Tag: عدم اعتماد

  • عدم اعتماد سے 2 ماہ پہلے ن لیگ سے ہمارے مذاکرات میں سب کچھ طے ہوا: راجہ ریاض

    عدم اعتماد سے 2 ماہ پہلے ن لیگ سے ہمارے مذاکرات میں سب کچھ طے ہوا: راجہ ریاض

    اسلام آباد: سابق اپوزیشن لیڈر اور ن لیگ کے رہنما راجہ ریاض نے کہا ہے کہ عدم اعتماد سے 2 ماہ پہلے ن لیگ سے ہمارے مذاکرات میں سب کچھ طے ہوا۔

    تفصیلات کے مطابق سابق اپوزیشن لیڈر اور ن لیگ کے رہنما راجہ ریاض نے اے آر وائی نیوز کو خصوصی انٹرویو میں کہا کہ عدم اعتماد سے 2 ماہ پہلے ن لیگ سے ہمارے مذاکرات میں سب کچھ طے ہوا، ہماری بات شہباز شریف اور رانا ثنااللہ سے ہوتی تھی پھر شہباز شریف فون پر نواز شریف کو بتاتے تھے، عدم اعتماد سے پہلے جو طے ہوا اس پر ہم اور وہ قائم ہیں۔

    راجہ ریاض نے کہا کہ ہم نے طے کیا ہوا تھا ہم نے پی ٹی آئی چیئرمین کو وزیراعظم نہیں رہنے دینا ہے، پی ٹی آئی چیئرمین ہماری عزت نہیں کرتا تھا اور اسکا سیکرٹری ہمارا فون نہیں سنتا تھا، اعظم خان اب وعدہ معاف گواہ بن گیا ہے وہ  پہلے فرعون بنا ہوا تھا۔

    انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی چیئرمین کی اتنی ہمت نہیں تھی کہ گھنٹی بجا کر اعظم خان کو میٹنگ میں بلا لے، اعظم خان تو پی ٹی آئی کے سینئر رہنما اسد عمر اور شاہ محمود قریشی کو لفٹ نہیں کرواتا تھا، پتا نہیں پی ٹی آئی چیئرمین کی کیا مجبوری تھی۔

    سابق اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ عدم اعتماد سے پہلے چیئرمین پی ٹی آئی کو سپورٹ نہیں تھی ان کے اوپر سے ہاتھ کھینچ لیا گیا تھا، ہمیں پتا چلا تھا کہ ایک جرنیل کے ذریعے ہمیں لاجز سے اٹھانے کی کوشش ہونی تھی، اس لئے سندھ ہاؤس چلے گئے۔

    ’’ پی ٹی آئی چیئرمین نے یہ کرنے کو کہا تھا لیکن ہمیں نہیں اٹھایا گیا تو اسکا مطلب ہے ہاتھ کھینچ لیا گیا تھا، جب ہمیں نہیں اٹھانے دیا گیا تو اسکا مطلب تھا عدم اعتماد کامیاب ہوجائےگی‘‘۔

    راجہ ریاض کا کہنا تھا کہ ہم نے تو کشتیاں جلا دی تھیں اور عدم اعتماد میں ووٹ ڈال کر نا اہل ہونے کو تیار تھے اس دن  ایوان میں بھی موجود تھا لیکن شہباز شریف نے ہمیں ووٹ دینے سے منع کر دیا۔

    ن لیگ رہنما راجا ریاض نے مزید کہا کہ شہبازشریف نے جس سے جو وعدہ کیا پورا کیا، میں ان کامشکور ہوں، لیکن ہمارے گروپ کے 8 لوگ ن لیگ کے علاوہ کہیں اور جانا چاہتے ہیں۔

  • ڈپٹی اسپیکر دوست مزاری کے خلاف عدم اعتماد لانے کا فیصلہ

    ڈپٹی اسپیکر دوست مزاری کے خلاف عدم اعتماد لانے کا فیصلہ

    لاہور: ڈپٹی اسپیکر دوست مزاری کے خلاف عدم اعتماد لانے کا فیصلہ کر لیا گیا۔

    ذرائع کے مطابق تحریک انصاف نے ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی دوست محمد مزاری کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈپٹی اسپیکر کے لیے واثق قیوم اور ملک تیمور کے نام زیر غور ہیں۔

    اسپیکر پنجاب اسمبلی کے لیے بھی مختلف ناموں پر غور کیا جا رہا ہے، جن میں میاں محمود الرشید، اسلم اقبال، زین قریشی اور عثمان بزدار کے نام شامل ہیں۔

    ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کالعدم قرار، پرویز الہٰی نئے وزیراعلیٰ‌ پنجاب ہوں‌گے

    محمد خان بھٹی پرنسپل سیکریٹری ٹو وزیر اعلیٰ پنجاب تعینات کر دیے گئے، نوٹیفکیشن بھی جاری ہو گیا۔

    واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے ڈپٹی اسپیکر دوست مزاری کی رولنگ غیر قانونی قرار دے دی تھی، جس کے بعد وزیر اعلیٰ پنجاب کے عہدے سے فارغ ہو گئے اور پرویز الہٰی وزیر اعلیٰ بن گئے۔

    نو منتخب وزیر اعلیٰ پنجاب نے گزشتہ روز حلف اٹھا لیا، صدر عارف علوی نے ایوان صدر اسلام آباد میں ان سے حلف لیا۔

    گزشتہ روز جب پرویز الہٰی سپریم کورٹ کے حکم پر وزیر اعلی پنجاب کاحلف اٹھانے گورنر ہاؤس پہنچے تو گورنر ہاؤس کے گیٹ بند ملے، پرویز الہٰی کو داخلے کی اجازت نہیں ملی، گورنر پنجاب بلیغ الرحمان نے پرویز الہٰی سے حلف لینے سے انکار کر دیا تھا۔

  • پاکستان میں تحریک عدم اعتماد کی تاریخ

    پاکستان میں تحریک عدم اعتماد کی تاریخ

    اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے اعلان نے سیاسی اور معاشی بحران کے شکار ملک میں مزید گرما گرمی کا ماحول پیدا کر دیا ہے ۔

    اپوزیشن کے اعلان سے سیاسی درجہ حرارت اچانک بڑھ چکا ہے ۔ سیاسی جوڑ توڑ ، ملاقاتیں ، حکومتی اور اپوزیشن جماعتوں میں توڑ پھوڑ کی خبریں بھی سامنے آنا شروع ہو گٸیں ہیں ۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی نمبر پورے ہونے کے دعوے کر رہی ہیں عدم اعتماد کی تحریک لاٸی جاتی ہے یا نہیں اور اگر ایسا ہوا تو اس کا انجام کیا ہو گا یہ آنے والے چند روز میں واضح ہو جائے گا ۔

    پاکستان میں عدم اعتماد کی تحریک کو تاریخ کے آٸینے میں دیکھا جاٸے تو ماضی میں یہ تحریکیں ناکامی کا ہی شکار ہوٸیں ۔ تاریخ میں پہلی بار تحریک عدم اعتماد 1782 میں برطانیہ کے وزیراعظم لارڈ نارتھ کے خلاف پیش ہوٸی ۔ انگلینڈ کے گیارہ وزراءاعظم کو عدم اعتماد کی تحریک کا سامنا کرنا پڑا ۔ اسی طرح انڈیا کے تین وزراءاعظم کو عدم اعتماد کی وجہ سے گھر جانا پڑا ۔ جن ممالک میں دو جماعتی جمہوریت راٸج ہے وہاں تو حکومت بآسانی ایسی تحریکوں کو ناکام بنا دیتی ہے مگر جن ممالک میں کثیر الجماعتی پارلیمنٹ ہو وہاں ایسی تحریکوں کی کامیابی مزید افراتفری کو جنم دیتی ہیں ۔ کم تعداد رکھنے والی چھوٹی جماعتیں مل کر اتحادی حکومت تشکیل دیتی ہیں جو بعد ازاں مزید ابتری کا باعث بنتی ہیں کیونکہ ہر سیاسی جماعت اپنے مقاصد کے لیے کام کرتی ہیں اس لیے اتحادی حکومتوں کا دورانیہ نسبتا کم ہوتا ہے ۔

    پاکستان میں تحریک عدم اعتماد کی تاریخ

    پاکستان کی تاریح میں دو وزراءاعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد آٸی ۔ محترمہ بے نظیر بھثو شہید کے خلاف 1989 اور شوکت عزیز کے خلاف 2006 میں ۔ یہ دونوں تحاریک ناکام ہوٸیں ۔ کہا جاتا ہے کہ بے نظیر بھٹو کے خلاف تحریک کو ناکام بنانے میں اس وقت کے وزیر اعلی پنجاب میاں نواز شریف کا بھی ہاتھ شامل تھا کیونکہ اگر تحریک کامیاب ہو جاتی تو غلام مصطفی جتوٸی وزیر اعظم بن جاتے جو شاید نواز شریف کے لیے قابل قبول نہ تھا ۔

    ماضی میں سپیکر قومی اسمبلی چوہدری امیر حسین کے خلاف دو بار تحریک عدم اعتماد آٸی مگر وہ ناکام ہی رہی ۔ موجودہ چیرمین سینٹ صادق سنجرانی کے خلاف بھی تحریک عدم اعتماد کامیاب نہ ہو سکی ۔ 1985 میں سپیکر فخر امام کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوٸی ۔ فخر امام نے اس وقت کے ڈکٹیٹر ضیاالحق کے فیورٹ اور خواجہ آصف کے والد خواجہ صفدر کو شکست دے کر کامیابی حاصل کی تھی لہذا چودہ ماہ بعد عدم اعتماد لاٸی گٸی جس میں فخر امام کو شکست ہوٸی اور انھیں جانا پڑا ۔

    سابق وزیراعلی پنجاب غلام حیدر واٸیں کےخلاف بھی عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہوٸی ۔ سابق وزیر اعلی بلوچستان ثنااللہ زہری نے تحریک عدم اعتماد آنے پر استعفی دے دیا تھا . آٸینی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر عدم اعتماد کی قرارداد بیس فیصد اراکین اسمبلی کے دستخط سے جمع کراٸی جاٸے تو سپیکر سات دن میں اس پر کاررواٸی مکمل کروانے کا پابند ہے ۔ قرارداد جمع ہونے کے بعد اجلاس بلانے اور ووٹنگ کروانے سمیت دیگر امور کو سات روز کے اندر مکمل کرنا سیکریٹیریٹ کی ذمہ داری ہے آٸین کے آرٹیکل 95 کے تحت وزیراعظم کو اعتماد کا ووٹ لینا لازمی ہے ۔

    پاکستان میں تحریک عدم اعتماد کی تاریخ

    آرٹیکل 95(2) کے مطابق قرارداد قومی اسمبلی میں پیش کیے جانے کے بعد تین دن سے پہلے یا سات دن کے بعد ووٹنگ نہیں ہو سکے گی ۔ آرٹیکل 95 کی شق 4 کے مطابق قرار داد کے قومی اسمبلی کی کل رکنیت کی اکثریت سے منظور ہو جانے پر وزیر اعظم اپنے عہدے پر فاٸز نہیں رہ سکتے ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر تحریک کامیاب ہو جاٸے تو نٸے وزیر اعظم کا انتخاب ہو گا اور ناکامی کی صورت میں چھ ماہ تک دوبارہ تحریک نہیں لاٸی جاسکتی ۔

    وزیر اعظم کے خلاف تحریک میں اوپن بیلیٹنگ جبکہ سپیکر اسمبلی یا چیرمین سینٹ کے خلاف خفیہ راٸے شماری کی جاتی ہے۔ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے ک عدم اعتماد کامیاب ہونے کی صورت میں صدر پاکستان چیف ایگزیکٹو کے چناؤپر سابق وزیر اعظم کو عبوری طور پر کام کرنے کی ہدایت کر سکتے ہیں۔

  • وزیراعظم کیخلاف عدم اعتماد، پیپلزپارٹی کا پی ٹی آئی کے5 ایم این ایز کی حمایت حاصل کرنے کا دعویٰ

    وزیراعظم کیخلاف عدم اعتماد، پیپلزپارٹی کا پی ٹی آئی کے5 ایم این ایز کی حمایت حاصل کرنے کا دعویٰ

    کراچی : پاکستان پیپلز پارٹی نے تحریک عدم اعتماد کے معاملے پر حکمران جماعت کے پانچ ایم این ایز کی حمایت حاصل کرنے کا دعویٰ کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے معاملے پر اہم پیش رفت سامنے آئی ، پاکستان پیپلز پارٹی نے دعویٰ کیا ہے کہ حکمران جماعت کے پانچ ایم این ایز نے حمایت کی یقین دہانی کرادی ہے۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے پانچ ایم این ایز کے نام صیغہ راز میں رکھے گئے ہیں۔

    ذرائع کے مطابق 5 حکومتی ایم این ایز نے بلاول کو استعفیٰ جمع کرادیا ہے ، بلاول بھٹواہم مرحلے پر5 حکومتی ایم این ایز کے نام سامنے لائیں گے۔

    یاد رہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ نواز (پی ایم ایل این) سمیت اپوزیشن جماعتیں وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کے اقدام کی حمایت حاصل کرنے کے لیے حکومتی اتحادیوں سے ملاقاتیں کر رہی ہیں۔

    گذشتہ روز یہ بات سامنے آئی تھی کہ حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے قومی اسمبلی کے 8 ارکان (ایم این اے) پارٹی چھوڑنے کے لیے تیار ہیں۔

    ذرائع نے بتایا تھا کہ یہ ایم این ایز پاکستان مسلم لیگ نواز (پی ایم ایل این) کے ٹکٹ پر اگلا الیکشن لڑیں گے۔

    ذرائع نے بتایا تھا کہ اراکین میں نصراللہ گھمن، عاصم نذیر، نواب شیر وسان، راجہ ریاض، ریاض فتیانہ، خرم شہزاد، غلام بی بی بھروانہ اور غلام محمد لالی شامل تھے۔

  • حمزہ شہبازکا لاہور ہائی کورٹ بنچ پراچانک عدم اعتماد کا اظہار

    حمزہ شہبازکا لاہور ہائی کورٹ بنچ پراچانک عدم اعتماد کا اظہار

    لاہور: مسلم لیگ ن کے رہنما اور پنجاب اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز نے لاہور ہائی کورٹ کے بنچ پر اچانک عدم اعتماد کا اظہار کردیا ، جس کے بعد بنچ نے ملزم کی درخواستِ ضمانت سننے سے معذرت کرلی۔

    تفصیلات کے مطابق حمزہ شہباز آج احتساب عدالت میں پیشی بھگت کر رمضان شوگر ملز، اثاثہ جات اور صاف پانی کیس میں عبوری ضمانت میں توسیع کے معاملے پر ہائی کورٹ پہنچنے ، سماعت کے دوران انہوں نے بنچ پر اچانک عدم اعتماد کا اظہار کیا جس کے سبب دو رکنی بینچ نےملزم کی درخواست ضمانت سننے سے معذرت کرتے ہوئے چیف جسٹس سےنیا بینچ تشکیل دینےکی سفارش کردی۔بنچ کی معذرت کے ساتھ حمزہ شہباز کی ضمانت میں بھی توسیع ہوگئی۔

    سماعت شروع ہوئی تو وکیل صفائی ایک گھنٹہ دلائل دیتے رہے ۔ پھر حمزہ شہباز اچانک کھڑے ہوئے اور کیس سننےوالےبینچ پرعدم اعتمادکااظہارکردیا۔ ملزم حمزہ شہبازنےکہا چیئرمین نیب کہتےہیں حمزہ شہبازکے لیے بینچ تبدیل کرایا، کیاچیئرمین نیب اتنا طاقتور ہے جو مرضی کا بنچ بنوا کر حمزہ شہباز کی ضمانت منسوخ کروا سکتا ہے۔ لہذا اس بینچ پر تحفظات ہیں۔

    حمزہ شہباز کی جانب سے عدم اعتماد کے اظہار پرجسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں دو رکنی نےحمزہ سماعت سےمعذرت کرلی اورچیف جسٹس سےمقدمہ سماعت کےلیےدوسری بینچ کوبھجوانےکی سفارش کردی۔

    فاضل ججز نے کہا کہ درخواست گزارنےچیئرمین نیب کےانٹرویوکی بنیادپر تحفظات کااظہارکیا،اب مزیدسماعت نہیں کرسکتے۔ نئی صورتحال میں حمزہ شہبازکی عبوری ضمانت میں غیرمعینہ مدت تک توسیع ہوگئی۔

    سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے حمزہ شہباز نے چیئرمین نیب کو شدید تنقید کا نشانہ بھی بنایا، ان کا کہنا تھا کہ عدالتیں کہہ چکی ہیں نیب سیاست زدہ ہوچکی ہے۔

    انہوں نے یہ بھی کہا کہ میں اپنی ذات کے لیے بات نہیں کررہا ، میں چاہتا ہوں کہ احتساب ہو تو سب کا ہو۔ میں نے اٹھارہ کروڑ ظاہر کیے ، چیئرمین نیب اب پارلیمانی کمیٹی سے بھاگ نہیں سکتے۔