Tag: عربی موسیقی

  • رباب کی کہانی پڑھیے!

    رباب کی کہانی پڑھیے!

    کئی قدیم ساز اور آلاتِ موسیقی آج دست یاب نہیں جب کہ ان کے ماہر فن کار یا سازندوں کو فراموش کر دیا گیا ہے۔ جدید دور میں موسیقی اور طرزِ‌ گائیکی کے ساتھ ساز بھی بدل گئے ہیں اور اسی جدّت میں پشتو لوک موسیقی کا "رباب” بھی کہیں گم ہوچکا ہے۔

    یہ ایک ایسا آلۂ موسیقی ہے جو بہت معروف ہے اور فن و ثقافت کے ماہرین نے اپنی کتابوں میں اس کا ذکر کیا ہے۔ رباب جدید دور کے مقبول ساز گٹار سے ملتا جلتا آلۂ موسیقی ہے لیکن ان کی آواز اور شکل میں بہت فرق ہے۔

    کہتے ہیں یہ لفظ عربی زبان کا لفظ ہے اور اس ساز کی ابتدا عرب ممالک سے ہوئی۔ لیکن بعض مؤرخین نے اسے پشتونوں کا ساز بتایا ہے جو بعد میں دنیا کے دیگر ممالک تک پہنچا۔ 1982ء میں‌ شایع ہونے والی کتاب "پٹھانوں کے رسم و رواج” میں لکھا ہے: پشتون شادی بیاہ کی تقریبات گھڑے اور رباب کے آہنگ ہی سے عبارت ہے۔ عرب دنیا میں‌ بھی اس ساز کو قدیم موسیقی کے ساتھ اپنے جذبات اور خیالات کے اظہار کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔

    زبان و ادب اور ثقافت کے ماہرین اس لفظ اور ساز سے متعلق مختلف آرا رکھتے ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ رباب کا لفظ ’روب آب‘ سے نکلا ہے جس کے معنٰی پانی کی نغمگی ہے اور چوں کہ اس ساز کی آواز پانی کے بہاؤ جیسی ہے، اس لیے اسے یہ نام دیا گیا تھا۔ دوسری طرف اس کے عربی زبان کا لفظ ہونے پر اصرار کرنے والے اسے دو الفاظ ’روح اور باب‘ کا مرکب بتاتے ہیں، جس سے مراد روح کا دروازہ ہے۔ اکثر محققین کے مطابق اس ساز کو افغانستان میں بنایا گیا تھا۔

    رباب کی تین قسمیں ہیں جن میں بڑے سائز کا رباب 22 چھوٹے اور بڑے تاروں پر مشتمل ہوتا ہے جب کہ درمیانے اور چھوٹے سائز کے رباب 19 اور 18 تاروں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ اس آلۂ موسیقی کے مقابلے میں گٹار اور ستار بجانا آسان ہے۔ کیوں اسے چھیڑنے سے پہلے ‘سُر’ میں لانا ضروری ہوتا ہے جس کے بعد ہی اس سے سریلی اور تیز آواز نکلتی ہے۔

    مقامی طور پر رباب شہتوت کے درخت سے تیّار کیے جاتے تھے جو افغانستان اور پاکستان میں‌ پایا جاتا ہے۔

    اس لفظ کو پہلے حرف پر زبر، زیر اور پیش کے ساتھ بھی ادا کیا جاتا ہے جو مختلف معنیٰ‌ دیتے ہیں۔ مکہ مکرمّہ کے قریب ایک علاقہ بھی اسی نام سے پہچانا جاتا ہے۔

  • اُمِّ کلثوم کی برسی جنھیں صوۃُ العرب اور بنتِ نیل کہا جاتا ہے

    اُمِّ کلثوم کی برسی جنھیں صوۃُ العرب اور بنتِ نیل کہا جاتا ہے

    مشرقِ وسطیٰ میں گلوکارہ اُمِّ کلثوم کو لیجنڈ کا درجہ حاصل ہے۔ انھیں ‘بنتِ نیل’، ‘کوکبِ مشرق’، ‘بلبلِ صحرا’ اور ‘صوۃُ العرب’ جیسے خطابات اور متعدد اعزازات سے نوازا گیا تھا۔ 3 فروری 1975ء کو اس عظیم گلوکارہ نے ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں موند لی تھیں۔ آج اُمِّ کلثوم کی برسی ہے۔

    ان کا تعلق مصر سے تھا جہاں انھوں نے 31 دسمبر 1898ء کو ایک کسان گھرانے میں آنکھ کھولی۔ وہ شروع ہی سے موسیقی اور گلوکاری کا شوق رکھتی تھیں۔ انھوں‌ نے عرب کلاسیکی موسیقی میں مہارت حاصل کی اور 1920ء کی دہائی میں ان کی آواز کو پہچانا جانے لگا۔ رفتہ رفتہ وہ عرب دنیا کی مقبول گلوکارہ بن گئیں۔ 1934ء میں ریڈیو قاہرہ سے ایک پروگرام نشر ہوا اور اس کے بعد ان کی آواز عرب دنیا میں گونجنے لگی۔

    امِّ کلثوم نے بدوئوں اور دیہاتیوں کے لوک گیت اور کہانیاں سنی تھیں، ان کی زندگی کو قریب سے دیکھا تھا اور ثقافت سے آشنا تھیں۔ انھوں نے اپنے مشاہدات اور تجربات کی روشنی میں عرب کلاسیکی موسیقی کا انتخاب کیا اور قدیم اور کلاسیکی راگوں میں لوک گیتوں کو اپنی آواز میں‌ یوں پیش کیا کہ وہ امر ہوگئے۔

    امِّ کلثوم نے ان گیتوں کی بدولت لازوال شہرت حاصل کی۔ ان کے مداحوں میں مصر ہی نہیں عرب دنیا کے خاص و عام اور ہر طبقے کے افراد شامل ہیں۔ اس گلوکارہ کو مصر کا سب سے بڑا اعزاز ‘الکمال’ عطا کیا گیا اور کئی اعزازات سے نوازا گیا۔

    اس گلوکارہ نے علامہ اقبال کی نظموں شکوہ، جوابِ شکوہ کا عربی ترجمہ بھی گایا تھا جس پر حکومتِ پاکستان نے ستارہ امتیاز عطا کیا تھا۔ وہ دماغ کی شریان پھٹ جانے کے سبب زندگی کی بازی ہار گئی تھیں۔ اس عظیم گلوکارہ کے جنازے میں‌ لاکھوں افراد شریک ہوئے۔