Tag: عزیز میاں

  • نام وَر قوال عزیز میاں شخصیت اور فن کے آئینے میں

    نام وَر قوال عزیز میاں شخصیت اور فن کے آئینے میں

    عزیز میاں کی وجہِ شہرت قوالی اور صوفیانہ کلام ہے جس میں‌ وہ اپنے مخصوص انداز سے سماں باندھ دیتے تھے۔ عزیز میاں 6 دسمبر 2000ء کو اس دارِ فانی سے کوچ کرگئے تھے۔ آج ان کی 21 ویں برسی منائی جارہی ہے۔

    عزیز میاں کا اصل نام عبدالعزیز تھا۔ کہتے ہیں لفظ میاں ان کا تکیۂ کلام تھا جو بعد میں ان کے نام ہی کا حصّہ بن گیا۔ یوں وہ عزیز میاں مشہور ہوگئے۔

    عزیز میاں عالمی شہرت یافتہ قوال تھے۔ انھوں نے علّامہ اقبال اور قتیل شفائی کی شاعری کو اپنے مخصوص طرزِ گائیکی سے سامعین میں مقبول بنایا۔ وہ پڑھنے کے لیے کلام کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کرتے تھے۔ عزیز میاں نے کئی معروف اور غیر معروف شعرا کے عشقِ‌ حقیقی پر مبنی اشعار اور صوفیانہ کلام گایا۔

    ان کا شمار ایسے قوالوں میں ہوتا تھا جو تعلیم یافتہ اور وسیعُ‌ المطالعہ تھے۔ انھوں نے جامعہ پنجاب لاہور سے فارسی، اردو اور عربی میں ایم اے کیا تھا۔ وہ فلسفے کا شوق رکھتے تھے اور فلسفیانہ مباحث میں حصّہ لیتے اور دلیل اور منطق کے ساتھ اپنی فکر کا اظہار کرتے۔

    پاکستان ہی نہیں‌ انھیں دنیا بھر میں قوالی کی محافل سجانے کے لیے مدعو کیا جاتا تھا جہاں غیر مسلم بھی انھیں‌ سننے کے لیے جمع ہوتے۔ انھوں نے بیرونِ ملک اپنے منفرد انداز میں حمد و نعت کے ساتھ مختلف صوفیانہ کلام گایا اور حاضرین سے داد و ستائش پائی۔

    عزیز میاں کی آواز نہایت بارعب اور ان کا انداز دل کش تھا۔ وہ اس فن کے شہنشاہ کہلائے۔ وہ 17 اپریل 1942ء کو دہلی میں‌ پیدا ہوئے۔ فلسفہ اور صوفی ازم ان کا محبوب موضوع رہا۔

    انھوں نے قوالی کے فن اور اس کی باریکیوں کو سمجھنے کے لیے معروف استاد عبدالوحید کی شاگردی اختیار کی اور اس فن میں کمال حاصل کیا۔

    ‘‘اللہ ہی جانے کون بشر ہے، یا نبی یا نبیﷺ۔’’ وہ کلام تھا جو عزیز میاں کی شہرت اور مقبولیت کا سبب بنا۔ انھوں نے حمدیہ اور نعتیہ کلام کے علاوہ منقبت کو بھی اپنی آواز میں سامعین تک نہایت خوب صورتی سے پہنچایا۔

    ‘‘نہ کلیم کا تصور، نہ خیالِ طورِ سینا، میری آرزو محمدﷺ، میری جستجو مدینہ’’ وہ نعتیہ کلام ہے جو عزیز میاں کی آواز میں ہمیشہ نہایت عقیدت سے سنا جاتا رہے گا۔

    مختصر علالت کے بعد 58 سال کی عمر میں وفات پاجانے والے عزیز میاں کی تدفین ان کی وصیت کے مطابق ملتان شہر میں ان کے مرشد کے پہلو میں کی گئی۔

    عزیز میاں قوال کو 1989ء میں حسنِ کارکردگی ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔

  • اولیا اور صوفیا کے ارادت مند عزیز میاں قوال کی برسی

    اولیا اور صوفیا کے ارادت مند عزیز میاں قوال کی برسی

    6 دسمبر 2000ء کو دنیا بھر میں فنِ‌ قوالی اور اپنے مخصوص انداز میں‌ صوفیانہ کلام گانے کے لیے مشہور عزیز میاں اس دارِ فانی سے کوچ کرگئے۔ آج ان کی بیسویں برسی منائی جارہی ہے۔

    عزیز میاں کا اصل نام عبدالعزیز تھا۔ کہتے ہیں لفظ میاں ان کا تکیۂ کلام تھا جو بعد میں ان کے نام ہی کا حصّہ بن گیا اور وہ عزیز میاں مشہور ہوئے۔

    پاکستان ہی نہیں‌ دنیا بھر میں قوالی کے شیدا غیر مسلم بھی عزیز میاں کے دیوانے ہیں۔ اس کا سبب ان کا منفرد انداز اور حمد و نعت کے ساتھ مختلف صوفیانہ کلام گاتے ہوئے جذب و مستی کا وہ اظہار تھا جو حاضرین اور سامعین کو روحانی سکون اور طمانیت کے احساس سے سرشار کردیتا تھا۔

    عزیز میاں کی آواز نہایت بارعب اور انداز دل کش تھا۔ وہ اس فن کے شہنشاہ کہلائے. پاکستان ہی نہیں دنیا بھر میں عزیز میاں کا نام نہایت عزت اور احترام سے لیا جاتا ہے۔

    17 اپریل 1942ء کو دہلی میں‌ آنکھ کھولنے والے عزیز میاں نے عربی، فارسی اور اردو میں ایم اے کی ڈگریاں حاصل کیں۔ وہ مطالعہ کا شوق رکھتے تھے۔ فلسفہ اور صوفی ازم ان کا محبوب موضوع رہا۔

    قوالی کے فن اور اس کی باریکیوں کو سمجھنے کے لیے معروف استاد عبدالوحید کی شاگردی اختیار کی۔ حکومت نے انھیں تمغۂ حسنِ کارکردگی سے نوازا تھا۔

    ‘‘اللہ ہی جانے کون بشر ہے، یا نبی یا نبیﷺ۔’’ جیسا مشہور کلام عزیز میاں کی آواز میں آج بھی نہایت ذوق و شوق سے سنا جاتا ہے۔

    انھوں نے کئی حمدیہ اور نعتیہ کلام، منقبت اور مشہور شعرا کی شاعری کو بھی اپنی آواز اور انداز دیا۔

    ‘‘ نہ کلیم کا تصور، نہ خیالِ طورِ سینا، میری آرزو محمدﷺ، میری جستجو مدینہ’’ وہ نعتیہ کلام ہے جو عزیز میاں کی آواز میں نہایت عقیدت اور محبت سے سنا جاتا ہے۔

    مختصر علالت کے بعد 58 سال کی عمر میں وفات پاجانے والے عزیز میاں کی تدفین ان کی وصیت کے مطابق ملتان میں ان کے مرشد کے پہلو میں کی گئی۔