Tag: عظیم لوگ

  • ڈپٹی نذیراحمد کا بچپن

    ڈپٹی نذیراحمد کا بچپن

    بچّو! کبھی تم نے ڈپٹی نذیراحمد کا نام بھی سنا ہے؟ یہ ایک بڑے پایہ کے عالم، قانون داں اور اردو کے پہلے ناول لکھنے والے تھے۔ خود ان کی زندگی کی کہانی بڑی دل چسپ اور سبق آموز ہے۔

    نذیر احمد ایک بہت غریب آدمی کے بیٹے تھے۔ انھیں لکھنے پڑھنے کا بچپن ہی سے شوق تھا، مگر ان کے باپ بیچارے کے پاس اتنا پیسہ کہاں تھا کہ بچّے کی پڑھائی کا انتظام کرتے۔ اس زمانے میں آج کل کی طرح جگہ جگہ ایسے اسکول تو تھے نہیں کہ جہاں بغیر پیسے خرچ کیے غریبوں کے بچّے تعلیم حاصل کرسکیں۔

    ان کے شوق کو دیکھ کر باپ نے انھیں ایک مولوی صاحب کے پاس چھوڑ دیا۔ مولوی صاحب تھے تو بڑے قابل، مگر بڑے سخت بھی تھے اور غریب بھی۔ ایک مسجد میں رہتے تھے۔ وہیں بہت سارے بچّوں کو اکٹھا کر کے پڑھایا کرتے۔ وہ فیس کسی سے نہیں لیتے تھے۔ جو امیر بچّے ہوتے تھے ان کے گھروں سے مولوی صاحب اور ان کے ساتھ رہنے والے غریب بچّوں کے لیے کھانا آجایا کرتا تھا۔ اس طرح نذیر احمد وہاں رہنے لگے۔

    ان کے سپرد یہ کام تھاکہ گھروں میں جاکر کھانا لے آیا کریں۔ اس میں انھیں گھر والوں کی گھڑکیاں بھی سننی پڑتیں۔ چھوٹا بڑا کام بھی کرنا پڑتا اور کبھی کبھی کام بگڑ جانے پر مار بھی کھانا پڑتی، مگر پڑھائی کی خاطر وہ یہ سب برداشت کرلیتے۔

    ایک روز کیا ہوا کہ وہ کشمیری گیٹ کی طرف سے گزر رہے۔ وہاں دہلی کالج کا سالانہ جلسہ ہورہا تھا۔ اور پاس ہونے والوں کو ڈگریاں مل رہی تھیں۔ بڑی بھیڑ تھی۔ نذیر احمد کا بھی جلسہ دیکھنے کو دل چاہا اور وہ بھیڑ میں گھس گئے، مگر اتنے لوگ تھے کہ وہ دھکا کھا کر گر گئے اور بے ہوش ہوگئے۔

    لوگ اٹھا کر پرنسپل کے دفتر میں لے گئے اور پانی کے چھینٹے وغیرہ دے کر ہوش میں لایا گیا۔ جب ہوش آیا تو پرنسپل جو کہ انگریز تھا، اس نے پوچھا تم کون ہو اور کہاں پڑھتے ہو؟ وہ بیچارے کسی اسکول میں تو پڑھتے نہ تھے۔ اپنی مسجد کا نام بتا دیا اور جو کتابیں مولوی صاحب سے پڑھتے تھے وہ بتلا دیں۔ کتابیں وہ تھیں جو بڑے لوگ بھی مشکل سے پڑھ اور سمجھ پائیں۔

    پرنسپل سمجھا یہ ایسے ہی گپ مار رہے ہیں۔ اس نے انھیں آزمانے کو دو چار سوال کر ڈالے۔ انھوں نے ایسے جواب دیے کہ پرنسپل حیران رہ گیا۔ اس نے پوچھا تم ہمارے کالج میں پڑھو گے۔ اندھا کیا چاہے دو آنکھیں۔ نذیر احمد نے فوراً ہاں کردی مگر اپنی غریبی کا حال بھی کہہ دیا۔

    پرنسپل نے وظیفہ مقرر کر کے انھیں کالج میں داخلہ دے دیا۔ اپنے شوق کی بدولت انھوں نے اونچی تعلیم حاصل کی اور اپنے زمانے کے مشہور ادیب، ماہرِ تعلیم اور قانون داں کہلائے۔

    (ڈاکٹر افتخار بیگم صدیقی کی کتاب "بڑوں کا بچپن” سے انتخاب، 1983ء میں اس کی اشاعت کا اہتمام "ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ (بھارت)” نے کیا تھا)

  • فلم شیریں فرہاد کے موسیقار رشید عطرے کا 99 واں جنم دن

    فلم شیریں فرہاد کے موسیقار رشید عطرے کا 99 واں جنم دن

    لاہور: فلم مامتا سے اپنے کیریئر کا آغاز کرنے والے برصغیر کے مایہ ناز موسیقار رشید عطرے کا آج 99 واں یوم پیدایش منایا جا رہا ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق عبد الرشید عطرے نے بمبئی میں 6 اور لاہور میں 80 سے زائد فلمی نغموں کی موسیقی ترتیب دی اور 3 نگار ایوارڈ حاصل کیے، آج ان کا ننانوے واں جنم دن ہے۔

    15 فروری 1919 کو ربابی خاندان کے بلند پایا ہارمونیم نواز خوشی محمد امرتسری کے گھر جنم لینے والے عبد الرشید نے کیرئیر کا آغاز رشید عطرے کے نام سے 1942 میں بننے والی فلم ’’مامتا‘‘ سے کیا، رشید عطرے نے شیریں فرہاد، سرفروش، وعدہ، سات لاکھ، نیند، قیدی اور مکھڑا جیسی شاہ کار فلموں کی موسیقی ترتیب دی۔

    انھوں نے موسیقار کے نام سے اپنی ذاتی فلم بھی بنائی، رشید عطرے کے مشہور نغمات میں آئے موسم رنگیلے سہانے، مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ، گائے گی دنیا گیت میرے اور لٹ الجھی سلجھا جا رے بالم شامل ہیں۔

    برصغیر کے یہ عظیم موسیقار پندرہ فروری انیس سو انیس کو برطانوی انڈیا کے امرتسر میں پیدا ہوئے تھے جب کہ ان کا انتقال 18 دسمبر 1967 کو پاکستان کے شہر لاہور میں ہوا۔ نوجوان رشید عطرے نے موسیقی کی ابتدائی تعلیم کے اسباق اپنے والد ہی سے حاصل کیے اور پھر اپنے عہد کے عظیم گائیک استاد فیاض علی خان کے شاگرد ہو گئے، موسیقی میں ان کی ذہانت مشہور تھی۔