Tag: عربی ادب

  • لوگ اجنبیوں پر بھروسہ کرنا چھوڑ دیں گے!(عربی حکایت)

    لوگ اجنبیوں پر بھروسہ کرنا چھوڑ دیں گے!(عربی حکایت)

    ایک دفعہ کا ذکر ہے کسی قبیلے کا سردار اپنے گھوڑے پر سوار تنہا صحرا میں جا رہا تھا کہ اسے ایک شخص ریت میں دھنسا ہوا نظر آیا۔

    سردار نے گھوڑا روکا، نیچے اترا، اس شخص کے جسم پر سے ریت ہٹائی، تو معلوم ہوا کہ وہ جو کوئی بھی تھا، بے ہوش چکا تھا۔ سردار نے اسے ہلایا جلایا تو وہ نیم وا آنکھوں کے ساتھ پانی پانی پکارتے ہوئے کہنے لگا، پیاس سے میرا حلق اور میری زبان کسی سوکھے ہوئے چمڑے کی طرح اکڑ چکی ہے، اگر پانی نہ پیا تو مر جاؤں گا۔ سردار نے سوچا کہ وضع قطع سے اجنبی دکھائی دینے والا شخص، جو اردگرد کے کسی بھی قبیلے سے تعلق نہیں رکھتا، پتا نہیں کب سے یہاں بے یارو مددگار پڑا ہوا ہے، اس نے جلدی سے گھوڑے کی زین کے ساتھ لٹکی ہوئی چھاگل اتاری اور اس اجنبی کے ہونٹوں سے لگا کر اس کی پیاس بجھانے لگا۔

    اجنبی نے خوب سیر ہو کر پانی پیا۔ سردار کا شکریہ ادا کیا اور کہنے لگا، اے رحم دل شخص، میرا گھوڑا شاید کہیں بھاگ گیا ہے، کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ تم مجھ پر مزید احسان کرتے ہوئے اپنے ساتھ بٹھا کر کسی قریبی جگہ لے جاؤ، جہاں میں اپنی سواری کا بندوبست کرسکوں؟

    سردار نے خوش دلی سے کہا، ہاں کیوں نہیں۔ سردار گھوڑے پر سوار ہو کر اس اجنبی سے کہنے لگا، آجاؤ میرے پیچھے بیٹھ جاؤ، اجنبی بمشکل زمین سے اٹھا اور اٹھ کر دو تین بار گھوڑے پر سوار ہونے کی کوشش کی مگر ہر بار نقاہت کے باعث گر جاتا رہا۔ وہ سردار سے کہنے لگا، اس سنگ دل صحرا نے میرے جسم کی ساری طاقت نچوڑ لی ہے، براہِ کرم کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ آپ اتریں اور گھوڑے پر سوار ہونے میں میری مدد کریں۔

    سردار اتر کر اس اجنبی کو گھوڑے پر بٹھانے میں مدد کرنے لگا۔ اجنبی جیسے ہی گھوڑے پر سوار ہوا، اس نے ایک زور دار لات سردار کے پیٹ میں رسید کی اور گھوڑے کو ایڑ لگا کر بھگا لے گیا۔ سردار نے پیچھے سے آوازیں دیں، تو اس اجنبی شخص نے رک کر کہا، شاید تم خجالت محسوس کررہے ہو کہ ایک اجنبی کے ہاتھوں دھوکا کیسے کھا گیا۔ سنو میں ایک راہزن ہوں اور لٹیرے سے رحم کی بھیک مانگنا بے کار ہے، اس لیے چیخنے چلانے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔

    سردار نے جواب دیا کہ میں ایک قبیلے کا سردار ہوں، اور بھیک مانگنا یا رحم کی درخواست کرنا ایک سردار کی شان کے خلاف ہوتا ہے، میں فقط یہ کہنا چاہتا ہوں کہ بات میری شرمندگی کی نہیں ہے، بلکہ جب تم کسی منڈی میں اس گھوڑے کو فروخت کرنے جاؤ گے، تواس نایاب نسل کے گھوڑے کے متعلق لوگ ضرور پوچھیں گے، تو انہیں میرا بتانا کہ فلاں قبیلے کے فلاں سردار نے مجھے تحفتاً دیا تھا، کسی بھی محفل میں صحرا میں لاچار اور بے یارو مددگار شخص کا روپ دھار کر مدد حاصل کرنے کے بہانے لوٹنے کا قصہ مت سنانا۔ "ورنہ لوگ بے رحم صحراؤں میں مدد کے طلب گار اجنبیوں پر بھروسہ کرنا چھوڑ دیں گے۔”

    (عربی حکایت، مترجم: توقیر بُھملہ)

  • میں تو اُسی دن قتل ہوگیا تھا!

    میں تو اُسی دن قتل ہوگیا تھا!

    دنیا کی ہر تہذیب اور ثقافت میں ہمیں نصیحت آمیز قصّے اور دل چسپ داستانیں پڑھنے کو ملتی ہیں۔ ہماری دنیا کی ہر زبان کا ادب ایسی کہاوتوں اور حکایات سے مالا مال ہے جو دانایانِ رفتہ کے علم، ان کے تجربات اور مشاہدات کا نچوڑ ہیں اور ہمارے لیے سبق آموز۔

    عربی کی ایک مشہور کہاوت ہے ”میں تو اسی دن قتل ہو گیا تھا جس دن سفید بیل قتل ہوا۔“ اسی ضربُ المثل سے جڑی ایک دل چسپ حکایت بہت مشہور ہے، ملاحظہ کیجیے۔

    کہتے ہیں کسی جنگل میں دو بیل رہتے تھے، ایک لال اور ایک سفید۔ ان کی آپس میں گہری دوستی تھی، ایک ساتھ چرنے کے لیے جانا اور گھومنا پھرنا۔ ان کی اس مثالی دوستی کی وجہ سے اس جنگل کا شیر ان پر ہاتھ نہیں ڈال سکتا تھا۔ اس نے جب کبھی ان میں سے کسی ایک پر حملہ کیا تو دونوں نے مل کر اس کی وہ درگت بنائی کہ شیر کو اپنی جان کے لالے پڑ گئے اور ہر بار اس نے گرتے پڑتے ہی بھاگ نکلنے میں‌ عافیت جانی۔

    ایک دن شیر نے ایک چال چلی۔ اس نے لال بیل کو چکنی چپڑی باتیں کر کے بہلایا اور اسے کچھ خواب دکھا کر اپنے ساتھ ملا لیا۔ لال بیل اس کی باتوں میں آ گیا۔ شیر نے باتیں ہی ایسی کی تھیں کہ اسے اپنے ساتھی سفید بیل کی دوستی کے مقابلے میں شیر سے راہ و رسم بڑھانا زیادہ ’محفوظ‘ نظر آ رہا تھا۔ لال بیل کے اپنے ساتھی سے دوری اختیار کر لینے سے سفید بیل شیر کے مقابلے میں کمزور پڑ گیا تھا۔ چند دنوں کے بعد شیر نے سفید بیل کے شکار کا پروگرام بنایا اور ایک روز موقع ملتے ہی اس پر حملہ کر دیا۔

    اس سے پہلے جب شیر ان میں سے کسی ایک کو بھی گھیرتا تھا تو دوسرا اس کی مدد کو آجاتا تھا اور وہ مل کر شیر کو بھگا دیا کرتے تھے، مگر اس بار اکیلے بیل کے لیے شیر کا مقابلہ کرنا مشکل ہو گیا… سفید بیل نے اپنے ساتھی لال بیل کو بہت پکارا، بہت آوازیں دیں، پرانی دوستی کے واسطے دیے اور بیل ہونے کے ناتے ’بھائی چارے‘ کا احساس دلایا، مگر شیر کی دوستی کے نشے میں ڈوبے لال بیل پر اس کی پکار کا کوئی اثر نہ ہوا۔ وہ اپنی برادری کے ایک فرد کو درندے کا شکار بنتا دیکھتا رہا۔ وہ بہت مطمئن تھا کہ سفید بیل کے ساتھ نہ تھا ورنہ آج شیر کے حملے میں اس کام بھی تمام ہو جاتا۔ شیر نے پے در پے حملے کرکے سفید بیل کو شدید زخمی کردیا اور وہ اس کے آگے ڈھسل گیا۔ شیر نے مزے سے اس کا گوشت کھایا اور اگلے دن کے لیے بھی کچھ بچا کر رکھ لیا۔ وہ اپنے باقی ماندہ شکار کو کھینچتا اپنے ٹھکانے پر لے گیا تھا۔

    تھوڑے دن گزرے تھے کہ شیر نے لال بیل کو بھی ہڑپ کرنے کا سوچا۔ جب شیر نے اس پر حملہ کیا تو لال بیل کی آنکھوں میں ملال کی سرخی دوڑ گئی اور اب وہ شیر کا ساتھ دینے پر پچھتا رہا تھا۔ اس نے زور سے ڈکارتے ہوئے جنگل کے باسیوں کو پیغام دیا کہ… ”میں تو اسی دن ہی قتل ہو گیا تھا، جس دن سفید بیل قتل ہوا…!“

  • عرب اور عقل و دانش

    عرب اور عقل و دانش

    کوئی فقرہ اور جملہ جو زندگی کے بارے میں کسی اصول، حقیقت یا رویّے کو بیان کرے اور وہ ہمیں‌ غور و فکر پر آمادہ کرے اور کوئی پیغام دے تو اسے ہم کہاوت اور ضربُ المثل کی صورت اپنی گفتگو اور تحریر میں استعمال کرتے ہیں۔

    یہاں ہم چند ایسی کہاوتیں نقل کررہے ہیں جو ہزاروں سال سے عربی زبان و ثقافت کا حصّہ ہیں اور ان میں حکمت اور دانائی پوشیدہ ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔

    پانی وہاں سے پینا چاہیے جہاں گھوڑا پیتا ہے، کیوں کہ نسلی گھوڑا ناپاک پانی کو منہ نہیں لگاتا۔

    گھر اس جگہ بنانا چاہیے جہاں اژدھا دھوپ سیکنے کنڈلی مارے بیٹھا ہو، کیوںکہ اژدھا استراحت کے لئے صرف ایسی جگہ کا انتخاب کرتا ہے جو مضبوط اور پختہ ہونے کے ساتھ سردیوں میں گرم اور گرمیوں میں ٹھنڈی ہو۔

    پھل وہ کھاؤ جسے کیڑا کھائے بغیر چھو کر گزرا ہو، کیوںکہ کیڑا صرف پکے ہوئے پھل کو ہی تلاش کرتا ہے۔

    پانی کے لئے وہ جگہ کھودنی چاہیے جہاں پرندوں کو گرمی سے بچنے کے لئے پناہ لیتے دیکھا ہو، کیوںکہ جہاں پرندے پناہ لیتے ہیں وہاں پانی ہوتا ہے۔

    کام یابی کے خواہش مند ہو تو سونے اور اٹھنے میں پرندوں جیسی عادت اپنا لو، کیوںکہ رزق کی تلاش کے لیے سب سے مناسب وقت کا انتخاب پرندے ہی کرتے ہیں اور اسی کے مطابق محنت کرکے ہم اس کا پھل پاسکتے ہیں۔

    سکون سے سونا ہو تو چارپائی وہاں بچھاؤ جہاں بلّی سوتی ہے، کیوں کہ بلّی ہمیشہ پر سکون جگہ کا انتخاب کرتی ہے۔

  • نجیب محفوظ:‌ عربی ادب کا تابندہ ستارہ

    نجیب محفوظ:‌ عربی ادب کا تابندہ ستارہ

    نجیب محفوظ نے سترہ سال کی عمر میں لکھنا شروع کیا اور جب وہ اڑتیس برس کے تھے تو ان کی پہلی تصنیف منظرِ عام پر آئی۔ اسی طرح ان کے ناول کو اشاعت کے تیس سال بعد نوبیل انعام دیا گیا تھا۔ عالمی شہرت یافتہ ناول نگار نجیب محفوظ کی آج برسی منائی جارہی ہے۔

    مصری ادب کو اپنی کہانیوں سے مالا مال کرنے والے نجیب محفوظ نے 2006ء میں وفات پائی تھی۔ انھیں 1988ء میں نوبل انعام دیا گیا تھا۔

    ان کا مکمل نام نجیب محفوظ عبدالعزیز ابراہیم احمد پاشا تھا۔ مصر کے شہر قاہرہ میں 11 دسمبر 1911 کو پیدا ہونے والے نجیب محفوظ نے اپنے ادبی سفر میں تیس سے زائد ناول اور 350 کہانیاں تخلیق کیں۔ انھوں نے فلموں کے لیے اسکرپٹ، اسٹیج پلے بھی لکھے جب کہ مؤقر جرائد اور اخبارات میں‌ ان کے مضامین اور کالم بھی شائع ہوتے تھے۔ وہ ایک حقیقت نگار کی حیثیت سے اپنی تخلیقات کے سبب مصر میں مقبول ہوئے اور بعد میں دنیا بھر میں انھیں پہچانا گیا۔

    نجیب محفوظ نے غربت اور مشکلات دیکھتے ہوئے ابتدائی عمر گزاری اور ان کا گھرانا مذہبی تھا۔ اس کے باوجود وہ فنونِ لطیفہ اور ادب کی طرف مائل ہوئے اور روایت سے بغاوت کرتے ہوئے ان موضوعات کو بھی زیرِ نوکِ قلم لائے جس نے قدامت پرستوں کے درمیان انھیں متنازع بنا دیا۔

    مصر پر برطانوی قبضے اور انقلابی تحریکوں نے نجیب محفوظ پر گہرے اثرات مرتب کیے اور ان میں شعور بیدار کرنے کے ساتھ اس فکر کو پروان چڑھایا جس میں انھیں تخلیقی صلاحیتوں کو ابھارنے کا موقع ملا۔

    نجیب محفوظ نے 1934 میں جامعہ قاہرہ سے فلسفے میں گریجویشن کی ڈگری لی اور ماسٹرز کے لیے داخلہ لیا، لیکن اس مضمون میں اپنی تعلیم مکمل نہیں کرسکے اور لکھنے لکھانے میں مصروف ہوگئے۔ انھوں نے مصر کے معاشرے کی خرابیوں کو اپنی کہانیوں‌ میں اجاگر کیا اور کئی حساس موضوعات پر قلم اٹھایا۔ نجیب محفوظ کے ناولوں اور کتابوں کے تراجم بشمول اردو دنیا کی تمام بڑی زبانوں میں ہوچکے ہیں۔

    50 کی دہائی میں نجیب محفوظ معروف ادیب بن چکے تھے اور اسّی دہائی میں ان کی مشہور کتاب ’قاہرہ ٹرائلوجی‘ شائع ہوئی۔ یہ تین کہانیوں کا وہ مجموعہ ہے جس کا پہلا حصہ: ’محل تا محل 1956، دوسرا حصہ قصرِ شوق 1957، اور تیسرا کوچۂ شیریں 1959 کا احاطہ کرتا ہے۔ نجیب محفوظ اپنے اسلوب میں رمزیت اور تہ داری کی ایک مثال تھے۔

  • درزی کی نصیحت

    درزی کی نصیحت

    ایک بوڑھا درزی اپنے کام میں مگن تھا کہ اس کا چھوٹا بیٹا دکان میں داخل ہوا اور کہنے لگا، "بابا میں نے اپنے ابتدائی قاعدے اچھی طرح یاد کر کے اپنے استاد کو سنا دیے ہیں اور انہوں نے مجھے اگلی جماعت میں شامل کر لیا ہے۔”

    باپ نے بیٹے کو مبارک باد دی تو بیٹا کہنے لگا، ” بابا آپ نے وعدہ کیا تھا کہ جب میں یہ قاعدے یاد کر لوں گا تو آپ مجھے زندگی گزارنے کا ایک بہترین گُر سکھائیں گے، تو بابا آج وہ وعدہ پورا کریں۔”

    بوڑھا درزی یہ سن کر بیٹے سے بولا، ” ہاں میرے بیٹے میں ذرا کام سے فارغ ہوجاؤں تو پھر بتاتا ہوں۔ تم ذرا وہ قینچی تو مجھے پکڑاؤ۔” بیٹے نے باپ کو قینچی دی تو درزی نے ایک بڑے کپڑے کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں کاٹنا شروع کر دیا۔ کاٹنے کے بعد قینچی کو زمین پر رکھے جوتوں میں پھینک دیا، پھر سوئی اٹھائی، اس میں دھاگہ ڈالا اور ان ٹکڑوں کو سینے لگا، ٹکڑوں کو ایک دوسرے کے ساتھ سی کر ایک قمیص میں بدل دیا اور سوئی کو سَر پر بندھے ہوئے عمامے میں لگا کر بچ جانے والے دھاگے کو اپنی جیب میں ڈال لیا۔

    درزی کا بیٹا یہ سب دیکھ رہا تھا۔ اس نے پوچھا، "بابا آج تو آپ نے عجیب کام کیے ہیں جو میں نے پہلے نہیں دیکھے تھے، مہنگی قینچی کو زمین پر جوتوں میں ڈال دیا ہے اور اس کے مقابلے میں ایک معمولی قیمت کی سوئی کو سَر پر عمامہ میں لگا لیا ہے، ایسا کیوں؟

    یہ سن کر باپ نے مسکراتے ہوئے کہا، "بیٹا میرے پاس وہ بڑا کپڑا ایک خاندان کی مانند تھا جس کو قینچی نے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں‌ تبدیل کر دیا، تو سمجھو قینچی اس شخص کی طرح ہوئی جو مضبوط رشتوں میں دراڑیں ڈال کر انہیں الگ ہونے پر مجبور کر دیتا ہے، اور سوئی کی مثال اس شخص کی ہے جو ان رشتوں کو دوبارہ ایک دوسرے کے ساتھ جوڑتا ہے جب کہ دھاگہ ایک مددگار شخص جیسی چیز ہے جو اگر سوئی کے ناکے میں نہ ہو تو اس سے سلائی نہیں‌ کی جاسکتی۔ اب میرے بیٹے زندگی بھر اس نصیحت کو یاد رکھنا کہ بظاہر قیمتی دکھائی دینے والے لوگ جو رشتوں کو تقسیم کردیتے ہیں، وہ قینچی کی طرح جوتیوں میں رکھنے کے ہی لائق ہیں، جب کہ تعلق اور رشتوں کو جوڑنے کی کوشش کرنے والا شخص جو سوئی کی طرح عام سا دکھائی دیتا ہے، اسے سَر آنکھوں‌ پر بٹھانا چاہیے۔ آخری بات یہ کہ دھاگہ میں نے جیب میں رکھ لیا تھا، اس سے مراد کوئی بھی قدم اٹھانے جاؤ اور اہم فیصلہ کرنے لگو تو اس سے پہلے اپنے آس پاس مددگار ضرور رکھنا۔

    (قدیم عربی ادب سے ماخوذ)

  • رومی افواج کی شکست اور ابو تمّام کی خلیفہ کو مبارک باد

    رومی افواج کی شکست اور ابو تمّام کی خلیفہ کو مبارک باد

    خلیفہ المعتصم باللہ کے عہدِ خلافت میں ابو تمّام کو عربی زبان کا سب سے بڑا قصیدہ گو شاعر کہا جاتا تھا۔

    مشہور ہے کہ وہ عیسائی باپ کا بیٹا تھا جس کی شراب کی دکان تھی۔ ابو تمّام کا نام تو حبیب بن اَوَس تھا، لیکن اس نے تبدیلیٔ نسب کے بعد اپنا تعلق مشہور قبیلہ طے سے جوڑ لیا اور نام میں طائی کا اضافہ کیا۔ ابتدا میں‌ اس عمل پر اسے طعنے اور کڑوی کسیلی باتیں‌ سننا پڑیں، مگر وقت کے ساتھ لوگوں نے یہ بات فراموش کر دی اور یہی وجہ ہے کہ اکثر اسے ’’الطائی‘‘ ’’الطائی الکبیر‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔

    عربی کے اس شاعر نے 806ء میں دمشق کے قریب جاسم نامی گاؤں میں آنکھ کھولی۔ اپنے زمانۂ طالبِ علمی ہی میں اسے زبان اور شعر و ادب سے بڑا شغف پیدا ہوگیا تھا۔ اس نے شاعری شروع کی اور مدحیہ اشعار کہنے لگا۔

    نوجوانی میں ابو تمّام مصر کے سفر پر گیا جہاں اہلِ علم و ادب کی صحبت اختیار کی۔ کچھ عرصہ بعد دمشق لوٹا تو خلیفہ مامون کے دربار سے وابستہ ہوگیا۔ ابو تمام نے روم کی فتح پر خلیفہ کی تعریف میں خوب قصیدے کہے۔ اس کی زبان دانی اور شاعری کی شہرت دور دور تک پھیل گئی تھی۔ ابو تمام نے کئی شہروں کے دورے کیے اور وہاں کے حکم رانوں اور علمی و ادبی حلقوں تک رسائی حاصل کرکے بڑی عزّت اور تکریم پائی۔

    عباسی حکم راں صاحبانِ علم و ادب کی قدر دانی کے لیے مشہور رہے ہیں اور مؤرخین نے لکھا ہے کہ ابو تمّام بھی جس امیر سے ملا اور جس دربار میں گیا، وہاں سے شاد کام ہوکر لوٹا۔

    ابو تمام کی شاعری میں جدّت کے وہ نمونے ملتے ہیں، جنھیں بعد میں متنبٰی اور ابوالعلا معرّیٰ نے آگے بڑھایا۔ اس کی شاعری معانی و افکار کی گہرائی کے ساتھ محسناتِ بدیعیہ سے آراستہ ہے۔ عربی زبان اور ادب کے ناقدین کے مطابق دورِ آخر میں ابو تمام کے کلام میں فلسفیانہ رجحان بھی نظر آتا ہے۔

    ابو تمّام نے معتصم باللہ کی شخصیت اور بالخصوص اس کی بہادری کی تعریف کرتے ہوئے رومیوں (اہم شہر عموریہ) پر فتح پانے کے بعد اسے اپنے جس قصیدے میں مبارک باد پیش کی، وہ بہت مشہور ہوا۔ یہ بھی مشہور ہے کہ خلفیہ جنگ پر جانے کی تیاری کر رہا تھا تو نجومیوں نے کہا تھاکہ اس وقت رومیوں سے لڑائی نہ کریں، مگر معتصم نے جنگ کی اور فتح بھی حاصل کی۔ ابو تمّام نے اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے اپنے اشعار میں کہا ہے کہ جنگ لڑنے کے لیے طاقت و قوّت اور ہتھیار کی ضرورت ہوتی ہے، اور جو خود پر اعتماد کرتے ہیں، انھیں جھوٹے علم اور پیش گوئیوں کو خاطر میں نہیں لانا چاہیے۔

    اگرچہ اس شاعر کی درباروں سے وابستگی اور پذیرائی کے علاوہ کئی واقعات کے مستند حوالے نہیں ملتے، لیکن کہا جاتا ہے کہ وہ نہایت شستہ اور فصیح عربی بولتا تھا، البتہ آواز اس کی ناخوش گوار تھی، اور یہ بھی کہتے ہیں کہ اس کی زبان میں کسی قدر لکنت تھی۔ خلیفہ المعتصم باللہ کے علاوہ اس نے کئی امرا کی شان میں قصائد لکھے اور ان سے بڑا انعام پایا۔ اپنے زمانے کے اس مشہور قصیدہ گو نے موصل میں‌ 846ء میں‌ وفات پائی۔

  • معرّیٰ کا زمانۂ قیامِ بغداد اور تین مشہور واقعات

    معرّیٰ کا زمانۂ قیامِ بغداد اور تین مشہور واقعات

    ’’معرّیٰ کے زمانۂ قیامِ بغداد سے متعلق تین واقعات تاریخ کی کتابوں اور تذکروں میں اکثر دیکھنے میں آتے ہیں، جن سے پتہ چلتا ہے کہ معرّیٰ جیسے شخص کے لیے جو دور کی ایک آبادی سے چل کر آیا تھا، بغداد کا عام ادبی ماحول بھی کس قدر نخوت بھرا اور غیر دوستانہ تھا۔

    معرّیٰ جب بغداد پہنچا تو الشریف المُرتضٰی اور الشریف الرّضی کے والد اور ایک بارسوخ علوی گھرانے کے بزرگ الشریف طاہر الموسوی کا تھوڑا عرصہ ہوئے انتقال ہوا تھا اور لوگ تعزیت کے لیے اس معزّز گھرانے میں آجا رہے تھے۔

    ایک دن معرّیٰ بھی وہاں افسوس کرنے کے لیے پہنچا اور مجمع کی آخری صفوں کو پھلانگ کر آگے جانے لگا تو کسی نے کہا: الی این یا کلب؟ (کہاں جاتے ہو، کتّے!) معرّیٰ نے پلٹ کر جواب دیا ”کتّا وہ ہو گا جو کتّے کے ستّر نام نہ جانتا ہو!“ اس پر لوگوں میں کھسر پھسر شروع ہوئی اور کسی نے کہا کہ یہ ابوالعلاء معرّیٰ کے سوا اور کوئی نہیں ہو سکتا، اس لیے کہ وہی عربی زبان میں کتّے کے لیے ستّر نام گنوا سکتا ہے۔ بہرحال وہ کسی پچھلی صف میں اٹک گیا۔

    دوسرے شعرا جب اپنا تعزیتی کلام سنا چکے تو معرّیٰ کی باری آئی اور اس نے اپنا وہ مرثیہ پڑھا جس کا مطلع ہے۔ (یہاں ہم اس کا اردو ترجمہ و مفہوم کررہے ہیں)
    وہ کیا گیا کہ مفلس کا مالی وسیلہ چلا گیا اور طالب خوشبو کے لیے عنبر نہ رہا۔ کاش زمانے کے حادثات میں کچھ تو توازن ہوتا۔

    جب دونوں بھائیوں نے اس کا کلام سنا تو اُٹھ کر آئے اور اس کا ہاتھ پکڑ کر آگے لے گئے۔ کہنے لگے ”آپ غالباً ابو العلا معرّیٰ ہیں۔“ اس نے کہا۔ ”ہاں“ اس پر انھوں نے شاعر کی عزت و تکریم کی اور اسے اپنے پاس بٹھایا۔

    دوسرا واقعہ اس امر کا غمّاز ہے کہ بغداد میں بعض اہلِ علم بھی معرّیٰ سے کس طر ح حسد کرنے لگے تھے، یہاں تک کہ اس کے ساتھ بدتمیزی کرنے سے بھی نہیں چوکتے تھے۔ بغداد میں ایک نحوی تھا: ابوالحسن علی بن عیسیٰ جو اپنے علم کی وجہ سے جانا پہچانا جاتا تھا۔ معرّیٰ نے سوچا کہ اس سے جا کر ملنا چاہیے۔

    جب وہ اس کے ہاں پہنچا تو اندر آنے کے لیے اجازت طلب کی۔ اس پر ابوالحسن نے آواز دی: ”لیصعد الاصطبل“ (اوپر آ جائو، اندھے میاں) ابوالعلا کو یہ طرزِ تخاطب بہت ناگوار گزرا اور وہ وہیں سے واپس مڑ گیا اور پھر کبھی ابوالحسن نحوی سے ملنے کا خیال دل میں نہ لایا۔

    تیسرا واقعہ پھر اسی امیر الشریف المرتضیٰ کی مجلس سے متعلق ہے اور بعض لوگوں کے نزدیک یہ واقعہ بغداد سے ہمارے شاعر کا دل اُچاٹ کرنے کا سب سے بڑا سبب ہے۔ ابوالعلا جیسا کہ اوپر ذکر ہوا، شاعر متنبی کا بہت مداح تھا اور اس کے دیوان کی شرح بھی اس نے لکھی تھی۔

    ایک دن وہ الشریف المرتضیٰ کی مجلس میں آیا تو متنبی کا ذکر چل نکلا اور المرتضیٰ نے اس شاعر کے بارے میں کچھ نازیبا کلمات منہ سے نکالے۔ اس پر معرّیٰ سے نہ رہا گیا اور اس نے کہا۔ ”اگر متنبی نے صرف ایک ہی نظم کہی ہوتی جس کا مطلع ہے: لک یا منازل فی القلوب منازل، تو اس کی عظمتِ شان کے لیے یہی کافی تھی۔“

    یہ سن کر مرتضیٰ سیخ پا ہو گیا اور اس نے حکم دیا کہ معرّیٰ کو پاؤں سے گھسیٹ کر مجلس سے باہر نکال دیا جائے۔ لوگ امیر کے اس ردِّ عمل پر قدرے حیران ہوئے تو مرتضیٰ نے کہا: آپ کو معلوم ہے کہ وہ مطلع پڑھنے سے اُس خبیث کا مطلب کیا تھا؟ لوگوں نے کہا ”نہیں“ تو کہنے لگا اس کا اشارہ دراصل متنبی کے مذکورہ قصیدے کے اُس شعر کی طرف تھا جس میں وہ کہتا ہے: (شعر کا اردو ترجمہ و مفہوم یہاں پیش کیا جارہا ہے)
    اور جب تم میری مذمت کسی ایسے شخص کی زبان سے سنو جو خود ناقص ہو تو یہ اس بات کی دلیل ہو گی کہ میں کامل ہوں!

    یہ کچھ واقعات تو تاریخ کی کتابوں اور تذکروں میں درج ہو گئے۔ خدا جانے اس طرح کے اور کتنے واقعات ہوں گے جن میں ابوالعلا کو امّ البلاد بغداد کے حاسد اور تنگ دل مکینوں کی زبانی چھوٹی اور پر آزار باتیں سننی پڑی ہوں گی، لیکن ان کا کہیں ذکر نہ ہو سکا۔ ایک طرف یہ حالات تھے اور دوسری طرف ابوالعلا کے پاس وہ رقم ختم ہونے لگی تھی جو وہ معرّہ سے اپنے ساتھ لایا تھا۔

    فاصلے کی دُوری کے سبب اس کے لیے اپنے شہر سے مزید رقم منگوانا بھی آسان نہیں تھا۔ بغداد میں خلفا اور امرا کے گرد خوشامدیوں اور موقع پرستوں کے ہجوم نے معرّیٰ کے لیے ایک باعزت رزق کے دروازے بند کر دیے تھے۔ وہ جب ان امرا اور رؤسا کی مدح میں قصائد کہنے کا روادار نہیں تھا تو پھر یہ بااثر لوگ کیوں اِس کی فکر کرتے کہ بغداد میں وارد ہونے والے اس جوہرِ قابل کو اس کے شایانِ شان کوئی تدریسی یا ثقافتی عہدہ دے کر اسے مالی طور پر آسودہ کر دیا جائے۔

    ابوالعلا کو اب اپنا شہر معرّہ بُری طرح یاد آنے لگا تھا۔ ایک تو اپنی والدہ اور اقارب و اعزا سے جدائی، دوسرے ان لوگوں سے دُوری جو اس کے شہر میں اس کے ہاں آتے جاتے اور اس سے میل جول رکھتے تھے۔ اس پر مستزاد ہاتھ کی تنگی جو اب اسے بری طرح محسوس ہونے لگی تھی۔

    اسی زمانے کی ایک نظم میں وہ پہلی دفعہ شراب پینے کا خیال دل میں لاتا ہے اور کہتا ہے:

    میں نے چاہا کاش شراب مجھے اتنا بے خود کر دیتی کہ مجھے یہ سدھ نہ رہتی کہ میں کس حال میں ہوں۔ اور بھول جاتا کہ میں عراق میں جاں بلب ہوں اور میری سب خواہشیں ماند پڑ گئی ہیں۔

    ایسے حالات میں بھی معرّیٰ شاید کچھ وقت اور بغداد میں رہ لیتا، لیکن انہی دنوں اسے معرّہ سے اپنی والدہ کی علالت کی خبر ملی، جس سے وہ بے چین ہو گیا اور اس نے بالآخر بغداد کو خیر باد کہنے کا فیصلہ کر لیا۔

    شاعر کی بد قسمتی کہ ابھی وہ معرّہ کے راستے میں ہی تھا کہ اس کی والدہ کا انتقال ہو گیا۔‘‘

    (ابوالعلا معرّیٰ اپنے زمانے کے ایک عظیم مدبّر، دانا و حکیم اور مشہور شاعر تھے، انھوں نے 1057ء میں وفات پائی، ان کے بارے میں یہ پارے ممتاز شاعر و ادیب، محقّق اور مترجم محمد کاظم کی کتاب سے نقل کیے گئے ہیں)

  • ابنِ ندیم جنھوں نے عربی مطبوعات کی فہرست اور اشاریہ تیّار کیا

    ابنِ ندیم جنھوں نے عربی مطبوعات کی فہرست اور اشاریہ تیّار کیا

    ابنِ ندیم، وَرّاق تھے۔ بغداد ان کا وطن تھا جہاں وہ ورّاقی یعنی کتابوں کی تدوین، تصحیح اور ان کی نقل میں‌ مشغول رہتے۔ یہ کام ان کے لیے تحصیلِ علم اور ان کے ذوق مطالعہ کی تسکین کے ساتھ ساتھ یافت کا ذریعہ بھی تھا۔

    ابنِ ندیم نے عربی کتب کا اشاریہ یا اِنڈیکس (index) تیّار کیا جو ان کا ایک شان دار کام ہے۔ اس میں کتابوں کا تعارف، مصنّفین کے مختصر حالاتِ زندگی اور مختلف علوم و فنون اور ان کی شاخوں کا تعارف بھی شامل ہے۔ عربی زبان میں‌ ان کی یہ کتاب ’’الفہرست‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔

    ابنِ ندیم کے زمانے میں بغداد علم و فضل کا مرکز تھا۔ کتب خانے آباد اور دارُ المطالعہ بارونق ہوا کرتے تھے۔ اسی زمانے میں انھوں نے کئی عرب اور مسلمان مصنّفین، اہلِ علم اور قابلِ قدر ہستیوں کے مستند حالاتِ زندگی اور ان کے کارناموں کو کتابی شکل میں محفوظ کیا تھا، لیکن خود ان کے بارے میں‌ بہت کم معلومات دست یاب ہیں۔

    ان کا پورا نام محمد ابنِ اسحاق الندیم تھا۔ وہ ابنِ ندیم کے نام سے معروف ہوئے اور اپنے پیشے کی نسبت ورّاق کہلائے۔ سنِ پیدائش کے بارے میں وثوق سے کچھ نہیں‌ کہا جاسکتا، لیکن تاریخ کے اوراق میں ان کی وفات کا سن 995 عیسوی درج ہے۔ ابنِ ندیم کی کتاب ’’الفہرست‘‘ ہے جو اس لحاظ سے نہایت اہم اور مستند بھی مانی جاتی ہے کہ اس میں ظہورِ اسلام کے بعد ابتدائی چار صدیوں کے دوران مسلمانوں نے عربی زبان میں جن علوم پر کتابیں تحریر کیں، ان کے مآخذ موضوع وار درج ہیں۔ یہ کتاب اُس دور کے علم و فنون اور تہذیبی و تمدّنی حالات کا احاطہ بھی کرتی ہے۔

    ’’الفہرست ‘‘میں جن موضوعات اور علوم و فنون پر کتابوں اور مصنّفین کا تذکرہ ہے ان میں کتابت اور رسمُ الخط، لغت اور نحو، شعرا اور شاعری، علمِ کلام اور متکلمین، فقہا اور محدثین، حساب و مہندسی اور موسیقی، طب، کیمیا اور دیگر شامل ہیں۔

    ابنِ ندیم کو اسلامی دنیا میں کتب کی فہرست سازی اور اشاریہ سازی کی روایت کی بنیاد رکھنے والا کہا جاتا ہے۔ مطبوعات کی یہ فہرستیں اور اشاریے میدانِ تحقیق میں طالب علموں کے لیے بہت مفید اور کارآمد ثابت ہوتے ہیں۔

    اس مشہور کتاب میں مصنّف نے شعبدہ بازوں اور جھاڑ پھونک کرنے والوں اور جنّات کا تذکرہ بھی کیا ہے اور شعبدہ گری یا جادو ٹونے کے لیے مشہور شخصیات کے نام اور ان کے کارنامے بھی بتائے ہیں۔

  • فلسطینی شاعر محمود درویش اور "تتلی کا بوجھ”

    فلسطینی شاعر محمود درویش اور "تتلی کا بوجھ”

    لبنان اور مصر کے درمیان واقع علاقہ مئی 1948ء میں قیامِ اسرائیل کے اعلان سے قبل فلسطین کہلاتا تھا جس کا دارُالحکومت بیتُ المقدس تھا۔ یہاں مسلمانوں کا قبلہ اوّل موجود ہے اور یہی شہر یہودیوں اور عیسائیوں کے نزدیک بھی مقدس ہے۔ 1967ء میں اسرائیل نے اس شہر پر قبضہ کر لیا تھا۔

    محمود درویش نے اسی ارضِ فلسطین کا دکھ اپنی شاعری میں بیان کیا ہے۔ انھیں عصرِ حاضر کے عربی ادب کا نمائندہ شاعر کہا جاتا ہے۔ تتلی کا بوجھ ان کے ایک شعری مجموعے کا عنوان تھا جسے بہت پسند کیا گیا۔ یہ ایک استعارہ ہے جو انھوں ارضِ فلسطین کے لیے برتا۔

    ناقدین کے نزدیک وہ بیسویں صدی کا ایک معتبر نام ہیں جن کی نظموں کا گویا ہر مصرع اپنی سرزمین کا دکھ اور اپنے لوگوں کا کرب بیان کرتا ہے۔ وہ 1941ء میں شمالی اسرائیل کے علاقے گلیلی کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کی زندگی کا بڑا حصّہ فلسطین سے دور گزرا جس کا انھیں‌ بہت ملال رہا۔

    محمود درویش اپنے سیاسی نظریات اور ہر معاملے میں اپنے مخصوص نقطۂ نظر کا اظہار بھی کرتے رہتے تھے۔

    اس شاعر کے 30 مجموعہ ہائے کلام منظرِ عام پر آئے جن میں فلسطین پر اسرائیلی قبضے اور ظلم و بربریت کے خلاف محمود درویش نے فلسطینیوں کے جذبات اور احساسات کی بھرپور ترجمانی کی ہے۔ ان شعری مجموعوں کے نام ہی سے عیاں ہے کہ ان کے دل میں‌ مادرِ گیتی کا غم کس شدّت اور انتہا پر ہے۔ انھوں نے بے بال و پر پرندے، انجامِ شب، بندوق کی روشنی میں لکھنا، گلیلی میں پرندے مر رہے ہیں، دور کی خزاں میں اترنے والی ہلکی بارش، اجنبیوں کا بستر اور وہ ایک جنت تھی کے نام سے مجموعے شایع کروائے تھے۔

    بے وطنی کا کرب تمام عمر اُن کے ساتھ رہا۔ وہ امریکا میں مقیم تھے جہاں ان کی زندگی کا سفر تمام ہوا۔ 19 سال کی عمر میں‌ اپنا پہلا مجموعہ اسرائیلی شہر حیفہ سے شایع کروانے کے بعد وہ لبنان چلے گئے اور پھر روس پہنچے اور وہاں بھی دل نہ لگا تو مصر میں سکونت اختیار کرلی۔ محمود درویش انگریزی، فرانسیسی اور عبرانی زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔

    انھوں نے کئی ادبی اعزازات اپنے نام کیے جب کہ ان کے کلام کا متعدد زبانوں میں ترجمہ ہوا۔ اردو زبان میں بھی ان کی نظموں کا ترجمہ ہوا اور محمود درویش کو علمی و ادبی حلقوں میں پذیرائی ملی۔ انھوں نے 9 اگست 2008 کو امریکہ میں‌ اپنی آخری سانس لی تھی۔

  • عرب کی شاعری میں‌ حیوانات اور نباتات کا تذکرہ

    عرب کی شاعری میں‌ حیوانات اور نباتات کا تذکرہ

    ایک مشہور مقولہ ہے کہ ’’الشعرُ دیوان العرب۔‘‘ یعنی عرب کی شاعری عرب کا دفتر ہے۔ دفتر کے لفظ سے یہ مراد ہے کہ اس میں عرب کا جغرافیہ، عرب کی تاریخ، عرب کا تمدن، عرب کا طریقہ معاشرت، عرب کے خیالات و توہمات، عرب کی ملکی اور قومی خصوصیات سب کچھ ہے۔ اگر کوئی شخص عرب کی شاعری کا مطالعہ کرے تو کوئی بات عرب اور اہلِ عرب کے متعلق ایسی نہیں ہے جو اس میں نہ مل سکے۔

    حیوانات میں عرب کے اونٹ اور گھوڑے خاص کر مشہور ہیں۔ ان کی سیکڑوں نسلیں تھیں۔ ان دو جانوروں کا ذکر عرب کی شاعری میں کثرت سے آیا ہے۔ ان کے علاوہ جن جانوروں کے نام لیے گئے ہیں وہ حسب ذیل ہیں:

    کتّا جس سے پہرے اور شکار کا کام لیا جاتا تھا۔ کبوتر، فاختہ، قمری، ان کا ذکر عاشقانہ شاعری میں بہت آتا ہے۔ شیر، بھیڑیا، گورخر، لومڑی، نیل گائے، شتر مرغ، بکری، چیتا، گرگٹ، کفتار، عقاب، بازاتو، گد، شکرا، لوا، ہد ہد، شہد کی مکھی، ٹڈی، چمگادڑ، مینڈک، مچھلی، چیونٹیاں، چوہا، بلّی وغیرہ۔

    ایک چھوٹے سے جانور کا ذکر بھی آتا ہے جس کو جد جد کہتے تھے اور جو چمڑا کاٹ کر کھاتا تھا۔ نباتات میں سب سے زیادہ کھجور کا ذکر آتا ہے۔ اس کے علاوہ جن جنگلی درختوں کا نام لیا گیا ہے، وہ حسبِ ذیل ہے:

    ببول، جھاؤ پیلو، تھور، جانڈ آکھی، ارنڈ، کھمبی، اندراین وغیرہ۔ کنبھل، بشام، طلح، سیال، عرفنج، اصحل خاص عرب کے درخت ہیں۔ شیزی ایک آبنوس جیسے درخت کی لکڑی تھی، جس کے بڑے بڑے پیالے بنائے جاتے تھے۔ مرار ایک نہایت کڑوی گھاس کا نام تھا۔ بنعہ ایک درخت تھا، جس کی لکڑی کمانوں کے لیے موزوں تھی۔ حرم بھی ایک ایسے ہی درخت کا نام تھا۔ درختِ تنوم پر سانپ لپٹے رہتے تھے، پھولوں میں گلاب، سنبل، اعرار خیری، بابونہ، چمبیلی اور بنفشہ کا ذکر اکثر آیا ہے۔

    اند اور بان دو نازک درخت ہیں، جن کا نام عاشقانہ شاعری میں بار بار لیا جاتا ہے۔ ورس ایک گھانس کا نام ہے جو رنگنے کے کام میں آتی تھی۔ مہندی کا بھی نام لیا گیا ہے۔ کالی مرچیں شراب میں ڈالی جاتی تھیں تاکہ نشہ تیز ہو۔ میوؤں میں انگور اور انار کا بھی ذکر آیا ہے۔

    (معروف مضمون نگار، مترجم اور مدیر سیّد وحید الدّین سلیم کے قلم سے)