Tag: عدالت کی خبریں

  • اومنی شوگراسکینڈل: صائمہ مجید کے وارنٹ گرفتاری جاری

    اومنی شوگراسکینڈل: صائمہ مجید کے وارنٹ گرفتاری جاری

    کراچی: اومنی گروپ کی جانب سےاربوں روپےکی چینی غائب کرنےکے کیس کی سماعت کرتے ہوئے عدالت نےصائمہ مجیدکےقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیے۔

    تفصیلات کے مطابق آج کراچی کے بینکنگ کورٹ میں اربوں روپے کی چینی غائب کرنے کے کیس کی سماعت ہوئی۔اومنی گروپ کےسربراہ انورمجیدکودوسری باربھی پیش نہ کرنےپرعدالت نے اظہارِ برہمی کیا۔ عدالت نے اس موقع پر مقدمے میں نامزد ملزمہ صائمہ مجید کے قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری بھی جاری کیے۔

    عدالت نے انور مجید کے وکلا اور جیل حکام سے استفار کیا کہ انور مجید کہاں ہیں؟۔ جس پر جیل حکام نے جواب دیا کہ انہیں لینے اسپتال گئے تھے مگر وہاں سے میڈیکل سرٹیفکیٹ دے دیا گیا۔ عدالت نے سوال کیا کہ ہم نےانورمجیدکامیڈیکل سرٹیفکیٹ بنانےوالےڈاکٹرکوبلایاتھاوہ کہاں ہیں۔یہ روایتی میڈیکل سرٹیفکیٹ ہے،پہلےوالےمیں اضافہ کرکےبھیج دیاگیا ہے۔

    عدالت کے سوال کرنے پر انور مجید کے وکیل نے بتایا کہ انورمجیدکودل کےعارضےسمیت دیگربیماریاں لاحق ہیں، انورمجیدکادل صرف23فیصدکام کررہاہے۔ وکیل کے جواب پر عدالت کا کہنا تھا کہ ایسی کوئی بیماری نہیں کہ انورمجیدچل پھرنہ سکتےہوں۔

    عدالت نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ملزم کوبٹھانےکاعدالت کوکوئی شوق نہیں،اس نوعیت کی بیماریاں ہرچوتھےشہری کوہیں۔ آپ کہتےہیں انورمجیدکودل کاعارضہ ہے، اب تودل کاآپریشن کرکےایک ہفتےمیں ڈسچارج کردیتےہیں۔یہ بتائیں انورمجیدکوایک ماہ سےکیوں رکھا ہواہے۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ کیس میں کسی بھی صورت التوا نہیں چاہتے۔

    جواب میں ملزم کے وکیل نے کہا کہ ذاتی معالج نےطبعیت کی خرابی کےباعث اسٹنٹ نہیں ڈالا، انورمجیدکوطبیعت خرابی کےباوجودجیل لےجانےسےمزیدخراب ہوئی۔ وکیل کے جواب پر عدالت کا موقف تھا کہ ڈاکٹرکووضاحت کےلیےبلایا تھابیماری کےبارےمیں آگاہ کریں۔ ساتھ ہی ساتھ عدالت نے ان کے وکیل کو حکم دیا کہ آپ انورمجیدکا دستخط شدہ وکالت نامہ جمع کرائیں۔ ہمیں انورمجیدکےوکالت نامےاورکیس آگےچلنےسےغرض ہے۔

    عدالت نےملزمان کے وکلا کومقدمات کی نقول فراہم کرتے ہوئے آئندہ سماعت 6دسمبرتک ملتوی کردی۔ عدالت نے عندیہ دیا کہ آئندہ سماعت پرملزمان پرفردجرم عائدکی جائےگی۔

    یاد رہے کہ قومی ادارہ امراض قلب کے سی سی یو میں زیرعلاج اومنی گروپ کے مالک انورمجید کو ڈاکٹروں نے ایک ماہ قبل فوری طور پر اوپن ہارٹ سرجری کی تجویز دی تھی۔

    اس حوالے سے ترجمان این آئی سی وی ڈی کا کہنا تھا کہ انور مجید کے دل کا ایک “والو” بھی تبدیل کرنا ہوگا، انور مجید کے اہل خانہ کو صورت حال سے آگاہ کردیا گیا تھا کہ اگران کے اہل خانہ انورمجید کا علاج کہیں اور کرانا چاہیں تو کراسکتے ہیں۔

  • العزیزیہ ریفرنس: نواز شریف نے آخری 4 سوالوں کے جواب کے لیے وقت مانگ لیا

    العزیزیہ ریفرنس: نواز شریف نے آخری 4 سوالوں کے جواب کے لیے وقت مانگ لیا

    اسلام آباد: وفاقی دارالحکومت کی احتساب عدالت میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ ریفرنس کی سماعت کے دوران نواز شریف نے آخری 4 سوالوں کے جواب کے لیے وقت مانگ لیا۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ ریفرنس کیس کی سماعت احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک نے کی۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف نے عدالت میں پیش ہو کر بغیر حلف نامے کے 342 کا بیان قلمبند کروایا۔

    نواز شریف کے خلاف نیب ریفرنسز نمٹانے کی 17 نومبر تک کی چھٹی مہلت بھی ختم ہوچکی ہے۔ نواز شریف فراہم کیے گئے 151 سوالوں میں سے اب تک 120 کے جوابات دے چکے ہیں۔

    مزید سوالوں کے جوابات دیتے ہوئے نواز شریف نے کہا کہ میرے اکاؤنٹ میں آنے والی رقوم ایف بی آر ریکارڈ میں ظاہر ہیں، سپریم کورٹ میں متفرق درخواست جمع کروائی گئی جس میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے نام نہاد شواہد اور رپورٹ کو مسترد کرنے کی استدعا کی۔

    نواز شریف نے کہا کہ درخواست میں کہا کہ جے آئی ٹی محض تفتیشی ایجنسی سے زیادہ کچھ نہیں، عام فہم ہے جے آئی ٹی میں بیان عدالت میں بطور شواہد پیش نہیں کیا جا سکتا۔ جے آئی ٹی کی تحقیقات تعصب پر مبنی اور ثبوت کے بغیر تھیں، جے آئی ٹی کو انکم ٹیکس ریٹرن، ویلتھ اسٹیٹمنٹ اور ویلتھ ریٹرن جمع کروائی۔

    مزید پڑھیں: العزیزیہ ریفرنس کی گزشتہ سماعت

    سماعت کے دوران نواز شریف بیان لکھواتے ہوئے جذباتی ہوگئے۔ انہوں نے جج سے براہ راست مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ مجھے آج تک سمجھ نہیں آیا کہ یہ کیس بنایا کیوں گیا ہے، استغاثہ کو بھی معلوم نہیں ہوگا کیس کیوں بنایا گیا۔

    انہوں نے کہا کہ دنیا بھر کے بچے بیرون ملک پڑھتے ہیں اور کاروبار کرتے ہیں، میرے بچوں نے اگر مجھے پیسے بھیج دیے تو کون سا عجوبہ ہوگیا۔ ’وزیر اعظم رہا ہوں، میرے بچے یہاں کاروبار کریں تب مصیبت، باہر کریں تب مصیبت‘۔

    سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ شریک ملزمان کی جانب سے جے آئی ٹی رپورٹ کے خلاف الگ درخواستیں دی گئیں، سپریم کورٹ میں حسن اور حسین نواز کا کیس میں نے نہیں لڑا۔

    حسن اور حسین نواز کے بیانات سے متعلق بیان لکھواتے ہوئے نواز شریف کی زبان پھسل گئی، انہوں نے کہا کہ حسن اور حسین نواز کا بیان میرے خلاف بطور شواہد پیش کیا جا سکتا ہے۔ وکیل نے لقمہ دیا تو نواز شریف نے درستگی کروائی کہ بیٹوں سے منسوب بیان میرے خلاف بطور شواہد پیش نہیں کیا جاسکتا۔

    انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی کی تفتیش جانبدار تھی اور مروجہ طریقہ کار نہیں اپنایا گیا، میرے خلاف جو شواہد اکٹھے کیے قانون کی نظر میں ان کی کوئی وقعت نہیں۔

    نواز شریف نے آخری 4 اہم سوالوں کے جواب کے لیے وقت مانگ لیا۔ انہوں نے کہا آخری سوالات سے پہلے وکیل خواجہ حارث سے مشورہ کرنا چاہتا ہوں، خواجہ حارث آج لاہور میں موجود ہیں۔

    احتساب عدالت نے نواز شریف کی استدعا پر انہیں ایک دن کی مہلت دے دی۔ جج نے کہا کہ اصولی طور پر آپ کو مزید وقت دینا نہیں چاہیئے، سوالنامہ پہلے فراہم کردیا گیا تھا، یہ تو سب کو پتہ ہی ہوتا ہے دفاع سے متعلق سوال پوچھا جائے گا۔

    نواز شریف کے خلاف سوالنامے میں ایک سوال کو 2 الگ حصوں میں تقسیم کر دیا گیا جس کے بعد سوالوں کی تعداد 152 ہوگئی۔ نواز شریف نے اب تک کل 148 سوالات کے جواب جمع کروا دیے ہیں۔

    دونوں ریفرنس کی مزید سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔ نواز شریف کل دفاع پیش کرنے سے متعلق جواب دیں گے جبکہ ’آپ کے خلاف کیس کیوں بنایا گیا‘ کا جواب بھی کل دیں گے۔

    خیال رہے کہ احتساب عدالت نے نواز شریف کے خلاف نیب ریفرنسز نمٹانے کے لیے ٹرائل کورٹ کی مدت میں توسیع کے لیے عدالت سے رجوع کیا تھا جس پر فیصلہ سناتے ہوئے سپریم کورٹ نے 3 ہفتے میں ٹرائل مکمل کرنے کا حکم دے دیا۔

    احتساب عدالت کی جانب سے رجسٹرار سپریم کورٹ کو لکھے گئے خط کے متن میں کہا گیا تھا کہ سپریم کورٹ کی دی گئی ڈیڈ لائن میں ٹرائل مکمل کرنا ممکن نہیں، العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز میں ٹرائل مکمل ہونے کے قریب ہے۔

    خط میں استدعا کی گئی کہ ٹرائل مکمل کرنے کے لیے مزید وقت دیا جائے۔ العزیزیہ میں ملزم کا بیان اور فلیگ شپ میں آخری گواہ پر جرح جاری ہے۔

    درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے چیف جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ العزیزیہ ریفرنس کا ٹرائل مکمل کرنے کے لیے مزید مہلت نہیں ملے گی۔

    اس سے قبل سپریم کورٹ ریفرنسز مکمل کرنے کے لیے پہلے ہی 5 بار مہلت میں توسیع کرچکی ہے، گزشتہ ماہ عدالت عظمیٰ نے 26 اگست تک ٹرائل مکمل کرنے کے لیے احتساب عدالت کو 6 ہفتوں کا وقت دیا تھا۔

  • سپریم کورٹ کا نواز شریف کے خلاف ٹرائل 3 ہفتے میں مکمل کرنے کا حکم

    سپریم کورٹ کا نواز شریف کے خلاف ٹرائل 3 ہفتے میں مکمل کرنے کا حکم

    لاہور: سپریم کورٹ آف پاکستان نے نواز شریف کے خلاف ریفرنسز مکمل کرنے کے لیے مدت میں توسیع کی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے 3 ہفتے میں ٹرائل مکمل کرنے کا حکم دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف ریفرنسز مکمل کرنے کے لیے مدت میں توسیع کی درخواست پر سماعت ہوئی۔ درخواست احتساب عدالت کی جانب سے بھیجی گئی تھی۔

    درخواست پر سماعت چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے کی۔ سپریم کورٹ نے احتساب عدالت کو ریفرنس پر ٹرائل 3 ہفتے میں مکمل کرنے کاحکم دے دیا۔

    چیف جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ العزیزیہ ریفرنس کا ٹرائل مکمل کرنے کے لیے مزید مہلت نہیں ملے گی۔ احتساب عدالت کو دی گئی مہلت 17 نومبر کو ختم ہوگئی تھی۔

    احتساب عدالت کی درخواست میں کہا گیا تھا کہ سپریم کورٹ کی دی گئی ڈیڈ لائن میں ٹرائل مکمل کرنا ممکن نہیں، العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز میں ٹرائل مکمل ہونے کے قریب ہے۔

    خط میں استدعا کی گئی کہ ٹرائل مکمل کرنے کے لیے مزید وقت دیا جائے۔ العزیزیہ میں ملزم کا بیان اور فلیگ شپ میں آخری گواہ پر جرح جاری ہے۔

    اس سے قبل سپریم کورٹ ریفرنسز مکمل کرنے کے لیے پہلے ہی 5 بار مہلت میں توسیع کرچکی ہے، گزشتہ ماہ عدالت عظمیٰ نے 26 اگست تک ٹرائل مکمل کرنے کے لیے احتساب عدالت کو 6 ہفتوں کا وقت دیا تھا۔

  • العزیزیہ ریفرنس: نواز شریف کا قطری شہزادے کے خطوط سے اظہار لاتعلقی

    العزیزیہ ریفرنس: نواز شریف کا قطری شہزادے کے خطوط سے اظہار لاتعلقی

    اسلام آباد: وفاقی دارالحکومت کی احتساب عدالت میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ ریفرنس کی سماعت کے دوران نواز شریف نے قطری شہزادے کے خطوط سے اظہار لاتعلقی کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ ریفرنس کیس کی سماعت احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک نے کی۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف نے عدالت میں پیش ہو کر اپنا بیان قلمبند کروایا۔

    بیان قلمبند کرواتے ہوئے سابق وزیر اعظم نواز شریف کا کہنا تھا کہ دستاویزات کے مطابق ریکارڈ پر ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ مختصر نام ہے، ہل میٹل کا پورا نام ہل انڈسٹری فار میٹل اسٹیبلشمنٹ ہے۔ 10 دسمبر 2000 میں بیوی بچوں اور خاندان کے ساتھ جلا وطن رہا۔

    جج نے دریافت کیا کہ جب آپ پاکستان سے گئے تو آپ کی جیب خالی تھی، اکاؤنٹس منجمد تھے۔

    نواز شریف نے کہا کہ ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا اس سے پہلے 2 جنوری 1972 میں بھی ایسا ہو چکا تھا۔ جب ہمیں جلا وطن کیا گیا تھا تو ہماری اتفاق فاؤنڈری کو نیشنلائزڈ کر دیا گیا تھا۔ ’کسی نے پوچھا تک نہیں ہمارے پاس کھانے کو بھی کچھ ہے یا نہیں‘۔

    انہوں نے کہا کہ 1972 میں تو میں سیاست میں بھی نہیں تھا، اتفاق فاؤنڈری کے بدلے کوئی سہولت بھی نہیں دی گئی۔ 1999 کے مارشل لا کی الگ کہانی ہے، موقع ملا تو بتائیں گے۔

    نواز شریف نے اپنے بیان میں کہا کہ مارشل لا کے بعد کاروبار کا تمام ریکارڈ غیر قانونی تحویل میں لیا گیا، ریکارڈ اٹھائے جانے کے خلاف متعلقہ تھانے میں شکایت درج کروائی گئی۔ متعلقہ تھانے کی طرف سے ہماری شکایت پر کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔

    انہوں نے کہا کہ جلا وطنی کے دنوں میں نیب نے خاندانی رہائش گاہ کو تحویل میں لیا۔ نیب نے صبیحہ عباس اور شہباز شریف کے نام جائیداد کے کاغذات قبضے میں لیے۔ رمضان شوگر ملز اور چوہدری شوگر ملز کو مذموم مقاصد کے تحت کام کی اجازت دی گئی، چوہدری شوگر ملز سے 110 ملین اور رمضان شوگر ملز 5 ملین روپے نکلوا لیے گئے۔

    نواز شریف نے کہا کہ شوگر ملز سے نکلوائی گئی رقم واپس نہیں کی گئی۔ جلا وطنی کے بعد واپسی پر نیب کے اقدامات کے خلاف عدالت سے رجوع کیا، لاہور ہائیکورٹ نے نیب کے اقدامات کو کالعدم قرار دیا۔

    انہوں نے کہا کہ یہ کہنا درست نہیں کہ سعودی عرب میں ہمارے پاس وسائل یا پیسہ نہیں تھا، حقیقت یہ ہے کہ میرے والد نے انتظام کیا اور خاندان کے افراد کی ضروریات پوری کی۔

    اپنے بیان میں نواز شریف نے قطری شہزادے کے خطوط سے اظہار لاتعلقی کردیا۔ انہوں نے کہا کہ میرا نام کہیں کسی بھی دستاویز میں نہیں۔

    انہوں نے کہا کہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے 10 والیم محض ایک تفتیشی رپورٹ ہے، جے آئی ٹی کی رپورٹ قابل قبول شہادت نہیں۔ میرے ٹیکس ریکارڈ کے علاوہ کسی دستاویز کا گواہ نہیں۔

    نواز شریف کا کہنا تھا کہ میرے خلاف شواہد میں ایم ایل ایز پیش کیے گئے، سعودی عرب سے ایم ایل اے کا کوئی جواب ہی نہیں آیا تھا۔ متحدہ عرب امارات سے آنے والا ایم ایل اے کا جواب درست مواد پر مبنی نہیں۔

    سابق وزیر اعظم نے 151 سوالوں میں سے 90 سوالات کے جوابات قلبند کروا دیے۔ ان کے تحریری بیان کو ریکارڈ کا حصہ بنادیا گیا۔

    احتساب عدالت نے العزیزیہ ریفرنس کی مزید سماعت کل تک ملتوی کردی۔

    گزشتہ روز نواز شریف نے عدالت کی جانب سے دیے گئے 50 میں 45 سوالوں کے جوابات پر مبنی اپنا بیان قلمبند کروایا تھا، بقیہ سوالات کے جوابات آج قلمبند کروائے گئے۔

    عدالت نے کل 101 سوالات پر مبنی ایک اور سوالنامہ نواز شریف کے وکیل کو فراہم کیا تھا۔

    نواز شریف نے کل اپنا بیان ریکارڈ کرواتے ہوئے قومی اسمبلی میں خطاب کے سوال پر ایک مرتبہ پھر استثنیٰ طلب کیا تھا۔

    نواز شریف نے کہا تھا کہ قومی اسمبلی میں کی گئی تقریر کسی عدالت کے سامنے نہیں پیش کی جاسکتی، آئین کے آرٹیکل 66 کے تحت قومی اسمبلی میں کی گئی تقریرکو استثنیٰ حاصل ہے، ’میں نے قومی اسمبلی میں جو تقریر کی وہ کچھ دستاویزات کی بنیاد پر کی‘۔

    نواز شریف نے سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ کبھی نہیں کہا کہ گلف اسٹیل مل، العزیزیہ یا دبئی فیکٹری کا مالک ہوں۔ میرا گلف اسٹیل ملز کے کیے گئے معاہدوں سے کوئی تعلق نہیں رہا۔

    انہوں نے کہا کہ العزیزیہ اسٹیل مل میرے والد مرحوم نے قائم کی تھی، میرا کسی حیثیت میں بھی خاندانی کاروبار سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

    سابق وزیر اعظم نے یہ بھی کہا تھا کہ انہوں نے عدالت میں ٹیکس ریٹرنز، ویلتھ اسٹیٹمنٹ اور ویلتھ ٹیکس ریٹرن جمع کروائے تھے۔ ’حسین نواز کے جمع ٹیکس سے متعلق جواب دینے کا میں مجاز نہیں‘۔

    یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے احتساب عدالت کو سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ ریفرنسز کا ٹرائل مکمل کرنے کے لیے 17 نومبر تک کی مہلت دے رکھی ہے۔

  • العزیزیہ ریفرنس: نواز شریف نے قومی اسمبلی میں خطاب پر ایک مرتبہ پھر استثنیٰ مانگ لیا

    العزیزیہ ریفرنس: نواز شریف نے قومی اسمبلی میں خطاب پر ایک مرتبہ پھر استثنیٰ مانگ لیا

    اسلام آباد: وفاقی دارالحکومت کی احتساب عدالت میں العزیزیہ ریفرنس کی سماعت کے دوران سابق وزیر اعظم نواز شریف نے 45 سوالوں کے جوابات پر مبنی اپنا بیان قلمبند کروا دیا۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ ریفرنس کیس کی سماعت ہوئی۔ سماعت احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک نے کی۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف نے عدالت میں پیش ہو کر اپنا بیان قلمبند کروایا۔

    دریں اثنا نواز شریف نے قومی اسمبلی میں کیے گئے خطاب پر ایک مرتبہ پھر استثنیٰ مانگ لیا۔ سماعت کے موقع پر مسلم لیگ ن کے کئی رہنما نواز شریف کے ساتھ روسٹرم کے قریب موجود رہے۔

    بیان سے قبل نواز شریف کے وکیل زبیر خالد نے چند سوالوں میں درستی کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ تین تین سوالوں کو ملا کر ایک سوال بنایا گیا ہے، جس پر جج نے کہا کہ کوئی مسئلہ نہیں، ایک ایک کرتے تو 200 سوال بن جاتے۔

    نواز شریف نے 342 کے تحت بیان قلمبند کرواتے ہوئے کہا کہ یہ درست ہے وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ، وزیر خزانہ اور اپوزیشن لیڈر رہا۔ پرویز مشرف نے 12 اکتوبر 1999 کو مارشل لا لگایا، مارشل لا کے دوران کوئی عوامی عہدہ نہیں رکھتا تھا۔

    مزید پڑھیں: نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت

    عدالت نے استفسار کیا کہ آپ عوامی عہدوں پر رہنے کے باعث شریف خاندان کے سب سے با اثر شخص تھے۔ نواز شریف نے کہا کہ تفتیش کی رائے تھی کہ میں شریف خاندان کا سب سے بااثر شخص تھا، والد بھی آخری سانس تک ہمارے خاندان کے سب سے بااثر شخص تھے۔

    انہوں نے کہا کہ درست ہے عدالت میں پیش دستاویزات میں نے ہی جمع کروائے تھے، ٹیکس ریٹرنز، ویلتھ اسٹیٹمنٹ اور ویلتھ ٹیکس ریٹرن جمع کروائے تھے۔ سنہ 2001سے 2008 تک میں جلا وطن تھا۔ ’حسین نواز کے جمع ٹیکس سے متعلق جواب دینے کا میں مجاز نہیں‘۔

    بیان کے دوران معاون وکیل نے استدعا کی کہ میاں صاحب بیٹھ جائیں ہم جواب تحریر کروا دیتے ہیں، جج نے نواز شریف سے کہا کہ اپنے جواب کی کاپی مجھے دیں میں پڑھ لیتا ہوں۔ کاپی لیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جس جواب میں کوئی بات سمجھ نہیں آئی تو میں پوچھ لوں گا۔

    آج کی سماعت میں نواز شریف نے دیے گئے 50 سوالات میں سے 45 کے جوابات قلمبند کروادیے۔ انہوں نے استدعا کی کہ مزید جوابات خواجہ حارث سے مشاورت کے بعد دوں گا، کچھ سوالات پیچیدہ ہیں، ریکارڈ دیکھنا پڑے گا۔

    بعد ازاں عدالت پہنچ کر نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے نواز شریف کے جوابات کا جائزہ لیا۔ انہوں نے جوابات میں تبدیلی کی کوشش کی تو جج نے کہا کہ تبدیلی نہ کروائیں جو ملزم نےلکھ دیا بس وہ درست ہے، ’آپ درستگی کریں گے تو پھر یہ آپ کا بیان ثابت ہوگا‘۔

    خواجہ حارث نے سوال نمبر 16 پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ ایک سوال میں 2 سوالات کیے ہیں، اگلے 4 سوالوں میں بھی وہی بات دہرائی گئی ہے۔ ہل میٹل اکاؤنٹ میں ڈیبٹ اور کریڈٹ کے بارے میں پوچھا گیا۔

    انہوں نے استدعا کی کہ اس کو ایک ہی سوال کرلیا جائے، جج نے کہا کہ گواہوں کے نام لکھ لیتے ہیں جن کے اکاؤنٹس سے ڈیبٹ اور کریڈٹ ہوئی ہے۔

    نواز شریف نے قومی اسمبلی میں خطاب کے سوال پر ایک مرتبہ پھر استثنیٰ مانگتے ہوئے کہا کہ قومی اسمبلی میں کی گئی تقریر کسی عدالت کے سامنے نہیں پیش کی جاسکتی، آئین کے آرٹیکل 66 کے تحت قومی اسمبلی میں کی گئی تقریرکو استثنیٰ حاصل ہے، میں نے جو قومی اسمبلی میں تقریر کی وہ کچھ دستاویزات کی بنیاد پر کی۔

    نواز شریف نے سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ کبھی نہیں کہا کہ گلف اسٹیل مل، العزیزیہ یا دبئی فیکٹری کا مالک ہوں، میرا گلف اسٹیل ملزکے کیے گئے معاہدوں سے کوئی تعلق نہیں رہا، العزیزیہ اسٹیل مل میرے والد مرحوم نے قائم کی تھی، میرا کسی حیثیت میں بھی خاندانی کاروبار سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ انھوں نے کہا کہ قوم سے خطاب میں کبھی نہیں کہا کہ العزیزیہ اسٹیل کی فروخت سےمیراتعلق ہے، میرا بیان ذاتی معلومات پر مشتمل نہیں تھا۔

    سماعت کے اختتام پر عدالت نے مزید 101 سوالات نواز شریف کے وکیل کو فراہم کردیے۔ احتساب عدالت نے کیس کی مزید سماعت کل تک ملتوی کردی۔ کل بھی نواز شریف کا 342 کا بیان ریکارڈ کیا جائے گا۔

    یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے احتساب عدالت کو سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ ریفرنسز کا ٹرائل مکمل کرنے کے لیے 17 نومبر تک کی مہلت دے رکھی ہے۔

  • ڈڈوچہ ڈیم کیس: پنجاب حکومت کا ڈیم کی فوری تعمیر سے انکار

    ڈڈوچہ ڈیم کیس: پنجاب حکومت کا ڈیم کی فوری تعمیر سے انکار

    اسلام آباد: سپریم کورٹ میں ڈڈوچہ ڈیم کی تعمیر سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ پنجاب حکومت نے ڈیم کی فوری تعمیر سے انکار کر دیا، پنجاب حکومت 2 سال میں ڈیم تعمیر کرے گی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں ڈڈوچہ ڈیم کی تعمیر سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کی۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ڈیم سے متعلق پنجاب کابینہ کے جواب کے حوالے سے استفسار کیا۔

    ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ پنجاب حکومت نے ڈیم کی تعمیر سے انکار کر دیا، پنجاب حکومت 2 سال میں ڈیم تعمیر کرے گی۔

    چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عدالت نے کہا تھا معاملہ کابینہ کے سامنے رکھیں، آپ نے خود ہی انکار کیسے کردیا۔

    انہوں نے کہا کہ ہم نے ہدایت کی تھی کہ پنجاب حکومت بحریہ ٹاؤن سے ڈیم تعمیر کروانے پر غور کرے، پہلے بھی سیکریٹری ایری گیشن نے فضول بہانے بنائے، انہوں نے عدالتی حکم کی خلاف ورزی کی۔

    چیف جسٹس نے حکم دیا کہ پنجاب کابینہ ڈیم کے حوالے سے 15 دن میں جواب دے، صرف پیسوں کے لیے بہانے بنائے جا رہے ہیں۔ ان لوگوں کو اپنا حصہ چاہیئے۔

    سپریم کورٹ نے کیس کی مزید سماعت 6 دسمبر تک ملتوی کردی۔

    یاد رہے ستمبر میں چیف جسٹس نے ڈڈوچہ ڈیم کی تعمیر سے متعلق کیس میں فوری طور پر پنجاب کابینہ سے ڈیم کی منظوری لینے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ زیادہ وقت نہیں دیں گے پہلے ہی معاملے میں تاخیر کی گئی۔

    بعد ازاں عدالت کو بتایا گیا کہ حکومت پنجاب نے نجی کمپنی سے ڈیم تعمیر کروانے سے انکار کردیا ہے۔

    عدالت نے استفسار کیا تھا کہ ڈیم کی تعمیر میں کتنا وقت لگے گا؟ پنجاب حکومت کے وکیل نے جواب دیا تھا کہ دو سال میں ڈیم مکمل کرلیں گے، جس پر عدالت نے فوری طور پر ڈیم کی تعمیر کے مراحل اور ڈیٹ وائز پلان جمع کروانے کا حکم دیا تھا۔

  • خواجہ سعد رفیق کی عبوری ضمانت میں 26 نومبر تک توسیع

    خواجہ سعد رفیق کی عبوری ضمانت میں 26 نومبر تک توسیع

    لاہور: صوبہ پنجاب کی لاہور ہائیکورٹ نے مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ سعد رفیق اور ان کے بھائی خواجہ سلمان رفیق کی ضمانت میں 26 نومبر تک 10 روز کی توسیع کردی۔

    تفصیلات کے مطابق سابق وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق اور ان کے بھائی سلمان رفیق پیراگون ہاؤسنگ کرپشن اسکینڈل کے سلسلے میں لاہور ہائیکورٹ میں پیش ہوئے۔ خواجہ برادران نے عبوری ضمانت میں مزید توسیع کی درخواست دی۔

    خواجہ سعد رفیق اور ان کے بھائی نے ممکنہ گرفتاری سے بچنے کے لیے لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی تھی جس پر عدالت نے دونوں کی 24 اکتوبر تک عبوری ضمانت منظور کرتے ہوئے 5، 5 لاکھ روپے کے مچلکے جمع کروانے کا حکم دیا تھا، بعد ازاں اس ضمانت میں 14 نومبر، اور آج ایک بار پھر 24 نومبر تک توسیع کردی گئی۔

    دوسری جانب ذرائع کا کہنا ہے کہ زیر تفتیش پیرا گون ہاؤسنگ سوسائٹی کیس میں اہم پیش رفت ہوئی ہے، قومی احتساب بیورو (نیب) لاہور نے پیراگون سوسائٹی کے اہم گواہ کا بیان ریکارڈ کر لیا ہے۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ گواہ نے دستاویزی شواہد کے ساتھ تفتیشی افسر کو اپنا بیان ریکارڈ کروا دیا، بیان ریکارڈ کروانے والے شخص کا تعلق گلبرگ لاہور سے ہے جبکہ گواہ بیرون ملک مقیم بھی رہا۔

    ذرائع کے مطابق نیب لاہور نے بیان ریکارڈ کروانے والے کو 7 نومبر کو خط لکھ کر طلب کیا تھا۔

    یاد رہے کہ آشیانہ ہاؤسنگ سوسائٹی کی تحقیقات میں انکشاف ہوا تھا کہ وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کے پیراگون سوسائٹی سے براہ راست روابط ہیں، پنجاب لینڈ ڈویلپمنٹ کمپنی کے ذریعے آشیانہ اسکیم لانچ کی گئی تھی۔

    بعد ازاں خواجہ برادران سے قومی احتساب بیورو (نیب) کے افسران نے ایک گھنٹہ تک پوچھ گچھ کی تھی۔ نیب کی 3 رکنی تحقیقاتی ٹیم نے خواجہ سعد رفیق اور سلمان رفیق سے الگ الگ تحقیقات کی جس دوران وہ افسران کو مطمئن نہیں کرسکے تھے۔

    خواجہ سعد رفیق اور ان کے بھائی نے ممکنہ گرفتاری سے بچنے کے لیے لاہور ہائیکورٹ میں درخواست بھی دائر کی تھی۔

  • اسحٰق ڈار کے خلاف اثاثہ جات ریفرنس کی سماعت 22 نومبر تک ملتوی

    اسحٰق ڈار کے خلاف اثاثہ جات ریفرنس کی سماعت 22 نومبر تک ملتوی

    اسلام آباد: سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے خلاف آمدنی سے زائد اثاثہ جات کے ضمنی ریفرنس کی سماعت کے دوران شریک ملزم سابق صدر نیشنل بینک سعید احمد عدالت میں پیش ہوئے۔

    تفصیلات کے مطابق سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے خلاف آمدنی سے زائد اثاثہ جات کے ضمنی ریفرنس پر سماعت ہوئی۔ سماعت احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے کی۔

    سماعت کے دوران شریک ملزم سابق صدر نیشنل بینک سعید احمد عدالت میں پیش ہوئے۔ وکیل نے کہا کہ استغاثہ کے گواہ طارق جاوید میرے مؤکل سے متعلقہ نہیں۔

    عدالت نے آئندہ سماعت پر استغاثہ کے مزید 2 گواہ طلب کر لیے۔ ریفرنس کی مزید سماعت 22 نومبر تک ملتوی کردی گئی۔

    گزشتہ سماعت پر گواہ طارق جاوید نے عدالت کو بتایا تھا کہ نیب نے براہ راست مجھے کوئی خط نہیں لکھا جس پر وکیل قاضی مصباح نے سوال کیا کہ کیا 23 اگست 2017 کو آپ 6 بار نیب آفس گئے تھے؟

    استغاثہ کے گواہ نے جواب دیا کہ نہیں، میں اس دن ایک بار نیب آفس گیا تھا۔ پراسیکیوٹر نیب نے کہا کہ ان کا ازخود بیان نکال دیتے ہیں، کنفیوژن پیدا کررہا ہے۔

    احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے کہا تھا کہ از خود بیان ہونا ہی نہیں چاہیئے اس کی جگہ ری ایگزامن ہونا چاہیئے۔ قاضی مصباح نے کہا تھا کہ جرح میں گواہ نے صرف وہی بتانا ہوتا ہے جو اس سے پوچھا جائے۔

    یاد رہے کہ اس سے قبل پراسیکیوٹر نیب عمران شفیق اسحٰق ڈار کے اثاثوں پر تعمیلی رپورٹ عدالت میں جمع کروا چکے ہیں۔

    نیب کے مطابق اسحٰق ڈار کے بینک اکاؤنٹس اور موجود رقم کی تفصیلات پنجاب حکومت کو فراہم کردی گئی تھی۔ نیب کا کہنا ہے کہ اسحاق ڈار اور ان کی کمپنیوں کے اکاؤنٹس میں 5 کروڑ 83 لاکھ سے زائد رقم موجود ہے۔

    عدالت میں اسحٰق ڈار، ان کی اہلیہ اور بیٹے کے 3 پلاٹوں کی قرقی کی تعمیلی رپورٹ بھی جمع کروائی جا چکی ہے۔ تفتیشی افسر نادر عباس نے بتایا کہ اسحٰق ڈار کی گاڑیاں تحویل میں لینے کے لیے رہائش گاہ پر کارروائی کی گئی، اسحٰق ڈار کی رہائش گاہ پر گاڑیاں موجود نہیں تھیں۔ گاڑیوں کی تلاش کی کوشش جاری ہے۔

    انہوں نے بتایا تھا کہ اسحٰق ڈار اور اہلیہ کے شیئرز کی قرقی سے متعلق ایس ای سی پی رپورٹ کا انتظار ہے۔ رپورٹ ملنے کے بعد عدالت کو آگاہ کریں گے۔

    انہوں نے بتایا کہ موضع ملوٹ اسلام آباد میں واقع 6 ایکڑ اراضی فروخت کی جاچکی ہے، اراضی کیس کی تفتیش شروع ہونے سے پہلے فروخت کی جاچکی ہے۔

    رپورٹ میں کہا گیا کہ اسحٰق ڈار کا گلبرگ 3 لاہور میں گھر بھی صوبائی حکومت کی تحویل میں دے دیا گیا جبکہ اسحٰق ڈار کے اکاؤنٹس میں موجود رقم صوبائی حکومت کی تحویل میں دے دی گئی۔

  • نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت

    نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت

    اسلام آباد: احتساب عدالت میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت ہوئی جس میں تفتیشی افسر محمد کامران کا بیان قلمبند کیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس پر سماعت ہوئی۔ سماعت احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک نے کی۔ سماعت میں تفتیشی افسر محمد کامران کا بیان قلمبند کیا گیا۔

    کمرہ عدالت میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے ہمراہ مسلم لیگ ن کے رہنما شاہد خاقان عباسی، اقبال ظفر جھگڑا، راجہ ظفر الحق، طارق فضل چوہدری، مریم اورنگزیب، طارق فاطمی اور آصف کرمانی بھی موجود رہے۔

    تفتیشی افسر نے اپنے بیان میں کہا کہ کمپنیز ہاؤس لندن میں حسن نواز کی کمپنیوں کے ریکارڈ کے لیے درخواست دی۔ ریکارڈ کی فراہمی کے لیے ادا کی گئی فیس ضمنی ریفرنس کا حصہ ہے۔ کمپنیز ہاؤس میں حسن نواز کی 10 کمپنیوں کے ریکارڈ کے لیے درخواست دی۔

    تفتیشی افسر نے نواز شریف کے صاحبزادے حسن نواز کی کمپنیوں کی ملکیتی جائیداد کی تفصیلات پیش کردیں۔ تفصیلات پیش کرتے ہوئے تفتیشی افسر نے کہا کہ حسن نواز کی 18 کمپنیوں کے نام پر 17 فلیٹس اوردیگرپراپرٹیز ہیں۔

    تفتیشی افسر کی جانب سے پیش کی جانے والی تفصیلات کے جواب میں وکیل صفائی نے کہا کہ پیش کردہ تفصیلات قانون شہادت کے تحت قابل قبول شہادت نہیں ہیں۔

    تفتیشی افسر نے کہا کہ کمپنیز ہاؤس، ایچ ایم لینڈ رجسٹری کو ریکارڈ دینے کی درخواست کی، درخواست پر اپنا ایڈریس پاکستانی ہائی کمیشن لندن کا دیا۔ ٹیلی فون پر متعلقہ محکموں سے ریکارڈ کے لیے پیروی کی۔

    مزید پڑھیں: فلیگ شپ ریفرنس کی گزشتہ سماعت

    انہوں نے کہا کہ 24 اگست 2017 کو ڈائریکٹر نیب راولپنڈی کے ساتھ ہائی کمیشن گیا۔ قونصل اسسٹنٹ ذکی الدین نے 12 سر بمہر لفافے لا کر دیے۔ لفافے راؤ عبد الحنان کے دفتر سے لا کر دیے گئے تھے۔ راؤ عبد الحنان ہائی کمیشن میں بطور قونصل اتاشی تعینات تھے۔

    تفتیشی افسر نے بتایا کہ کمپنیز ہاؤس سے بھیجے گئے لفافے ویزا اتاشی کے دفتر میں کھولے، راؤ عبد الحنان نے بتایا دستاویزات کی پہلے تصدیق ضروری ہے۔ راؤ عبدالحنان نے دستاویزات اسی دن واپس کردی۔

    اس کے جواب میں نواز شریف کے وکلا نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ یہ زبانی کہانی سنا رہے ہیں۔

    تفتیشی افسر نے مزید کہا کہ دستاویزات کی تصدیق کے بعد واپس ہائی کمیشن گیا، تصدیق کے بعد راؤ عبدالحنان کا بیان قلم بند کیا۔

    نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس پر مزید سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔ تفتیشی افسر کا بیان آج بھی مکمل نہ ہو سکا اور وہ کل بھی اپنا بیان جاری رکھیں گے۔

    واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے احتساب عدالت کو سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ ریفرنسز کا ٹرائل مکمل کرنے کے لیے 17 نومبر تک کی مہلت دے رکھی ہے۔

  • کوہستان ویڈیو اسیکنڈل: عدالت کا 4 ہفتے میں تحقیقات مکمل کرنے کا حکم

    کوہستان ویڈیو اسیکنڈل: عدالت کا 4 ہفتے میں تحقیقات مکمل کرنے کا حکم

    اسلام آباد: کوہستان ویڈیو اسیکنڈل کیس کی سماعت کے دوران ایڈیشنل ایڈووکیٹ خیبر پختونخواہ نے دشوار گزار راستوں کا عذر پیش کرتے ہوئے مزید تحقیقات کے لیے 2 ماہ کی مہلت طلب کی تاہم عدالت نے انہیں 4 ہفتے کا وقت دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضلع کوہستان میں غیرت کے نام پر 4 لڑکیوں کے قتل کے کیس کی سماعت سپریم کورٹ میں ہوئی۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ خیبر پختونخواہ نے عدالت کو بتایا کہ فوٹیج میں نظر آنے والی لڑکیوں کی شناخت نہیں ہوسکی۔

    انہوں نے کہا کہ جدید آلات کے فقدان کے باعث لڑکیوں کو شناخت نہ کر سکے، بنائی گئی ویڈیو کی کوالٹی ناقص ہے۔ چہرے کے خدوخال بھی واضح نہیں۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ پنجاب فرانزک لیب کو ویڈیو بھیجنے کا حکم دیا تھا۔ پنجاب فرانزک لیب کے پاس جدید آلات ہیں جس پر ایڈیشنل ایڈووکیٹ نے بتایا کہ پنجاب نہیں پشاور فرانزک لیب نے معائنہ کیا۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ بورڈ میں 2 افراد نے کہا ویڈیو میں نظر آنے والی وہی لڑکیاں ہیں جنہیں قتل کیا گیا جبکہ ایک رکن نے مخالفت کی۔ پشاور فرانزک لیب کوئی نتیجہ اخذ نہ کر سکی۔

    انہوں نے دریافت کیا کہ ایف آئی آر اور تحقیقات کا حکم دیا تھا اس کا کیا بنا؟ ایڈیشنل ایڈووکیٹ نے بتایا کہ 4 میں سے 2 لڑکیوں کے شناختی کارڈ بنے ہوئے تھے۔ ان کے فنگر پرنٹس نادرا کو بھیجے، تاہم نادرا کے ڈیٹا کے ساتھ فنگر پرنٹس کی مطابقت نہیں تھی۔

    ایڈیشنل ایڈووکیٹ نے کہا کہ تحقیقات میں دشواریاں ہیں، متعلقہ علاقے تک پہنچنے کے لیے 6 گھنٹے کی مسافت ہے۔ مقامی افراد سے معلومات اکھٹی کیں تاہم ابھی سراغ نہیں ملا۔

    انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ تحقیقات کو مزید آگے بڑھانے کے لیے 2 ماہ کا وقت دے دیں۔

    عدالت نے ان کی استدعا مسترد کرتے ہوئے کہا کہ 4 ہفتے میں تحقیقات مکمل کر کے رپورٹ پیش کریں۔ کیس کی مزید سماعت 4 ہفتوں تک ملتوی کردی گئی۔

    یاد رہے کہ سنہ 2012 میں ایک ویڈیو منظر عام پر آئی تھی جس میں ایک شادی کی تقریب میں کچھ لڑکیوں کو رقص کرتے اور تالیاں بجاتے دیکھا جاسکتا تھا۔ ان لڑکیوں کے بارے میں اطلاعات موصول ہوئیں کہ ان کا تعلق کوہستان سے ہے اور انہیں قتل کردیا گیا ہے جس کے بعد سپریم کورٹ نے واقعہ کا از خود نوٹس لے لیا تھا۔

    از خود نوٹس لینے کے بعد سپریم کورٹ نے ڈی پی او کوہستان کو لڑکیوں کے قتل کی ایف آئی آر درج کر کے فی الفور مقدمہ کی تفتیش شروع کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔

    عدالت کا کہنا تھا کہ مقدمہ کی حقیقت جاننے کے لیے 3 جے آئی ٹیز بنائیں گئیں، تاہم ہر مرتبہ دھوکہ دیا گیا۔ جے آئی ٹیز کے سامنے دھوکہ دہی کی گئی اور دوسری رشتہ دار لڑکیاں پیش کی گئیں۔

    کیس کی پیروی خواجہ اظہر ایڈووکیٹ کر رہے ہیں جبکہ سماجی کارکن فرزانہ باری اور کوہستان ویڈیو اسکینڈل کے مرکزی کردار افضل کوہستانی مقدمہ میں مدعی ہیں۔