Tag: عطارد

  • سنہ 2018 میں آسمانوں پر کیا ہوگا؟

    سنہ 2018 میں آسمانوں پر کیا ہوگا؟

    ہر برس کی طرح سنہ 2018 بھی اپنے جلو میں کچھ نئے، انوکھے اور یادگار واقعات لیے وارد ہونے والا ہے۔ ان میں بہت سے ایسے نادر فلکیاتی واقعات بھی شامل ہیں جو کئی بر سوں بلکہ بعض اوقات عشروں بعد دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ان کا سیرِ حاصل جائزہ پیش کیا جارہا ہے۔


    سپر مون / بلو مون: یکم اور 31 جنوری

    نئے سال کا آغاز سال کے پہلے سپر مون سے ہوگا۔ سپر مون اس وقت دکھائی دیتا ہے جب چاند اپنے بیضوی مدار میں گردش کرتے ہوئے زمین کے قریب ترین مقام ’پیریگی‘ پر آجاتا ہے جس کے باعث وہ معمول سے زیادہ بڑا اور روشن دکھائی دیتا ہے۔

    یکم جنوری کو نظر آنے والا سپر مون 3 دسمبر 2017 کے چاند سے بہت مشابہہ ہوگا۔ یہ معمول کے سائز سے 14 فیصد بڑا اور 30 فیصد زیادہ روشن ہوگا۔ اس چاند کو فلکیاتی اصطلاح میں ‘ وولف مون’ بھی کہا جاتا ہے۔

    اسی ماہ دوسرا مکمل چاند 31 جنوری کی رات دیکھا جائے گا جو ’بلو مون‘ کہلاتا ہے۔ اس کے علاوہ اس کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ یہ ایک فلکیاتی چار ماہی میں رونما ہونے والا تیسرا مکمل چاند ہوتا ہے اور نسبتاً زیادہ روشن بھی۔


    مکمل چاند گرہن: 31 جنوری اور 27 جولائی

    مکمل چاند گرہن اس وقت رونما ہوتا ہے جب دورانِ گردش زمین، چاند اور سورج کے درمیان حائل ہو جاتی ہے جس کے باعث چاند خونی یا سرخی مائل دکھائی دیتا ہے۔

    زمین کا جو گہرا سایہ چاند پر پڑتا ہے وہ فلکیات کی اصطلاح میں ’امبرا‘ کہلاتا ہے۔ 31 جنوری کو رونما ہونے والا چاند گرہن شمالی مغربی امریکہ، مشرقی ایشیا،آسٹریلیا اور بحر الکاہل کے متعدد ممالک میں دکھائی دے گا جبکہ 27 جولائی کا گرہن یورپ، افریقہ، مغربی و وسطی ایشیا، بحر ہند اور مغربی آسٹریلیا سمیت دنیا بھر میں دیکھا جائے گا۔


    بلیک مون: فروری

    اس برس جنوری اور مارچ میں 2، 2 مکمل چاند یا بلو مون رونما ہونے باعث درمیان کے مہینے فروری میں ایک دفعہ بھی مکمل چاند نظر نہیں آسکے گا۔ یہ امر ’بلیک مون‘ کہلاتا ہے جو ہر 20 برس کے بعد رونما ہوتا ہے۔

    اگرچہ بلیک مون کوئی باقاعدہ فلکیاتی اصطلاح نہیں ہے مگرحالیہ چند برسوں میں سوشل میڈیا اور آسٹرولوجرز کی جانب سے اس کے کثرت استعمال کے باعث یہ زبان زد عام ہو گیا ہے۔

    بلیک مون اب دوبارہ 2038 میں رونما ہوگا۔


    جزوی سورج گرہن: 15 فروری، 13 جولائی اور 11 اگست

    سنہ 2018 کا پہلا جزوی سورج گرہن 15 فروری کو رونما ہوگا جو چلی، ارجنٹینا اور انٹارکٹیکا میں دیکھا جاسکے گا۔ 13 جولائی کا سورج گرہن آسٹریلیا اور انٹارکٹیکا میں جبکہ 11 اگست کو ایک دفعہ پھر چاند، زمین اور سورج کے درمیان کچھ وقت کے لیے حائل ہوگا جس کا مشاہدہ شمال مشرقی کینیڈا، گرین لینڈ، شمال شمالی یورپ، روس کے متعدد شمالی علاقوں اور شمال مشرقی ایشیا میں کیا جاسکے گا۔

    یہ سال کا سب سے بڑا سورج گرہن ہوگا جس کا دنیا بھر میں مشاہدہ کیا جائے گا۔


    میٹی یور شاورز یا شہابِ ثاقب کی برسات

    ہر برس کی طرح سال 2018 میں بھی آسمانی پتھروں کی بارش یا میٹی یور شاورز جاری رہیں گی۔ یہ کثرت سے دکھائی دینے والا عمل دراصل اس وقت رونما ہوتا ہے جب کوئی دم دار ستارہ تیزی سے زمین کے قریب سے گزرتا ہے تب اس کی دم سے خارج ہونے والے چھوٹے چھوٹے چٹانی پتھر یا کنکریاں برسات کی صورت میں گرتی ہوئی واضح دکھائی دیتی ہیں جنہیں ان کے متعلقہ کانسٹی لیشن یا برج کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے۔

    ان میں لیونائڈ، جیمینائڈ ، ٹورئڈ اور پرسیڈ شاورز قابلِ ذکر ہیں۔ سنہ 2018 میں 12 اور 13 اگست کی رات پر سیڈ میٹی یور شاور دکھائی دے گا جس میں پتھروں کی گرنے کی رفتار ساٹھ میٹی یور فی گھنٹہ ہوگی، جبکہ 13 اور 14 دسمبر کی رات سال کا زبردست شاور دیکھا جاسکے گا جس کی رفتار ایک سو بیس میٹی یور فی گھنٹہ ہوگی۔


    بلیک ہول کے ایونٹ ہوریزون کا مشاہدہ

    کسی بلیک ہول کا وہ مقام جہاں اس کا ثقلی دباؤ اس قدر زیادہ ہوتا ہے کہ روشنی جو کائنات کی تیز ترین شے سمجھی جاتی ہے وہ بھی اس مقام سے خارج نہیں ہو پاتی، ایونٹ ہوریزون کہلاتا ہے۔

    اپریل 2018 فلکیات اور خلا کی تسخیر میں دلچسپی رکھنے والے افراد کے لیے ایک بڑی خبر لارہا ہے جب خصوصی طور پر ڈیزائن کردہ ملٹی ٹیلی سکوپ کے ذریعے ہماری ملکی وے گلیکسی کے مرکز میں واقع بلیک ہول ’سیجی ٹیریس اے‘ کی تصاویر لی جائیں گی۔

    اس اسپیشل ٹیلی سکوپ کو ایونٹ ہوریزون ٹیلی سکوپ کا نام دیا گیا ہے۔ تقریباً 5 روز تک مسلسل مشاہدے کے بعد جو تصویر حاصل ہوگی وہ یقیناً بہت سی کائناتی گتھیوں کو سلجھانے کے علاوہ کچھ نئی دریافتوں کا بھی سبب بنے گی۔


    چاند کا سفر

    اگرچہ 1972 کے بعد سے چاند کی جانب کوئی نئی پیش قدمی نہیں کی گئی مگر سنہ 2018 اس حوالے سے خبروں کا مرکز رہے گا۔ چین اور انڈیا اپنے اپنے روبوٹک سپیس پروب چاند پر بھیجنے کے لیے پوری طرح مستعد ہیں اور توقع کی جا رہی ہے کہ اگلے برس کے وسط تک یہ مشنز روانہ کیے جا چکے ہوں گے۔

    اس کے ساتھ ہی گوگل بھی اپنا روبوٹک پروب اسی برس بھیجنے کا ارادہ رکھتا ہے مگر عین ممکن ہے کہ اس میں کچھ تاخیر ہو جائے۔ جبکہ گذشتہ ماہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ناسا کی جانب سے بھی چاند پر دوبارہ مشن بھیجنے کے اعلانات سننے کو ملے ہیں۔ لہٰذا چاند کے شیدائیوں اور اپولو الیون کی لینڈنگ کو جھوٹا قرار دینے والوں کے لیے 2018 بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔

    اسی برس سپیس ایکس کی جانب سے بھیجی جانے والی خلائی گاڑی زمین کے قریب ترین سیارچے پر اترے گی جس کی واپسی 2023 تک متوقع ہے۔ یقیناً اس مشن سے بھی زحل کے کیسینی مشن کی طرح گراں قدر معلومات حاصل ہوں گی۔


    عطارد کی جانب سفر

    ناسا اور یورپین سپیس ایجنسی کا خلا اور نظامِ شمسی کے دیگر سیاروں پر کمندیں ڈالنے کا سفر کافی عرصے سے جاری ہے مگر حالیہ برسوں میں اس حوالے سے بڑی خبریں سامنے آئی ہیں اور خلا کے شیدائیوں کو نوید ہو کہ 2018 میں یورپین سپیس ایجنسی اور جاپان کی سپیس ایجنسی اپنا مشترکہ مشن عطارد کی جانب بھیجنے کا اعلان کرچکی ہیں۔

    واضح رہے کہ عطارد سورج کے سب سے نزدیک واقع سیارہ ہے۔ اس مشن کے لیے بھیجی جانے والی سپیس پروب 2025 تک عطارد پر لینڈ کر سکے گی مگر جیسے جیسے یہ عطارد کے قریب پہنچے گی، سورج سے فاصلہ کم ہونے باعث سائنسدانوں کو اس سے موصول ہونے والے سگنلز سے نہایت اہم معلومات حاصل ہوں گی۔

    اس مشن کو ’بی بی کولمبو‘ کا نام دیا گیا ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • طلوع آفتاب کا منظر دوسرے سیاروں پر کیسا ہوتا ہے؟

    طلوع آفتاب کا منظر دوسرے سیاروں پر کیسا ہوتا ہے؟

    سورج کے بغیر ہماری دنیا میں زندگی ناممکن ہے۔ اگر سورج نہ ہو تو ہماری زمین پر اس قدر سردی ہوگی کہ کسی قسم کی زندگی کا امکان بھی ناممکن ہوگا۔

    ہمارے نظام شمسی کا مرکزی ستارہ سورج روشنی کا وہ جسم ہے جس کے گرد نہ صرف تمام سیارے حرکت کرتے ہیں بلکہ تمام سیاروں کے چاند بھی اس سورج سے اپنی روشنی مستعار لیتے ہیں۔

    مختلف سیاروں پر دن، رات اور کئی موسم تخلیق کرنے کا سبب سورج ہماری زمین سے تقریباً 14 کروڑ سے بھی زائد کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور اس تک پہنچنا تقریباً ناممکن ہے، کیونکہ آدھے راستے میں ہی سورج کا تیز درجہ حرارت ہمیں پگھلا کر رکھ دے گا۔

    زمین پر سورج کے طلوع اور غروب ہونے کا منظر نہایت دلفریب ہوتا ہے۔ لیکن کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ دوسرے سیاروں پر یہ نظارہ کیسا معلوم ہوگا؟

    ایک امریکی ڈیجیٹل آرٹسٹ رون ملر نے اس تصور کو تصویر کی شکل دی کہ دوسرے سیاروں پر طلوع آفتاب کا منظر کیسا ہوگا۔ دیکھیے وہ کس حد تک کامیاب رہا۔


    سیارہ عطارد ۔ مرکری

    1

    سیارہ عطارد یا مرکری سورج سے قریب ترین 6 کروڑ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا یہاں کا درجہ حرارت دیگر تمام سیاروں کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔ یہاں پر طلوع آفتاب کے وقت سورج نہایت قریب اور بڑا معلوم ہوتا ہے۔


    سیارہ زہرہ ۔ وینس

    2

    سورج سے قریب دوسرے مدار میں گھومتا سیارہ زہرہ سورج سے 108 ملین یا دس کروڑ کلومیٹر سے بھی زائد فاصلے پر ہے۔ اس کی فضا موٹے بادلوں سے گھری ہوئی ہے لہٰذا یہاں سورج زیادہ واضح نظر نہیں آتا۔ یہاں کی فضا ہر وقت دھندلائی ہوئی رہتی ہے۔


    سیارہ مریخ ۔ مارس

    3

    ہماری زمین سے اگلا سیارہ (زمین کے بعد) سیارہ مریخ سورج سے 230 ملین کلومیٹر کے فاصلے پر ہے لیکن اس سے سورج کے نظارے پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔


    سیارہ مشتری ۔ جوپیٹر

    4

    سورج سے 779 ملین کلومیٹر کے فاصلے پر واقع سیارہ مشتری کی فضا گیسوں کی ایک موٹی تہہ سے ڈھکی ہوئی ہے۔ یہاں پر سورج سرخ گول دائرے کی شکل میں نظر آتا ہے۔


    سیارہ زحل ۔ سیچورن

    5

    سورج سے 1.5 بلین کلومیٹر کے فاصلے پر واقع زحل کی فضا میں برفیلے پانی کے ذرات اور گیسیں موجود ہیں۔ یہ برفیلے کرسٹل بعض دفعہ سورج کو منعکس کردیتے ہیں۔ کئی بار یہاں پر دو سورج نظر آتے ہیں جن میں سے ایک سورج اصلی اور دوسرا اس کا عکس ہوتا ہے۔


    سیارہ یورینس

    6

    سورج سے 2.8 بلین کلومیٹر کے فاصلے پر سیارہ یورینس سورج سے بے حد دور ہے جس کے باعث یہاں سورج کی گرمی نہ ہونے کے برابر ہے۔


    سیارہ نیپچون

    7

    نیپچون سورج سے 4.5 بلین کلو میٹر کے فاصلے پر ہے اور اس کی سطح برفانی ہے۔ اس کے فضا میں برف، مٹی اور گیسوں کی آمیزش کے باعث یہاں سورج کی معمولی سی جھلک دکھائی دیتی ہے۔


    سیارہ پلوٹو

    8

    پلوٹو سیارہ جسے بونا سیارہ بھی کہا جاتا ہے سورج سے سب سے زیادہ 6 بلین کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ یہاں پر سورج کی روشنی ہمیں ملنے والی سورج کی روشنی سے 16 سو گنا کم ہے، اس کے باوجود یہ اس روشنی سے 250 گنا زیادہ ہے جتنی روشنی ہمارے چاند کی ہوتی ہے۔