Tag: عدم برداشت

  • سقراط کا فلسفہ اور ہمارا معاشرہ

    سقراط کا فلسفہ اور ہمارا معاشرہ

    ہر فرد اپنی استعداد اور اہلیت کے مطابق کائنات اور اپنی ذات میں غور و خوض کرتا ہے۔

    ہر مفکّر اور مدبّر زندگی اور اپنے معاشرے کے افراد سے متعلق ایک خاص نظریہ اور فلسفہ رکھتا ہے اور اپنے سلیقے ذوق اور معلومات کے مطابق خوشی و غم سے لے کر مرگ و زیست تک اپنے وجود کی تاویل و تفسیر کرتا ہے۔

    جب انسان حقائق کی تلاش میں نکلتا ہے تو اس کائنات کی کوئی شے بھی اس کے تخیّل کی دست رس سے باہر نہیں رہتی اور وہ سقراط بنتا ہے۔

    جہانِ فلسفہ و دنیائے معرفت کا یہ عظیم معلّم یونان میں قبل مسیح میں پیدا ہوا۔ اس کی ابتدائی زندگی کے بارے میں دنیا کچھ نہیں جانتی، لیکن‌ افلاطون اور مابعد فلاسفہ کے حوالے بتاتے ہیں کہ وہ اپنے وقت کا ایک دانا و حکیم اور روحانی بزرگ تھا۔ وہ فطرتاً اعلیٰ اخلاقی اوصاف کا حامل، حق پرست اور منصف مزاج استاد تھا جس نے مسلسل غور و فکر کے بعد آخر عمر میں دیوتاؤں کا انکار کردیا اور اسے ایتھنز کی عدالت نے 399 قبل مسیح میں موت کی سزا سنا دی تھی۔

    سقراط کی درس گاہ کا صرف ایک اصول تھا، اور وہ تھا برداشت، یہ لوگ ایک دوسرے کے خیالات تحمل کے ساتھ سُنتے تھے، سقراط اور اس کے حلقے میں شامل افراد بڑے سے بڑے اختلاف پر بھی ایک دوسرے سے نہیں الجھتے تھے۔

    کہتے ہیں کہ سقراط کی درس گاہ کا اصول تھا کہ اس کا جو شاگرد ایک خاص حد سے اونچی آواز میں بات کرتا یا پھر دوسرے کو گالی دے دیتا یا دھمکی دیتا یا جسمانی لڑائی کی کوشش کرتا، اسے فوراً درس گاہ سے نکال دیا جاتا تھا۔

    سقراط کا کہنا تھا برداشت سوسائٹی کی روح ہوتی ہے۔ سوسائٹی میں جب برداشت کم ہوجاتی ہے تو مکالمہ کم ہوجاتا ہے اور جب مکالمہ نہیں ہوتا ہے تو معاشرے میں وحشت بڑھ جاتی ہے۔

    بقول سقراط اختلاف، دلائل اور منطق پڑھے لکھے لوگوں کا کام ہے۔ یہ فن جب تک پڑھے لکھے عالم اور فاضل لوگوں کے پاس رہتا ہے اُس وقت تک معاشرہ ترقی کرتا ہے۔ لیکن جب مکالمہ یا اختلاف جاہل لوگوں کے ہاتھ آجاتا ہے تو پھر معاشرہ انارکی کا شکار ہوجاتا ہے۔

    سقراط کا مشہور قول ہے: “اور عالم اُس وقت تک عالم نہیں ہوسکتا جب تک اس میں برداشت نہ آجائے، وہ جب تک ہاتھ اور بات میں فرق نہ رکھے۔”

  • آپس کے جھگڑے کیسے ختم ہوں گے؟

    آپس کے جھگڑے کیسے ختم ہوں گے؟

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج برداشت اور رواداری کا اہم ترین عالمی دن منایا جا رہا ہے۔

    ایک طرف جہاں پاکستان سمیت دنیا بھر میں انسانوں کے مابین عدم برداشت کا رویہ تیزی سے پروان چڑھ رہا ہے، وہاں دوسری طرف انھیں آج کے دن یہ یاد دلایا جاتا ہے کہ برداشت اور رواداری ان ہی کی خصوصیات ہیں، جنھیں وہ بھلا بیٹھے ہیں۔

    اس دن (16 نومبر) کو بین الاقوامی سطح پر منانے کا مقصد معاشرے میں برداشت اور صبر و تحمل کی اہمیت اور عدم برداشت کے منفی اثرات سے آگاہی فراہم کرنا ہے، یہ دن ہمیں بتاتا ہے کہ عدم برداشت سے معاشرے میں تنازعات اور جھگڑے بڑھ رہے، اس لیے ہمیں کچھ دیر کے لیے رک کر اپنا احتساب کرنا چاہیے۔

    کیا ہم یہ سوچنے کے لیے تھوڑا سا وقت نکالنا پسند کریں گے، کہ ہم نے آخری مرتبہ کب اپنے کسی عزیز یا دوست کے ساتھ اختلاف رائے کیا تھا، اس وقت ہمارا رویہ کیا تھا، اور آخری مرتبہ ہم نے کب اپنے قریب رہنے والوں یا دفاتر میں دوسری زبان بولنے والوں کی ثقافت اور روایات سے متعلق کچھ معلوم کیا تھا؟

    اس اہم دن کے منانے کا آغاز بھی 1995 میں بہت سارے دیگر عالمی اور بین الاقوامی دنوں کی طرح اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے کیا، تاکہ ایسے تعلیمی ادارے بنائے جا سکیں جن کی مدد سے عام لوگ برادشت کو معاشرے کا اہم ترین عنصر سمجھنا شروع کریں۔

  • عدم برداشت کے خلاف لوگوں‌ کا مائنڈ سیٹ تبدیل کرنا ہوگا، مقررین

    عدم برداشت کے خلاف لوگوں‌ کا مائنڈ سیٹ تبدیل کرنا ہوگا، مقررین

    کراچی: مقررین نے کہا ہے کہ معاشرے میں عدم برداشت دن بدن بڑھتا جارہا ہے، ملک میں سماجی ہم آہنگی اور مذہبی رواداری کے فروغ کے لیے اقلیتوں کو ملک میں مساوی حقوق دینا ہوں گے،تعلیمی نظام میں مذہبی تفریق کو ختم کرنا ضروری ہے تاکہ پاکستان میں بسنے والی تمام اقلتیوں کے درمیان مذہبی ہم آہنگی اور بہتر تعلقات کو فروغ دیا جاسکے، عدم برداشت کے خاتمہ کے لیے سوسائٹی کے مائنڈ سیٹ کو تبدیل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

    ان خیالات کا اظہار پاکستان اسٹڈی سینٹر جامعہ کراچی کے سابق ڈائریکٹر ڈاکٹر سید جعفر احمد، سینئر صحافی وسعت اللہ خان،مذہبی اسکالر خورشید ندیم، اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق چیئرمین ڈاکٹر خالد مسعود، رومانہ بشیر، سید احمد بنوری، ڈاکٹرخالدہ غوث نے پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کی جانب سے ’’ سماجی ہم آہنگی اور مذہبی رواداری میں اساتذہ کا کردار‘‘ کے عنوان سے مقامی ہوٹل میں منعقدورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ورکشاپ کی صدارت سینئر صحافی غازی صلاح الدین نے کی۔

    ڈاکٹر جعفر احمد کا کہنا تھا کہ نظری ایشوز سے استاد معاشرے کی اور نصاب ریاست کی نمائندگی کررہا ہے، ہمارے معاشرے میں عدم برداشت بہت بڑھ گیا ہے، ریاستی آئین کے ذریعے معاشرے کو اسلامی بنانے کی کوشش ہوتی ہے, سماجی ہم آہنگی اور مذہبی رواداری ماضی کی نسبت اب نہ ہونے کے برابر ہے، ماضی میں لوگوں میں برداشت کامادہ موجودتھالیکن اب تحمل،بردباری،اقلیتوں کے ساتھ مذہبی رواداری کاعنصرختم ہوتاجارہا ہے۔

    عدم برداشت اور میڈیا کے کردار پر گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی وسعت اللہ خان کا کہنا تھا کہ آئین ہمیں بہت سارے بنیادی حقوق دیتا ہے، تعلیم،صحت،بولنے اور اظہار رائے کی آزادی کاحق آئین نے دیا کسی بھی ملک کی ریاست 100 فیصد اس کی پاسداری نہیں کرتی آئین بنانے والے ایک ہاتھ سے حقوق فراہم کرتے ہیں اور دوسرے ہاتھ سے اسے واپس بھی لے لیتے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ میڈیا ہر چیز کو سو فیصد ہائی لائٹ نہیں کرتا، میڈیا کو جو حقیقت میں نظر آرہا ہے وہ اسے بھی مکمل نہیں دکھاتا سچ سننے، کہنے اور بولنے کا حوصلہ نہ ہونے کی وجہ سے معاشرے میں مسائل بڑھ رہے ہیں، اقلیتوں کودرپیش مسائل پرکوئی بات کرنے کوتیار نہیں ہے۔

    رومانہ بشیر کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اقلیتوں کو سوئپر،پلمبر اور کلینر کی نوکریاں دی جاتی ہیں ملک میں کسی بھی اعلیٰ عہدوں پر انہیں ملازمتیں فراہم نہیں کی جاتی جس کی وجہ سے اقلیتوں میں احساس کمتری کاعنصرپایاجاتاہے، قائداعظم محمدعلی جناح نے 11 اگست کی آخری تقریر میں پاکستان کے تمام لوگوں کےلیے برابری کے حقوق کی بات کی، 70سال بعد بھی اقلیتوں کا سوال یہی ہے کہ ہمیں کب برابری کے حقوق ملیں گے۔

    اس موقع پر سابق چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل ڈاکٹر خالد مسعود کا کہنا تھا کہ اگر اسلام عالمگیر مذہب ہے تو اس میں گنجائش پیدا کرنا ہوگی، مسلم امہ کےلیے موجودہ فکری چیلنج یہ ہے کہ کیاآپ الگ رہناچاہتے ہیں یاساری دنیاکے ساتھ رہنے کو ترجیح دیں گے، ماضی میں لوگوں غیرمسلموں کے علاقوں سے مسلم آبادیوں کی جانب ہجرت کرتے تھے، آج صورتحال اس کے برعکس ہے،مذہبی منافرت کے خاتمہ کے لیے مل کر جدوجہد کرنا ہوگی۔

    ورکشاپ سے سینئر صحافی سبوخ سید،راناعامر،محمداسماعیل خان ودیگر نے بھی خطاب کیا۔

  • عدم برداشت معاشروں میں انتشار کی بڑی وجہ

    عدم برداشت معاشروں میں انتشار کی بڑی وجہ

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج عالمی یوم برداشت منایا جا رہا ہے۔

    سنہ 1995 سے یونیسکو کی جانب سے منظور کیے جانے والے اس دن کو منانے کا مقصد دنیا بھر میں رواداری اور برداشت کو فروغ دینا ہے۔ یہ دن دنیا بھر میں بڑھتے ہوئے غصے اور عدم برداشت سے معاشرے کو پہنچنے والے نقصانات سے آگاہی فراہم کرنے کا دن ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے مذہبی رواداری اور برداشت کو فروغ دیا جانا از حد ضروری ہے۔ ایک دوسرے کے عقائد اور مذاہب کا احترام کرنا آج کل کے دور کی اہم ضرورت بن گئی ہے۔

    ماہرین کی تجویز ہے کہ اس کا آغاز بچپن سے ہی کیا جائے اور بچوں کو برداشت کرنے کی تعلیم دی جائے۔

    بھارت میں عدم برداشت میں خطرناک حد تک اضافہ *

    برداشت اور رواداری زندگی گزارنے کا بنیادی اصول ہے اور معمولی باتوں پر غصہ پینے سے لے کر زندگی کے مختلف مرحلوں میں اختلافات کو برداشت کرنے تک کی تربیت گھروں اور اسکولوں سے دی جائے تب ہی ایک روادار معاشرے کی تشکیل ممکن ہے۔

    عمرانیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ آج کل معاشرے کے 90 فیصد مسائل کی جڑ برداشت نہ کرنا اور عدم رواداری ہے۔ عدم برداشت ہی کی وجہ سے معاشرے میں انتشار، بدعنوانیت، معاشرتی استحصال اور لاقانونیت جیسے ناسور پنپ رہے ہیں۔

    عدم برداشت انفرادی طور پر بھی لوگوں کو متاثر کرتا ہے اور لوگ بے چینی، جلد بازی، حسد، احساس کمتری اور ذہنی دباؤ کا شکار ہوجاتے ہیں۔ دنیا بھر میں مختلف نفسیاتی و ذہنی بیماریوں میں اضافے کی سب سے بڑی وجہ بھی عدم برداشت ہے۔

    دماغی امراض کے بارے میں 7 مفروضات اور ان کی حقیقت *

    دوسری جانب حال ہی میں کیے جانے والے ایک سروے کے مطابق کینیڈا دنیا کا روادار ترین ملک ہے جہاں مذہب سمیت تمام اختلافی پہلوؤں کو برداشت کیا جاتا ہے۔ عدم روادار ممالک میں ایک ملک بھارت بھی ہے جہاں اختلافات کو برداشت نہ کرتے ہوئے تشدد کا راستہ اختیار کرنے کا رجحان عروج پر ہے۔