Tag: عطا تارڑ

  • ’جیل سے رہا کرو تو احتجاج ملتوی، بیان قیدی کی گھبراہٹ کا اعتراف ہے‘

    ’جیل سے رہا کرو تو احتجاج ملتوی، بیان قیدی کی گھبراہٹ کا اعتراف ہے‘

    وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ کا کہنا ہے کہ جیل سے رہا کرو تو احتجاج ملتوی یہ بیان قیدی کی گھبراہٹ کا اعتراف ہے۔

      اے آر وائی نیوز کے مطابق وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے بانی پی ٹی آئی کے جیل سے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ثابت ہوا 24 نومبر کو انتشار کی کال کا مقصد ’ڈیل‘ کے لیے جدوجہد کرنا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ جو کہتا تھا ڈیل نہیں کروں گا وہ ڈیل کرلو، ڈیل کرلو کی صدائیں دے رہا ہے۔

    وزیر اطلاعات نے کہا کہ قیدی ڈیل کے لیے وفاق پر لشکر کشی کرنے پر بقضد ہے، آپ سے ڈیل صرف ’قانون‘ کرے گا جس کے آپ مجرم ہیں۔

    اس سے قبل پارلیمنٹ ہاؤس میں وزیر دفاع خواجہ آصف صحافیوں سے گفتگو کررہے تھے اس دوران ان سے پی ٹی آئی اور اسیٹبلشمنٹ میں مبینہ مذاکرات سے متعلق سوال کیا گیا۔

    انہوں نے رابطوں کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ گنڈاپور روز اول سے وفاق اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ رابطے میں ہیں، وہ جلوسوں سے غائب ہوکر برآمد ہوتے ہیں، وہ عمران خان کی مرضی سے اسٹیبلشمنٹ سے رابطے میں ہیں۔

    ان سے سوال کیا گیا کہ اسٹیبلشمنٹ کی موجودگی میں وزیر اعلیٰ کا لہجہ کیسا ہوسکتا ہے، جواب میں خواجہ آصف نے کہا کہ جلسے کی اجازت دی جاسکتی ہے وفاق پر حملہ آور ہونے کی نہیں۔

    وزیر دفاع نے کہا کہ احتجاج میں دو دن باقی ہیں بہت کچھ ہوسکتا ہے، بانی پی ٹی آئی صیہونی لابی کا بندہ ہے لیکن ان کی رہائی کی تاحال کوئی امکان نہیں، انہیں ریلیف ملنا ممکن نہیں ہے، پی ٹی آئی سرتوڑ کوششیں کررہی ہے کہ 24 نومبر کا احتجاج نہ کرنا پڑے۔

  • ‘ایکس’  کیوں بند ہے اور یہ بندش کب تک رہے گی؟   عطا تارڑ نے اصل وجہ  بتادی

    ‘ایکس’ کیوں بند ہے اور یہ بندش کب تک رہے گی؟ عطا تارڑ نے اصل وجہ بتادی

    نیویارک : وزیر اطلاعات و نشریات عطا تارڑ  نے ایکس (سابق ٹوئٹر) پر پابندی کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ چاہتے ہیں ایکس سے بات کرکے معاملات بہتر کریں۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیراطلاعات عطاتارڑ نے وائس آف امریکا کو انٹرویو میں فائروال کا دفاع کرتے ہوئے کہا سائبرحملوں سے بچنے کیلئے پاکستان ویب مینجمنٹ سسٹم کو اپ گریڈ کررہا ہے۔

    ایکس (سابق ٹوئٹر) پر پابندی سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ایکس پرپابندی انتخابات کےدوران لگائی گئی، ایکس کی بندش کی وجہ دہشت گردی روکنا ہے، بندش کی وجہ اظہار رائے پر پابندی نہیں۔

    وزیراطلاعات نے کہا کہ یہ معاملہ عدالت میں زیر التواء ہے جہاں وزارت داخلہ بتا چکی ہے کہ اس پلیٹ فارم سے ملکی سلامتی اور عوام کے تحفظ پر حملے کئے جاتے ہیں، علیحدگی پسند،قوم پرست، دہشت گرد ایکس پر دہشت گردی کی پوسٹیں کرتے ہیں۔

    انھوں نے بتایا کہ بی ایل اے کے دہشت گرد ایکس پر اپنی مہم چلاتے ہیں، گوادر پورٹ اتھارٹی پر حملہ کی لائیو کوریج دیتے ہیں، کیا حکومت نہیں کہہ سکتی خدارا اس کو روکیں؟

    وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ عدالت میں کہا دہشت گردوں کوایکس تک رسائی حاصل ہے، علیحدگی پسند، دہشت گرد ایکس کو ملکی سلامتی کیخلاف استعمال کر رہےہیں.

    انھوں نے مزید کہا کہ چاہتےہیں ایکس سے بات کرکے معاملات بہترکریں، کچھ وہ ہمارے ٹرمز پر آجائیں، کچھ ہم ان کےٹرمزپرآجائیں اور میکنزم طےپاجائے، تاکہ خوش اسلوبی سےمعاملہ حل ہوجائے.

  • طالبان کو لا کر بسانے کی پالیسی غلط تھی، عطا تارڑ کا اعتراف

    طالبان کو لا کر بسانے کی پالیسی غلط تھی، عطا تارڑ کا اعتراف

    نیو یارک : وفاقی وزیراطلاعات عطا تارڑ کا کہنا ہے طالبان کو لا کر بسانے کی پالیسی غلط تھی . اس کے اثرات خیبرپختونخو میں نظر آرہے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیراطلاعات عطا تارڑ نے نیویارک میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ مہنگائی سنگل ڈیجٹ پر آنا خوش آئند ہے، اوورسیزپاکستانیوں کی جانب سے ریکارڈ تر سیلات زر ہوئیں، میکرواکنامک انڈیکٹرزبہت بہتر ہورہے ہیں۔

    وفاقی وزیر اطلاعات نے بتایا کہ جب ہم آئے توڈیفالٹ کی باتیں ہورہی تھیں، ڈیفالٹ ہوتا ہے تو پورا مالیاتی نظام گرجاتا ہے، پاکستان میں مہنگائی بڑھنے کی شرح کم ہوئی ہے، معاشی بحالی کی کوششیں جاری ہیں، دنیا تسلیم کررہی ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ فلسطین سے متعلق قائداعظم کے مؤقف پر آج بھی قائم ہیں، وزیراعظم نے لبنان میں فوری جنگ بندی پرزور دیا،غزہ میں اسرائیلی جارحیت پر پاکستان کوتشویش ہے، پاکستان کا تمام فورمز پر مؤقف ہے کہ اسرائیل نے غزہ میں نسل کشی کی۔

    وفاقی وزیر اطلاعات نے اعتراف کیا طالبان کو واپس لانے کی پالیسی غلط تھی،اس کے اثرات کے پی میں نظر آرہےہیں، طالبان کو یہ کہہ کر واپس لاکر بسایا گیا کہ یہ اچھے ہیں۔

    انھوں نے کہا کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کےاثرات سےنقصان کاتخمینہ 30 ارب ڈالر سے زیادہ ہے، کاربن خارج کرنے والے ممالک کے پاس وسائل زیادہ ہیں، وزیراعظم شہبازشریف نے ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو اجاگر کیا، ماحولیاتی تبدیلیوں کے بدترین اثرات کا سامنا ہے، سیلاب کی وجہ سے بہت زیادہ مالی و جانی نقصان کاکرنا پڑتا ہے، پاکستان کاماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کے باعث بہت زیادہ نقصان ہوتا ہے۔

    وفاقی وزیر نے بتایا کہ پاکستان نےدہشتگری کیخلاف جنگ میں80ہزارسے زائدقربانیاں دی ہیں ، دہشت گردی کےباعث معیشت کو اربوں ڈالر کا نقصان ہوا، نیشنل ایکشن پلان کے تحت دہشتگردی کے خاتمے کیلئےمتعدداقدامات کئےگئے ، ہماری کوششوں سے کراچی کا امن بحال ہوا۔

    عطا تارڑ کا مزید کہنا تھا کہ وزیراعظم نے غزہ کی صورتحال کو ہرعالمی فورم پر اجاگر کیا، پاکستان نے واضح طور پر کہا کہ اسرائیل غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کررہا ہے ، اسرائیل کو غزہ میں نسل کشی کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے، عالمی برادری فلسطین سے اظہار یکجہتی اور اسرائیلی مظالم پر جوابدہ ٹھہرائے۔

    انھوں نے کہا کہ پاکستان فلسطین کی ہر طرح سے حمایت جاری رکھے گا پاکستان فلسطینیوں کے ساتھ ہے اور رہے گا، اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کی قائداعظم کی پالیسی پر کاربند ہیں۔

    وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ پاکستان میں معاشی استحکام کی عالمی سطح پر بھی تصدیق کی جارہی ہے، قوم وزیراعظم کی اقوام متحدہ کی تقریرپر فخر کرے گی۔

    عطا تارڑ نے کہا کہ اوورسیز پاکستانی ہمارا قیمتی اثاثہ ہیں،وہ ہمارے ماتھے کا جھومر ہیں ، پاکستان کا مفاد ہماری اولین ترجیح ہے، اوورسیز پاکستانیوں کی تجاویز کا احترام کرتے ہیں،عطا تارڑ

    پی ٹی آئی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ انتشار پھیلا ایک مخصوص سیاسی جماعت کا وطیرہ بن گیا ہے، مسلم لیگ ن نفرت اور انتشار کی سیاست پر یقین نہیں رکھتی۔

  • نظر یہی آرہا ہے 26  اکتوبر کو  جسٹس منصور علی شاہ  چیف جسٹس ہوں گے، عطا تارڑ

    نظر یہی آرہا ہے 26 اکتوبر کو جسٹس منصور علی شاہ چیف جسٹس ہوں گے، عطا تارڑ

    اسلام آباد : وزیراطلاعات عطا تارڑ کا کہنا ہے کہ نظر یہی آرہا ہے 26 اکتوبر کو جسٹس منصور علی شاہ چیف جسٹس ہوں گے۔

    تفصیلات کے مطابق وزیراطلاعات عطا تارڑ نے اے آر وائی نیوز کے پروگرام الیونتھ آور میں گفتگو کرتے ہوئے کہا مولانافضل الرحمان ہمارےاتحادی رہےہیں لائق احترام ہیں، ان سے وزیراعظم کی دوملاقاتیں ہوئی جومثبت رہیں۔

    وزیراطلاعات نے بتایا کہ مولانافضل الرحمان کی خواہش تھی کہ مزیدمشاورت ہوجائے، حکومت کابھی مؤقف ہےمشاورت کادائرہ کاروسیع کریں گے، ہمیشہ مزیدمشاورت کی گنجائش موجود رہتی ہے، کامران مرتضیٰ کے پاس مسودہ موجودتھا اور کلاز بائی کلاس مشاورت ہوئی، مسودہ وزیرقانون اعظم نذیرتارڑاوران کی ٹیم نے تیار کیاتھا، چارٹرآف ڈیموکریسی میں بھی آئینی عدالتوں کامطالبہ موجود تھا۔

    ان کا کہنا تھا کہ یہ تاثردرست نہیں ہےکہ مسودہ کہیں اورسےآیا ہے اور یہ بات درست نہیں ہےکہ مسودہ کسی کونہیں دیاگیا، ہوسکتا ہے عبدالغفور حیدری کو مسودہ نہ ملا ہو کیونکہ بیرون ملک سے آئے تھے۔

    اگلے چیف جسٹس کے حوالے سے وفاقی وزیر نے کہا کہ بلاول بھٹونےدرست کہاہوگاکہ نئےچیف جسٹس منصور علی شاہ ہوں گے ، نئےچیف جسٹس منصورعلی شاہ ہی نظر آتے ہیں اب تک یہ ہی نظر آتاہے، آئین وقانون کے مطابق یہ درست بات ہےکہ نئےچیف جسٹس منصورعلی شاہ ہوں گے۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ آئینی عدالت کو کون ہیڈ کرے گا اس پر ابھی کوئی مشاورت نہیں ہوئی، پوری دنیا کے اندر آئینی عدالتوں کا نظام موجود ہے اور پورا اسٹرکچر موجود ہے۔

  • پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کا فیصلہ، حکومت بوکھلاہٹ کا شکار

    پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کا فیصلہ، حکومت بوکھلاہٹ کا شکار

    ملک میں پہلے ہی سیاسی خلفشار کم نہیں تھا کہ موجودہ حکومت کے وزیرِ اطلاعات و نشریات عطا تارڑ کا یہ دھماکا خیز اعلان سامنے آگیا کہ وفاقی حکومت نے پاکستان تحریک انصاف پر پابندی لگانے اور اس جماعت کے بانی عمران خان سمیت سابق صدر ڈاکٹر عارف علوی اور سابق ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری پر آرٹیکل 6 لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔ حکومت کو یہ مشورہ نجانے کس نے دیا ہے۔

    شہباز حکومت یہ فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب سپریم کورٹ کے فل کورٹ نے اکثریتی رائے سے مخصوص نشستیں پاکستان تحریک انصاف کو دینے کا حکم دیتے ہوئے الیکشن کمیشن اور پشاور ہائیکورٹ کے ماقبل فیصلوں کو کالعدم قرار دے دیا ہے اور ساتھ ہی یہ رولنگ بھی دی کہ پی ٹی آئی ایک سیاسی جماعت اور حقیقت ہے جس کو کوئی جھٹلا نہیں سکتا۔

    اس فیصلے کے اگلے ہی روز اسلام آباد کی سیشن عدالت نے بانی پی ٹی آئی عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو باعزت بری کر دیا جب کہ اس سے قبل اسلام آباد ہائیکورٹ دونوں کی سائفر کیس میں سزا معطل کر کے انہیں رہا کرنے اور سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی سمیت شاہ محمود قریشی کو بری کر چکی ہے۔ عدالت سے مختلف کیسوں میں بانی پی ٹی آئی کے حق میں فیصلوں سے حکومت کے پہلے ہی ہاتھ پاؤں پھول رہے تھے جس کا اظہار حکومتی نمائندے اپنے بیانات اور پریس کانفرنسوں میں کر رہے تھے، لیکن مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے کے عدالتی فیصلے سے حکومت دو تہائی اکثریت سے محروم اور اپنے اتحادیوں کی حمایت سے ہر قانون اور بل کو کثرت رائے سے منظور کرانے کی طاقت سے محروم ہوگئی ہے، اس تناظر میں حکومت کا یہ اعلان اہمیت رکھتا ہے۔

    مذکورہ یہی تین بڑے کیسز تھے جن میں عمران خان کو سزائیں ہوئی تھیں اور ان ہی عدالتی فیصلوں کے پیچھے حکومت چھپتی آ رہی تھی۔ اب جب ان تینوں کیسز کے فیصلوں کے ساتھ مخصوص نشستوں پر بھی پی ٹی آئی کو ایسا ریلیف ملا جو شاید اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا تو حکومت جو پہلے ہی فارم 45 اور 47 کی پکار، امریکی کانگریس میں انتخابات میں بدعنوانیوں سے متعلق منظور قرارداد اور عالمی سطح پر انتخابی عمل کی شفافیت پر اٹھائے جانے والے سوالات کے باعث پہلے ہی عدم تحفظ کا شکار ہے، اس کا بوکھلاہٹ کا شکار ہونا فطری امر ہے۔ تاہم عدالتی فیصلوں کے جواب میں اگر حکومت نے یہ سوچ کر پی ٹی آئی پر پابندی لگانے اور اس کے بانی سمیت دیگر پر آرٹیکل 6 (دوسرے لفظوں میں غداری) کے مقدمات درج کرنے کا جو فیصلہ کیا ہے، کہیں وہ اس سے قبل اسی حکومت کے کیے گئے فیصلوں کی طرح ان پر ہی الٹ نہ پڑ جائیں کیونکہ شہباز شریف کی سربراہی میں قائم پی ڈی ایم (ون) حکومت اور موجودہ حکومت نے اپنے تئیں اب تک پی ٹی آئی اور عمران خان کو سیاسی طور پر ختم کرنے کے لیے جو بھی فیصلے کیے اس کے نتائج ان کی توقعات اور امیدوں کے برعکس نکلے۔ بجائے بانی پی ٹی آئی اور ان کی پارٹی کو نقصان ہونے کے، ان کی عوامی مقبولیت بڑھی جب کہ حکومت بالخصوص ن لیگ کی مقبولیت کا گراف انتہائی نچلی سطح تک جا پہنچا۔

    پی ٹی آئی رہنما کئی ہفتوں سے برملا اس خدشے کا اظہار کر رہے تھے کہ ان کی جماعت پر پابندی لگائی جاسکتی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومت کا یہ فیصلہ اچانک نہیں بلکہ کہیں نہ کہیں طے شدہ اور بی پلان کے طور پر موجود تھا۔ تاہم عطا تارڑ کی پریس کانفرنس کے بعد جماعت اسلامی، جے یو آئی ف، عوامی نیشنل پارٹی، انسانی حقوق کونسل نے کھل کر اس حکومتی فیصلے کی مذمت اور اسے خلاف آئین و قانون قرار دیا ہے جب کہ امریکا بھی اس پر تشویش کا اظہار کرچکا ہے۔ تاہم اس بحث سے قطع نظر نجانے کس نے حکومت کو یہ ’’دانشمندانہ‘‘ مشورہ دیا، لیکن یہ ایسا نادر مشورہ ہے کہ مخالف سیاسی جماعتیں تو الگ خود حکومتی جماعت ن لیگ میں اس پر اختلاف پایا جاتا ہے۔ جاوید لطیف، خرم دستگیر سمیت کئی آزادانہ رائے دینے والے پارٹی رہنما اس سے اختلاف کر رہے ہیں۔ حکومت کی بڑی اتحادی جماعت پی پی نے یہ کہہ کر دامن بچا لیا کہ ہمیں اس حوالے سے ن لیگ نے اعتماد میں نہیں لیا جب کہ دیگر اتحادی جماعتوں ایم کیو ایم، ق لیگ ودیگر نے چپ سادھ لی یا وہ گومگوں کی کیفیت میں مبتلا ہیں۔ اس صورتحال کے بعد یہ اعلان کرنے والے عطا تارڑ تو ٹی وی اسکرین سے غائب ہیں لیکن ان کی جگہ نائب وزیراعظم اسحاق ڈار، خواجہ آصف اب یہ کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ پی ٹی آئی پر پابندی کے فیصلے پر عمل اتحادیوں سے مشاورت کے بعد کریں گے۔

    پاکستان میں سیاسی جماعتوں پر پابندی نئی بات نہیں ہے بلکہ مرکزی دھارے کے علاوہ صوبائی دھارے، قوم پرست اور مذہب کے نام پر سیاست کرنے والی درجنوں جماعتوں پر پابندی عائد کی گئی اور انہیں کالعدم قرار دیا جا چکا ہے۔

    اگر تاریخ کا مطالعہ کریں تو جس طرح ابتدائی عشرے میں جمہوریت نہیں پنپ پائی تھی اور حکومتوں کا آنا جانا لگا تھا اسی طرح سیاست کو بھی پابند سلاسل کرنے کا سلسلہ اسی دور سے شروع ہوا جب 1954 میں اس وقت ’’سیاسی و جمہوری‘‘ کی حکومت نے پاکستان کمیونسٹ پارٹی پر پابندی عائد کی۔ تاہم کمیونسٹ پارٹی بعد میں مختلف ناموں سے وجود میں آتی رہی، لیکن 2013 میں ایک بار پھر الیکشن کمیشن میں اس نام سے پارٹی دوبارہ رجسٹر ہوئی۔ ایوب خان کے دور میں کسی ایک سیاسی جماعت پر اس پابندی تو عائد نہیں ہوئی تاہم اس وقت ملک میں تمام سیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد کرتے ہوئے سیاسی جماعتوں کو کام سے روک دیا گیا تھا، تاہم یہ پابندی بعد ازاں اٹھا لی گئی تھی۔

    پاکستان میں پابندی کا شکار ہونے والی دوسری جماعت نیشنل عوامی پارٹی تھی جس پر پہلے 1971 میں یحییٰ خان نے جبکہ 1975 میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے پابندی عائد کی تھی جو حرف تہجی کی الٹ پلٹ اور ان ہی پرانے سیاسی چہروں کے ساتھ عوامی نیشنل پارٹی کے روپ میں ملک کے سیاسی افق پر موجود اور کئی حکومتوں کا حصہ رہ چکی ہے۔ مشرف دور میں پیپلز پارٹی کے لیے الیکشن لڑنا مشکل ہوا تو وہ پی پی پی پارلیمنٹرین کے نام سے سامنے آئی جب کہ 2016 میں جب ایم کیو ایم کا زوال آیا تو وہ ایم کیو ایم پاکستان کے نام سے کام کرنے لگی۔ آج پابندی کا شکار بننے کو تیار پی ٹی آئی نے اپنے دور میں تحریک لبیک پاکستان کو کالعدم قرار دیا لیکن کچھ عرصے بعد یہ فیصلہ واپس لینا پڑا۔

    حکومت پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کے فیصلے کا اعلان تو کرچکی اور آئین کے آرٹیکل 17 کے تحت وفاقی حکومت کسی سیاسی جماعت پر پابندی لگانے کا اختیار رکھتی بھی ہے، مگر حتمی فیصلہ سپریم کورٹ کو کرنا ہے۔ وفاقی حکومت پاکستان کی خود مختاری یا سالمیت کے خلاف کام کرنے والی کسی سیاسی جماعت پر پابندی لگانے کا اعلان کر کے پندرہ دنوں کے اندر معاملہ سپریم کورٹ کو بھیجے گی جس پر حتمی فیصلہ عدالت کا ہوگا۔ تو جب یہ گیند سپریم کورٹ کے کورٹ میں جب جائے گی تو حکومت کو وہ تمام شواہد دینے ہوں گے جو ایک سیاسی جماعت کو کالعدم قرار دلواتے ہیں اور قانونی ماہرین کہتے ہیں کہ اس میدان میں حکومت کو سبکی ہوگی۔

    اگر ن لیگ اپنے اعلان پر عمل کرتی ہے تو اس سے ایسا سیاسی و آئینی بحران اور ہیجانی کیفیت پیدا ہوگی جس کی لپیٹ میں خود ن لیگ کی حکومت اور اس کی بچھی کھچی سیاست آ جائے گی۔ ن لیگ اتحادیوں کی بے ساکھیوں پر وفاق میں کھڑی ہے لیکن خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی دو تہائی اکثریت کے ساتھ حکومت کر رہی ہے۔ پابندی کی صورت میں جمہوری وفاقی حکومت وہاں کیا گورنر راج لگائے گی؟ اگر پی پی کھل کر اس کی مخالفت نہیں کرتی یا دیگر جماعتیں بھی اقتدار یا کسی ان دیکھے دباؤ کے تحت خاموش رہتی ہیں تو یہ درپردہ حمایت تعبیر کی جائے گی اور اس سے وہ راستے کھلیں گے کہ آنے والے وقت میں کوئی سیاسی جماعت اس سے محفوظ نہیں رہے گی اور ہر جماعت کو آج خاموش حمایت کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑ سکتی ہے۔

    ماضی میں کی جانے والی غلطیاں ایک سبق ہوتی ہیں لیکن اقتدار کے نشے میں مست صاحب اختیار لوگ ماضی سے سبق نہیں سیکھتے اور مسند اقتدار پر آنے کے بعد وہ خود کو عقل کُل اور ہر مسئلے کے حل کی کنجی سمجھتے ہوئے اپنے تئیں نئی تاریخ بنانے والے فیصلے کرتے ہیں جو حقیقت میں مستقبل کے مورخ کے لیے ایک اور تاریک باب اور آنے والوں کے لیے نیا سبق دینے کی داستان رقم کر رہے ہوتے ہیں۔

    ہماری روایت ہے کہ نظریاتی اختلاف کو غداری سے تعبیر کیا جاتا ہے لیکن اب سیاسی جماعت پر پابندی کے ساتھ سیاستدانوں پر آرٹیکل 6 لگا کر تو ایک قدم آگے بڑھا جا رہا ہے۔ پاکستانی سیاست میں وقت کا پہیہ گھومتے اور ہوا کا رخ بدلتے دیر نہیں لگتی۔ ن لیگ کا وتیرہ رہا ہے کہ اس نے ماضی میں جو گڑھے مخالفین کے لیے کھودے وہ خود ہی اس میں جا گری۔ اگر آج وہ اگر آرٹیکل 6 کا شکنجہ مخالف سیاستدانوں کے گرد کستی ہے تو آئین کی کئی خلاف ورزیاں جان بوجھ کر شہباز شریف کی پہلی وفاقی حکومت، نگراں حکومت کرچکی ہے۔ اس لیے یہ راستہ کانٹوں بھرا ہے اور دامن سب کے ہی تار تار ہوسکتے ہیں۔

    (یہ تحریر مصنّف کے ذاتی خیالات، اس کی رائے پر مبنی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں)

  • ’خاقان اور مفتاح نے کنجوسی سے کام لیا، جہاں تعریف بنتی تھی وہاں تو کردیتے‘

    ’خاقان اور مفتاح نے کنجوسی سے کام لیا، جہاں تعریف بنتی تھی وہاں تو کردیتے‘

    اسلام آباد: وفاقی وزیر برائے اطلاعات عطا تارڑ کا کہنا ہے کہ شاہد خاقان عباسی اور مفتاح اسماعیل نے کنجوسی سے کام لیا جہاں تعریف بنتی تھی وہاں تو کردیتے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے نیوز کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ شاہد خاقان عباسی کی اپنی ایئرلائن ہے انہیں پی آئی اے کی نجکاری کا ذکر تو کرنا ہی چاہیے تھا۔

    عطا تارڑ نے کہا کہ شاہدخاقان عباسی کا اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کو ترقیاتی اخراجات کی مد میں 500 ارب  روپے دینے کا دعویٰ غلط ہے۔

    انہوں نے کہا کہ پی ایس ڈی پی ہی کا حجم ہی  1500 ارب  روپے ہے، ہمارے سابق ساتھیوں نے غلط اعدادوشمار پیش کیے،  شاید انہوں نے کتاب غلط پڑھی۔

    وفاقی وزیر نے کہا کہ مفتاح اسماعیل وزیر خزانہ تھے تو مہنگائی بہت زیادہ تھی، اب کم ہوئی ہے تو تعریف بنتی تھی۔

    عطا تارڑ کا کہنا تھا کہ کابینہ اراکین اور وزیراعظم نہ مراعات  لیتے ہیں نہ تنخواہ، محکمے ختم اور ضم کیے جارہے ہیں یہ اخراجات میں کمی نہیں تو اور کیا ہے۔

    واضح رہے کہ اس سے قبل سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے مفتاح اسماعیل کے ہمراہ نیوز کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی بجٹ پر نظرثانی کا مطالبہ کیا تھا۔

    ان کا کہنا تھا کہ 500 ارب روپے ایم این اے اور ایم پی ایز کو بانٹے جائیں گے، سیاسی فوائد حاصل کرنے والے کو پیسے دیے جائیں گے، کیا ایف بی آر کو پتا نہیں کہ سگریٹ کتنے بنتے ہیں اور کیا ٹیکس لیتے ہیں؟

    شاہد خاقان کا کہنا تھا کہ پاکستان کا سب سے بڑا خرچہ سود کی ادائیگی ہے، ڈیزل کی اسمگلنگ کو کوئی نہیں چھیڑے گا، فاٹا میں فیکٹریاں فاٹا کے عوام کو فائدہ نہیں دیتیں، فاٹا پاکستان کا حصہ ہے اس پر ٹیکس لگایا جائے کیوں کہ یہ فیکٹریاں فاٹا کے عوام نہیں لگاتے۔

    سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ ڈیزل اور ایل پی جی کی اسمگلنگ روک کر ٹیکس جمع کریں تو کوئی اور ٹیکس لینے کی ضرورت نہ پڑے۔

  • لیگی رہنما اور بعض حلقوں کا عطا تارڑ کو وفاقی وزارت اطلاعات سے ہٹانے کا مطالبہ

    لیگی رہنما اور بعض حلقوں کا عطا تارڑ کو وفاقی وزارت اطلاعات سے ہٹانے کا مطالبہ

    اسلام آباد : لیگی رہنما اور بعض حلقوں نے عطا تارڑ کو وفاقی وزارت اطلاعات سے ہٹانے کا مطالبہ کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق مسلم لیگ ن کے چند رہنما اور بعض قریبی حلقے عطا تارڑ کی کارکردگی سے ناخوش ہیں۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ لیگی رہنما اور بعض حلقوں نے ان کو وفاقی وزارت اطلاعات سےہٹانے کا مطالبہ کیا ہے۔

    ذرائع نے بتایا کہ لیگی سینیٹر طلال چوہدری کو وفاقی حکومت میں اہم ذمہ داری دی جاسکتی ہے تاہم حنیف عباسی دوڑمیں شامل ہیں۔

    ذرائع کے مطابق حتمی فیصلے کے لیے معاملہ نواز شریف کو بھیجا گیا ہے، نواز شریف فیصلے سے پہلے وزیراعظم شہباز شریف سے مشورہ کریں گے۔

  • آج ثابت ہواعوام نے پی ٹی آئی کے بیانیے کو مسترد کردیا، عطا تارڑ

    آج ثابت ہواعوام نے پی ٹی آئی کے بیانیے کو مسترد کردیا، عطا تارڑ

    وفاقی وزیر اطلاعات عطا تاڑر نے کہا ہے کہ آّج ثابت ہوا کہ عوام نے پی ٹی آئی کے بیانیے کو مسترد کردیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق عطا تارڑ کا کہنا تھا کہ عوام نے بانی پی ٹی آئی کی جھوٹ اور نفرت کی سیاست کو مسترد کردیا۔ پی ٹی آئی ووٹرز آج باہر نہیں نکلے وہ مایوسی کا شکار ہوچکے ہیں۔ جیل سے بیٹھ کر ریاست مخالف بیانیہ بنایا جارہا ہے۔

    انھوں نے کہا کہ عوام نے ضمنی الیکشن میں مسلم لیگ ن پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ ضمنی الیکشن میں مسلم لیگ ن کو واضح برتری حاصل ہے۔

    عطا تارڑ نے کہا کہ حکومت نے سنجیدگی کے ساتھ معاشی مسائل کے حل کیلئے اقدامات کیے، عوام نے معیشت سے متعلق حکومتی اقدامات پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔

    عطا تارڑ نے کہا کہ ملک کے حالات کو بہتر کرکے عوام کے اعتماد پر پورا اتریں گے۔ عوام نے پاکستان تحریک انصاف کی نفرت اور جھوٹ کی سیاست کو مسترد کردیا ہے۔

  • بوجھ اشرافیہ پر ڈالا جائیگا، وزرا کا فیول بھی کم کریں گے، عطا تارڑ

    بوجھ اشرافیہ پر ڈالا جائیگا، وزرا کا فیول بھی کم کریں گے، عطا تارڑ

    لاہور: وفاقی وزیرِ اطلاعات عطاء تارڑ نے کہا ہے کہ وزیراعظم کا فوکس ہے کہ بوجھ اشرافیہ پر ڈالا جائے، وزرا کو دیئے جانیوالے فیول کو بھی کم کیا جائے گا۔

    وفاقی وزیرِ اطلاعات عطاء تارڑ نے لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ کل وزیراعظم کی زیرصدارت کابینہ اجلاس ہوا، جس میں وزیراعظم نے تمام وزارتوں کو اہداف دیئے ہیں، ہر منسٹری کو بتایا گیا ہے کہ شارٹ، میڈیم اور لانگ ٹرم کیلئے کیا گولز ہیں۔

    عطاتارڑ نے بتایا کہ وزیراعظم نے اہداف کی نگرانی کیلئےجدید بنیاد پر نظام وضع کرنے کی ہدایت کی، یہ بھی دیکھا جائے گا کس وزارت نے کس حد تک اہداف مکمل کیے ہیں، تمام وزارتوں کو دستاویز کے ذریعے تحریری ہدایات جاری کی گئی ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ فنانس منسٹری کو ہدف دیا کہ مہنگائی، بے روزگاری میں کمی لانی ہے، قرضہ جات کی ری اسٹراکچرنگ اور ایف بی آر کی ڈیجٹلائزیشن کے حوالے سے بھی اہداف دیے گئے ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ یہ پہلی بار ہواہے کہ تحریری طور پر پہلی بار وزارتوں کو ہدف دیئے گئے، جب کابینہ اجلاس ہوگا تو وزارتوں سے اہداف پر جواب طلبی بھی ہوگی، غیر قانونی اسلحہ کیخلاف کریک ڈاؤن، دہشت گردی کی روک تھام سے متعلق اور غیر ملکی مقیم کے حوالے سے ہدف وزارت داخلہ کو دیا گیاہے۔

    ’’اس کے علاوہ وزیر داخلہ کو اسمگلنگ کی روک تھام کے لئے بھی ٹاسک دیا گیاہے، جس کے بعد دیکھا جائے گا 6 ماہ میں جو ہدف پورا ہونا تھا وہ کتنے عرصے میں مکمل ہوا‘‘۔

    وفاقی وزیر نے کہا کہ وفاقی کابینہ کے بیشتر وزرا پرائیوٹ گاڑی استعمال کرتے ہیں، وزرا کو دیئے جانیوالے فیول کو بھی کم کیا جائے گا، فیول کی سب سے زیادہ کھپت موٹرسائیکل پرہورہی ہے، الیکٹرک بائیک پر جانے میں کامیاب ہوگئے تو فیول کی بھی بچت ہوگی، حکومت کوشش کررہی ہے کہ پالیسی بنائی جائے الیکٹرک بائیکس بنائی جائیں۔

    عطاتارڑ کا بتانا تھا کہ پاکستان میں جتنے قوانین پاس ہوتے ہیں اس کیلئے ای پورٹل بنایا جائے گا، قوانین کے نفاذ پر عملدرآمد کیلئے بھی اہداف مقرر کئے گئے ہیں، وفاقی کابینہ میں خود احتسابی کا نظام متعارف کرایا جائیگا، کمزور طبقے کے تحفظ کے لئے لائحہ عمل مرتب کیا جائے گا۔

    پی آئی اے کی نجکاری سے متعلق وفاقی وزیرِ اطلاعات نے کہا کہ پی آئی اے کا سالانہ خسارہ 80 ارب روپے کاہے، پی آئی اے کی نجکاری کے مثبت اثرات معیشت پر پڑیں گے، پی آئی اے کی واجبات سے متعلق مذاکرات منطقی انجام تک پہنچ گئے، یہ مذاکرات پی آئی اے کی نجکاری میں مدد دینگے۔

    عطاتارڑ نے بتایا کہ ٹیکس کلیکشن پر تیزی سے کام ہورہا ہے اس سے متعلق بھی وزیراعظم جلد قوم کو آگاہ کرینگے، وزیراعظم کی جانب سے ایف بی آر کے کرپٹ افسران کی پریڈ کرائی جائے گی، ملک میں کئی محکمے ہیں جو برائے نام چل رہے ہیں ان کو دیگر محکموں میں ضم کرینگے۔

    عطا تارڑ نے کہا کہ دنیا میں ہمارے آئی ٹی ماہرین کی مانگ ہے، ملک میں جدید ڈیجیٹل نظام لانا اہم اہداف ہیں، کوشش کریں گے کہ ایکس، فیس بک اور انسٹاگرام کے دفاتر پاکستان میں کھولیں۔

  • حکومت چیف جسٹس کے عہدے کی مدت بڑھانے کا ارادہ نہیں رکھتی، عطا تارڑ

    حکومت چیف جسٹس کے عہدے کی مدت بڑھانے کا ارادہ نہیں رکھتی، عطا تارڑ

    وفاقی وزیر اطلاعات عطا تاڑ نے واضح کیا ہے کہ حکومت چیف جسٹس کے عہدے کی مدت بڑھانے کا ارادہ نہیں رکھتی ہے۔

    عطا تارڑ کا چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے کہنا تھا کہ چیف جسٹس کےعہدے کی مدت طےنہیں کی جارہی، حکومت کا ایسا کوئی ارادہ نہیں کہ چیف جسٹس کےعہدے کی مدت بڑھائی جائے۔

    واضح رہے کہ اس سے قبل خبریں آئی تھیں کہ قاضی فائز عیسیٰ کی مدت ملازمت تین سال کرنے پر غورکیا جارہا ہے۔

    موجودہ چیف جسٹس کی مدت ملازمت تین سال کرنے کا فیصلہ ہونے کی صورت میں آئینی ترمیم لائی جانے کی خبریں بھی سامنے آئی تھیں۔ اس سے پہلے چیف جسٹس کی مدت ملازمت کا تقرر عمر کے لحاظ سے طے ہوتا ہے۔

    ذرائع کا بتانا تھا کہ آئینی ترمیم کے لیے کمیٹی نے تیاری شروع کردی ہے، سینیٹ الیکشن کے بعد مدت ملازمت پر فیصلہ ہونے کے بعد آئینی ترمیم لائی جائے گی۔