Tag: عزیز میاں قوال

  • فنِ قوالی میں بے مثال عزیز میاں قوال کا تذکرہ

    فنِ قوالی میں بے مثال عزیز میاں قوال کا تذکرہ

    پاکستان میں قوالی اور صوفیانہ کلام کے گائیکوں میں عزیز میاں نے لازوال شہرت اور بے پناہ مقبولیت حاصل کی۔ عزیز میاں ایک قابل، تعلیم یافتہ اور متعدد زبانوں پر عبور رکھنے والے ایسے قوال تھے جو اپنے مخصوص انداز میں سماں باندھ دیتے تھے۔ ان کے مداح پاکستان ہی نہیں دنیا بھر میں موجود ہیں۔

    عزیز میاں کا انتقال 6 دسمبر 2000ء کو ہوا۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ ان کا اصل نام عبدالعزیز تھا۔ کہتے ہیں کہ لفظ میاں ان کا تکیۂ کلام تھا جو بعد میں ان کے نام ہی کا حصّہ بن گیا۔ یوں وہ عزیز میاں مشہور ہوئے۔

    عالمی شہرت یافتہ قوال عزیز میاں نے علّامہ اقبال، قتیل شفائی اور دیگر شعرا کے صوفیانہ کلام کو اپنے مخصوص طرزِ گائیکی سے سامعین میں مقبول بنایا۔ وہ گانے کے لیے کلام کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کرتے تھے۔ صوفیانہ کلام کے ساتھ خمریات اور عشقِ حقیقی پر مبنی اشعار کو عزیز میاں نے اپنی آواز میں جاودانی عطا کی اور کئی معروف اور غیر معروف شعرا کی شاعری کو زندگی بخشی۔

    عزیز میاں تعلیم یافتہ اور وسیعُ‌ المطالعہ شخص تھے۔ جامعہ پنجاب لاہور سے فارسی، اردو اور عربی میں ایم اے کرنے والے عزیز میاں فلسفہ میں گہری دل چسپی رکھتے تھے۔ وہ فلسفہ کے طالبِ علم ہی نہیں تھے بلکہ فلسفیانہ مباحث میں حصّہ بھی لیتے اور دلیل و منطق کے ساتھ اپنی فکر کا اظہار کرتے۔

    پاکستان ہی نہیں‌ انھیں دنیا بھر میں قوالی کی محافل میں پرفارم کرنے کے لیے مدعو کیا جاتا تھا۔ بیرون ملک غیر مسلم بھی عزیز میاں کو سننے کے لیے جمع ہوتے۔ انھوں نے بیرونِ ملک اپنے منفرد انداز میں حمد و نعت کے ساتھ مختلف صوفیانہ کلام گایا اور حاضرین سے داد و ستائش پائی۔ عزیز میاں کی آواز نہایت بارعب اور ان کا انداز دل کش تھا۔ وہ اس فن کے شہنشاہ کہلائے۔

    17 اپریل 1942ء کو دہلی میں‌ پیدا ہونے والے عزیز میاں نے قوالی کے فن اور اس کی باریکیوں کو سمجھنے کے لیے معروف استاد عبدالوحید کی شاگردی اختیار کی اور اپنے منفرد اور والہانہ انداز کے سبب اپنی الگ پہچان بنائی۔ ان کی قوالیاں سننے والوں پر آج بھی وجد طاری کر دیتی ہیں۔ ‘‘اللہ ہی جانے کون بشر ہے، یا نبی یا نبیﷺ۔’’ وہ کلام تھا جو عزیز میاں کی شہرت اور مقبولیت کا سبب بنا۔ حمدیہ اور نعتیہ کلام کے علاوہ عزیز میاں کی آواز میں کئی منقبتیں بھی سامعین میں بہت مقبول ہیں۔

    نعتیہ کلام کی بات کریں تو ‘‘نہ کلیم کا تصور، نہ خیالِ طورِ سینا، میری آرزو محمدﷺ، میری جستجو مدینہ’’ وہ نعت ہے جو عزیز میاں کی آواز میں ہمیشہ نہایت عقیدت سے سنی جاتی رہی ہے اور قلب و روح کی تسکین کا سامان کرتی ہے۔

    عزیز میاں ایران کے شہر تہران میں سرکاری سطح‌ پر ایک محفل میں مدعو تھے جہاں ان کا انتقال ہوا۔ وصیت کے مطابق ان کی تدفین ملتان شہر میں ان کے مرشد کے پہلو میں کی گئی۔

    حکومتِ پاکستان نے عزیز میاں قوال کو 1989ء میں تمغائے حسنِ کارکردگی سے نوازا تھا۔

  • نام وَر قوال عزیز میاں شخصیت اور فن کے آئینے میں

    نام وَر قوال عزیز میاں شخصیت اور فن کے آئینے میں

    عزیز میاں کی وجہِ شہرت قوالی اور صوفیانہ کلام ہے جس میں‌ وہ اپنے مخصوص انداز سے سماں باندھ دیتے تھے۔ عزیز میاں 6 دسمبر 2000ء کو اس دارِ فانی سے کوچ کرگئے تھے۔ آج ان کی 21 ویں برسی منائی جارہی ہے۔

    عزیز میاں کا اصل نام عبدالعزیز تھا۔ کہتے ہیں لفظ میاں ان کا تکیۂ کلام تھا جو بعد میں ان کے نام ہی کا حصّہ بن گیا۔ یوں وہ عزیز میاں مشہور ہوگئے۔

    عزیز میاں عالمی شہرت یافتہ قوال تھے۔ انھوں نے علّامہ اقبال اور قتیل شفائی کی شاعری کو اپنے مخصوص طرزِ گائیکی سے سامعین میں مقبول بنایا۔ وہ پڑھنے کے لیے کلام کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کرتے تھے۔ عزیز میاں نے کئی معروف اور غیر معروف شعرا کے عشقِ‌ حقیقی پر مبنی اشعار اور صوفیانہ کلام گایا۔

    ان کا شمار ایسے قوالوں میں ہوتا تھا جو تعلیم یافتہ اور وسیعُ‌ المطالعہ تھے۔ انھوں نے جامعہ پنجاب لاہور سے فارسی، اردو اور عربی میں ایم اے کیا تھا۔ وہ فلسفے کا شوق رکھتے تھے اور فلسفیانہ مباحث میں حصّہ لیتے اور دلیل اور منطق کے ساتھ اپنی فکر کا اظہار کرتے۔

    پاکستان ہی نہیں‌ انھیں دنیا بھر میں قوالی کی محافل سجانے کے لیے مدعو کیا جاتا تھا جہاں غیر مسلم بھی انھیں‌ سننے کے لیے جمع ہوتے۔ انھوں نے بیرونِ ملک اپنے منفرد انداز میں حمد و نعت کے ساتھ مختلف صوفیانہ کلام گایا اور حاضرین سے داد و ستائش پائی۔

    عزیز میاں کی آواز نہایت بارعب اور ان کا انداز دل کش تھا۔ وہ اس فن کے شہنشاہ کہلائے۔ وہ 17 اپریل 1942ء کو دہلی میں‌ پیدا ہوئے۔ فلسفہ اور صوفی ازم ان کا محبوب موضوع رہا۔

    انھوں نے قوالی کے فن اور اس کی باریکیوں کو سمجھنے کے لیے معروف استاد عبدالوحید کی شاگردی اختیار کی اور اس فن میں کمال حاصل کیا۔

    ‘‘اللہ ہی جانے کون بشر ہے، یا نبی یا نبیﷺ۔’’ وہ کلام تھا جو عزیز میاں کی شہرت اور مقبولیت کا سبب بنا۔ انھوں نے حمدیہ اور نعتیہ کلام کے علاوہ منقبت کو بھی اپنی آواز میں سامعین تک نہایت خوب صورتی سے پہنچایا۔

    ‘‘نہ کلیم کا تصور، نہ خیالِ طورِ سینا، میری آرزو محمدﷺ، میری جستجو مدینہ’’ وہ نعتیہ کلام ہے جو عزیز میاں کی آواز میں ہمیشہ نہایت عقیدت سے سنا جاتا رہے گا۔

    مختصر علالت کے بعد 58 سال کی عمر میں وفات پاجانے والے عزیز میاں کی تدفین ان کی وصیت کے مطابق ملتان شہر میں ان کے مرشد کے پہلو میں کی گئی۔

    عزیز میاں قوال کو 1989ء میں حسنِ کارکردگی ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔

  • اولیا اور صوفیا کے ارادت مند عزیز میاں قوال کی برسی

    اولیا اور صوفیا کے ارادت مند عزیز میاں قوال کی برسی

    6 دسمبر 2000ء کو دنیا بھر میں فنِ‌ قوالی اور اپنے مخصوص انداز میں‌ صوفیانہ کلام گانے کے لیے مشہور عزیز میاں اس دارِ فانی سے کوچ کرگئے۔ آج ان کی بیسویں برسی منائی جارہی ہے۔

    عزیز میاں کا اصل نام عبدالعزیز تھا۔ کہتے ہیں لفظ میاں ان کا تکیۂ کلام تھا جو بعد میں ان کے نام ہی کا حصّہ بن گیا اور وہ عزیز میاں مشہور ہوئے۔

    پاکستان ہی نہیں‌ دنیا بھر میں قوالی کے شیدا غیر مسلم بھی عزیز میاں کے دیوانے ہیں۔ اس کا سبب ان کا منفرد انداز اور حمد و نعت کے ساتھ مختلف صوفیانہ کلام گاتے ہوئے جذب و مستی کا وہ اظہار تھا جو حاضرین اور سامعین کو روحانی سکون اور طمانیت کے احساس سے سرشار کردیتا تھا۔

    عزیز میاں کی آواز نہایت بارعب اور انداز دل کش تھا۔ وہ اس فن کے شہنشاہ کہلائے. پاکستان ہی نہیں دنیا بھر میں عزیز میاں کا نام نہایت عزت اور احترام سے لیا جاتا ہے۔

    17 اپریل 1942ء کو دہلی میں‌ آنکھ کھولنے والے عزیز میاں نے عربی، فارسی اور اردو میں ایم اے کی ڈگریاں حاصل کیں۔ وہ مطالعہ کا شوق رکھتے تھے۔ فلسفہ اور صوفی ازم ان کا محبوب موضوع رہا۔

    قوالی کے فن اور اس کی باریکیوں کو سمجھنے کے لیے معروف استاد عبدالوحید کی شاگردی اختیار کی۔ حکومت نے انھیں تمغۂ حسنِ کارکردگی سے نوازا تھا۔

    ‘‘اللہ ہی جانے کون بشر ہے، یا نبی یا نبیﷺ۔’’ جیسا مشہور کلام عزیز میاں کی آواز میں آج بھی نہایت ذوق و شوق سے سنا جاتا ہے۔

    انھوں نے کئی حمدیہ اور نعتیہ کلام، منقبت اور مشہور شعرا کی شاعری کو بھی اپنی آواز اور انداز دیا۔

    ‘‘ نہ کلیم کا تصور، نہ خیالِ طورِ سینا، میری آرزو محمدﷺ، میری جستجو مدینہ’’ وہ نعتیہ کلام ہے جو عزیز میاں کی آواز میں نہایت عقیدت اور محبت سے سنا جاتا ہے۔

    مختصر علالت کے بعد 58 سال کی عمر میں وفات پاجانے والے عزیز میاں کی تدفین ان کی وصیت کے مطابق ملتان میں ان کے مرشد کے پہلو میں کی گئی۔

  • اللہ ہی جانے کون بشرہے

    اللہ ہی جانے کون بشرہے

    فن قوالی کو منفرد انداز بخشنے والے عزیزمیاں قوال کا آج یومِ پیدائش ہے، انہیں اپنے مداحوں سے بچھڑے لگ بھگ دو دہائیاں گزرچکی ہیں لیکن ان کی قوالیاں آج بھی سننے والوں پر وجد طاری کر دیتی ہیں۔

    بھارت کے شہر دہلی میں17 اپریل 1942 کو پیدا ہونے والے عزیز میاں قوال نے فن قوالی میں اپنے منفرد انداز سے وہ شہرت حاصل کی جو بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے‘ انہوں نے قوالی میں ایسے ایسے مضمون باندھے جو کسی اور کے حصے میں نہ آسکے‘ اس جدت کے سبب انہیں قوال حلقوں کی جانب سے کڑی تنقید کا بھی سامنا رہا۔

    عزیز میاں قوال نے دس سال کی عمر میں قوالی سیکھنا شروع کی اور سولہ سال کی عمر تک قوالی کی تربیت حاصل کرتے رہے‘ انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے اردو اورعربی میں ایم اے کی تعلیم حاصل کی،تصوف اور معارفت کی محفلوں میں وہ اپنا لکھا ہوا کلام ہی پیش کرتے تھے۔

    ان کی وجہ شہرت قوالی کے دوران فی البدہیہ اشعار کی آمد ہے‘ وہ پہلے سے تیار قوالی کے ساتھ ساتھ فی البدہیہ اور براہ راست شاعری میں ملکہ رکھتے تھے۔ واحد قوال تھے جو شاعر بھی تھے اور کمپوزر بھی ‘ دوسری جانب تصوف اور معارفت کے منازل سے بھی بخوبی واقف تھے۔

    عزیز میاں قوال کی قوالیاں آج بھی دلوں پر وجد طاری کردیتی ہیں ‘ ان کی شاہکار قوالیوں میں – میں شرابی شرابی‘ تیری صورت‘ اللہ ہی جانے کون بشرہے اور دیگر شامل ہیں۔ 115 منٹ طویل قوالی- ’اورحشر کے روز ہی پوچھوں گا‘ انھوں نے خود لکھی‘ خود کمپوز کی اور خود ہی دنیا کے سامنے پیش کی۔

    ان کی قوالی سننے والوں پر وجد طاری کر دیتی ہے،اور ایسا سماں بندھ جاتا تھا کہ جس سے سامعین خود کو الگ نہیں کر پاتے تھے، حکومت نے ان کو کئی اعزازات سے نوازا جب کہ شاہ ایران نے بھی انہیں گولڈ میڈل پیش کیا تھا،

    منفرد انداز اور لب و لہجے کے مالک عزیزمیاں قوال ایران کے شہر تہران میں 06 دسمبر 2000 کو کچھ عرصے علیل رہنے کے بعدخالقِ حقیقی سے جا ملے۔

  • معروف قوال عزیز میاں کو ہم سے بچھڑے 16سال ہوگئے

    معروف قوال عزیز میاں کو ہم سے بچھڑے 16سال ہوگئے

    فن قوالی کو منفرد انداز بخشنے والے عزیزمیاں قوال کو بچھڑے ہوئے آج 16 برس گزر گئے لیکن ان کی قوالیاں آج بھی سننے والوں پر وجد طاری کر دیتی ہیں۔

    بھارت کے شہر دہلی میں پیدا ہونے والے عزیز میاں قوال نے فن قوالی میں اپنے منفرد انداز سے وہ شہرت حاصل کی جو بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہےانہوں نے قوالی میں وہ وہ مضمون باندھے جو کسی اور کے حصے میں نہ آسکے اس پر انہیں کڑی تنقید کا بھی سامنا رہا۔

    عزیز میاں قوام نے دس سال کی عمر میں قوالی سیکھنا شروع کی اور سولہ سال کی عمر تک قوالی کی تربیت حاصل کرتے رہے،انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے اردو اورعربی میں ایم اے کی تعلیم حاصل کی،تصوف اور معارفت کی محفلوں میں وہ اپنا لکھا ہوا کلام ہی پیش کرتے تھے۔

    ان کی وجہ شہرت قوالی کے دوران فی البدہیہ اشعار کی آمد ہے وہ پہلے سے تیار قوالی کے ساتھ ساتھ فی البدہیہ اور براہ راست شاعری میں ملکہ رکھتے تھے وہ واھد قوال تھے جو شاعر بھی تھے اور کمپوزر بھی تو تصوف اور معارفت کے منازل سے بھی باخوبی واقف تھے۔

    عزیز میاں قوال کی شہرہ آفاق قوالیوں میں،میں شرابی شرابی، تیر ی صورت، اللہ ہی جانے کون بشرہے اور دیگر شامل ہیں، 115 منٹ طویل قوالی اور حشر کے روز ہی پوچھوں گا،انھوں نے خود لکھی،خود کمپوز کی اور خود ہی دنیا کے سامنے پیش کی،

    ان کی قوالی سننے والوں پر وجد طاری کر دیتی ہے،اور ایسا سماں بندھ جاتا تھا کہ جس سے سامعین خود کو الگ نہیں کر پاتے تھے، حکومت نے ان کو کئی اعزازات سے نوازا جب کہ شاہ ایران نے بھی انہیں گولڈ میڈل پیش کیا تھا،

    منفرد انداز اور لب و لہجے کے مالک عزیزمیاں قوال ایران کے شہر تہران میں 06 دسمبر 2000 کو کچھ عرصے علیل رہنے کے بعدخالقِ حقیقی سے جا ملے۔