Tag: عدالت کی خبریں

  • العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس کی سماعت کل تک ملتوی

    العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس کی سماعت کل تک ملتوی

    اسلام آباد: احتساب عدالت میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس کی سماعت ہوئی۔ نواز شریف کی جانب سے آج حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دائر کی گئی جسے منظور کرلیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت میں نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس کی سماعت ہوئی، جج محمد ارشد ملک نے ریفرنس کی سماعت کی۔

    نواز شریف کے وکیل نے آج ان کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دائر کی جسے عدالت نے منظور کرلیا۔

    سماعت میں نیب پراسیکیوٹرنے نواز شریف کا بیان قلمبند کرنے کی استدعا کردی۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف کا بیان قلمبند کرنے کے لیے تاریخ مقرر کی جائے۔

    عدالت نے کہا کہ پہلے شواہد مکمل ہونے سے متعلق بیان تو دیں، پراسیکیوٹر نے کہا کہ شواہد مکمل ہونے سے متعلق آج بیان دے دیں گے۔

    نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کی طرف سے ملزم کا بیان قلمبند کرنے کی استدعا کی مخالفت کی گئی۔

    انہوں نے کہا کہ ریفرنسز کا فیصلہ ایک ساتھ ہونا ہے تو ایک ریفرنس میں 342 کا بیان کیوں، اگر فیصلہ الگ الگ کرنا ہے تو اور بات ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے کہ پراسیکیوشن پہلے ایک ریفرنس کو ختم کرنا چاہتا ہے۔

    پراسیکیوٹر نے کہا کہ نواز شریف کا بیان ریکارڈ کرنے کی تاریخ مقرر کردیں، عدالت چاہے تو دونوں ریفرنس میں بیان ریکارڈ کرنے کی تاریخ رکھ دے۔

    انہوں نے کہا کہ ایون فیلڈ ریفرنس میں بھی عدالت نے127 سوال پوچھے تھے، ملزم نواز شریف کے بیان پر بھی وقت لگے گا۔

    عدالت نے کہا کہ نیب پہلے شواہد مکمل ہونے سے متعلق بیان دے۔

    عدالت نے فلیگ شپ ریفرنس پر واجد ضیا کو کل طلب کرتے ہوئے کہا کہ استغاثہ کل العزیزیہ ریفرنس میں حتمی شواہد مکمل ہونے سے آگاہ کرے۔

    احتساب عدالت میں العزیزیہ اسٹیل ریفرنس پر مزید سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔

    خیال رہے کہ گزشتہ روز کی سماعت میں تمام 22 گواہوں کے بیانات مکمل ہوگئے تھے جبکہ نواز شریف کے وکیل تفتیشی افسر پر جرح بھی مکمل کرلی۔

  • اثاثہ جات ریفرنس: اسحٰق ڈار کا گھر اور اکاؤنٹس کی رقم صوبائی حکومت کے حوالے

    اثاثہ جات ریفرنس: اسحٰق ڈار کا گھر اور اکاؤنٹس کی رقم صوبائی حکومت کے حوالے

    اسلام آباد: سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے خلاف آمدنی سے زائد اثاثہ جات کے ضمنی ریفرنس کی سماعت میں پراسیکیوٹر نیب عمران شفیق تعمیلی رپورٹ جمع کروادی۔ رپورٹ کے مطابق اسحٰق ڈار کا لاہور میں گھر اور اکاؤنٹس میں رقم صوبائی حکومت کی تحویل میں دے دی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے خلاف آمدنی سے زائد اثاثہ جات کے ضمنی ریفرنس پر سماعت ہوئی۔ سماعت احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے کی۔

    نامزد ملزمان سعید احمد، منصور رضا اور نعیم محمود عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔ سعید احمد کے وکیل حشمت حبیب نے استغاثہ کے گواہ محسن امجد پر جرح کی۔

    پراسیکیوٹر نیب عمران شفیق نے اسحٰق ڈار کے اثاثوں پر تعمیلی رپورٹ جمع کروا دی۔

    نیب کے مطابق اسحٰق ڈار کے بینک اکاؤنٹس اور موجود رقم کی تفصیلات پنجاب حکومت کو فراہم کردی گئی۔

    نیب کا کہنا ہے کہ اسحاق ڈار اور ان کی کمپنیوں کے اکاؤنٹس میں 5 کروڑ 83 لاکھ سے زائد رقم موجود ہے۔

    عدالت میں اسحٰق ڈار، ان کی اہلیہ اور بیٹے کے 3 پلاٹوں کی قرقی کی تعمیلی رپورٹ بھی جمع کروادی گئی۔

    تفتیشی افسر نادر عباس نے بتایا کہ اسحٰق ڈار کی گاڑیاں تحویل میں لینے کے لیے رہائش گاہ پر کارروائی کی گئی، اسحٰق ڈار کی رہائش گاہ پر گاڑیاں موجود نہیں تھیں۔ گاڑیوں کی تلاش کی کوشش جاری ہے۔

    انہوں نے کہا کہ اسحٰق ڈار اور اہلیہ کے شیئرز کی قرقی سے متعلق ایس ای سی پی رپورٹ کا انتظار ہے۔ رپورٹ ملنے کے بعد عدالت کو آگاہ کریں گے۔

    انہوں نے بتایا کہ موضع ملوٹ اسلام آباد میں واقع 6 ایکڑ اراضی فروخت کی جاچکی ہے، اراضی کیس کی تفتیش شروع ہونے سے پہلے فروخت کی جاچکی ہے۔

    رپورٹ میں کہا گیا کہ اسحٰق ڈار کا گلبرگ 3 لاہور میں گھر بھی صوبائی حکومت کی تحویل میں دے دیا گیا جبکہ اسحٰق ڈار کے اکاؤنٹس میں موجود رقم صوبائی حکومت کی تحویل میں دے دی گئی۔

  • العزیزیہ اسٹیل مل ریفرنس: تمام 22 گواہوں کے بیانات مکمل

    العزیزیہ اسٹیل مل ریفرنس: تمام 22 گواہوں کے بیانات مکمل

    اسلام آباد: احتساب عدالت میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس کی سماعت میں تمام 22 گواہوں کے بیانات مکمل ہوگئے۔ نواز شریف کے وکیل نے چھٹے روز تفتیشی افسر پر جرح مکمل کرلی۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت میں نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس کی سماعت ہوئی، جج محمد ارشد ملک نے ریفرنس کی سماعت کی۔

    سابق وزیر اعظم نواز شریف احتساب عدالت میں پیشی کے لیے لاہور سے خصوصی طیارے کے ذریعے اسلام آباد پہنچے۔

    ذرائع کے مطابق اسلام آباد میں نواز شریف پارٹی رہنماؤں سے ملاقاتیں بھی کریں گے۔

    سماعت کے دوران نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے تفتیشی افسر محبوب عالم پر جرح کی۔

    تفتیشی افسر کا کہنا تھا کہ کمپنیز شیئرز کی تقسیم سے واقفیت رکھنے والے کسی فرد کا بیان قلمبند نہیں کیا، ایس ای سی پی سے مہران رمضان ٹیکسٹائل ملز کا ریکارڈ حاصل کیا تھا۔

    انہوں نے کہا کہ شریف خاندان کی کون سی کمپنیاں بند ہوچکیں، کون سی کمپنیاں آپریشنل ہیں، اس حوالے سے بھی تحقیقات نہیں کیں۔ کسی گواہ نے نہیں کہا کہ حسین اور حسن نے ایچ ایم ای میں نواز شریف کی معاونت کی۔

    انہوں نے بتایا کیا کہ نواز شریف کے قوم سے خطاب کی ڈی وی ڈی بنانے والے کا بیان قلمبند نہیں کیا، قوم اور قومی اسمبلی سے خطاب کی ڈی وی ڈی بنانے والے کا نام بھی معلوم نہیں۔

    تفتیشی افسر کے مطابق العزیزیہ اسٹیل ملز کب قائم ہوئی، کسی گواہ نے نہیں بتایا نہ العزیزیہ اسٹیل کے قیام کے لیے اسپانسر فنڈنگ کا بھی نہیں بتایا۔ ایس ای سی پی سے مہران رمضان ٹیکسٹائل ملز کا ریکارڈ حاصل کیا تھا۔

    انہوں نے کہا کہ نواز شریف نے العزیزیہ اور ہل میٹل کے اندر ہونے کا دعویٰ نہیں کیا، العزیزیہ، ہل میٹل کے لیے فنڈ حسین نواز نے دیے یہ بھی کسی گواہ نے نہیں بتایا۔ تمام افراد نے کہا کہ العزیزیہ اسٹیل مل میاں شریف نے قائم کی۔

    خواجہ حارث نے پوچھا کہ تفتیش میں کسی ایسے شخص کو شامل کیا جو شیئرز کی تقسیم سے واقف تھا؟ جس پر تفتیشی افسر نے کہا کہ ایسے کسی شخص کو شامل تفتیش نہیں کیا۔

    انہوں نے کہا کہ یہ کہنا غلط ہوگا ہے کہ میں نے آزادانہ تفتیش نہیں کی اور صرف جے آئی ٹی رپورٹ پر انحصار کیا۔ صرف جے آئی ٹی کی ریفر کی گئی دستاویزات پر ریفرنس تیار نہیں کیے۔

    تفتیشی افسر نے کہا کہ یہ کہنا غلط ہے کہ میں نے کوئی متعصبانہ تفتیش کی یا طے شدہ منصوبے کے تحت نواز شریف کو کیس میں پھنسایا، نواز شریف نے کسی خطاب یا جے آئی ٹی میں خود کو کمپنیز کا مالک نہیں کہا۔

    تفتیشی افسر پر جرح مکمل ہونے کے بعد نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ اگلے مرحلے میں ملزم کا 342 کا بیان قلمبند کرلیا جائے، خواجہ حارث نے کہا کہ 342 کا بیان شروع کیا گیا تو کارروائی کا حصہ نہیں بنیں گے۔

    انہوں نے کہا کہ پہلے فلیگ شپ ریفرنس میں واجد ضیا کا بیان قلمبند کیا جائے۔

    جج نے کہا کہ سپریم کورٹ سے ٹائم فریم آجائے تو مستقبل سے متعلق طے کر لیں گے۔ مزید سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔

    گزشتہ سماعت پر نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے سماعت کے آغاز پر سوال کیا کہ کسی گواہ نے کہا نواز شریف نے باہر سے ملنے والی رقوم ظاہر نہیں کیں؟

    نیب پراسیکیوٹر واثق ملک نے اعتراض کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ہمارا کیس ہی نہیں ہے۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ ہم نے بتانا ہے بے نامی کی بات نہیں ہے سب ظاہر کیا گیا ہے جس پر نیب پراسیکیوٹرنے کہا کہ آپ بحث برائے بحث کر رہے ہیں۔

    احتساب عدالت نے ریمارکس دیے تھے کہ نیب تفتیشی جواب لکھوا دیں، تفتیشی افسر نے کہا کہ میں نے کسی کا بیان بھی ریکارڈ نہیں کیا۔

    محبوب عالم نے کہا تھا کہ میں نے قطری شہزادے حماد بن جاسم کو شامل تفتیش نہیں کیا۔

  • این جی اوز کی رجسٹریشن کے لیے کمیٹی بنا دی گئی: سیکریٹری جسٹس کمیشن

    این جی اوز کی رجسٹریشن کے لیے کمیٹی بنا دی گئی: سیکریٹری جسٹس کمیشن

    اسلام آباد: سپریم کورٹ میں این جی اوز کی رجسٹریشن سے متعلق کیس میں سیکریٹری لا اینڈ جسٹس کمیشن نے کہا کہ ایک کمیٹی بنا دی گئی ہے، این جی اوز کی رجسٹریشن کے لیے ملنے والی درخواستیں کمیٹی کو بھجوا دی جاتی ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں این جی اوز کی رجسٹریشن سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔ عدالت نے این جی اوز کی رجسٹریشن اور ان کی مانیٹرنگ کا کیس نمٹا دیا۔

    سماعت میں سیکریٹری لا اینڈ جسٹس کمیشن کی جانب سے رپورٹ پیش کی گئی۔ سیکریٹری لا اینڈ جسٹس کمیشن ڈاکٹر عبد الرحیم نے کہا کہ ایک کمیٹی بنا دی گئی ہے، وزارت داخلہ کو ملنے والی درخواست کمیٹی کو بھجوا دی جاتی ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ کمیٹی کے اطمینان کے بعد اسے کام کرنے کی اجازت دی جاتی ہے، 141 درخواستیں موصول ہوئیں، 75 کی رجسٹریشن ہوچکی ہے، 19 درخواستیں زیر التوا ہیں جبکہ 47 کی درخواستیں مسترد کی ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ نئی رجسٹریشن سے پہلے تمام این جی اوز کی رجسٹریشن ختم کردی گئی، پنجاب حکومت نے دوبارہ اسکروٹنی کے بعد رجسٹر کیا، بلوچستان میں اس وقت کسی کو بھی کام کی اجازت نہیں ہے۔

    عدالت نے کہا کہ کسی کو پالیسی سے اختلاف ہے تو متعلقہ فورم پر رجوع کرے جس پر سیکریٹری نے بتایا کہ وزارت داخلہ کی پالیسی کو کسی بھی فورم پر چیلنج نہیں کیا گیا۔

    خیال رہے کہ گزشتہ روز انکشاف ہوا تھا کہ محکمہ سماجی بہبود کے پاس رجسٹرڈ 80 فیصد این جی اوز کا ریکارڈ موجود ہی نہیں ہے، اس حوالے سے محکمہ سوشل ویلفیئر نے ایسی این جی اوز کی چھان بین کا فیصلہ کیاتھا۔

    ان این جی اوز کو تجدید کے لیے 15 دن کی حتمی مہلت دی گئی ہے۔

    اس سے قبل وزارت داخلہ نے این جی اوز سے متعلق اہم اور سخت اقدامات اٹھاتے ہوئے ملکی قوانین اور قواعد و ضوابط پر عمل درآمد نہ کرنے والی 18 عالمی این جی اوز کو 60 روز میں ملک چھوڑنے کا حکم جاری کیا تھا۔

  • توہین عدالت کیس: طلال چوہدری کا معافی نامہ مسترد

    توہین عدالت کیس: طلال چوہدری کا معافی نامہ مسترد

    اسلام آباد: مسلم لیگ ن کے رہنما طلال چوہدری کی توہین عدالت انٹرا کورٹ اپیل کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے طلال چوہدری کا معافی نامہ مسترد کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق مسلم لیگ ن کے رہنما طلال چوہدری کی توہین عدالت انٹرا کورٹ اپیل کی سماعت ہوئی۔ سپریم کورٹ نے طلال چوہدری کا معافی نامہ مسترد کرتے ہوئے کہا کہ طلال چوہدری کو اپنے کہے پر پشیمانی نہیں۔

    چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ طلال چوہدری نے پی سی او کے جج کس کو کہا، کس کو یہ باہر نکالنا چاہتے ہیں؟

    مزید پڑھیں: طلال چوہدری 5 سال کے لیے نا اہل قرار

    انہوں نے کہا کہ کیوں نہ ہم ان کی سزا میں اضافہ کر دیں، ہم انہیں سزا میں اضافے کا نوٹس جاری کرتے ہیں۔

    طلال چوہدری کے وکیل نے کہا کہ طلال چوہدری سے غلطی ہوئی اور وہ معافی مانگ رہے ہیں، آپ پہلے سن لیں کہ انہوں نے کیا کہا۔

    چیف جسٹس نے عدالت میں ویڈیو کلپ چلانے کا حکم دیا، ویڈیو دیکھنے کے بعد چیف جسٹس نے طلال چوہدری پر مزید اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ طلال چوہدری بتائیں ہم میں سے کون پی سی او جج ہے، روسٹرم پر آکر بتائیں کس کو نکالنا چاہتے ہیں۔

    طلال چوہدری نے کہا کہ پی سی او ججز کے بارے میں خود سپریم کورٹ کا اپنا فیصلہ موجود ہے، میں نے پی سی او ججز کی بات کی تھی موجودہ عدالت کی نہیں۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ انہوں نے اب بھی نہ معافی مانگی نہ شرمندگی کا اظہار کیا جس پر طلال چوہدری کے وکیل نے کہا کہ طلال چوہدری اپنی بات سمجھا نہیں پا رہے۔ طلال چوہدری کہنا چاہتے ہیں کہ موجودہ ججز کے بارے میں نہیں کہا۔

    انہوں نے کہا کہ طلال چوہدری کا معافی نامہ پہلے ہی عدالت کے ریکارڈ پر موجود ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم وہ معافی نامہ مسترد کرتے ہیں۔

    جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ کو مؤکل کی طرف سے معافی نہیں مانگنی چاہیئے تھی، طلال چوہدری کو اپنے اقدام پر خود پشیمانی ہونی چاہیئے۔

    طلال چوہدری نے کہا کہ کئی پروگرامز میں اپنے اقدام پر افسوس اور شرمندگی کا اظہار کیا۔ چیف جسٹس نے ترجمان سپریم کورٹ سے ٹاک شوز میں گفتگو کا ریکارڈ بھی منگوا لیا۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ سزا ختم کر دیتے ہیں طلال لکھ کر دیں 5 سال الیکشن نہیں لڑیں گے، یہ کسی کی ذات نہیں ادارے کے وقار کی بات ہے۔

    وکیل نے کہا کہ سزا کے بعد 5 سال تک طلال چوہدری وکالت نہیں کر سکتے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ طلال چوہدری وکالت چھوڑیں یہ سیاست ہی کریں۔

    وکیل نے کہا کہ آپ نے معاملے پر نوٹس لیا ہے آپ مقدمے کو نہ سنیں جس پر عدالت نے وکیل طلال چوہدری کے اعتراض کو مسترد کر دیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ طلال چوہدری نے عدالت عظمیٰ کی تضحیک اور توہین کی۔

    خیال رہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے گزشتہ ماہ مسلم لیگ ن کے رہنما طلال چوہدری کو توہین عدالت کا مرتکب قرار دیتے ہوئے پانچ سال کے لیے نا اہل قرار دیا تھا۔

    مسلم لیگ ن کے رہنما طلال چوہدری کو آرٹیکل 204 کے تحت توہین عدالت کا مرتکب قرار دیتے ہوئے عدالت برخاست ہونے تک کی سزا سنائی گئی اور پانچ سال کے لیے نا اہل قرار دیا گیا جبکہ ان پر ایک لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا گیا۔

    سابق وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے عدالت میں 2 گھنٹے 5 منٹ قید کی سزا کاٹی۔

    بعد ازاں طلال چوہدری نے اپنی نااہلی کے فیصلے کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی۔

    درخواست میں کہا گیا کہ عدالتی فیصلہ قانون کی نظر میں درست نہیں اسے کالعدم قرار دیا جائے، شواہد کا درست انداز میں جائزہ نہیں لیا گیا۔ استغاثہ کے مؤقف کو اہمیت دی گئی لیکن دفاع کو نظر انداز کیا گیا۔

    درخواست میں مزید کہا گیا کہ استغاثہ کے خلاف مواد کے باوجود درخواست گزار کو شک کا فائدہ نہیں دیا گیا، الزام ثابت کیے بغیر سزا دی گئی۔ فیصلے کو کالعدم قرار دینے کے لیے بے قاعدگیاں اور خلاف قانون پہلو موجود ہے۔

  • آسیہ بی بی کیس: سماعت مکمل، فیصلہ محفوظ

    آسیہ بی بی کیس: سماعت مکمل، فیصلہ محفوظ

    اسلام آباد: سپریم کورٹ میں آسیہ بی بی سے متعلق کیس کی سماعت مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے توہین رسالت ﷺ و قرآن کے جرم میں قید آسیہ بی بی سے متعلق کیس کی سماعت مکمل کرنے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا۔ سماعت چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کی۔

    فیصلہ محفوظ کرنے کے بعد چیف جسٹس ثاقب نثار نے کیس پر کسی بھی میڈیا پر تبصرہ کرنے پر پابندی عائد کردی۔

    مزید پڑھیں: سپریم کورٹ نے آسیہ بی بی کیس کی سماعت معطل کردی

    سماعت کے دوران آسیہ بی بی کے وکیل سیف الملوک نے عدالت کو بتایا کہ واقعہ 14 جون 2009 کا ہے، ننکانہ صاحب کے گاؤں کٹاں والا کے امام مسجد نے واقعہ درج کروایا، جبکہ ایف آئی آر کے مطابق آسیہ نے توہین مذہب کا اقرار کیا۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ وکیل کی گفتگو سے معلوم ہوتا ہے کہ امام مسجد براہ راست گواہ نہیں کیونکہ ان کے سامنے توہین آمیز الفاظ استعمال نہیں کیے گئے۔

    چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ امام مسجد کے بیان کے مطابق 5 مرلے کے مکان میں پنچایت ہوئی، کہا گیا کہ پنچایت میں ہزار لوگ جمع تھے۔

    وکیل نے بتایا کہ عاصمہ اور اسما نامی گواہان کے بیانات میں تضاد ہے۔ انہوں نے کہا کہ واقعے کی تفتیش ناقص اور بدنیتی پر مبنی تھی۔

    خیال رہے کہ آسیہ بی بی کو سنہ 2010 میں توہین رسالت ﷺ کے الزام میں سزائے موت سنائی گئی تھی جبکہ ان کے وکلا کا دعویٰ تھا کہ آسیہ بی بی پر جھوٹا الزام عائد کیا گیا۔

    آسیہ بی بی پر توہین رسالت ﷺ کا الزام جون 2009 میں لگایا گیا تھا جب ایک مقام پر مزدوری کے دوران ساتھ کام کرنے والی مسلم خواتین سے ان کا جھگڑا ہوگیا تھا۔

    مزید پڑھیں: سپریم کورٹ نے آسیہ بی بی کی سزائے موت پر عملدر آمد روک دیا

    آسیہ سے پانی لانے کے لیے کہا گیا تھا تاہم وہاں موجود مسلم خواتین نے اعتراض کیا کہ چونکہ آسیہ غیر مسلم ہے لہٰذا اسے پانی کو نہیں چھونا چاہیئے۔

    بعد ازاں خواتین مقامی مولوی کے پاس گئیں اور الزام لگایا کہ آسیہ نے پیغمبر اسلام ﷺ کی شان میں گستاخی کی ہے۔

    اس سے قبل آسیہ بی بی کی سزائے موت کے خلاف متعدد اپیلیں مسترد ہوچکی ہیں اور اب اگر سپریم کورٹ نے بھی ان کی سزا برقرار رکھی اور سزائے موت پر عمل درآمد کردیا گیا تو پاکستان میں توہین رسالت کے الزام میں دی جانے والی یہ پہلی سزا ہوگی۔

  • صدر پاکستان سے مجرموں کی معافی کے اختیارات واپس لیے جائیں: عدالت میں درخواست

    صدر پاکستان سے مجرموں کی معافی کے اختیارات واپس لیے جائیں: عدالت میں درخواست

    اسلام آباد: وفاقی دارالحکومت کی ہائیکورٹ میں صدر پاکستان سے مجرموں کی معافی کے اختیارات ختم کرنے سے متعلق درخواست دائر کی گئی جس پر سنگل رکنی بینچ جسٹس اطہر من اللہ نے سماعت سے معذرت کرلی۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ میں صدر پاکستان سے مجرموں کی معافی کے اختیارات ختم کرنے سے متعلق درخواست دائر کی گئی۔

    درخواست پاکستان عوامی تحریک کے خرم نواز گنڈا پور نے دائر کی۔ درخواست پر سماعت ہونے پر ہائیکورٹ کے سنگل رکنی بینچ جسٹس اطہر من اللہ نے سماعت سے معذرت کر لی۔

    جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ درخواست گزار میرا کلائنٹ رہا ہے سماعت نہیں کرسکتا، انہوں نے درخواست کسی اور بینچ میں مقرر کرنے کے لیے معاملہ چیف جسٹس کو بھجوا دیا۔

    درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ آرٹیکل 45 کے تحت صدر پاکستان سے مجرموں کی معافی کے اختیارات واپس لیے جائیں۔ مجرموں کی سزا معافی اسلامی تعلیمات اور آزاد عدلیہ کے تصور کے منافی ہے۔

    درخواست میں اسلامی نظریاتی کونسل اور صدر پاکستان کے پرنسپل سیکرٹری کو فریق بنایا گیا ہے۔

  • بے نظیر بھٹو قتل کیس: ملزمان کی ضمانتوں کے خلاف اپیلیں خارج

    بے نظیر بھٹو قتل کیس: ملزمان کی ضمانتوں کے خلاف اپیلیں خارج

    اسلام آباد: سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو قتل کیس میں ملزمان کی ضمانتوں پر رہائی کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے سپریم کورٹ نے کیس میں نامزد پولیس افسران کی ضمانتوں کے خلاف اپیل خارج کردی۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان کی پہلی خاتون وزیر اعظم بے نظیر بھٹو قتل کیس میں ملزم پولیس افسران کی ضمانتوں کے خلاف اپیل کی سماعت جسٹس آصف سعید اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل بینچ نے کی۔

    سماعت میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو بھی موجود تھے۔

    درخواست گزار کے وکیل لطیف کھوسہ نے دلائل میں کہا کہ سابق صدر پرویز مشرف بھی اسی مقدمےمیں نامزد ہیں، جنہوں نے ججز کو بھی بند کیا۔ سابق صدر سب کنٹرول کر رہے تھے، پولیس افسران بھی مشرف کے کنٹرول میں تھے۔

    انہوں نے دلائل دیے کہ ہائیکورٹ کو انسداد دہشت گردی ایکٹ کا سیکشن 25 اے ضمانت دینے سے روکتا ہے جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ تین مقدمات کی نظیر موجود ہے یہ معاملہ طے ہو چکا ہے، آپ کیس کی میرٹ پر بات کریں۔

    انہوں نے کہا کہ دنیا نے دیکھا ایک شوٹر نے قریب سے پوائنٹ بلینک پر گولی ماری۔

    لطیف کھوسہ نے کہا کہ اقوام متحدہ رپورٹ نے کہا کہ باکس سیکیورٹی سے واقعہ کو روکا جا سکتا تھا۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا یہ دونوں افسران ایک سال سے ضمانت پر ہیں، ضمانت منسوخی پر آپ کو شواہد دینا ہوں گے۔

    لطیف کھوسہ نے کہا کہ ضمانت قانون کے مطابق نہیں دی گئی جس پر جج نے دریافت کیا کہ شواہد کیا ہیں کہ ضمانت قانون کے مطابق نہیں دی گئی۔

    وکیل نے کہا کہ قد آور لیڈر کا قتل لواحقین کا نہیں بلکہ پورے خطے کا نقصان ہے، انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو قتل کیس کا حوالہ دیا جس پر جج نے کہا کہ آپ قانون اور سیاست کو الگ رکھیں۔

    جج نے کہا کہ استغاثہ کو مزید شواہد دینے چاہیئے تھے جو نہیں دیے گئے۔ وکیل نے کہا کہ سیکیورٹی اداروں کو بے نظیر بھٹو کو لاحق خطرات کا علم تھا، کرائم سین کو دھونے کا اقدام جان بوجھ کر کروایا گیا۔

    جج نے کہا کہ بی بی سی نے 10 اقساط پر مشتمل اسیسنیشن کے نام سے پروگرام کیا، پورا پروگرام بی بی کے قتل کے حوالے سے ہے۔ انہوں نے ہماری تفتیشی ایجنسیوں سے زیادہ بہتر تحقیق کی۔

    عدالت نے کہا کہ ملزمان نے ضمانت کی رعایت کا غلط استعمال نہیں کیا ہے، ہائیکورٹ کو ملزمان کو دہشت گردی مقدمات میں ضمانت دینے کا اختیار ہے۔

    بعد ازاں عدالت نے ملزمان کی ضمانتوں پر رہائی کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے کیس میں نامزد پولیس افسران کی ضمانتوں کے خلاف اپیل خارج کردی۔

    بلاول بھٹو کی گفتگو

    سماعت کے بعد چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پرویز مشرف سے متعلق کوئی فیصلہ نہیں دیا گیا، وہ بھاگے ہوئے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ دہشت گردوں کے سہولت کاروں کو بھی سزا نہیں ہوئی، ملوث افسران کو ڈیوٹیوں پر بھی بحال کیا گیا، امید ہے شہید ذوالفقار بھٹو کیس اور شہید بے نظیر بھٹو کیس میں انصاف ملے گا۔

  • نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس کی سماعت کل تک ملتوی

    نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس کی سماعت کل تک ملتوی

    اسلام آباد: احتساب عدالت میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس پر سماعت ہوئی۔ تفتیشی افسر محبوب عالم ںے وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) اور قومی احتساب بیورو (نیب) کو لکھے گئے خطوط کی نقول عدالت میں پیش کیں۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت میں العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس پر سماعت ہوئی۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف لاہور سے اسلام آباد پہنچے۔

    سماعت میں تفتیشی افسر محبوب عالم نے عدالتی حکم پر ایف آئی اے اور نیب کو لکھے گئے خطوط کی نقول عدالت میں پیش کیں۔

    نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے تفتیشی افسر پر دوبارہ جرح کا سلسلہ شروع کیا۔۔

    تفتیشی افسر کا کہنا تھا کہ ایگزیکٹو بورڈ کے فیصلے سے متعلق مجھے خط کے ذریعے آگاہ کیا گیا۔ ایگزیکٹو بورڈ کے فیصلے کی اصل کاپی ریفرنس کا حصہ نہیں بنائی، ایگزیکٹو بورڈ کے فیصلے سے متعلق خط لکھنے والے افسر کا بیان بھی ریکارڈ نہیں کیا۔

    انہوں نے کہا کہ ریفرنس سپریم کورٹ کے حکم پر 6 ہفتے میں دائر کرنا تھا، سپریم کورٹ اور نیب کی ہدایت کے مطابق ریفرنس دائر نہ کرنے کا آپشن نہیں تھا۔

    خواجہ حارث نے دریافت کیا کہ جے آئی ٹی کی مصدقہ نقول کے لیے کب درخواست دی، تفتیشی افسر نے کہا کہ ہم نے پراسیکیوشن ڈویژن نیب ہیڈ کوارٹر میں درخواست دی۔

    خواجہ حارث نے پوچھا کہ کیا رپورٹ کی تصدیق کرنے والے کا نام لکھا ہوا تھا، جس پر نیب کے وکیل نے اعتراض اٹھایا کہ یہ سوال تفتیشی افسر سے نہیں پوچھا جا سکتا۔

    تفتیشی افسر نے نیب پراسیکیوشن ڈپارٹمنٹ کو لکھے خط کی کاپی پیش کردی۔

    خواجہ حارث نے پوچھا کہ کیا خط میں جے آئی ٹی رپورٹ کا ذکر ہے؟ تفتیشی افسر نے جواب دیا کہ ہم نے متعلقہ مواد کا لکھا، جے آئی ٹی رپورٹ کا خصوصی ذکر نہیں کیا۔ تمام ریکارڈ کی مصدقہ نقول کے لیے ایک ہی خط لکھا تھا، غیر تصدیق شدہ کاپیاں تفتیش کا عمل جاری رکھنے کے لیے مانگی تھیں۔

    سماعت کے دوران خواجہ حارث اور نیب پراسیکیوٹر اکرم قریشی کے درمیان گرما گرمی بھی ہوئی۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ آپ نے کل ایف آئی اے اور نیب کو خطوط سے متعلق جھوٹ بولا، نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ جھوٹ آپ کے مؤکل بولتے ہیں جھوٹے وہ ہیں۔ ’پورا ملک لوٹ کر کھا گئے ہیں یہاں آ کر کہتے ہیں ہم معصوم ہیں‘۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ کیسی باتیں کر رہے ہیں آپ کیا یہاں سیاست کرنے آئے ہیں؟ آپ فیصلے سے پہلے فیصلہ سنا رہے ہیں کہ ہم جھوٹے اور چور ہیں۔ ہم آپ کے خلاف درخواست دے سکتے ہیں۔

    اکرم قریشی نے کہا کہ درخواست میں آپ کےخلاف بھی دوں گا، کل آپ کی معاون نے مجھے گیٹ آؤٹ بولا۔ عائشہ حامد کے والد میرے کلاس فیلو رہے اس لیے انہیں بچی بولا تھا۔

    جج نے کہا کہ کل عائشہ حامد تھوڑا زیادہ غصہ کر گئیں، بہتر ہوگا استغاثہ اور دفاع آپس میں بات نہ کیا کریں۔ میں یہاں بیٹھا ہوں بات مجھ سے کیا کریں۔

    جرح دوبارہ شروع ہونے پر تفتیشی افسر نے کہا کہ میں کوئی ایسا خط نہیں دکھا سکتا جس پر میرے دستخط ہوں، خطوط کے مسودے تیار کر کے ان پر متعلقہ حکام سے دستخط لیتا تھا۔ نیب ایس او پی کے مطابق ایسے ہی کام کرتے ہیں۔

    وکیل نیب نے کہا کہ وکیل صفائی کو کوئی ریکارڈ چاہیئے تو درخواست دیں، ایسا نہیں ہو سکتا یہ جو بھی کہیں ہم پیش کرتے جائیں۔

    خواجہ حارث نے عدالت سے استدعا کی کہ نیب نے جو یاد دہانی کے خطوط لکھے وہ پیش کرنے کا حکم دیا جائے۔ نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ درخواست پر بحث کے بعد فیصلہ کیا جائے۔

    جج نے کہا کہ تفتیشی افسر اپنے بیان میں کہہ چکے ہیں کہ وہ عدالتی حکم پر خطوط پیش کر سکتے ہیں۔ نیب کو خطوط کی رازداری پر اعتراض ہے تو جائزے کے بعد فیصلہ کریں گے۔

    عدالت نے کل تفتیشی افسر کو یاد دہانی کے خطوط پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس پر سماعت کل تک ملتوی کردی۔ کل بھی خواجہ حارث تفتیشی افسر پر جرح جاری رکھیں گے۔

    گزشتہ سماعت پر تفتیشی افسر نے کہا تھا کہ نیب نے متعلقہ اداروں کو اثاثوں سے متعلق ریکارڈ کے لیے خطوط لکھے، یہ درست ہے ایف آئی اے کی جانب سے کوئی جواب نہیں ملا۔

    خواجہ حارث نے پوچھا کہ کیا آپ نے نیب کے حکام کو بھی ریکارڈ فراہمی کے لیے خط لکھا؟ جس پر تفتیشی افسر نے کہا کہ نیب حکام کو بھی خط لکھا مگر ہیڈ کوارٹر سے کوئی جواب نہیں ملا۔

    خواجہ حارث نے پوچھا کہ کیا ایف آئی اے اور نیب ہیڈ کوارٹر کو خطوط کی کاپیاں ہیں؟ جس پر تفتیشی افسر نے کہا کہ خطوط کی کاپیاں میرے پاس نہیں عدالت کہے تو پیش کر سکتا ہوں۔

    عدالت نے انہیں ہدایت کی تھی کہ دونوں خطوط کی 2، 2 کاپیاں پیش کریں۔ خواجہ حارث نے کہا کہ ایسا تو نہیں ایف آئی اے نے اطلاع دی ہو مگر ان کے پاس ریکارڈ نہیں جس پر تفتیشی افسر نے کہا کہ نہیں ایسا کچھ نہیں ہوا ان کا جواب ہی نہیں آیا۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ کیا ایف آئی اے اور نیب نے کہا کہ ان کے پاس ریکارڈ نہیں؟ تفتیشی افسر نے کہا کہ جب جواب ہی نہیں آیا تو یہ بات کیسے کہہ سکتا ہوں،۔ تفتیشی رپورٹ میں صفحہ 8 کے پیراگراف 6 پر یہ بات لکھی ہے۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ کیا آپ نے ایف آئی اے کو یاد دہانی کا خط لکھا تھا؟ جس پر تفتیشی افسر نے کہا کہ ایف آئی اے کو یاد دہانی کا کوئی خط نہیں لکھا۔ نیب ہیڈ کوارٹر کو بھی یاد دہانی کے لیے خط نہیں لکھا۔

  • نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس کی سماعت کل تک ملتوی

    نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس کی سماعت کل تک ملتوی

    اسلام آباد: احتساب عدالت میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس پر سماعت ہوئی۔ نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے تفتیشی افسر محبوب عالم پر جرح کی۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت میں العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس پر سماعت ہوئی۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف بھی کمرہ عدالت میں موجود رہے۔

    نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے تفتیشی افسر محبوب عالم پر جرح کی۔

    تفتیشی افسر نے کہا کہ نیب نے متعلقہ اداروں کو اثاثوں سے متعلق ریکارڈ کے لیے خطوط لکھے، یہ درست ہے ایف آئی اے کی جانب سے کوئی جواب نہیں ملا۔

    خواجہ حارث نے پوچھا کہ کیا آپ نے نیب کے حکام کو بھی ریکارڈ فراہمی کے لیے خط لکھا؟ جس پر تفتیشی افسر نے کہا کہ نیب حکام کو بھی خط لکھا مگر ہیڈ کوارٹر سے کوئی جواب نہیں ملا۔

    خواجہ حارث نے پوچھا کہ کیا ایف آئی اے اور نیب ہیڈ کوارٹر کو خطوط کی کاپیاں ہیں؟ جس پر تفتیشی افسر نے کہا کہ خطوط کی کاپیاں میرے پاس نہیں عدالت کہے تو پیش کر سکتا ہوں۔

    عدالت نے انہیں ہدایت کی کہ دونوں خطوط کی 2، 2 کاپیاں پیش کریں۔ خواجہ حارث نے کہا کہ ایسا تو نہیں ایف آئی اے نے اطلاع دی ہو مگر ان کے پاس ریکارڈ نہیں جس پر تفتیشی افسر نے کہا کہ نہیں ایسا کچھ نہیں ہوا ان کا جواب ہی نہیں آیا۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ کیا ایف آئی اے اور نیب نے کہا کہ ان کے پاس ریکارڈ نہیں؟ تفتیشی افسر نے کہا کہ جب جواب ہی نہیں آیا تو یہ بات کیسے کہہ سکتا ہوں،۔ تفتیشی رپورٹ میں صفحہ 8 کے پیراگراف 6 پر یہ بات لکھی ہے۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ کیا آپ نے ایف آئی اے کو یاد دہانی کا خط لکھا تھا؟ تفتیشی افسر نے کہا کہ ایف آئی اے کو یاد دہانی کا کوئی خط نہیں لکھا۔ نیب ہیڈ کوارٹر کو بھی یاد دہانی کے لیے خط نہیں لکھا۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ عبوری ریفرنس سے پہلے آپ نے تفتیشی رپورٹ میں لکھا جس پر تفتیشی افسر نے کہا کہ ریکارڈ دیکھنا پڑے گا۔

    وکیل صفائی نے نواز شریف اور حسین نواز کے ٹرانسکرپٹ پیش کرنے پر اعتراض کیا تو عدالت نے کہا کہ وکیل صفائی کے اعتراض پر فیصلہ بعد میں کیا جائے گا۔

    سماعت کے دوران نواز شریف اور شہباز شریف کی کمرہ عدالت میں ملاقات بھی ہوئی۔

    عدالت نے تفتیشی افسر کو ریکارڈ کے حصول کے لیے لکھے خطوط پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ کل فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت نہیں ہوگی، پہلے تفتیشی افسر پر العزیزیہ اسٹیل ریفرنس میں جرح مکمل ہوگی۔

    احتساب عدالت نے العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس پر مزید سماعت کل تک ملتوی کردی۔