Tag: عزم الحسنین عزمی کی غزل

  • تمہیں ملے تو زمانے سے آشنائی گئی!

    تمہیں ملے تو زمانے سے آشنائی گئی!

    درس و تدریس سے وابستہ عزم الحسنین عزمی کا تعلق پنجاب کے شہر گجرات کے گاؤں ڈوڈے سے ہے۔ کم عمری میں مطالعے کا شوق ہوگیا تھا۔ یوں مختلف موضوعات پر کتابیں اور اخبارات و رسائل ان کے زیرِ مطالعہ رہے۔ اسی زمانے میں شاعری میں‌ دل چسپی پیدا ہوئی اور طبیعت کو موزوں پایا تو مشقِ سخن کا آغاز کیا۔ وقت کے ساتھ ان کا فن نکھرتا اور خیالات میں پختگی آتی چلی گئی۔ آج ان کا کلام ملک اور بیرونِ ملک مختلف ادبی پرچوں‌ میں شایع ہوتا ہے۔

    یہاں‌ ہم عزم الحسنین عزمی کی ایک غزل اپنے باذوق کی نذر کررہے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔

    جہاں تھی، جس سے تھی، جتنی بنی بنائی گئی
    تمہیں ملے تو زمانے سے آشنائی گئی

    ہم آخری تھے جنہیں قہقہے نصیب ہوئے
    ہمارے بعد ہنسی تک نہیں بنائی گئی

    گناہگار تھا کچھ ہو گیا مزید میاں
    کہ مے کشی سے کہاں میری اولیائی گئی

    کبھی دیا نہ گیا خود پہ اختیار مجھے
    یہ کائنات کبھی دسترس میں لائی گئی

    فقط میں بیچتا ہوں عشق شہر میں خالص
    کہ مجھ سے رتّی ہوس بھی نہیں ملائی گئی

    کیے ہی جاتا ہوں پھر بھی یہ زندہ رہنے کا کام
    اگرچہ کام کی اجرت نہیں بتائی گئی

  • محبت کی بجائے درہم و دینار لے آیا!

    محبت کی بجائے درہم و دینار لے آیا!

    عزم الحسنین عزمی کا تعلق پنجاب کے شہر گجرات کے ایک گاؤں ڈوڈے سے ہے۔ وہ درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ انھیں ابتدائی عمر ہی میں مختلف موضوعات پر کتابیں اور اخبار و رسائل پڑھنے کا موقع ملا جس نے انھیں شعر گوئی پر مائل کیا۔ عزمی نے غزل کو جذبات کے اظہار کا وسیلہ بنایا۔ ملک اور بیرونِ ملک ادبی پرچوں‌ میں ان کا کلام شایع ہوتا رہتا ہے۔

    یہاں‌ ہم عزم الحسنین عزمی کی ایک غزل اپنے باذوق کی نذر کررہے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔

    غزل
    مری قیمت لگانے کو انہیں بے کار لے آیا
    محبت کی بجائے درہم و دینار لے آیا

    نکالی پیار میں نفرت کی اس نے ایسے گنجائش
    جہاں پر اینٹ بھی ممکن نہیں دیوار لے آیا

    ملی لوگوں سے مہنگی اور وہ بھی کھوکھلی، سو میں
    ،،خوشی،، خود گھر بنانے کے سبھی اوزار لے آیا

    اکیلا کب رہا؟ تھی ایک وڈیو کال کی دوری
    میں جب چاہا جسے چاہا سمندر پار لے آیا

    نہتے گھر پہ ہونے جارہی تھی خامشی قابض
    خدا کا شکر میں آواز کی تلوار لے آیا

    سخن کے چاک سے دیکھو لیا کیا کام عزمی نے
    کہ اپنے بین گھڑ کے صورتِ اشعار لے آیا

  • یہ آسمان کی چھت یہ زمین کا بستر(شاعری)

    یہ آسمان کی چھت یہ زمین کا بستر(شاعری)

    نوجوان شاعر عزم الحسنین عزمی پنجاب کے شہر گجرات کے گاؤں ڈوڈے کے باسی ہیں۔درس و تدریس سے منسلک عزم الحسنین عزمی کتب بینی اور مطالعے کا شوق رکھتے ہیں۔ گھر میں مختلف موضوعات پر کتابیں اور اخبار و رسائل پڑھنے کا موقع ملتا رہا اور اسی ماحول کے پروردہ عزمی نے کم عمری میں‌ شاعری شروع کردی۔ ان کے پسندیدہ شاعر محسن نقوی ہیں۔

    یہاں‌ ہم عزم الحسنین عزمی کی ایک غزل آپ کے ذوق کی نذر کررہے ہیں۔

    غزل
    دل و دماغ کھڑے گِرد، درمیان میں، مَیں
    گھِرا ہوا ہوں ازل سے ہی مُفتیان میں، مَیں
    کسے ہے اصل کی پہچان میرے شہر میں، سو
    پڑا رہوں گا بڑی دیر تک دکان میں، مَیں
    یہ آسمان کی چھت یہ زمین کا بستر
    کہ بے امان بھی بیٹھا ہوا امان میں مَیں
    اب آ گیا ہوں ترے شہر میں تو ڈھونڈ ہی لوں
    یہیں کہیں پہ پڑا ہوں کسی مکان میں، مَیں
    بس ایک چیخ کی صورت ہی جی رہی تھی صدا
    جب اس کو گفتگو دینے گیا تھا دان میں میں
    سنانے والا کوئی تھا مرا عدو ورنہ
    کہیں کہیں پہ ابھی بھی تھا داستان میں مَیں