Tag: عرب شاعر

  • رومی افواج کی شکست اور ابو تمّام کی خلیفہ کو مبارک باد

    رومی افواج کی شکست اور ابو تمّام کی خلیفہ کو مبارک باد

    خلیفہ المعتصم باللہ کے عہدِ خلافت میں ابو تمّام کو عربی زبان کا سب سے بڑا قصیدہ گو شاعر کہا جاتا تھا۔

    مشہور ہے کہ وہ عیسائی باپ کا بیٹا تھا جس کی شراب کی دکان تھی۔ ابو تمّام کا نام تو حبیب بن اَوَس تھا، لیکن اس نے تبدیلیٔ نسب کے بعد اپنا تعلق مشہور قبیلہ طے سے جوڑ لیا اور نام میں طائی کا اضافہ کیا۔ ابتدا میں‌ اس عمل پر اسے طعنے اور کڑوی کسیلی باتیں‌ سننا پڑیں، مگر وقت کے ساتھ لوگوں نے یہ بات فراموش کر دی اور یہی وجہ ہے کہ اکثر اسے ’’الطائی‘‘ ’’الطائی الکبیر‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔

    عربی کے اس شاعر نے 806ء میں دمشق کے قریب جاسم نامی گاؤں میں آنکھ کھولی۔ اپنے زمانۂ طالبِ علمی ہی میں اسے زبان اور شعر و ادب سے بڑا شغف پیدا ہوگیا تھا۔ اس نے شاعری شروع کی اور مدحیہ اشعار کہنے لگا۔

    نوجوانی میں ابو تمّام مصر کے سفر پر گیا جہاں اہلِ علم و ادب کی صحبت اختیار کی۔ کچھ عرصہ بعد دمشق لوٹا تو خلیفہ مامون کے دربار سے وابستہ ہوگیا۔ ابو تمام نے روم کی فتح پر خلیفہ کی تعریف میں خوب قصیدے کہے۔ اس کی زبان دانی اور شاعری کی شہرت دور دور تک پھیل گئی تھی۔ ابو تمام نے کئی شہروں کے دورے کیے اور وہاں کے حکم رانوں اور علمی و ادبی حلقوں تک رسائی حاصل کرکے بڑی عزّت اور تکریم پائی۔

    عباسی حکم راں صاحبانِ علم و ادب کی قدر دانی کے لیے مشہور رہے ہیں اور مؤرخین نے لکھا ہے کہ ابو تمّام بھی جس امیر سے ملا اور جس دربار میں گیا، وہاں سے شاد کام ہوکر لوٹا۔

    ابو تمام کی شاعری میں جدّت کے وہ نمونے ملتے ہیں، جنھیں بعد میں متنبٰی اور ابوالعلا معرّیٰ نے آگے بڑھایا۔ اس کی شاعری معانی و افکار کی گہرائی کے ساتھ محسناتِ بدیعیہ سے آراستہ ہے۔ عربی زبان اور ادب کے ناقدین کے مطابق دورِ آخر میں ابو تمام کے کلام میں فلسفیانہ رجحان بھی نظر آتا ہے۔

    ابو تمّام نے معتصم باللہ کی شخصیت اور بالخصوص اس کی بہادری کی تعریف کرتے ہوئے رومیوں (اہم شہر عموریہ) پر فتح پانے کے بعد اسے اپنے جس قصیدے میں مبارک باد پیش کی، وہ بہت مشہور ہوا۔ یہ بھی مشہور ہے کہ خلفیہ جنگ پر جانے کی تیاری کر رہا تھا تو نجومیوں نے کہا تھاکہ اس وقت رومیوں سے لڑائی نہ کریں، مگر معتصم نے جنگ کی اور فتح بھی حاصل کی۔ ابو تمّام نے اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے اپنے اشعار میں کہا ہے کہ جنگ لڑنے کے لیے طاقت و قوّت اور ہتھیار کی ضرورت ہوتی ہے، اور جو خود پر اعتماد کرتے ہیں، انھیں جھوٹے علم اور پیش گوئیوں کو خاطر میں نہیں لانا چاہیے۔

    اگرچہ اس شاعر کی درباروں سے وابستگی اور پذیرائی کے علاوہ کئی واقعات کے مستند حوالے نہیں ملتے، لیکن کہا جاتا ہے کہ وہ نہایت شستہ اور فصیح عربی بولتا تھا، البتہ آواز اس کی ناخوش گوار تھی، اور یہ بھی کہتے ہیں کہ اس کی زبان میں کسی قدر لکنت تھی۔ خلیفہ المعتصم باللہ کے علاوہ اس نے کئی امرا کی شان میں قصائد لکھے اور ان سے بڑا انعام پایا۔ اپنے زمانے کے اس مشہور قصیدہ گو نے موصل میں‌ 846ء میں‌ وفات پائی۔

  • ابنِ ندیم جنھوں نے عربی مطبوعات کی فہرست اور اشاریہ تیّار کیا

    ابنِ ندیم جنھوں نے عربی مطبوعات کی فہرست اور اشاریہ تیّار کیا

    ابنِ ندیم، وَرّاق تھے۔ بغداد ان کا وطن تھا جہاں وہ ورّاقی یعنی کتابوں کی تدوین، تصحیح اور ان کی نقل میں‌ مشغول رہتے۔ یہ کام ان کے لیے تحصیلِ علم اور ان کے ذوق مطالعہ کی تسکین کے ساتھ ساتھ یافت کا ذریعہ بھی تھا۔

    ابنِ ندیم نے عربی کتب کا اشاریہ یا اِنڈیکس (index) تیّار کیا جو ان کا ایک شان دار کام ہے۔ اس میں کتابوں کا تعارف، مصنّفین کے مختصر حالاتِ زندگی اور مختلف علوم و فنون اور ان کی شاخوں کا تعارف بھی شامل ہے۔ عربی زبان میں‌ ان کی یہ کتاب ’’الفہرست‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔

    ابنِ ندیم کے زمانے میں بغداد علم و فضل کا مرکز تھا۔ کتب خانے آباد اور دارُ المطالعہ بارونق ہوا کرتے تھے۔ اسی زمانے میں انھوں نے کئی عرب اور مسلمان مصنّفین، اہلِ علم اور قابلِ قدر ہستیوں کے مستند حالاتِ زندگی اور ان کے کارناموں کو کتابی شکل میں محفوظ کیا تھا، لیکن خود ان کے بارے میں‌ بہت کم معلومات دست یاب ہیں۔

    ان کا پورا نام محمد ابنِ اسحاق الندیم تھا۔ وہ ابنِ ندیم کے نام سے معروف ہوئے اور اپنے پیشے کی نسبت ورّاق کہلائے۔ سنِ پیدائش کے بارے میں وثوق سے کچھ نہیں‌ کہا جاسکتا، لیکن تاریخ کے اوراق میں ان کی وفات کا سن 995 عیسوی درج ہے۔ ابنِ ندیم کی کتاب ’’الفہرست‘‘ ہے جو اس لحاظ سے نہایت اہم اور مستند بھی مانی جاتی ہے کہ اس میں ظہورِ اسلام کے بعد ابتدائی چار صدیوں کے دوران مسلمانوں نے عربی زبان میں جن علوم پر کتابیں تحریر کیں، ان کے مآخذ موضوع وار درج ہیں۔ یہ کتاب اُس دور کے علم و فنون اور تہذیبی و تمدّنی حالات کا احاطہ بھی کرتی ہے۔

    ’’الفہرست ‘‘میں جن موضوعات اور علوم و فنون پر کتابوں اور مصنّفین کا تذکرہ ہے ان میں کتابت اور رسمُ الخط، لغت اور نحو، شعرا اور شاعری، علمِ کلام اور متکلمین، فقہا اور محدثین، حساب و مہندسی اور موسیقی، طب، کیمیا اور دیگر شامل ہیں۔

    ابنِ ندیم کو اسلامی دنیا میں کتب کی فہرست سازی اور اشاریہ سازی کی روایت کی بنیاد رکھنے والا کہا جاتا ہے۔ مطبوعات کی یہ فہرستیں اور اشاریے میدانِ تحقیق میں طالب علموں کے لیے بہت مفید اور کارآمد ثابت ہوتے ہیں۔

    اس مشہور کتاب میں مصنّف نے شعبدہ بازوں اور جھاڑ پھونک کرنے والوں اور جنّات کا تذکرہ بھی کیا ہے اور شعبدہ گری یا جادو ٹونے کے لیے مشہور شخصیات کے نام اور ان کے کارنامے بھی بتائے ہیں۔

  • شاعر کی ذہانت اور تاجر کی سخاوت

    شاعر کی ذہانت اور تاجر کی سخاوت

    شاہانِ وقت، رؤسا اور منصب داروں کی اپنے زمانے میں قابل شخصیات، داناؤں اور اہلِ علم و ہنر کی عزت افزائی، ان پر عنایات اور لطف و کرم کے بے شمار قصّے ہم نے پڑھے ہیں۔ شاہی درباروں اور امرا کی محافل میں دین اور معاملاتِ زمانہ پر ایسے لوگوں کی پُرمغز اور دلیل و منطق کے ساتھ حکمت بھری گفتگو اور مباحث کے یہ تذکرے سبق آموز ہی نہیں، اکثر پُرلطف اور دل چسپ بھی ہیں۔ یہ بھی ایک ایسا ہی قصّہ ہے جو آپ کی دل چسپی کا باعث بنے گا۔

    بخارا، ایک زمانے میں علم و فنون کا مرکز اور اہلِ علم پر امرائے وقت کی عنایات کے لیے بھی مشہور تھا۔ اسی شہر میں کپڑے کا ایک دولت مند تاجر ابونصر بھی رہتا تھا جو شعر و ادب کا بھی دلدادہ تھا۔ اس کے ساتھ وہ سخی اور غریب پرور بھی مشہور تھا۔

    ابو نصر قریبی ملکوں میں‌ تجارت کی غرض سے سفر پر جاتا رہتا تھا۔ ایک مرتبہ سخاوت اور بخشش میں مشہور ابو نصر کا تجارتی قافلہ بخارا لوٹ رہا تھا کہ شہر کے قریب ہی شدید تھکن کے باعث آرام کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ بخارا سے قریب ہی ایک قصبہ تھا۔ ابو نصر اور اس کے ساتھیوں نے کچھ دیر تھکن اتارنے کے بعد دسترخوان سجایا تو دیکھا کہ ایک شخص ان کی طرف آرہا ہے۔

    وہ چہرے مہرے اور حلیے سے ایک مفلس اور حالات کا ستایا ہوا انسان نظر آتا تھا۔ اس نے ان کے قریب پہنچ کر ابونصر کی بابت دریافت کیا اور شناخت ہونے پر نہایت ادب سے اپنا تعارف کروایا۔ معلوم ہوا کہ وہ شاعر ہے۔ نام تاباں سلجی ہے اور قریبی قصبے کا رہائشی ہے۔

    اس نے ابو نصر کی شان میں چند اشعار پیش کرنے کی اجازت طلب کی اور ایک قصیدہ پڑھ ڈالا۔ ابونصر شاعری کا عمدہ ذوق رکھتا تھا۔ وہ اس شاعر کے کلام سے بہت متاثر ہوا۔ اس کے ساتھی بھی تاباں کو داد دیے بغیر نہ رہ سکے۔

    ابونصر نے اسے اشرفیوں (رائج سکے) سے نوازا اور شہر میں آکر دوبارہ ملاقات کرنے کو کہا۔

    تاباں سلجی عمدہ شاعر ہی نہیں قابل اور ذہین بھی تھا۔ وہ گفتگو کا سلیقہ جانتا تھا۔ انعام وصول کرنے کے بعد اس نے ابونصر کو کہا۔

    بندہ پرور، آپ کی اہلِ علم پر عنایات کا کیا کہنا۔ یہ انعام بہت زیادہ ہے، لیکن آپ کچھ بھول رہے ہیں۔

    اب ابو نصر کی نظریں اس کے چہرے پر ٹک گئیں۔ تاباں نے نہایت ادب سے کہا۔

    میرا کلام آپ نے پسند کیا اور گویا ایک شاعر کی قدر افزائی کی، اسے انعام بھی دیا۔ حضور، وہ شاعر جو تاباں سلجی مشہور ہے وہ تو آپ سے بہت خوش ہے، مگر سنا تھاکہ آپ غریب پرور بھی ہیں۔ اب اس نے ذرا توقف کے ساتھ کہا۔

    یقین جانیے، میرا گزر بسر بہت مشکل سے ہوتا ہے۔ آپ نے ایک شاعر کو تو نواز دیا، مگر کیا آپ کے دروازے سے غریب اور مجبور انسان خالی ہاتھ لوٹ جائے؟

    ابونصر نے اس کی بات تحمل سے سنی اور مسکرا کر کہا، تم باکمال شاعر ہی نہیں، ذہین بھی ہو۔ تم توجہ حاصل کرنا بھی جانتے ہو اور تقاضہ کرنے کا سلیقہ بھی خوب آتا ہے، یہ کہہ کر ابونصر اسے مزید کچھ رقم دی اور نہایت عزّت اور احترام سے رخصت کیا۔

    مصنّف:‌ عارف عزیز