Tag: علاء الدین خلجی

  • ظفر خان: افسانوی شہرت کا حامل سپاہ سالار

    ظفر خان: افسانوی شہرت کا حامل سپاہ سالار

    دنیا کی تاریخ میں صرف بڑے بڑے بادشاہوں اور حکم رانوں کا تذکرہ ہی پڑھنے کو نہیں ملتا بلکہ ان کے ایسے جاں نثاروں کا بھی ذکر آتا ہے جنھوں نے دشمن کی فوج سے لڑتے ہوئے شجاعت کی داستانیں رقم کیں اور میدانِ جنگ میں اپنا پرچم بلند رکھنے کے لیے جان بھی قربان کر دی۔ ان میں ایک سپاہ سالار ظفر خان بھی شامل ہے جسے تاریخ میں افسانوی حیثیت حاصل ہوئی۔

    ظفر خان، علاء الدین خلجی جیسے زبردست جرنیل بادشاہ کے دور میں منگولوں کو شکست دینے کے لیے مشہور ہے۔ علاء الدّین خلجی کو تخت پر بیٹھے ابھی ایک سال بھی نہیں ہوا تھا کہ چغتائی حکمران دووا تیمور خان کے حکم پر ایک بہت بڑا لشکر ہندوستان میں داخل ہو گیا۔ علاء الدّین نے اپنے سالار بدر الدّین ظفر خان اور اپنے بھائی اُلغ خان کو اُن کے مقابلے کے لیے بھیجا اور انھوں نے اپنی فوج کی مدد سے جالندھر کے قریب منگولوں کو شکست دی۔ اسی ظفر خان نے بعد ازاں 1299ء میں سندھ میں بھی منگولوں کے قدم اکھاڑ دیے تھے اور یوں اسے تاریخ میں ایک اہم سپاہ سالار کے طور پر جگہ ملی۔ اسے ہندوستان اور طول و عرض میں‌ انہی فتوحات کی بدولت شہرت بھی ملی اور دوسری طرف اس کے حاسدوں کی تعداد بھی بڑھ گئی۔ ان حاسدین میں خود علاء الدّین کا بھائی اُلغ خان بھی شامل تھا۔ مؤرخین کے مطابق سندھ سے منگولوں کو نکالنے کے بعد 1299ء میں اُسی سال چغتائی خان دووا تیمور کا بیٹا قتلغ خواجہ ایک بڑا لشکر لے کر ہندوستان کی جانب بڑھا۔ وہ تختِ دلّی پر قبضہ کرنے کے ارادے سے نکلے تھے۔ راستے میں پنجاب میں ظفر خان نے قتلغ خواجہ کا راستہ روکا اور اسے للکارا لیکن مشہور ہے کہ اس نے ظفر خان سے الجھنے کے بجائے یہ پیغام دیا کہ "بادشاہ صرف بادشاہوں سے مقابلہ کرتے ہیں۔” ادھر دلّی میں منگولوں کے خلاف میدان میں اترنے کا فیصلہ کیا گیا۔ پھر دلّی کے شمال میں کیلی کے میدان میں ہندوستانی اور منگول افواج آمنے سامنے آگئیں۔ سپاہ سالار ظفر خان مرکز میں پہنچ چکا تھا اور دشمن سے لڑنے کے لیے بہت بے چین تھا، کیوں کہ وہ قتلغ خواجہ کے طعنے کا جواب دینا چاہتا تھا۔

    جنگ کے میدان میں ظفر خان نے پیش قدمی کی اور مؤرخین کے مطابق منگولوں پر اس کا حملہ اتنا زبردست تھا کہ منگولوں کا بایاں بازو مکمل طور پر پسپا ہو گیا۔ لیکن ایک حکمتِ عملی کی وجہ سے منگولوں کے ہاتھوں ہندوستانی سپاہیوں کو بھی بڑا نقصان پہنچا۔ جب منگولوں کے ایک بڑے دستے کے قدم اکھڑتے دیکھے تو ہندوستانی سپاہی اس کے تعاقب میں‌ دوڑے اور اس دوران وہ اپنے دوسرے ساتھیوں سے دور نکل گئے اور ان کی طاقت بٹ گئی۔ دوسری طرف وہ منگول دستے جو ظفر خان کے حملے سے محفوظ رہے تھے، انھوں نے اس کا فائدہ اٹھایا۔ ایک مقام پر یہ گھات لگا کر ظفر خان کے لشکر کی واپسی کے منتظر رہے اور وہ جب منگولوں کے اس دستے کو بھگانے کے بعد لوٹ رہا تھا اسے ہر طرف سے گھیر لیا۔

    تاریخ بتاتی ہے کہ اس موقع پر ظفر خان نے بے مثال شجاعت کا مظاہرہ کیا اور اس بے جگری سے لڑا کہ خود قتلغ خواجہ بھی اس کی داد دیے بغیر نہ رہ سکا۔ بعض مؤرخین لکھتے ہیں کہ اس نے ظفر خان کو پیشکش کی کہ وہ منگول فوج کا حصہ بن کر کہیں زیادہ عزت و احترام پاسکتا ہے، مگر ظفر خان ایک خوددار جرنیل تھا، اس نے بادشاہ سے وفاداری کا اعلان کیا اور لڑتے لڑتے اپنی جان دے دی۔ منگولوں نے ظفر خان کو تو ٹھکانے لگا دیا لیکن رات کی تاریکی میں ہی پسپائی اختیار کر لی اور اپنی سرحدوں پر جا کر دَم لیا۔ اس اچانک پسپائی کی اصل وجہ ظفر خان کے خلاف لڑتے ہوئے قتلغ خواجہ کا زخمی ہو جانا تھا۔ قتلغ خواجہ وطن پہنچنے سے پہلے ہی راستے میں دَم توڑ گیا۔

    اس بات میں‌ کتنی صداقت ہے یہ نہیں کہا جاسکتا، لیکن مشہور ہے کہ ظفر خان کی ہیبت عرصۂ دراز تک منگولوں کے دلوں پر طاری رہی اور جب اُن کا کوئی جانور پانی نہیں پیتا تھا تو محاورتاً کہا جاتا تھا کہ کیا ظفر خان کو دیکھ لیا ہے جو پانی نہیں پی رہا؟

    ظفر خان کا مکمل نام بدر الدّین ظفر خان پڑھنے کو ملتا ہے لیکن اس کی ابتدائی زندگی کے متعلق بہت کم معلومات دست یاب ہیں۔ پندرہویں صدی عیسوی کے ایک وقائع نگار یحیٰی بن احمد سرہندی نے اس کا اصل نام یوسف تحریر کیا ہے جو علاء الدّین کا بھانجا یعنی ان کی بہن کے فرزند تھا، جب کہ سولہویں صدی عیسوی کے مؤرخ عبد القادر بدایونی نے بدر الدّین نام لکھا ہے۔

    ظفر خان نے علاء الدّین کی افواج کی اس وقت بھی سربراہی کی تھی جب وہ سلطان نہیں بنے تھے۔ کڑہ میں سلطان جلال الدّین خلجی کے قتل کے بعد انھوں نے علاء الدّین کے لشکر کی دو ٹکڑیوں میں سے ایک کی قیادت کی اور دلّی میں خیمہ زن ہوا تھا۔ علاء الدّین خلجی نے تخت پر متمکن ہونے کے بعد ظفر خان کو وزیرِ جنگ کے منصب پر مامور کیا تھا۔ بدر الدّین جو اپنے لقب ظفر خان سے زیادہ مشہور ہے، سلطنتِ دہلی کی جانب سے کئی بڑے شہروں کے عامل بھی رہے۔

    ظفر خان کے معرکۂ کیلی میں منگولوں سے لڑائی کا آغاز کرنے سے متعلق ایک بات یہ بھی تاریخی کتب میں ملتی ہے کہ انھوں نے جنگ میں بادشاہ کے احکامات پر عمل نہیں کیا تھا اور یہی وجہ ہے کہ سلطنتِ دہلی کی اس وقت کی دستاویز میں ظفر خان کی اس جرأت مندانہ پہل اور منگولوں سے بے جگری سے مقابلہ کا ذکر نہیں ملتا۔

  • علاء الدّین خلجی: ایک بہترین منتظم جسے تاریخ محسن کُش بھی ثابت کرتی ہے

    علاء الدّین خلجی: ایک بہترین منتظم جسے تاریخ محسن کُش بھی ثابت کرتی ہے

    تاریخ‌ کے صفحات میں‌ جہاں‌ علاء الدّین خلجی کا تذکرہ ہندوستان کے ایک بہترین منتظم اور حکم راں کے طور پر کیا گیا ہے، وہیں اس بادشاہ کو مؤرخین نے محسن کُش بھی لکھا ہے۔ تاریخ میں علاء الدّین خلجی کی بہت سی کہانیاں اور واقعات موجود ہیں۔

    علاء الدّین کی تاج پوشی سلطنتِ دہلی کے دارُالحکومت میں‌ شاہی محل میں‌ ہوئی تھی۔ 1296ء میں زمامِ حکومت سنبھالنے کے بعد علاؤ الدّین خلجی 1316ء میں اپنی وفات تک ہندوستان پر راج کیا۔ اس سال 4 جنوری کو بادشاہ کا انتقال ہوا۔

    تاریخ کے اوراق الٹیے تو معلوم ہوگا کہ علاؤ الدّین خلجی نے بھی اقتدار کے حصول کے لیے سازش رچی اور اپنے چچا جو اس کے سسر بھی تھے، ان کو قتل کروانے سے بھی دریغ نہ کیا۔ ایک طرف وہ بہترین حکم ران اور دوسری جانب محسن کُش بھی مشہور ہوا۔

    مؤرخین نے خلجی خاندان کے اس دوسرے اور طاقت ور سلطان کی پیدائش کا سنہ 1266ء اور مقام دہلی لکھا ہے۔ وہ اس وقت کے بادشاہ جلال الدّین کے بڑے بھائی شہاب الدین مسعود کے گھر پیدا ہوا تھا۔ اس کا اصل نام علی گرشپ تھا جسے اس کے چچا جو اس وقت خلجی حکم ران تھے، نے بڑے ناز و نعم سے پالا۔

    علاؤ الدّین خلجی کو کم عمری ہی میں‌ تیر اندازی، نیزہ بازی، شکار اور گھڑ سواری کا شوق تھا۔ اس نے سپاہ گری میں مہارت حاصل کی اور بادشاہ کی نظر میں‌ اہمیت اختیار کرتا گیا۔ نوجوان علاؤ الدّین خلجی کو کڑہ کی بغاوت کو فرو کرنے کے لیے بھیجا گیا جس میں کام یابی کے بعد اسے وہاں کا گورنر بنا دیا گیا۔ بعد میں بادشاہ نے اپنی ایک بیٹی کی شادی بھی اپنے اس بھتیجے سے کردی۔

    مؤرخین نے علاؤ الدین خلجی کو انتظامی ذہانت سے مالا مال، باتدبیر اور حوصلہ مند حکم ران بھی لکھا ہے جس نے مضبوط اور منظّم فوج کے ساتھ کئی بغاوتوں کو کچلا اور کام یابی سے حکومت کی۔ جب منگولوں نے دہلی سلطنت کو روندنے کے لیے پیش قدمی کی تو سلطان ہی نے اپنی فوج کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا اور بدترین شکست دی۔

    ایک جنگی مہم کے بعد اس نے ایک سازش کے تحت بادشاہ کو قتل کروا دیا اور اس کی جگہ تخت سنبھالا۔ علاؤ الدّین نے کام یابی سے حکومت کی لیکن بعد میں‌ اس کے جانشین نااہل ثابت ہوئے اور خلجی خاندان کا زوال ہوا۔

    تاریخ کے ماہرین نے اسے امورِ سلطنت میں قابل اور بہترین لکھا ہے۔ کہتے ہیں اس کے دور میں‌ بازاروں‌ پر انتظامیہ کا مکمل کنٹرول تھا، معاشی اصلاحات اور ایک منظّم محصول پالیسی تھی جو ذخیرہ اندوزی اور گراں فروشی کا توڑ کرتی تھی۔ اس سے عوام کو براہِ راست فائدہ پہنچانا مقصود تھا، جب کہ ایک بڑا کارنامہ منگولوں کو کچلنا تھا۔

    سلطان کہلانے والے علاؤ الدّین خلجی کی زندگی کے آخری ایّام بیماری کے سبب بستر پر گزرے جہاں ان کا معتمدِ خاص ملک کافور تخت سے لے کر جانشینی تک کے معاملات نمٹانے میں پیش پیش رہا۔

  • منگولوں کو شکست دینے والا سلطان علاؤ الدّین خلجی محسن کُش بھی تھا!

    منگولوں کو شکست دینے والا سلطان علاؤ الدّین خلجی محسن کُش بھی تھا!

    علاؤ الدّین خلجی کی تاج پوشی کے موقع پر سلطنتِ دہلی کے دارُالحکومت میں‌ واقع شاہی محل میں‌ جشن کا ماحول تھا۔ 1296ء کو زمامِ حکومت سنبھالنے کے بعد علاؤ الدّین خلجی 1316ء میں اپنی وفات تک ہندوستان پر راج کرتا رہا۔ اس نے 4 جنوری کو دارِ فانی سے کوچ کیا۔

    تاریخ کے اوراق الٹیے تو معلوم ہوگا کہ علاؤ الدّین خلجی نے بھی اقتدار کے حصول کے لیے سازش رچی اور اپنے چچا جو اس کے سسر بھی تھے، ان کو قتل کروانے سے بھی دریغ نہ کیا۔ ایک طرف وہ بہترین حکم ران اور دوسری جانب محسن کُش بھی مشہور ہوا۔

    مؤرخین نے خلجی خاندان کے اس دوسرے اور طاقت ور سلطان کی پیدائش کا سنہ 1266ء اور مقام دہلی لکھا ہے۔ وہ اس وقت کے بادشاہ جلال الدّین کے بڑے بھائی شہاب الدین مسعود کے گھر پیدا ہوا تھا۔ اس کا اصل نام علی گرشپ تھا جسے اس کے چچا جو اس وقت خلجی حکم ران تھے، نے بڑے ناز و نعم سے پالا۔

    علاؤ الدّین خلجی کو کم عمری ہی میں‌ تیر اندازی، نیزہ بازی، شکار اور گھڑ سواری کا شوق تھا۔ اس نے سپاہ گری میں مہارت حاصل کی اور بادشاہ کی نظر میں‌ اہمیت اختیار کرتا گیا۔ نوجوان علاؤ الدّین خلجی کو کڑہ کی بغاوت کو فرو کرنے کے لیے بھیجا گیا جس میں کام یابی کے بعد اسے وہاں کا گورنر بنا دیا گیا۔ بعد میں بادشاہ نے اپنی ایک بیٹی کی شادی بھی اپنے اس بھتیجے سے کردی۔

    مؤرخین نے علاؤ الدین خلجی کو انتظامی ذہانت سے مالا مال، باتدبیر اور حوصلہ مند حکم ران بھی لکھا ہے جس نے مضبوط اور منظّم فوج کے ساتھ کئی بغاوتوں کو کچلا اور کام یابی سے حکومت کی۔ جب منگولوں نے دہلی سلطنت کو روندنے کے لیے پیش قدمی کی تو سلطان ہی نے اپنی فوج کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا اور بدترین شکست دی۔

    ایک جنگی مہم کے بعد اس نے ایک سازش کے تحت بادشاہ کو قتل کروا دیا اور اس کی جگہ تخت سنبھالا۔ علاؤ الدّین نے کام یابی سے حکومت کی لیکن بعد میں‌ اس کے جانشین نااہل ثابت ہوئے اور خلجی خاندان کا زوال ہوا۔

    تاریخ کے ماہرین نے اسے امورِ سلطنت میں قابل اور بہترین لکھا ہے۔ کہتے ہیں اس کے دور میں‌ بازاروں‌ پر انتظامیہ کا مکمل کنٹرول تھا، معاشی اصلاحات اور ایک منظّم محصول پالیسی تھی جو ذخیرہ اندوزی اور گراں فروشی کا توڑ کرتی تھی۔ اس سے عوام کو براہِ راست فائدہ پہنچانا مقصود تھا، جب کہ ایک بڑا کارنامہ منگولوں کو کچلنا تھا۔

    سلطان کہلانے والے علاؤ الدّین خلجی کی زندگی کے آخری ایّام بیماری کے سبب بستر پر گزرے جہاں ان کا معتمدِ خاص ملک کافور تخت سے لے کر جانشینی تک کے معاملات نمٹانے میں پیش پیش رہا۔

  • بھارتی فلم پدماوت میں ہندوؤں نہیں مسلمانوں کی دل آزاری کی گئی

    بھارتی فلم پدماوت میں ہندوؤں نہیں مسلمانوں کی دل آزاری کی گئی

    ممبئی : بھارت میں تاریخ کے موضوع پرریلیز ہونے والی نئی فلم پدماوت میں ہندوؤں کے بجائے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی گئی، مسلم حکمران کو ولن بنا کر پیش کیا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق بھارتی انتہا پسند جس بات پر احتجاج کر رہے تھے، وہ بات ہی غلط ثابت ہوگئی، بالی وُوڈ کی فلم پدماوت کی کہانی کا رخ کچھ اور ہی نکلا۔ فلم میں ہندوؤں نہیں بلکہ مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی گئی ہے۔

    فلم میں عظیم مسلمان حکمراں علاء الدین خلجی کو ولن کے کردار میں توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے، پدماوت میں برصغیر کی تاریخ مسخ کرتے ہوئے حقیقی حکمران کی تذلیل کی گئی۔

    ہندو انتہا پسند رانی پدمنی کے کردار کو پیش کیے جانے پر آگ بگولہ تھے لیکن فلم میں کیا تھا وہ ریلیز کے بعد معلوم ہوا، سنجے لیلا بھنسالی نے کمال مہارت سے مسخ شُدہ تاریخ کو پردے پر دکھایا۔

    برِصغیر میں ہندو مسلم تعلقات کی بنیاد رکھنے والے تاریخی حکمران سلطان علاؤالدین خلجی کو ولن بنا ڈالا۔ فلم کی ریلیز پراحتجاج تو مسلمانوں کو کرنا چاہیے تھا؟ ہندوستان میں راجپوت برادری جس کردار کے لیےسراپا احتجاج تھی ۔

    اس افسانوی اورغیر حقیقی ’پدماوتی‘ کو فلم میں ہیروئن دکھایا گیا ہے، تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حیرت انگیز بات یہ کہ فلم کی پاکستان میں بھی نمائش جاری ہے۔

    اس سے قبل پاکستان میں ’’ ورنہ ‘‘ اور ’’ مالک ‘‘ جیسی پاکستانی فلموں پر پابندی لگائی گئی تواب سینسر بورڈ کو ’پدماوت‘ کی کہانی پرکیوں نہیں اعتراض نہیں ہوا؟


    مزید پڑھیں: پدماوت کی ریلیز‘ بھارت میں ہنگامے پھوٹ پڑے


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر ضرور شیئر کریں۔