Tag: عدیم ہاشمی

  • عدیم ہاشمی:‌ مشہور شاعر اور ڈرامہ نگار کی برسی

    عدیم ہاشمی:‌ مشہور شاعر اور ڈرامہ نگار کی برسی

    عدیم ہاشمی کی وجہِ شہرت شاعری اور ڈرامہ نگاری ہے۔ انھیں شعر و سخن کی دنیا میں اُن کے منفرد لب و لہجے نے مقبولیت دی اور ان کے تحریر کردہ ڈرامے بھی یادگار ثابت ہوئے۔

    ممتاز شاعر، ادیب اور ڈرامہ نگار عدیم ہاشمی 5 نومبر 2001ء میں شکاگو میں انتقال کرگئے تھے۔ عدیم ہاشمی کا اصل نام فصیح الدّین تھا۔ ان کا تعلق متحدہ ہندوستان کے شہر ڈلہوزی سے تھا جہاں عدیم ہاشمی یکم اگست 1946ء کو پیدا ہوئے۔ عدیم ہاشمی کی زندگی کا ایک عرصہ فیصل آباد میں گزرا۔ 1970ء میں وہ لاہور آگئے تھے۔ یہاں ان کا کلام ادبی جریدوں میں باقاعدگی سے چھپنے لگا اور وہ ادبی حلقوں میں جگہ بنانے کے ساتھ قارئین میں مقبول ہونے لگے۔ اس دوران انھوں نے ریڈیو اور ٹی وی کے لیے گیت نگاری بھی کی۔

    جدید اردو شعرا میں عدیم ہاشمی اپنے منفرد لب و لہجے کے سبب ممتاز ہوئے۔ ان کے متعدد شعری مجموعے شایع ہوئے جن میں ترکش، مکالمہ، فاصلے ایسے بھی ہوں گے، مجھے تم سے محبت ہے، چہرہ تمہارا یاد رہتا ہے، کہو کتنی محبت ہے سرفہرست ہیں۔

    پاکستان میں ٹیلی وژن کے ناظرین میں عدیم ہاشمی نے ایک ڈرامہ نویس کے طور پر بھی پہچان بنائی۔ ’’آغوش‘‘ ان کا تحریر کردہ وہ ڈرامہ تھا جسے ملک بھر میں ناظرین نے دیکھا اور بہت پسند کیا۔ اپنے وقت کی اس کام یاب ڈرامہ سیریل کے علاوہ عدیم ہاشمی نے مزاحیہ ڈرامہ سیریز گیسٹ ہاؤس کی چند کہانیاں‌ بھی تحریر کی تھیں۔

    عدیم ہاشمی کی ایک غزل بہت مشہور ہے جسے غلام علی کی آواز میں آج بھی بڑے ذوق و شوق سے سنا جاتا ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔

    فاصلے ایسے بھی ہوں گے یہ کبھی سوچا نہ تھا
    سامنے بیٹھا تھا میرے اور وہ میرا نہ تھا

    وہ کہ خوشبو کی طرح پھیلا تھا میرے چار سُو
    میں اسے محسوس کر سکتا تھا چھو سکتا نہ تھا

    رات بھر پچھلی سی آہٹ کان میں آتی رہی
    جھانک کر دیکھا گلی میں کوئی بھی آیا نہ تھا

    میں تری صورت لیے سارے زمانے میں پھرا
    ساری دنیا میں مگر کوئی ترے جیسا نہ تھا

    آج ملنے کی خوشی میں صرف میں جاگا نہیں
    تیری آنکھوں سے بھی لگتا ہے کہ تو سویا نہ تھا

    یاد کر کے اور بھی تکلیف ہوتی تھی عدیمؔ
    بھول جانے کے سوا اب کوئی بھی چارا نہ تھا

    عدیم ہاشمی کو امریکا کے شہر شکاگو کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • مقبول شاعر اور ڈرامہ نویس عدیم ہاشمی کی برسی

    مقبول شاعر اور ڈرامہ نویس عدیم ہاشمی کی برسی

    جدید اردو شاعری میں عدیم ہاشمی کو مقبول شعرا میں‌ شمار کیا جاتا ہے جن کے سادہ و دل کش انداز کو پڑھنے والوں نے بہت سراہا۔ آج عدیم ہاشمی کا یومِ وفات ہے۔ وہ2001ء میں وفات پاگئے تھے۔

    عدیم ہاشمی نے شاعر کے علاوہ ڈرامہ نویس کے طور پر بھی شہرت حاصل کی جب کہ ان کے تحریر کردہ ڈراموں کو بے انتہا مقبولیت ملی۔ پاکستان ٹیلی وژن کے لیے ان کا تحریر کردہ ڈرامہ سیریل ’’آغوش‘‘ آج بھی ناظرین کے ذہنوں میں‌ محفوظ ہے جس کے اداکاروں‌ کو بھی بہت شہرت اور پذیرائی ملی تھی۔ اس کے علاوہ پاکستان بھر میں‌ ٹیلی وژن کے ناظرین میں مقبول ہونے والے ڈرامہ سیریز گیسٹ ہاؤس کی بھی چند کہانیاں ان کی تحریر کردہ تھیں۔

    عدیم ہاشمی کا اصل نام فصیح الدّین تھا۔ وہ یکم اگست 1946ء کو فیروز پور(بھارت) میں پیدا ہوئے اور فیصل آباد میں زندگی کا ابتدائی عرصہ گزارا۔ بعد میں ان کا خاندان لاہور منتقل ہوگیا۔ اس دوران ان کا شعری سفر شروع ہوگیا اور لاہور آنے کے بعد ان کا کلام ادبی جریدوں میں باقاعدگی سے چھپنے لگا۔ عدیم ہاشمی نے متعدد گیت بھی لکھے جو ریڈیو اور ٹی وی پر پیش کیے گئے۔

    ان کی کتابیں ’’ترکش‘، ’مکالمہ‘، ’چہرہ تمہارا یاد رہتا ہے‘، ’فاصلے ایسے بھی ہوں گے‘ کے نام سے شایع ہوئیں‌۔

    عدیم ہاشمی امریکا کے شہر شکاگو میں مقیم تھے اور وفات کے بعد وہیں‌ ان کی تدفین کی گئی۔ ان کی یہ مشہور غزل آپ نے بھی سنی ہو گی۔

    فاصلے ایسے بھی ہوں گے یہ کبھی سوچا نہ تھا
    سامنے بیٹھا تھا میرے اور وہ میرا نہ تھا

    وہ کہ خوشبو کی طرح پھیلا تھا میرے چار سو
    میں اسے محسوس کر سکتا تھا چھو سکتا نہ تھا

    رات بھر پچھلی سی آہٹ کان میں آتی رہی
    جھانک کر دیکھا گلی میں کوئی بھی آیا نہ تھا

    میں تری صورت لیے سارے زمانے میں پھرا
    ساری دنیا میں مگر کوئی ترے جیسا نہ تھا

    آج ملنے کی خوشی میں صرف میں جاگا نہیں
    تیری آنکھوں سے بھی لگتا ہے کہ تو سویا نہ تھا

    یہ سبھی ویرانیاں اس کے جدا ہونے سے تھیں
    آنکھ دھندلائی ہوئی تھی شہر دھندلایا نہ تھا

    سیکڑوں طوفان لفظوں میں دبے تھے زیر لب
    ایک پتھر تھا خموشی کا کہ جو ہٹتا نہ تھا

    یاد کر کے اور بھی تکلیف ہوتی تھی عدیمؔ
    بھول جانے کے سوا اب کوئی بھی چارا نہ تھا

  • فاصلے ایسے بھی ہوں گے یہ کبھی سوچا نہ تھا؛ عدیم ہاشمی کی برسی

    فاصلے ایسے بھی ہوں گے یہ کبھی سوچا نہ تھا؛ عدیم ہاشمی کی برسی

    عدیم ہاشمی کی وجہِ شہرت ان کی شاعری اور ڈراما نگاری ہے۔ شعروسخن کی دنیا میں ان کے منفرد لب و لہجے نے انھیں‌ ہم عصرو‌ں میں ممتاز کیا اور اسی طرح ان کے لکھے ہوئے ڈرامے بھی بہت پسند کیے گئے اور یادگار ثابت ہوئے۔

    اردو کے اس ممتاز شاعر، ادیب اور ڈرامہ نگار کی زندگی کا سفر 5 نومبر 2001 کو تمام ہوا۔ وہ شکاگو میں‌ مقیم تھے۔ عدیم ہاشمی کا اصل نام فصیح الدین تھا۔ وہ یکم اگست 1946ء کو بھارت کے شہر ڈلہوزی میں پیدا ہوئے تھے۔

    عدیم ہاشمی کا شمار اردو کے جدید شعرا میں ہوتا ہے۔ ان کے متعدد شعری مجموعے شایع ہوئے جن میں ترکش، مکالمہ، فاصلے ایسے بھی ہوں گے، مجھے تم سے محبت ہے، چہرہ تمہارا یاد رہتا ہے، کہو کتنی محبت ہے سرفہرست ہیں۔

    وہ اچھے ڈراما نویس بھی تھے۔ عدیم ہاشمی نے پاکستان ٹیلی وژن کے لیے ڈراما سیریل ’’آغوش‘‘ تحریر کیا جسے ناظرین نے بہت پسند کیا۔ یہ اپنے وقت کی کام یاب ڈراما سیریل تھی۔ اس کے علاوہ انھوں نے مزاحیہ ڈراما سیریز گیسٹ ہائوس کی چند کہانیاں‌ بھی تحریر کیں۔

    عدیم ہاشمی کی ایک غزل بہت مشہور ہوئی جسے اپنے وقت کے مشہور گلوکاروں نے گایا۔ یہ غزل ملاحظہ کیجیے:

    فاصلے ایسے بھی ہوں گے یہ کبھی سوچا نہ تھا
    سامنے بیٹھا تھا میرے اور وہ میرا نہ تھا

    وہ کہ خوشبو کی طرح پھیلا تھا میرے چار سُو
    میں اسے محسوس کر سکتا تھا چھو سکتا نہ تھا

    رات بھر پچھلی سی آہٹ کان میں آتی رہی
    جھانک کر دیکھا گلی میں کوئی بھی آیا نہ تھا

    میں تری صورت لیے سارے زمانے میں پھرا
    ساری دنیا میں مگر کوئی ترے جیسا نہ تھا

    آج ملنے کی خوشی میں صرف میں جاگا نہیں
    تیری آنکھوں سے بھی لگتا ہے کہ تو سویا نہ تھا

    یاد کر کے اور بھی تکلیف ہوتی تھی عدیمؔ
    بھول جانے کے سوا اب کوئی بھی چارا نہ تھا

    عدیم ہاشمی امریکا کے شہر شکاگو میں‌ پاکستانیوں کے لیے مخصوص قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔