Tag: عربی ادب

  • بدصورت جاحظ جسے لازوال شہرت اور عزت نصیب ہوئی

    بدصورت جاحظ جسے لازوال شہرت اور عزت نصیب ہوئی

    عباسی دور کے کئی عظیم لوگوں میں "جاحظ” بھی شامل ہیں جو اپنے زمانے کے بلند پایہ ادیب، انشا پرداز اور دانش ور تھے۔

    تاریخ میں‌ لکھا ہے کہ جاحظ کی پیدائش بصرہ کی ہے اور وہ 160ھ (781عیسوی) میں پیدا ہوئے۔

    ان کے والدین مفلوک الحال اور معاشرے کے پست طبقے میں‌ شمار ہوتے تھے۔ جاحظ کے والد کا انتقال ان کے بچپن میں ہوگیا تھا اور والدہ نے تمام تر عسرت اور تنگی جھیلتے ہوئے بیٹے کی پرورش کی۔

    جاحظ کو کم عمری ہی میں‌ تلاشِ معاش میں گھر سے نکلنا پڑا اور کہتے ہیں‌ وہ بصرہ میں ایک نہر کے کنارے روٹیاں اور مچھلیاں بیچنے لگے، مگر حصولِ علم کا شوق تھا اور نہایت ذہین تھے تو گھر چلانے کے ساتھ ساتھ درس میں بھی جانا شروع کردیا۔

    جاحظ نے ابوعبیدہ، ابو زید انصاری، ابراہیم بن سیار جیسے اصحابِ فکر و ادب سے استفادہ کیا۔ انھوں نے اپنی مادری زبان عربی ہی نہیں بلکہ دیگر زبانوں کے ادب کا بھی مطالعہ کیا۔

    حصولِ تعلیم کے بعد جاحظ نے بصرہ کو خیر باد کہہ کر بغداد کا رخ کیا، اور وہاں بہت شہرت اور پذیرائی ملی۔ انھو‌ں نے امامت (خلافت) پر ایک کتاب لکھی جو عباسی خلیفہ مامون الرشید تک پہنچی اور یوں وہ دربار تک رسائی حاصل کرنے میں کام یاب ہوئے۔ بعد میں جاحظ نے "کتاب الحیوان” لکھی تو ان کی شہرت میں‌ خوب اضافہ ہوا۔ جاحظ کی دیگر تصانیف بھی عربی ادب کا بیش قیمت سرمایہ ثابت ہوئیں۔ وہ اپنے علم کی بنیاد پر بااختیار لوگوں اور امرا میں‌ پسند کیے گئے اور ایک وقت میں معاش کی طرف سے بے فکر ہوگئے۔ مرفہ الحالی نے انھیں‌ سیاحت پر آمادہ کیا اور جہاں گئے، نام و مقام، عزت و مرتبہ پایا۔

    قسمت کی ستم ظریفی دیکھیے کہ تمام تر علمی اور ادبی امتیاز اور فکر و دانش کے ساتھ جاحظ ظاہری اعتبار سے بدصورت تھے۔ کہتے ہیں کہ انھیں جاحظ اس لیے پکارا جاتا تھا کہ ان کی آنکھ کا ڈھیلا باہر کی طرف نکلا ہوا تھا اور وہ عجیب الخلقت لگتے تھے۔

    زمانہ گواہ ہے کہ یہ لفظ یا یہ نام جو اس ذہین، دانا اور اپنے وقت کے عالم فاضل انسان کی تنقیص، استہزا اور بھد اڑانے کے لیے بولا جاتا تھا، ہر جگہ علم و ادب کی عظمت اور احترام کی علامت بن گیا۔

  • لبنان کے عمر فَرّوخ کون ہیں؟

    لبنان کے عمر فَرّوخ کون ہیں؟

    عمر فَرّوخ کی کتاب ’’تاریخ الأدب العربی‘‘ کو علمی اور ادبی دنیا میں بے پناہ مقبولیت ملی، اس کتاب کو سب سے پہلے بیروت کے ایک مشہور پبلشر نے 1965 میں شایع کیا تھا۔

    عمر فَرّوخ 1906 میں لبنان میں پیدا ہوئے، وہ عربی زبان کے مشہور ادیب، مفکر، مؤرخ اور شاعر کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں، بیروت کے مختلف اداروں میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے جرمنی گئے اور فلسفے میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی، اس دوران انھوں نے متعدد قابل اور نام ور مستشرقین سے استفادہ کیا۔

    عمر فَرّوخ کو عربی کے علاوہ فرانسیسی، جرمن، انگلش، فارسی اور ترکی زبانوں پر بھی عبور حاصل تھا۔ 1987 میں‌ ان کا انتقال ہو گیا۔

    ان مذکورہ کتاب چھے ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کی پہلی جلد قدیم ادب یعنی دورِ جاہلیت سے سقوطِ بنی امیہ تک کا احاطہ کرتی ہے، اس جلد میں مصنف نے اس دور کی شاعری، زبان و ادب، سیاسی و ادبی خصوصیات، عرب قبیلوں کے مختلف لہجوں اور ان کے طبعی و سماجی حالات پر روشنی ڈالی ہے، دور جاہلیت کی ادبی جہتوں اور اس دور میں شاعری کے رواج، اس کی قدرو قیمت، شعرا کی اہمیت اور اس دور کے عظیم شعرا اور نثر نگاروں پر بحث کی ہے۔

    اس کے بعد آغازِ اسلام کا ذکر کرتے ہوئے اس زمانے کی نثر اور شاعری پر گفتگو کی ہے، پھر بنی امیہ کے دور کے ادب پر بات کرتے ہوئے مشہور شعرا اور خطبا کے بارے میں‌ بتایا ہے۔

    دوسری جلد میں چوتھی صدی ہجری تک عباسیوں کے مختلف ادوار اور اس دور کے ادب پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ تیسری جلد میں پانچویں صدی ہجری کے آغاز سے ترکی حکومت کی تاسیس تک کے ادب کا ذکر کیا ہے۔ چوتھی جلد بلادِ مغرب اور اندلس کے ادب پر مشتمل ہے۔

    پانچویں جلد میں مرابطین اور مؤحدین کے زمانے کے ادب پر بات کی گئی ہے۔ چھٹی جلد بلادِ مغرب اور اندلسی ادب کے لیے مختص ہے جو ساتویں صدی کے آغاز سے دسویں صدی ہجری کے وسط تک کے ادب کا احاطہ کرتی ہے، اس جلد میں بلاد مغرب اور اندلس کی ثقافتی زندگی، ان شہروں میں اسلامی تمدن کے ارتقا اور نام ور شعرا و ادبا جیسے ابن خلدون، معتمد ابن عباد، ابن زیدون وغیرہ کی حیات اور کارناموں کا بیان ہے۔

    آخری جلد کے مقدمے میں مصنف نے بیان کیا ہے کہ انھوں نے اس ادبی، شعری، تاریخی اور سماجی ذخیرے کی تالیف کے لیے ہزاروں ریکارڈ کھنگالے اور معلومات اکٹھی کرکے اسے کتابی شکل دی۔

    اس عرق ریزی، محنت اور لگن نے ایک ایسا سرمایہ تخلیق کیا جس کا کوئی بدل نہیں‌۔ اس تصنیف پر کویت میں سرکاری سطح پر 1985 میں مصنف کو اعزاز سے نوازا گیا۔ یہ کتاب اپنے اسلوب کے اعتبار سے بے حد دل چسپ اور مواد کے اعتبار سے گراں قدر ہے جو خاص طور پر عربی کے طالبِ علموں کے لیے نہایت معلوماتی اور مفید ہے۔