Tag: عدالت کی خبریں

  • سپریم کورٹ نے تھر میں ڈاکٹرز اور طبی عملے کی رپورٹ طلب کرلی

    سپریم کورٹ نے تھر میں ڈاکٹرز اور طبی عملے کی رپورٹ طلب کرلی

    اسلام آباد: صوبہ سندھ کے صحرائے تھر میں 400 بچوں کی اموات سے متعلق کیس میں عدالت نے تھر میں ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف کی تعیناتیوں کی مکمل رپورٹ 3 دن میں طلب کرلی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں صوبہ سندھ کے صحرائے تھر میں 400 بچوں کی اموات سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔

    سماعت کے دوران ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے عدالت میں کمیٹی رپورٹ پیش کردی۔

    وکیل نے عدالت کو بتایا کہ غذائی اجناس کی فراہمی اور علاج سمیت دیگر سہولتیں دی جارہی ہیں، غذائی قلت پر قابو کے لیے قلیل المدتی اور طویل المدتی پروگرام شروع کردیا۔

    عدالتی معاون فیصل صدیقی نے کہا کہ کئی رپورٹس پیش کی گئیں، عمل ایک پر بھی نہیں ہوا۔ اب بھی ایک رپورٹ پیش کردی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق سب اچھا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ 4 سال سے تھر میں اسپتالوں میں 70 آسامیاں خالی ہیں۔ کاغذوں پر سارا کام پورا کر دیا گیا ہے۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نے سوال کیا کہ عدالتی حکم پر کتنا عملدر آمد ہوا جس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے بتایا کہ پسماندہ علاقے میں ڈاکٹر جانے کے لیے تیار نہیں۔

    عدالت نے پوچھا کہ کیا ڈاکٹرز کو وہاں کام کے لیے ڈھائی لاکھ سے زائد کی پیشکش کی گئی؟ سیکریٹری خزانہ سندھ بتائیں کیا رقم مختص کی ہے۔

    جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ سندھ کے اندر ڈاکٹر بھوکے مر رہے ہیں۔ 2016 میں سندھ حکومت کی مرضی سے میں نے کمیشن بنایا، بتائیں اس کی سفارشات کہاں ہیں؟

    انہوں نے پوچھا کہ بتائیں آپ نے کتنے ڈاکٹر بھیجے اور کتنوں نے جانے سے انکار کیا۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ 3 دن میں ڈاکٹرز اور طبی عملے کی فہرست دیں گے۔

    عدالت نے دریافت کیا کہ تھر جانے سے انکار کرنے والے ڈاکٹرز کے خلاف کیا کارروائی کی گئی؟ ’کلرک حکم عدولی کرے تو اسے نوکری سے نکالنے کی دھمکی ملتی ہے‘۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ تھر میں کتنے ڈاکٹر اور طبی عملہ ہے جامع رپورٹ دیں۔ 3 دن میں رپورٹ جمع کروائیں۔

    ایڈوکیٹ جنرل نے کہا کہ مٹھی اور اسلام کوٹ میں اسپتال مکمل فعال ہیں۔ عدالت نے کہا کہ ڈسٹرکٹ جج تھر پارکر رپورٹ دیں آیاخوراک دی جا رہی ہے یا نہیں۔

    عدالت نے تھر میں ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف کی تعیناتیوں سے متعلق تفصیلات طلب کرتے ہوئے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج تھر پارکر کی سربراہی میں کمیشن کی تشکیل کا حکم دے دیا۔

    عدالت نے کہا کہ کمیشن تھر میں خوراک اور پانی سمیت دیگر سہولتوں کا جائزہ لے اور 15 دنوں میں جائزہ لے کر رپورٹ پیش کرے۔

    عدالتی معاون نے کہا کہ تھر میں بڑا مسئلہ زرعی قرضوں کی واپسی ہے، قرض ادا نہ کرنے کی وجہ سے لوگ خودکشیاں کر رہے ہیں۔

    عدالت نے قرضوں کے معاملے پر اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے رپورٹ طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی۔

  • نواز شریف نے 2001 سے 2008 کے دوران انکم ٹیکس نہیں دیا: واجد ضیا

    نواز شریف نے 2001 سے 2008 کے دوران انکم ٹیکس نہیں دیا: واجد ضیا

    اسلام آباد: احتساب عدالت میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت جاری ہے۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت میں نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت جج محمد ارشد ملک نے کی۔

    سابق وزیر اعظم احتساب عدالت میں پیش ہوئے جبکہ فلیگ شپ ریفرنس کے تفتیشی افسر کامران بھی عدالت میں موجود تھے۔

    عدالت میں سماعت کے دوران واجد ضیا نے کہا کہ حسن نواز نے کمپنیوں کے ماڈل سے متعلق وضاحت دی تھی، نواز شریف نے بتایا وہ 2001 سے 2008 تک پاکستان میں نہیں تھے۔

    مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے سربراہ اور استغاثہ کے گواہ واجد ضیا نے بتایا کہ نواز شریف نے 2001 سے 2008 کے دوران انکم ٹیکس نہیں دیا۔

    استغاثہ کے گواہ نے کہا کہ حسن نواز نے کمپنیوں کے ماڈل سے متعلق وضاحت دی تھی، حسن نواز نے بتایا ماڈل میں ہر کمپنی ایک مقصد کے تحت قائم کی جاتی ہے۔

    واجد ضیا نے بتایا کہ ماڈل میں بنائی گئی کمپنیوں سے ٹیکس کی مد میں بچت ہوتی ہے، ماڈل کے تحت خریدار جائیداد خریدنے کے بجائے وہ ملکیتی کمپنی خرید لیتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ کمپنی خریدنے سے ساری جائیداد کی الگ الگ اسٹمپ ڈیوٹی نہیں ادا کرنی پڑتی، حسن نواز نے کہا کہ انہوں نے کاروبارشروع کیا تو کئی بینک اکاؤنٹ کھولے۔

    واجد ضیا نے مزید کہا کہ حسن نواز نے بتایا وہ جس بینک سے قرض طلب کرتے تو ذاتی اکاؤنٹ کھولنے کا کہا جاتا۔

    عدالت میں نواز شریف کے بیان کے لیے ان کے وکیل خواجہ حارث نے عدالت سے سوالنامہ فراہم کرنے کی استدعا کردی۔ خواجہ حارث نے کہا کہ سوالنامہ فراہم کردیں تو اگلے دن جواب جمع کروا دیں گے۔

    نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ ملزم کو سوالنامہ فراہم کیے جانے پر ہمارا اعتراض ہے جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ پراسیکیوشن کو سوالنامہ فراہم کیا گیا ہے تو ہمیں بھی ملنا چاہیئے۔

    انہوں نے کہا کہ باوثوق ذرائع سے پتہ چلا پراسیکیوشن کو سوالنامہ فراہم کیا گیا ہے۔

    اس سے قبل عدالت میں گزشتہ سماعت کے دوران استغاثہ کے گواہ واجد ضیا کا کہنا تھا کہ حسن نواز نے 2001 سے یو کے میں مستقل سکونت حاصل کی۔

    انہوں نے بتایا تھا کہ حسن نواز نے جے آئی ٹی کو بتایا وہ یو کے کم عمری میں چلے گئے تھے، تعلیم کے بعد بزنس شروع کیا اور وہیں رہے۔

    واجد ضیا کا کہنا تھا کہ درست ہے فلیگ شپ کے قیام کے وقت حسن نواز کی عمر 25 سال تھی، حسن نواز نے بتایا انہوں نے وکیل کرنے کی اتھارٹی دی۔

    استغاثہ کے گواہ کا کہنا تھا کہ حسن نواز نے بتایا حسن اور حسین نواز کے نام سے پیش اتھارٹی لیٹر نہیں دیکھے، حسن نواز نے بتایا کہ فلیگ شپ اور دیگر 12 کمپنیاں ایک ہی دور میں بنیں۔

    واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے احتساب عدالت کو سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ ریفرنسز کا ٹرائل مکمل کرنے کے لیے 17 نومبر تک کی مہلت دے رکھی ہے۔

  • فلیگ شپ ریفرنس: نواز شریف کے بیرون ملک اکاؤنٹس کی تفصیلات نہیں ملیں، جے آئی ٹی سربراہ

    فلیگ شپ ریفرنس: نواز شریف کے بیرون ملک اکاؤنٹس کی تفصیلات نہیں ملیں، جے آئی ٹی سربراہ

    اسلام آباد: احتساب عدالت میں فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت ہوئی، نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیا پر جرح جاری رکھی۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت میں العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز کی سماعت آج ساڑھے 11 بجے ہونی تھی، تاہم نواز شریف کے عدالت نہ پہنچ سکنے کی وجہ سے سماعت دیر سے شروع ہوئی۔

    [bs-quote quote=”نواز شریف کا فلیگ شپ کے قیام کے لیے رقم منتقلی کا اکاؤنٹ نہیں ملا، جے آئی ٹی نے بیرون ملک اکاؤنٹس کی تفصیلات معلوم ہی نہیں کیں: گواہ” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    سابق وزیرِ اعظم کے وکیل نے جے آئی ٹی سربراہ پر جرح شروع کی، انھوں نے واجد ضیا سے سوال کیے کہ کیا ایسی کوئی دستاویز ہے جس سے ظاہر ہو کہ نواز شریف نے فلیگ شپ کے لیے سرمایہ کاری کی؟ فلیگ شپ کے قیام کے لیے رقم منتقلی سے متعلق کوئی اکاؤنٹ ملا؟ کسی گواہ نے کہا کہ نواز شریف نے فلیگ شپ انویسٹمنٹ کے قیام میں مدد کی؟

    واجد ضیا نے جواب دیا کہ نہیں کوئی ایسی دستاویز یا بیرون ملک بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات نہیں ملیں۔ جب کہ گواہ نے کہا کہ نواز شریف کا فلیگ شپ کے قیام کے لیے رقم منتقلی کا اکاؤنٹ نہیں ملا، جے آئی ٹی نے بیرون ملک اکاؤنٹس کی تفصیلات معلوم ہی نہیں کیں۔

    احتساب عدالت نے نواز شریف کے خلاف نیب ریفرنسز کی سماعت کل صبح ساڑھے 9 بجے تک ملتوی کر دی۔

    خیال رہے کہ ریفرنسز کی سماعت احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کر رہے ہیں، انھوں نے ملزم کا سوال نامہ بھی تیار کر لیا تھا، ذرائع کے مطابق نواز شریف کو 100 سے زائد سوالوں کے جواب دینے ہیں۔

    گزشتہ روز وکیل خواجہ حارث نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ ملزم کا بیان ان کی موجودگی میں قلم بند کیا جائے، انھوں نے اس سلسلے میں عدالت کو اپنی مصروفیات سے بھی آگاہ کیا، خیال رہے کہ ملزم کو پیشگی سوال نامہ بھجوانے پر گزشتہ روز نیب پراسیکیوٹر نے اعتراض ریکارڈ کروایا تھا۔


    یہ بھی پڑھیں:  فواد چوہدری نے بیان دیا نواز شریف 100فیصدجیل جائیں گے، عدالت سوموٹولے، مریم اورنگزیب


    قبل ازیں، احتساب عدالت نے ریفرنسز کی سماعت کے لیے آج ساڑھے 11 بجے کا وقت مقرر کر رکھا تھا تاہم نواز شریف اور ان کے وکیل خواجہ حارث وقت پر عدالت نہیں پہنچے، العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کا 342 کا بیان ریکارڈ کیا جانا تھا۔

    نواز شریف کے عدالت نہ پہنچنے پر ان کے معاون وکیل نے نواز شریف کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دائر کی، وکیل نے کہا کہ راستوں کی بندش کے باعث نواز شریف پیش نہیں ہو سکتے، عدالت نے نواز شریف کو ایک روز کا حاضری سے استثنیٰ دے دیا۔

  • سپریم کورٹ نے آسیہ بی بی کو بری کردیا

    سپریم کورٹ نے آسیہ بی بی کو بری کردیا

    اسلام آباد: سپریم کورٹ نے مسیحی خاتون آسیہ بی بی کی سزائے موت کالعدم قرار دیتے ہوئے انہیں بری کر دیا۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ آسیہ بی بی کسی اور مقدمے میں گرفتار نہیں ہیں تو انہیں رہا کردیا جائے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے توہین رسالت و قرآن کے جرم میں قید آسیہ بی بی کے کیس پر محفوظ کیا گیا فیصلہ سنا دیا۔

    چیف جسٹس آف سپریم کورٹ جسٹس میاں ثاقب نثار نے مختصر فیصلہ پڑھ کر سنایا جس میں آسیہ بی بی کی سزائے موت کو کالعدم قرار دیتے ہوئے انہیں بری کرنے کا حکم دیا گیا۔

    آسیہ بی بی کی سزائے موت کا حکم لاہور ہائیکورٹ نے دیا تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آسیہ بی بی پر الزام ثابت نہیں ہوا، اگر وہ کسی اور مقدمے میں گرفتار نہیں تو انہیں رہا کیا جائے۔

    اس سے قبل آسیہ بی بی کیس کا فیصلہ 8 اکتوبر کو محفوظ کیا گیا تھا۔

    مزید پڑھیں: سپریم کورٹ نے آسیہ بی بی کیس کی سماعت معطل کردی

    آخری سماعت کے دوران آسیہ بی بی کے وکیل سیف الملوک نے عدالت کو بتایا تھا کہ واقعہ 14 جون 2009 کا ہے، ننکانہ صاحب کے گاؤں کٹاں والا کے امام مسجد نے واقعہ درج کروایا، جبکہ ایف آئی آر کے مطابق آسیہ نے توہین مذہب کا اقرار کیا۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ وکیل کی گفتگو سے معلوم ہوتا ہے کہ امام مسجد براہ راست گواہ نہیں کیونکہ ان کے سامنے توہین آمیز الفاظ استعمال نہیں کیے گئے۔

    چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ امام مسجد کے بیان کے مطابق 5 مرلے کے مکان میں پنچایت ہوئی، کہا گیا کہ پنچایت میں ہزار لوگ جمع تھے۔

    وکیل نے بتایا کہ عاصمہ اور اسما نامی گواہان کے بیانات میں تضاد ہے۔ انہوں نے کہا کہ واقعے کی تفتیش ناقص اور بدنیتی پر مبنی تھی۔

    یاد رہے کہ آسیہ بی بی کو سنہ 2010 میں توہین رسالت ﷺ کے الزام میں سزائے موت سنائی گئی تھی جبکہ ان کے وکلا کا دعویٰ تھا کہ آسیہ بی بی پر جھوٹا الزام عائد کیا گیا۔

    مزید پڑھیں: سپریم کورٹ نے آسیہ بی بی کی سزائے موت پر عملدر آمد روک دیا

    آسیہ بی بی پر توہین رسالت ﷺ کا الزام جون 2009 میں لگایا گیا تھا جب ایک مقام پر مزدوری کے دوران ساتھ کام کرنے والی مسلم خواتین سے ان کا جھگڑا ہوگیا تھا۔

    آسیہ سے پانی لانے کے لیے کہا گیا تھا تاہم وہاں موجود مسلم خواتین نے اعتراض کیا کہ چونکہ آسیہ غیر مسلم ہے لہٰذا اسے پانی کو نہیں چھونا چاہیئے۔

    بعد ازاں خواتین مقامی مولوی کے پاس گئیں اور الزام لگایا کہ آسیہ نے پیغمبر اسلام ﷺ کی شان میں گستاخی کی ہے۔

    آسیہ بی بی سنہ 2010 سے جیل میں قید تھیں۔

  • نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت

    نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت

    اسلام آباد: سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت جاری ہے۔ نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث استغاثہ کے گواہ واجد ضیا پر جرح کر رہے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت کی۔

    نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے سربراہ اور استغاثہ کے گواہ واجد ضیا پر جرح کر رہے ہیں۔

    سابق وزیر اعظم نواز شریف بھی کمرہ عدالت میں موجود ہیں۔

    سماعت میں متحدہ عرب امارات حکام کو لکھا گیا ایم ایل اے عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنا دیا گیا۔

    استغاثہ کے گواہ واجد ضیا نے کہا کہ ایم ایل اے میں یو اے ای حکام سے قانونی سوالات پوچھے تھے۔ وکیل نے دریافت کیا کہ کیا یہ درست ہے پہلا سوال کوئی قانونی نہیں بلکہ حقائق سے متعلق تھا۔

    واجد ضیا نے کہا کہ جی یہ درست ہے پہلے سوال میں صرف حقائق پوچھے تھے۔ دوسرا سوال بھی حقائق سے متعلق تھا۔ قانونی سوالات باہمی قانونی تعاون کے تحت خط و کتابت کے تناظر میں کہے۔

    خواجہ حارث نے دریافت کیا کہ نیب قوانین کی کس شق کے تحت آپ نے یہ ایم ایل اے بھیجا؟ جس پر نیب پراسیکیوٹر نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ ایسے سوالات گواہ سے نہیں پوچھے جا سکتے۔

    واجد ضیا نے بتایا کہ حکومت نے جے آئی ٹی کو ایم ایل اے بھیجنے کی اتھارٹی دے رکھی تھی۔ وزارت قانون و انصاف نے ایم ایل اے لکھنے کا اختیار دیا تھا۔ سیکشن 21 کے تحت ایم ایل اے لکھنے کا اختیار دیا گیا۔

    جج نے وکیل سے کہا کہ خواجہ صاحب آپ صرف حقائق سے متعلق سوال پوچھیں تو بہتر ہے۔ کس قانون میں کیا ہے یہ سوالات گواہ سے کیا پوچھنے ہیں۔

    واجد ضیا نے کہا کہ میں نے پہلے سیکشن 21 پڑھا تھا۔ یہ وکیلوں والے سوالات ہیں۔

    نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ قانونی نکات سے متعلق سوالات گواہ سے نہیں پوچھے جا سکتے۔ واجد ضیا ہمارے گواہ ہیں کوئی قانونی ماہر نہیں۔

    عدالت نے نیب پراسیکیوٹر کا اعتراض منظور کرتے ہوئے خواجہ حارث کو گواہ سے صرف متعلقہ سوالات پوچھنے کی ہدایت کردی۔

    واجد ضیا نے مزید کہا کہ 13 مئی 2017 کو حماد بن جاسم کو جے آئی ٹی میں پیش ہونے کا خط لکھا، حماد بن جاسم نے پاکستان آ کر بیان ریکارڈ کروانے سے انکار کیا۔

    انہوں نے کہا کہ حماد بن جاسم نے لکھا آپ لوگ دوحہ آ کر بیان ریکارڈ کریں۔ حماد بن جاسم نے خط کے جواب میں کہا سوالنامہ پہلے فراہم کریں۔ ہم نے 24 مئی 2017 کو ایک اور خط حماد بن جاسم کو لکھا۔

    واجد ضیا کا کہنا تھا کہ حماد بن جاسم نے پھر پیش ہو کر بیان ریکارڈ کروانے سے انکار کر دیا۔ بعد میں قطری شہزادے نے قطر میں ملاقات پر مشروط رضا مندی ظاہر کی۔ سوالنامہ پہلے بھیجنے پر جے آئی ٹی رضا مند نہ ہوئی۔

    اس سے قبل 26 اکتوبر کو نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت میں وکیل زبیر خالد نے اخبار کی خبر پر نوٹس لینے کی استدعا کرتے ہوئے کہا تھا کہ منسٹر ہے جو آپ اور نواز شریف کی گرفتاری سے متعلق بیان دے رہا ہے۔

    معاون وکیل زبیر خالد نے کہا تھا کہ عدالت کو سو موٹو لینا چاہیئے۔ جج ارشد ملک نے کہا کہ میں اس معاملے کو دیکھ لیتا ہوں، آپ پر 302 کا کیس ہو تو آپ بھی کہنا شروع کردیں بری ہوجائیں گے۔

    بعد ازاں احتساب عدالت نے نواز شریف کے وکلا کو باقاعدہ درخواست دائر کرنے کی ہدایت کی تھی۔

  • شہباز شریف کے جسمانی ریمانڈ میں 7 نومبر تک توسیع

    شہباز شریف کے جسمانی ریمانڈ میں 7 نومبر تک توسیع

    لاہور: قومی احتساب بیورو (نیب) نے آشیانہ اسکینڈل کیس کے ملزم اور سابق وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے مزید 15 دن کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی جس پر عدالت نے ان کے ریمانڈ میں 7 نومبر تک توسیع کردی۔

    تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی کے اپوزیشن لیڈراورسابق وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف آشیانہ اسکینڈل کیس میں احتساب عالت کے روبرو پیش ہوئے۔

    اس سے قبل احتساب عدالت شہباز شریف کو 30 اکتوبر تک جسمانی ریمانڈ پر نیب کے حوالے کرچکی تھی تاہم 30 کو عام تعطیل کے باعث انہیں ایک روز پہلے یعنی 29 اکتوبر کو عدالت میں پیش کردیا گیا۔

    عدالت میں شہباز شریف نے بیان دیتے ہوئے کہا کہ نیب نے آشیانہ اسکینڈل میں تحویل میں لیا۔ آشیانہ، صاف پانی اور اثاثوں کے حوالے سے پوچھ گچھ کی گئی۔

    انہوں نے کہا کہ میں آج عدالت میں غلط اور جھوٹے الزامات کی بنا پر موجود ہوں۔ اللہ پاک مجھے ان جھوٹے الزامات میں سرخرو کرے گا۔

    شہباز شریف نے کہا کہ میں کینسر کا مریض تھا اور بیرون ملک سرجری کروائی، باربار نیب کو کہنے کے باوجود آج تک خون اورشوگر ٹیسٹ نہیں ہوئے۔ میں نے صبر و تحمل سے نیب کے سوالات کے جواب دیے، اہلخانہ سے ہفتہ وار ملاقات کی اجازت نہیں دی گئی۔

    شہباز شریف نے کہا کہ مجھے ہراساں کیا جاتا ہے سوالات پر کہا جاتا ہے اوپر والوں کو بتا دیا ہے۔ صوبے کی خدمت کی، میرے اس قصور کی وجہ سے مجھے تنگ کیا جا رہا ہے۔

    نیب کے وکیل نے کہا کہ شہباز شریف سے متعلق نئے حقائق سامنے آئے ہیں، احد چیمہ نے آشیانہ کے حوالے سے تمام معاملات دیکھے۔ من پسند افراد کو 8 ارب روپے کا فائدہ پہنچایا جا رہا تھا۔

    شہباز شریف نے کہا کہ دس بار جن سوالات کا جواب دے چکا، انہی کے لیے ریمانڈ مانگا جا رہا ہے، مجھ سے جو پوچھا گیا میں نے اپنے علم کے مطابق اس کا جواب دیا، کوئی دن ایسا نہ گزرا جب صاف پانی اور آشیانہ سے متعلق نہ پوچھا گیا ہو۔

    انہوں نے کہا کہ جو حقائق سامنے رکھوں گا عدالت ان سے جان جائے گی کہ سچ کیا ہے۔

    نیب کے وکیل نے شہباز شریف کے بیان دینے پر اعتراض کیا جس پر جج نے کہا کہ آپ کو کیا مسئلہ ہے عدالت بیان کی اجازت دیتی ہے۔

    شہباز شریف نے کہا کہ پی ایل ڈی سی نے آشیانہ کی دوبارہ نیلامی کی اس سے میرا تعلق نہیں تھا۔ میں نے آشیانہ کی فزیبلٹی رپورٹ تیار نہیں کی۔

    انہوں نے کہا کہ نیب والے گزشتہ بار ڈھکوسلہ لے کر عدالت آئے۔ نیب عدالت سے بھی جھوٹ بول رہا ہے۔

    وکیل نیب نے کہا کہ ہم نے دن رات تحقیقات کیں۔ ان کا کہنا تھا کہ شہباز شریف 3 بار وزیر اعلیٰ رہے، تحقیقات میں تعاون نہیں کررہے۔ شہباز شریف سے جو پوچھا جائے جواب دینے کے بجائے الٹا سوال کر دیتے ہیں۔

    احتساب عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد شہباز شریف کے جسمانی ریمانڈ میں 7 نومبر تک توسیع کردی۔

    خیال رہے نیب لاہور نے رواں ماہ 5 اکتوبر کو شہباز شریف کو صاف پانی کیس میں طلب کیا تھا تاہم ان کی پیشی پر انہیں آشیانہ ہاؤسنگ اسکینڈل میں کرپشن کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا تھا۔

    بعد ازاں اگلے روز شہباز شریف کو احتساب عدالت میں پیش کیا گیا تھا جہاں انہیں جسمانی ریمانڈ پر نیب کے حوالے کردیا گیا تھا۔

    نیب کے مطابق سابق وزیر اعلیٰ پنجاب نے آشیانہ اسکیم کے لیے لطیف اینڈ کمپنی کا ٹھیکہ غیر قانونی طور پرمنسوخ کروا کے پیراگون کی پراکسی کمپنی کاسا کو دلوایا تھا۔

    قومی احتساب بیورو کے مطابق شہبازشریف نے پی ایل ڈی سی پر دباؤ ڈال کر آشیانہ ہاؤسنگ اسکیم کا تعمیراتی ٹھیکہ ایل ڈی اے کو دلوایا اور پھر یہی ٹھیکہ پی ایل ڈی سی کو واپس دلایا جس سے قومی خزانے کو 71 کروڑ روپے سے زائد کا نقصان ہوا۔

  • سابق وزیر احسن اقبال پر فائرنگ کرنے والے مجرم کو 27 سال قید کی سزا سنا دی گئی

    سابق وزیر احسن اقبال پر فائرنگ کرنے والے مجرم کو 27 سال قید کی سزا سنا دی گئی

    گوجرانوالہ: سابق وزیر اور مسلم لیگ ن کے رہنما احسن اقبال پر فائرنگ کرنے والے مجرم عابد حسین کو 27 سال قید کی سزا سنا دی گئی۔ مجرم کو ایک لاکھ 30 ہزار روپے جرمانے کی ادائیگی کا حکم بھی دیا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق گوجرانوالہ کی خصوصی عدالت نے احسن اقبال پر فائرنگ کے مقدمے کا فیصلہ سنا دیا۔ خصوصی عدالت نے مجرم عابد حسین کو 27 سال قید کی سزا دی ہے۔

    عدالت نے مجرم عابد کو احسن اقبال کو 60 ہزار روپے معاوضہ ادا کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔

    مجرم کو غیر قانونی اسلحہ رکھنے اور استعمال کرنے پر 3 سال قید کی سزا کا حکم بھی شامل ہے جبکہ مجرم کو ایک لاکھ 30 ہزار روپے جرمانہ ادا کرنے کا حکم بھی دیا گیا ہے۔

    خیال رہے کہ سابق وزیر داخلہ احسن اقبال پر فائرنگ کا واقعہ رواں برس 6 مئی کو پیش آیا تھا۔ احسن اقبال نارووال میں کرسچن کمیونٹی کی کارنر میٹنگ سے خطاب کر کے نکلے تو مسلح شخص نے ان پر فائرنگ کردی۔

    واقعے میں گولی احسن اقبال کے سیدھے بازو کو چھوتی ہوئی پیٹ کے نچلے حصے میں لگی۔ انہیں فوری طور پر اسپتال منتقل کیا گیا جہاں بروقت علاج کر کے ان کی جان بچا لی گئی۔

    ان پر حملہ کرنے والے مجرم عابد نے اعتراف جرم کرتے ہوئے کہا تھا کہ احسن اقبال نے ختم نبوت کے حوالے سے بیانات دیے تھے جس پر رنج تھا، اس وجہ سے احسن اقبال پر حملہ کیا۔

    مجرم کے مطابق اس نے احسن اقبال پر حملہ مکمل منصوبہ بندی کے تحت کیا۔ عینی شاہدین کے مطابق ملزم دھوکہ دینے کے لیے میٹنگ کے دوران ن لیگ کے حق میں نعرے لگاتا رہا اور پھر اچانک حملہ کر دیا۔

  • کیا ڈبوں پر لکھا جا رہا ہے کہ یہ دودھ ہے یا نہیں؟ چیف جسٹس

    کیا ڈبوں پر لکھا جا رہا ہے کہ یہ دودھ ہے یا نہیں؟ چیف جسٹس

    کراچی: ڈبوں میں ناقص دودھ کی فروخت سے متعلق کیس کے دوران چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے دریافت کیا کہ کیا ڈبوں پر لکھا جا رہا ہے کہ یہ دودھ ہے یا نہیں؟ عدالتی معاون نے بتایا کہ رپورٹس کے مطابق کچھ ڈبوں پر لکھا جا رہا ہے یہ دودھ نہیں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں ڈبوں میں ناقص دودھ کی فروخت سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔

    چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے دریافت کیا کہ کیا ڈبوں پر لکھا جا رہا ہے کہ یہ دودھ ہے یا نہیں؟ عدالتی معاون نے بتایا کہ کچھ رپورٹس آئی ہیں کہ ڈبوں پر لکھا جا رہا ہے یہ دودھ نہیں۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ ایک کمپنی والے مجھ سے سفارش کروا رہے ہیں۔ اس کمپنی کی بنیادی سروس ہی دودھ ہے، ٹی وائٹنر کے زمرے میں نہیں آتا۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ کمپنی والے کہاں ہیں یہ بتائیں سفارش کیوں کروائی۔ نجی دودھ کمپنی کا مالک عدالت میں پیش ہوگیا۔

    چیف جسٹس نے کہا عدالت میں معافی مانگیں، آپ رشتے میں میرے بہنوئی ہیں مگر سفارش کیوں کروائی۔ ’سفارش کروانے کی بیماری پڑ چکی ہے‘۔

    چیف جسٹس کے حکم پر نجی کمپنی کے مالک نے معافی مانگ لی۔

    انہوں نے کہا کہ آپ کا کیس میرٹ پر ہی حل کریں گے۔ عدالت نے نجی کمپنی سے متعلق بنیادی سورس دودھ ہی ہونے پر نمٹا دیا۔

    خیال رہے اس سے قبل چیف جسٹس نے ڈبے کے دودھ پر نوٹس لیتے ہوئے کراچی میں دستیاب دودھ لیبارٹریز سے ٹیسٹ کروانے کا حکم دیا تھا۔

    چیف جسٹس نے صوبہ پنجاب میں بکنے والے ڈبوں کے دودھ کی بھی جانچ کروائی تھی جس کے بعد ان کا کہنا تھا کہ پنجاب میں پیکٹ کے دودھ سے اب یوریا، بال صفا پاؤڈر اور غیر معیاری اشیا کا خاتمہ ہوگیا ہے۔

  • چیف جسٹس نے نجی اسپتالوں کی ریٹ لسٹ طلب کرلی

    چیف جسٹس نے نجی اسپتالوں کی ریٹ لسٹ طلب کرلی

    کراچی: سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے تمام نجی اسپتالوں کی ریٹ لسٹ طلب کرلی۔ انہوں نے کہا کہ آکسیجن، وینٹی لیٹر اور دیگر سہولتوں کے ریٹ کیا ہیں سب بتایا جائے۔

    تفصیلات کے مطابق نجی اسپتالوں کے مہنگے علاج سے متعلق کیس کی سماعت سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں ہوئی۔

    عدالت نے تمام نجی اسپتالوں کی ریٹ لسٹ طلب کرلی۔

    چیف جسٹس میاں ثاقب مثار کا کہنا تھا کہ آغا خان اسپتال مستثنیٰ نہیں، سب کو بتانا ہوگا کون کتنا کما رہا ہے۔

    انہوں نے پوچھا کہ شرجیل میمن کو ضیا الدین کے جس کمرہ میں رکھا گیا اس کا کرایہ کتنا ہے؟ ضیا الدین اسپتال کا کمرہ کسی ہوٹل کے کمرے سے زیادہ عالیشان تھا۔

    اسپتال انتظامیہ نے بتایا کہ شرجیل میمن کے کمرے کا کرایہ یومیہ 35 ہزار تھا۔

    چیف جسٹس نے پوچھا کہ ڈاکٹر عاصم کہاں ہیں؟ اسپتال انتظامیہ نے بتایا کہ ڈاکٹر عاصم ملک سے باہر ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ڈاکٹر عاصم کو ملک سے باہر جانے کی اجازت کس نے دی؟ ڈاکٹر عاصم نے کہا تھا کہ نام ای سی ایل میں نہ ڈالیں، باہر نہیں جاؤں گا۔

    وکیل نے بتایا کہ ڈاکٹر عاصم کو نیب عدالت نے بیرون ملک جانے کی اجازت دی۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ بتایا جائے گزشتہ 15 دنوں میں ضیا الدین میں کتنے مریضوں کا مفت علاج کیا؟ غریبوں کے لیے کتنے بستر مختص ہیں کتنے میں ملتے ہیں؟

    انہوں نے کہا کہ بتایا جائے آکسیجن، وینٹی لیٹر اور دیگر سہولتوں کے ریٹ کیا ہیں؟ علاج کرنا شوگر ملز جیسا منافع بخش کاروبار نہیں ہونا چاہیئے۔ کسی غریب کی مدد کرناسب کی ذمہ داری ہے۔

    عدالت نے تمام نجی اسپتالوں کو کل تک تفصیلات جمع کروانے کا حکم دے دیا۔

  • تھر کے لیے بنائے گئے خصوصی محکمے کے بجٹ کے آڈٹ کا حکم

    تھر کے لیے بنائے گئے خصوصی محکمے کے بجٹ کے آڈٹ کا حکم

    کراچی: چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے تھر کے لیے بنائے گئے خصوصی محکمے کے بجٹ کے آڈٹ کا حکم دیتے ہوئے 3 ہفتے میں رپورٹ طلب کرلی۔

    تفصیلات کے مطابق صوبہ سندھ کے صحرا تھر پارکر میں بچوں کی اموات سے متعلق کیس کی سماعت سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں ہوئی۔

    چیف سیکریٹری سندھ نے تھر سے متعلق رپورٹ پیش کردی۔ چیف سیکریٹری نے کہا کہ تھر کی ترقیاتی اسکیمیں متعلقہ محکموں کے حوالے کردیں۔

    چیئرمین پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ وسیم احمد نے کہا کہ سندھ حکومت نے اسپیشل ڈپارٹمنٹ بنایا تھا، محکمے کے پاس آر او پلانٹس اور پمپنگ اسٹیشنز کی اسکیمیں تھیں۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ دیگر محکموں کے ہوتے ہوئے اس محکمے کی کیا ضرورت تھی؟ آپ نے 105 ارب روپے کا بجٹ اس محکمے کو دیا۔

    عدالت نے اسپیشل انیشیٹو ڈپارٹمنٹ پر خرچ کیے گئے بجٹ کے آڈٹ کا حکم دے دیا۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ 3 ہفتے میں فرانزک آڈٹ کر کے رپورٹ پیش کی جائے، جو رقم خرچ ہوگئی ہے اس کا آڈٹ بہت ضروری ہے۔

    خیال رہے کہ اس سے قبل سماعت میں ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے کہا تھا کہ تھر میں خوراک اور سہولتوں کی فراہمی کا کام شروع ہوجائے گا، 15 دن کی مہلت دی جائے۔

    چیف جسٹس نے تنبیہہ کی تھی کہ تھر میں غذائی قلت سے ایک اور بچہ نہیں مرنا چاہیئے، میں خود اتوار کو علاقے کا دورہ کروں گا۔