Tag: عربی حکایات

  • احمد بن طولون کا انصاف (نوادرالخلفاء سے انتخاب)

    احمد بن طولون کا انصاف (نوادرالخلفاء سے انتخاب)

    مصر کے ایک حاکم احمد کو اس دور کے دستور کے مطابق اپنے باپ کے نام کی نسبت سے احمد بن طولون پکارا جاتا ہے۔ اس والیِ مصر کا تذکرہ ایک بہادر اور عادل و منصف کے طور پر کیا گیا ہے اور اس سے چند حکایات بھی منسوب ہیں۔

    مزید حکایات اور سبق آموز کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کریں

    بعض تاریخی کتب اور تذکروں میں احمد بن طولون کے باپ کو ایک ترک غلام لکھا گیا ہے جو عباسی خلیفہ مامون الرشید کی فوج میں شامل تھا۔ احمد پیدا ہوا تو اسے بھی تعلیم و معاشرت کے مراحل طے کرنے کے بعد فوجی تربیت دی گئی۔ وہ بیس سال کی عمر میں اس وقت کے مصر کے حکم راں‌ بایکباک کی فوج میں شامل ہوا۔ وہ اپنی خداداد صلاحیتوں اور ذہانت کے سبب 868ء میں مصر کا حاکم مقرر ہوا۔ چند سال بعد عباسی خیلفہ مہدی کے زمانہ میں اسے مصر میں خود مختار فرماں روا بنا دیا گیا۔ احمد بن طولون کو مردم شناس اور علم دوست حکم راں بھی کہا جاتا ہے۔

    جب احمد بن طولون نے مصر کے شہر قاہرہ میں وہ عظیم الشان جامع مسجد تعمیر کرنے کا ارادہ کیا جو آج اسی کے نام سے مشہور ہے، تو اس پر ایک لاکھ دینار کی خطیر رقم خرچ کی۔ پھر علما، قرّاء، اربابِ شعائر اور متعلقہ مکانات کے لیے ماہانہ دس ہزار دینار کی باقاعدہ رقم مقرر کر دی، اور روزانہ صدقے کے لیے سو دینار وقف کیے۔

    یہ مسجد نہ صرف عبادت کا مقام تھی، بلکہ سلطان نے اس کے ذریعے خیر، عدل اور دینی شعائر کی نگہبانی کا بھی کام لیا۔ کہتے ہیں کہ اس مسجد کے آس پاس ایک غریب آدمی اپنی بیوی اور جوان بیٹی کے ساتھ رہتا تھا۔ ماں بیٹی گھر میں بیٹھ کر سوت کاتا کرتی تھیں تاکہ گزر بسر میں کچھ آسانی ہو اور ماں چاہتی تھی کہ وہ اپنی بیٹی کا جہیز بھی تیار کرسکے۔ لڑکی باحیا، پردہ دار اور شریف تھی۔ وہ کبھی گھر سے باہر نہ نکلی تھی۔

    ایک دن اس نے والدین سے فرمائش کی کہ وہ بھی سوت لے کر ان کے ساتھ بازار جائے گی۔ چنانچہ وہ گھر سے بازار کے لیے نکلے۔ تینوں بازار کی طرف بڑھے، تو راستے میں ایک مقام پر ایک درباری امیر الفیل کا دروازہ پڑا۔

    اتفاق تھا کہ ماں باپ کسی بات میں مشغول ہو کر آگے بڑھ گئے اور بیٹی بھی دھیان نہ رکھ سکی کہ وہ راستے میں اِدھر اُدھر ہوتی ماں باپ سے فاصلہ پر رہ گئی ہے۔ اس لڑکی کی جب نگاہ اٹھی تو ماں باپ نظر نہ آئے۔ وہ گھبرا کر وہیں کھڑی ہو گئی۔ اس کے دل میں خوف تھا اور چہرے پر حیرت۔ اسے یہ بھی معلوم نہ تھا کہ جائے تو کہاں، اور کس طرف قدم بڑھائے۔

    یہ لڑکی حسن و جمال میں بے مثال تھی۔ اتفاق سے اسی لمحے امیر الفیل محل سے باہر نکلا اور جب اس کی نظر اس دوشیزہ پر پڑی تو دل و دماغ پر عاشقانہ جنون چھا گیا۔ وہ اُسے پکڑ کر اندر محل نما گھر میں لے گیا۔ پھر اپنی کنیزوں کو حکم دیا کہ لڑکی کو نہلا کر، خوشبو لگا کر، عمدہ لباس پہنا کر اُس کے لیے تیار کریں۔ اس بد بخت کی نیّت خراب ہوچکی تھی۔ اسے لڑکی سے دو باتیں‌ کرکے اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ تنہا بھی ہے اور اس کا باپ بھی کوئی بااثر اور بڑا آدمی نہیں ہے۔ اس نے لڑکی کی عصمت دری کی اور مردود بن گیا۔

    ادھر ماں باپ اپنی بیٹی کے یوں بچھڑ جانے کے بعد بدحواسی کے عالم میں راستے پر واپس لوٹے، لیکن وہ کہیں نہ ملی۔ اب وہ شہر بھر میں اسے ڈھونڈتے پھرے، مگر کہیں ان کو اپنی بیٹی کا سراغ نہ ملا۔ وہ رات ہونے پر رنج و غم سے نڈھال، روتے بلکتے، گِریہ و زاری کرتے گھر لوٹ گئے۔

    نیند تو ان کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ دونوں‌ بیٹی کی جان و آبرو کی سلامتی کے لیے دعا کررہے تھے کہ اچانک کسی نے دروازے پر دستک دی۔ غریب باپ باہر نکلا تو دیکھا کہ ایک اجنبی کھڑا ہے۔

    اس نے سلام کرکے غریب آدمی کو بتایا کہ "تمہاری بیٹی کو سلطان کے امیر الفیل نے اٹھایا ہے اور اس کی عصمت دری کی ہے۔”

    یہ سن کر لڑکی کے باپ پر جیسے آسمان ٹوٹ پڑا۔ وہ اتنے بڑے آدمی کے خلاف کیا کرے اور کیسے اپنی بیٹی تک پہنچے…اسے کچھ نہیں‌ سوجھ رہا تھا۔ اچانک اسے کچھ یاد آیا اور وہ بیتابی سے اس مسجد کے مؤذن کی طرف دوڑا جو اس کے گھر کے قریب تھی۔

    دراصل اس مسجد کو خاص اہمیت حاصل تھی کیوں کہ اسے والیِ مصر احمد بن طولون نے تعمیر کروایا تھا۔ وہاں کے مؤذن کو احمد بن طولون نے ہدایت کر رکھی تھی کہ اگر شہر میں کسی پر ظلم ہو اور ایسا واقعہ پیش آئے جس میں کوئی بڑا درباری ملوث ہو، تو مخصوص وقت سے ہٹ کر اذان دے۔ اور سلطان کے خاص سپاہی اذان سن کر فوراً مؤذن سے معاملہ پوچھیں۔

    غریب آدمی نے مؤذن کو نیند سے بیدار کردیا اور اپنی مشکل بتائی تو اس نے فوراً مینار پر چڑھ کر اذان دی۔ اگلی صبح یہ معاملہ احمد بن طولون کے دربار میں پہنچ چکا تھا۔ لڑکی کے ماں باپ دربار میں موجود تھے اور جب وہ بدبخت امیر الفیل معمول کے مطابق دربار میں حاضر ہوا تو سلطان نے اس پر سختی کی۔ پھر اس لڑکی کے باپ سے کہا: "میں اپنے اس غلام سے تمہاری بیٹی کے نکاح کا اعلان کرتا ہوں۔”

    لڑکی کے باپ نے اس کا فیصلہ قبول کرلیا اور گواہوں کی موجودگی میں باقاعدہ اس امیر سے لڑکی کا نکاح کردیا گیا۔ خاص بات یہ تھی کہ سلطان نے بڑی رقم مہر میں رکھی تھی جس سے انکار کی جرأت امیر الفیل نہ کرسکا تھا۔

    نکاح کے بعد احمد بن طولون نے جلّاد کو بلایا اور حکم دیا کہ امیر الفیل کا سر تن سے جدا کر دے۔

    چند لمحوں میں اس کا سر کٹ کر زمین پر گرا ہوا تھا۔ پھر ابن طولون نے لڑکی کے باپ سے کہا: "اب تمہاری بیٹی بیوہ ہے، اور شوہر کی ساری متروکہ دولت پر اس کا حق ہے۔”

    "جاؤ۔ اطمینان سے زندگی بسر کرو۔” ماں باپ فرطِ جذبات سے روتے اور سلطان کو دعا دیتے محل سے روانہ ہوگئے۔

    (عربی حکایات کے اردو ترجمہ نوادر الخلفاء سے انتخاب)

  • بوڑھا شیخ اور قبیلے کی آبرو (عربی حکایت)

    بوڑھا شیخ اور قبیلے کی آبرو (عربی حکایت)

    ایک بوڑھے شیخ کو اپنا ایک مرغا بہت پیارا تھا۔ ایک دن وہ لاپتا ہو گیا۔ اُس عرب شیخ نے ہر جگہ اسے ڈھونڈا اور اپنے خادموں کو پورا علاقہ چھان مارنے کا حکم دیا، مگر مرغا نہیں ملا۔

    شیخ‌ کے نوکروں نے تھک ہار کر اپنی جان چھڑانے کو کہا کہ مرغے کو کوئی جانور کھا گیا ہو گا، اب اسے بھول جانا ہی بہتر ہے۔ یہ سن کر بوڑھے شیخ نے ان کو مرغے کے پٙر اور کھال ڈھونڈنے کا حکم دے دیا۔ نوکروں کے پاس کوئی راستہ نہ تھا، وہ یہ چیزیں‌ ڈھونڈنے نکل پڑے مگر بے سود۔ کچھ نہ ملا۔

    شیخ نے ایک اونٹ ذبح کیا اور پورے قبیلے کے عمائدین کی دعوت کر ڈالی۔ جب وہ کھانے سے فارغ ہوئے تو شیخ نے اُن سے اپنے مرغے کے غائب ہوجانے کا ذکر کیا اور اسے ڈھونڈھنے میں مدد کی درخواست کی۔ کچھ زیرِ لب مسکرائے، کچھ نے بوڑھے کو خبطی سمجھا۔ مگر وعدہ کیا کہ کوشش کریں گے۔ باہر نکل کر مرغے کی خاطر اونٹ ذبح کرنے پر خوب مذاق اڑایا۔ سب حیران تھے کہ ایک مرغے کے لیے شیخ‌ نے اونٹ ذبح کردیے۔

    کچھ دن بعد قبیلہ کے غریب آدمی کی بکری چوری ہو گئی۔ وہ ڈھونڈ ڈھانڈ کر خاموش ہو گیا۔ شیخ کے عِلم میں جب یہ بات آئی تو اُس نے پھر ایک اونٹ ذبح کیا اور قبیلے کی دعوت کر ڈالی۔ جب لوگ کھانے سے فارغ ہوئے تو اس نے پھر مُرغے اور بکری کا قصہ چھیڑا اور قبیلے والوں‌ کو کہا کہ اُس کا مرغا ڈھونڈیں۔ اب تو کچھ نے اُسے برا بھلا کہا۔ کچھ نے دلاسہ دیا کہ اِتنی بڑی بات نہیں، صبر کر لو، اس سے زیادہ اپنا نقصان یہ دعوتیں‌ کر کے کرچکے ہو۔

    ابھی تین دن ہی گزرے تھے کہ ایک اور شیخ کا اونٹ رات کو اُس کے گھر کے سامنے سے چوری ہو گیا۔ اُس شیخ نے اپنے ملازمین کو خوب بُرا بھلا کہا اور خاموش ہو گیا کہ ایک اونٹ اُس کے لیے کوئی وقعت نہیں رکھتا تھا۔

    بوڑھے شیخ کو جب عِلم ہُوا تو اُس نے پھر ایک اونٹ ذبح کیا اور قبیلے کی دعوت کر دی۔ سب کھانے سے جب فارغ ہوئے تو اُس نے سرسری اونٹ کی گم شدگی کا ذکر کرتے ہوئے اپنے مُرغے کو یاد کیا اور قبیلے سے پھر درخواست کی کہ مرغا تلاش کرنے میں‌ مدد کریں۔ اب تو محفل میں خوب گرما گرمی ہوئی اور بوڑھے سے کہا گیا کہ اب اگر دوبارہ اُس نے مرغے سے متعلق کوئی بات کی تو پورا قبیلہ اُس سے قطع تعلق کر لے گا۔ شیخ کے بیٹوں نے بھی باپ کی اِس حرکت پر مہمانوں کو رخصت کرتے ہوئے معذرت خواہانہ روّیہ اختیار کیا۔ وہ شرمندہ تھے اور سمجھتے تھے کہ ان کا ضعیف بات ایک مرغے کے بدلے تین اونٹ ذبح کرچکا ہے۔ یقیناً ان کا باپ اب سٹھیا گیا ہے۔

    پندرہ روز بعد اسی قبیلے کی ایک لڑکی کنویں سے پانی بھرنے گئی اور پھر واپس نہیں آئی۔ گاوں میں کہرام مچ گیا۔ پورے قبیلے کی عزّت داؤ پر لگ گئی۔ نوجوانوں نے جھتے بنائے اور تلاش شروع کی۔ پہلے گاؤں، پھر دوسرے علاقوں اور نواح سے معلومات کی گئیں تو پتہ چلا کہ کچھ ڈاکو قریبی پہاڑ کے ایک غار میں کچھ عرصے سے چھپے ہوئے ہیں۔ یہ ان کی کارروائی ہوسکتی ہے۔ گاؤں والے اکٹھا ہوئے اور غار پر دھاوا بول دیا۔ وہاں لڑائی ہوئی، اموات ہوئیں اور لڑکی برآمد ہوگئی۔ لوگوں نے وہاں ایک اونٹ، ایک بکری اور مرغے کی باقیات بھی ڈھونڈ لیں۔

    تب انھیں احساس ہوا کہ بوڑھا شیخ کس طوفان سے ان کو خبردار کررہا تھا۔ اگر گاؤں والے اور خاص طور پر قبیلے کے بڑے اس بوڑھے شیخ کے مرغے کے غائب ہونے کو اہمیت دیتے اور اس پر متحد ہو کر کچھ کرتے تو بات ان کی آبرو تک نہ پہنچتی۔

    (ایک قدیم عربی حکایت کا اردو ترجمہ)

  • میں تو اُسی دن قتل ہوگیا تھا!

    میں تو اُسی دن قتل ہوگیا تھا!

    دنیا کی ہر تہذیب اور ثقافت میں ہمیں نصیحت آمیز قصّے اور دل چسپ داستانیں پڑھنے کو ملتی ہیں۔ ہماری دنیا کی ہر زبان کا ادب ایسی کہاوتوں اور حکایات سے مالا مال ہے جو دانایانِ رفتہ کے علم، ان کے تجربات اور مشاہدات کا نچوڑ ہیں اور ہمارے لیے سبق آموز۔

    عربی کی ایک مشہور کہاوت ہے ”میں تو اسی دن قتل ہو گیا تھا جس دن سفید بیل قتل ہوا۔“ اسی ضربُ المثل سے جڑی ایک دل چسپ حکایت بہت مشہور ہے، ملاحظہ کیجیے۔

    کہتے ہیں کسی جنگل میں دو بیل رہتے تھے، ایک لال اور ایک سفید۔ ان کی آپس میں گہری دوستی تھی، ایک ساتھ چرنے کے لیے جانا اور گھومنا پھرنا۔ ان کی اس مثالی دوستی کی وجہ سے اس جنگل کا شیر ان پر ہاتھ نہیں ڈال سکتا تھا۔ اس نے جب کبھی ان میں سے کسی ایک پر حملہ کیا تو دونوں نے مل کر اس کی وہ درگت بنائی کہ شیر کو اپنی جان کے لالے پڑ گئے اور ہر بار اس نے گرتے پڑتے ہی بھاگ نکلنے میں‌ عافیت جانی۔

    ایک دن شیر نے ایک چال چلی۔ اس نے لال بیل کو چکنی چپڑی باتیں کر کے بہلایا اور اسے کچھ خواب دکھا کر اپنے ساتھ ملا لیا۔ لال بیل اس کی باتوں میں آ گیا۔ شیر نے باتیں ہی ایسی کی تھیں کہ اسے اپنے ساتھی سفید بیل کی دوستی کے مقابلے میں شیر سے راہ و رسم بڑھانا زیادہ ’محفوظ‘ نظر آ رہا تھا۔ لال بیل کے اپنے ساتھی سے دوری اختیار کر لینے سے سفید بیل شیر کے مقابلے میں کمزور پڑ گیا تھا۔ چند دنوں کے بعد شیر نے سفید بیل کے شکار کا پروگرام بنایا اور ایک روز موقع ملتے ہی اس پر حملہ کر دیا۔

    اس سے پہلے جب شیر ان میں سے کسی ایک کو بھی گھیرتا تھا تو دوسرا اس کی مدد کو آجاتا تھا اور وہ مل کر شیر کو بھگا دیا کرتے تھے، مگر اس بار اکیلے بیل کے لیے شیر کا مقابلہ کرنا مشکل ہو گیا… سفید بیل نے اپنے ساتھی لال بیل کو بہت پکارا، بہت آوازیں دیں، پرانی دوستی کے واسطے دیے اور بیل ہونے کے ناتے ’بھائی چارے‘ کا احساس دلایا، مگر شیر کی دوستی کے نشے میں ڈوبے لال بیل پر اس کی پکار کا کوئی اثر نہ ہوا۔ وہ اپنی برادری کے ایک فرد کو درندے کا شکار بنتا دیکھتا رہا۔ وہ بہت مطمئن تھا کہ سفید بیل کے ساتھ نہ تھا ورنہ آج شیر کے حملے میں اس کام بھی تمام ہو جاتا۔ شیر نے پے در پے حملے کرکے سفید بیل کو شدید زخمی کردیا اور وہ اس کے آگے ڈھسل گیا۔ شیر نے مزے سے اس کا گوشت کھایا اور اگلے دن کے لیے بھی کچھ بچا کر رکھ لیا۔ وہ اپنے باقی ماندہ شکار کو کھینچتا اپنے ٹھکانے پر لے گیا تھا۔

    تھوڑے دن گزرے تھے کہ شیر نے لال بیل کو بھی ہڑپ کرنے کا سوچا۔ جب شیر نے اس پر حملہ کیا تو لال بیل کی آنکھوں میں ملال کی سرخی دوڑ گئی اور اب وہ شیر کا ساتھ دینے پر پچھتا رہا تھا۔ اس نے زور سے ڈکارتے ہوئے جنگل کے باسیوں کو پیغام دیا کہ… ”میں تو اسی دن ہی قتل ہو گیا تھا، جس دن سفید بیل قتل ہوا…!“

  • عرب اور عقل و دانش

    عرب اور عقل و دانش

    کوئی فقرہ اور جملہ جو زندگی کے بارے میں کسی اصول، حقیقت یا رویّے کو بیان کرے اور وہ ہمیں‌ غور و فکر پر آمادہ کرے اور کوئی پیغام دے تو اسے ہم کہاوت اور ضربُ المثل کی صورت اپنی گفتگو اور تحریر میں استعمال کرتے ہیں۔

    یہاں ہم چند ایسی کہاوتیں نقل کررہے ہیں جو ہزاروں سال سے عربی زبان و ثقافت کا حصّہ ہیں اور ان میں حکمت اور دانائی پوشیدہ ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔

    پانی وہاں سے پینا چاہیے جہاں گھوڑا پیتا ہے، کیوں کہ نسلی گھوڑا ناپاک پانی کو منہ نہیں لگاتا۔

    گھر اس جگہ بنانا چاہیے جہاں اژدھا دھوپ سیکنے کنڈلی مارے بیٹھا ہو، کیوںکہ اژدھا استراحت کے لئے صرف ایسی جگہ کا انتخاب کرتا ہے جو مضبوط اور پختہ ہونے کے ساتھ سردیوں میں گرم اور گرمیوں میں ٹھنڈی ہو۔

    پھل وہ کھاؤ جسے کیڑا کھائے بغیر چھو کر گزرا ہو، کیوںکہ کیڑا صرف پکے ہوئے پھل کو ہی تلاش کرتا ہے۔

    پانی کے لئے وہ جگہ کھودنی چاہیے جہاں پرندوں کو گرمی سے بچنے کے لئے پناہ لیتے دیکھا ہو، کیوںکہ جہاں پرندے پناہ لیتے ہیں وہاں پانی ہوتا ہے۔

    کام یابی کے خواہش مند ہو تو سونے اور اٹھنے میں پرندوں جیسی عادت اپنا لو، کیوںکہ رزق کی تلاش کے لیے سب سے مناسب وقت کا انتخاب پرندے ہی کرتے ہیں اور اسی کے مطابق محنت کرکے ہم اس کا پھل پاسکتے ہیں۔

    سکون سے سونا ہو تو چارپائی وہاں بچھاؤ جہاں بلّی سوتی ہے، کیوں کہ بلّی ہمیشہ پر سکون جگہ کا انتخاب کرتی ہے۔

  • بزدل غلام

    بزدل غلام

    ایک بادشاہ اپنے چند درباریوں کے ساتھ دریا کنارے سیر کو گیا۔ دریا کے دونوں کناروں پر دور تک درخت اور سبزہ پھیلا ہوا تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے وہ سب اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کررہے ہیں۔ فضا میں پرندوں کی پرواز اور ان کی چہکار سے بادشاہ کا دل شاد ہو گیا۔

    کچھ دیر وہاں چہل قدمی کرنے کے بعد بادشاہ نے کشتی میں بیٹھ کر دریا کی سیر کی خواہش ظاہر کی تو فوراً ایک بڑی کشتی حاضر کردی گئی۔ بادشاہ اور درباریوں کے ساتھ چند غلام بھی کشتی میں‌ سوار ہوگئے۔ ان میں ایک غلام ایسا تھا جو پہلے کبھی کشتی میں نہ بیٹھا تھا۔ دریا کی روانی اور بہتے پانی کے شور میں‌ لہروں پر کشتی کے ڈولنے سے وہ خوف زدہ ہوگیا۔ اسے ڈر ہوا کہ کشتی ڈوب جائے گی اور وہ تیرنا بھی نہیں‌ جانتا، تب کیا ہو گا۔ جیسے ہی سفر شروع ہوا خوف کے مارے وہ غلام رونے لگا۔ بادشاہ کو اس کا اس طرح رونا اور خوف زدہ ہونا بہت ناگوار گزرا۔ پہلے تو سب نے اسے سمجھایا، لیکن اس کا رونا دھونا بند نہ ہوا تب ڈانٹ ڈپٹ سے کام لیا۔ اس پر بھی غلام چپ ہو کر نہ دیا۔

    کشتی میں ایک جہاں دیدہ اور دانا شخص بھی سوار تھا۔ اس نے غلام کی یہ حالت دیکھی تو بادشاہ سے کہا کہ حضور اجازت دیں تو یہ خادم اس غلام کا ڈر دور کر دے؟ بادشاہ نے اجازت دی تو اس دانا شخص نے غلاموں کو حکم دیا کہ اسے اٹھا کر دریا میں پھینک دو۔ حکم کی تعمیل ہوئی۔ جب وہ غلام تین چار غوطے کھا چکا تو اسی دانا شخص نے دوسرے غلاموں سے کہا کہ اب اسے دریا سے نکال لو۔ چنانچہ دو غلام جو اچھے تیراک بھی تھے، فوراً دریا میں کودے اور سَر کے بال پکڑ کر خوف زدہ غلام کو کشتی تک لے آئے اور اس میں‌ گھسیٹ لیا۔ سب نے دیکھا کہ وہ غلام جو ذرا دیر پہلے ڈوب جانے کے خوف سے بری طرح رو رہا تھا، اب بالکل خاموش اور پُر سکون ہو کر ایک طرف بیٹھ گیا ہے۔

    بادشاہ نے حیران ہو کر سوال کیا کہ آخر اس بات میں کیا بھلائی تھی کہ تم نے ایک ڈرے ہوئے شخص کو دریا میں پھنکوا دیا تھا اور مزید حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ اب خاموش بھی ہو گیا ہے؟

    دانا شخص نے جواب دیا حضور والا! اصل بات یہ تھی کہ اس نے کبھی دریا میں غوطے کھانے کی تکلیف نہ اٹھائی تھی۔ اس طرح اس کے دل میں اس آرام کی کوئی قدر نہ تھی جو اسے کشتی کے اندر حاصل تھا۔ اب ان دونوں کی حقیقت اس پر روشن ہو گئی ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ خاموش ہو گیا ہے۔

    جس نے دیکھی نہ ہو کوئی تکلیف، قدر آرام کی وہ کیا جانے
    نعمتوں سے بھرا ہو جس کا پیٹ، جَو کی روٹی کو کب غذا مانے

    سبق: یہ حکایت حضرت شیخ سعدیؒ سے منسوب ہے، جس میں انھوں نے انسان کی یہ کیفیت بیان فرمائی ہے کہ جس شخص نے کبھی تکلیف دیکھی ہی نہ ہو وہ اس راحت اور آرام کی قدر و قیمت کا اندازہ ہی نہیں‌ لگا سکتا جو اسے حاصل ہے۔ اس کے علاوہ ایسا شخص جسارت اور قوّتِ برداشت سے بھی محروم ہوتا ہے۔ آسودہ، پُرمسرت اور کام یاب زندگی وہی شخص گزار سکتا ہے جس نے کسی بھی قسم کا رنج اور مشکل دیکھی ہو اور کسی بھی طرح کا راحت بھرا وقت گزارا ہو۔

  • مرا ہوا کبوتر اور ایک درہم

    مرا ہوا کبوتر اور ایک درہم

    ایک متقی و صالح شخص کسبِ معاش کے بعد اپنے مال کا ایک تہائی راہِ خدا میں خرچ کردیتے اور ایک تہائی اپنی ضروریات پر۔ اس کے علاوہ وہ اسی مال کا ایک تہائی اپنے ذریعۂ معاش پر لگا دیتے تھے۔ یہ برسوں سے ان کا معمول تھا۔

    ایک دن ان کے پاس ایک دنیا دار شخص آیا اور کہنے لگا کہ شیخ! میں چاہتا ہوں کہ کچھ مال اللہ کی راہ میں خرچ کروں، لہٰذا آپ مجھے کسی مستحق کا پتہ دیجیے۔ انہوں نے اس سے کہا پہلے تو حلال کمانے کی جستجو کرو اور اسے یقینی بناؤ اور پھر اس میں سے اللہ کی راہ میں خرچ کرو، حلال کمائی کو خود مستحق مل جائے گا۔ دنیا دار شخص نے اس بات کو بزرگ کی مبالغہ آرائی پر محمول کیا تو شیخ نے کہا، اچھا تم جاؤ تمہیں جو شخص بھی ایسا ملے جس کے لیے تمہارے دل میں جذبۂ ترحم پیدا ہو اسے صدقہ کا مال دے دینا۔

    چنانچہ وہ شخص جب شیخ کے پاس سے اٹھ کر آیا تو اس نے ایک بوڑھے اندھے کو دیکھا جس کے لیے اس کے دل میں وہ جذبہ پیدا ہوا اور اس نے محسوس کیا کہ یہی وہ مستحق ہے جسے صدقہ خیرات دینا چاہیے۔ اس نے اپنے کمائے ہوئے مال میں سے اسے کچھ حصہ خیرات کر دیا۔ دوسرے دن وہ اسی ضعیف اور نابینا شخص کے پاس سے گزر رہا تھا۔ اس وقت وہ بوڑھا اپنے ساتھ کھڑے ہوئے ایک آدمی سے بات کررہا تھا اور اسے بتا رہا تھا کہ کل ایک مال دار شخص نے ترس کھا کر مجھے کچھ مال دیا تھا، جسے میں نے فلاں فلاں بدکار شخص کے ساتھ عیاشی اور شراب نوشی میں اڑا دیا۔

    وہ دنیا دار یہ سنتے ہوئے آگے بڑھ گیا اور سیدھا شیخ کے پاس پہنچا۔ اس نے یہ ماجرا ان کے حضور بیان کیا۔ شیخ نے یہ واقعہ سن کر اپنی کمائی میں سے ایک درہم اسے دیا اور کہا کہ اسے رکھو، اور یہاں سے نکلتے ہی سب سے پہلے تمہاری نظر جس آدمی پر پڑے یہ درہم اسے بطور خیرات دے دینا۔ اس نے یہی کیا اور شیخ کا درہم لے کر گھر سے باہر نکلا اور سب سے پہلے اس کی نظر جس شخص پر پڑی وہ اسے بظاہر پیٹ بھرا اور معقول معلوم ہو رہا تھا۔ اس نے پہلے تو یہ درہم اُس شخص کو دینے میں‌ ہچکچاہٹ محسوس کی، مگر شیخ کا حکم تھا، اس لیے ہمّت باندھی اور درہم اس آدمی کی طرف بڑھا دیا۔ ادھر اُس نے بھی درہم لیا اور آگے چل پڑا۔ تب وہ دنیا دار جس نے شیخ کے حکم پر یہ عمل کیا تھا، تجسس کے مارے اس کے پیچھے ہو لیا۔ وہ دیکھنا چاہتا تھا کہ بظاہر خوش حال نظر آنے والا یہ آدمی اس درہم کو کہاں‌ خرچ کرتا ہے۔

    دنیا دار سے خیرات میں‌ درہم حاصل کرنے والا آگے بڑھتا رہا اور ایک کھنڈر کے قریب پہنچ کر اس میں داخل ہوا ور پھر وہاں سے دوسری طرف نکل کر شہر کی راہ پکڑی۔ جب یہ مال دار آدمی اس کے پیچھے کھنڈر میں داخل ہوا تو وہاں اسے کوئی چیز نظر نہ آئی، البتہ ایک مرا ہوا کبوتر اس نے ضرور دیکھا۔

    مال دار آدمی نے کھنڈر سے باہر نکلنے کے بعد کچھ آگے جاکر خیرات لینے والے کو روک لیا اور قسم دے کر پوچھا کہ بتاؤ تم کون ہو؟ اور کس حال میں رہتے ہو؟ اس نے کہا کہ میں ایک غریب انسان ہوں، میرے چھوٹے چھوٹے بچّے ہیں، وہ بہت بھوکے تھے، جب مجھ سے ان کی بھوک کی شدت نہ دیکھی گئی تو انتہائی اضطراب اور پریشانی کے عالم میں گھر سے نکل کھڑا ہوا۔ میں ابھی پریشانی کے عالم میں‌ پِھر رہا تھا کہ مجھے کھنڈر میں یہ مرا ہوا کبوتر نظر آیا، مرتا کیا نہ کرتا؟ میں نے یہ کبوتر اٹھا لیا اور اسے لے کر اپنے گھر کی طرف چلا تاکہ اس کے گوشت سے بچّوں کی کچھ بھوک مٹا سکوں، مگر پھر ایک جگہ اللہ نے تمہارے ذریعے یہ درہم مجھے عنایت کیا تو وہ کبوتر جہاں سے اٹھایا تھا، وہیں پھینک دیا اور اب کھانے پینے کی چیز لے کر اپنے گھر جاؤں‌ گا۔

    اب اس مال دار پر یہ بھید کُھلا کہ شیخ کا وہ قول محض جذباتی بات اور مبالغہ آرائی نہیں تھا بلکہ حقیقت یہی ہے کہ حلال مال اللہ کی مرضی سے ضرور حقیقی ضرورت مند اور مستحق تک پہنچتا ہے جب کہ حرام اور ناجائز طریقے سے ہاتھ آیا مال بُری جگہ خرچ ہوتا ہے۔

    (باب صدقہ کی فضیلت، روایت از شیخ علی متقی عارف باللہ)

  • چرواہے کی دانش مندی

    چرواہے کی دانش مندی

    کچھ لوگ ایک گمشدہ اونٹ کو تلاش کرتے ہوئے جب ایک نخلستان سے گزرے تو وہاں‌ انہیں وہاں ایک بوڑھا چرواہا ملا۔

    انہوں نے اس سے کہا۔ ’’بھائی ہمارا اونٹ یہاں چر رہا تھا۔ کیا تم نے دیکھا ہے؟‘‘

    چرواہے نے پوچھا۔ ’’کیا تمہارا اونٹ بائیں آنکھ سے کانا ہے؟‘‘

    ’’ہاں!‘‘

    ’’کیا وہ ایک پیر سے لنگڑا ہے؟‘‘

    ’’ہاں ۔۔۔ ہاں!!‘‘

    ’’کیا اس کے آگے کے دو دانت ٹوٹے ہوئے ہیں؟‘‘

    ’’ہاں، ہاں۔۔۔بتاؤ وہ کہاں ہے؟‘‘

    ’’میں نے اسے نہیں دیکھا۔‘‘

    ان لوگوں کو چرواہے کی بات کا یقین نہیں آیا۔ کیوں کہ وہ ان کے اونٹ کی جو نشانیاں بتا رہا تھا، وہ بالکل درست تھیں۔ انہیں‌ یقین تھا کہ اس نے ان کے اونٹ کو دیکھا ہے یا وہ یہ جانتا ہے کہ اونٹ کہاں‌ ہے مگر اب بتانا نہیں‌ چاہتا۔ چنانچہ وہ اسے پکڑ کر قاضی کے پاس لے گئے اور سارا ماجرا کہا۔ قاضی صاحب نے بھی حیرت سے پوچھا ۔

    ’’جب تم نے اونٹ نہیں دیکھا تو اس کے بارے میں اتنی باتیں کیسے بتا دیں؟‘‘

    چرواہے نے جواب دیا۔ ’’حضور اونٹ نے دائیں طرف کی گھاس کھائی تھی اور بائیں جانب کی چھوڑ دی تھی۔ اس سے میں نے اندازہ لگایا کہ وہ بائیں آنکھ سے محروم تھا۔ پھر جہاں اس نے گھاس کھائی تھی وہاں تھوڑی تھوڑی گھاس رہ گئی تھی جس کا مطلب یہ ہوا کہ اس کے دو دانت ٹوٹے ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ اس کے چاروں پیروں کے نشانات میں سے ایک پاؤں کا نشان ہلکا تھا جس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ لنگڑا تھا۔

    (مشہور عربی لوک کہانی کا اردو ترجمہ)

  • نام وَر ادیب اور افسانہ نگار محمود تیمور کی برسی

    نام وَر ادیب اور افسانہ نگار محمود تیمور کی برسی

    محمود تیمور مصر کے معروف ادیب اور افسانہ نگار تھے جنھوں نے 1973ء میں آج ہی کے دن وفات پائی۔ انھیں عربی ادب میں دورِ جدید میں افسانے اور مختصر کہانیوں کی بنیاد رکھنے والوں میں شمار کیا جاتا ہے۔

    قلم کاروں نے انھیں عربی ادب کا موپاساں اور عرب کا شیکسپئیر بھی لکھا ہے۔ وہ 16 جولائی 1894ء کو مصر میں شہر قاہرہ کے ایک قدیم قصبے کے ایسے گھرانے میں‌ پیدا ہوئے جو علم و ادب کے حوالے سے معروف تھا۔ ان کے دادا ترک نژاد مصری رئیس اسماعیل پاشا تیمور اپنے شوقِ مطالعہ اور ذخیرہ کتب کے لیے مشہور تھے اور اسی ماحول میں‌ آنکھ کھولنے والے محمود تیمور کے والد ادیب بنے جن کا نام علاّمہ احمد توفیق تیمور پاشا تھا۔ یہی نہیں محمود تیمور کی پھوپھی بھی شاعرہ تھیں جب کہ ایک بھائی محمد تیمور معروف عربی ادیب تھے۔

    محمود تیمور کو بھی شروع ہی سے گھر میں کتابیں میسر آئیں اور مطالعہ کا شوق پروان چڑھا۔ انھوں نے زرعی اسکول میں تعلیم حاصل کی، لیکن ٹائیفائیڈ کا شکار ہونے کے باعث تعلیم مکمل نہ کرسکے اور کئی ماہ بستر پر گزارے۔ اس دوران گھر میں موجود کتابیں پڑھتے ہوئے خود بھی لکھنے کی طرف مائل ہوئے۔ ان کے بھائی محمد تیمور نے اس مرحلے پر ان کی راہ نمائی کی اور گھر میں اپنی حوصلہ افزائی اور تعاون کے سبب باقاعدہ لکھاری بنے۔

    انھوں نے نوجوانی میں وزارتِ خارجہ میں ملازمت حاصل کی اور اس زمانے میں یورپ گئے جہاں قیام کے دوران مغربی ادب کا مطالعہ کیا۔ وہ موپاساں، چیخوف اور خلیل جبران کی تحریروں سے متاثر ہوئے اور مصر لوٹنے کے بعد جدید عربی ادب کی بنیاد رکھی اور عربی افسانے کو بین الاقوامی معیار دیا۔

    محمود تیمور القصۃ نامی رسالے مدیر بھی رہے جس میں ان کی کئی مختصر کہانیاں شایع ہوئیں، 1925 ء میں ان کا مختصر کہانیوں کا پہلا مجموعہ ‘‘ما تراہ العيون’’ شایع ہوا اور بعد میں‌ مزید مجموعے سامنے آئے۔

    محمود تیمور نے عربی زبان میں کئی مقبول کہانیاں قارئین کو دیں جب کہ ان کے سات ناول بھی شایع ہوئے۔ انھوں نے سفر نامے بھی تحریر کیے اور ادبی مضامین لکھتے رہے۔ ان کے کئی افسانوں پر مصر میں ڈرامے اور فلمیں بنائی گئیں۔ محمود تیمور کی کئی کہانیوں کے تراجم بھی خاصے مقبول ہوئے۔

    عربی ادب کے اس نام وَر تخلیق کار نے بین الاقوامی ادبی کانفرنسوں میں شرکت کی اور ایک موقع پر پاکستان بھی آئے۔

    محمود تیمور نے 80 برس کی عمر میں سوئٹزر لینڈ کے شہر لوزان میں وفات پائی۔

  • انوکھا بیج

    انوکھا بیج

    ایک تاجر اپنی مستقل مزاجی، لگن اور محنت سے کام یابی کی منازل طے کرتا چلا گیا اور ایک بہت بڑے ادارے کا مالک بن گیا۔ جب وہ بوڑھا ہو گیا تو اُس نے ادارے کے ڈائریکٹروں میں سے کسی کو اپنا کام سونپنے کی دل چسپ ترکیب نکالی۔

    اس نے ادارے کے تمام ڈائریکٹروں کا اجلاس طلب کیا اور کہا “میری صحت مجھے زیادہ دیر تک اپنی ذمہ داریاں نبھانے کی اجازت نہیں دیتی، اس لیے میں آپ میں سے ایک کو اپنی ذمہ داریاں سونپنا چاہتا ہوں۔ میں آپ سب کو ایک ایک بیج دوں گا۔ اسے بونے کے ایک سال بعد آپ اس کی صورتِ حال سے مطلع کریں گے جس کی بنیاد پر میں اپنی ذمہ داریاں سونپنے کا فیصلہ کروں گا۔”

    کچھ عرصہ بعد سب ڈائریکٹر اپنے بیج سے اُگنے والے پودوں کی تعریفیں کرنے لگے سوائے زید کے جو پریشان تھا۔ وہ خاموش رہا اور اپنی خفت کو مٹانے کے لیے مزید محنت سے دفتر کا کام کرتا رہا۔ دراصل زید نے نیا گملا خرید کر اس میں نئی مٹی ڈال کر بہترین کھاد ڈالی تھی اور روزانہ پانی بھی دیتا رہا تھا مگر اس کے بیج میں سے پودا نہ نکلا۔

    ایک سال بعد ادارے کے سربراہ نے پھر سب ڈائریکٹروں کا اجلاس بلایا اور کہا کہ سب وہ گملے لے کر آئیں جن میں انہوں نے بیج بویا تھا۔ سب خوب صورت پودوں والے گملوں کے ساتھ اجلاس میں پہنچے مگر زید جس کا بیج اُگا نہیں تھا، خالی ہاتھ ہی اجلاس میں شامل ہوا اور ادارے کے سربراہ سے دور والی کرسی پر بیٹھ گیا۔

    اجلاس شروع ہوا تو سب نے اپنے بیج اور پودے کے ساتھ کی گئی محنت کا حال سنایا۔ اس اُمید پر کہ اسے ہی سربراہ بنایا جائے۔

    سب کی تقاریر سننے کے بعد سربراہ نے کہا، “ایک آدمی کم لگ رہا ہے۔” اس پر زید جو ایک اور ڈائریکٹر کے پیچھے چھپا بیٹھا تھا، کھڑا ہو کر سر جھکائے بولا، “جناب، مجھ سے جو کچھ ہو سکا میں نے کیا مگر میرے والا بیج نہیں اگا۔” اس پر کچھ ساتھی ہنسے اور کچھ نے زید کے ساتھ ہم دردی کا اظہار کیا۔

    چائے کے بعد ادارے کے سربراہ نے اعلان کیا کہ اس کے بعد زید ادارے کا سربراہ ہو گا۔ اس پر کئی حاضرینِ مجلس کی حیرانی سے چیخ نکل گئی۔ ادارے کے سربراہ نے کہا “اس ادارے کو میں نے بہت محنت اور دیانت داری سے اس مقام پر پہنچایا ہے اور میرے بعد بھی ایسا ہی آدمی ہونا چاہیے اور وہ زید ہے جو محنتی ہونے کے ساتھ دیانت دار بھی ہے۔

    میں نے آپ سب کو اُبلے ہوئے بیج دیے تھے جو اُگ نہیں سکتے۔ سوائے زید کے آپ سب نے بیج تبدیل کر دیے۔”

    (ماخذ: انوکھا بیج از افتخار اجمل بھوپال)

  • چیونٹی کی ہمسایہ بِھڑ

    چیونٹی کی ہمسایہ بِھڑ

    ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کچھ چیونٹیوں نے ایک ویران گھر کے کھنڈر میں اپنا گھروندا بنالیا۔ وہ ایک مدّت سے یہاں رہ رہی تھیں۔ ایک روز چند تند، سرخی مائل بھڑیں بھی وہاں آپہنچیں اور اُنھوں نے اسی ویران گھر کی دیوار میں اپنا چھتّا بنالیا۔ چیونٹیاں اور بھڑیں اپنے اپنے کاموں میں مشغول رہتی تھیں اور امن چین سے زندگی گزار رہی تھیں۔

    چیونٹیاں تعداد میں بہت تھیں۔ یوں اُس ڈھنڈار میں باپ، مائیں، ان کے بچے بچیّاں، نواسے، نواسیاں، پوتے پوتیاں اور پَر نواسے، ایک وسیع اور تہ در تہ گھر میں زندگی بسر کررہے تھے اور جیسا کہ ان کا ہے، وہ گرمیوں کے دنوں میں باغوں، صحراؤں اور کونوں کھدروں میں پھیل جاتیں اور صبح سے رات تک دانہ دنکا اکٹھا کرتیں، اپنے ذخیرے کو بھرتی جاتیں اور سردیوں کے دنوں میں مزے سے زندگی گزارتیں۔

    ایک دن بزرگ بِھڑ دیوار پر بیٹھی اِدھر اُدھر نگاہ کررہی تھی۔ کیا دیکھتی ہے کہ ایک چیونٹی خشک تُوت کو دانتوں میں تھامے، اسے اپنے گھروندے تک لے جانا چاہتی ہے، مگر چونکہ کم زور ہے، نیچے آرہی ہے۔ اب وہ دانے کو اپنے دانتوں میں دابے دیوار کی بلندی کی جانب کھینچ رہی تھی۔ ابھی وہ آدھے رستے تک بھی نہ پہنچ پائی تھی کہ خشک تُوت اس کے منہ سے پھر گر گیا۔

    چند بار ایسا ہی ہوا کہ بیچاری چیونٹی اسے زمین سے اُٹھاتی، آدھی راہ طے کرتی اور وہ زمین پر آ رہتا۔ آخرِ کار ایک بار وہ دانے کو دیوار کے آخر تک لے جانے میں کام یاب ہوگئی۔ اب اس نے دانہ لبِ بام رکھا اور اس کے پہلو میں کھڑی ہوگئی۔ تھکن سے چُور اس نے لمبا سانس لیا اور بولی: ہائے افسوس، میرے مولا، میں تو تھکن سے نڈھال ہوگئی!

    بزرگ بِھڑ جو چیونٹی کے صبر اور حوصلے پر حیران تھی، اپنی جگہ سے اُڑی اور چیونٹی کے پاس آبیٹھی اور کہنے لگی: معاف کرنا، یہ تو تمھیں یقیناً معلوم ہوگا کہ ہم، ہم ہمسائے ہیں اور اسی دیوار کے ایک سوراخ میں رہتے ہیں۔

    چیونٹی بولی، ہاں ہاں مجھے معلوم ہے، آپ کا شکریہ۔ اصل میں ہر کوئی اپنے اپنے کام میں جُتا ہوا ہے۔ بھڑ بولی: بے شک زندگی ہے تو یہ سب کُچھ ہے، مگر یہ کیا کام ہوا کہ تم چیونٹیاں کرتی رہتی ہو؟

    ”کون سا کام“؟ چیونٹی بولی: آخر ہم کیا کام کرتی رہتی ہیں کہ تمھیں عجیب لگا“ بِھڑ بولی: بالکل بیکار، تمھارا کام یہی تو ہے کہ سارا سال یہاں وہاں سے کھانے کے لیے دانے اکٹھا کرتی ہو اور بڑی دقّت سے انھیں کھینچ کھانچ کر اپنے گھروندے میں لے جاتی ہو اور وہاں ذخیرہ کرلیتی ہو۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ اس ننھے سے پیٹ کے لیے تم کس قدر حرص اور لالچ سے کام لیتی ہو!

    چیونٹی بولی: مجھے نہیں معلوم تم کہنا کیا چاہتی ہو۔ کیا اس کام کے سوا، جو ہم کرتی ہیں، کوئی اور کام بھی ہے؟ ہم گرمیوں کے پورے موسم میں کام میں جُتی رہتی ہیں اور سردیوں کے دنوں میں اپنے گھر میں نیند لیتی ہیں اور اپنے جمع شدہ غلّے کو کام میں لاتی ہیں۔ ایسے میں تمھارا طرزِ عمل کیا ہوتا ہے؟

    بِھڑ نے کہا: ہم کبھی دانے کھینچنے اور انھیں ذخیرہ کرنے کی زحمت نہیں کرتے۔ ہم گرمیوں کے موسم میں بہترین خوراک کھاتے ہیں اور اس قدر کھاتے ہیں کہ سارے موسمِ سرما میں سیر رہتے ہیں اور سوئے رہتے ہیں، حتّٰی کہ دوبارہ گرمیوں کا موسم آ جاتا ہے!

    چیونٹی بولی: بہت خوب، تمھارا اپنا رنگ ہے، ہمارا اپنا ڈھنگ۔ سب ایک جیسے تو نہیں ہوتے نا۔ ہر کسی کا اپنا اپنا طریقہ اور راہ و رسم ہے۔

    تم لوگ تکلیف نہیں اُٹھاتے، لوگوں کا مال کھاتے ہو اور لوگ تمھارے ہاتھوں تنگ ہیں۔ ہر کوئی تمھیں برا بھلا کہتا ہے، لیکن ہمارا رزق حلال ہے، صحراؤں میں گرے پڑے دانے، گری پڑی شکر اور حیوانوں اور پرندوں کی بچی کھُچی خوراک۔ ہمیں لوگوں سے کچھ لینا دینا نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک شاعر نے بھی ہماری تعریف میں شعر کہا ہے:

    دانہ کش چیونٹی کو مَت سَتا مرے بھائی
    وہ بھی جان رکھتی ہے اور جان ہے پیاری

    اس کے برعکس تمھیں لوگ برے لفظوں سے یاد کرتے ہیں۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:

    کوئی یہ بھِڑ سے کہے جاکے اے ہمہ آزار!
    جو شہد دے نہیں سکتی تو ڈنک بھی مت مار

    بِھڑ کہنے لگی: ایسی باتیں کم زور لوگ کیا کرتے ہیں۔ تم لوگ اپنا دل یہ سوچ کر خوش کرتے ہو کہ چیونٹیاں ہو اور بے آزار ہو اور شاعر نے تمھاری تعریف کی ہے، لیکن تم نے اِس زندگی سے کچھ سبق نہیں سیکھا۔

    تم نے قصّاب کی دکان کا گوشت کبھی نہیں کھایا اور انگور کی بیلوں سے لٹکے انگوروں کے رس کا مزہ کبھی نہیں چکھا۔ ایک دن تمھاری زندگی اختتام کو پہنچ جائے گی اور تم مرجاؤ گی، زندگی کا لطف اٹھائے بغیر! لیکن جب ہم مریں گے تو دھوکا کھائے ہوئے لوگوں میں سے نہیں ہوں گے۔

    ہم نے دنیا کے عیش بھی کیے ہیں اور اپنے ڈنک سے لوگوں سے انتقام بھی لیا ہے۔ ہمارے ایک دن کی قدر و قیمت تمھاری عمر کے ایک برس سے بڑھ کر ہے۔ میں تو چاہتی ہوں کہ کوئی ستّر سالہ بدبخت شاعر ہماری تعریف نہ کرے۔

    چیونٹی نے تعجب سے کہا: اچھا تو تم لوگ قصّاب کی دکان کا گوشت بھی کھاتے ہو؟

    بھڑ نے کہا: ارے واہ! اگر تمھیں نہیں معلوم تو میرے ساتھ آؤ تاکہ تمھیں معلوم ہو کہ ہم کیا کیا کارنامے کرتے ہیں۔

    چیونٹی نے کہا: تمھیں معلوم ہے میں تمھارے ساتھ پرواز نہیں کرسکتی۔ اگر سچ کہتی ہو تو مجھے اپنے ساتھ اڑا لے چلو تاکہ میں دیکھوں اور یاد رکھوں۔

    مغرور بِھڑ، چیونٹی کو اپنے کارناموں سے آگاہ کرنا چاہتی تھی۔ اس نے چیونٹی کو اپنے دانتوں سے پکڑا اور قصاب کی دکان پر لاکر زمین پر بٹھا دیا اور کہا: یہیں رہ اور دیکھ۔ پھر وہ اڑی اور بھیڑ کی دُم پر آ بیٹھی جسے قصّاب نے ذبح کرکے لوہے کے حلقے کے ساتھ لٹکا رکھا تھا۔

    جونہی قصّاب گوشت لینے کے لیے اٹھا، بِھڑ خوف زدہ ہوکر اوپر کو اُڑی۔ قصّاب بھڑوں کی روز روز کی مصیبت سے تنگ آچکا تھا۔ اس نے اپنا بُغدہ اٹھایا اور بھیڑ کے جسم پر کچھ اس طرح مارا کہ کئی بِھڑیں ضرب کھا کر مر گئیں اور کئی نیم جان ہوکر زمین پر گرگئیں۔ چیونٹی کی ہمسایہ بِھڑ بھی انہی میں تھی۔

    چیونٹی جو اُس وقت ایک طرف دیکھ رہی تھی، آہستہ آہستہ آگے بڑھی اور اپنی ہمسایہ بھِڑ کا کھوج لگالیا۔ پھر اس سے کہنے لگی: مجھے بڑا دکھ ہے۔ ہم چیونٹیاں اس طرح کی زندگی جس میں ہر لمحہ خطرہ جان ہو، پسند نہیں کرتیں جب تک کہ کوئی بڑا مقصد ہمارے سامنے نہ ہو۔ تب تک ہمسایہ بھڑ مرچکی تھی اور جواب دینے سے قاصر!

    چیونٹی مردہ بِھڑ کا پاؤں منہ میں تھام اسے کھینچ کھانچ اپنے گھر میں لے آئی اور اسی دیوار پر چڑھ کر اوپر لے گئی۔ پھر اُسے خشک توت کے ساتھ رکھ کر دوسری چیونٹیوں کو اطلاع کی اور کہا: آؤ اس بِھڑ کے بدن کو تکّہ تکّہ کریں۔ اس کے اندر موجود زہر کہیں دور پھینک دیں اور اس کا گوشت ذخیرہ کرلیں، موسمِ سرما میں کام آئے گا۔

    (صدیوں پرانی سبق آموز کہانی جسے ڈاکٹر تحسین فراقی نے فارسی زبان سے اردو میں ڈھالا ہے)