Tag: عرب دنیا

  • علامہ اقبال اور مغربی ممالک کے مسلمانوں سے وعدے

    علامہ اقبال اور مغربی ممالک کے مسلمانوں سے وعدے

    اقبال کا انتقال ۱۹۳۸ء میں ہوا اور اسرائیل ۱۹۴۸ء میں وجود میں آیا لیکن اس سے قبل مشرقِ وسطیٰ میں ہونے والی تبدیلیوں پر اقبال گہری نگاہ رکھے ہوئے تھے۔ مغربی ممالک ان تمام وعدوں کو روندتے ہوئے، جو انھوں نے پہلی جنگِ عظیم کے بعد مسلمانوں سے مذاکرات میں کیے تھے، یہودیوں کو فلسطین میں زمینیں دینے پر تلے ہوئے تھے۔

    بشیر احمد ڈار نے اپنی کتاب ’’انوارِ اقبال‘‘ میں لکھا ہے کہ لاہور کے موچی دروازے پر ۳۰؍ دسمبر ۱۹۱۹ء کو ایک جلسہ ہوا جس میں ایک قرارداد پیش کی گئی۔ اقبال نے یہ قرارداد پڑھ کر سنائی اور جس میں برطانوی حکومت کو یاد دلایا گیا تھا کہ اس نے سلطنتِ عثمانیہ اور ترکی سے متعلق مسلمانوں سے وعدے کیے تھے لیکن پیرس کی صلح کانفرنس میں ان سے متعلق کیے گئے فیصلے قابلِ اطمینان نہیں ہیں۔ اس قراداد میں مطالبہ کیا گیا کہ ’’سلطنتِ عثمانیہ کے کسی حصے پر صراحتاً یا اشارۃً کسی دوسری سلطنت کا قبضہ نہیں ہونا چاہیے۔‘‘

    پہلی جنگِ عظیم کے بعد جب پیرس صلح کانفرنس منعقد ہوئی تو عالمی امن کو برقرار رکھنے کے لیے ایک عالمی تنظیم کی ضرورت محسوس ہوئی۔ چنانچہ لیگ آف نیشنز (League of Nations) کے نام سے ۱۹۲۰ء میں ایک تنظیم بنائی گئی۔

    یہ تنظیم ایک طرح سے اقوامِ متحدہ کی پیش رو تھی۔ لیکن افسوس کہ اس تنظیم پر بڑے ملکوں کی اجارہ داری تھی اور لیگ آف نیشنز وہ کچھ کرنے کی حقیقی قوت نہیں رکھتی تھی جس کے لیے وہ وجود میں لائی گئی تھی۔ طاقت ور ملکوں کے سامنے وہ بے بس تھی۔

    پہلی جنگِ عظیم کے بعد مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ کیا گیا اس پر اقبال بڑے مایوس ہوئے۔ بلکہ لیگ آف نیشنز کی تخلیق کو بھی وہ استعماری قوتوں کی سازش سمجھتے تھے اور ان کا خیال تھا کہ یہ تنظیم انگریزوں اور فرانسیسیوں نے محض مسلمان ملکوں کے حصے بخرے کر کے آپس میں بانٹنے کے لیے بنائی ہے۔ اس تنظیم پر اقبال نے ’’پیام ِ مشرق‘‘ میں ’’جمیعتُ الاقوم‘‘ کے عنوان سے طنزیہ کہا:

    برفتد تا روشِ رزم دریں بزمِ کہن
    دردمندانِ جہاں طرحِ نو انداختہ اند
    من ازیں بیش ندانم کہ کفن دُزدے چند
    بہرِ تقسیمِ قبور انجمنے ساختہ اند

    گویا اقبال کے خیال میں لیگ آف نیشنز کفن چوروں کی انجمن تھی جو قبروں کی تقسیم کے لیے وجود میں لائی گئی تھی۔ لیگ آف نیشنز کا مرکزی دفتر جنیوا (سوئٹزر لینڈ) میں تھا اور برطانیہ یہودیوں کی حمایت کررہا تھا۔ چنانچہ اقبال نے ضربِ کلیم میں شامل اپنی نظم ’’فلسطینی عرب سے ‘‘میں فلسطینیوں سے اشارۃً کہا:

    تری دوا نہ جنیوا میں ہے نہ لندن میں
    فرنگ کی رگ ِ جاں پنجۂ یہود میں ہے

    اقبال برطانیہ کی یہود نوازی کے سخت مخالف تھے۔ محمد رفیق افضل نے اپنی کتاب ’’ گفتارِ اقبال‘‘ میں اخبار ’’انقلاب ‘‘کے شمارہ ۱۰؍ ستمبر ۱۹۲۹ء کے حوالے سے لکھا ہے کہ ۷؍ ستمبر ۱۹۲۹ء کو لاہور میں ایک جلسہ بیرونِ دہلی دروازہ منعقد ہوا جس میں فلسطین کے بارے میں برطانیہ کی یہود نواز حکمتِ عملی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی گئی۔ اقبال نے اس جلسے کی صدارت کی اور اپنی تقریر میں کہا: ’’یہودی یورپ کی تمام سلطنتوں میں نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ مسلمانوں نے یورپ کے ستائے ہوئے یہودیوں کو نہ صرف پناہ دی بلکہ انھیں اعلیٰ مناصب پر فائز کیا۔ ترک یہودیوں کے ساتھ غیر معمولی رواداری کا سلوک کرتے رہے۔

    یہودیوں کی خواہش پر انھیں مخصوص اوقات میں دیوارِ براق کے ساتھ کھڑے ہو کر گریہ و بکا کرنے کی اجازت عطا کی۔ اسی وجہ سے اس دیوار کا نام ان کی اصطلاح میں دیوارِ گریہ مشہور ہوگیا۔ شریعتِ اسلامیہ کی رو سے مسجدِ اقصیٰ کا سارا احاطہ وقف ہے۔ جس قبضے اور تصرف کا یہود اب دعویٰ کرتے ہیں قانونی اور تاریخی اعتبار سے اس کا حق انھیں ہرگز نہیں پہنچتا۔ سوائے اس کے کہ ترکوں نے انھیں گریہ کرنے کی اجازت دے رکھی ہے۔‘‘

    علامہ اقبال نے لندن ۱۹۳۱ء میں منعقدہ دوسری گول میز کانفرنس میں شرکت کی تھی۔ اُنھیِں دنوں یروشلم میں موتمرِ عالمِ اسلامی کے زیرِ اہتمام ایک کانگریس کا انعقاد ہو رہا تھا تا کہ صیہونی خطرے پر غور کیا جاسکے۔ اقبال لندن کی گول میز کانفرنس کو ادھورا چھوڑ کر یروشلم چلے گئے تاکہ اس کانگریس میں شریک ہوسکیں۔

    نومبر ۱۹۳۲ء میں اقبال تیسری گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے لندن گئے۔وہاں ان کی ملاقات مس مارگریٹ فرکہرسن (Miss Margerate Farquharson) سے ہوئی۔ مس فرکہرسن ایک تنظیم نیشنل لیگ کی رہنما تھیں۔ اس تنظیم کا ایک مقصد برعظیم پاک و ہند اور مشرقِ وسطیٰ کے مسلمانوں کو انصاف کے حصول میں مدد دینا بھی تھا۔ اس تنظیم کو فلسطینیوں سے بھی ہمدردی تھی۔ مس فرکہرسن نے لندن میں ۲۴؍ نومبر ۱۹۳۲ء کو اقبال کے اعزاز میں ایک استقبالیہ دیا۔ اس موقعے پر اقبال نے کہا کہ برطانیہ کو چاہیے کہ عالمِ اسلام کے ساتھ تعلقات استوار کرے اور یہ جبھی ممکن ہے کہ فلسطین سے برطانوی اقتدار ختم کر کے اسے عربوں کے حوالے کر دیا جائے۔ مس فرکہرسن کے نام اپنے ایک انگریزی میں لکھے گئے خط بتاریخ ۲۰؍ جولائی ۱۹۳۷ء میں اقبال نے بعض اہم باتیں لکھیں۔ شیخ عطاء اللہ نے ’’اقبال نامہ‘‘ میں اس خط کا اردو ترجمہ درج کیا ہے۔ اس میں سے کچھ اقتباسات سے اندازہ ہوتا ہے کہ اقبال آخرِ عمر میں بھی باوجود بیماری کے مسلمانوں، فلسطین اور عالمِ اسلام کے معاملات و مسائل کے بارے میں کتنے متفکر رہتے تھے۔ لکھتے ہیں:

    ’’میں بدستور بیمار ہوں، اس لیے فلسطین رپورٹ پر اپنی رائے اور وہ عجیب و غریب خیالات اور احساسات جو اُس نے ہندستانی مسلمانوں کے دلوں میں بالخصوص اور ایشیائی مسلمانوں کے دلوں میں بالعموم پیدا کیے ہیں یا کر سکتی ہے تفصیل سے تحریر نہیں کرسکتا۔

    میرے خیال میں اب وقت آگیا ہے کہ نیشنل لیگ آف انگلینڈ وقت شناسی کا ثبوت دے اور اہلِ برطانیہ کو عربوں کے خلاف جن سے برطانوی سیاست دانوں نے اہلِ برطانیہ کے نام سے حتمی وعدے کیے تھے ناانصافی کے ارتکاب سے بچا لے۔‘‘

    اسی خط میں آگے چل کر اقبال نے لیگ آف نیشنز یا جمیعتُ الاقوام کے بارے میں وہ بھی لکھا جو وہ’’ پیامِ مشرق‘‘ میں بزبانِ شعر کہہ چکے تھے۔ لکھتے ہیں: ’’ہمیں یہ کبھی بھی فراموش نہ کرنا چاہیے کہ فلسطین، انگلستان کی کوئی ذاتی جائیداد نہیں۔ فلسطین پر یہودیوں کا کوئی بھی حق نہیں۔ یہودیوں نے تو اس ملک کو رضامندانہ طور پر عربوں کے فلسطین پر قبضے سے بہت پہلے خیر باد کہہ دیا تھا۔‘‘

    (ڈاکٹر رؤف پاریکھ کے ایک مضمون سے اقتباسات)

  • عرب کی شاعری عرب کا دفتر ہے!

    عرب کی شاعری عرب کا دفتر ہے!

    ایک مشہور مقولہ ہے کہ ’’الشعر دیوانُ العرب۔‘‘ یعنی عرب کی شاعری عرب کا دفتر ہے۔

    دفتر کے لفظ سے یہ مراد ہے کہ اس میں عرب کا جغرافیہ، عرب کی تاریخ، عرب کا تمدن، عرب کا طریقہ معاشرت، عرب کے خیالات و توہمات، عرب کی ملکی اور قومی خصوصیات سب کچھ ہے۔ اگر کوئی شخص عرب کی شاعری کا مطالعہ کرے تو کوئی بات عرب اور اہل عرب کے متعلق ایسی نہیں ہے جو اس میں نہ مل سکے۔

    جغرافی اشارے
    عرب کی شاعری میں قدم قدم پر بہت سے مقامات کے نام آتے ہیں۔ مثلاً: یثرب، دمشق، بصرہ، قنسرین، مکہ، بعلبک، اندرین (شام) نجد، یمامہ، صنعا، طائف، حضر موت وغیرہ۔ سیکڑوں دیہات اور چھوٹی بستیاں ہیں جن کے نام شعرائے عرب کے کلام میں نظر آتے ہیں۔ مثلاً حزن، لوی، دکاوک، حومل، توضح، جدیس، عسجل، مصامہ، سلسلین، مقراۃ وغیرہ۔

    بہت سے پہاڑوں کے نام بھی ان کے اشعاروں میں آتے ہیں۔ مثلاً اجاء، سلمیٰ۔ کویکب، لہیم، ستار، حایل، مجیمر، یذبل، بتیر، قطن، ثرم وغیرہ۔

    عرب میں دریا نہیں ہیں مگر برساتی نالے اور چشمے بہت سے ہیں۔ ان کے نام بھی عرب کی شاعری میں جگہ جگہ آتے ہیں۔ مثلاً سجل، صفوان، بہیما، دارجلجل وغیرہ۔

    بہت سی وادیوں اور جنگلوں کے نام بھی ہیں جو عربی اشعار میں ملتے ہیں۔ مثلاً غبیط کا جنگل، غمیر کاجنگل، وادی جواء، وادی بطحا وغیرہ۔

    بہت سے رمنوں اور چراگاہوں کے نام بھی لیے گئے ہیں۔ مثلاً: وقبیٰ، مرج، راہط، حضرا وغیرہ۔ بہت سے مقامات ایسے ہیں جن کی خاص شہرت تھی اور کوئی نہ کوئی بات ان کی طرف منسوب ہوتی تھی۔ مثلاً تمبالہ یمن کا ایک زرخیز شہر ہے۔ اس کی زرخیزی و شادابی مشہور تھی۔ طبی ایک گاؤں کا نام تھا، جہاں خاص قسم کے کیڑے سفید رنگ اور لال سَر کے نہایت نرم و نازک ہوتے تھے۔ ان کیڑوں کو اسروع کہتے تھے۔ اندرین ملک شام کا ایک قصبہ تھا، جہاں کی شراب شہرت رکھتی تھی۔

    عرب کے خاص خاص جنگل تھے، جہاں شیر رہتے تھے۔ ان کے نام حسب ذیل ہیں۔ خضیہ، شریٰ، خفاف، عفرین۔ خیبر کا قلعہ مشہور تھا۔ عرب کی شاعری میں اس کا ذکر اس سبب سے بھی آیا ہے کہ وہاں ایک قسم کا مہلک بخار پھیلا۔

    عکاظ ایک مقام کا نام ہے۔ جو نخلا اور طائف کے درمیان تھا۔ یکم ذی قعدہ سے بیس دن تک یہاں ایک بازار لگتا تھا۔ عرب کے شعرا ہر سال یہاں آتے اور فخر کا اظہار کرتے تھے۔ ضریہ بصریہ کے قریب ایک گاؤں تھا، جہاں شکاری پرندے کثرت سے تھے۔ جواء ایک موضع ہے، جہاں کی وادی میں زردرنگ کی جنگلی گائیں چرا کرتی تھیں اور وہاں چکاکی نام کا ایک پرندہ بھی کثرت سے پایا جاتا تھا۔ خط یمامہ کا ایک مشہور مقام تھا، جہاں عمدہ نیزے فروخت ہوتے تھے اور وہ خطی نیزے کہلاتے تھے۔

    بصریٰ ملک شام کا ایک شہر تھا، جہاں تلوار خالص فولاد کی بنتی تھی اور چوڑی ہوتی تھی۔ ہجر یمن کا ایک شہر ہے، جہاں کا خرما مشہور تھا۔ وجدہ ایک ایسا مقام تھا جس کا جنگل وحشی نیل گایوں سے بھرا ہوا تھا۔ یہاں کے سفید ہرن بھی مشہور تھے۔ وادی سیدیا حمار یمن کی ایک وادی ہے۔ یہ پہلے نہایت سرسبز تھی مگر ایک بار بجلی نے اس کو جلا کر خاک کر دیا۔ اس وقت سے ہر ویران مقام کو وادیٔ حمار سے تشبیہ دینے لگے۔

    عدولی بحرین کا ایک قریہ تھا، جہاں کشتیاں بنائی جاتی تھیں۔ تنوح ایک گاؤں تھا۔ یہاں کی نیل گائیں بھی مشہور تھیں۔ دومتہ الجندل کا مکھن مشہور تھا۔ ان کے علاوہ یمن کی ریشمی چادریں اور دو دھاری تلواریں اور شام کا کاغذ اور اعلیٰ ریشمی کپڑے شہرت رکھتے تھے۔ مشرقی تلواریں بھی شام سے آتی تھیں۔

    ریگستانوں اور سراؤں کا ذکر عرب کی شاعری میں بار بار آتا ہے۔ موسموں کے ذکر میں سخت گرمی اور تمتماتی دھوپ، کبھی کبھی بارش کی راتوں کا سرد ہونا اور موسم سرما میں قحط کے آثار نمایاں ہونا عرب کے اشعار سے بار بار معلوم ہوتا ہے۔ شمال کی ہوا کو شمال، جنوب کی ہوا کو جنوب کہتے تھے۔ مشرق کی ہوا صبا اور مغرب کی ہوا دبور کہلاتی تھی۔ نکیا، ایک ہوا چلتی تھی جس سے قحط کی علامت محسوس ہوتی تھی۔ بیانوں کے سفر میں غریب ستاروں کو دیکھ کر چلتے تھے۔ بناتُ النّعش شام کی طرف کے ستارے اور سہیل یمن کی طرف کا ستارہ کہلاتا تھا۔ فرقدین اور کہکشاں کا ذکر بھی بار بار آیا ہے۔

    (سیّد وحیدالدّین سلیم کے مضمون سے اقتباس)

  • مشرق وسطیٰ میں ایک ہفتے کے دوران خواتین کے بہیمانہ قتل کے واقعات

    مشرق وسطیٰ میں ایک ہفتے کے دوران خواتین کے بہیمانہ قتل کے واقعات

    اومان / قاہرہ / ابو ظہبی: گزشتہ ہفتے کے دوران عرب ممالک میں 3 خواتین کے بہیمانہ قتل کے واقعات پیش آئے جس نے عرب دنیا کو ہلا کر رکھ دیا، تینوں واقعات کے ملزمان گرفتار یا ہلاک ہوچکے ہیں۔

    بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کے مطابق گزشتہ ہفتے اردن، مصر اور متحدہ عرب امارات میں ہونے والے اندوہناک واقعات میں خواتین کو بے دردی سے قتل کیا گیا۔

    اقوام متحدہ میں صنفی مساوات کا شعبہ جو خواتین کو بااختیار بناتا ہے، اس طرح کے قتل کو فیمیسائڈ کہتا ہے۔ گزشتہ دنوں مصر کی منصورہ یونیورسٹی کی طالبہ نائرہ اشرف کو دن دہاڑے سر عام چھرا گھونپ کر ماردیا گیا۔

    قتل کی وجہ شادی کی تجویز سے انکار تھا، راہ گیروں نے حملہ آور کو گرفتار کروانے میں اہم کردار ادا کیا۔

    ایک اور واقعے میں اردن کے شہر عمان کی یونیورسٹی کے کیمپس میں گزشتہ دنوں 18 سالہ طالبہ ایمان الرشید کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔

    اسی طرح شارجہ میں ہونے والے ایسے ہی اندوہناک واقعے میں ایک شوہر ملوث نکلا جس نے بیوی سے جھگڑنے کے بعد اس پر 16 وار کیے تھے۔

    خاتون کی رہائش گاہ کی پارکنگ سے سی سی ٹی وی فوٹیج میں قاتل کو اپنی کار میں خاتون پر حملہ کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ بعد میں قاتل شوہر کو سمندر کے کنارے سے گرفتار کر لیا گیا۔

    عرب دنیا صرف ایک ہفتے کے دوران 3 خواتین کے بہیمانہ قتل کی خبروں سے ہل گئی تھی، مصر کی طالبہ نائرہ اشرف کے قاتل نے دعویٰ کیا کہ اس کی دوست مختلف چیزیں حاصل کرنے کے لیے مجھے استعمال کرتی تھی، جب میں نے شادی کی تجویز دی تو اس نے مسترد کر دی۔

    اردن میں بھی حکام نے زرقا کے شمال میں واقع قصبے میں قاتل کا سراغ لگا لیا اور اسے گرفتار کرنے کی کوشش میں پولیس نے اسے ہتھیار ڈالنے کا کہا تو قاتل نے خود کو گولی مار لی۔

    سعودی دارالحکومت ریاض کی امام محمد بن سعود اسلامی یونیورسٹی میں سماجیات کے پروفیسر ابراہیم الزبین نے ایسے افسوسناک واقعات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک عالمی مسئلہ ہے جو کسی ایک خطے یا معاشرے سے مخصوص نہیں۔

    انہوں نے مزید کہا کہ ایسے جرائم کی تہہ تک پہنچنے سے پتہ چلتا ہے کہ خاص طور پر خواتین کے خلاف فقط صنفی بنیاد پر ہونے والے جرائم قدامت پسند اور کم آمدنی والے طبقوں میں زیادہ عام ہیں۔

  • عرب دنیا کی پہلی خاتون خلا باز کا انتخاب

    عرب دنیا کی پہلی خاتون خلا باز کا انتخاب

    ابوظبی: متحدہ عرب امارات نے اپنے خلا بازوں کے گروپ میں عرب دنیا کی پہلی خلا باز خاتون کو شامل کر لیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق یو اے ای نے ملک کے خلا باز گروپ کے لیے مزید 2 اماراتی خلا بازوں کا انتخاب کر لیا ہے، جن میں عرب دنیا کی پہلی خاتون بھی شامل ہیں، اس بات کا اعلان ہفتے کو وزیر اعظم اور نائب صدر شیخ محمد بن راشد آل مکتوم نے ایک ٹویٹ میں کیا۔

    وزیر اعظم یو اے ای نے لکھا آج ہم نے 4 ہزار درخواست دہندگان میں سے 2 نئے اماراتی خلا بازوں کا اعلان کیا ہے، جن میں عرب دنیا کی پہلی خاتون خلاباز نورا المطروشی اور ان کے ساتھ محمد الملا شامل ہیں۔

    نورا المطروشی اور محمد الملا کے انتخاب کے بعد امارات کے خلابازوں کی کل تعداد 4 ہوگئی ہے، واضح رہے کہ یو اے ای کے ان خلا بازوں کی ٹریننگ جلد ناسا کے خلائی پروگرام میں شروع ہو جائے گی۔

    شیخ محمد بن راشد آل مکتوم نے ٹوئٹ میں لکھا کہ ہم اس پر اپنے ملک کو مبارک باد دیتے ہیں اور توقع کرتے ہیں کہ یہ دونوں آسمان میں متحدہ عرب امارات کا نام بلند کریں گے۔

    خیال رہے کہ یو اے ای کے ان خلا بازوں میں ھزا المنصوری کو ملک کا پہلا خلا باز ہونے کا اعزاز حاصل ہے، گزشتہ برس 20 جولائی کو متحدہ عرب امارات کے عرب دنیا کے پہلے خلائی مشن مسبار الأمل (ہوپ پروب) نے جاپان سے مریخ کے لیے اپنے سفر کا آغاز کیا تھا۔

    یہ تحقیقاتی مشن یو اے ای میں قائم سائنس ڈیٹا سینٹر کو مریخ کے بارے میں نیا ڈیٹا جمع کر کے بھیجے گا، جہاں امارات کی مریخ مشن سائنس ٹیم ان اعداد و شمار کا تجزیہ کرے گی اور انسانیت کی خدمت کے لیے اسے بین الاقوامی مریخ سائنس کمیونٹی کو مفت فراہم کرے گی۔

  • اماراتی پاسپورٹ رکھنے والوں کے لیے خوشخبری

    اماراتی پاسپورٹ رکھنے والوں کے لیے خوشخبری

    ایک بین الاقوامی فرم نے متحدہ عرب امارات کے پاسپورٹ کو عرب دنیا کا بہترین پاسپورٹ قرار دیا ہے، امارات کا پاسپورٹ بین الاقوامی رینکنگ میں 38 ویں نمبر پر ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق ایک گلوبل کنسلٹنگ فرم نومیڈ کیپٹلسٹ نے سال 2021 کے بہترین پاسپورٹس کی فہرست جاری کی ہے، اس فہرست میں 199 پاسپورٹس کی درجہ بندی کی گئی ہے۔

    اس فہرست میں متحدہ عرب امارات کے پاسپورٹ کو عرب ممالک میں بہترین پاسپورٹ قرار دیا گیا ہے۔

    فہرست میں کویت، قطر، عمان اور بحرین کے پاسپورٹس کو بالترتیب عرب دنیا کا دوسرا، تیسرا، چوتھا اور پانچواں بہترین پاسپورٹ قرار دیا گیا ہے۔

    بین الاقوامی طور پر امارات، کویت، قطر، عمان اور بحرین کے پاسپورٹس بالترتیب 38 ویں، 97 ویں، 98 ویں، 103 ویں اور 105 ویں درجے پر ہیں۔

    اس فہرست میں دنیا کا سب سے بہترین پاسپورٹ لکسمبرگ کے پاسپورٹ کو قرار دیا گیا ہے، سوئیڈن، آئرلینڈ، سوئٹزر لینڈ اور بیلجیئم کے پاسپورٹس بالترتیب دوسرے، تیسرے، چوتھے اور پانچویں بہترین پاسپورٹس قرار دیے گئے۔

    اس درجہ بندی کے لیے جو پیمانے استعمال کیے گئے ان میں مذکورہ ممالک کے شہریوں کے ویزا فری سفر، ٹیکس قوانین، ترقی، دہری شہریت کے قوانین اور سماجی حالات کا جائزہ شامل ہیں۔

    فہرست میں بدترین پاسپورٹ اریٹیریا، یمن، عراق اور افغانستان کے پاسپورٹس کو قرار دیا گیا۔

  • امارات میں عرب دنیا کے پہلے نیوکلیئر پاور پلانٹ کا آغاز

    امارات میں عرب دنیا کے پہلے نیوکلیئر پاور پلانٹ کا آغاز

    ابو ظہبی: متحدہ عرب امارات میں عرب دنیا کے پہلے نیوکلیئر پاور پلانٹ کا آغاز کردیا گیا، جوہری پاور پلانٹ ملک کو بجلی کی ضرورت کا ایک چوتھائی حصہ فراہم کرسکے گا۔

    اماراتی خبر ایجنسی کے مطابق متحدہ عرب امارات نے براکہ میں عرب دنیا کے پہلے نیوکلیئر پلانٹ کے ابتدائی آپریشن کا کامیابی سے آغاز کر دیا ہے، براکہ جوہری توانائی پلانٹ کے یونٹ ون کا کامیابی سے آغاز امارات نیوکلیئر انرجی کارپوریشن کی ذیلی کمپنی نواح انرجی کمپنی نے کیا ہے۔

    دبئی کے حکمران شیخ محمد بن راشد المکتوم نے ٹویٹر پر اپنے ٹویٹ میں کہا کہ ٹیم نے ایندھن بھرنے کا عمل کامیابی سے مکمل کرلیا اور جامع ٹیسٹ کیے، میں اپنے بھائی محمد بن زاید کو اس کامیابی پر مبارکباد دیتا ہوں۔

    براکہ کے یونٹس میں سے ایک کا فعال ہوجانا متحدہ عرب امارات کے پرامن جوہری توانائی پروگرام کے لیے تاریخی سنگ میل ہے کیونکہ یہ اس عمل کا حصہ ہے جس کے تحت ملک کے لیے آئندہ 60 سال تک بجلی پیدا ہوسکے گی۔

    یونٹ ون متحدہ عرب امارات کے گرڈ اسٹیشن سے منسلک کیا جائے گا جو متعدد ٹیسٹوں کے بعد بجلی رہائشی علاقوں اور دفاتر کو مہیا کرے گا۔

    امارات نیوکلیئر انرجی کارپوریشن کے چیف ایگزیکٹو آفیسر محمد ابراہیم الحمدی کا کہنا ہے کہ آج حقیقی معنوں میں متحدہ عرب امارات کے لیے تاریخی لمحہ ہے۔ یہ ایک دہائی سے زیادہ کے وژن، اسٹریٹجک منصوبہ بندی اور اس پروگرام کے مضبوط انتظام کا نتیجہ ہے۔

    ان کے مطابق اب ہم ملک کو بجلی کی ضروریات کا ایک چوتھائی تک فراہم کرنے کے ہدف کے ایک اور قدم قریب پہنچ گئے ہیں۔

    خیال رہے کہ متحدہ عرب امارات صاف اور محفوظ بجلی پیدا کرنے کے لیے جوہری توانائی پلانٹ چلانے والا عرب دنیا کا پہلا اور دنیا کا 33 واں ملک ہے۔

  • وہ تمھاری وفادار نہیں ہے!

    وہ تمھاری وفادار نہیں ہے!

    ایک صراف نے عباسی فرماں روا منصور کو عرضی بھیجی کہ میں غریب بندہ ہوں، تھوڑی سی پونجی ایک صندوقچے میں رکھی تھی، وہ چوری ہوگئی۔ اب کوڑی کوڑی کو محتاج ہوں۔

    منصور نے صراف کو خلوت میں طلب کر کے دریافت کیا کہ تمھارے گھر میں کون کون رہتا ہے؟

    جواب ملا کہ بیوی کے سوا کوئی نہیں ہے۔

    بادشاہ نے پوچھا، بیوی جوان ہے یا معمر؟

    صراف نے جواب دیا، وہ جوان ہے۔

    خلیفہ منصور نے صراف کو جانے کی اجازت دے دی اور چلتے وقت اسے ایک نایاب عطر کی شیشی عطا کی۔ یہ عطر خلیفہ کے سوا بغداد بھر میں کسی کے پاس نہیں تھا۔

    خلیفہ کے حکم سے شہر کی فصیل کے پہرے داروں کو وہی عطر سنگھوا دیا گیا کہ ایسی خوش بُو کسی شخص کے پاس سے آئے تو اسے گرفتار کر کے پیش کیا جائے۔

    چند روز بعد سپاہی ایک نوجوان کو پکڑ کر لائے۔ اس کے پاس سے مخصوص عطر کی خوش بُو آرہی تھی۔ خلیفہ منصور نے اس سے دریافت کیا کہ یہ عطر تجھے کہاں سے دست یاب ہوا؟ نوجوان خاموش رہا۔

    خلیفہ نے کہا، جان کی امان چاہتا ہے تو وہ صندوقچہ واپس کر دے جو تجھے صراف کی بیوی نے دیا ہے؟ اس شخص نے چپ چاپ صندوقچہ لاکر پیش کر دیا اور معافی چاہی۔

    بادشاہ نے صراف کو بلا کر صندوقچہ دیا اور سمجھایا کہ بیوی کو طلاق دے دو، وہ تمھاری وفادار نہیں ہے۔

    سید مصطفٰے علی بریلوی