Tag: عدالت کی خبریں

  • میگا منی لانڈرنگ کیس: آصف زرداری اور فریال تالپور کی ضمانت میں 14 فروری تک توسیع

    میگا منی لانڈرنگ کیس: آصف زرداری اور فریال تالپور کی ضمانت میں 14 فروری تک توسیع

    کراچی: صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی کی بینکنگ کورٹ میں جعلی بینک اکاؤنٹس کے ذریعے میگا منی لانڈرنگ کیس میں نامزد ملزمان پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور کی ضمانت میں 14 فروری تک توسیع کردی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی کی بینکنگ کورٹ میں میگا منی لانڈرنگ اسکینڈل کیس کی سماعت شروع ہوئی جس کے لیے سابق صدر آصف علی زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور بینکنگ کورٹ میں پیش ہوئے۔

    جیل حکام کا کہنا تھا کہ اومنی گروپ کے چیئرمین انور مجید کو آج پیش نہیں کیا جائے گا، جیل حکام کی جانب سے ملزم انور مجید کی میڈیکل رپورٹ عدالت میں جمع کروادی گئی۔

    رپورٹ کے مطابق انور مجید نیشنل انسٹیٹیوٹ آف کارڈیو ویسکیولر ڈیزیز (این آئی سی وی ڈی) میں زیر علاج ہیں لہٰذا انہیں پیش نہیں کیا جا سکتا۔ کیس میں نامزد ملزمان ذوالقرنین اور نمر مجید سمیت دیگر ملزمان بھی عدالت میں پیش ہوئے۔

    سماعت کے دوران انور مجید کے وکیل نے کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ فیلڈ میں ہے، عدالت نے کہا کہ سپریم کورٹ نے معاملہ عمل درآمد بینچ کے سامنے رکھنے کا کہا۔

    وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے وکیل نے کہا کہ سپریم کورٹ نے حکم امتناع واپس نہیں لیا۔ عدالت نے استفسار کیا کہ کیا کسی کے پاس سپریم کورٹ کا فیصلہ موجود ہے؟

    ایف آئی اے کے وکیل بختیار چنہ نے کہا کہ سرکاری طور پر فیصلے کی نقل نہیں ملی، جب فیصلہ نہیں ملا تو سرکاری وکیل دلائل کیسے دے سکتے ہیں۔

    انور مجید کے وکیل نے کہا کہ انور مجید اور عبد الغنی مجید کو ضمانت دی جائے، سپریم کورٹ کا فیصلہ آچکا، حکم امتناع فعال نہیں۔ ایف آئی اے سے حتمی چالان طلب کیا جائے۔ حتمی چالان نہیں آتا تو پھر عبوری کو حتمی چالان تصور کیا جائے۔

    جج نے کہا کہ بغیر تفتیش دیکھے ضمانت کیسے چلا سکتے ہیں، تفتیشی افسر موجود ہے نہ ایف آئی اے ریکارڈ، کیس کیسے چلائیں۔

    ایف آئی کے وکیل نے کہا کہ معاملہ نیب جا رہا ہے، ضمانت پر کارروائی فی الحال نہ کی جائے۔ حتمی تفتیش تک ضمانتوں پر کارروائی روک دی جائے۔

    جج نے کہا کہ سپریم کورٹ نے جب تک نہیں روکا درخواستوں پر فیصلہ کر رہے تھے، کچھ دن کے لیے شہر سے باہر جارہا ہوں واپسی پر مزید کارروائی ہوگی۔

    وکیل صفائی نے کہا کہ عبد الغنی مجید کوسرجری کی ضرورت ہے مگر علاج نہیں کیا جارہا جس پر عدالت نے عبد الغنی مجید کو مکمل طبی سہولتیں فراہم کرنے کا حکم دیا۔ انور مجید اور عبد الغنی مجید کی ضمانت کی درخواست کی سماعت 6 فروری کو ہوگی۔

    عدالت نے آصف زرداری اور فریال تالپور کی ضمانت میں 14 فروری تک توسیع کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔

    بینکنگ کورٹ اس سے قبل آصف زرداری اور فریال تالپور کی ضمانت میں متعدد بار توسیع کرچکی ہے، گزشتہ سماعت پر بھی دونوں کی ضمانت میں 23 جنوری تک توسیع کی گئی تھی۔

    یاد رہے کہ جعلی بینک اکاؤنٹس کے ذریعے منی لانڈرنگ کرنے کے کیس میں سابق صدر آصف زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور بھی نامزد ہیں۔ جعلی بینک اکاؤنٹس کے ذریعے 35 ارب روپے کی منی لانڈرنگ پر سپریم کورٹ نے بھی از خود نوٹس لے رکھا ہے۔

    نجی بینک کے سربراہ حسین لوائی اور طحہٰ رضا جوڈیشل ریمانڈ پر جیل میں ہیں جبکہ فریال تالپور سمیت کیس کے 4 ملزمان نے گرفتاری سے بچنے کے لیے عبوری ضمانت لے رکھی ہے۔ وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے کیس میں آصف زرداری سمیت 20 ملزمان کو مفرور قرار دیا ہے۔

    24 دسمبر کو سپریم کورٹ میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی رپورٹ پیش کی گئی تھی جس میں ہوشربا انکشافات سامنے آئے تھے۔

    رپورٹ کے مطابق زرداری گروپ نے 53.4 بلین کے قرضے حاصل کیے، زرداری گروپ نے 24 بلین قرضہ سندھ بینک سے لیا۔ اومنی نے گروپ کو 5 حصوں میں تقسیم کر کے قرضے لیے۔

    رپورٹ میں کہا گیا کہ فریال تالپور کے اکاؤنٹ میں 1.22 ارب روپے کی رقم جمع ہوئی۔ رقم سے بلاول ہاؤس کراچی، لاہور، ٹنڈو آدم کے لیے زمین خریدی گئی۔ سندھ بینک نے اومنی گروپ کو 24 ارب قرض دیے۔

    رپورٹ کے مطابق 1997 میں اومنی گروپ تشکیل دیا گیا جس نے مزید 6 کمپنیاں بنائیں، اب اومنی گروپ کی 83 کمپنیاں ہیں۔ کے ڈی اے نے اومنی کے نام مندر، لائبریری اور عجائب گھر کے پلاٹ منتقل کیے۔ پلاٹس پہلے رہائشی پھر کمرشل کر کے فروخت کردیے گئے۔

    سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے اومنی گروپ کی جائیدادوں کو تا حکم ثانی منجمد کرنے کا حکم دیا تھا۔

    28 دسمبر کو وفاقی حکومت نے جے آئی ٹی رپورٹ کی بنیاد پر آصف زرداری، فریال تالپور، پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ سمیت 172 افراد کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈال دیے تھے۔

    تاہم بعد ازاں سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ای سی ایل میں نام ڈالنے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے استفسار کیا تھا کہ وفاقی حکومت نے ان سب کے نام ای سی ایل میں کیوں ڈالے، آپ کے پاس کیا جواز ہے؟

    چیف جسٹس نے کہا تھا کہ یہ اقدام شخصی آزادیوں کے منافی ہے۔ انہوں نے اس حوالے سے وزیر داخلہ شہریار خان آفریدی سے جواب طلب کیا تھا۔

    انہوں نے حکم دیا تھا کہ نام ای سی ایل میں ڈالنے پر نظر ثانی کریں اور معاملہ کابینہ میں لے جائیں۔

    2 جنوری کو وزیر اعظم کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ تمام ناموں کا جائزہ لیا جائے گا اور اس کے بعد انہیں ای سی ایل سے نکالنے یا نہ نکالنے کا فیصلہ کیا جائے گا۔

    دوسری جانب 5 جنوری کو منی لانڈرنگ کیس کی جے آئی ٹی نے فریال تالپور، آصف زرداری اور اومنی گروپ کی ملک اور بیرون ملک تمام جائیدادیں منجمد کرنے کی سفارش کی تھی۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ جے آئی ٹی رپورٹ میں زرداری گروپ، اومنی گروپ کے اثاثوں اور قرضوں میں بے ضابطگیوں کا انکشاف کیا گیا ہے۔ دونوں گروپس نے حکومتی فنڈز میں بے ضابطگیاں کیں، کمیشن لیا اور غیر قانونی پیسہ ہنڈی کے ذریعے بیرون ملک منتقل کیا۔

    رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ زرداری اور اومنی گروپس کے مختلف کمپنیوں کے تحت رکھے گئے اثاثے احتساب عدالت کے فیصلے تک منجمد کیے جائیں، غالب گمان ہے کہ کہیں یہ اثاثے اس سے قبل ہی بیرون ملک منتقل نہ ہوجائیں۔

    18 جنوری کو وزارت داخلہ نے پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو اور وزیرِ اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کا نام ای سی ایل سے نکال دیا تھا۔

  • حمزہ شہباز اگلے 24 گھنٹے میں لندن روانہ ہو سکتے ہیں: ذرائع

    حمزہ شہباز اگلے 24 گھنٹے میں لندن روانہ ہو سکتے ہیں: ذرائع

    لاہور: مسلم لیگ ن کے رہنما حمزہ شہباز کو لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے 10 دن کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت ملنے کے بعد وہ اگلے 24 گھنٹے میں لندن روانہ ہو سکتے ہیں۔

    حمزہ شہباز کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ حمزہ شہباز والدہ کی تیمار داری سمیت چھوٹے بھائی کو ملنے لندن جا سکتے ہیں، وہ آج رات لندن کسی بھی وقت روانہ ہو سکتے ہیں۔

    [bs-quote quote=”شہباز شریف آج رات لندن کسی بھی وقت روانہ ہو سکتے ہیں۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″ author_name=”ذرائع”][/bs-quote]

    خیال رہے کہ حمزہ شہباز کی ای سی ایل سے نام نکالے جانے کی درخواست کی سماعت کرتے ہوئے گزشتہ روز لاہور ہائی کورٹ نے انھیں 10 دن کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی ہے۔

    حمزہ شہباز شریف کا مؤقف تھا کہ انھوں نے نیب کی تفتیش میں مکمل تعاون کیا، اس لیے ان کا نام ای سی ایل سے نکالا جائے۔

    ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے اعتراض کیا کہ لاہور ہائی کورٹ اس درخواست کی سماعت نہیں کر سکتی، ایف آئی اے کا ہیڈ کوارٹر اسلام آباد میں ہے، ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں وہیں سےنام شامل کیا گیا۔

    یہ بھی پڑھیں:  حمزہ شہباز شریف کو 10دن کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت مل گئی

    ہائی کورٹ نے سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ کیا وفاق اسلام آباد تک محدود ہے، عدالت کو غیر جانب دار رہنے دیں، ملک کو بنانا ری پبلک نہ بنائیں۔

    بعد ازاں عدالت نے حمزہ شہباز شریف کو 10 دن کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دیتے ہوئے کہا کہ وہ دس دن کے بعد واپس آ کر انکوائری کا سامنا کریں۔

  • اسحٰق ڈار کے خلاف اثاثہ جات ریفرنس کی سماعت 16 جنوری تک ملتوی

    اسحٰق ڈار کے خلاف اثاثہ جات ریفرنس کی سماعت 16 جنوری تک ملتوی

    اسلام آباد: سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے خلاف آمدنی سے زائد اثاثہ جات کے ضمنی ریفرنس کی سماعت کے دوران بینک نے ریکارڈ مکمل کرنے کے لیے مہلت کی استدعا کردی جسے منظور کرلیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت میں سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے خلاف آمدنی سے زائد اثاثہ جات کے ضمنی ریفرنس پر سماعت ہوئی۔ سماعت احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے کی۔

    سماعت میں استغاثہ کے گواہ نجی بینک کے افسر آفتاب احمد پیش نہیں ہوئے۔ احتساب عدالت نے آفتاب احمد کو ریکارڈ سمیت طلب کیا تھا۔

    بینک نمائندے نے استدعا کی کہ ریکارڈ مکمل نہیں ہے مہلت دی جائے، احتساب عدالت نے گواہ کی درخواست منظور کرلی۔ 3 گواہوں سہیل عزیز، عمران محمد اور محمد نسیم کو آئندہ سماعت پر طلب کرلیا گیا۔

    سماعت میں نیشنل بینک کے سابق صدر ملزم سعید احمد بھی عدالت میں پیش ہوئے۔ ملزم نعیم محمود اور منصور رضا کی جانب سے حاضری سے استثنیٰ کی درخواست پیش کی گئی جسے منظور کرلیا گیا۔

    احتساب عدالت میں کیس کی مزید سماعت 16 جنوری تک ملتوی کردی گئی۔

    خیال رہے کہ اس سے قبل اسحٰق ڈار کے اکاؤنٹس سے 36 کروڑ روپے پنجاب حکومت کو منتقل کیے جاچکے ہیں۔ اسحٰق ڈار کے مختلف کمپنیوں کے بینک اکاؤنٹس چند ماہ پہلے منجمد کیے گئے تھے۔

    اس سے قبل بھی عدالت کے حکم پر اسحٰق ڈار کی جائیداد قرقکی جاچکی ہے۔

    اسحٰق ڈار کیس کے تفتیشی افسر نادر عباس کے مطابق اسحٰق ڈار کی موضع ملوٹ اسلام آباد میں واقع 6 ایکڑ اراضی فروخت کی جاچکی ہے، اراضی کیس کی تفتیش شروع ہونے سے پہلے فروخت کی گئی۔

    اسحٰق ڈار کا گلبرگ 3 لاہور میں گھر بھی صوبائی حکومت کی تحویل میں دیا جاچکا ہے جبکہ اسحٰق ڈار کے اکاؤنٹس میں موجود رقم بھی صوبائی حکومت کی تحویل میں دے دی گئی تھی۔

    تفتیشی افسر کے مطابق اسحٰق ڈار کی گاڑیاں تحویل میں لینے کے لیے ان رہائش گاہ پر کارروائی کی گئی تاہم اسحٰق ڈار کی رہائش گاہ پر گاڑیاں موجود نہیں تھیں۔ گاڑیوں کی تلاش کی کوشش جاری ہے۔

  • سپریم کورٹ نے اسلام آباد میں اسپتالوں کی کمی سے متعلق کیس نمٹا دیا

    سپریم کورٹ نے اسلام آباد میں اسپتالوں کی کمی سے متعلق کیس نمٹا دیا

    اسلام آباد: سپریم کورٹ میں اسلام آباد میں اسپتالوں کی کمی سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے قومی ادارہ احتساب (نیب) کو زمین کی الاٹمنٹ میں مداخلت نہ کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے کیس نمٹا دیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں اسپتالوں کی کمی سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کے چیئرمین کیوں نہیں آئے، کیا ہر بار چیئرمین سی ڈی اے کو بلانا پڑے گا؟

    انہوں نے کہا کہ سیکریٹری صحت پیش ہو سکتے ہیں تو چیئرمین سی ڈی اے کیوں نہیں۔

    انہوں نے حکم دیا کہ نیب کسی قسم کی مداخلت نہیں کرے گا، نیب افسران کی مداخلت عدالتی کارروائی میں رکاوٹ سمجھی جائے گی۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ اسپتال کے لیے زمین کی الاٹمنٹ مکمل کی جائے، چیئرمین سی ڈی اے اور ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی جائے گی، نیب اتھارٹی زمین کی الاٹمنٹ میں مداخلت نہ کرے، نیب کو کارروائی کرنی ہو تو عدالت کی اجازت لی جائے۔

    اس سے قبل سماعت میں سی ڈی اے کے وکیل نے بتایا تھا کہ قومی ادارہ احتساب (نیب) نے اسپتال کے لیے زمین فراہم کرنے سے روک دیا تھا جس پر چیف جسٹس نے چیئرمین نیب کو طلب کیا تھا۔

    انہوں نے کہا تھا کہ نیکی کا کام بھی شروع ہوتا ہے تو نیب ٹانگ اڑا دیتا ہے۔ بعد ازاں چیف جسٹس نے سی ڈی اے کو اسپتال کے لیے ایک دن میں زمین الاٹ کرنے کا حکم دیا تھا۔

  • میگا منی لانڈرنگ کیس: آصف زرداری اور فریال تالپور کی ضمانت میں ایک بار پھر توسیع

    میگا منی لانڈرنگ کیس: آصف زرداری اور فریال تالپور کی ضمانت میں ایک بار پھر توسیع

    کراچی: جعلی بینک اکاؤنٹس کے ذریعے میگا منی لانڈرنگ کیس میں بینکنگ کورٹ نے سابق صدر آصف علی زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور کی ضمانت میں ایک بار پھر 23 جنوری تک توسیع کردی۔

    تفصیلات کے مطابق جعلی بینک اکاؤنٹس کے ذریعے میگا منی لانڈرنگ کیس میں پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور آج بینکنگ کورٹ میں پیش ہوئے۔ پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کے علاوہ عدالت میں نمر مجید، شہزاد علی، اقبال خان نوری اور ذوالقرنین مجید بھی پیش ہوئے۔

    انور مجید کی میڈیکل رپورٹ بینکنگ کورٹ میں جمع کروا دی گئی۔ رپورٹ کے مطابق انور مجید کو بیماری کے باعث پیش نہیں کیا جاسکتا۔

    ملزمان کے وکیل نے عدالت میں کہا کہ وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کو حتمی چالان جمع کروانے کا حکم دیا جائے جس پر بینکنگ کورٹ کے جج نے کہا کہ ہمیں تو سپریم کورٹ نے کارروائی سے روکا ہوا ہے، سپریم کورٹ کی اجازت کے بغیر ہم مزید کارروائی نہیں کرسکتے۔

    عدالت نے آصف علی زرداری اور فریال تالپور کی ضمانت میں 23 جنوری تک توسیع کردی۔

    یاد رہے کہ جعلی بینک اکاؤنٹس کے ذریعے منی لانڈرنگ کرنے کے کیس میں سابق صدر آصف زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور بھی نامزد ہیں۔ جعلی بینک اکاؤنٹس کے ذریعے 35 ارب روپے کی منی لانڈرنگ پر سپریم کورٹ نے بھی از خود نوٹس لے رکھا ہے۔

    نجی بینک کے سربراہ حسین لوائی اور طحہٰ رضا جوڈیشل ریمانڈ پر جیل میں ہیں جبکہ فریال تالپور سمیت کیس کے 4 ملزمان نے گرفتاری سے بچنے کے لیے عبوری ضمانت لے رکھی ہے۔ وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے کیس میں آصف زرداری سمیت 20 ملزمان کو مفرور قرار دیا ہے۔

    24 دسمبر کو سپریم کورٹ میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی رپورٹ پیش کی گئی تھی جس میں ہوشربا انکشافات سامنے آئے تھے۔

    رپورٹ کے مطابق زرداری گروپ نے 53.4 بلین کے قرضے حاصل کیے، زرداری گروپ نے 24 بلین قرضہ سندھ بینک سے لیا۔ اومنی نے گروپ کو 5 حصوں میں تقسیم کر کے قرضے لیے۔

    رپورٹ میں کہا گیا کہ فریال تالپور کے اکاؤنٹ میں 1.22 ارب روپے کی رقم جمع ہوئی۔ رقم سے بلاول ہاؤس کراچی، لاہور، ٹنڈو آدم کے لیے زمین خریدی گئی۔ سندھ بینک نے اومنی گروپ کو 24 ارب قرض دیے۔

    رپورٹ کے مطابق 1997 میں اومنی گروپ تشکیل دیا گیا جس نے مزید 6 کمپنیاں بنائیں، اب اومنی گروپ کی 83 کمپنیاں ہیں۔ کے ڈی اے نے اومنی کے نام مندر، لائبریری اور عجائب گھر کے پلاٹ منتقل کیے۔ پلاٹس پہلے رہائشی پھر کمرشل کر کے فروخت کردیے گئے۔

    چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے اومنی گروپ کی جائیدادوں کو تا حکم ثانی منجمد کرنے کا حکم دیا تھا۔

    28 دسمبر کو وفاقی حکومت نے جے آئی ٹی رپورٹ کی بنیاد پر آصف زرداری، فریال تالپور، پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ سمیت 172 افراد کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈال دیے تھے۔

    تاہم بعد ازاں چیف جسٹس نے ای سی ایل میں نام ڈالنے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے استفسار کیا تھا کہ وفاقی حکومت نے ان سب کے نام ای سی ایل میں کیوں ڈالے، آپ کے پاس کیا جواز ہے؟

    چیف جسٹس نے کہا تھا کہ یہ اقدام شخصی آزادیوں کے منافی ہے۔ انہوں نے اس حوالے سے وزیر داخلہ شہریار خان آفریدی سے جواب طلب کیا تھا۔

    انہوں نے حکم دیا تھا کہ نام ای سی ایل میں ڈالنے پر نظر ثانی کریں اور معاملہ کابینہ میں لے جائیں۔

    2 جنوری کو وزیر اعظم کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ تمام ناموں کا جائزہ لیا جائے گا اور اس کے بعد انہیں ای سی ایل سے نکالنے یا نہ نکالنے کا فیصلہ کیا جائے گا۔

    دوسری جانب 5 جنوری کو منی لانڈرنگ کیس کی جے آئی ٹی نے فریال تالپور، آصف زرداری اور اومنی گروپ کی ملک اور بیرون ملک تمام جائیدادیں منجمد کرنے کی سفارش کی تھی۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ جے آئی ٹی رپورٹ میں زرداری گروپ، اومنی گروپ کے اثاثوں اور قرضوں میں بے ضابطگیوں کا انکشاف کیا گیا ہے۔ دونوں گروپس نے حکومتی فنڈز میں بے ضابطگیاں کیں، کمیشن لیا اور غیر قانونی پیسہ ہنڈی کے ذریعے بیرون ملک منتقل کیا۔

    رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ زرداری اور اومنی گروپس کے مختلف کمپنیوں کے تحت رکھے گئے اثاثے احتساب عدالت کے فیصلے تک منجمد کیے جائیں، غالب گمان ہے کہ کہیں یہ اثاثے اس سے قبل ہی بیرون ملک منتقل نہ ہوجائیں۔

  • پیراگون ہاؤسنگ اسکینڈل: خواجہ برادران مزید 14 روزہ ریمانڈ پر نیب کے حوالے

    پیراگون ہاؤسنگ اسکینڈل: خواجہ برادران مزید 14 روزہ ریمانڈ پر نیب کے حوالے

    لاہور: احتساب عدالت نے سابق وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق اور ان کے بھائی خواجہ سلمان رفیق کو مزید 14 روزہ ریمانڈ پر قومی ادارہ احتساب (نیب) کے حوالے کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق سابق وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق اور ان کے بھائی خواجہ سلمان رفیق کو قومی ادارہ احتساب (نیب) کی جانب سے احتساب عدالت میں پیش کیا گیا۔ دونوں بھائیوں کو ان کے ریمانڈ میں 15 روزہ توسیع کے بعد پیش کیا گیا۔

    سماعت کے دوران نیب کے تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ 3 ارب روپے ندیم ضیا اور سلمان رفیق کے اکاؤنٹس میں گئے، مزید تفتیش کے لیے دونوں کے بیٹوں کو نوٹس جاری کر دیے۔ دونوں کے بیٹوں سے مزید تفتیش کرنی ہے۔

    تفتیشی افسر نے کہا کہ پیراگون کے 5 اکاؤنٹس ہیں، ندیم ضیا کی فیملی کے 12 اکاؤنٹس ہیں۔ پیراگون سٹی میں جتنی بھی ٹرانزیکشن ہوئی سب کونوٹس جاری کر دیے۔

    نیب نے خواجہ سعد رفیق کے مزید جسمانی ریمانڈ کی استدعا کردی۔ نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ خواجہ سعد رفیق یکم سے 4 جنوری تک اسلام آباد میں تھے۔ پیرا گون کا کچھ ریکارڈ برآمد کیا گیا ہے۔ غفران خواجہ سلمان کے بیٹے اور کبیر ندیم ضیا کے بیٹے ہیں۔

    نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ دونوں کے اکاؤنٹس میں 2 ارب روپے گئے ہیں، دونوں بیٹوں کے اکاؤنٹس میں اتنے پیسے کیوں گئے تحقیقات جاری ہیں۔ 260 مختلف لوگوں کو ٹرانزیکشن گئی ہیں۔ صرف 4.06 ملین روپے کا بتایا گیا باقی کا نہیں بتایا گیا۔

    انہوں نے بتایا کہ ہم نے متعلقہ پٹواریوں کو ساتھ لے جا کر سوسائٹی کی پیمائش کی، سوسائٹی کے کھالے کو ختم کر کے بھی پلاٹس بنا دیے گئے ہیں۔

    عدالت نے دونوں بھائیوں کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا منظور کرتے ہوئے انہیں مزید 14 روزہ ریمانڈ پر نیب کے حوالے کردیا۔ احتساب عدالت نے خواجہ برادران کو 19 جنوری کو پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔

    خیال رہے کہ 11 دسمبر کو احتساب عدالت نے خواجہ سعد رفیق اور ان کے بھائی سلمان رفیق کی عبوری ضمانت کی درخواست خارج کردی تھی جس کے بعد نیب نے دونوں بھائیوں کو حراست میں لے لیا تھا۔

    خواجہ برادران کو پیراگون ہاؤسنگ اسکینڈل میں گرفتار کیا گیا ہے جبکہ دونوں بھائی پیراگون ہاؤسنگ اسکینڈل سمیت 3 مقدمات میں نیب کو مطلوب تھے۔

    اس سے قبل آشیانہ ہاؤسنگ سوسائٹی کی تحقیقات میں انکشاف ہوا تھا کہ وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کے پیراگون سوسائٹی سے براہ راست روابط ہیں، پنجاب لینڈ ڈویلپمنٹ کمپنی کے ذریعے آشیانہ اسکیم لانچ کی گئی تھی۔

    نیب کے مطابق وفاقی وزیر ہوتے ہوئے خواجہ سعد رفیق نے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کیا تھا اور شواہد کو ٹمپر کرنے کی کوشش بھی کی، دونوں بھائیوں نے اپنے ساتھیوں سے مل کر عوام کو دھوکہ دیا اور رقم بٹوری۔

    نیب کا کہنا ہے کہ خواجہ برادران پیراگون ہاؤسنگ سوسائٹی سے فوائد حاصل کرتے رہے، خواجہ برادران کے نام پیراگون میں 40 کنال اراضی موجود ہے۔

    دوسری جانب سابق رکن پنجاب اسمبلی اور پیراگون ہاؤسنگ اسکیم میں خواجہ برادران کے شراکت دار قیصر امین بٹ نے اپنی حراست کے دوران نیب کو بتایا کہ پیراگون سوسائٹی کے کمرشل پلاٹوں کو فروخت کر کے 14 ارب روپے کمائے گئے، سال 2003 میں پیراگون کو ٹی ایم اے سے سعد رفیق نے دباؤ ڈال کر رجسٹرڈ کرالیا۔

    قیصر امین بٹ کے مطابق پیراگون کے کاغذات میں وہ خود اور ندیم ضیا مالک ہیں مگر خواجہ برادران ہی پیراگون سوسائٹی کے اصل مالکان ہیں۔

    احتساب عدالت میں گزشتہ سماعت پر خواجہ برادران کے وکیل نے کہا تھا کہ نیب کے الزامات بالکل بے بنیاد ہیں، خواجہ برادران پیراگون کے ڈائریکٹر یا شیئر ہولڈر نہیں ہیں۔

    وکیل خواجہ برداران نے کہا تھا کہ نیب نے جو باتیں عدالت کو بتائیں، درخواست میں ان کا ذکر نہیں، کے ایس آر اور سعدین ایسوسی ایٹس ٹیکس ریٹرن میں ڈکلیئر ہیں۔ انہوں نے کہا تھا خواجہ برداران کے بتائے ہوئے حقائق کو مسخ کر کے پیش کیا جا رہا ہے۔

  • نواز شریف کے خلاف کرپشن ریفرنسز: نیب اپیلوں کی سماعت اگلے ہفتے ہوگی

    نواز شریف کے خلاف کرپشن ریفرنسز: نیب اپیلوں کی سماعت اگلے ہفتے ہوگی

    اسلام آباد: کرپشن ریفرنسز میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کی بریت کے خلاف قومی احتساب بیورو (نیب) کی اپیلوں پر اعتراضات دور کرلیے گئے جس کے بعد اپیلوں کو اگلے ہفتے سماعت کے لیے مقرر کرلیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ نے نواز شریف کی بریت کے خلاف نیب کی اپیلوں کو سماعت کے لیے منظور کرلیا۔

    نیب نے فلیگ شپ ریفرنس میں نواز شریف کی بریت کے خلاف اور العزیزیہ ریفرنس میں ان کی سزا بڑھانے کی درخواست دائر کی تھی تاہم رجسٹرار آفس نے دونوں اپیلوں پر اعتراض عائد کردیا تھا۔

    آج نیب حکام نے اسلام آباد ہائیکورٹ پہنچ کر درخواستوں پر رجسٹرار آفس کے اعتراضات دور کردیے جس کے بعد نیب کی اپیلیں آئندہ ہفتے سماعت کے لیے مقرر کرلی گئیں۔

    یاد رہے کہ گزشتہ برس 24 دسمبر کو سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ ریفرنسز کا فیصلہ سنایا گیا تھا۔

    فیصلے میں نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں مجرم قرار دیتے ہوئے گرفتار کیا گیا جبکہ فلیگ شپ ریفرنس میں انہیں بری کردیا گیا تھا، بعد ازاں ان کی درخواست پر انہیں راولپنڈی کی اڈیالہ جیل کے بجائے لاہور کی کوٹ لکھپت جیل منتقل کیا گیا تھا۔

    فیصلے کے بعد نیب نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں ایک ریفرنس میں نواز شریف کی بریت کے خلاف اپیل دائر کی جبکہ دوسری اپیل میں ان کی العزیزیہ ریفرنس میں سزا بڑھانے کی استدعا کی گئی۔

  • اسلام آباد میں اسپتالوں کی کمی سے متعلق کیس: چیف جسٹس نے چیئرمین نیب کو طلب کرلیا

    اسلام آباد میں اسپتالوں کی کمی سے متعلق کیس: چیف جسٹس نے چیئرمین نیب کو طلب کرلیا

    اسلام آباد: سپریم کورٹ میں اسلام آباد میں اسپتالوں کی کمی سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قومی ادارہ احتساب (نیب) پر برہم ہوگئے اور چیئرمین نیب کو طلب کرتے ہوئے حکم دیا کہ کل تک اسپتال کے لیے زمین الاٹ کی جائے ورنہ توہین عدالت کی کارروائی ہوگی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں اسلام آباد میں اسپتالوں کی کمی سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ (کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی) سی ڈی اے نے اسپتال کے لیے زمین فراہم کرنا تھی، اس کا کیا ہوا؟

    سی ڈی اے کے وکیل نے کہا کہ قومی ادارہ احتساب (نیب) نے زمین فراہم کرنے سے روک دیا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ بلائیں نیب کے چیئرمین کو۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ ایک درخواست پر نیب لوگوں کی پگڑیاں اچھالنا شروع کر دیتا ہے، ہم نے خود چیئرمین نیب کو پیش نہ ہونے کی رعایت دی تھی۔ ہم چیئرمین نیب سے یہ رعایت واپس لے لیتے ہیں۔ نیب نے سارے پاکستان کو بدنام کرنا شروع کردیا۔

    انہوں نے کہا کہ نیکی کا کام بھی شروع ہوتا ہے تو نیب ٹانگ اڑا دیتا ہے، نیب حکام عدالت میں جواب دیں۔ حکام ناکام رہے تو چیئرمین نیب کو ذاتی حیثیت میں بلائیں گے۔

    عدالت نے چیئرمین نیب، پراسیکیوٹر جنرل نیب اور چیئرمین سی ڈی اے کو چیمبر میں طلب کرلیا۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ لاہور میں نیب کی ایک بی بی بیٹھی ہیں جو لوگوں کو بلیک میل کرتی ہیں۔ چیئرمین نیب کو بتا دیں ممکن ہے ان کو حاصل حاضری سے استثنیٰ واپس لے لیں، نیب نے عدالتی احکامات کی ہی تذلیل شروع کر دی۔

    انہوں نے پوچھا کہ بحرین حکومت نے اسپتال کی تعمیر کے لیے 10 ارب کا تحفہ دیا تھا، اس اسپتال کی تعمیر سے متعلق کیا ہوا؟ وفاقی سیکریٹری برائے صحت نے بتایا کہ اسپتال کی تعمیر سے متعلق کوئی پیشرفت نہیں ہوئی۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سی ڈی اے سے جو کہا تھا 15 دن میں زمین کا فیصلہ کرے۔ سی ڈی اے کے وکیل نے کہا کہ زمین حاصل کرنے کے معاملے کی نیب نے انکوائری شروع کردی۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ سی ڈی اے کے لیے عدالتی حکم اہم ہے یا نیب کا، کل تک زمین الاٹ کریں ورنہ چیئرمین نیب کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ہوگی۔

  • ریلوے خسارہ کیس: ریلوے کو وفاقی و صوبائی زمین کی فروخت سے روک دیا گیا

    ریلوے خسارہ کیس: ریلوے کو وفاقی و صوبائی زمین کی فروخت سے روک دیا گیا

    اسلام آباد: سپریم کورٹ میں ریلوے خسارہ کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریلوے کو وفاقی و صوبائی زمین کی فروخت اور 5 سال سے زائد لیز پر دینے سے روک دیا، ریلوے کو کوئی ہاؤسنگ سوسائٹی بنانے سے بھی روک دیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں ریلوے خسارہ کیس کی سماعت ہوئی، سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے کی۔ سماعت میں وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید عدالت میں پیش ہوئے۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ ریلوے کی زمین وفاق کی ملکیت ہے، صوبے ریلوے کی اراضی استعمال کر سکتے ہیں مگر بیچ نہیں سکتے۔ سپریم کورٹ نے ریلوے اراضی کی فروخت پر پابندی لگا رکھی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ محکمہ ریلوے لیز پر زمین دے سکتا ہے مگر بیچ نہیں سکتا لیکن ایسا بھی نہ ہو کہ 99 سال کی لیز دے دی جائے۔

    وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید نے کہا کہ ہم ایک مرلہ زمین بھی نہیں بیچ رہے، 3 سے 5 سال کی لیز پر کچھ اراضی دے رکھی ہے۔ ریلوے اراضی سے سالانہ 3 ارب روپے کی آمدن ہو رہی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ اگر لیز ختم کرتے ہیں تو ریلوے کا مالی نقصان ہوگا۔

    سپریم کورٹ نے ریلوے کو وفاقی و صوبائی زمین کی فروخت سے روک دیا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جو زمین ریلوے کے استعمال میں ہے اسے فروخت نہیں کیا جا سکتا، وفاق اور صوبوں کی ملکیتی زمین ریلوے 5 سال سے زائد لیز پر نہیں دے گا۔

    عدالت نے کہا کہ ایسی اراضی جو ریلوے آپریشن کے لیے درکار نہیں وہ 5 سال لیز پر دی جا سکتی ہے، ریلوے کو کوئی ہاؤسنگ سوسائٹی بنانے کی اجازت نہیں ہوگی۔ ریلوے اپنی اراضی پر قبضہ نہیں ہونے دے گی۔

    عدالت کا کہنا تھا کہ رائل پام کلب کے معاملے پر عبوری حکم جاری رہے گا، رائل پام کا قبضہ فرگوسن نے لے لیا ہے۔ رائل پام کا مسئلہ الگ سنیں گے۔

    عدالت نے وفاق و صوبوں کی ریلوے اراضی سے متعلق معاملہ نمٹا دیا۔

    سماعت کے بعد عدالت سے باہر گفتگو کرتے ہوئے شیخ رشید نے کہا کہ شدید اختلاف ہے، چور وزیروں کو بلایا جائے، جب بھی کوئی چور لٹیرا جیل جاتا ہے تو وہ بیمار ہو جاتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ قوم کی دولت کو لوٹنے والے حکومت کا خرچہ کروا رہے ہیں، موجودہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو غیر آئینی سمجھتا ہوں۔ چور ہی چوروں کا احتساب کرنے جا رہے ہیں۔

    شیخ رشید کا کہنا تھا کہ میں نے 20 ٹرینیں مرمت کر کے چلائی ہیں، میں سینئر ترین پاکستان کا سیاسی ورکر ہوں۔ پی اے سی کا چیئرمین بنانے کا حق اسپیکر کو نہیں۔ ’چور ڈاکو کیسے لوگوں کا احتساب کرے گا‘؟

  • 18 ویں ترمیم کیس: چیف جسٹس کا ترمیم کے لیے ہونے والی بحث پر اظہارِ حیرت

    18 ویں ترمیم کیس: چیف جسٹس کا ترمیم کے لیے ہونے والی بحث پر اظہارِ حیرت

    اسلام آباد: سپریم کورٹ میں 18 ویں آئینی ترمیم کے بعد صوبوں کو اختیارات کی منتقلی پرسماعت ہوئی، چیف جسٹس نے ترمیم کے لیے ہونے والی بحث پر حیرت کا اظہار کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں کو اختیارات کی منتقلی کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ یہ معاملہ دیکھتے ہوئے بڑی مشکل ہوئی۔

    [bs-quote quote=”نائیک صاحب آپ تو اس سارے عمل کا حصہ رہے ہیں، ترمیم کی بحث کہاں ہوئی۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″ author_job=”چیف جسٹس کا فاروق ایچ نائیک سے استفسار”][/bs-quote]

    چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ کہیں پتا نہیں چلا کہ اٹھارویں ترمیم کے لیے بحث کہاں ہوئی۔

    چیف جسٹس نے ممتاز قانون دان اور پی پی رہنما فاروق ایچ نائیک کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ نائیک صاحب آپ تو اس سارے عمل کا حصہ رہے ہیں، ترمیم کی بحث کہاں ہوئی۔

    میاں ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ سوئٹزرلینڈ میں ترمیم سے قبل ایک سال اشتہار دیا جاتا ہے، مکمل بحث کے بعد ترمیم کی جاتی ہے۔

    وکیل سندھ حکومت نے عدالت کو بتایا کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد محکموں کی فہرست بنائی گئی تھی، یہ فہرست کابینہ کی منظوری کے لیے پیش کر دی گئی تھی۔


    18 ویں ترمیم کی وجہ سے تعلیم اور صحت کا معیار گرا ہے: وفاقی وزیرِ اطلاعات


    عدالت نے ترمیمی عمل پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ کیوں فرض کرلیا گیا کہ شعبۂ صحت صوبوں کو منتقل کر دیا گیا تو ادارے بھی منتقل ہو گئے۔

    اس موقع پر فاروق ایچ نائیک نے عدالت کو بتایا کہ اٹھارویں ترمیم کے ذریعے وزارت ختم ہو گئی تھی۔

    [bs-quote quote=”سوئٹزرلینڈ میں ترمیم سے قبل ایک سال اشتہار دیا جاتا ہے، مکمل بحث کے بعد ترمیم کی جاتی ہے۔” style=”style-7″ align=”right” color=”#dd3333″ author_name=”چیف جسٹس”][/bs-quote]

    خیال رہے کہ آئین میں اٹھارویں ترمیم 8 اپریل 2010 کو قومی اسمبلی پاکستان نے پاس کی تھی، اس وقت صدرِ مملکت کے عہدے پر آصف علی زرداری متمکن تھے۔ اس ترمیم کے بعد صدر کے پاس موجود تمام ایگزیکٹو اختیارات پارلیمنٹ کو منتقل ہو گئے تھے، اور وفاق سے زیادہ تر اختیارات لے کر صوبوں کو دیے گئے۔

    تحریکِ انصاف کی حکومت اٹھارویں ترمیم پر جزوی تنقید کر رہی ہے، ایک ماہ قبل وفاقی وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری نے کہا تھا کہ 18 ویں ترمیم کی وجہ سے تعلیم اور صحت کا معیار گرا ہے، اس میں بہت سی چیزیں ایسی ہیں جنھیں بہتر بنایا جا رہا ہے۔