Tag: عدالت کی خبریں

  • خواجہ سعد رفیق کی ضمانت میں 14 نومبر تک توسیع

    خواجہ سعد رفیق کی ضمانت میں 14 نومبر تک توسیع

    لاہور: صوبہ پنجاب کی لاہور ہائیکورٹ نے مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ سعد رفیق اور ان کے بھائی خواجہ سلمان رفیق کی ضمانت میں 14 نومبر تک توسیع کردی۔

    تفصیلات کے مطابق سابق وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق اور ان کے بھائی سلمان رفیق پیراگون ہاؤسنگ کرپشن اسکینڈل کے سلسلے میں لاہور ہائیکورٹ میں پیش ہوئے۔

    خواجہ برادران نے عبوری ضمانت میں مزید توسیع کی درخواست دی۔

    وکیل نیب نے عدالت میں کہا کہ آشیانہ اور ریلوے اسکینڈل میں سعد رفیق کو گرفتار نہیں کر رہے۔ خواجہ سعد رفیق کی گرفتاری کے خدشات غلط ہیں۔

    عدالت نے کہا کہ آشیانہ یا ریلوے اسکینڈل میں گرفتاری مطلوب ہو تو پہلے آگاہ کریں، وارنٹ گرفتاری جاری ہوں تو دونوں بھائی رجوع کر سکتے ہیں۔

    عدالت نے خواجہ سعد رفیق اور سلمان رفیق کی عبوری ضمانت میں 14 نومبر تک توسیع کردی۔

    یاد رہے کہ خواجہ سعد رفیق اور ان کے بھائی نے ممکنہ گرفتاری سے بچنے کے لیے لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی تھی جس پر عدالت نے دونوں کی 24 اکتوبر تک عبوری ضمانت منظور کرتے ہوئے 5، 5 لاکھ روپے کے مچلکے جمع کروانے کا حکم دیا تھا۔

    لاہور ہائیکورٹ میں سماعت کے دوران وکیل صفائی نے اپنے دلائل میں مؤقف اختیار کیا تھا کہ نیب نے سعد رفیق اور سلمان رفیق کو تحقیقات کے لیے طلب کیا، خدشہ ہے انہیں حراست میں لے لیا جائے گا۔

    گذشتہ ہفتے خواجہ برادران سے قومی احتساب بیورو (نیب) کے افسران نے ایک گھنٹہ تک پوچھ گچھ کی تھی۔ نیب کی 3 رکنی تحقیقاتی ٹیم نے خواجہ سعد رفیق اور سلمان رفیق سے الگ الگ تحقیقات کی جس دوران وہ افسران کو مطمئن نہیں کرسکے تھے۔

    یاد رہے کہ آشیانہ ہاؤسنگ سوسائٹی کی تحقیقات میں انکشاف ہوا تھا کہ وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کے پیراگون سوسائٹی سے براہ راست روابط ہیں، پنجاب لینڈ ڈویلپمنٹ کمپنی کے ذریعے آشیانہ اسکیم لانچ کی گئی تھی۔

    اس سے قبل نیب مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف کو آشیانہ اسکینڈل میں گرفتار کر چکی ہے۔ وہ صاف پانی کیس میں نیب میں پیش ہوئے تھے اور نیب لاہور نے آشیانہ ہاؤسنگ کیس میں انہیں گرفتار کیا۔

  • اسحٰق ڈار کے خلاف اثاثہ جات ریفرنس کی سماعت 5 نومبر تک ملتوی

    اسحٰق ڈار کے خلاف اثاثہ جات ریفرنس کی سماعت 5 نومبر تک ملتوی

    اسلام آباد: سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے خلاف آمدنی سے زائد اثاثہ جات کے ضمنی ریفرنس کی سماعت کے دوران ملزم سعید احمد کے وکیل نے سماعت 5 نومبر تک ملتوی کرنے کی استدعا کی جسے عدالت نے منظور کرلیا۔

    تفصیلات کے مطابق سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے خلاف آمدنی سے زائد اثاثہ جات کے ضمنی ریفرنس پر سماعت ہوئی۔ سماعت احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے کی۔

    ریفرنس کے تینوں شریک ملزمان کمرہ عدالت میں موجود تھے جن میں سابق صدر نیشنل بینک سعید احمد، نعیم محمود اور منصور رضوی شامل ہیں۔

    ملزم سعید احمد کے وکیل نے استغاثہ کے گواہ طارق سلیم پر جرح کی۔

    گواہ نے بتایا کہ اپریل 1999 میں مضاربہ کی سہولت کے تحت قرض دیا گیا۔ یہ بات درست ہے کہ ایک ماہ کے اندر قرض واپس کردیا گیا۔

    گواہ کے مطابق پیش کیے گئے سرٹیفکیٹ پر بینفشری اکاؤنٹ کا نمبر نہیں لکھا، اکاؤنٹ ٹرانزیکشنز کا ریکارڈ گواہ محسن امجد نے پیش کردیا تھا۔

    ملزم سعید احمد کے وکیل نے سماعت 5 نومبر تک ملتوی کرنے کی استدعا کی جسے عدالت نے منظور کرتے ہوئے سماعت 5 نومبر تک ملتوی کر دی۔

    خیال رہے کہ اس سے قبل پراسیکیوٹر نیب عمران شفیق نے اسحٰق ڈار کے اثاثوں پر تعمیلی رپورٹ عدالت میں جمع کروائی تھی۔

    نیب کے مطابق اسحٰق ڈار کے بینک اکاؤنٹس اور موجود رقم کی تفصیلات پنجاب حکومت کو فراہم کردی گئی۔ نیب کا کہنا ہے کہ اسحاق ڈار اور ان کی کمپنیوں کے اکاؤنٹس میں 5 کروڑ 83 لاکھ سے زائد رقم موجود ہے۔

    عدالت میں اسحٰق ڈار، ان کی اہلیہ اور بیٹے کے 3 پلاٹوں کی قرقی کی تعمیلی رپورٹ بھی جمع کروائی گئی۔ تفتیشی افسر نادر عباس نے بتایا کہ اسحٰق ڈار کی گاڑیاں تحویل میں لینے کے لیے رہائش گاہ پر کارروائی کی گئی، اسحٰق ڈار کی رہائش گاہ پر گاڑیاں موجود نہیں تھیں۔ گاڑیوں کی تلاش کی کوشش جاری ہے۔

    انہوں نے کہا کہ اسحٰق ڈار اور اہلیہ کے شیئرز کی قرقی سے متعلق ایس ای سی پی رپورٹ کا انتظار ہے۔ رپورٹ ملنے کے بعد عدالت کو آگاہ کریں گے۔

    انہوں نے بتایا کہ موضع ملوٹ اسلام آباد میں واقع 6 ایکڑ اراضی فروخت کی جاچکی ہے، اراضی کیس کی تفتیش شروع ہونے سے پہلے فروخت کی جاچکی ہے۔

    رپورٹ میں کہا گیا کہ اسحٰق ڈار کا گلبرگ 3 لاہور میں گھر بھی صوبائی حکومت کی تحویل میں دے دیا گیا جبکہ اسحٰق ڈار کے اکاؤنٹس میں موجود رقم صوبائی حکومت کی تحویل میں دے دی گئی۔

  • نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنسز کی سماعت کل تک ملتوی

    نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنسز کی سماعت کل تک ملتوی

    اسلام آباد: احتساب عدالت میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔ سماعت میں استغاثہ کے اہم گواہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے سربراہ واجد ضیا کا بیان مکمل ہونے کے بعد ان پرجرح کی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنسز کی سماعت ہوئی۔ سپریم کورٹ کےحکم پر معطل سینیٹر سعدیہ عباسی احتساب عدالت پہنچیں۔

    نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیا پر جرح کی۔

    جرح کے دوران واجد ضیا نے کہا کہ نوٹس میں آیا کیپیٹل ایف زیڈ ای دستاویز کسی قونصلیٹ سے تصدیق شدہ نہیں، درست ہے دستاویز پر نواز شریف کا نام بھی مختلف انداز میں لکھا تھا۔ نواز شریف کے انگلش اور عربی والے نام میں فرق تھا۔

    انہوں نے کہا کہ عربی والے کالم میں پورا نام محمد نواز شریف محمد لکھا تھا، اسکرین شاٹ سے ہم یہ نہیں کہہ سکتے یہ نام غلط لکھا ہے۔ اسکرین سامنے ہو تو کلک کرنے سے پورا نام سامنے آجاتاہے۔

    واجد ضیا نے کہا کہ کسی بھی سافٹ ویئر کو کھول کر دیکھ لیں، پورا نام صرف نام والے خانے پر کلک کرنے سے ہی سامنے آتا ہے۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ آپ نے کمپیوٹر کی تربیت کہاں سے لی؟ واجد ضیا نے بتایا کہ میں نے ہالینڈ سے کمپیوٹر کورس کیا تھا۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ کیا آپ کمپیوٹر ایکسپرٹ ہیں؟ جس پر واجد ضیا نے کہا کہ کمپیوٹر ایک بڑی فیلڈ ہے میں خود کو ایکسپرٹ نہیں کہہ سکتا، کمپیوٹر کی بنیادی تربیت لے رکھی ہے۔

    وکیل نے پوچھا کہ آپ کی ٹیم کو ایسی ہدایت تھی اسکرین شاٹ کے وقت نام پر کلک نہیں کرنا؟ جس پر واجد ضیا نے کہا کہ جی نہیں ایسی کوئی ہدایات نہیں تھیں۔ وکیل نے پوچھا کیا یہ ممکن ہے اسکرین شاٹ لینے سے کچھ معلومات پوشیدہ رہ سکتی ہیں؟ جس پر واجد ضیا نے کہا کہ اسکرین پر جو بھی ہو وہ اسی صورت میں تصویر بن جاتی ہے۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ آپ کے اسکرین شاٹ پر ناموں کے کتنے باکس بنے ہیں؟ واجد ضیا نے کہا کہ یہ تو میں گن کر ہی بتا سکتا ہوں۔

    جج نے ٹوکتے ہوئے کہا کہ خواجہ صاحب پلیز، کیا سوال کر رہے ہیں جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ انہوں نے خود یہ بات شروع کی پتہ تو چلے یہ دستاویز ہے کیا۔ انہوں نے مزید پوچھا کہ آپ کے نوٹس میں آیا تھا کسی بھی خانے میں نواز شریف کا نام موجود نہیں؟

    واجد ضیا نے کہا کہ اتنا اندازہ تھا کہ تمام دستاویزات نواز شریف سے متعلق ہی ہیں۔ کمپنی مالک نے تمام ادائیگیوں سے متعلق جافزا حکام کو آگاہ کرنا ہوتا ہے۔

    خواجہ حارث نے پوچھا کہ کیا آپ نے جافزا اتھارٹی سے سرٹیفکیٹ حاصل کیا کہ تنخواہ لی گئی جس پر انہں نے کہا کہ میں نے جو دستاویز پیش کیں وہ یہی ہے کہ نواز شریف نے تنخواہ لی۔

    احتساب عدالت میں فلیگ شپ ریفرنس پر مزید سماعت گواہ واجد ضیا کی استدعا پر کل تک ملتوی کردی گئی۔

    اس سے قبل سماعت میں واجد ضیا نے اپنا بیان مکمل کروا دیا تھا۔

    واجد ضیا نے کہا کہ حمد بن جاسم کے 2 خطوط سی ایم ایز کے ساتھ لگائے گئے۔ ورک شیٹ میں سرمایہ کاری، اخراجات اور منافع کی تفصیل ہے۔ 8 ملین ڈالرکی ادائیگی اور التوفیق کمپنی کا نام ورک شیٹ میں ظاہر کیا گیا۔

    انہوں نے بتایا کہ 2001 سے 2003 میں 5041 ملین ڈالر کی 3 ٹرانزیکشن ہوئیں، تینوں ٹرانزیکشن حسین نواز کے نام پر دکھائی گئیں۔ ورک شیٹ میں دکھائی گئی ٹرانزیکشنز کی کوئی رسید نہیں دی گئی۔

    واجد ضیا نے کہا کہ حسین نواز نے جے آئی ٹی کے سامنے کہا کہ اسٹیٹمنٹ حسن نواز کو دکھائی تھی، حسن نواز نے جے آئی ٹی کو بتایا انہوں نے کبھی یہ ورک شیٹ دیکھی نہیں۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ واجد ضیا ورک شیٹ پر انحصار کر رہے ہیں، ورک شیٹ پیش کرنے والے کو کبھی بطور گواہ پیش نہیں کیا گیا۔ التوفیق کمپنی سے کیا گیا لین دین اس کیس سے متعلق نہیں۔

    واجد ضیا نے کہا کہ ورک شیٹ میں ایون فیلڈ کے 8 ملین ڈالر کی ایڈجسٹمنٹ دکھائی گئی، حسین نواز نے بتایا 2006 کی سیٹلمنٹ کا کوئی تحریری معاہدہ نہیں۔ حسین نواز نے بتایا 1980 میں 12 ملین درہم کی سرمایہ کاری کا تحریری معاہدہ نہیں۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ حسین نواز کا بیان قابل قبول شہادت نہیں جس پر واجد ضیا نے کہا کہ حسین نواز کبھی اس عدالت کے سامنے پیش نہیں ہوئے۔ جے آئی ٹی اس نتیجے پر پہنچی کہ ورک شیٹ مصنوعی تھی۔ مصنوعی ورک شیٹ منی ٹریل میں ربط پیدا کرنے کے لیے گھڑی گئی تھی۔

    انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی اس نتیجے پر پہنچی کہ قطری شہزادے کے خطوط محض کہانی تھے۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ واجد ضیا کی ذاتی رائے قابل قبول شہادت نہیں جس پر واجد ضیا نے کہا کہ جے آئی ٹی نے حمد بن جاسم کا بیان ریکارڈ کرنے کے لیے تمام تر کوششیں کیں۔

    انہوں نے کہا کہ قطری شہزادے نے کاوشوں کے جواب میں تاخیری حربوں سے کام لیا۔ قطری شہزادے نے پہلے بیان دینے سے ہی انکار کیا، قطری شہزادے نے گارنٹی مانگی کہ انہیں عدالت میں پیش نہیں کیا جائے گا۔

    واجد ضیا نے کہا کہ حسن نواز فلیگ شپ اور دیگر کمپنیوں کے قیام کے ذرائع بتانے میں ناکام رہے، حسن نواز نامعلوم ذرائع سے آنے والی رقم کمپنیوں کو بطور قرض دیتے رہے۔ فلیگ شپ کے نیچے قائم کی گئی کمپنیوں کی فنانشل اسٹیٹمنٹ کا جائزہ لیا۔ کمپنیوں کے قرضے، منافع، نقصان اور ٹرانزکشنز پر 2 چارٹ مرتب کیے۔

    انہوں نے کہا کہ ٹرانزکشنز سے حسن نواز کی کمپنیوں اور برطانیہ سے باہر رقوم کا پتہ چلا، ٹرانزکشنز سے دو کمپنیوں کے درمیان فنڈز اور لون کا تبادلہ ظاہر ہوتا ہے۔ کیپٹل ایف زیڈ ای نے 2008 میں کوئنٹ پیڈنگٹن کو 615000 پاؤنڈ کا قرضہ دیا۔ کیپٹل ایف زیڈ ای نے 2009 میں کوئنٹ پیڈنگٹن کو اتنا ہی دوبارہ قرضہ دیا۔

    واجد ضیا کے مطابق جفزا کی دستاویزات کے مطابق 09-2008 میں نواز شریف چیئرمین تھے، کومبر کی جانب سے کیو ہولڈنگ کو 2007 میں 1.7 ملین پاؤنڈ کا قرضہ دیا گیا۔ کومبر کمپنی حسین نواز کی ملکیت میں ہے۔ حسن نواز نے 10-2009 میں چوہدری شوگر مل کو 87 ملین کا قرضہ دیا۔

  • آبی کانفرنس: جسٹس عمر عطا بندیال پاکستان کا ذکر کرتے ہوئے آب دیدہ ہو گئے

    آبی کانفرنس: جسٹس عمر عطا بندیال پاکستان کا ذکر کرتے ہوئے آب دیدہ ہو گئے

    اسلام آباد: محفوظ پاکستان کی تعمیر کے موضوع پر بین الاقوامی سمپوزیم میں جسٹس عمر عطا بندیال پاکستان کا ذکر کرتے ہوئے آب دیدہ ہو گئے۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد میں پانی کے اہم ترین مسئلے پر منعقدہ آبی کانفرنس میں جسٹس عمر عطا بندیال پاکستان کا ذکر کرتے ہوئے نہ صرف خود آب دیدہ ہوئے بلکہ دوسروں کو بھی رُلا دیا۔

    [bs-quote quote=”سینئر جج کو آب دیدہ ہوتے دیکھ کر چیف جسٹس اور دیگر ججز کی آنکھیں بھی چھلک پڑیں۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    آبی کانفرنس میں شرکا کی آنکھیں بھر آئیں، سینیئر جج کے آنسو دیکھ کر چیف جسٹس میاں ثاقب نثار اور دیگر جج صاحبان کی آنکھیں بھی چھلک پڑیں۔

    جسٹس عمرعطا بندیال کہتے ہیں یہی وہ پاکستان ہے جس کے لیے ہم نے کام کرنا ہے۔

    دو روزہ بین الاقوامی سمپوزیم سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ پانی کی کمی کی وجہ سے اپنی بچوں کی زندگی تلف ہوتے نہیں دیکھ سکتا۔


    یہ بھی پڑھیں:  پاکستان 2025 تک خشک سالی کا شکار ہو سکتا ہے


    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہمیشہ سے یہ سوچ رہی کہ عوام کے بنیادی حقوق کے لیے جدوجہد کروں، آئین تمام شہریوں کو مساوی حقوق کی ضمانت دیتا ہے، آئین پڑھ کر سوچتا ہوں، عوام کو ان کے حقوق کب ملیں گے۔

    خیال رہے کہ بین الاقوامی واٹر سمپوزیم میں خبردار کیا گیا کہ پاکستان میں قلتِ آب کا مسئلہ شدید تر ہو رہا ہے، ملک 2025 تک خشک سالی کا شکار ہو سکتا ہے۔

  • نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس حتمی مراحل میں داخل

    نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس حتمی مراحل میں داخل

    اسلام آباد: احتساب عدالت میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس حتمی مراحل میں داخل ہوگیا۔ استغاثہ کے اہم گواہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے سربراہ واجد ضیا کا بیان فلیگ شپ ریفرنس میں بھی مکمل ہوگیا۔

    تفصیلات کے مطابق سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنسز کی سماعت ہوئی۔

    سماعت میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے سربراہ واجد ضیا کا چوتھے روز بھی بیان ریکارڈ کیا گیا۔

    سماعت کے دوران 17 جولائی 2017 کا قطری شہزادے حمد بن جاسم کو لکھا گیا خط بھی عدالت میں پیش کیا گیا۔ سیکریٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ کا سپریم کورٹ کو خط اور مظہر عباس کا 16 مارچ 2017 کو واجد ضیا کو لکھا ہوا خط بھی پیش کردیا گیا۔

    نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے تہمینہ جنجوعہ کے خط پر اعتراض کیا۔ انہوں نے کہا کہ تہمینہ جنجوعہ کیس میں نہ ہی گواہ ہیں نہ ان کا بیان ریکارڈ کیا گیا۔

    واجد ضیا نے کہا کہ حمد بن جاسم کے 2 خطوط سی ایم ایز کے ساتھ لگائے گئے۔ ورک شیٹ میں سرمایہ کاری، اخراجات اور منافع کی تفصیل ہے۔ 8 ملین ڈالرکی ادائیگی اور التوفیق کمپنی کا نام ورک شیٹ میں ظاہر کیا گیا۔

    انہوں نے بتایا کہ 2001 سے 2003 میں 5041 ملین ڈالر کی 3 ٹرانزیکشن ہوئیں، تینوں ٹرانزیکشن حسین نواز کے نام پر دکھائی گئیں۔ ورک شیٹ میں دکھائی گئی ٹرانزیکشنز کی کوئی رسید نہیں دی گئی۔

    واجد ضیا نے کہا کہ حسین نواز نے جے آئی ٹی کے سامنے کہا کہ اسٹیٹمنٹ حسن نواز کو دکھائی تھی، حسن نواز نے جے آئی ٹی کو بتایا انہوں نے کبھی یہ ورک شیٹ دیکھی نہیں۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ واجد ضیا ورک شیٹ پر انحصار کر رہے ہیں، ورک شیٹ پیش کرنے والے کو کبھی بطور گواہ پیش نہیں کیا گیا۔ التوفیق کمپنی سے کیا گیا لین دین اس کیس سے متعلق نہیں۔

    واجد ضیا نے کہا کہ ورک شیٹ میں ایون فیلڈ کے 8 ملین ڈالر کی ایڈجسٹمنٹ دکھائی گئی، حسین نواز نے بتایا 2006 کی سیٹلمنٹ کا کوئی تحریری معاہدہ نہیں۔ حسین نواز نے بتایا 1980 میں 12 ملین درہم کی سرمایہ کاری کا تحریری معاہدہ نہیں۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ حسین نواز کا بیان قابل قبول شہادت نہیں جس پر واجد ضیا نے کہا کہ حسین نواز کبھی اس عدالت کے سامنے پیش نہیں ہوئے۔ جے آئی ٹی اس نتیجے پر پہنچی کہ ورک شیٹ مصنوعی تھی۔ مصنوعی ورک شیٹ منی ٹریل میں ربط پیدا کرنے کے لیے گھڑی گئی تھی۔

    انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی اس نتیجے پر پہنچی کہ قطری شہزادے کے خطوط محض کہانی تھے۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ واجد ضیا کی ذاتی رائے قابل قبول شہادت نہیں جس پر واجد ضیا نے کہا کہ جے آئی ٹی نے حمد بن جاسم کا بیان ریکارڈ کرنے کے لیے تمام تر کوششیں کیں۔

    انہوں نے کہا کہ قطری شہزادے نے کاوشوں کے جواب میں تاخیری حربوں سے کام لیا۔ قطری شہزادے نے پہلے بیان دینے سے ہی انکار کیا، قطری شہزادے نے گارنٹی مانگی کہ انہیں عدالت میں پیش نہیں کیا جائے گا۔

    واجد ضیا نے کہا کہ حسن نواز فلیگ شپ اور دیگر کمپنیوں کے قیام کے ذرائع بتانے میں ناکام رہے، حسن نواز نامعلوم ذرائع سے آنے والی رقم کمپنیوں کو بطور قرض دیتے رہے۔ فلیگ شپ کے نیچے قائم کی گئی کمپنیوں کی فنانشل اسٹیٹمنٹ کا جائزہ لیا۔ کمپنیوں کے قرضے، منافع، نقصان اور ٹرانزکشنز پر 2 چارٹ مرتب کیے۔

    انہوں نے کہا کہ ٹرانزکشنز سے حسن نواز کی کمپنیوں اور برطانیہ سے باہر رقوم کا پتہ چلا، ٹرانزکشنز سے دو کمپنیوں کے درمیان فنڈز اور لون کا تبادلہ ظاہر ہوتا ہے۔ کیپٹل ایف زیڈ ای نے 2008 میں کوئنٹ پیڈنگٹن کو 615000 پاؤنڈ کا قرضہ دیا۔ کیپٹل ایف زیڈ ای نے 2009 میں کوئنٹ پیڈنگٹن کو اتنا ہی دوبارہ قرضہ دیا۔

    واجد ضیا کے مطابق جفزا کی دستاویزات کے مطابق 09-2008 میں نواز شریف چیئرمین تھے، کومبر کی جانب سے کیو ہولڈنگ کو 2007 میں 1.7 ملین پاؤنڈ کا قرضہ دیا گیا۔ کومبر کمپنی حسین نواز کی ملکیت میں ہے۔ حسن نواز نے 10-2009 میں چوہدری شوگر مل کو 87 ملین کا قرضہ دیا۔

    جج نے ریمارکس دیے کہ حسن نواز پہلے قرضہ لیتے رہے پھر دینا شروع کردیا۔ واجد ضیا نے بتایا کہ حسن نواز نے 2001 سے 2004 میں کمپنیوں کو 4.2 ملین کا قرضہ دیا۔

    احتساب عدالت میں جاری فلیگ شپ ریفرنس میں واجد ضیا کا بیان مکمل ہوگیا۔

    سماعت میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کی جانب سے آج حاضری سےاستثنیٰ کی درخواست دائر کی گئی جسے منظور کرلیا گیا۔

  • عدالت کا تھر کول پاور پراجیکٹ کے فرانزک آڈٹ کا حکم

    عدالت کا تھر کول پاور پراجیکٹ کے فرانزک آڈٹ کا حکم

    اسلام آباد: تھر کول پاور پراجیکٹ سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے آڈیٹر جنرل کو فرانزک آڈٹ کا حکم دیتے ہوئے 15 روز میں رپورٹ طلب کرلی۔

    تفصیلات کے مطابق تھر کول پاور پراجیکٹ سے متعلق کیس کی سماعت سپریم کورٹ میں ہوئی۔ وکیل نیب اصغر حیدر نے رپورٹ پیش کر دی۔ سائنسداں ثمر مبارک بھی عدالت میں پیش ہوئے۔

    چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ دیکھنا ہے کہیں ان منصوبوں میں خرد برد تو نہیں ہوئی۔ نیب کے وکیل نے کہا کہ انجینئرز نے کہا زیر زمین گیسیفکیشن سے بجلی بنانا ممکن نہیں۔

    عدالتی معاون نے کہا کہ جنہوں نے ڈاکٹر ثمر مبارک کے منصوبے کی منظوری دی انہیں دیکھنا چاہیئے تھا، ماہرین کے مطابق منصوبے سے زیر زمین پانی کی سطح کم ہوگی۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ کہاں گئے ڈاکٹر ثمر مند مبارک کے دعوے؟ کیا معاملہ ایف آئی اے کو نہ بھیج دیں یا اس کی نئے سرے سے تحقیقات کروائی جائیں۔

    مزید پڑھیں: تھر کول منصوبہ ناکام ہوا، چیف جسٹس

    انہوں نے کہا کہ بہت شور مچایا گیا کہ ایسا کام کردیا جو آج تک کسی سائنسدان نے نہیں کیا، 100 میگا واٹ منصوبے سے 3 میگا واٹ بجلی بھی نہیں مل رہی، پاکستان غریب ملک ہے کیا پیسہ اس طرح ضائع کرنا ہے۔ پاکستان اور سندھ کا نقصان ہوگیا۔

    سماعت میں عدالتی معاونین سلمان اکرم راجہ اور شہزاد الٰہی کی تجاویز جمع کرلی گئیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ وفاقی اور سندھ حکومت کی کیا پوزیشن ہے؟

    ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ پراجیکٹ کا سارا پیسہ وفاقی حکومت نے دیا، منصوبے کی زمین سندھ حکومت کی ہے۔

    ڈاکٹر ثمر مبارک نے کہا کہ منصوبے میں کوئی ماحولیاتی آلودگی نہیں ہوئی، وکیل اس منصوبے کے بارے میں نہیں بتا سکتے۔ آسٹریلیا کی کمپنی بھی زیر زمین گیسی فکیشن کر رہی تھی۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے پتہ تھا یہی کہیں گے۔ عدالت نے منصوبے کی تحقیقات نیب کے سپرد کردیں۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ جب ثمر مبارک نے دعوے کیے تو رومانس ہوگیا، کہا گیا کہ مفت بجلی ملے گی، 4 ارب کا نقصان کردیا گیا۔ پہلے اس منصوبے کا آڈٹ کروا لیتے ہیں۔

    عدالت نے آڈیٹر جنرل کو فرانزک آڈٹ کا حکم دیتے ہوئے 15 دن میں رپورٹ طلب کرلی۔

    عدالت نے حکم جاری کیا کہ چیف سیکریٹری سندھ منصوبے سے متعلق اشیا تحویل میں لے لیں۔

  • عدالت گستاخانہ خاکوں سے متعلق درخواست غیر مؤثر قرار دے، وزارتِ خارجہ

    عدالت گستاخانہ خاکوں سے متعلق درخواست غیر مؤثر قرار دے، وزارتِ خارجہ

    اسلام آباد: گستاخانہ خاکوں کے معاملے پر وزارتِ خارجہ نے ہائی کورٹ میں جواب جمع کرا دیا، وزارتِ خارجہ نے استدعا کی کہ عدالت درخواست کو غیر مؤثر قرار دے کر نمٹا دے۔

    تفصیلات کے مطابق وزارتِ خارجہ نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں گستاخانہ خاکوں سے متعلق درخواست کی سماعت کے دوران عدالت سے استدعا کی زیرِ سماعت درخواست غیر مؤثر ہوچکی ہے، اس لیے عدالت اسے نمٹا دے۔

    [bs-quote quote=”حکومتی کوششوں سے ہالینڈ میں گستاخانہ خاکوں کا مقابلہ منسوخ ہو چکا: وزارتِ خارجہ” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    وزارتِ خاجہ کی جانب سے عدالت میں کہا گیا کہ حکومتی کوششوں سے ہالینڈ میں گستاخانہ خاکوں کا مقابلہ منسوخ ہو چکا ہے، وزیرِ خارجہ نے ہالینڈ کے سفیر اور وزیرِ خارجہ کے ساتھ اس معاملے کو اٹھایا تھا جس پر مقابلہ منسوخ کیا گیا۔

    عدالت میں وزارتِ خارجہ کی جانب سے جمع کرائے گئے جواب میں کہا گیا کہ وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے کابینہ اجلاس میں اس معاملے کو اٹھایا، اور گستاخانہ خاکوں کے مقابلے کے خلاف سخت اقدامات کا فیصلہ ہوا۔


    مزید پڑھیں:  گستاخانہ خاکے: ہالینڈ سے سفارتی تعلقات منقطع کرنے کی درخواست پرسماعت


    عدالت کو بتایا گیا کہ وزیرِ خارجہ نے ڈچ حکومت سے آواز اٹھانے کے لیے او آئی سی کو خط لکھا، پاکستان نے گستاخانہ خاکوں کا مقابلہ رکوانے کی لیے مختلف ممالک کو خطوط لکھے۔

    عدالت کو مزید بتایا گیا کہ معاملے پر اقوامِ متحدہ جنرل اسمبلی اجلاس میں بھی اپنے تحفظات کا اظہار کیا گیا، پاکستان کے دباؤ پر گستاخانہ خاکوں کا مقابلہ منسوخ کیا گیا۔

  • جج کی رخصت کے باعث منی لانڈرنگ کیس میں پیش رفت نہ ہو سکی

    جج کی رخصت کے باعث منی لانڈرنگ کیس میں پیش رفت نہ ہو سکی

    کراچی: پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور منی لانڈنگ کیس میں الگ الگ پیشی پر عدالت آئے تاہم بینکنگ کورٹ کراچی کے جج کی عدم دستیابی پر سماعت بغیر کارروائی ملتوی کر دی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق جج کی رخصت کے باعث منی لانڈرنگ کیس میں پیش رفت نہیں ہو سکی، آصف علی زرداری اور فریال تالپور سمیت دیگر ملزمان کراچی کی بینکنگ کورٹ میں حاضری لگوا کر چلے گئے۔

    [bs-quote quote=”حسین لوائی اور عبد الغنی مجید کو بھی عدالت لایا گیا تھا” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    آصف زرداری اور ان کی بہن عدالت پہنچے تو معلوم ہوا کہ جج چھٹی پر ہیں، جس پر پیپلز پارٹی کے دونوں رہنما حاضری لگوا کر واپس چلے گئے۔

    حسین لوائی اور عبد الغنی مجید کو بھی عدالت لایا گیا تھا، حسین لوائی نے کمرۂ عدالت میں آصف زرداری سے ملاقات بھی کی۔ انور مجید نے بھی عدالت میں پیشی بھگتائی۔

    ایف آئی اے نے جواب جمع کرانے کے لیے مہلت مانگ لی، سندھ ہائی کورٹ نے انور مجید کی درخواست پر ایف آئی اے کے تفتیشی افسر نجف مرزا کو 20 نومبر کو طلب کرلیا۔


    یہ بھی پڑھیں: بینکنگ کورٹ نے منی لانڈرنگ کیس کی سماعت 16 اکتوبرتک ملتوی کردی


    عدالت نے سماعت ملتوی کر دی، اگلی سماعت 13 نومبرکو ہوگی۔ خیال رہے کہ سندھ ہائی کورٹ میں سماعت منی لانڈرنگ کیس میں گرفتار انور مجید کی درخواست پر ہوئی تھی۔

    واضح رہے کہ اکیس دن قبل کیس کی سماعت پر آصف زرداری، فریال تالپور، انور مجید اور ان کے تینوں بیٹے عدالت کے سامنے پیش ہوئے تھے، سماعت کے آغاز پر ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے درخواست پر کارروائی کی مخالفت کی تھی، بعد ازاں سماعت آج کے دن تک ملتوی کر دی گئی تھی۔

  • منشا بم ایک روزہ راہداری ریمانڈ پر پولیس کے حوالے

    منشا بم ایک روزہ راہداری ریمانڈ پر پولیس کے حوالے

    اسلام آباد: لینڈ مافیا کے کارندے منشا بم کی ایک روزہ راہداری ریمانڈ منظور کرلیا گیا۔ منشا بم اور اس کے بچوں پر زمینوں پر قبضے کے 70 سے زائد کیسز رجسٹرڈ ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق منشا بم کو آج اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت پہنچایا گیا، منشا بم نے کہا کہ میرے وکیل کا انتظار کیا جائے۔

    منشا بم نے عدالت میں کہا کہ پنجاب پولیس پر اعتماد نہیں، قتل کر دیا جائے گا۔

    عدالت نے منشا بم کو ایک روزہ راہداری ریمانڈ پر لاہور پولیس کے حوالے کر دیا۔ ملزم کو کل متعلقہ عدالت میں پیش کیا جائے گا۔

    خیال رہے کہ یکم اکتوبر کو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے لاہور میں سرگرم قبضہ مافیا گروپ کے سرغنہ منشا بم سے متعلق کیس کی سماعت کی تھی۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پاکستان میں تارکین وطن کی جائیداد پر قبضہ ہوجاتا ہے، منشا بم نے بھی اوور سیز پاکستانی کی جائیداد پر قبضہ کیا ہے۔

    عدالت عظمیٰ نے قبضہ مافیا کے سرغنہ منشا بم کی گرفتاری اور اس کے قبضے میں تمام اراضی واگزار کرنے کا حکم دیا تھا۔ منشا بم اور اس کے بچوں پر زمینوں پر قبضے کے 70 سے زائد کیسز رجسٹرڈ ہیں۔

    گزشتہ روز منشا بم ضمانت کے حصول کے لیے سپریم کورٹ پہنچا تاہم اسے گرفتار کرلیا گیا۔

    گرفتاری سے قبل ملزم نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ شفیق گجر کے بھائی سے لین دین کے تنازعہ پر جھگڑا ہوا، ایس ایس پی شفیق گجر نے میرے خلاف مقدمہ درج کیا اور میرا نام بم رکھا۔

  • سندھ میں کام کرنے والی گیس و پیٹرول کمپنیوں کے خلاف توہین عدالت کیس

    سندھ میں کام کرنے والی گیس و پیٹرول کمپنیوں کے خلاف توہین عدالت کیس

    کراچی: سندھ ہائیکورٹ میں صوبے میں کام کرنے والی گیس و پیٹرول کمپنیوں کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت میں عدالت نے افسران کی سخت سرزنش کی۔

    تفصیلات کے مطابق صوبہ سندھ میں کام کرنے والی گیس و پیٹرول کمپنیوں کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی۔

    درخواست گزار نے کہا کہا کہ سندھ ہائیکورٹ کے حکم پر کمپنیاں عملدر آمد نہیں کر رہیں، مقامی سطح پر ترقیاتی اور فلاح و بہبود کے کام میں تعاون نہیں کیا جا رہا۔

    عدالت نے 30 اکتوبر تک قمبر شہداد کوٹ اور بدین میں کمپنیز سے رپورٹ طلب کرلی۔

    عدالت نے ہدایت کی کہ رپورٹ میں ملازمین کی تفصیل ڈومیسائل کے ساتھ پیش کی جائے، مولوی اور مؤذن کی تفصیل بھی ڈومیسائل کے ساتھ پیش کرنے کی ہدایت کی۔

    عدالت میں قمبر شہداد کوٹ میں گیس فیلڈ مزرانی میں مقامی ملازمین کی بھرتی کی رپورٹ پیش کی گئی۔

    ڈپٹی کمشنر قمبر شہداد کوٹ جاوید جاگیرانی نے بتایا کہ 6 میں سے ایک انجینئر مقامی ہے باقی سب باہر سے آئے ہیں۔

    عدالت نے ان کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو پتہ ہے آپ کے ضلع میں مقامی لوگوں سے ناانصافی ہو رہی ہے؟ ایسی صورتحال پیدا نہ کریں کہ آپ کی آنے والی نسلیں بھیک مانگیں۔

    چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ نے کہا کہ آپ اپنی ڈیوٹی کے فرائض انجام نہیں دے رہے، کیوں نہ آپ کے چیف سیکریٹری کو لکھا جائے کہ آئندہ آپ کو فیلڈ پوسٹنگ نہ دی جائے۔

    سندھ ہائیکورٹ نے آئندہ سماعت پر چیف سیکریٹری سندھ کو بھی طلب کرلیا۔

    سماعت میں ضلع گھوٹکی کے سابق ڈپٹی کمشنر کی جانب سے رپورٹ پیش کی گئی۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ قادر پور گیس فیلڈ نے ترقیاتی کاموں کی مد میں فنڈ نہیں دیا۔ گیس فیلڈ نے نمائندے نے کہا کہ ہم نے فنڈز دیے ہیں۔

    عدالت نے کہا کہ گھوٹکی کے ڈپٹی کمشنر نے جب رپورٹ میں سچ لکھا تو اس کا تبادلہ کر دیا گیا۔ عدالت نے نئے تعینات ڈپٹی کمشنر گھوٹکی کو بیان حلفی جمع کروانے کا حکم دیا۔

    عدالت نے کہا کہ بیان حلفی میں بتائیں 2013 سے کمپنیوں نے ترقی کے لیے کتنی رقم خرچ کی، کمپنی والوں کو مولوی اور مؤذن بھی باہر سے چاہئیں۔

    سندھ ہائیکورٹ کی جانب سے مزرانی گیس فیلڈ افسران کی بھی سرزنش کی گئی۔ ہائیکورٹ میں کیس کی مزید سماعت 30 اکتوبر تک ملتوی کردی گئی۔