Tag: عظیم گلوکار

  • امیتابھ بچن نے محمد رفیع کو جہاز رکوا اتروایا دیا تھا، مگر کیوں؟

    امیتابھ بچن نے محمد رفیع کو جہاز رکوا اتروایا دیا تھا، مگر کیوں؟

    برصغیر کے عظیم گلوکار اور موسیقی کی دنیا کے بے تاج بادشاہ محمد رفیع کو بالی وڈ کے بادشاہ امیتابھ بچن گلوکار کو جہاز سے نیچے اتروایا تھا۔

    بے شمار بہترین گانوں کے خالق محمد رفیع آج اس دنیا میں تو نہیں مگر ان کی یادیں آج بھی مشہور بھارتی اداکار امیتابھ بچن کے ساتھ ہیں۔

    لیجنڈری اداکار امیتابھ بچن کی  ایک پرانی کلپ شوشل میڈیا پر وائرل ہے جس میں وہ گلوکار رفیع کو ایک  بہت بڑے فنکار مانتے ہیں۔

     دورانِ انٹرویو اداکار امیتابھ بچن ان کی یادوں میں کھو گئے اور کہنے لگے کہ رفیع جی انتہائی شریف،پیار اور خیال رکھنے والے شخص تھے۔

    انہوں نے کہا کہ رفیع صاحب کیلئے یہ محبت و خلوص صرف میرے دل میں اس لیے ہے کہ ایک مرتبہ ہم ڈارجلنگ کے علاقے سلی گولی میں کنسرٹ کرنے گئے ، اس وقت ہمارے ساتھ رفیع جی بھی تھے۔

    برصغیر پاک و ہند کے عظیم گلوکار محمد رفیع کو گزرے39 برس بیت گئے

    ’’2  دن کے اس کنسرٹ کے دوسرے دن جب ہمیں معلوم ہوا کہ دوسرا گلوکار وقت پر پہنچ نہیں سکتا تو ہماری حالت خراب ہو گئی، رفیع صاحب بھی اپنے گھر واپس جانے کیلئے نکل چکے تھے‘‘۔

    اداکار نے کہا کہ اب ایسے میں ہم ائیرپورٹ کی جانب بھاگے اور کئی سو میل سفر کرنے کے بعد جب ائیر پورٹ پہنچے تو وہاں کے عملے کے آگے ہاتھ جوڑ کر کہا کہ ہمیں صرف چند منٹ کیلئے محمد رفیع سے ملنے دو ۔

     آخر کار ائیرپورٹ کے عملے کو ہماری حالت پر ترس آ ہی گیا، یوں ہمیں جہاز کے اندر تک بھیج دیا گیا۔

    لیجینڈ اداکار نے کہا کہ رفیع صاحب سکون سے جہاز میں اپنی نشست پر بیٹھے ہوئے ہیں، ہم انکی جانب بھاگے اور سارا ماجرا  سنا دیا،  تو انہوں نے بنا کوئی سوال جواب کیے اس بات کی حامی بھر لی۔

    وہ کون تھا جس نے کئی سال تک امیتابھ بچن کا بائیکاٹ کیا؟

    امیتابھ بچن نے بتایا کہ رفیع نے کہا دوسرے دن بھی میں ہی پرفارم کروں گا تاکہ آپ کا کنسرٹ خراب نہ ہو جبکہ معاہدے کے مطابق محمد رفیع صاحب کو صرف پہلے دن ہی پرفارم کرنا تھا۔

  • غزل سرائی کا عروج اقبال بانو

    غزل سرائی کا عروج اقبال بانو

    سُر اور ساز ہی نہیں اقبال بانو اردو زبان کی لطافت، چاشنی اور الفاظ کی تاثیر کو بھی خوب سمجھتی تھیں۔ اقبال بانو کا تلفظ عمدہ اور شعر کا فہم خوب تھا۔ شاعری سے انھیں خاص لگاؤ تھا اور یہی وجہ تھی کہ ان کی گائیکی پُراثر تھی۔ ان کی آواز حاضرین اور سامعین کو جیسے اپنی گرفت میں لے لیتی اور محفل پر دیر تک اقبال بانو کا اثر رہتا۔

    آج برصغیر پاک و ہند کی اس منفرد اور بے مثال گائیک کی برسی منائی جارہی ہے۔ ان کا انتقال 21 اپریل 2009 کو ہوا تھا۔

    پاکستان میں غزل گائیکی کو بامِ عروج تک لے جانے والی اقبال بانو کی تاریخِ پیدائش 28 دسمبر 1935 ہے۔ ان کی والدہ بھی گلوکارہ تھیں۔

    اقبال بانو کی آواز میں ایک خاص کھنک تھی جو انھیں اپنے دور کے دیگر گلوکاروں سے جدا کرتی ہے۔ انھوں نے گائیکی کی باقاعدہ تربیت لی۔ وہ دلی کے باکمال اور اپنے فن کے ماہر استاد چاند خان کی شاگرد تھیں۔

    اقبال بانو نے آل انڈیا ریڈیو سے اپنے فن کا آغاز کیا تھا۔ ان کی عمر سترہ برس تھی جب انھوں نے پاکستان ہجرت کی اور ملتان میں آباد ہوئیں۔ یہ 1952 کی بات ہے۔

    اقبال بانو نے اپنی گائیکی سے پاکستان کے مشہور موسیقاروں اور بڑے حلقے کو اپنی جانب متوجہ کر لیا۔ ان کے مداحوں کی تعداد بڑھتی چلی گئی۔ معروف شاعر فیض احمد فیض کی نظم ’ہم دیکھیں گے‘ کو جب اقبال بانو نے گایا تو جیسے یہ کلام ہر خاص و عام کا ترجمان بن گیا۔ یہ نظم ہر طرف ایک نعرے کی صورت گونجنے لگی۔

    ان کی گائی ہوئی ایک غزل ’داغ دل ہم کو یاد آنے لگے‘ پاکستان، سرحد پار اور ہر اس شخص کے ساتھ گویا خوش بُو کی طرح سفر کرتی رہی جو اردو جانتا تھا اور باذوق تھا۔

    ’تُولاکھ چلے ری گوری تھم تھم کے‘ جیسے گیت کو شاید ہی ہم فراموش کرسکیں جسے اقبال بانو نے گا کر امر کر دیا۔

    فیض کا کلام ’ہم دیکھیں گے‘ گانے کے بعد اقبال بانو کو شہرت اور بے حد پیار تو ملا، مگر پاکستان ٹیلی ویژن اور ریڈیو پر ان کی آواز اور پروگراموں میں شرکت پر پابندی لگا دی گئی۔

    اقبال بانو کو صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی سے نوازا گیا تھا، لیکن ان کا سب سے بڑا اعزاز اور تمغہ مداحوں کی محبت اور ہر جگہ ملنے والی پزیرائی تھی۔ انھیں اپنے وقت کے باکمال اور نام ور موسیقاروں اور گلوکاروں نے نہ صرف سراہا بلکہ ان کے فن کی عظمت اور ان کی منفرد گائیکی کا اعتراف بھی کیا۔

  • موسیقی کی دنیا کے بے تاج بادشاہ محمد رفیع کا 90 واں یوم پیدائش

    موسیقی کی دنیا کے بے تاج بادشاہ محمد رفیع کا 90 واں یوم پیدائش

    برصغیر پاک و ہند کےعظیم گلوکار محمد رفیع کی آج نوے ویں سالگرہ ہے، رفیع کے گائے سینکڑوں گیت آج بھی بے انتہا مقبول ہیں، ان کی آواز سننے والوں پر سحر طاری کر دیتی ہے۔

    موسیقی کی دنیا کے بے تاج بادشاہ محمد رفیع گائیکی کا ایسا ہنر لے کر پیدا ہوئے تھے، جو قدرت کسی کسی کو عطا کرتی ہے، سروں کے شہنشاہ محمد رفیع چوبیس دسمبر انیس سو چوبیس کو امرتسر کے گاؤں کوٹلہ سلطان سنگھ میں پیدا ہوئے، انہوں نے لاہور ریڈیو سے پنجابی نغموں سے اپنے سفر کی ابتداء کی، موسیقی کا شوق انہیں ممبئی لے آیا اور پھر فلم انمول گھڑی کے گانے سے کیرئیر کا اغاز کیا۔

    انہوں نے گیتوں کے علاوہ غزل ،قوالی اوربھجن گاکربھی لوگوں کومحظوظ کیا، ان کو کلاسیکی ، شوخ اور چنچل ہر طرح کے گیت گانے میں مہارت تھی، محمد رفیع نے چالیس ہزار سے زائد گانے گائے۔

    محمد رفیع نے ہندی فلموں کے 4516،نان ہندی 112اور 328پرائیویٹ گانے ریکارڈ کرائے ، ان کے مشہور گانوں میں چودھویں کا چاند ہو، یہ دنیا یہ محفل میرے کام کی نہیں، میرے محبوب تجھے ، کیا ہوا تیرا وعدہ ، بہارو پھول برساؤ، کھلونا جان کرتم تو، میں نے پوچھا چاند سے،  یہ دل تم بن لگتا نہیں، آج پرانی راہوں سے ، لکھے جوخط ، احسان تیرا ہوگا ،یہ ریشمی زلفیں اوردل جو نہ کہ سکا کے علاوہ دیگر شامل ہیں۔

    دلوں پر راج کرنے والے رفیع نے نہ صرف اردو اور ہندی بلکہ میراٹھی، گجراتی، بنگالی، بھوجپوری اور تامل کے علاوہ کئی زبانوں میں بھی ہزاروں گیت گائے۔

    محمد رفیع نے اپنے کیرئیر میں بطور پلے بیک سنگر متعد ایوارڈز حاصل کیے، جن میں نیشنل فلم ایوارڈ، 6بارفلم فیئر ایوارڈ اور حکومت انڈیا کا سرکاری اعزاز پدم شری شامل ہیں جو انہیں 1967ء میں دیا گیا جبکہ انکے انتقال کے 20برس بعد 2000ء میں انہیں بہترین سنگرآف میلینیم کا اعزاز سے نوازا گیا۔

    محمدرفیع 31جولائی 1980ءکوجہان فانی سے کوچ کرگئے، ان کی گائیکی آج بھی برصغیر میں مقبول ہے،آج انہیں ہم سے بچھڑے ہوئے کئی سال ہوگئے مگر وہ اپنی آواز کے ذریعے آج بھی اپنے لاکھوں چاہنے والوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔