Tag: عدالت کی خبریں

  • نواز شریف کے خلاف کرپشن ریفرنسز پر فیصلہ محفوظ کرلیا گیا

    نواز شریف کے خلاف کرپشن ریفرنسز پر فیصلہ محفوظ کرلیا گیا

    اسلام آباد: احتساب عدالت میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف کرپشن ریفرنسز کی سماعت مکمل کرلی گئی، دونوں ریفرنسز میں فریقین کے حتمی دلائل مکمل ہوچکے ہیں جس کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز کی سماعت مکمل کرلی گئی۔ سماعت احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے کی۔

    [bs-quote quote=”فیصلہ 24 دسمبر کو سنایا جائے گا” style=”style-6″ align=”left”][/bs-quote]

    دونوں ریفرنسز میں فریقین کے دلائل مکمل ہوچکے ہیں، آج کی سماعت میں جواب الجواب دلائل پیش کیے گئے جس کے بعد ریفرنسز کا فیصلہ محفوظ کرلیا گیا۔ فیصلہ 24 دسمبر کو سنایا جائے گا۔

    سماعت میں نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے جواب الجواب دلائل دیتے ہوئے کہا کہ یو کے لینڈ رجسٹری سے دستاویزات مل گئیں، تصدیق بھی کروا لی گئی ہے۔

    لینڈ رجسٹری سے موصول شدہ اضافی دستاویزات عدالت میں جمع کروا دی گئیں۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ نواز شریف نے تسلیم نہیں کیا کہ کیپٹل ایف زیڈ ای سے تنخواہ لی، کیپٹل ایف زیڈ ای میں نواز شریف کا عہدہ اعزازی تھا۔ سپریم کورٹ نے قابل وصول تنخواہ کو اثاثہ قرار دیا۔

    انہوں نے کہا کہ کیپٹل ایف زیڈ ای میں ملازمت صرف ویزا مقاصد کے لیے تھی۔ جج نے دریافت کیا کہ تنخواہ سے متعلق آپ کا مؤقف درست مان لوں تو کیس سے کیا تعلق بنتا ہے جس پر وکیل نے کہا کہ تعلق یہ بنتا ہے نواز شریف کی صرف ملازمت ثابت ہو رہی ہے ملکیت نہیں۔

    خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ 3 ججز نے جے آئی ٹی بنوائی تھی اور فیصلہ جے آئی ٹی رپورٹ دیکھ کر ہی دیا۔ 28 جولائی کو ان 3 ججز کے فیصلے پر 5 ججوں نے دستخط کیے۔ 28 جولائی کے 5 رکنی بینچ کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی درخواست دی تھی۔

    نیب پراسیکیوٹر سردار مظفر نے جواب الجواب دلائل دیتے ہوئے کہا کہ نواز شریف نے آج کچھ دستاویزات پیش کیں، اس کا مطلب ہے تمام دستاویزات ان کی دسترس میں تھیں، نواز شریف نے جان بوجھ کر وہ دستاویزات پیش نہیں کیں۔

    انہوں نے کہا کہ خواجہ حارث نے کہا ریفرنس دائر ہونے سے پہلے تفتیش ہوچکی تھی، جے آئی ٹی کسی کرائم کی تفتیش کے لیے نہیں بنی تھی۔ نواز شریف کی نااہلی کے لیے درخواستوں پر کچھ سوالات اٹھائے گئے۔ جے آئی ٹی صرف ان سوالوں کاجواب تلاش کرنے کے لیے بنائی گئی تھی۔

    خواجہ حارث کی ایک ہفتے کی مہلت کی استدعا

    سماعت میں نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے مزید دستاویزات جمع کروانے کے لیے ایک ہفتے کی مہلت کی استدعا کی۔

    انہوں نے کہا کہ ایک دستاویز ابھی تک موصول نہیں ہوئی۔ کچھ وقت دیا جائے تو وہ دستاویز موصول ہونے پر پیش کردوں گا۔

    نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ سپریم کورٹ کی دی گئی مدت سب کے سامنے ہے، اب مزید وقت نہیں دیا جا سکتا۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ دستاویز برطانیہ میں لینڈ رجسٹری ڈپارٹمنٹ کو بھی نہیں ملی، کب تک مل سکتی ہے کچھ وقت بتا نہیں سکتا۔ ایک ہفتے کا وقت اگر دیا جائے تو شاید وہ دستاویز آجائے۔

    نیب پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ اس وقت ملزم کی یہ درخواست معاملے کو التوا میں ڈالے گی، حتمی دلائل پہلے ہی مکمل ہو چکے ہیں۔

    احتساب عدالت نے خواجہ حارث کی ایک ہفتے کی مہلت دینے کی استدعا مسترد کردی۔

    گزشتہ سماعت میں ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب سردار مظفر عباسی نے کہا کہ فلیگ شپ سے نواز شریف کو 7 لاکھ 80 ہزار درہم کے فوائد پہنچے، یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے۔

    نیب پراسیکیوٹر ملک اصغر نے حتمی دلائل دیتے ہوئے کہا تھا کہ کیس میں دستاویزات ملزمان کے پاس تھیں اور وہی دے سکتے ہیں، جائیداد کی ملکیت سے متعلق ملزمان کی پرائیویٹ دستاویزات ہیں۔ ملزمان نے سپریم کورٹ میں ایک منی ٹریل دینے کی کوشش کی۔ منی ٹریل کے دوران قطری شہزادے کا خط بھی منظر عام پر آگیا۔

    ملک اصغر نے کہا تھا کہ ملزمان کی تمام دستاویزات اور مؤقف جائیداد کو درست ثابت نہیں کرتے، سپریم کورٹ میں ملزمان اپنی جائیداد کے ذرائع بتانے میں ناکام رہے۔ سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی کے ذریعے ملزمان کو ایک اور موقع دیا تھا۔ یہی سوالات مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کو دیے گئے تھے کہ جوابات تلاش کردیں۔

    انہوں نے کہا کہ تھا جے آئی ٹی کے سامنے بھی ملزمان ذرائع بتانے میں ناکام رہے، سپریم کورٹ نے فیئر ٹرائل کے تقاضے پورے کیے اور کیس نیب کو بھیجا، اس طرح سپریم کورٹ کی جانب سے ملزمان کو تیسرا موقع دیا گیا۔ نیب نے ملزمان کو بلایا لیکن یہ لوگ پیش ہی نہیں ہوئے۔

    نیب پراسیکیوٹر نے کہا تھا کہ کسی دستاویز سے میاں شریف کا گلف اسٹیل سے تعلق ثابت نہیں ہوتا، شاید قومیانے کے خوف سے 2001 میں بے نامی جائیداد بنائی گئی۔ نواز شریف کی تقاریر سے بے نامی کا مقصد ظاہر ہوتا ہے۔

    کیس کا پس منظر

    سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے خاندان کی مشکل اس وقت شروع ہوئی جب 4 اپریل 2016 کو پانامہ لیکس میں دنیا کے 12 سربراہان مملکت کے ساتھ ساتھ 143 سیاست دانوں اور نامور شخصیات کے نام سامنے آئے جنہوں نے ٹیکسوں سے بچنے کے لیے کالے دھن کو بیرون ملک قائم بے نام کمپنیوں میں منتقل کیا۔

    پانامہ لیکس میں پاکستانی سیاست دانوں کی بھی بیرون ملک آف شور کمپنیوں اور فلیٹس کا انکشاف ہوا تھا جن میں اس وقت کے وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف کا خاندان بھی شامل تھا۔

    کچھ دن بعد وزیر اعظم نے قوم سے خطاب اور قومی اسمبلی میں اپنی جائیدادوں کی وضاحت پیش کی تاہم معاملہ ختم نہ ہوا۔ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ (موجودہ وزیر اعظم) عمران خان، جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کی جانب سے وزیر اعظم کو نااہل قرار دینے کے لیے علیحدہ علیحدہ تین درخواستیں سپریم کورٹ میں دائر کی گئیں۔

    درخواستوں پر سماعتیں ہوتی رہیں اور 28 جولائی 2017 کو سپریم کورٹ نے فیصلہ دیتے ہوئے وزیر اعظم نواز شریف کو نااہل قرار دیا۔ اس کے ساتھ ہی قومی ادارہ احتساب (نیب) کو حکم دیا گیا کہ وہ وزیر اعظم اور ان کے خاندان کے خلاف ریفرنس دائر کرے۔

    بعد ازاں نیب میں شریف خاندان کے خلاف 3 ریفرنسز دائر کیے گئے جن میں سے ایک ایون فیلڈ ریفرنس پایہ تکمیل تک پہنچ چکا ہے۔ ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف کو 10 سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی گئی جبکہ مریم نواز کو 7 سال قید مع جرمانہ اور کیپٹن صفدر کو ایک سال قید کی سزا سنائی گئی۔

  • نواز شریف کے خلاف نیب ریفرنسز میں فیصلے کی گھڑی قریب

    نواز شریف کے خلاف نیب ریفرنسز میں فیصلے کی گھڑی قریب

    اسلام آباد: احتساب عدالت میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف ریفرنسز کی سماعت جاری ہے جس میں قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے حتمی دلائل دیے جارہے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز کی سماعت جاری ہے۔ سماعت احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کر رہے ہیں۔

    نواز شریف کے خلاف نیب ریفرنسز کا ٹرائل اختتامی مراحل میں داخل ہوچکا ہے۔ العزیزیہ میں فریقین جبکہ فلیگ شپ ریفرنس میں وکیل صفائی کے حتمی دلائل مکمل ہوگئے ہیں۔

    سماعت کے دوران ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب سردار مظفر عباسی نے کہا کہ فلیگ شپ سے نواز شریف کو 7 لاکھ 80 ہزار درہم کے فوائد پہنچے، یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے۔

    نیب پراسیکیوٹر ملک اصغر نے حتمی دلائل دیتے ہوئے کہا کہ کیس میں دستاویزات ملزمان کے پاس تھیں اور وہی دے سکتے ہیں، جائیداد کی ملکیت سے متعلق ملزمان کی پرائیویٹ دستاویزات ہیں۔ ملزمان نے سپریم کورٹ میں ایک منی ٹریل دینے کی کوشش کی۔ منی ٹریل کے دوران قطری شہزادے کا خط بھی منظر عام پر آگیا۔

    ملک اصغر نے کہا کہ ملزمان کی تمام دستاویزات اور مؤقف جائیداد کو درست ثابت نہیں کرتے، سپریم کورٹ میں ملزمان اپنی جائیداد کے ذرائع بتانے میں ناکام رہے۔ سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی کے ذریعے ملزمان کو ایک اور موقع دیا تھا۔ یہی سوالات مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کو دیے گئے تھے کہ جوابات تلاش کردیں۔

    انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی کے سامنے بھی ملزمان ذرائع بتانے میں ناکام رہے، سپریم کورٹ نے فیئر ٹرائل کے تقاضے پورے کیے اور کیس نیب کو بھیجا، اس طرح سپریم کورٹ کی جانب سے ملزمان کو تیسرا موقع دیا گیا۔ نیب نے ملزمان کو بلایا لیکن یہ لوگ پیش ہی نہیں ہوئے۔

    نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ کسی دستاویز سے میاں شریف کا گلف اسٹیل سے تعلق ثابت نہیں ہوتا، شاید قومیانے کے خوف سے 2001 میں بے نامی جائیداد بنائی گئی۔ نواز شریف کی تقاریر سے بے نامی کا مقصد ظاہر ہوتا ہے۔

    گزشتہ سماعت میں فلیگ شپ ریفرنس میں جبل علی فری زون اتھارٹی سے متعلق نیب کی دستاویزات پر جواب دیتے ہوئے نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے کہا تھا کہ جافزا دستاویزات قانونی شہادت کے مطابق تصدیق شدہ نہیں، دیکھنا ہوگا کیا ان دستاویزات کو شواہد کے طور پر لیا جا سکتا ہے۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ بیرون ملک سے آنے والی دستاویزات یا تو اصل یا پھرتصدیق شدہ ہوگی، جس ملک سے دستاویزات آئے گی اس ملک کی تصدیق بھی لازم ہے۔ دستاویز کی پھر پاکستانی اتھارٹی بھی تصدیق کرے گی۔ ’پاکستانی قونصل خانہ یا ڈپلومیٹک ایجنٹس اس بات کی تصدیق کرے گا، یہ طریقہ کار اختیار نہیں کیا گیا تو پھر وہ دستاویز ثابت نہیں ہوگی‘۔

    انہوں نے کہا کہ کیپٹل ایف زیڈ ای کی ملازمت سے متعلق دستاویز صرف ایک خط ہے، ہم کہتے ہیں یہ جعلی اور من گھڑت دستاویزات ہیں۔ ملزم نے شواہد سے متعلق شقوق پر ہی بات کرنا ہوتی ہے۔

    خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ نواز شریف نے ایک مخصوص مدت کے لیے ویزہ لیا یہ تسلیم کرتے ہیں، دستاویز کی حیثیت 161 کے بیان سے زیادہ کچھ نہیں۔

    جج نے نیب پراسیکیوٹر سے سوال کیا کہ کیا آپ نے تصدیق کے لیے کوشش کی تھی؟ جس پر پراسیکیوٹر نے کہا کہ ہم نے ایم ایل اے بھیجا تھا کوئی جواب ہی نہیں آیا۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ میرا جاننا یہ ہے کہ انہوں نے کوئی ایم ایل اے نہیں بھیجا، نواز شریف کی تنخواہ سے متعلق دستاویزات اسکرین شاٹس ہیں۔ یہ اسکرین شاٹس والی دستاویزات بھی تصدیق شدہ نہیں، ان سکرین شاٹس والی دستاویز پر تو کوئی مہر نہیں۔

    انہوں نے کہا کہ یہ کہتے ہیں نواز شریف کا تنخواہ لینا بہت بڑا مسئلہ ہے، تنخواہ سے متعلق کسی بینک کی دستاویزات پیش نہیں کی گئیں۔ جے آئی ٹی نے جن دستاویزات پر انحصار کیا اس پر نواز شریف کا نام نہیں۔ جے آئی ٹی ممبران یہاں سے گئے اس کام کے لیے اور وہاں کچھ نہیں کیا۔ کیا انہیں کسی نے وضع کیا تھا کہ ایسا نہ کریں۔

  • نواز شریف کے خلاف ریفرنسز کی سماعت

    نواز شریف کے خلاف ریفرنسز کی سماعت

    اسلام آباد: احتساب عدالت میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف ریفرنسز کی سماعت ہوئی جس میں فریقین کے وکلا کے حتمی دلائل جاری رہے۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز کی سماعت ہوئی۔ سماعت احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے کی۔

    دوران سماعت فلیگ شپ ریفرنس میں جبل علی فری زون اتھارٹی سے متعلق نیب کی دستاویزات پر جواب دیتے ہوئے نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ جافزا دستاویزات قانونی شہادت کے مطابق تصدیق شدہ نہیں، دیکھنا ہوگا کیا ان دستاویزات کو شواہد کے طور پر لیا جا سکتا ہے۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ بیرون ملک سے آنے والی دستاویزات یا تو اصل یا پھرتصدیق شدہ ہوگی، جس ملک سے دستاویزات آئے گی اس ملک کی تصدیق بھی لازم ہے۔ دستاویز کی پھر پاکستانی اتھارٹی بھی تصدیق کرے گی۔ ’پاکستانی قونصل خانہ یا ڈپلومیٹک ایجنٹس اس بات کی تصدیق کرے گا، یہ طریقہ کار اختیار نہیں کیا گیا تو پھر وہ دستاویز ثابت نہیں ہوگی‘۔

    انہوں نے کہا کہ کیپٹل ایف زیڈ ای کی ملازمت سے متعلق دستاویز صرف ایک خط ہے، ہم کہتے ہیں یہ جعلی اور من گھڑت دستاویزات ہیں۔ ملزم نے شواہد سے متعلق شقوق پر ہی بات کرنا ہوتی ہے۔

    خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ نواز شریف نے ایک مخصوص مدت کے لیے ویزہ لیا یہ تسلیم کرتے ہیں، دستاویز کی حیثیت 161 کے بیان سے زیادہ کچھ نہیں۔

    جج نے نیب پراسیکیوٹر سے سوال کیا کہ کیا آپ نے تصدیق کے لیے کوشش کی تھی؟ جس پر پراسیکیوٹر نے کہا کہ ہم نے ایم ایل اے بھیجا تھا کوئی جواب ہی نہیں آیا۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ میرا جاننا یہ ہے کہ انہوں نے کوئی ایم ایل اے نہیں بھیجا، نواز شریف کی تنخواہ سے متعلق دستاویزات اسکرین شاٹس ہیں۔ یہ اسکرین شاٹس والی دستاویزات بھی تصدیق شدہ نہیں، ان سکرین شاٹس والی دستاویز پر تو کوئی مہر نہیں۔

    انہوں نے کہا کہ یہ کہتے ہیں نواز شریف کا تنخواہ لینا بہت بڑا مسئلہ ہے، تنخواہ سے متعلق کسی بینک کی دستاویزات پیش نہیں کی گئیں۔ جے آئی ٹی نے جن دستاویزات پر انحصار کیا اس پر نواز شریف کا نام نہیں۔ جے آئی ٹی ممبران یہاں سے گئے اس کام کے لیے اور وہاں کچھ نہیں کیا۔ کیا انہیں کسی نے وضع کیا تھا کہ ایسا نہ کریں۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ نواز شریف کا عربی میں نام صرف محمد لکھا تھا۔ جج نے کہا کہ عرب ممالک میں تو ویسے بھی سب کو اسی نام سے پکار رہے ہوتے ہیں۔

    وکیل نے کہا کہ پیشی کے وقت نواز شریف سے کیپٹل ایف زیڈ ای کی ملکیت کا نہیں پوچھا گیا، نواز شریف نے متفرق درخواستوں میں یو اے ای کا ویزہ ظاہر کر رکھا تھا۔ میں صرف دکھانا چاہتا ہوں کہ ہم نے کچھ چھپا نہیں رکھا۔

    گزشتہ سماعت میں نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے کہا تھا کہ صادق اور امین والے معاملے پر بات کرنا چاہتا ہوں۔ جس بنیاد پر نواز شریف کو نااہل کیا اس کا عدالت سے تعلق نہیں، سپریم کورٹ نے نااہل کیا اور کرمنل کارروائی کا حکم دیا۔

    خواجہ حارث نے کہا تھا کہ فلیگ شپ کی فرد جرم میں کہا گیا کہ بیٹوں کے نام پر بے نامی جائیداد بنائی، فلیگ شپ سرمایہ کاری کے وقت حسن اور حسین نواز بالغ تھے۔ فرد جرم میں کہا گیا حسن نواز 1989 سے 1994 تک زیر کفالت تھے۔

    انہوں نے کہا تھا کہ لکھا ہے 1995 سے 1999 تک حسن نواز کے ذرائع آمدن نہیں تھے۔ فرد جرم بھی نہیں کہہ رہی کہ حسن نواز 1994 کے بعد والد کے زیر کفالت تھے۔ کمپنیوں کے قیام اور نواز شریف کے منسلک ہونے میں 5 سال کا فرق ہے۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ شواہد میں ایسا کچھ نہیں کہ نواز شریف کا تعلق ملازمت سے زیادہ ہو، صرف تفتیشی افسر نے کہا کہ نواز شریف مالک تھے۔

    خواجہ حارث نے فلیگ شپ ریفرنس کے 3 نکات پر العزیزیہ ریفرنس میں بھی اصرار کیا۔ انہوں نے کہا تھا کہ بے نامی دار، جے آی ٹی اور ایم ایل اے سے متعلق دلائل وہی رہیں گے۔ عدالت العزیزیہ ریفرنس میں دیے گئے دلائل کو فلیگ شپ کا حصہ بنالے۔

    سماعت کے دوران حسن نواز کی برطانیہ میں جائیداد سے متعلق نئی دستاویزات پیش کی گئی تھیں۔ خواجہ حارث نے 3 کمپنیوں کی دستاویزات عدالت کو دکھائیں۔ نواز شریف نے دستاویزات کے لیے برطانوی لینڈ رجسٹری کو درخواست دی تھی۔

  • احتساب عدالت میں نواز شریف کے خلاف ریفرنسز کی سماعت پیر تک ملتوی

    احتساب عدالت میں نواز شریف کے خلاف ریفرنسز کی سماعت پیر تک ملتوی

    اسلام آباد: احتساب عدالت میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف ریفرنسز کی سماعت پیر تک ملتوی کردی گئی، وکیل صفائی نے احتساب عدالت کے اس سوال پر کہ ’سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا نواز شریف صادق و امین نہیں، سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد نواز شریف کو ہم کیسے سچا مان لیں؟‘ عدالت کو مطمئن کرنے کی کوشش کی۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز کی سماعت ہوئی۔ سماعت احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے کی۔

    سماعت کے آغاز پر نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ صادق اور امین والے معاملے پر بات کرنا چاہتا ہوں۔ جس بنیاد پر نواز شریف کو نااہل کیا اس کا عدالت سے تعلق نہیں، سپریم کورٹ نے نااہل کیا اور کرمنل کارروائی کا حکم دیا۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ فلیگ شپ کی فرد جرم میں کہا گیا کہ بیٹوں کے نام پر بے نامی جائیداد بنائی، فلیگ شپ سرمایہ کاری کے وقت حسن اور حسین نواز بالغ تھے۔ فرد جرم میں کہا گیا حسن نواز 1989 سے 1994 تک زیر کفالت تھے۔

    انہوں نے کہا کہ لکھا ہے 1995 سے 1999 تک حسن نواز کے ذرائع آمدن نہیں تھے۔ فرد جرم بھی نہیں کہہ رہی کہ حسن نواز 1994 کے بعد والد کے زیر کفالت تھے۔ کمپنیوں کے قیام اور نواز شریف کے منسلک ہونے میں 5 سال کا فرق ہے۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ شواہد میں ایسا کچھ نہیں کہ نواز شریف کا تعلق ملازمت سے زیادہ ہو، صرف تفتیشی افسر نے کہا کہ نواز شریف مالک تھے۔

    خواجہ حارث نے فلیگ شپ ریفرنس کے 3 نکات پر العزیزیہ ریفرنس میں بھی اصرار کیا۔ انہوں نے کہا کہ بے نامی دار، جے آی ٹی اور ایم ایل اے سے متعلق دلائل وہی رہیں گے۔ عدالت العزیزیہ ریفرنس میں دیے گئے دلائل کو فلیگ شپ کا حصہ بنالے۔

    سماعت کے دوران حسن نواز کی برطانیہ میں جائیداد سے متعلق نئی دستاویزات پیش کی گئیں۔ خواجہ حارث نے 3 کمپنیوں کی دستاویزات عدالت کو دکھائیں۔ نواز شریف نے دستاویزات کے لیے برطانوی لینڈ رجسٹری کو درخواست دی تھی۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ حسن نواز کا کاروبار ہی یہ تھا جائیداد خریدنا اور فروخت کرنا۔ عدالت نے ریفرنسز کی مزید سماعت پیر تک ملتوی کردی۔

    اس سے قبل گزشتہ روز کی سماعت میں جج نے خواجہ حارث سے سوال کیا تھا کہ سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا نواز شریف صادق و امین نہیں، سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد نواز شریف کو ہم کیسے سچا مان لیں؟

    العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کے وکیل نے اپنے حتمی دلائل مکمل کرلیے تھے جس کے بعد نیب پراسیکیوٹر سردار مظفر نے جواب الجواب جمع کروایا تھا۔

    سردار مظفر کا کہنا تھا کہ نواز شریف اور ان کے وکیل کا موقف مختلف ہے، نواز شریف نے حسن اور حسین کی پیش دستاویز کو تسلیم کیا۔ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) میں حسن، حسین کی پیش دستاویزات کو انڈورس کیا۔ عدالت نے نواز شریف سے ان دستاویزات کے حوالے سے سوال کیا۔

    انہوں نے کہا کہ استغاثہ نے عدالت کو مطمئن کرنا ہوتا ہے، استغاثہ نے کیس اسٹیبلش کرنا ہوتا ہے پھر بار ثبوت ملزمان پر ہوتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ ثابت کیا نواز شریف کے بیٹے بے نامی دار کے طور پر جائیداد کے مالک ہیں۔ نواز شریف جائیداد کے اصل بے نامی مالک ہیں، استغاثہ نےثابت کیا۔

    نیب پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ اثاثوں کی ملکیت کو دوسری جانب سے کبھی بھی رد نہیں کیا گیا۔ ملکیت ثابت ہونے کے بعد ملزم نے اپنی بے گناہی ثابت کرنی ہوتی ہے۔ وکیل نے دلائل میں کہا کہ 1980 کے معاہدے، خطوط اور دستاویز پر انحصار نہیں کیا۔

    انہوں نے کہا کہ ملزم نے اپنے بیان میں تمام باتوں کو تسلیم کیا، بیانات میں تضاد ہے۔ عدالت میں ثبوت نہیں دیا گیا کہ بچوں نے جائیداد اپنے ذرائع سے لی۔ ہم نے ثابت کیا بچے اپنا کوئی ذرائع آمدن نہیں رکھتے تھے۔

  • بلوچستان میں آلودہ پانی سے متعلق کیس: 2 ہفتے میں رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت

    بلوچستان میں آلودہ پانی سے متعلق کیس: 2 ہفتے میں رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت

    اسلام آباد: صوبہ بلوچستان کے علاقے بولان میں آلودہ پانی سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کمیشن قائم کرتے ہوئے 2 ہفتے میں رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کردی۔

    تفصیلات کے مطابق صوبہ بلوچستان کے علاقے بولان میں آلودہ پانی سے متعلق کیس کی سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی۔ سماعت کے دوران اہل علاقہ نے بتایا کہ بولان بھاگ ناری میں پانی کی اسکیمیں منظور ہوئی تھیں۔

    چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ سارے فنڈزغیر ترقیاتی کاموں پر خرچ ہوجاتے ہیں، سارے پیسے تنخواہوں میں چلے جاتے ہیں۔

    ڈپٹی کمشنر بولان نے کہا کہ وہاں 2 ماہ میں آر او پلانٹ لگا رہے ہیں۔

    چیف جسٹس کے طلب کرنے پر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر امان اللہ کنرانی روسٹرم پر آگئے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بلوچستان میں جہاں پانی کا مسئلہ ہے وہاں کی فہرست بنا کر دیں۔

    امان اللہ کنرانی نے کہا کہ ایک ہفتے میں رپورٹ بنا کر دے سکتا ہوں۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ امان اللہ کنرانی کے ساتھ اور لوگوں کو شامل کریں گے، تجاویز بنا کر دیں وہاں پانی کا مسئلہ کیسے حل ہو سکتا ہے۔ پینے کا پانی صرف بولان بھاگ ناری کا مسئلہ نہیں۔

    انہوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ کو بلاؤں گا، ساری کابینہ کو بھی بلانا پڑا تو بلاؤں گا۔

    چیف جسٹس نے امان اللہ کنرانی کی سربراہی میں 2 رکنی کمیشن قائم کردیا۔ انجینیئر عثمان بابائی بھی کمیشن کے رکن ہوں گے۔

    عدالت نے کہا کہ آبپاشی اور دیگر محکمے مکمل تعاون کریں گے۔ کمیشن کو دو ہفتے میں رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت بھی کردی گئی۔

  • العزیزیہ ریفرنس کا فیصلہ آج محفوظ کیے جانے کا امکان

    العزیزیہ ریفرنس کا فیصلہ آج محفوظ کیے جانے کا امکان

    اسلام آباد: سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ ریفرنس کی سماعت جاری ہے، ریفرنس کا فیصلہ آج محفوظ کیے جانے کا امکان ہے۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز کی سماعت جاری ہے۔ سماعت احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کر رہے ہیں۔

    گزشتہ سماعت میں نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے اپنے حتمی دلائل مکمل کرلیے تھے۔ نیب پراسیکیوٹر سردار مظفر عباسی جواب الجواب دے رہے ہیں۔

    سردار مظفر کا کہنا ہے کہ نواز شریف اور ان کے وکیل کا موقف مختلف ہے، نواز شریف نے حسن اور حسین کی پیش دستاویز کو تسلیم کیا۔ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) میں حسن، حسین کی پیش دستاویزات کو انڈورس کیا۔ عدالت نے نواز شریف سے ان دستاویزات کے حوالے سے سوال کیا۔

    انہوں نے کہا کہ استغاثہ نے عدالت کو مطمئن کرنا ہوتا ہے، استغاثہ نے کیس اسٹیبلش کرنا ہوتا ہے پھر بار ثبوت ملزمان پر ہوتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ ثابت کیا نواز شریف کے بیٹے بے نامی دار کے طور پر جائیداد کے مالک ہیں۔ نواز شریف جائیداد کے اصل بے نامی مالک ہیں، استغاثہ نےثابت کیا۔

    نیب پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ اثاثوں کی ملکیت کو دوسری جانب سے کبھی بھی رد نہیں کیا گیا۔ ملکیت ثابت ہونے کے بعد ملزم نے اپنی بے گناہی ثابت کرنی ہوتی ہے۔ وکیل نے دلائل میں کہا کہ 1980 کے معاہدے، خطوط اور دستاویز پر انحصار نہیں کیا۔

    انہوں نے کہا کہ ملزم نے اپنے بیان میں تمام باتوں کو تسلیم کیا، بیانات میں تضاد ہے۔ عدالت میں ثبوت نہیں دیا گیا کہ بچوں نے جائیداد اپنے ذرائع سے لی۔ ہم نے ثابت کیا بچے اپنا کوئی ذرائع آمدن نہیں رکھتے تھے۔

    نیب پراسیکیوٹر کے دلائل کے دوران نواز شریف کے وکلا نے بار بار مداخلت کی جس جج برہم ہوگئے۔ انہوں نے کہا کہ آج کا دن نیب کا ہے، نیب نے جو کہنا ہے آج ان کی سنیں گے۔ خواجہ حارث نے جتنے دن دلائل دی ےنیب نے مداخلت نہیں کی۔

    سردار مظفر نے مزید کہا کہ نواز شریف نے تقریر اور خطاب میں خاندان کی ذمہ داری لی۔ نواز شریف نے کہا ٹھوس ثبوتوں کے انبار لگے ہوئے ہیں۔ جو ٹھوس ثبوتوں کے انبار لگے تھے وہ پیش کیوں نہیں کیے گئے۔ اب ثبوت پیش کرنے کا وقت آیا تو کہتے ہیں ہمارا ان سے تعلق نہیں۔ ’اس کو سیاسی تقریر نہیں سمجھا جائے گا‘؟

    انہوں نے کہا کہ نواز شریف نے کہا دبئی اور جدہ فیکٹریوں سے متعلق سارا ریکارڈ ہے۔ نواز شریف نے تقریر میں یہ نہیں کہا کہ میرا پراپرٹی سے تعلق نہیں، انہوں نے کہا کہ میرا پاناما پیپرز میں نام نہیں۔ ’خواجہ حارث کے حتمی دلائل اور نواز شریف کے بیان میں تضاد ہے‘۔

    نیب پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ ملزمان نے خود ایک منی ٹریل بتائی تھی ہم نے اس طرح اثاثے بنائے۔ ملزمان نے جو ذرائع بتائے ہم نے ان کی ہی تفتیش کرنی تھی۔ ہمارا دماغ تو نہیں خراب کہ ہم دوسرے ذرائع ڈھونڈتے، ہم ان ہی کے مؤقف کو لے کر چلے اور وہ غلط ثابت ہوگیا۔

    انہوں نے کہا کہ جلا وطنی کے بعد کاروبار کے لیے ان کے پاس کوئی معلوم ذرائع نہیں تھے۔ پاکستان سے قانونی راستے سے کوئی رقم بیرون ملک نہیں بھیجی گئی۔

    جج نے ریمارکس دیے کہ پھر پاکستان کا کیا مسئلہ ہے پھر تو سعودی عرب کا مسئلہ ہوگیا کہ وہاں کیسے کاروبار بنا۔

    احتساب عدالت کے جج نے خواجہ حارث سے سوال کیا کہ سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا نواز شریف صادق و امین نہیں، سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد نواز شریف کو ہم کیسے سچا مان لیں؟ وکیل صفائی کو اس اہم نکتے پر کل عدالت کو مطمئن کرنے کی ہدایت کردی گئی۔

    اس سے قبل نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے اپنے دلائل میں کہا تھا کہ حسین نواز کا بیرون ملک کاروبار اور اثاثے پاکستان میں ظاہر نہیں۔ غیر مقیم شہری کی وجہ سے بیرون ملک اثاثے ظاہر کرنا لازم نہیں۔ استغاثہ نے بھی نہیں کہا کہ حسین نواز کا اثاثے ظاہر نہ کرنا غیر قانونی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ نواز شریف نے نہیں کہا انہیں بچوں کے کاروبار کا پتہ نہیں۔ نواز شریف نے کہا کہ بچوں کے کاروباری معاملات سے تعلق نہیں۔ کیس یہ ہے کہ ایچ ایم ای اور العزیزیہ کے حوالے سے حسین نواز جوابدہ ہیں۔ دونوں کے حوالے سے نواز شریف سے وضاحت نہیں مانگی جاسکتی۔

    وکیل نے کہا کہ جے آئی ٹی کے سعودی عرب کو لکھے ایم ایل اے کو ریکارڈ کا حصہ نہیں بنایا جاسکتا۔ ضمنی ریفرنس میں کہا گیا کہ نواز شریف کے علاوہ بھی 5 افراد کو رقم منتقل ملی، رقم وصول کرنے والے مانتے ہیں ایچ ایم ای سے بھیجی گئی۔

    انہوں نے کہا کہ نیب کی طرف سے ان افراد کو شامل تفتیش نہیں کیا گیا۔ نیب کو ان سب سے پوچھنا چاہیئے تھا ان کے شیئر تو نہیں؟ تمام افراد ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ کے ملازم ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ الدار آڈٹ رپورٹ ہم نے پیش کی نہ ہی اس پر انحصار ہے، نیب نے صرف جے آئی ٹی کی تحقیقات پر انحصار کیا۔

    جج نے کہا کہ حسین اور حسن نواز پیش ہو جاتے تو نیب کا کام کم ہوجاتا، پیشی کی صورت میں نیب کا کام صرف نواز شریف سے کڑی ملانا رہ جاتا۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ حسین اور حسن نواز کا اعترافی بیان نواز شریف کے خلاف استعمال ہو سکتا تھا، حسن اور حسین نواز نے طارق شفیع کا بیان حلفی دفاع میں پیش کیا۔ طارق شفیع کا بیان حلفی میرے خلاف استعمال کرنا ہے تو جرح کا حق دیں۔

  • چیف جسٹس کا تمام نجی اسکولوں کی فیسوں میں کمی کا حکم

    چیف جسٹس کا تمام نجی اسکولوں کی فیسوں میں کمی کا حکم

    اسلام آباد: نجی اسکولوں میں زائد فیسوں سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے تمام نجی اسکولوں کی فیسوں میں کمی، لاہور گرامر اور بیکن ہاؤس اسکول کے اکاؤنٹس منجمد کرنے اور ایف بی آر کو دونوں اسکولوں سے متعلق تحقیقات کرنے کا حکم دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں نجی اسکولوں میں زائد فیسوں سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔ عدالت میں بیکن ہاؤس اور لاہور گرامر اسکول کی آڈٹ رپورٹ جمع کروائی گئی۔

    رپورٹ میں کہا گیا کہ سنہ 2017 میں سی سی او اور ڈائریکٹرز کو 62 ملین ادا کیے گئے۔ کل 512 ملین تنخواہیں ادا کی گئیں۔ 5 سالوں میں 5.2 بلین تنخواہیں ادا کی گئیں۔ تنخواہوں کے علاوہ دیگر سہولتیں الگ ہیں۔

    چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ناگواری سے استفسار کیا کہ ان اسکولوں نے یورینیم کی کانیں لی ہیں یا سونے کی؟ ایک ایک ڈائریکٹر کو 83 لاکھ تنخواہ دی جارہی ہے۔

    چیف جسٹس نے آڈٹ کمپنی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ لاہور گرامر اسکول کی آڈٹ رپورٹ غلط کیوں بنائی؟ ’پکڑ لیں اس کو اور ایف بی آر کے حوالے کریں، بچوں کو 2 روپے کا ریلیف نہیں دے سکتے‘۔

    انہوں نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو لاہور گرامر اور بیکن ہاؤس اسکول کے اکاؤنٹس منجمد کرنے کا حکم دے دیا۔ انہوں نے ہدایت کی کہ ایف بی آر دونوں اسکولوں سے متعلق تحقیقات کرے۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ کرائے کی کوٹھیوں میں اسکول کھولے ہوئے ہیں، ایک ایک کمرے کے اسکول سے اتنا پیسہ بنایا جا رہا ہے۔ اسکول نہیں چلا رہے اب یہ صنعت کار بن گئے ہیں۔

    نجی اسکول کی وکیل عائشہ حامد نے کہا کہ تمام اسکول 8 فیصد فیس کم کرنے کو تیار ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ 8 فیصد تو اونٹ کے منہ میں زیرے والی بات ہے۔ 20 سال کا آڈٹ کروایا تو نتائج بہت مختلف ہوں گے۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اسکولوں نے اپنی آڈٹ رپورٹس میں غلط اعداد دیے، کیسے ڈائریکٹر 83، 83 لاکھ روپے تنخواہیں لے رہے ہیں۔

    بیکن ہاؤس کے وکیل شاہد حامد نے بتایا کہ بیکن ہاؤس نے 764 ملین ٹیکس دیا ہے جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آپ نے بہت ٹیکس دیا ہوگا لیکن اس کا طالب علم کو فائدہ نہیں، اس کا فائدہ تب ہوگا جب فیس کم ہوگی۔

    چیف جسٹس نے تمام نجی اسکولوں کی فیسوں میں کمی کا حکم بھی دے دیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جن اسکولوں نے موسم سرما تعطیلات کی فیس لی وہ 50 فیصد واپس کریں۔ ’دوسری صورت میں آئندہ فیس میں لی گئی اضافی فیس ایڈجسٹ کریں‘۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ آئندہ ہم طے کریں گے کتنی فیس بڑھنی ہے۔ جس نے اسکول بند کرنے کی کوشش کی اس کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ہوگی۔ صرف 5 فیصد اضافہ ٹھیک ہے اس سے زیادہ اضافہ ریگولیٹر طے کرے گا۔

    کیس کی مزید سماعت 2 ماہ کے لیے ملتوی کردی گئی۔

  • خواجہ سعد رفیق ریلوے خسارہ کیس میں سپریم کورٹ میں پیش

    خواجہ سعد رفیق ریلوے خسارہ کیس میں سپریم کورٹ میں پیش

    اسلام آباد: قومی احتساب بیورو (نیب) کے ریمانڈ پر موجود سابق وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق ریلوے خسارہ کیس کی سماعت کے لیے سپریم کورٹ میں پیش ہوئے، کیس کی سماعت 26 دسمبر تک ملتوی کردی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما و سابق وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کو نیب اور پولیس کی تحویل میں عدالت میں لایا گیا۔ سپریم کورٹ نے سعد رفیق کو ریلوے خسارہ کیس میں ذاتی حیثیت میں طلب کر رکھا تھا۔

    سماعت کے موقع پر سیکیورٹی ادارے سابق رکن پنجاب اسمبلی قیصر امین بٹ کو بھی لے کر سپریم کورٹ میں پیش ہوئے۔

    سماعت کے دوران سعد رفیق نے کہا کہ رات کو نوٹس ملا تھا، میں نیب کی حراست میں ہوں۔ نوٹس ملتے ہی کامران مرتضیٰ کو وکیل کیا، وہ آج کوئٹہ میں ہیں لہٰذا آج پیش نہیں ہوسکے۔

    چیف جسٹس ثاقب نثار نے استفسار کیا کہ وکیل کب آئیں گے جس پر سعد رفیق نے کہا کہ میں تو نیب کی تحویل میں ہوں مجھےعلم نہیں۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ خواجہ صاحب آپ کو جلدی تو نہیں جس پر سعد رفیق نے نفی کردی۔

    عدالت نے کیس کی مزید سماعت 26 دسمبر تک ملتوی کردی۔

    خیال رہے کہ محکمہ ریلوے میں 60 ارب روپے کے خسارے کے معاملے پر کیس سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔

    ایک سماعت کے دوران خواجہ سعد رفیق نے بتایا تھا کہ ریلوے کا ریونیو 50 ارب اور خسارہ 35 ارب کے قریب ہے۔ چیف جسٹس نے پاکستان ریلوے کا مکمل آڈٹ کروانے کا حکم بھی دیا تھا۔

    دوسری جانب خواجہ سعد رفیق اور ان کے بھائی سلمان رفیق پیراگون ہاؤسنگ اسکینڈل میں پہلے ہی نیب کی تحویل میں ہیں۔ گزشتہ روز لاہور ہائیکورٹ نے دونوں بھائیوں کو 10 روز کے جسمانی ریمانڈ پر نیب کے حوالے کردیا تھا۔

    خواجہ برادران پیراگون ہاؤسنگ اسکینڈل سمیت 3 مقدمات میں نیب کو مطلوب تھے۔

  • احتساب عدالت میں نواز شریف کے خلاف ریفرنسز کی سماعت

    احتساب عدالت میں نواز شریف کے خلاف ریفرنسز کی سماعت

    اسلام آباد: سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ ریفرنس کی سماعت کے دوران وکیل خواجہ حارث نے اپنے حتمی دلائل مکمل کرلیے۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز کی سماعت ہوئی۔ سماعت احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے کی۔

    آج کی سماعت میں بھی نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کے حتمی دلائل جاری رہے۔

    عدالت نے فلیگ شپ ریفرنس میں خواجہ حارث سے دستاویزات پر استفسار کیا جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ دستاویزات ابھی موصول نہیں ہوئیں، کچھ تاخیر ہو رہی ہے۔

    اپنے دلائل میں خواجہ حارث نے کہا کہ حسین نواز کا بیرون ملک کاروبار اور اثاثے پاکستان میں ظاہر نہیں۔ غیر مقیم شہری کی وجہ سے بیرون ملک اثاثے ظاہر کرنا لازم نہیں۔ استغاثہ نے بھی نہیں کہا کہ حسین نواز کا اثاثے ظاہر نہ کرنا غیر قانونی ہے۔

    مزید پڑھیں: نواز شریف کے خلاف ریفرنسز کی گزشتہ سماعت

    انہوں نے کہا کہ نواز شریف نے نہیں کہا انہیں بچوں کے کاروبار کا پتہ نہیں۔ نواز شریف نے کہا کہ بچوں کے کاروباری معاملات سے تعلق نہیں۔ کیس یہ ہے کہ ایچ ایم ای اور العزیزیہ کے حوالے سے حسین نواز جوابدہ ہیں۔ دونوں کے حوالے سے نواز شریف سے وضاحت نہیں مانگی جاسکتی۔

    وکیل نے کہا کہ جے آئی ٹی کے سعودی عرب کو لکھے ایم ایل اے کو ریکارڈ کا حصہ نہیں بنایا جاسکتا۔ ضمنی ریفرنس میں کہا گیا کہ نواز شریف کے علاوہ بھی 5 افراد کو رقم منتقل ملی، رقم وصول کرنے والے مانتے ہیں ایچ ایم ای سے بھیجی گئی۔

    انہوں نے کہا کہ نیب کی طرف سے ان افراد کو شامل تفتیش نہیں کیا گیا۔ نیب کو ان سب سے پوچھنا چاہیئے تھا ان کے شیئر تو نہیں؟ تمام افراد ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ کے ملازم ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ الدار آڈٹ رپورٹ ہم نے پیش کی نہ ہی اس پر انحصار ہے، نیب نے صرف جے آئی ٹی کی تحقیقات پر انحصار کیا۔

    جج نے کہا کہ حسین اور حسن نواز پیش ہو جاتے تو نیب کا کام کم ہوجاتا، پیشی کی صورت میں نیب کا کام صرف نواز شریف سے کڑی ملانا رہ جاتا۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ حسین اور حسن نواز کا اعترافی بیان نواز شریف کے خلاف استعمال ہو سکتا تھا، حسن اور حسین نواز نے طارق شفیع کا بیان حلفی دفاع میں پیش کیا۔ طارق شفیع کا بیان حلفی میرے خلاف استعمال کرنا ہے تو جرح کا حق دیں۔

    العزیزیہ ریفرنس میں خواجہ حارث ںے اپنے دلائل مکمل کرلیے۔ ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب سردار مظفر کل جواب الجواب دلائل دیں گے۔

    جج نے دریافت کیا کہ خواجہ صاحب نے ایسی کیا نئی بات کی جس پر آپ جواب دینا چاہتے ہیں؟ جس پر سردار مظفر نے کہا کہ صرف کچھ نقاط پر بات کرنا چاہتے ہیں، صرف ایک دن دے دیں یا پھر آدھا دن۔

    احتساب عدالت میں نواز شریف کے خلاف ریفرنسز کی مزید سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔

  • خواجہ برادران 10 روزہ جسمانی ریمانڈ پر نیب کے حوالے

    خواجہ برادران 10 روزہ جسمانی ریمانڈ پر نیب کے حوالے

    لاہور: پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنماؤں خواجہ سعد رفیق اور ان کے بھائی سلمان رفیق کو احتساب عدالت نے 10 روزہ جسمانی ریمانڈ پر 22 دسمبر تک قومی احتساب بیورو (نیب) کے حوالے کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنما و سابق وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق اور ان کے بھائی سلمان رفیق کی احتساب عدالت میں پیشی کے موقع پر سخت سیکیورٹی نافذ رہی۔

    لیگی کارکنان کے احتجاج کے پیش نظر عدالت کو خاردار تاروں سے سیل کردیا گیا جبکہ پولیس کی بھاری نفری بھی طلب کی گئی۔

    سماعت کے دوران نیب پراسیکیوٹر نے اپنے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 40 کنال کی پلاٹنگ نہیں کی جاسکتی مگر سب پر پلاٹ بنادیے گئے، سوسائٹی کی رجسٹریشن جعلی ہے۔

    عدالت نے دریافت کیا کہ سوسائٹی میں عوامی پیسے کا کیا نقصان ہے جس پر پراسیکیوٹر نے بتایا کہ لوگوں کو ایسی زمین فروخت کی گئی جو ان کے نام پر ہی نہیں۔ پیراگون کے نام پر عوام سے کروڑوں کا فراڈ کیا گیا، پیراگون کے پاس کل زمین 1100 کنال ہے، 7 ہزار کنال نہیں۔

    پراسیکیوٹر نے استدعا کی کہ اربوں کی ٹرانزیکشن اور کمپنی ریکارڈ کی جانچ کے لیے جسمانی ریمانڈ دیا جائے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ کیا خواجہ سعد رفیق انکوائری میں پیش ہوتے رہے ہیں جس پر پراسیکیوٹر نے بتایا کہ خواجہ برادران پیش ہوتے رہے ہیں، کیس کا ایک اور ملزم ندیم ضیا مفرور اور قیصر امین بٹ گرفتار ہے۔

    پراسیکیوٹر نے بتایا کہ تمام ریکارڈ ندیم ضیا کے پاس ہے، قیصر امین نے بھی انکشافات کیے۔ سوسائٹی جعلی ہے اور اس کا مکمل ریکارڈ موجود نہیں۔

    عدالت نے کہا کہ جعلسازی کس نے کی پہلے اس کو دیکھا جائے، جس نے پہلا ریکارڈ دیا اس سے باقی بھی لے لیں۔ جہاں سے جعلسازی شروع ہوئی وہاں سے پہلے پوچھنا چاہیئے تھا۔

    نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ سادان ایسوسی ایٹس خواجہ سعد رفیق کی ملکیت ہے، کے ایس آر کمپنی خواجہ سلمان رفیق کی ملکیت ہے۔ خواجہ برادران کی 2 کمپنیوں کے اکاؤنٹس میں 100 ملین آئے۔ رقم پیراگون کی بے نامی کمپنی ایگزیکٹو بلڈر کے اکاؤنٹ سے منتقل ہوئی۔

    انہوں نے کہا کہ شاہد بٹ ان کا پارٹنر ہے جس کا کہنا ہے کہ 4 ارب کی زمین سعد رفیق نے بیچی۔

    نیب نے شاہد بٹ کا بیان بھی عدالت میں پیش کیا جس پر عدالت نے کہا لگتا ہے نیب نے خود لکھا ہے یہ بیان اور سائن شاہد بٹ نے کیے۔ شاہد بٹ کو بلا لیں ہمارے سامنے اپنے بیان کی 2 لائنیں لکھ دے۔

    پراسیکیوٹر نے کہا کہ پیراگون کے خلاف 90 شکایات موصول ہوئیں۔ قیصر امین بٹ کے بیان کی روشنی میں تفتیش کی جانی ہے۔

    خواجہ برادران کے وکیل امجد پرویز نے کہا کہ 6 مارچ کو انکوائری شروع ہوئی تھی، نیب نے بھی مانا کہ دونوں بھائی پیش ہوتے رہے۔ نیب نے جب بلایا اور جو ریکارڈ مانگا فراہم کیا گیا۔ نیب نے جو سوالنامہ بھیجا اس کا تحریری جواب دیا گیا۔

    انہوں نے کہا کہ مشرف دور میں 3 سال تک کرپشن اور اثاثوں کی انکوائری چلتی رہی، 3 سال بعد کہا گیا ثبوت نہیں ملا اور انکوائری پر افسوس کا اظہار بھی کیا گیا۔

    وکیل نے کہا کہ سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کے پاس رجسٹریشن میں ندیم ضیا اور قیصر امین بٹ ہی مالک ہیں، شاہد بٹ اور پیراگون کے درمیان سول مقدمہ بازی چل رہی ہے۔ شاہد بٹ کے ساتھ خواجہ برادران کا کوئی لینا دینا نہیں۔

    انہوں نے کہا کہ 15 سال سے پیراگون سے کوئی تعلق ثابت نہیں ہوسکا۔ قیصر امین کی پلی بارگین کو وعدہ معاف بنانے سے نظر آتا ہے معاملہ کچھ اور ہے۔

    سماعت کے دوران خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ ٹھیک طرح سے ادویات نہیں دی جارہیں، کون گناہ گار کون بے گناہ یہ بعد کی بات ہے مگر غیر انسانی سلوک تو نہ کیا جائے۔

    عدالت نے نیب میں ملزمان کے لیے بنیادی سہولتیں فراہم کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ ڈی جی نیب سے لکھوا کر لائیں ملزمان کو تمام سہولتیں دی جائیں گی۔

    نیب کی جانب سے ملزمان کے 15 روزہ ریمانڈ کی درخواست کی گئی تاہم عدالت نے صرف 10 روز کا جسمانی ریمانڈ منظور کرتے ہوئے 22 دسمبر تک خواجہ برادران کو نیب کے حوالے کردیا۔

    خواجہ برادران کی گرفتاری

    خیال رہے کہ گزشتہ روز احتساب عدالت نے خواجہ سعد رفیق اور ان کے بھائی سلمان رفیق کی عبوری ضمانت کی درخواست خارج کردی تھی جس کے بعد نیب نے دونوں بھائیوں کو حراست میں لے لیا تھا۔

    خواجہ برادران کو پیراگون ہاؤسنگ اسکینڈل میں گرفتار کیا گیا ہے جبکہ دونوں بھائی پیراگون ہاؤسنگ اسکینڈل سمیت 3 مقدمات میں نیب کو مطلوب تھے۔

    اس سے قبل لاہور ہائیکورٹ نے دونوں بھائیوں کی عبوری ضمانت منظور کی تھی جس میں کئی بار توسیع کی گئی۔

    گزشتہ روز بھی خواجہ برادران عبوری ضمانت میں مزید توسیع کی درخواست لیے عدالت پہنچے تھے تاہم عدالت نے ان کی استدعا مسترد کردی جس کے بعد دونوں کی گرفتاری عمل میں آئی۔

    یاد رہے کہ آشیانہ ہاؤسنگ سوسائٹی کی تحقیقات میں انکشاف ہوا تھا کہ وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کے پیراگون سوسائٹی سے براہ راست روابط ہیں، پنجاب لینڈ ڈویلپمنٹ کمپنی کے ذریعے آشیانہ اسکیم لانچ کی گئی تھی۔

    نیب کے مطابق وفاقی وزیر ہوتے ہوئے خواجہ سعد رفیق نے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کیا تھا اور شواہد کو ٹمپر کرنے کی کوشش بھی کی، دونوں بھائیوں نے اپنے ساتھیوں سے مل کر عوام کو دھوکہ دیا اور رقم بٹوری۔

    نیب کا کہنا ہے کہ خواجہ برادران پیراگون ہاؤسنگ سوسائٹی سے فوائد حاصل کرتے رہے، خواجہ برادران کے نام پیراگون میں 40 کنال اراضی موجود ہے۔

    دوسری جانب سابق رکن پنجاب اسمبلی اور پیراگون ہاؤسنگ اسکیم میں خواجہ برادران کے شراکت دار قیصر امین بٹ نے اپنی حراست کے دوران نیب کو بتایا کہ پیراگون سوسائٹی کے کمرشل پلاٹوں کو فروخت کر کے 14 ارب روپے کمائے گئے، سال 2003 میں پیراگون کو ٹی ایم اے سے سعد رفیق نے دباؤ ڈال کر رجسٹرڈ کرالیا۔

    قیصر امین بٹ کے مطابق پیراگون کے کاغذات میں وہ خود اور ندیم ضیا مالک ہیں مگر خواجہ برادران ہی پیراگون سوسائٹی کے اصل مالکان ہیں۔