی استدعا کی گئی تھی۔

    وفاق کی جانب سے دائر کی گئی جج ارشد ملک کی ویڈیو بنانے والے میاں طارق کا کیس اے ٹی سی منتقلی کی درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں سماعت کل ہوگی، جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن کیانی درخواست پر سماعت کریں گے۔

    یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک ویڈیو اسکینڈل کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کو اختیار ہے کہ وہ اس ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد جج ارشد ملک کی طرف سے نواز شریف کو دی جانے والی سزا کا ازسر نو جائزہ لے۔

  • خودکش حملے میں ملوث ملزم سپریم کورٹ سے بری

    خودکش حملے میں ملوث ملزم سپریم کورٹ سے بری

    اسلام آباد: سنہ 2007 میں راولپنڈی میں ہونے والے خودکش حملے میں ملوث ملزم عدیل خان کو سپریم کورٹ نے بری کردیا، خودکش دھماکے میں 20 افراد شہید، 36 زخمی ہوئے تھے۔

    تفصیلات کے مطابق قاسم مارکیٹ راولپنڈی خودکش دھماکہ کیس کے ملزم عدیل خان کو بری کردیا گیا، سپریم کورٹ میں دائر درخواست پر ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا گیا۔

    کیس کے دوران ویڈیو لنک کے ذریعے لاہور رجسٹری سے وکلا نے دلائل دیے۔ سرکاری وکیل امجد رفیق کا کہنا تھا کہ دھماکہ عام نہیں ٹارگٹڈ تھا، 3 آدمی کار میں آئے ایک بس میں داخل ہوا 2 واپس چلے گئے۔ جب کار واپس چلی گئی تو بس میں دھماکہ ہوگیا۔

    جسٹس سردار طارق محمود نے دریافت کیا کہ 11 ماہ تک رینٹ پر گاڑی لینے والے کا نام سامنے کیوں نہیں آیا، پولیس کو نام معلوم تھا تو ملزم کو گرفتار کیوں نہیں کیا گیا؟

    سرکاری وکیل نے بتایا کہ 11 ماہ تک ملزم کی تلاش جاری رہی، جس پر جسٹس طارق محمود نے کہا کہ ملزم کا نام تو 11 ماہ ریکارڈ پر آیا ہی نہیں۔ پھر کیسے کہہ رہے ہیں کہ اس کی تلاش جاری تھی؟

    وکیل امجد رفیق نے کہا کہ اس کیس کو عام کیس کی طرح نہ دیکھا جائے۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے بڑا بیان دیا کہ کیس کو عام قانون کی طرح نہ پرکھیں، جو قانون موجود ہے وہ سب کے لیے برابر ہے۔ ہم نے اسی قانون کے مطابق سب کے فیصلے کرنے ہیں، کسی کے لیے مخصوص قانون چاہتے ہیں تو قانون سازی کروائیں۔

    انہوں نے کہا کہ حملے میں قیمتی جانیں چلی گئیں، سرکار نے اچھا کیس نہیں بنایا، 11 ماہ بعد شناخت پریڈ لا رہے ہیں، کیا اتنے ماہ بعد کسی کی شکل یاد رہتی ہے؟ 2 پولیس اہل کاروں کو گواہ بنا دیا گیا، کیونکہ وہ وردی میں انکار نہیں کر سکتے۔ اتنے بڑے بازار میں اور کوئی گواہ نہیں ملا۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ گواہی چار پانچ ماہ بعد لے کر ضمنی کے شروع میں ڈال دی گئی، قانون کے مطابق شہادت نہ ہو تو ہم کیا کریں؟ ملوث ہونے میں ثابت کرنے کے لیے کچھ تو شہادت چاہیئے، اتنے بڑے کیس میں اتنی کمزور شہادت لائی گئی۔

    انہوں نے مزید کہا کہ اسی معاشرے میں رہتے ہیں ہمارے عزیزوں کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے، ایسا ہوتا ہے تو بہت تکلیف ہوتی ہے مگر حلف یاد آتا ہے کہ ہم نے اللہ کے سامنے جوابدہ ہونا ہے کہ قانون کے مطابق فیصلہ کیا یا نہیں۔ ملزم کا کسی دہشت گرد تنظیم سے تعلق بھی ثابت نہیں ہوا۔

    خیال رہے کہ سنہ 2007 میں راولپنڈی میں ہونے والے خودکش حملے میں 20 افراد شہید، 36 زخمی ہوئے تھے، ملزم عمر عدیل خان پر خود کش بمبار کی معاونت کا الزام تھا۔

    ملزم عدیل خان کو ٹرائل کورٹ نے 20 بار پھانسی کی سزا سنائی تھی، اپیل پر لاہور ہائیکورٹ نے ٹرائل کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا، تاہم آج سپریم کورٹ نے ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔

  • منشیات برآمدگی کیس: رانا ثنا اللہ کے جوڈیشل ریمانڈ میں 18 اکتوبر تک توسیع

    منشیات برآمدگی کیس: رانا ثنا اللہ کے جوڈیشل ریمانڈ میں 18 اکتوبر تک توسیع

    لاہور: منشیات برآمدگی کیس میں سابق صوبائی وزیر رانا ثنا اللہ کے جوڈیشل ریمانڈ میں 18 اکتوبر تک توسیع کردی گئی، عدالتی حکم پر گرفتاری کے وقت کی سیف سٹی کی فوٹیج عدالت میں پیش کردی۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور کی انسداد منشیات عدالت میں سابق صوبائی وزیر اور مسلم لیگ ن کے رہنما رانا ثنا اللہ کے خلاف منشیات برآمدگی کیس کی سماعت ہوئی، اسپیشل جج سینٹرل خالد بشیر نے کیس کی سماعت کی۔

    سماعت کے دوران سیف سٹی اتھارٹی ک جانب سے گاڑیوں کی فوٹیج اور رپورٹ عدالت میں جمع کروا دی گئی، رانا ثنا اللہ کے وکیل نے کہا کہ مقدمے کا مدعی اور تفتیشی اے این ایف سے ہیں، قانون کے مطابق تفتیش آزادانہ ہونی چاہیئے۔

    انہوں نے کہا کہ فوٹیج محفوظ ہے ضائع ہونے کا اب خدشہ نہیں، رانا ثنا اللہ کا مؤقف سی سی ٹی وی فوٹیجز کے بعد سچ ثابت ہوا۔

    اے این ایف کے پراسیکیوٹر نے کہا کہ رانا ثنا اللہ سمیت دیگر ملزمان پر فرد جرم عائد کی جائے، ڈیوٹی جج ٹرائل سن سکتا ہے تو پھر فرد جرم عائد کی جائے۔ یہ باہر جاتے ہیں تو کہتے ہیں زیادتی ہورہی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ اس کیس کو ہائی جیک کیا جا رہا ہے، پہلے فرد جرم عائد کی جائے پھر ثبوت آتے رہیں گے۔ سی ڈی آر کا ریکارڈ ایک سال تک محفوظ رہتا ہے، اس وقت منگوانے سے کیس میں تاخیر ہوگی۔

    دوران سماعت اینٹی نارکوٹکس پراسیکیوٹر اور رانا ثنا اللہ کے وکلا کے درمیان تلخ کلامی بھی ہوئی۔

    عدالت نے رانا ثنا اللہ کے جوڈیشل ریمانڈ میں 18 اکتوبر تک توسیع کرتے ہوئے مدعی مقدمہ کو آئندہ سماعت پر طلب کرلیا۔ کیس کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر کرنے کی درخواست پر بھی عدالت نے وکلا کو نوٹس جاری کردیے۔

    خیال رہے کہ رانا ثنا اللہ کو یکم جولائی کو انسداد منشیات فورس نے اسلام آباد سے لاہور جاتے ہوئے موٹر وے سے حراست میں لیا تھا، رانا ثنا اللہ کی گاڑی سے بھاری مقدار میں ہیروئن برآمد ہوئی تھی۔

    اے این ایف ذرائع نے بتایا تھا کہ رانا ثنا کی گاڑی کے ذریعہ منشیات اسمگلنگ کی انٹیلی جنس اطلاع پر کارروائی کی گئی، گرفتاری کے وقت رانا ثنا کے ساتھ گاڑی میں ان کی اہلیہ اور قریبی عزیز بھی تھا۔

    اے این ایف ذرائع کے مطابق ایک گرفتار اسمگلر نے دوران تفتیش رانا ثنا اللہ کی جانب سے منشیات اسمگلنگ میں معاونت کا انکشاف کیا تھا۔

    ذرائع کا کہنا تھا کہ رانا ثنا کے منشیات فروشوں سے تعلقات اور منشیات کی اسمگلنگ سے حاصل شدہ رقم کالعدم تنظیموں کو فراہم کرنے کے ثبوت ہیں، رانا ثنا اللہ کے منشیات فروشوں سے رابطوں سے متعلق 8 ماہ سے تفتیش کی جارہی تھی۔

    گرفتار افراد نے انکشاف کیا تھا کہ رانا ثنا اللہ کے ساتھ چلنے والی گاڑیوں میں منشیات اسمگل کی جاتی ہے، فیصل آباد ایئرپورٹ بھی منشیات اسمگلنگ کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔

  • منشیات برآمدگی کیس: رانا ثنا اللہ کی گرفتاری کے بعد تھانے لے جانے تک کی فوٹیج عدالت میں طلب

    منشیات برآمدگی کیس: رانا ثنا اللہ کی گرفتاری کے بعد تھانے لے جانے تک کی فوٹیج عدالت میں طلب

    لاہور: سابق صوبائی وزیر رانا ثنا اللہ کے خلاف منشیات برآمدگی کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے گرفتاری کی فوٹیج محفوظ کرنے کی درخواست منظور کرتے ہوئے سیف سٹی حکام کو پیش ہونے کی ہدایت کردی۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور کی انسداد منشیات عدالت میں سابق صوبائی وزیر اور مسلم لیگ ن کے رہنما رانا ثنا اللہ کے خلاف منشیات برآمدگی کیس کی سماعت ہوئی، اسپیشل جج سینٹرل خالد بشیر نے کیس کی سماعت کی۔

    رانا ثنا اللہ کو جوڈیشل ریمانڈ کے بعد وکلا کی ہڑتال کے باعث عدالت میں پیش نہ کیا جا سکا، عدالت نے انہیں آئندہ تاریخ پر پیش کرنے کا حکم دیا۔ وکیل صفائی نے کہا کہ ہڑتال کوئی وجہ نہیں کہ ملزم کو پیش نہ کیا جائے، اتنی پولیس کی موجودگی میں ملزم کو پیش کیاجا سکتا تھا۔

    وکیل صفائی نے عدالت کو بتایا کہ موٹر وے کی سی سی فوٹیج کی درخواست دی ہے، ٹھوکر نیاز بیگ سے اے این ایف دفتر تک کی فوٹیج منگوائی جائے۔ خدشہ ہے کہ اہم ثبوت ضائع نہ ہو جائیں۔ مقدمے میں جو مدعی ہے وہ تفتیشی افسر بھی ہے۔

    سرکاری وکیل نے کہا کہ عدالت کو دیکھنا ہے فوٹیج دینے کی درخواست اہم ہے یا نہیں، فوٹیج میں صرف گاڑیاں گزرنے کے علاوہ کیا نظر آئے گا۔

    انہوں نے کہا کہ جان بوجھ کر کیس کو سیاسی بنایا جا رہا ہے۔ جب کیس شروع ہوگا تو تمام حقائق سامنے آجائیں گے، ملزموں کی فوٹیج فراہمی کی درخواست بے بنیاد ہے اسے مسترد کیا جائے۔

    وکیل صفائی نے کہا کہ ایک شخص کے خلاف موت اور عمر قید کی دفعات کا مقدمہ درج ہے، درخواست پر یہ کہنا کہ اہم نوعیت کی نہیں ہے، سمجھ سے باہر ہے۔ ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ فوٹیج محفوظ کرلی جائے۔

    عدالت نے رانا ثنا اللہ کو گرفتار کر کے ٹھوکر نیاز بیگ سے تھانے لے جانے کی سیف سٹی کی بننے والی فوٹیج محفوظ کرنے کی درخواست منظورکرلی۔ عدالت نے سیف سٹی حکام کو ریکارڈ سمیت پیش ہونے کی ہدایت بھی کی۔ رانا ثنا اللہ کے خلاف کیس کی مزید سماعت 2 اکتوبر تک ملتوی کر دی گئی۔

    خیال رہے کہ رانا ثنا اللہ کو یکم جولائی کو انسداد منشیات فورس نے اسلام آباد سے لاہور جاتے ہوئے موٹر وے سے حراست میں لیا تھا، رانا ثنا اللہ کی گاڑی سے بھاری مقدار میں ہیروئن برآمد ہوئی تھی۔

    اے این ایف ذرائع نے بتایا تھا کہ رانا ثنا کی گاڑی کے ذریعہ منشیات اسمگلنگ کی انٹیلی جنس اطلاع پر کارروائی کی گئی، گرفتاری کے وقت رانا ثنا کے ساتھ گاڑی میں ان کی اہلیہ اور قریبی عزیز بھی تھا۔

    اے این ایف ذرائع کے مطابق ایک گرفتار اسمگلر نے دوران تفتیش رانا ثنا اللہ کی جانب سے منشیات اسمگلنگ میں معاونت کا انکشاف کیا تھا۔

    ذرائع کا کہنا تھا کہ رانا ثنا کے منشیات فروشوں سے تعلقات اور منشیات کی اسمگلنگ سے حاصل شدہ رقم کالعدم تنظیموں کو فراہم کرنے کے ثبوت ہیں، رانا ثنا اللہ کے منشیات فروشوں سے رابطوں سے متعلق 8 ماہ سے تفتیش کی جارہی تھی۔

    گرفتار افراد نے انکشاف کیا تھا کہ رانا ثنا اللہ کے ساتھ چلنے والی گاڑیوں میں منشیات اسمگل کی جاتی ہے، فیصل آباد ایئرپورٹ بھی منشیات اسمگلنگ کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔

  • رانا ثنا اللہ کے خلاف منشیات برآمدگی کیس کی سماعت

    رانا ثنا اللہ کے خلاف منشیات برآمدگی کیس کی سماعت

    لاہور: سابق صوبائی وزیر اور مسلم لیگ ن کے رہنما رانا ثنا اللہ کے خلاف منشیات برآمدگی کیس کی سماعت جاری ہے، رانا ثنا اللہ 14 ستمبر تک جوڈیشل ریمانڈ پر تھے۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور کی انسداد منشیات عدالت میں سابق صوبائی وزیر رانا ثنا اللہ کو ریمانڈ مکمل ہونے پر پیش کیا گیا، پراسیکیوٹر صلاح الدین مینگل طبیعت خرابی کے باعث پیش نہ ہوئے۔

    عدالت نے دریافت کیا کہ بتایا جائے کون سے پراسیکیوٹر درخواست ضمانت میں سرکار کی جانب سے پیش ہوں گے۔ عدالت نے اینٹی نارکوٹکس فورس (اے این ایف) کے پراسیکیوٹر کو بحث کے لیے طلب کرلیا۔

    رانا ثنا اللہ کے وکیل نے کہا کہ پہلے بھی واٹس ایپ پر جج کو تبدیل کر دیا گیا، ایسا نہ ہو کہ آپ کو بھی واٹس ایپ آجائے۔ اگر مرضی کے جج لگائے جائیں گے تو پھر کیس میں انصاف کیسے ہوگا۔

    انسداد منشیات کے پراسیکیوٹر رانا کاشف نے عدالت میں رپورٹ پیش کی۔ رانا ثنا اللہ کے وکیل نے کہا کہ جو فائنل رزلٹ ہیں کیس کے وہ بتائے جائیں۔

    رانا کاشف نے کہا کہ متعلقہ پراسیکیوٹر بیمار ہیں جس کی بنیاد پر وہ نہیں آسکے، انہوں نے تیاری کی ہوئی ہے۔ بحث وہی کریں گے 4 دن کی مہلت دے دیں۔

    عدالت نے انسداد منشیات کے پراسیکیوٹر کی استدعا منظور کرتے ہوئے سماعت 20 ستمبر تک ملتوی کر دی۔

    خیال رہے کہ رانا ثنا اللہ کو یکم جولائی کو انسداد منشیات فورس نے اسلام آباد سے لاہور جاتے ہوئے موٹر وے سے حراست میں لیا تھا، رانا ثنا اللہ کی گاڑی سے بھاری مقدار میں ہیروئن برآمد ہوئی تھی۔

    اے این ایف ذرائع نے بتایا تھا کہ رانا ثنا کی گاڑی کے ذریعہ منشیات اسمگلنگ کی انٹیلی جنس اطلاع پر کارروائی کی گئی، گرفتاری کے وقت رانا ثنا کے ساتھ گاڑی میں ان کی اہلیہ اور قریبی عزیز بھی تھا۔

    اے این ایف ذرائع کے مطابق ایک گرفتار اسمگلر نے دوران تفتیش رانا ثنا اللہ کی جانب سے منشیات اسمگلنگ میں معاونت کا انکشاف کیا تھا۔

    ذرائع کا کہنا تھا کہ رانا ثنا کے منشیات فروشوں سے تعلقات اور منشیات کی اسمگلنگ سے حاصل شدہ رقم کالعدم تنظیموں کو فراہم کرنے کے ثبوت ہیں، رانا ثنا اللہ کے منشیات فروشوں سے رابطوں سے متعلق 8 ماہ سے تفتیش کی جارہی تھی۔

    گرفتار افراد نے انکشاف کیا تھا کہ رانا ثنا اللہ کے ساتھ چلنے والی گاڑیوں میں منشیات اسمگل کی جاتی ہے، فیصل آباد ایئرپورٹ بھی منشیات اسمگلنگ کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔

  • پیراگون ہاؤسنگ اسکینڈل: سعد رفیق اور سلمان رفیق پر فرد جرم عائد

    پیراگون ہاؤسنگ اسکینڈل: سعد رفیق اور سلمان رفیق پر فرد جرم عائد

    لاہور: پیراگون ہاؤسنگ اسکینڈل کیس میں سابق وفاقی وزیر برائے ریلوے اور مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ سعد رفیق اور ان کے بھائی سلمان رفیق پر فرد جرم عائد کردی گئی، خواجہ برادران نے قومی ادارہ احتساب (نیب) کا دائرہ اختیار چیلنج کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور کی احتساب عدالت کے جج جواد الحسن نے پیراگون ہاؤسنگ اسکینڈل کیس کی سماعت کی۔ نیب نے سخت سیکیورٹی میں خواجہ برادران کو عدالت میں پیش کیا۔

    عدالت میں خواجہ برادران کو ریفرنس کی صاف نقول فراہم کی گئیں۔ خواجہ برادران کے وکیل نے فرد جرم عائد کرنے کی مخالفت کی اور دستاویزات کا جائزہ لینے کے لیے سات دن کی مہلت مانگی۔

    وکیل نے کہا کہ عدالت نے یہ دیکھنا ہے کہ کیا فرد جرم عائد کرنے کا کیس بنتا بھی ہے یا نہیں، اللہ نے شیطان کو بھی صفائی کا موقع دیا ہے۔ آئین کے تحت کسی کو اپنی صفائی کا مکمل موقع دیے بغیر سزا نہیں دی جاسکتی۔

    عدالت نے کہا کہ کیا ہم کوئی سزا دے رہے ہیں، ابھی تو فرد جرم عائد ہونی ہے۔ سماعت کے بعد عدالت نے دونوں بھائیوں پر فرد جرم عائد کردی۔ خواجہ برادران نے صحت جرم سے انکار کرتے ہوئے نیب کا دائرہ اختیار چیلنج کردیا۔

    عدالت نے مزید سماعت 13 ستمبر تک ملتوی کرتے ہوئے گواہوں کو شہادتوں کے لیے طلب کرلیا۔

    عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے خواجہ سعد رفیق کا کہنا تھا کہ میرا اور میرے خاندان کا جرم جمہوریت کے لیے جدوجہد ہے، ٹرائل میں بے گناہی ثابت کریں گے۔

    یاد رہے کہ خواجہ برادران پیراگون ہاؤسنگ اسکینڈل میں گرفتار ہیں، نیب کے مطابق وفاقی وزیر ہوتے ہوئے خواجہ سعد رفیق نے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کیا تھا اور شواہد کو ٹمپر کرنے کی کوشش بھی کی، دونوں بھائیوں نے اپنے ساتھیوں سے مل کر عوام کو دھوکہ دیا اور رقم بٹوری۔

    نیب کا کہنا ہے کہ خواجہ برادران پیراگون ہاؤسنگ سوسائٹی سے فوائد حاصل کرتے رہے، خواجہ برادران کے نام پیراگون میں 40 کنال اراضی موجود ہے۔

    نیب کی تفتیشی رپورٹ کے مطابق خواجہ سلمان اور ندیم ضیا کے بیٹوں کے نام پر 2 ارب 96 کروڑ کی رقم جاری ہوئی، سعد رفیق کے اکاؤنٹس میں 8 سال کے دوران 46 کروڑ 60 لاکھ منتقل ہوئے۔

    رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 500 سے زائد ٹرانزیکشنز 2010 سے 2018 کے درمیان ہوئیں، سعد رفیق کے ڈی ایچ اے بینک اکاؤنٹس میں 13 کروڑ 30 لاکھ منتقل ہوئے جبکہ دوسرے اکاؤنٹ میں 7 کروڑ 50 لاکھ منتقل ہوئے۔

    تفتیشی رپورٹ میں بتایا گیا کہ سعد رفیق کے مزید 3 اکاؤنٹس میں 6 کروڑ 70 لاکھ روپے منتقل ہوئے، سعدان ایسوسی ایٹ کے بینک اکاؤنٹس میں 15 کروڑ منتقل ہوئے۔ ایسوسی ایٹ کے 2 اکاؤنٹس میں 2012 سے 2018 تک رقم منتقل ہوئی۔

  • سپریم کورٹ نے جج ویڈیو اسکینڈل کیس میں فیصلہ محفوظ کر لیا

    سپریم کورٹ نے جج ویڈیو اسکینڈل کیس میں فیصلہ محفوظ کر لیا

    اسلام آباد: سپریم کورٹ نے جج ویڈیو اسکینڈل کیس میں فیصلہ محفوظ کر لیا، فیصلہ 2 سے 3 دن میں سنایا جائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق جج بلیک میلنگ اسکینڈل کیس میں آج فیصلہ محفوظ کر لیا گیا ہے جو آیندہ دو یا تین دن میں سنایا جائے گا۔

    کیس کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے جج کو بتایا کہ مریم نواز نے ویڈیو سے لا تعلقی کا اظہار کرنے کی کوشش کی، شہباز شریف نے کہا کہ مریم نے پریس کانفرنس سے چند گھنٹے قبل ویڈیو کا بتایا تھا۔

    عدالت کا کہنا تھا ہمیں غرض اپنے جج سے ہے جس پر الزامات آئے اور جج نے ویڈیو تسلیم بھی کی۔

    اٹارنی جنرل نے بتایا ناصر جنجوعہ اور مہر غلام جیلانی نے جج سے ملاقات کر کے 100 ملین روپے کی پیش کش کی، پیش کش نواز شریف کے خلاف ریفرنسز میں رہائی سے متعلق فیصلے سے مشروط تھی۔

    یہ بھی پڑھیں:  جج ویڈیو اسکینڈل میں بلیک میلنگ پر دس سال سزا ہوسکتی ہے: شہزاد اکبر

    عدالت نے ریمارکس دیے کہ نواز شریف کی رہائی اور سزا کے خاتمے کے لیے ویڈیو فائدہ مند تب ہوگی جب کوئی درخواست دائر کی جائے گی، لگتا ہے کسی نے ویڈیو کے ساتھ کھیل کھیلا ہے۔

    دریں اثنا، جج بلیک میلنگ اسکینڈل کی تحقیقات کے دوران ایف آئی اے نے شہباز شریف سے سوال کیا کہ مریم صفدر کا مخاطب کون سا ادارہ تھا؟

    شہباز شریف نے جواب دیا کہ مخاطب کون تھا یہ مریم سے پوچھیں، مجھے جج کی ویڈیو کا مریم سےعلم ہوا، جج ارشد ملک کی قابل اعتراض ویڈیو دیکھی نہ اس کا علم ہے۔

    شہباز شریف کا کہنا تھا مریم صفدر نے آڈیو اور ویڈیو الگ الگ ریکارڈ کرنے کا بتایا، ناصر بٹ کے ساتھ موجود شخص کو نہیں جانتا۔

  • جرگے اور پنچائتیں آئین اور قانون کے دائرے میں کام نہیں کرتے: سپریم کورٹ

    جرگے اور پنچائتیں آئین اور قانون کے دائرے میں کام نہیں کرتے: سپریم کورٹ

    اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان کا کہنا ہے کہ جرگے اور پنچائتیں آئین اور قانون کے دائرے میں رہ کر کام نہیں کرتے، جرگے اور پنچائتیں محدود حد تک ثالثی، مذاکرات اور مصالحت کر سکتی ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ آف پاکستان میں غیر قانونی جرگوں سے متعلق کیس کی سماعت قائم مقام چیف جسٹس شیخ عظمت سعید کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ پنجاب میں غیر قانونی جرگے کا کوئی کیس نہیں ہے۔

    جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ کبھی کبھار پنجاب سے بھی جرگے کے کیس آجاتے ہیں، عدالت کی ہدیات پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔ حکومت پاکستان کے جو عالمی معاہدے ہیں ان کے مطابق جرگے غیر قانونی ہیں۔

    عدالت کا کہنا تھا کہ پاکستان میں جس طرح جرگے منعقد کیے جاتے ہیں وہ آئین کے آرٹیکل 4، 8، 10 اے، 25 اور 175(3) سے بھی متصادم ہیں۔

    عدالت کی جانب سے کہا گیا کہ جرگے اور پنچائتیں آئین اور قانون کے دائرے میں رہ کر کام نہیں کرتے، جرگے اور پنچائتیں محدود حد تک ثالثی، مذاکرات اور مصالحت کر سکتی ہیں۔ کسی جرگے کو بھی فوجداری اور سول عدالت کے برابر کا مرتبہ حاصل نہیں۔

    عدالت نے چاروں صوبائی اور گلگت بلتستان حکومت سے جرگوں سے متعلق 6 ہفتوں میں پیشرفت رپورٹ طلب کر لی۔