Tag: عرب ممالک

  • عرب ممالک نے اسرائیلی آباد کاری کو یکسر مسترد کر دیا

    عرب ممالک نے اسرائیلی آباد کاری کو یکسر مسترد کر دیا

    سعودی عرب، قطر اور کویت نے اسرائیلی آباد کاری کو یکسر مسترد کر دیا ہے۔

    سعودی عرب نے مغربی کنارے پر اسرائیلی خود مختاری سے متعلق اشتعال انگیز بیان کی شدید مذمت کی ہے، ترجمان سعودی وزارتِ خارجہ کا کہنا ہے کہ اسرائیلی وزراء کے اشتعال انگیز بیانات بین الاقوامی قراردادوں کی خلاف ورزی ہیں۔

    سعودی عرب یہودی آباد کاری کو وسعت دینے کی ہر کوشش کو مسترد کرتا ہے، ہم آزاد فلسطینی ریاست کا قیام چاہتے ہیں جس کا دارلحکومت مشرقی بیتِ المقدس ہو۔

    ایران اسرائیل کشیدگی سے متعلق تمام خبریں

    قطر نے بھی مغربی کنارے میں یہودی آباد کاری اور نسل پرستانہ کارروائیوں کو مسترد کر دیا، قطری وزارتِ خارجہ کا کہنا کہ مغربی کنارے پر اسرائیلی خود مختاری کا مطالبہ عالمی قراردادوں کے منافی ہے، دو ریاستی فارمولہ ہی مسئلہ فلسطین کا واحد حل ہے۔

    کویتی وزارتِ خارجہ کے بیان مطابق کویت فلسطینی بھائیوں کی مکمل حمایت جاری رکھے گا، ایک آزاد فلسطینی ریاست کا قیام انیس سو سڑسٹھ کی سرحدوں کے مطابق ہونا چاہیے۔

    خیال رہےکہ اسرائیلی وزیر انصاف نے ایک متنازعے بیان میں کہا تھا کہ اسرائیل کے پاس غرب اردن کو ضم کرنے کا بہترین موقع ہے اور تل ابیب کو اس موقعے کو ضائع نہیں کرنا چاہیے۔

    دوسری جانب بین الاقوامی عدالت انصاف نے گذشتہ برس جولائی میں اسرائیل کے فلسطینی علاقوں پر قبضے کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے مغربی کنارے میں تمام اسرائیلی بستیوں کو خالی کرنے کا کہا تھا۔

  • پاکستان نے عرب ملکوں کو بھارتی جارحیت اور پاکستانی جواب سے آگاہ کر دیا

    پاکستان نے عرب ملکوں کو بھارتی جارحیت اور پاکستانی جواب سے آگاہ کر دیا

    اسلام آباد: پاکستان نے عرب ممالک کو بھارتی جارحیت اور پاکستانی جواب سے آگاہ کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب عاصم افتخار نے پاکستان کے خلاف بھارتی جارحیت کے حوالے سے عرب گروپ کو تفصیلی بریفنگ دی ہے۔

    مستقل مندوب عاصم افتخار نے گروپ کو بتایا کہ بھارت نے عالمی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جارحیت کی، جس پر پاکستان نے یو این چارٹر کے تحت دفاع کے حق کا برابر استعمال کیا۔

    عاصم افتخار نے بتایا کہ سندھ طاس معاہدے کی یک طرفہ معطلی یو این چارٹر کی سنگین خلاف ورزی ہے، پاکستان اور بھارت کے درمیان مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر پائیدار امن قائم نہیں ہو سکتا، اس لیے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر حل کیا جائے۔

    عاصم افتخار نے حالیہ پاک بھارت کشیدگی میں پاکستانی مؤقف کو سمجھنے پر عرب گروپ کا شکریہ بھی ادا کیا۔


    بھارت اسرائیل ہے اور نہ ہی پاکستان فلسطین، دوبارہ حملہ کیا تو ردعمل وحشیانہ ہوگا: ڈی جی آئی ایس پی آر


    واضح رہے کہ ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے گزشتہ روز دو ٹوک مؤقف اختیار کرتے ہوئے ترک میڈیا کو انٹرویو میں کہا کہ بھارت نے اب اکسایا تو رد عمل فوری اور بے رحمانہ ہوگا، بھارت اسرائیل ہے نہ ہم فلسطین، پاکستان بھارتی تسلط کے سامنے نہیں جھکے گا۔

    انھوں نے کہا بھارت جتنی جلدی یہ بات سمجھ جائے علاقائی اور عالمی امن کے لیے اچھا ہوگا، دنیا جانتی ہے پاکستان نے بھارتی طیارے مار گرائے، بھارت دہشت گردی کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی کر رہا ہے، جعفر ایکسپریس پر حملہ کرنے والی بی ایل اے نے کھلے عام بھارت سے مدد کی درخواست کی تھی، اور نئی دہلی میں کچھ رہنماؤں، سیاست دانوں اور ریٹائرڈ جرنیلوں نے بی ایل اے کی حمایت میں بیانات دیے۔

  • فلسطین:‌ انگلیاں فگار اپنی، خامہ خونچکاں اپنا

    فلسطین:‌ انگلیاں فگار اپنی، خامہ خونچکاں اپنا

    مومنہ طارق

    ہم آزاد تھے، آزاد فضا میں سانس لیتے اور رکوع و سجود کرتے تھے۔ ہمارے بچّے بے خوف ہو کر گلیوں میں کھیلتے تھے اور ہماری ماؤں، بہنوں کی عزت محفوظ تھی۔ ہمارے جوان آنکھوں میں خواب سجاتے تھے۔ اچانک 1948 میں ہم تقریباً ساڑھے سات لاکھ باسیوں کو اپنا گھر بار چھوڑنا پڑا اور دنیا ہماری بے بسی کا تماشا دیکھتی رہی۔ آج 76 سال ہوگئے دنیا خاموش ہے۔ سانحہ تو یہ کہ اپنوں نے بھی آنکھیں بند کر رکھی ہیں بلکہ ہمیں سہارا دینے کے بجائے ہمارے گھروں کو گرانے والوں کے پیچھے چھپ گئے ہیں۔ ہم اپنی زمین پر بے گھر اور مارے مارے پھر رہے ہیں۔ ہمارے پاس مسکرانے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ ہماری فریاد سننے والا کوئی نہیں ہے۔

    پچھلے سال 7 اکتوبر کا سورج طلوع ہوا تو جس ظلم و ستم اور بربادی کا آغاز کیا گیا، لگتا تھا کہ اب روئے زمین پر فلسطینیوں کا نام و نشان باقی نہیں رہے گا اور اس مشن کو آگے بڑھاتے ہوئے اسرائیل کو 243 دن ہوگئے ہیں۔ کانوں میں گولیوں اور بموں کی آواز گونجتی ہے، فضا میں بارود کی بُو اس قدر ہے کہ سانس لینا محال ہے۔ ہر طرف خون اور چیخ و پکار، آہ و فغاں سنائی دے رہی ہے۔ ارضِ فلسطین اب تک 37 ہزار سے زائد لاشیں سمیٹ چکی ہے۔ 90 ہزار سے زائد زخمی ان اسپتالوں میں پڑے ہیں جہاں ان کے جسم سے رستے ہوئے خون کو روکنے، زخموں کو سینے اور ان کی مرہم پٹی کرنے کے انتظامات نہیں ہیں، ان کو بچانے کی کوشش کرنے والے ڈاکٹر نہیں ہیں۔ اسپتال میں نہ تو طبّی آلات ہیں اور نہ ہی بجلی۔ زندگی گزارنے کے لیے کھانا تو دور کی بات بچّوں کو دو گھونٹ پانی تک میسر نہیں ہے اور وہ بھوک پیاس سے دم توڑ رہے ہیں۔ مگر مہذب معاشرے، انصاف کے پرچارک اور انسانی حقوق کے علم برداروں نے شاید اسی طرح اپنے ضمیر کو کہیں دفنا دیا ہے، جس طرح آج فلسطین کی مٹی میں لوگ اپنے پیاروں کو دفنا رہے ہیں۔

    حقیقت تو یہ ہے کہ اقوامِ متحدہ کہتا ہے کہ فلسطینیوں کو ان کا حق دینا ہو گا، مگر دنیا میں قیامِ امن کو یقینی بنانے اور انسانیت کا پرچم بلند رکھنے والے اس سب سے بڑے ادارے کو شاید خود بھی انصاف چاہیے کہ اس کے فیصلوں اور احکامات کو کم از کم سنا تو جائے۔ صرف 1967 سے 1988 تک 131 قرارداد فلسطین کے حق میں منظور ہوچکی ہیں مگر آج بھی غزہ اور رفاہ میں لاشیں بچھی ہوئی ہیں۔ دنیا تو ایک طرف مسلم ممالک بھی اس بدترین ظلم اور معصوم فلسطینیوں کے قتل پر خاموش ہے اور ‘الاقصی’ کی محبّت بھی انھیں فلسطین کے ساتھ کھڑا ہونے پر مجبور نہیں کرسکی ہے۔

    غزہ میں صیہونی دہشت گردی کے خلاف پہلی اٹھنے والی آواز کولمبیا یونیورسٹی کے طالبِ علموں کی تھی۔ یہ اسی سپر پاور امریکا کی ایک یونیورسٹی ہے جو کھل کر غزہ میں صیہونی فوج کے قتلِ عام کی حمایت کرتا ہے۔ اس کے بعد دنیا کے مختلف ممالک میں احتجاج شروع ہوا اور پاکستان کے طالبِ علم بھی جاگے۔ آج اسلام آباد کے ڈی چوک پر ان کے دھرنے کو 25 دن ہوچکے ہیں اور ان کا اپنی حکومت سے مطالبہ ہے کہ وہ فلسطین کے حق میں عالمی عدالتِ انصاف میں جنوبی افریقہ کی دائر کردہ غزہ درخواست میں فریق بنے، مگر حکومت ان پُرامن مظاہرین کی بات نہیں سن رہی۔ یہی نہیں بلکہ سابق سینیٹر مشتاق احمد اور ان کی اہلیہ جو پاکستان میں ”غزہ بچاؤ“ مہم کی قیادت کر رہے ہیں، ان کے خلاف متعدد ایف آئی آر کاٹ دی گئی ہیں۔ جب کہ جامعات کے چند طلبہ کا کہنا ہے کہ ان کو معطل کر دیا گیا ہے کیوں کہ وہ اس دھرنے میں شریک ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم متعدد بار اپنی جامعات کی انتظامیہ سے تحریری طور پر درخواست کر چکے ہیں کہ ہمیں اس مہم کا حصّہ بننے کی اجازت دی جائے اور جامعات اپنی حدود میں طلبہ پر اسرائیلی مصنوعات کے استعمال پر پابندی عائد کرے، مگر کوئی مثبت جواب نہیں دیا جا رہا۔ دوسری طرف فلسطینیوں کا درد رکھنے والے لاکھوں پاکستانیوں نے اسرائیلی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کر کے صیہونی ریاست کے ظلم پر اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا ہے جس کے اثرات واضح طور پر نظر آرہے ہیں۔

    داستانِ ارضِ فلسطین جب لکھی جائے گی تو بلاشبہ جہاں کولمبیا، ہاروڈ جیسی جامعات کا نام لیا جائے گا وہیں پاکستان کے غیرت مند اور باشعور عوام اور بالخصوص طلبہ میں غزہ کا درد جگانے والی قیادت کا نام بھی سرفہرست ہو گا۔ لیکن اس وقت تو سوال یہ ہے کہ انسانیت اور حق و انصاف کا نعرہ بلند کرنے والے ممالک کی حکومتیں اور بالخصوص امّتِ مسلمہ کب جاگے گی؟ مسلمانوں کے قبلۂ اوّل پر ہزاروں اسرائیلیوں نے فلیگ مارچ کے نام پر حملہ کیا، مگر کسی مسلم ملک کے حکم راں نے اس کے خلاف بیان نہیں دیا۔

    اسرائیل اتنا طاقت ور تو کبھی نہیں تھا کہ جسے امریکا جنگ بندی کا اعلان کرنے کو کہے تو نیتن یاہو صاف انکار کر دے اور اتنے دھڑلے سے پوری دنیا کے سامنے کہے کہ حماس سے مذاکرات میدانِ جنگ ہی میں ہوں گے۔ آج کا مؤرخ یہ سب دیکھ رہا ہے اور کل جب داستانِ خونچکاں رقم ہوگی تو مؤرخ کا قلم کئی ناموں کو تاریک و باعثِ ننگ تحریر کرے گا۔

  • شام کے بحران پر عرب ممالک کا اجلاس

    شام کے بحران پر عرب ممالک کا اجلاس

    اومان: شام کے بحران پر اردن میں عرب ممالک کا اجلاس شروع ہوگیا ہے، مذکورہ ممالک شام کے مسئلے کے سیاسی حل کی تجویز پر بات چیت کے خواہاں ہیں۔

    اردو نیوز کے مطابق شام کے بحران پر عرب خطے کے ممالک کے وزرائے خارجہ کا اجلاس سوموار کو اردن میں شروع ہوگیا ہے۔

    خطے کے رہنما شام کی عرب لیگ میں واپسی اور شام کے بحران کے حل کے لیے اردن کی جانب سے پیش کی جانے والی تجویز پر غور کر رہے ہیں۔

    اجلاس میں اردن، شام، سعودی عرب، عراق اور مصر کے وزرائے خارجہ شرکت کر رہے ہیں۔

    خطے کے ممالک کے وزرائے خارجہ کے اجلاس سے قبل اردن کے وزیر خارجہ ایمن صدفی اور شام کے وزیر خارجہ فیصل مقداد کے درمیان ملاقات ہوئی۔

    اردن کے وزارت خارجہ کے ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ اجلاس گزشتہ مہینے خلیجی عرب ممالک بشمول اردن، عراق اور مصر کے سعودی عرب میں ہونے والے مذاکرات کا تسلسل ہے۔

    ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ مذکورہ ممالک شام کی حکومت کے ساتھ روابط کو مزید بڑھانے اور اردن کی جانب سے شام کے مسئلے کے سیاسی حل کی تجویز پر بات چیت کے خواہاں ہیں۔

    صدر بشار الاسد کی جانب سے 2011 کی بغاوت کو کچلنے کے لیے طاقت کے ظالمانہ استعمال کے بعد عرب ممالک نے شام کے ساتھ تعلقات ختم کیے تھے۔

    تاہم حالیہ دنوں کے اندر صدر بشار الاسد نے ملک کے اکثر علاقوں پر اپنی گرفت مضبوط کی جس کے بعد پڑوسی ممالک شام کے ساتھ صلح کے لیے اقدامات کر رہے ہیں۔

    صلح کی کوششیں اس وقت تیز ہوگئیں جب شام اور ترکیہ میں تباہ کن زلزلہ آیا اور چین کی جانب سے سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات کی بحالی کا معاہدہ کروایا گیا۔

    گزشہ مہینے سعودی وزیر خارجہ فیصل بن فرحان نے ایک دہائی قبل شام کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم ہونے کے بعد پہلی مرتبہ دمشق کا دورہ کیا تھا۔

  • مشرق وسطیٰ میں ایک ہفتے کے دوران خواتین کے بہیمانہ قتل کے واقعات

    مشرق وسطیٰ میں ایک ہفتے کے دوران خواتین کے بہیمانہ قتل کے واقعات

    اومان / قاہرہ / ابو ظہبی: گزشتہ ہفتے کے دوران عرب ممالک میں 3 خواتین کے بہیمانہ قتل کے واقعات پیش آئے جس نے عرب دنیا کو ہلا کر رکھ دیا، تینوں واقعات کے ملزمان گرفتار یا ہلاک ہوچکے ہیں۔

    بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کے مطابق گزشتہ ہفتے اردن، مصر اور متحدہ عرب امارات میں ہونے والے اندوہناک واقعات میں خواتین کو بے دردی سے قتل کیا گیا۔

    اقوام متحدہ میں صنفی مساوات کا شعبہ جو خواتین کو بااختیار بناتا ہے، اس طرح کے قتل کو فیمیسائڈ کہتا ہے۔ گزشتہ دنوں مصر کی منصورہ یونیورسٹی کی طالبہ نائرہ اشرف کو دن دہاڑے سر عام چھرا گھونپ کر ماردیا گیا۔

    قتل کی وجہ شادی کی تجویز سے انکار تھا، راہ گیروں نے حملہ آور کو گرفتار کروانے میں اہم کردار ادا کیا۔

    ایک اور واقعے میں اردن کے شہر عمان کی یونیورسٹی کے کیمپس میں گزشتہ دنوں 18 سالہ طالبہ ایمان الرشید کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔

    اسی طرح شارجہ میں ہونے والے ایسے ہی اندوہناک واقعے میں ایک شوہر ملوث نکلا جس نے بیوی سے جھگڑنے کے بعد اس پر 16 وار کیے تھے۔

    خاتون کی رہائش گاہ کی پارکنگ سے سی سی ٹی وی فوٹیج میں قاتل کو اپنی کار میں خاتون پر حملہ کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ بعد میں قاتل شوہر کو سمندر کے کنارے سے گرفتار کر لیا گیا۔

    عرب دنیا صرف ایک ہفتے کے دوران 3 خواتین کے بہیمانہ قتل کی خبروں سے ہل گئی تھی، مصر کی طالبہ نائرہ اشرف کے قاتل نے دعویٰ کیا کہ اس کی دوست مختلف چیزیں حاصل کرنے کے لیے مجھے استعمال کرتی تھی، جب میں نے شادی کی تجویز دی تو اس نے مسترد کر دی۔

    اردن میں بھی حکام نے زرقا کے شمال میں واقع قصبے میں قاتل کا سراغ لگا لیا اور اسے گرفتار کرنے کی کوشش میں پولیس نے اسے ہتھیار ڈالنے کا کہا تو قاتل نے خود کو گولی مار لی۔

    سعودی دارالحکومت ریاض کی امام محمد بن سعود اسلامی یونیورسٹی میں سماجیات کے پروفیسر ابراہیم الزبین نے ایسے افسوسناک واقعات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک عالمی مسئلہ ہے جو کسی ایک خطے یا معاشرے سے مخصوص نہیں۔

    انہوں نے مزید کہا کہ ایسے جرائم کی تہہ تک پہنچنے سے پتہ چلتا ہے کہ خاص طور پر خواتین کے خلاف فقط صنفی بنیاد پر ہونے والے جرائم قدامت پسند اور کم آمدنی والے طبقوں میں زیادہ عام ہیں۔

  • زیادہ سونا نکالنے والے ممالک میں 3 عرب ملک شامل

    زیادہ سونا نکالنے والے ممالک میں 3 عرب ملک شامل

    لندن: ایک عالمی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا بھر میں زیادہ سونا نکالنے والے ممالک میں 3 عرب ملک بھی شامل ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق ورلڈ گولڈ کونسل کی جانب سے 2020 کے دوران دنیا بھر میں سونے کی کانوں کی پیداوار سے متعلق رپورٹ جاری کی گئی ہے، جس میں زیادہ سونا نکالنے والے ممالک کی فہرست دی گئی ہے جو 43 ممالک پر مشتمل ہے، ان ممالک نے مجموعی طور پر 3 ہزار 478 ٹن سے زیادہ سونا نکالا۔

    رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں سب سے زیادہ سونا پیدا کرنے والے ممالک میں 3 عرب ملک بھی شامل ہیں، تاہم یہ عرب ملک اب بھی مقدار کے لحاظ سے بہت سارے ممالک سے بہت پیچھے ہیں۔

    ان عرب ممالک میں سوڈان پہلے نمبر پر ہے، جب کہ سب سے زیادہ سونا پیدا کرنے والے 20 ممالک میں سوڈان کا شمار ہے، عرب مالک میں دوسرے نمبر پر ماریطانیہ ہے جو عالمی فہرست میں 35 ویں نمبر پر ہے، جب کہ تیسرے نمبر ہے عرب ملک مصر ہے جو عالمی سطح پر 36 ویں نمبر پر ہے۔

    ماریطانیہ نے 15.6 ٹن اور مصر نے 14.1 ٹن سونا نکالا، جب کہ چین وہ ملک ہے جو عالمی سطح پر سر فہرست ہے، چین نے 2020 کے دوران سب سے زیادہ سونا نکالا، اور کل عالمی پیداوار کا 11 فی صد چین کے حصے میں آیا، اس نے 368.3 ٹن سونا نکالا۔

    عالمی سطح پر روس دوسرے نمبر پر ہے، جس نے 331.1 ٹن سونا نکالا، آسٹریلیا 327.8 ٹن کے ساتھ تیسرے، امریکا 190.2 ٹن کے ساتھ چوتھے، کینیڈا 170.6 ٹن کے ساتھ پانچویں، گھانا 138.7 ٹن سے چھٹے، برازیل 107 ٹن سے ساتویں، ازبکستان 101.7 ٹن سے آٹھویں، میکسیکو 101.6 ٹن سے نویں اور انڈونیشیا 100.9 ٹن سے دسویں نمبر پر ہے۔

  • کویت: تارکین وطن کو ملک بدر کرنے کا منصوبہ

    کویت: تارکین وطن کو ملک بدر کرنے کا منصوبہ

    کویت سٹی: کویت نے آئندہ 5 سال کے اندر 70 فی صد تارکین وطن کو ان کے ملک واپس بھیجنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق کویت نے تارکین وطن کے حوالے سے ایک نیا منصوبہ بنا لیا ہے جس کے تحت پانچ سال کے اندر ستر فی صد غیر ملکیوں کو ان کے ملک واپس بھیجا جائے گا۔

    یہ فیصلہ کویت میں آبادیاتی عدم توازن کے ٹھوس حل کے لیے کیا گیا ہے، اس سلسلے میں کویتی قومی اسمبلی کو حکومتی ارادے کی یقین دہانی بھی حاصل ہو گئی ہے۔

    ذرایع کا کہنا ہے کہ ستر فی صد تارکین وطن کی ملک بدری کے لیے ڈیموگرافک قانون کے آرٹیکل 5 کو ختم کیا جائے گا، اس میں ایسی شقیں شامل ہیں جن کے تحت مجموعی طور پر 10 لاکھ سے زائد تارکین وطن کو استثنیٰ حاصل ہے۔

    قانون کے تحت جن تارکین وطن کو استثنیٰ حاصل ہے ان میں گھریلو ملازمین سمیت طبی اور تعلیمی شعبہ جات کی ملازمتیں شامل ہیں۔

    اس منصوبے کے اگلے مرحلے پر کارکنوں کی اسمارٹ بھرتیوں کی اہمیت کو بھی واضح کیا گیا ہے، تاہم اس سے قبل غیر ہنر مند اور ناخواندہ کارکنوں کو ملک بدر کیا جائے گا جب کہ 1 لاکھ 60 ہزار نئی اسمارٹ بھرتیاں کی جائیں گی۔

    اس سلسلے میں ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ کمیٹی نے قانون میں ترمیم کے مسودے اور اس کے حوالے سے قومی اسمبلی کے فیصلے کا جائزہ لینے کے لیے ایک اجلاس بھی منعقد کیا، مسودے کے مطابق حکومت قومی اسمبلی میں سالانہ رپورٹ پیش کرنے کی پابند رہے گی، یہ مسودہ فی الوقت قانون ساز کمیٹی کے پاس ہے۔

    کمیٹی کے چیئرمین خلیل الصالح کا کہنا تھا کہ اس قانون کا مقصد یہ ہے کہ حکومت کویت میں غیر ملکی کارکنوں کے لیے ایک حد مقرر کرنے کا طریقہ کار وضع کرے، کرونا کی وبا نے کویت میں آبادیاتی امور کے مسئلے کو اجاگر کیا، نئی قانون سازی کا مقصد بھی یہ ہے کہ آئندہ ایسے مسائل پیدا نہ ہوں، انھوں نے یہ بھی کہا کہ اس قانون کے متعدد فوائد ہیں جن میں غیر ملکی ملازمین کو کنٹرول کرنا سرفہرست ہے۔

    انھوں نے کہا یہ قانون کویت میں غیر ملکی کارکنوں کی کارکردگی کی ضمانت فراہم کرے گا، سیکورٹی کی صورت حال بہتر بنائے گا، کارکنوں کی وجہ سے پیش آنے والی پریشانیوں کو کم کرے گا، اور خود کشیوں، قتل اور دھوکا دہی کے واقعات میں کمی آئے گی۔

    الصالح کا کہنا تھا کہ امید ہے کہ اس قانون کا نفاذ حقیقی طور پر کیا جائے گا اور بات صرف کاغذات تک محدود نہیں رہے گی۔

  • کرونا وائرس: عرب ممالک کی سیاحت میں کمی متوقع

    کرونا وائرس: عرب ممالک کی سیاحت میں کمی متوقع

    ریاض: عرب مرکز برائے سیاحتی ابلاغ کا کہنا ہے کہ رواں برس کرونا وائرس کی وجہ سے عرب ممالک کی سیاحت اور سیاحوں کی تعداد میں نصف کمی متوقع ہے۔

    سعودی ویب سائٹ کے مطابق عرب مرکز برائے سیاحتی ابلاغ نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ سنہ 2020 کے دوران عرب ممالک آنے والے سیاحوں کی تعداد میں 50 فیصد تک کمی ہوسکتی ہے۔

    سنہ 2019 کے مقابلے میں اب تک عرب سیاحوں کی تعداد میں 20 تا 30 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔

    عرب مرکز برائے سیاحتی ابلاغ نے عالمی سطح پر سیاحت سے ہونے والی آمدنی کے حوالے سے کہا ہے کہ عالمی سیاحت میں بھی رواں برس 20 تا 30 فیصد کمی ہوگی، اس شعبے میں 2019 کے مقابلے میں 300 تا 850 ارب ڈالر کا خسارہ متوقع ہے۔

    ماہرین کے مطابق کرونا بحران کی وجہ سے اگلے 5 اور 7 برس تک کی شرح نمو متاثر ہوسکتی ہے، یہ دوسری عالمی جنگ کے بعد سے عالمی سیاحت کو پیش آنے والا بدترین بحران ہے۔

    سنہ 2001 کے دوران 11 ستمبر کے طیارہ حملوں کے نتیجے میں عالمی سیاحت کو 3.1 فیصد کا نقصان ہوا تھا، 2009 کے دوران عالمی اقتصادی بحران سے 4 فیصد اور 2003 میں سارس وائرس پھیلنے پر 0.4 فیصد کی کمی ریکارڈ کی گئی تھی۔

  • عراق میں مہنگائی کے خلاف پُر تشدد مظاہرے، ہلاکتوں کی تعداد 19 ہو گئی

    عراق میں مہنگائی کے خلاف پُر تشدد مظاہرے، ہلاکتوں کی تعداد 19 ہو گئی

    بغداد: عراق میں مہنگائی کے خلاف پُر تشدد احتجاجی مظاہرے تیسرے روز میں داخل ہو گئے ہیں، بغداد سمیت عراق کے جنوبی شہروں میں ہلاک افراد کی تعداد 19 ہو گئی۔

    تفصیلات کے مطابق عراق میں مہنگائی کے خلاف پر تشدد مظاہروں میں ہلاکتوں کی تعداد انیس ہو گئی ہے، مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے تین روز سے جاری ہیں۔

    غیر ملکی خبر ایجنسی کا کہنا ہے عراقی شہروں الناصریہ اور العمارہ میں پر تشدد مظاہرے زوروں پر ہیں، عراقی وزیر اعظم کے حکم پر آج صبح 5 بجے سے غیر معینہ مدت تک کے لیے کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے۔

    موصولہ اطلاعات کے مطابق مظاہرین حکومت کی کارکردگی اور خدمات کی فراہمی میں ناکامی پر برہم ہیں۔

    یہ بھی پڑھیں:  عراق میں معاشی بدحالی کے خلاف مظاہرے، پولیس فائرنگ سے چار ہلاک، 200 زخمی

    واضح رہے کہ تین دن سے عراق میں بد عنوانی، شہریوں کو بنیادی سہولیات کی عدم فراہمی اور بے روزگاری کے خلاف احتجاجی مظاہرے جاری ہیں، اس دوران پولیس کی فائرنگ سے متعدد لوگ ہلاک اور 200 سے زاید زخمی ہو چکے ہیں۔

    گزشتہ روز مشتعل مظاہرین نے سڑکوں پر جلاؤ گھیراؤ کرتے ہوئے حکومت کے خلاف شدید نعرے بازی کی، تحریر اسکوائر پر سیکورٹی فورسز کی جانب سے مظاہرین پر آنسو گیس اور آبی توپوں کا استعمال کیا گیا۔

    بتایا گیا ہے کہ عراقی پولیس نے مظاہرین کو گرین زون میں جانے سے روکنے کے لیے براہ راست فائرنگ، شیلنگ اور ربڑ کی گولیوں کا استعمال کیا۔

  • قضیہ فلسطین عرب ممالک کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے، سعودی سفیر

    قضیہ فلسطین عرب ممالک کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے، سعودی سفیر

    ریاض/قاہرہ : سعودی سفیر اسامہ نقلی نے فلسطین میں یہودی آبادی کاری کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ عالمی برادری بیت المقدس کو صہیونی ریاست کا دارالحکومت تسلیم نہ کرے۔

    تفصیلات کے مطابق سعودی عرب نے فلسطین میں اسرائیلی توسیع پسندی اور یہودی آباد کاری کی سرگرمیوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے یہودی آباد کاری کی روک تھام کےلئے اقوام متحدہ کی منظورکردہ قراردادوں پرعمل درآمد کا مطالبہ کیا ہے۔

    عرب ٹی وی کے مطابق مصر میں سعودی عرب کے سفیر اسامہ نقلی نے ابوظبی میں منعقدہ پانچویں سیاسی تزویراتی ڈائیلاگ کے اجلاس سے خطاب میں سنہ 2016ء کو سلامتی کونسل کی طرف سے منظور کردہ قرارداد 2334 اور فلسطین میں یہودی آباد کاری روکنے کے لیے اقوام متحدہ کی دوسری تمام قراردادوں پرعمل درآمد کرانے کا مطالبہ کیا۔

    انہوں نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ اپنے سفارت خانے بیت المقدس منتقل نہ کرے اور القدس کو صہیونی ریاست کا دارالحکومت تسلیم نہ کرے۔

    اسامہ نقلی کا کہنا تھا کہ مشرق وسطیٰ میں دیر پا امن کے قیام کے لیے مسئلہ فلسطین کا منصفانہ حل ضروری ہے، فلسطین، اسرائیل تنازع کے حل کے لیے عرب ممالک نے سنہ 2002ء میں بیروت سربراہ کانفرنس کے موقع پر ایک امن روڈ میپ جاری کیا تھا جسے اسلامی تعاون تنظیم کی طرف سے بھی حمایت حاصل ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ قضیہ فلسطین سعودی عرب کے لیے انتہائی اہمیت کاحامل اور پوری عرب دنیا کا مرکزی مسئلہ ہے، اس ضمن میں عرب ممالک نے سنہ 2002ء میں جو امن روڈ میپ پیش کیا تھا وہ موجودہ حالات میں مسئلہ فلسطین کامناسب اور قابل قبول حل ہے۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق سعودی سفیر کا کہنا تھا کہ اس میں القدس کواسرائیل کے بجائے فلسطینی ریاست کا دارالحکومت تسلیم کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ اس کےعلاوہ تنازع کے دو ریاستی حل کو نقصان پہنچانے والے اسرائیل کے یک طرفہ اقدامات کی سخت مخالفت کی گئی ہے۔

    اسامہ نقلی نے اقوام متحدہ اور عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ فلسطین کے حل اور فلسطین میں یہودی آباد کاری کی روک تھام بالخصوص سلامتی کونسل کی قرارداد 2334 پر فوری طورپر عمل درآمد پر زور دیا۔

    اسامہ نقلی نے کہا کہ عالمی برادری اپنے سفارت خانے القدس منتقل نہ کرے اور القدس کو فلسطینی ریاست کا دارالحکومت قراردینے کی مساعی میں عرب ممالک کا ساتھ دے۔

    سعودی سفیر نے مسئلہ فلسطین کے حوالے سے چین کے جرات مندانہ موقف کی بھی تحسین کی اور کہا کہ عرب ممالک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام اور مشرقی یروشلم کو اس کا دارالحکومت بنائے جانے کی کوششوں کی حمایت جاری رکھیں گے۔